Fiqh - فقہ - اسلامی فقہ - Tazkia.org - Urdu

عائلی مسائل

  • نکاح
    • نکاح کى فضيلت اور حقوق
      • نکاح بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ دین اور دنیا دونوں کے کام اس سے درست ہوجاتے ہیں۔اور اس میں بہت فائدے اور بے انتہا مصلحتیں ہیں۔ آدمی گناہ سے بچتا ہے، دل ٹھکانے ہو جاتا ہے۔ نیت خراب اور ڈانواں ڈول نہیں ہونے پاتی اور بڑی بات یہ ہے کہ فائدہ کا فائدہ اور ثواب کا ثواب۔ کیونکہ میاں بیوی کا پاس بیٹھ کر محبّت پیار کی باتیں کرنا، ہنسی دِل لگی میں دل بہلانا نفل نمازوں سے بھی بہتر ہے۔
        حديث ميں ہے کہ دنيا صرف ايک استعمال کى چيز ہے اور دنيا کى استعمالى چيزوں ميں سے کوئى چيز نيک عورت سے افضل نہيں يعنى دنيا ميں اگر نيک عورت ميسر جائے تو بہت بڑى غنيمت اور حق تعالى کى رحمت ہے کہ خاوند کى راحت اور اس کى فلاح دارين کا سبب ہے دنيا ميں بھى ايسى عورت سے راحت ميسر ہوتى ہے اور آخرت کے کاموں ميں بھى مدد ملتى ہے حديث ميں ہے کہ فرمايا جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے نکاح ميرا طريقہ اور ميرى سنت موکدہ ہے سو جو نہ عمل کرے ميرى سنت موکدہ پر تو وہ مجھ سے نہيں ہے يعنى مجھ سے اور اس سے کوئى علاقہ نہيں۔ يہ زجر اور ڈانٹ ہے ايسے شخص کو جو سنت پر عمل نہ کرے اور جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کى خفگى کا بيان ہے ايسے شخص پر سو اس سے بہت کچھ پرہيز لازم ہے اور مسلمان کو کيسے چين پڑسکتا ہے کہ ذرا دير بھى جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ وسلم اس سے ناراض رہيں اللہ اس دن سے پہلے موت دے ديں جس روز مسلمان کو اللہ و رسول کى ناراضى گوارا ہو اور حديث ميں ہے نکاح کرو اس ليے کہ ميں فخر کروں گا قيامت ميں تمہارے ذريعہ سے اور امتوں پر يعنى جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کو يہ بات بہت پسند ہے کہ آپ کى امت کثرت سے ہو اور دوسرى امتوں سے زيادہ ہو تاکہ ان کى کثرت اعمال کى وجہ سے آپ کو بھى ثواب اور قرب الہى زيادہ ميسر ہو۔ اس ليے کہ جو کوئى آپ کى امت ميں جو کچھ بھى عمل کرتا ہے وہ آپ ہى کى تعليم کے سبب کرتا ہے۔ پس جس قدر زيادہ عمل کرنے والے ہوں گے اسى قدر آپ کو ان کى تعليم کرنے کا ثواب زيادہ ہوگا۔ يہاں سے يہ بات بھى معلوم ہو گئى کہ جہاں تک بھى اور جس طرح بھى ہو سکے قرب الہى کے وسيلے اور اعمال کثرت سے اختيار کرے اور اس ميں کوتاہى نہ کرے۔ اور حديث ميں ہے کہ قيامت کے دن کل صفيں ايک سو بيس ہوں گى جن ميں چاليس صفيں اور امتوں کے لوگوں کى ہوں گى اور اسى صفيں جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کى امت کى ہوں گى۔ سبحان اللہ کيا دلدارى منظور ہے حق تعالى کو جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کى اور جو شخص صاحب وسعت ہو يعنى روزہ رکھے اس سے شہوت ميں کمى ہو جائے گى پس بے شک روزہ اس کے ليے مثل رگ شہوت مل دينے کے ہے اگر عورت کى خواہش مرد کو بہت زيادہ نہ ہو بلکہ معتدل اور درميانى درہ کى ہو اور عورت کے ضرورى خرچ اٹھانے پر قادر ہو تو ايسے شخص کے ليے نکاح سنت موکدہ ہے۔ اور جس کو اعلى درجہ کا تقاضا ہو يعنى بہت خواہش ہو تو ايسے شخص کے ليے نکاح واجب اور ضرورى ہے اس ليے کہ انديشہ ہے خوانخواستہ زنا ميں مبتلاہو گيا تو حرام کارى کا گناہ ہوگا۔ اور اگر باوجود سخت تقاضائے شہوت کے اس قدر طاقت نہيں کہ عورت کے ضرورى حقوق ادا کر سکے گا تو يہ شخص کثرت سے روزے رکھے پھر جب اتنى گنجائش ہو جائے کہ عورت کے حقوق ادا کرنے پر قادر ہو تو نکاح کر لے ۔
        حديث ميں ہے کہ اولاد جنت کا پھول ہے۔ مطلب يہ ہے کہ جنت کے پھولوں سے جيسى مسرت اور فرحت حاصل ہوگى ويسى ہى راحت اور مسرت اولاد کو ديکھ کر حاصل رہتى ہے اور اولاد نکاح کے ذريعہ سے ميسرہو تى ہے ۔حديث ميں ہے کہ تحقيق آدمى کا درجہ جنت ميں بلند کيا جاتا ہے سو وہ کہتا ہے کہاں سے ہے ميرے ليے يہ يعنى وہ کہتا ہے کہ يہ رتبہ مجھے کيسا ملا ميں نے تو ايسا عمل کوئى نہيں کيا جس کا يہ ثواب ہو پس کہا جاتا ہے اس آدمى سے يہ بسبب مغفرت طلب کرنے تيرى اولاد کے ہے تيرے ليے يعنى تيرى اولاد نے ہم سے تيرے ليے استغفار کى اس کى بدولت يہ درجہ تجھ کو عنايت ہوا
        حديث ميں ہے تحقيق وہ بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے يعنى بغير دن پورے ہوئے پيدا ہو جاتا ہے اپنے پروردگار سے جھگڑے گا جبکہ اس کے ماں باپ جہنم ميں داخل ہوں گے يعنى حق تعالى سے مبالغہ کے ساتھ سفارش کرے گا کہ ميرے والدين کو دوزخ سے نکال دو اور حق تعالى اپنى عنايت کى وجہ سے اس کے اس جھگڑنے کو قبول فرمائيں گے اور اس کى ناز بردارى کريں گے پس کہا جائے گا اے سقط جھگڑا کرنے والے اپنے رب سے داخل کر دے اپنے والدين کو جنت ميں۔ پس کھينچ لے گا بچہ ان دونوں کو اپنے نار سے يہاں تک کہ داخل کرے گا ان دونوں کو جنت ميں معلوم ہوا کہ خرت ميں ايسى اولاد بھى کام آئے گى جو نکاح کا نتيجہ ہے۔
        حديث ميں ہے کہ بے شک جس وقت ديکھتا ہے مرد اپنى عورت کى طرف اور عورت ديکھتى ہے مرد کى طرف تو ديکھتا ہے اللہ تعالى دونوں کى طرف رحمت کى نظر سے۔ رواہ ميسرة بن على فے مشيختہ والرافعى فى تاريخہ عن ابن سعيد مرفوعہ بلفظ ان الرجل اذا نظرالى امراتہ ونظرت اليہ نظر اللہ تعالى اليہما نظرة رحمة الخ
        حديث ميں ہے کہ حق تعالى پر حق ہے يعنى حق تعالى نے اپنى رحمت سے اپنے ذمہ يہ بات مقرر فرمائى ہے مدد کرنى اس شخص کى جو نکاح کرے پاکدامنى حاصل کرنے کو اس چيز سے جسے اللہ نے حرام کيا ہے۔ يعنى زنا سے محفوظ رہنے کے ليے جو شادى کرے اور نيت اطاعت حق کى ہو تو خرچ وغيرہ ميں اللہ تعالى اس کى مدد فرمائيں گے حديث ميں ہے کہ عيالدار شخص کى دو رکعتيں نماز کى بہتر ہيں مجرد شخص کى بياسى رکعتوں سے اور دوسرى حديث ميں بجائے بياسى کے ستر کا عدد يا ہے سو مطلب يہ ہو سکتا ہے کہ ستر اس شخص کے حق ميں ہے جو ضرورى حق اہل و عيال کا ادا کرے اور بياسى اس کے حق ميں ہيں جو ضرورى حقوق سے زيادہ ان کى خدمت کرے جان اور مال اور اچھى عادت سے الحديث رواة تمامر فى فوائدہ والضيائ عن انس مرفوعابلفظ رکعتان من المتاہل خير من اثنين و تمانين رکعة من العرب وسندہ صحيح ۔
        حديث ميں ہے بے شک بہت بڑا گناہ خدا کے نزديک ضائع کرنا اور ان کى ضرورى خدمت ميں کمى کرنا ہے مرد کا ان لوگوں کو جن کا خرچ اس کے ذمہ ہے۔ رواہ الطبرانى عن ابن عمرو مرفوعا بلفظ ان اکبر الاثم عنداللہ ان يضيح الرجل من يقوت کذافى کنزالعمال
        حديث ميں ہے کہ ميں نے نہيں چھوڑا اپنے بعد کوئى فتنہ جو زيادہ ضرر دينے والا ہو مردوں کو عورتوں کے فتنہ سے يعنى مردوں کے حق ميں عورت کے فتنہ سے بڑھ کر کوئى فتنہ ضرر دينے والا نہيں کہ ان کى محبت ميں بے حس ہو جاتے ہيں اور خدا اور رسول کے حکم کى پرواہ نہيں کرتے۔ لہذا چاہيے کہ ايسى محبت عورتوں سے کرے کہ جس ميں شريعت کے خلاف کام کرنے پڑيں مثلا وہ مرد کى حيثيت سے زيادہ کھانے پہننے کو مانگيں تو ہرگز ان کى خاطر کرنے کو رشوت وغيرہ نہ لے بلکہ مال حلال سے جو اللہ تعالى دے ان کى خدمت کر دے۔ اور عورتوں کو تعليم و تاديب کرتا رہے اور بيباک و گستاخ نہ کر دے۔ عورتوں کى عقل ناقص ہوتى ہے ان کى اصلاح کا خاص طور پر انتطام لازم ہے۔
        حديث ميں ہے کہ پيغام نکاح کا کوئى تم ميں سے نہ دے اپنے بھائى کے پيغام پر يہاں تک کہ وہ بھائى نکاح کر لے ياچھوڑ دے يعنى جب ايک شخص نے کہيں پيغام نکاح کا ديا ہو اور ان لوگوں کى کچھ مرضى بھى پائى جاتى ہو کہ وہ اس شخص سے نکاح کرنے کو کچھ راضى ہيں تو دوسرے شخص کو اس جگہ ہرگز پيغام نہ دينا چاہيے۔ ہاں اگر وہ لوگ خود اس پہلے شخص کو انکار کر ديں يا وہ خود ہى وہاں سے اپنا ارادہ منقطع کر دے يا ان لوگوں کى ابھى بالکل مرضى اس شخص کے ساتھ نکاح کرنے کى نہيں پائى جاتى تو اب دوسرے کو اس لڑکى کا پيغام دينا درست ہے۔ اور يہى حکم خريدوفروخت کے بھاؤ کرنے کا ہے کہ جب ايک شخص کسى سے خريدنے يا فروخت کرنے کا بھاؤ کر را ہے تو دوسرے کو جب تک اس کا معاملہ عليحدہ نہ ہو جائے اس کے بھاؤ پر بھاؤ کرنا نہيں چاہيے جبکہ باہم خريدو فروخت کى کچھ مرضى معلوم ہوتى ہو خوب سمجھ لو اور اس حکم ميں کافر بھى داخل ہے۔ يعنى اگر کوئى کافر کسى سے لين دين کا بھاؤ کر را ہے اور دوسرے شخص کے معاملہ کرنے کى اس کے ساتھ کچھ مرضى بھى معلوم ہوتى ہے تو مسلمان کو زيبا نہيں کہ اس کافر کے بھاؤ پر اپنا بھاؤ پيش کرے۔ حديث ميں ہے کہ تحقيق عورت نکاح کى جاتى ہے اپنے دين کى وجہ سے اور اپنے مال کى وجہ سے اور اپنے حسن کى وجہ سے سو تو لازم پکڑ لے صاحب دين کو تيرے ہاتھ خاک ميں مليں يعنى کوئى مرد تو عورت ديندار پسند کرتا ہے اور کوئى مالدار اور کوئى خوبصورت تو جناب رسول کريم صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے ہيں کہ بدشکل ہے کہ طبيعت کسى طرح اسے قبول نہيں کرتى اور انديشہ ہے کہ اگر ايسى عورت سے نکاح کيا جائے تو باہم مياں بى بى ميں موافقت نہ رہے گى اور عورت کے حق ادا کرنے ميں کوتاہى ہوگى تو ايسے وقت ايسى عورت سے نکاح نہ کرے اور تيرے ہاتھ خاک مل جائيں يہ عربى محاورہ ہے اور مختلف موقعوں پر استعمال ہوتا ہے۔ يہاں پر اس سے ديندار عورت کى رغبت دلانا مراد ہے۔ حديث ميں ہے بيبيوں ميں بہتر وہ بى بى ہے جس کا مہر بہت آسان ہو يعنى مرد سہولت سے اس کو ادا کر سکے۔ آجکل زياتى مہر کا دستور بہت ہو گيا ہے لوگوں کو اس رسم سے بچنا چاہيے۔
        حديث ميں ہے کہ اپنے نطفوں کے ليے عمدہ محل وجہ پسند کرو اس ليے کہ عورتيں بچے جنتى ہيں اپنے بھائيوں اور بہنوں کى مانند يعنى نيک بخت اور شريف خاندان کى عورت سے نکاح کرو اس ليے کہ اولاد ميں ننھيال کى مشابہت ہوتى ہے اور گو باپ کا بھى اثر ہوتا ہے مگر اس حديث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا اثر زيادہ ہوتا ہے تو اگر ماں ايسے لوگوں ميں سے ہوگى جو بداخلاق ہيں اور ديندار اور شريف نہيں ہيں تو اولاد بھى ان ہى لوگوں کى مثل پيدا ہوگى ورنہ اولاد اچھى اور نيک بخت ہوگى۔ رواہ ابن عدى و ابن عساکر عن عائشہ مرفوعا بلفظ تخير والنطفکم فان النساء يلدن اشباہ اخوانہن واخواتہن حديث ميں ہے کہ سب سے بڑا حق لوگوں ميں خاوند کا ہے عورت پر اور مرد پر سب سے بڑا حق لوگوں ميں اس کى ماں کا ہے يعنى بعد اللہ و رسول کے حقوق کے عورت کے ذمہ خاوند کا بہت بڑا حق ہے حتى کہ اس کے ماں باپ سے بھى خاوند کا زيادہ حق ہے اور مرد کے ذمہ سب سے زيادہ حق بعد اللہ و رسول کے حق کے ماں کا حق ہے اس سے معلوم ہوا کہ مرد کے ذمہ ماں کا حق باپ سے بڑھ کر ہے رواہ الحاکم عن عائشة مرفوعا بلفظ اعظم الناس حقا على المراة زوجہا واعظم الناس حقا على الرجل امہ وسندہ صحيح۔
        حديث ميں ہے اگر کوئى تم ميں ارادہ کرے اپنى بيوى سے ہم بسترى کا تو کہے بسم اللہ جنب ا الشيطان وجنب الشيطان مارزقتنا تو اگر ان کى تقدير ميں کوئى بچہ مقدر ہوگا اس صحبت سے نہ ضرر دے گا اس کو شيطان کبھى۔ ايک لمبی حديث ميں ہے کہ جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے حصرت عبدالرحمن بن عوف سے فرمايا اولم ولوبشاة يعنى وليمہ کرو اگرچہ ايک ہى بکرى ہو۔ مطلب يہ ہے گو تھوڑا ہى سامان ہو مگر دينا چاہيے۔ بہتر يہ ہے کہ عورت سے ہمبسترى کرنے کے بعد وليمہ کيا جائے گو بہت علماء نے صرف نکاح کے بعد بھى جائز فرمايا ہے اور وليمہ مستحب ہے۔
    • نکاح کے مسائل

        نکاح کے لئے چند چیزیں ضروری ہیں ۔
        نکاح کے الفاظ ، کم از کم دو گواہ ، یا ایک مرد اور دو عورتیں ،مرد اور عورت دونوں کی رضامندی ۔ مہر کا بتانا نکاح کا شرط نہیں لیکن بیوی کا حق ہے اس لئے بہر حال دینا پڑے گا۔نکاح کے وقت تعین نہ ہوا تو مہر مثل دینا لازم ہے۔گواہوں کے سامنے نکاح کے الفاظ میں وضاحت ہو کہ کس کا نکاح کس کے ساتھ ہو رہا ہے۔ان سب کی تشریح مندرجہ ذیل مسائل کے ساتھ ہوگی ۔ان شاء اللہ۔

      • مسئلہ ۔نکاح فقط دو لفظوں سے بندھ جاتا ہے جیسے کسی نے گواہوں کے روبرو کہا کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح تمہارے ساتھ کیا، اس نے کہا میں نے قبول کیا۔ بس نکاح بندھ گیا اور دونوں میاں بیوی ہوگئے۔ البتہ اگر اس کی کئی لڑکیاں ہوں تو فقط اتنا کہنے سے نکاح نہ ہوگا بلکہ نام لے کر یوں کہے کہ میں نے اپنی لڑکی (مثلاً) قدسیہ کا نکاح تمہارے ساتھ کیا وہ کہے کہ میں نے قبول کیا۔
      • مسئلہ۔کسی نے کہا اپنی فلانی لڑکی کا نکاح میرے ساتھ کردو۔ اس نے کہا میں نے اس کا نکاح تمہارے ساتھ کردیا تو نکاح ہوگیا۔ چاہے پھر وہ کہے کہ میں نے قبول کیا یا نہ کہےنکاح ہوگیا۔
      • مسئلہ۔ اگر خود عورت وہاں موجود ہو اور اشارہ کرکے یوں کہہ دے کہ میں نے ا س کا نکاح تمہارے ساتھ کیا وہ کہے میں نے قبول کیا تب بھی نکاح ہوگیا نام لینے کی ضرورت نہیں اور اگر وہ خود موجود نہ ہو تو اس کا بھی نام لے اور اس کے باپ کا نام بھی اتنے زور سے لے کہ گواہ لوگ سن لیں اور اگر باپ کو بھی لوگ نہ جانتے ہوں اور فقط باپ کے نام لینے سے معلوم نہ ہوکہ کس کا نکاح کیا جاتا ہے تو دادا کا نام بھی لینا ضروری ہے۔ غرض یہ ہے کہ ایسا پتہ مذکور ہونا چاہیے کہ سننے والے سمجھ لیں کہ فلانی کا نکاح ہورہا ہے۔
      • مسئلہ۔نکاح ہونے کیلیے یہ بھی شرط ہے کہ کم سے کم دو مردوں کے یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے کیا جائے اور وہ لوگ اپنے کانوں سے نکاح ہوتے اور وہ دونوں لفظ کہتے سنیں تب نکاح ہوگا۔ اگر تنہائی میں ایک نے کہا میں نے اپنی لڑکی کا نکاح تمہارے ساتھ کیا،دوسرے نے کہا میں نے قبول کیا تو نکاح نہیں ہوا۔ اسی طرح اگر فقط ایک آدمی کے سامنے نکاح کیا تب بھی نہیں ہوا۔
      • مسئلہ۔ اگر مرد کوئی نہیں صرف عورتیں ہی عورتیں ہیں تب بھی نکاح درست نہیں ہے چاہے دس بارہ کیوں نہ ہوں۔ دو عورتوں کے ساتھ ایک مرد ضرور ہونا چاہیے۔
      • مسئلہ ۔اگر دو مرد تو ہیں لیکن مسلمان نہیں ہیں تو بھی نکاح نہیں ہوا۔ اسی طرح اگر مسلمان تو ہیں لیکن وہ دونوں یا اُن میں سے ایک ابھی جوان نہیں تب بھی نکاح درست نہیں۔ اسی طرح اگر ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے نکاح ہوا لیکن وہ عورتیں ابھی جوان نہیں ہوئیں یا ان میں سے ایک ابھی جوان نہیں ہوئی ہے تو نکاح صحیح نہیں ہے۔
      • مسئلہ۔ بہتر یہ ہے کہ بڑے مجمع میں نکاح کیا جائے جیسے نماز جمعہ کے بعد جامع مسجد میں یا اور کہیں تاکہ نکاح کی خوب شہرت ہوجائے اور چھپ چھپا کے نکاح نہ کرے لیکن اگر کوئی ایسی ضرورت پڑ گئی کہ بہت آدمی نہ جان سکے تو خیر کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ضرور موجود ہوں جو اپنے کانوں سے نکاح ہوتے سنیں۔
      • مسئلہ۔ اگر مرد بھی جوان ہے اور عورت بھی جوان ہے تو وہ دونوں اپنا نکاح خود کرسکتے ہیں۔ دو گواہوں کے سامنے ایک کہہ دے کہ میں نے اپنا نکاح تیرے ساتھ کیا دوسرا کہے میں نے قبول کیا، بس نکاح ہوگیا۔
      • مسئلہ۔ اگر کسی نے اپنا نکاح خود نہیں کیا بلکہ کسی سے کہہ دیا کہ تم میرا نکاح کسی سے کردو یا یوں کہا میرا نکاح فلانے سے کردو اور اس نے دو گواہوں کے سامنے کردیا تب بھی نکاح ہوگیا۔ اب اگر وہ انکار بھی کرے تب بھی کچھ نہیں ہوسکتا۔
    • کن لوگوں سے نکاح کرنا حرام ہے
      • مسئلہ۔ اپنى اولاد کے ساتھ اور پوتے پڑپوتے اور نواسے وغيرہ کے ساتھ بھی نکاح درست نہيں اور باپ دادا۔ پردادا۔ نانا۔ پرنانا وغيرہ سے بھى درست نہيں۔یعنی اولاد چاہے کتنی ہی نیچے ہو اور والدین اور اجداد چاہے کتنے ہی اوپر ہوں۔
      • مسئلہ۔ اپنے بھائى اور ماموں اور چچا اور بھتيجے اور بھانجے کے ساتھ نکاح درست نہيں اور شرع ميں بھائى وہ ہے جو ايک ماں باپ سے ہو۔ يا ان دونوں کا باپ ايک ہو اور ماں دو ہوں۔ يا ان دونوں کى ماں ايک ہو اور باپ دو ہوں۔ يہ سب بھائى ہيں اور جس کا باپ بھى الگ ہو اور ماں بھى الگ ہو وہ بھائى نہيں اس سے نکاح درست ہے۔
      • مسئلہ۔ داماد کے ساتھ بھى نکاح درست نہيں ہے چاہے لڑکى کى رخصتى ہو چکى ہو اور دونوں مياں بى بى ايک ساتھ رہے ہوں يا ابھى رخصتى نہ ہوئى ہو ہر طرح نکاح حرام ہے۔
      • مسئلہ۔ کسى کا باپ مر گيا اور ماں نے دوسرا نکاح کيا ليکن ماں ابھى اس کے پاس رہنے نہ پائى تھى کہ مر گئى يا اس نے طلاق دے دى تو اس سوتيلے باپ سے نکاح کرنا درست ہے۔ ہاں اگر ماں اس کے پاس رہ چکى ہو تو اس سے نکاح درست نہيں۔
      • مسئلہ۔ سوتيلى اولاد سے نکاح درست نہيں۔ يعنى ايک مرد کے کئى بيبياں ہيں تو سوکن کى اولاد سے کسى طرح نکاح درست نہيں چاہے اپنے مياں کے پاس رہ چکى ہو يا نہ رہى ہو ہر طرح نکاح حرام ہے۔
      • مسئلہ۔ خسر اور خسر کے باپ دادا کے ساتھ بھى نکاح درست نہيں۔
      • مسئلہ۔ جب تک اپنى بہن نکاح ميں رہے تب تک بہنوئى سے نکاح درست نہيں۔ البتہ اگر بہن مر گئى يا اس نے چھوڑ ديا اور عدت پورى ہو چکى تو اب بہنوئى سے نکاح درست ہے اور طلاق کى عدت پورى ہونے سے پہلے نکاح درست نہيں۔
      • مسئلہ۔ اگر دو بہنوں نے ايک ہى مرد سے نکاح کيا تو جس کا نکاح پہلے ہوا وہ صحيح ہے اور جس کا بعد ميں کيا گىا وہ نہيں ہوا۔
      • مسئلہ۔ ايک مرد کا نکاح ايک عورت سے ہوا تو اب جب تک وہ عورت اس کے نکاح ميں رہے اس کى پھوپھى اور اس کى خالہ اور بھانجى اور بھتيجى کا نکاح اس مرد سے نہيں ہو سکتا۔
      • مسئلہ۔ جن دو عورتوں ميں ايسا رشتہ ہو کہ اگر ان دونوں ميں سے کوئى عورت مرد ہوتى تو آپس ميں دونوں کا نکاح نہ ہو سکتا۔ ايسى دو عورتيں ايک ساتھ ايک مرد کے نکاح ميں نہيں رہ سکتيں۔ جب ايک مر جائے يا طلاق مل جائے اور عدت گزر جائے تب دوسرى عورت اس مرد سے نکاح کرے۔
      • مسئلہ۔ ايک عورت ہے اور اس کى سوتيلى لڑکى ہے يہ دونوں ايک ساتھ اگر کسى مرد سے نکاح کر ليں تو درست ہے۔
      • مسئلہ۔ لے پالک کا شرع ميں کچھ اعتبار نہيں۔ لڑکا بنانے سے سچ مچ وہ لڑکا نہيں ہو جاتا۔ اس ليے متبنے سے نکاح کر لينا درست ہے۔
      • مسئلہ۔ سگا ماموں نہيں ہے بلکہ کسى رشتہ سے ماموں لگتا ہے تو اس سے نکاح درست ہے اسى طرح اگر کسى دور کے رشتہ سے چچا يا بھانجا يا بھتيجا ہوتا ہو اس سے بھى نکاح درست ہے ايسے ہى اگر اپنا بھائى نہيں ہے بلکہ چچا زاد بھائى ہے يا ماموں زاد يا پھوپھى زاد۔ خالہ زاد بھائى ہے اس سے بھى نکاح درست ہے۔
      • مسئلہ۔ اسى طرح دو بہنيں اگر سگى نہ ہوں ياماموں زاد يا چچا زاد يا پھوپھى زاد يا خالہ زاد بہنيں ہوں تو وہ دونوں ايک ساتھ ہى ايک مرد سے نکاح کر سکتى ہيں ايسى بہن کے رہتے بھى بہنوئى سے نکاح درست ہے۔ يہى حال پھوپھى اور خالہ وغيرہ کا ہے کہ اگر کوئى دور کا رشتہ نکلتا ہو تو پھوپھى بھتيجى اور خالہ بھانجى کا ايک ساتھ ہى ايک مرد سے نکاح درست ہے۔
      • مسئلہ۔ جتنے رشتے نسب کے اعتبار سے حرام ہيں وہ رشتے دودھ پينے کے اعتبار سے بھى حرام ہيں۔ يعنى دودھ پلانے والى کے شوہر سے نکاح درست نہيں کيونکہ وہ اس کا باپ ہوا۔ اور دودھ شريکى بھائى سے نکاح درست نہيں جس کو اس نے دودھ پلايا ہے اس سے اور اس کى اولاد سے نکاح درست نہيں کيونکہ وہ اس کى اولاد ہوئى۔ دودھ کے حساب سے ماموں بھانجا چچا بھتيجا سب سے نکاح حرام ہے۔
      • مسئلہ۔ دودھ شريک دو بہنيں ہوں تو وہ دونوں بہنيں ايک ساتھ ايک مرد کے نکاح ميں نہيں رہ سکتيں۔ غرضيکہ جو حکم اوپر بيان ہو چکا دودھ کے رشتوں ميں بھى وہى حکم ہے
      • مسئلہ۔ مسلمان عورت کا نکاح مسلمان کے سوا کسى اور مذہب والے مرد سے درست نہيں ہے۔
      • مسئلہ۔ کسى عورت کے مياں نے طلاق دے دى يا مر گيا تو جب تک طلاق کى عدت اور مرنے کى عدت پورى نہ ہو چکے تب تک دوسرے مرد سے نکاح کرنا درست نہيں۔
      • مسئلہ۔ جس عورت کا نکاح کسى مرد سے ہو چکا ہو تو اب بے طلاق ليے اور عدت پورى کيے دوسرے سے نکاح کرنا درست نہیں۔
      • مسئلہ۔ جس مرد کے نکاح ميں چار عورتيں ہوں اب اس سے پانچوں عورت کا نکاح درست نہيں اور ان چار ميں سے اگر اس نے ايک کو طلاق دے دى تو جب تک طلاق کى عدت پورى نہ ہو چکے کوئى اور عورت اس سے نکاح نہيں کر سکتى۔
      • مسئلہ۔ سنى لڑکى کا نکاح شيعہ مرد کے ساتھ بہت سے عالموں کے فتوے ميں درست نہيں ہے۔
    • کافروں کانکاح
      • مسئلہ۔ کافر لوگ اپنے اپنے مذہب کے اعتبار سے جس طريقہ سے نکاح کرتے ہوں شريعت اس کو بھى معتبر رکھتى ہے اور اگر وہ دونوں ساتھ مسلمان ہو جائيں تو اب نکاح دہرانے کى کچھ ضرورت نہيں وہى نکاح اب بھى باقى ہے۔
      • مسئلہ۔ اگر دونوں ميں سے ايک مسلمان ہو گيا دوسرا نہيں ہوا تو نکاح جاتا رہا۔ اب مياں بى بى کى طرح رہنا سہنا درست ہيں۔
    • مہر کے مسائل
      • مسئلہ۔ نکاح ميں چاہے مہر کا کچھ ذکر کرے چاہے نہ کرے ہر حال ميں نکاح ہو جائے گا۔ ليکن مہر دينا پڑے گا بلکہ اگر کوئى يہ شرط کر لے کہ ہم مہر نہ ديں گے بے مہر کا نکاح کرتے ہيں تب بھى مہر دينا پڑے گا۔
      • مسئلہ۔ کم سے کم مہر کى مقدار تخمينا پونے تين تولے چاندى ہے اور زيادہ کى کوئى حد نہيں چاہے جتنا مقرر کرے ليکن مہر کا بہت بڑھانا اچھا نہيں۔ سو اگر کسى نے فقط ايک تولہ چاندى يا ايک ڈھیڑھ تولہ چاندی مہر مقرر کر کے نکاح کيا تب بھى پونے تين روپے بھر چاندى دينى پڑے گى شريعت ميں اس سے کم مہر نہيں ہو سکتا۔ اور اگر رخصتى سے پہلے ہى طلاق ديدے تو اس کا آدھا دے۔
      • مسئلہ۔ اگر نکاح کے وقت مہر کا بالکل ذکر ہى نہيں کيا گيا کہ کتنا ہے يا اس شرط پر نکاح کيا کہ بغير مہر کے نکاح کرتا ہوں کچھ مہر نہ دوں گا۔ پھر دونوں ميں سے کوئى مر گيا يا ويسى تنہائى و يکجائى ہو گئى جو شرع ميں معتبر ہے تب بھى مہر دلايا جائے گا اور اس صورت ميں مہر مثل دينا ہوگا۔ اور اگر اس صورت ميں ويسى تنہائى سے پہلے مرد نے طلاق ديدى تو مہر پانے کى مستحق نہيں ہے بلکہ فقط ايک جوڑا کپڑا پائے گى اور يہ جوڑا دینا مرد پر واجب ہے نہ دے گا تو گنہگار ہوگا۔
      • مسئلہ۔ جوڑے ميں فقط چار کپڑے مرد پر واجب ہيں ايک کرتہ ايک سربند يعنى اوڑھنى ايک پائجامہ يا ساڑھى جس چيز کا دستور ہے۔ ايک بڑى چادر جس ميں سر سے پير تک لپٹ سکے اس کے سوا اور کوئى کپڑا واجب نہيں۔
      • مسئلہ۔۔ مرد کى جيسى حيثيت ہو ويسے کپڑے دينا چاہيے۔ اگر معمولى غريب آدمى ہو تو سوتى کپڑے اور اگر بہت غريب آدمى نہيں ليکن بہت امير بھى نہيں تو ٹسرکے۔ اور جو بہت امير کبير ہو تو عمدہ ريشمى کپڑے دينا چاہيے ليکن بہرحال اس ميں يہ خيال رہے کہ اس جوڑے کى قيمت مہر مثل کے آدھے سے نہ بڑھے يعنى بہت قيمتى کپڑے جن کى قيمت مہر مثل کے آدھے سے بڑھ جائے مرد پر واجب نہيں۔ يوں اپنى خوشى سے اگر وہ بہت قيمتى اس سے زيادہ بڑھيا کپڑے دے دے تو اور بات ہے۔
      • مسئلہ۔نکاح کے وقت تو کچھ مہر مقرر نہيں کيا گياليکن نکاح کے بعد مياں بى بى دونوں نے اپنى خوشى سے کچھ مقرر کر ليا تو اب مہر مثل نہ دلايا جائے گا بلکہ دونوں نے اپنى خوشى سے جتنا مقرر کر ليا ہے وہى دلایا جائے گا۔ البتہ اگر ويسى تنہائى ويکجائى ہونے سے پہلے ہى طلاق مل گئى تو اس صورت ميں مہر پانے کى مستحق نہيں ہے بلکہ صرف وہى جوڑا کپڑا ملے گا جس کا بيان اوپر ہو چکا ہے۔
      • مسئلہ۔ لاکھ روپے يا دس لاکھ روپے اپنى حيثيت کے موافق مہر مقرر کيا۔ پھر شوہر نے اپنى خوشى سے کچھ مہر اور بڑھا ديا اور کہا کہ ہم لاکھ روپے کى جگہ ڈيڑھ لاکھ دے ديں گے تو جتنے روپے زيادہ دينے کو کہے اس ميں وہ بھى واجب ہو گئے نہ دے گا تو گنہگار ہوگا۔ اور اگر ويسى تنہائى و يکجائى سے پہلے طلاق ہوگئى تو جس قدر اصل مہر تھا اسى کا آدھا ديا جائے گا جتنا بعد ميں بڑھايا تھا اس کو شمار نہ کريں گے۔ اسى طرح عورت نے اپنى خوشى و رضامندى سے اگر کچھ مہر معاف کر ديا تو جتنا معاف کيا ہے اتنا معاف ہو گيا۔ اور اگر پورا معاف کر ديا تو پورا مہر معاف ہو گيا۔ اب اس کے پانے کى مستحق نہيں ہے۔
      • مسئلہ۔ اگر شوہر نے کچھ دباؤ ڈال کر دھمکا کر دق کر کے معاف کر اليا تو اس معاف کرانے سے معاف نہيں ہوا۔ اب بھى اس کے ذمہ ادا کرنا واجب ہے۔
      • مسئلہ۔ مہر ميں روپيہ پيسہ سونا چاندى کچھ مقرر نہيں کيا بلکہ کوئى گاؤں يا کوئى باغ يا کچھ زمين مقرر ہوئى تو يہ بھى درست ہے۔ جو باغ وغيرہ مقرر کيا ہے وہى دينا پڑے گا۔
      • مسئلہ۔ مہر ميں کوئى گھوڑا يا ہاتھى يا اور کوئى جانور مقرر کيا ليکن يہ مقرر نہيں کيا کہ فلانا گھوڑا دوں گا يہ بھى درست ہے۔ ايک منجہولا گھوڑا جو نہ بہت بڑھيا ہو نہ بہت گھٹيا ديناچاہيے يا اس کى قيمت ديدے۔ البتہ اگر فقط اتنا ہى کہا کہ ايک جانور دے دوں گا۔ اور يہ نہيں بتلايا کہ کون سا جانور دوں گا تو يہ مہر مقرر کرنا صحيح نہيں ہوا۔ مہر مثل دينا پڑے گا۔
      • مسئلہ۔ جہاں کہيں پہلى ہى رات کو سب مہر دے دينے کا دستور ہو وہاں اول ہى رات سارا مہر لے لينے کا عورت کو اختيار ہے۔ اگر اول رات نہ مانگا تو جب مانگے تب مرد کو دينا واجب ہے دير نہ کر سکتا۔
      • مسئلہ۔ ہندوستان ميں دستور ہے کہ مہر کا لين دين طلاق کے بعد یامر جانے کے بعد ہوتا ہے کہ جب طلاق مل جاتى ہے تب مہر کا دعوى کرتى ہے يا مرد مر گيا اور کچھ مال چھوڑ گيا تو اس مال ميں سے لے ليتى ہے۔ اور اگر عورت مر گئى تو اس کے وارث مہر کے دعويدار ہوتے ہيں۔ اور جب تک مياں بى بى ساتھ رہتے ہيں تب تک نہ کوئى ديتا ہے نہ وہ مانگتى ہے تو ايسى جگہ اس دستور کى وجہ سے طلاق ملنے سے پہلے مہر کا دعوى نہيں کر سکتى۔ البتہ پہلى رات کو جتنے مہر کے پيشگى دينے کا دستور ہے اتنا مہر پہلے دينا واجب ہے ہاں اگر کسى قوم ميں يہ دستور نہ ہو تو اس کا يہ حکم نہ ہوگا
      • مسئلہ۔ مہر کى نيت سے شوہر نے کچھ ديا تو جتنا ديا ہے اتنا مہر ادا ہو گيا۔ ديتے وقت عورت سے يہ بتلانا ضرورى نہيں ہے کہ ميں مہر دے رہا ہوں۔
      • مسئلہ۔ مرد نے کچھ ديا ليکن عورت تو کہتى ہے کہ يہ چيز تم نے مجھ کو يوں ہى دی۔ مہر ميں نہيں دى اور مرد کہتا ہے کہ يہ ميں نے مہر ميں ديا ہے تو مرد ہى کى بات کا اعتبار کيا جائے گا۔ البتہ اگر کھانے پينے کى کوئى چيز تھى تو اس کو مہر ميں نہ سمجھيں گے اور مرد کى اس بات کا اعتبار نہ کريں گے۔
    • مہر مثل
      • مسئلہ۔ خاندانى مہر يعنى مہر مثل کا مطلب يہ ہے کہ عورت کے باپ کے گھرانے ميں سے کوئى دوسرى عورت ديکھو جو اس کے مثل ہو يعنى اگر يہ کم عمر ہے تو وہ بھى نکاح کے وقت کم عمر ہو۔ اگر يہ خوبصورت ہے تو وہ بھى خوبصورت ہو۔ اس کا نکاح کنوارے پن ميں ہوا اور اس کا نکاح بھى کنوارے پن ميں ہوا ہو۔ نکاح کے وقت جتنى مالدار يہ ہے اتنى ہى وہ بھى تھى۔ جس کى يہ رہنے والى ہے اسى ديس کى وہ بھى ہے۔ اگر يہ ديندار ہوشيار سليقہ دار پڑھى لکھى ہے تو وہ بھى ايسى ہى ہو۔ غرض جس وقت اس کا نکاح ہوا ہے اس وقت ان باتوں ميں وہ بھى اسى کے مثل تھى جس کا اب نکاح ہوا۔ تو جو مہر اس کا مقرر ہوا تھا وہى اس کا مہر مثل ہے۔
      • مسئلہ۔ باپ کے گھرانے کى عورتوں سے مراد جيسے اس کى بہن پھوپھى۔ چچا زاد بہن وغيرہ يعنى اس کى دادھيالى لڑکياں۔ مہر مثل کے ديکھنے ميں ماں کا مہر نہ ديکھيں گے ہاں اگر ماں بھى باپ ہى کے گھرانے ميں سے ہو جيسے باپ نے اپنے چچا کى لڑکى سے نکاح کر ليا تھا تو اس کا مہر بھى مہر مثل کہا جائے گا۔
    • ولى کے احکام

        لڑکى اور لڑکے کے نکاح کرنے کا جس کو اختيار ہوتا ہے اس کو ولى کہتے ہيں

      • مسئلہ۔ لڑکى اور لڑکے کا ولى سب سے پہلے اس کا باپ ہے۔ اگر باپ نہ ہو تو دادا۔ وہ نہ ہو تو پردادا۔ اگر يہ لوگ کوئى نہ ہوں تو سگا بھائى۔ سگا بھائى نہ ہو تو سوتيلا بھائى يعنى باپ شريک بھائى پھر بھتيجا پھر بھتيجے کا لڑکا پھر بھتيجے کا پوتا يہ لوگ نہ ہوں تو سگا چچا پھر سوتيلا چچا يعنى باپ کا سوتيلا بھائى پھر سگے چچا کا لڑکا پھر اس کا پوتا پھر سوتيلے چچا کا لڑکا پھر اس کا پوتا۔ يہ کوئى نہ ہوں تو باپ کا چچا ولى ہے۔ پھر اس کى اولاد۔ اگر باپ کا چچا اور اس کے لڑکے پوتے پڑپوتے کوئى نہ ہوں تو دادا کا چچا پھر اس کے لڑکے پوتے پھر پڑپوتے وغيرہ۔ يہ کوئى نہ ہوں تب ماں ولى ہے پھر دادى پھر نانى پھر نانا پھر حقيقى بہن پھر سوتيلى بہن جو باپ شريک ہو۔ پھر جو بھائى بہن ماں شريک ہوں۔ پھر پھوپھى۔ پھر ماموں پھر خالہ وغيرہ۔
      • مسئلہ۔ نابالغ شخص کسى کا ولى نہيں ہو سکتا۔ اور کافر کسى مسلمان کا ولى نہيں ہو سکتا۔ اور مجنون پاگل بھى کسى کا ولى نہيں ہے۔
      • مسئلہ۔ بالغ يعنى جوان عورت خود مختار ہے چاہے نکاح کرے چاہے نہ کرے۔ اور جس کے ساتھ جى چاہے کرے کوئى شخص اس پر زبردستى نہيں کر سکتا۔ اگر وہ خود اپنا نکاح کسى سے کر لے تو نکاح ہو جائے گا۔ چاہے ولى کو خبر ہو چاہے نہ ہو۔ اور ولى چاہے خوش ہو يا ناخوش ہر طرح نکاح درست ہے۔ ہاں البتہ اگر اپنے ميل ميں نکاح نہيں کيا اپنے سے کم ذات والے سے نکاح کر ليا اور ولى خوش ہے فتوى اس پر ہے کہ نکاح درست نہ ہوگا۔ اور اگر نکاح تو اپنے ميل ہى ميں کيا ليکن جتنا مہر اس کے دادھيالى خاندان ميں باندھا جاتا ہے جس کو شرع ميں مہر مثل کہتے ہيں اس سے بہت کم پر نکاح کر ليا تو ان صورتوں ميں نکاح تو ہو گيا ليکن اس کا ولى اس نکاح کو توڑوا سکتا ہے۔ مسلمان حاکم کے پاس فرياد کرے وہ نکاح توڑ دے۔ ليکن اس فرياد کا حق اس ولى کو ہے جس کا ذکر ماں سے پہلے آيا ہے۔ يعنى باپ سے لے کر دادا کے چچا کے بيٹوں پوتوں تک۔
      • مسئلہ۔ کسى ولى نے جوان لڑکى کا نکاح بے اس سے پوچھے اور اجازت ليے کر ديا تو وہ نکاح اس کى جازت پر موقوف ہے۔ اگروہ لڑکى اجازت دے تو نکاح ہو گيا اور اگر وہ راضى نہ ہو اور اجازت نہ دے تو نہيں ہوا۔ اور اجازت کا طريقہ آگے آتا ہے۔
      • مسئلہ۔ جوان کنوارى لڑکى سے ولى نے کہا کہ ميں تمہارا نکاح فلانے کے ساتھ کيے ديتا ہوں يا کر ديا ہے اس پر وہ چپ ہو رہى يا مسکرا دى يا رونے لگى تو بس ہى اجازت ہے۔ اب وہ ولى نکاح کر دے تو صحيح ہو جائے گا۔ يا کر چکا تھا تو صحيح ہو گيا۔ يہ بات نہيں ہے کہ جب زبان سے کہے تب ہى اجازت سمجھى جائے۔ جو لوگ زبردستى کر کے زبان سے قبول کراتے ہيں برا کرتے ہيں۔
      • مسئلہ۔ ولى نے اجازت ليتے وقت شوہر کا نام نہيں ليا نہ اس کو پہلے سے معلوم ہے تو ايسے وقت چپ رہنے سے رضا مندى ثابت نہ ہوگى اور اجازت نہ سمجھيں گے بلکہ نام و نشان بتلانا ضرورى ہے جس سے لڑکى اتنا سمجھ جائے کہ يہ فلانا شخص ہے۔ اسى طرح اگر مہر نہيں بتلايا اور مہر مثل سے بہت کم پر نکاح پڑھ ديا تو بدون اجازت عورت کے نکاح نہ ہوگا۔ اس کے ليے قاعدہ کے موافق پھر اجازت لينى چاہيے۔
      • مسئلہ۔ اگر وہ لڑکى کنوارى نہيں ہے بلکہ ايک نکاح پہلے ہو چکا ہے يہ دوسرا نکاح ہے اس سے اس کے ولى نے اجازت لى اور پوچھا تو فقط چپ رہنے سے اجازت نہ ہوگى بلکہ زبان سے کہنا چاہيے اگر اس نے زبان سے نہيں کہا فقط چپ رہنے کى وجہ سے ولى نے نکاح کر ديا تو نکاح موقوف رہا بعد ميں اگر وہ زبان سے منظور کر لے تو نکاح ہو گيا۔ اور اگر منظور نہ کرے تو نہيں ہوا۔
      • مسئلہ۔ باپ کے ہوتے ہوئے چچا يا بھائى وغيرہ کسى اور ولى نے کنوارى لڑکى سے اجازت مانگى تو اب فقط چپ رہنے سے اجازت نہ ہوگى بلکہ زبان سے اجازت ديدے تب اجازت ہوگى۔ ہاں اگر باپ ہى نے ان کو اجازت لينے کے واسطے بھيجا ہو تو فقط چھپ رہنے سے اجازت ہو جائے گى۔ خلاصہ يہ ہے کہ جو ولى سب سے مقدم ہو اور شرع سے اسى کو پوچھنے کا حق ہو۔ جب وہ خود يا اس کا بھيجا ہوا آدمى اجازت لے تب چپ رہنے سے اجازت نہ ہوگى۔
      • مسئلہ۔ ولى نے بے پوچھے اور بے اجازت ليے نکاح کر ديا۔ پھر نکاح کے بعد خود ولى نے يا اس کے بھيجے ہوئے کسى آدمى نے آکر خبر کر دى کہ تمہارا نکاح فلانے کے ساتھ کر ديا گيا۔ تو اس صورت ميں بھى چھپ رہنے سے اجازت ہو جائے گى اور نکاح صحيح ہو جائے گا۔ اور اگر کسى نے خبر دى تو اگر وہ خبر دينے والا نيک معتبر آدمى ہے يا وہ شخص ہيں تب بھى چھپ رہنے سے نکاح صحيح ہو جائے گا۔ اور اگر خبر دينے والا ايک شخص اور غير معتبر ہے تو چپ رہنے سے نکاح صحيح نہ ہوگا بلکہ موقوف رہے گا۔ جب زبان سے اجازت ديدے يا کوئى اور ايسى بات پائى جائے جس سے اجازت سمجھ لى جائے تب نکاح صحيح ہوگا
      • مسئلہ۔ يہى حکم لڑکے کا ہے کہ اگر جوان ہو تو اس پر زبردستى نہيں کرسکتے اور ولى بے اس کى اجازت کے نکاح نہيں کر سکتا اگر بے پوچھے نکاح کر دے گا تو اجازت پر موقوف رہے گا۔ اگر اجازت دے دى تو ہو گيا نہيں تو نہيں ہوا۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ لڑکے کے فقط چپ رہنے سے اجازت نہيں ہوتى۔ زبان سے کہنا اور بولنا چاہيے۔
      • مسئلہ۔ اگر لڑکى يا لڑکا نابالغ ہو تو وہ خود مختار نہيں ہے۔ بغير ولى کے اس کا نکاح نہيں ہوتا۔ اگر اس نے بے ولى کے اپنا نکاح کر ليا يا کسى اور نے کر ديا تو ولى کہ اجازت پر موقوف ہے اگر ولى اجازت دے گا تو نکاح ہوگا نہيں تو نہ ہوگا۔ اور ولى کو اس کے نکاح کرنے نہ کرنے کا پورا اختيار ہے۔ جس سے چاہے کردے۔ نابالغ لڑکى اور لڑکے اس نکاح کو اس وقت رد نہيں کر سکتے چاہے وہ نابالغ لڑکى کنوارى ہو يا پہلے کوئى اور نکاح ہو چکا ہو اور رخصتى بھى ہو چکى ہو۔ دونوں کا ايک حکم ہے۔
      • مسئلہ۔ نابالغ لڑکى يا لڑکے کا نکاح اگر باپ نے يا دادا نے کيا ہے تو جوان ہونے کے بعد بھى اس نکاح کو رد نہيں کر سکتے۔ چاہے اپنے ميل ميں کيا ہو يا بے ميل کم ذات والے سے کر ديا ہو۔ اور چاہے مہر مثل پر نکاح کيا ہو يا اس سے بہت کم پر نکاح کر ديا ہو ہر طرح نکاح صحيح ہے اور جوان ہونے کے بعد بھى وہ کچھ نہيں کر سکتے۔
      • مسئلہ۔ اور اگر باپ دادا کے سوا کسى اور ولى نے نکاح کيا ہے اور جس کے ساتھ نکاح کيا ہے وہ لڑکا ذات ميں برابر درجہ کا بھى ہے اور مہر بھى مہر مثل مقرر کيا ہے۔ اس صورت ميں اس وقت تو نکاح صحيح ہو جائے گا ليکن جوان ہونے کے بعد ان کو اختيار ہے چاہے اس نکاح کو باقى رکھيں چاہے مسلمان حاکم کے پاس نالش کر کے توڑ ڈاليں اور اگر اس ولى نے لڑکى کا نکاح کم ذات والے مرد سے کر ديا۔ يا مہر مثل سے بہت کم پر نکاح کر ديا ہے يا لڑکے کا نکاح جس عورت سے کيا ہے اس کا مہر اس عورت کر مہر مثل سے بہت زيادہ مقرر کر ديا تو وہ نکاح نہيں ہوا
      • مسئلہ۔ قاعدے سے جس ولى کو نابالغہ کے نکاح کرنے کا حق ہے وہ پرديس ميں ہے اور اتنى دور ہے کہ اگر اس کا انتظار کريں اور اس سے مشورہ ليں تو يہ موقع ہاتھ سے جاتا رہے گا اور پيغام دينے والا اتنا انتظار نہ کرے گا اور پھر ايسى جگہ مشکل سے ملے گى۔ تو ايسى صورت ميں اس کے بعد والا ولى بھى نکاح کر سکتا ہے۔ اگر اس نے بے اس کے پوچھے نکاح کر ديا تو نکاح ہو گيا۔ اور اگر اتنى دور نہ ہو تو بغير اس کى رائے ليے دوسرے ولى کو نکاح نہ کرنا چاہيے۔ اگر کرے گا تو اسى ولى کى اجازت پر موقوف رہے گا جب وہ اجازت دے گا تب صحيح ہوگا۔
      • مسئلہ۔ اسى طرح اگر حقدار ولى کے ہوتے دوسرے ولى نے نابالغ کا نکاح کر ديا جيسے حق تو تھا باپ کا اور نکاح کر ديا دادا نے اور باپ سے بالکل رائے نہيں لى تو وہ نکاح باپ کى اجازت پر موقوف رہے گا يا حق تو تھا بھائى کا اور نکاح کر ديا چچا نے بھائى کى اجازت پر موقوف ہے۔
      • مسئلہ۔ کوئى عورت پاگل ہو گئى اور عقل جاتى رہى اور اس کا جو اب لڑکا بھى موجود ہے اور باپ بھى ہے۔ اس کا نکاح کرنا اگر منظور ہو تو اس کا ولى لڑا ہے کيونکہ ولى ہونے ميں لڑکا باپ سے بھى مقدم ہے۔
    • بيبيوں ميں برابرى کرنے کا حکم
      • مسئلہ۔ جس کے کئى بيبياں ہوں تو مرد پر واجب ہے کہ سب کو برابر رکھے جتنا ايک عورت کو ديا ہے دوسرى بھى اتنے کى دعويدار ہو سکتى ہے۔ چاہے دونوں کنوارى ہوں يا دونوں بياہى ہوں۔ يا ايک تو کنوارى ہو اور دوسرى بياہى بياہ لایا۔ سب کا ايک حکم ہے۔ اگر ايک کے پاس ايک رات رہا تو دوسرى کے پاس بھى ايک رات رہے۔ اس کے پاس دو يا تين راتيں رہا تو اس کے پاس بھى دو يا تين راتيں رہے۔ جتنا مال زيور کپڑے اس کو ديئے اتنے ہى کى دوسرى عورت بھى دعويدار ہے۔
      • مسئلہ۔ جس کا نيا نکاح ہوا اور جو پرانى ہو چکى دونوں کا حق برابر ہے کچھ فرق نہيں۔
      • مسئلہ۔ برابرى فقط رات کے رہنے ميں ہے دن کے رہنے ميں برابرى ہونا ضرورى نہيں۔ اگر دن ميں ايک کے پاس زيادہ رہا اور دوسرى کے پاس کم رہا تو کچھ حرج نہيں اور رات ميں برابرى واجب ہے۔ اگر ايک کے پاس مغرب کے بعد ہى آگيا اور دوسرى کے پاس عشاء کے بعد آيا تو گناہ ہوا۔ البتہ جو شخص رات کو نوکرى ميں لگا رہتا ہو اور دن کو گھر ميں رہتا ہو جيسے چوکيدار پہرہ دار اس کے ليے دن کو برابرى کا حکم ہے۔
      • مسئلہ۔ مرد چاہے بيمار ہو چاہے تندرست بہرحال رہنے ميں برابرى کرے۔
      • مسئلہ۔ ايک عورت سے زيادہ محبت ہے اور دوسرى سے کم تو اس ميں کچھ گناہ نہيں۔ چونکہ دل اپنے اختيار ميں نہيں ہوتا۔
      • مسئلہ۔ سفر ميں جاتے وقت برابرى واجب نہيں جس کو جى چاہے ساتھ لے جائے اور بہتر يہ ہے کہ نام نکال لے جس کا نام نکلے اس کو لے جائے تاکہ کوئى اپنے جى ميں ناخوش نہ ہو۔
    • روٹى کپڑے کے احکام
      • مسئلہ۔ بى بى کا روٹى کپڑا مرد کے ذمہ واجب ہے کہ بى بى کے رہنے کے ليے کوئى ایسى جگہ دے جس ميں شوہر کا کوئى رشتہ دار نہ رہتا ہو بلکہ خالى ہو تاکہ مياں بى بى بالکل بے تکلفى سے رہ سکيں البتہ اگر عورت خود سب کے ساتھ رہنا گوارا کر لے تو ساجھے کے گھر ميں بھى رکھنا درست ہے۔
      • مسئلہ۔ گھر ميں سے ايک جگہ عورت کو الگ کر دے کہ وہ اپنا مال اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس ميں رہے سہے اور اس کى قفل کنجى اپنے پاس رکھے کسى اور کو اس ميں دخل نہ ہو۔ فقط عورت اسى کے قبضے ميں رہے تو بس حق ادا ہو گيا۔ عورت کو اس سے زيادہ کا دعوى نہيں ہو سکتا اور يہ نہيں کہہ سکتى کہ پورا گھر ميرے ليے الگ کر دو۔
      • مسئلہ۔ جس طرح عورت کو اختيار ہے کہ اپنے ليے کوئى الگ گھر مانگے جس ميں مرد کا کوئى رشتہ دار نہ رہنے پائے فقط عورت ہى کے قبضے ميں رہے۔ اسى طرح مرد کو اختيار ہے کہ جس گھر ميں عورت رہتى ہے وہاں اس کے رشتہ داروں کو نہ آنے دے نہ ماں کو نہ باپ کو نہ بھائى کو نہ کسى اور رشتہ دار کو۔
      • مسئلہ۔ عورت اپنے ماں باپ کو ديکھنے کے ليے ہفتہ ميں ايک دفعہ جا سکتى ہے۔ اور ماں باپ کے سوا اور رشتہ داروں کے ليے سال بھر ميں ايک دفعہ اس سے زيادہ کا اختيار نہيں۔ اسى طرح اس کے ماں باپ بھى ہفتہ ميں فقط ايک مرتبہ يہاں آ سکتے ہيں۔ مرد کو اختيار ہے کہ اس سے زيادہ جلدى جلدى نہ آنے دے۔ اور ماں باپ کے سوا اور رشتہ دار سال بھر ميں فقط ايک دفعہ آ سکتے ہيں۔ اس سے زيادہ آ نے کا اختيار نہيں۔ ليکن مرد کو اختيار ہے کہ زيادہ دير نہ ٹھيرنے دے نہ ماں باپ کو نہ کسى اور کو اور جاننا چاہيے کہ رشتہ داروں سے مطلب وہ رشتہ دار ہيں جن سے نکاح ہميشہ ہميشہ کے ليے حرام ہے۔ اور جو ايسے نہ ہوں وہ شرع ميں غير کے برابر ہيں۔
      • مسئلہ۔ اگر باپ بہت بيمار ہے اور اس کا کوئى خبر لينے والا نہيں تو ضرورت کے موافق وہاں روز جايا کرے اگر باپ بے دين کافر ہو تب بھى يہى حکم ہے بلکہ اگر شوہر منع بھى کرے تب بھى جانا چاہيے۔ ليکن شوہر کے منع کرنے پر جانے سے روٹى کپڑے کا حق نہ رہے گا۔
      • مسئلہ۔ غير لوگوں کے گھر نہ جانا چاہيے۔ اگر بياہ شادى وغيرہ کى کوئى محفل ہو اور شوہر اجازت بھى دے تو بھى جانا درست نہيں۔ شوہر اجازت دے گا تو وہ بھى گنہگار ہوگا۔ بلکہ محفل کے زمانہ ميں اپنے محرم رشتہ دار کے يہاں جانا بھى درست نہيں۔
      • مسئلہ۔ جس عورت کو طلاق مل گئى وہ بھى عدت تک روٹى کپڑا اور رہنے کا گھر پانے کى مستحق ہے البتہ جس کا خاوند مر گيا اس کو روٹى کپڑا اور گھر ملنے کا حق نہيں۔ ہاں اس کو ميراث سب چيزوں ميں ملے گى۔
  • دودھ پينے اور پلانے کے احکام
    • مسئلہ۔ جب بچہ پيدا ہو تو ماں پر دودھ پلانا واجب ہے۔ البتہ اگر باپ مال دار ہو اور کوئى انا تلاش کر سکے تو دودھ نہ پلانے ميں کچھ گناہ بھى نہيں۔
    • مسئلہ۔ کسى اور کے لڑکے کو بغير مياں کى اجازت ليے دودھ پلانا درست نہيں ہاں البتہ اگر کوئى بچہ بھوک کے مارے تڑپتا ہو اور اس کے ضائع ہو جانے کاڈر ہو تو ايسے وقت بے اجازت بھى دودھ پلا دے۔
    • مسئلہ۔ زيادہ سے زيادہ دودھ پلانے کى مدت دو برس ہيں۔ دو سال کے بعد دودھ پلانا حرام ہے بالکل درست نہيں۔
    • مسئلہ۔ اگر بچہ کچھ کھانے پينے لگا اور اس وجہ سے دو برس سے پہلے ہى دودھ چھڑا ديا تب بھى کچھ حرج نہيں۔
    • مسئلہ۔ جب بچہ نے کسى اور عورت کا دودھ پيا تو وہ عورت اس کى ماں بن گئى۔ اور اس انا کا شوہر جس کے بچہ کا يہ دودھ ہے اس بچہ کا باپ ہو گيا اور اس کى اولاد اس کے دودھ شريکى بھائى بہن ہو گئے اور نکاح حرام ہو گيا اور جو رشتے نسب کے اعتبار سے حرام ہيں وہ رشتے دودھ کے اعتبار سے بھى حرام ہو جاتے ہيں ليکن بہت سے عالموں کے فتوے ميں يہ حکم جب ہى ہے کہ بچہ نے دو برس کے اندر ہى اندر دودھ پيا ہو۔ اگر بچہ دو برس کا ہو چکا اس کے بعد کسى عورت کا دودھ پيا تو اس پينے کا کچھ اعتبار نہيں نہ وہ پلانے والى ماں بنى اور نہ اس کى اولاد اس بچہ کے بھائى بہن ہوئے۔ اس ليے اگر آپس ميں نکاح کر ديں تو درست ہے ليکن امام اعظم جو بہت بڑے امام ہيں وہ فرماتے ہيں کہ اگر ڈھائى برس کے اندر اندر بھى دودھ پيا ہو تب بھى نکاح درست نہيں۔ البتہ اگر ڈھائى برس کے بعد دودھ پيا ہو تو اس کا بالکل اعتبار نہيں بے کھٹکے سب کے نزديک نکاح درست ہے۔
    • مسئلہ۔ جب بچہ کے حلق ميں دودھ چلا گيا تو سب رشتے جو ہم نے اوپر لکھے ہيں حرام ہو گئے چاہے تھوڑا دودھ گيا ہو يا بہت اس کا کچھ اعتبار نہيں۔
    • مسئلہ۔ اگر بچہ نے چھاتى سے دودھ نہيں پیا بلکہ اس نے اپنا دودھ نکال کر اس کے حلق ميں ڈال ديا تو اس سے بھى وہ سب رشتے حرام ہو گئے۔ اسى طرح اگر بچہ کى ناک ميں دودھ ڈال ديا تب بھى سب رشتے حرام ہو گئے اور اگر کان ميں ڈالا تو اس کا کچھ اعتبار نہيں۔
    • مسئلہ۔ اگر عورت کا دودھ پانى ميں يا کسى دوا ميں ملا کر بچہ کو پلايا تو ديکھو کہ دودھ زيادہ ہے يا پانى يا دونوں برابر۔ اگر دودھ زيادہ ہو يا دونوں برابر ہوں تو جس عورت کا دودھ ہے وہ ماں ہو گئى اور سب رشتے حرام ہو گئے۔ اور اگر پانى يا دوا زيادہ ہے تو اس کا کچھ اعتبار نہيں وہ عورت ماں نہيں بنى۔
    • مسئلہ۔ عورت کا دودھ بکرى يا گائے کے دودھ ميں مل گىا اور بچہ نے کھا ليا تو ديکھو زيادہ کونسا ہے اگر عورت کا دودھ زيادہ يا دونوں برابر ہوں تو سب رشتے حرام ہو گئے اور جس عورت کا دودھ ہے يہ بچہ اس کى اولاد بن گيا۔ اور اگر بکرى يا گائے کا دودھ زيادہ ہے تو اس کا کچھ اعتبار نہيں ايسا سمجھيں گے کہ گويا اس نے پيا ہى نہيں۔
    • مسئلہ۔ اگر کسى کنوارى لڑکى کے دودھ اتر آيا۔ اس کو کسى بچہ نے پى ليا تو اس سے بھى سب رشتے حرام ہو گئے۔
    • مسئلہ۔ مردہ عورت کا دودھ دوہ کر کسى بچہ کو پلا ديا۔ تو اس سے بھى سب رشتے حرام ہو گئے۔
    • مسئلہ۔ دو لڑکوں نے ايک بکرى يا ايک گائے کا دودھ پيا تو اس سے کچھ نہيں ہوتا وہ بھائى بہن نہيں ہوتے۔
    • مسئلہ۔ جوان مرد نے اپنى بى بى کا دودھ پيا تو وہ حرام نہيں ہوئى۔ البتہ بہت گناہ ہوا۔ کيونکہ دو برس کے بعد دودھ پينا بالکل حرام ہے۔
    • مسئلہ۔ ايک لڑکا ايک لڑکى ہے دونوں نے ايک ہى عورت کا دودھ پيا ہے تو ان ميں نکاح نہيں ہو سکتا خواہ ايک ہى زمانہ ميں پيا ہو۔ يا ايک نے پہلے دوسرے نے کئى برس کے بعد دونوں کا ايک حکم ہے۔
    • مسئلہ۔ ايک لڑکى نے باقر کى بيوى کا دودھ پيا تو اس لڑکى کا نکاح نہ باقر سے ہو سکتا ہے نہ اس کے باپ دادا کے ساتھ نہ باقر کى اولاد کے ساتھ بلکہ باقر کے جو اولاد دوسرى بيوى سے ہے اس سے بھى نکاح درست نہيں۔
    • مسئلہ۔ عباس نے خديجہ کا دودھ پيا اور خديجہ کے شوہر قادر کے ايک دوسرى بى بى زينب تھي جس کو طلاق مل چکى ہے تو اب زينب بھى عباس سے نکاح نہيں کر سکتى۔ کيونکہ عباس زينب کے مياں کى اولاد ہے اور مياں کى اولاد سے نکاح درست نہيں۔ اسى طرح اگر عباس اپنى عورت کو چھوڑ دے تو وہ عورت قادر کے ساتھ نکاح نہيں کر سکتى کيونکہ وہ اس کا خسر ہوا۔ اور قادر کى بہن اور عباس کا نکاح نہيں ہوسکتا کيونکہ يہ دونوں پھوپھى بھتيجے ہوئے۔ چاہے وہ قادر کى سگى بہن ہو يادودھ شريک بہن ہو۔ دونوں کا ايک حکم ہے البتہ عباس کى بہن سے قادر نکاح کر سکتا ہے۔
    • مسئلہ۔ عباس کى ايک بہن ساجدہ ہے۔ ساجدہ نے ايک عورت کا دودھ پيا۔ ليکن عباس نے نہيں پيا تو اس دودھ پلانے والى عورت کا نکاح عباس سے ہو سکتا ہے۔
    • مسئلہ۔ عباس کے لڑکے نے زاہدہ کا دودھ پيا تو زاہدہ کا نکاح عباس کے ساتھ ہو سکتا ہے۔
    • مسئلہ۔ قادر اور ذاکر دو بھائى ہيں۔ اور ذاکر کے ايک دودھ شريکى بہن ہے تو قادر کے ساتھ اس کا نکاح ہو سکتا ہے البتہ ذاکر کے ساتھ نہيں ہو سکتا۔ خوب اچھى طرح سمجھ لو۔ چونکہ اس قسم کے مسئلے مشکل ہيں کہ کم سمجھ ميں آتے ہيں اس ليے ہم زيادہ نہيں لکھتے جب کبھى ضرورت پڑے تو کسى سمجھدار بڑے عالم سے سمجھ لينا چاہيے۔
    • مسئلہ۔ کسى مرد کا کسى عورت سے رشتہ ہونے لگا۔ پھر ايک عورت آئى اور اس نے کہا کہ ميں نے تو ان دونوں کو دودھ پلايا ہے اور سوائے اس عورت کے کوئى اور اس دودھ پينے کو نہيں بيان کرتا تو فقط اس عورت کے کہنے سے دودھ کا رشتہ ثابت نہ ہوگا۔ ان دونوں کا نکاح درست ہے بلکہ جب دو معتبر اور ديندار مرد يا ايک ديندار مرد اور دو ديندار عورتيں دودھ پينے کى گواہى ديں تب اس رشتہ کا ثبوت ہوگا اب البتہ نکاح حرام ہو گيا۔ بے ايسى گواہى کے ثبوت نہ ہوگا ليکن اگر فقط ايک مرد يا ايک عورت کے کہنے سے يا دو تين عورتوں کے کہنے سے دل گواہى دينے لگے کہ يہ سچ کہتى ہوں گى ضرور ايسا ہوا ہوگا تو ايسے وقت نکاح نہ کرنا چاہيے کہ خواہ مخواہ شک ميں پڑنے سے کيا فائدہ۔ اور اگر کسى نے کر ليا تب بھى خير ہو گيا۔
    • مسئلہ۔ عورت کا دودھ کسى دوا ميں ڈالنا جائز نہيں۔ اور اگر ڈال ديا تو اب اس کا کھانا اور لگانا ناجائز اور حرام ہے۔ اسى طرح دوا کے ليے آنکھ ميں يا کان ميں دودھ ڈالنا بھى جائز نہيں۔ خلاصہ يہ کہ آدمى کے دودھ سے کسى طرح کا نفع اٹھانا اور اس کو اپنے کام ميں لانا درست نہيں۔
  • طلاق
    • طلاق کی مذمت مگر جواز
      • حديث ميں ہے البغض الحلال الى اللہ الطلاق راہ الحاکم وابوداودو ابن ماجہ عن ابن عمر مرفوعا وسندہ صحيح يعنى زياہ مبغوض اور زيادہ برى چيز حلال چيزوں ميں خدا کے نزديک طلاق ہے۔ مطلب يہ ہے کہ طلاق حاجت کے وقت جائز رکھى گئى ہے اور حلال ہے مگر بلا حاجت بہت برى بات ہے اس کے ليے کہ نکاح تو باہم الفت و محبت اور زوج وزوجہ کى راحت کے واسطے ہوتا ہے اور طلاق سے يہ سب باتيں جاتى رہتى ہيں اور حق تعالى کى نعمت کى ناشکرى ہوتى ہے ايک دوسرے کو کلفت ہوتى ہے باہم عداوت ہوتى ہے نيز اس کى وجہ سے بيوى کے اور اہل قرابت سے بھى عداوت پڑتى ہے۔ جہاں تک ہو سکے ہرگز ايسا قصد نہ کرنا چاہيے۔ مياں بيوى کو معاملات ميں باہم ايک دوسرے کى برداشت چاہيے اور خوب محبت سے رہنا چاہيے۔ جب کوئى صورت نباہ کى نہ ہو تو مضائقہ نہيں خوب سمجھ لو۔
        حديث 19۔ ميں ہے کہ نکاح کرو اور طلاق نہ دو يعنى بلا وجہ اس ليے کہ بے شک اللہ تعالى نہيں دوست رکھتا ہے بہت مزہ چکھنے والے مردوں اور بہت مزہ چکھنے والى عورتوں کو يعنى اللہ پاک کو يہ بات پسند نہيں کہ طلاق ہو بلا ضرورت اور مياں دوسرا نکاح کرے اور بى بى دوسرا نکاح کرے ہاں اگر کوئى ضرورت ہو تو کوئى مضائقہ نہيں
        حديث20۔ ميں ہے کہ نہ طلاق دى جائيں عورتيں مگر بدچلنى سے۔ اس ليے کہ اللہ تعالى نہيں دوست رکھتا بہت مزہ چکھنے والے مردوں اور بہت مزہ چکھنے والى عورتوں کو اس سے معلوم ہوا کہ اگر اس کى پارسائى اور پاکدامنى کے باب ميں کوئى خلل ہو جائے تو اس کى وجہ سے طلاق دے دينا درست ہے۔ اسى طرح اور بھى کوئى سبب ہو تو کچھ حرج نہيں
        حديث21۔ ميں ہے کہ نکاح کرو اور طلاق نہ دو اس ليے کہ طلاق دينے سے عرش ہلتا ہے۔
        حديث22۔ ميں ہے کہ شيطان اپنے تخت کو پانى پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو بھيجتا ہے لوگوں کے بہکانے کو پس زيادہ قريب ان لشکروں کے لوگوں ميں از روئے رتبہ کے وہ شخص ہوتا ہے جو ان ميں سب سے بڑا ہو از روئے فتنہ کے يعنى بڑا محبوب شيطان کو وہ شخص ہوتا ہے جو بہت بڑا فتنہ برپا کرتا ہے اس کے پاس ايک ان ميں کا پھر کہتا ہے ميں نے يہ کيا اور يہ کيا يعنى يہ فتنہ برپا کيا اور يہ فتنہ برپا کيا سو کہتا ہے شيطان تو نے کچھ نہيں کيا يعنى تو نے کوئى برا کام نہيں کيا اور کہتا ہے ايک ان ميں کا پس کہتا ہے نہيں چھوڑا ميں نے فلاں شخص کو يہاں تک کہ جدائى کر دى ميں نے اس شوہر کے اور اس کى بيوى کے درميان سو قريب کر ليتا ہے اس شخص کو اپنى ذات سے يعنى اپنے گلے لگا ليتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے بہت بڑا کام کيا يعنى شيطان کى بہت بڑى خوشى يہ ہے کہ مياں بى بى ميں جدائى کر دى جائے۔ لہذا جہاں تک ہو سکے مسلمان شيطان کو خوش نہ کرے
        حديث 23۔ ميں ہے کہ جو عورت خود طلاق طلب کرے بغير سخت مجبورى کے تو جنت کى خوشبو اس پر حرام ہے۔ يعنى سخت گناہ ہوگا۔ گو بشرط اسلام پر خاتمہ ہونے کے اپنے اعمال کا بدلہ بھگت کر آخر میں جنت ميں داخل ہو جائے گى
        حديث 24۔ ميں ہے کہ منتزعات اور مختلعات وہ منافعات ہيں (منتزعات وہ عورتيں جو اپنى ذات کو مرد کے قبضہ سے نکاليں شرارت کر کے يعنى ايسى حرکتيں کريں جس سے مرد ناراض ہو کر طلاق ديدے۔ اور مختلعات وہ عورتيں جو خاوندوں سے بلا مجبورى خلع طلب کريں۔ اور منافقات سے مراد يہ ہے کہ يہ خصلت منافقوں کى سى ہے کہ ظاہر کچھ باطن کچھ ظاہر تو نکاح ہميشہ کے ليے ہوتا ہے اور يہ اس ميں جدائى طلب کرتى ہيں اس ليے گنہگار ہوں گى گو کافر نہ ہوں گى﴾
    • طلاق دینے کے مسائل
      • مسئلہ۔طلاق دينے کا اختيار فقط مرد کو ہے۔ جب مرد نے طلاق دے دى تو پڑ گئى۔ عورت کا اس ميں کچھ بس نہيں چاہے منظور کرے چاہے نہ کرے ہر طرح طلاق ہو گئى۔ اور عورت اپنے مرد کو طلاق نہيں دے سکتى۔
      • مسئلہ۔ مرد کو فقط تين طلاق دينے کا اختيار ہے اس سے زيادہ کا اختيار نہيں۔ تو اگر چار پانچ طلاق دے ديں تب بھى تين ہى طلاقيں ہوئيں۔
      • مسئلہ۔ جب مرد نے زبان سے کہہ ديا کہ ميں نے اپنى بى بى کو طلاق دے دى اور اتنے زور سے کہا کہ خود ان الفاظ کو سن ليا۔ بس اتنا کہتے ہى طلاق پڑ گئى چاہے کسى کے سامنے کہے چاہے تنہائى ميں اور چاہے بى بى سنے يا نہ سنے۔ ہر حال ميں طلاق ہو گئى۔
      • مسئلہ۔ طلاق تين قسم کى ہے۔
        ايک تو ايسى طلاق جس ميں نکاح بالکل ٹوٹ جاتا ہے اور بے نکاح کيے اس مرد کے پاس رہنا جائز نہيں۔ اگر پھر اسى کے پاس رہنا چاہے اور مرد بھى اس کو رکھنے پر راضى ہو تو پھر سے نکاح کرنا پڑے گا
        ايسى طلاق کو بائن طلاق کہتے ہيں۔
        دوسرى وہ جس ميں نکاح ايسا ٹوٹا کہ دوبارہ نکاح بھى کرنا چاہيں تو بعد عدت کسى دوسرے سے اول نکاح کرنا پڑے گا اور جب وہاں طلاق ہو جائے تب بعد عدت اس سے نکاح ہو سکے گا۔
        ايسى طلاق کو مغلظہ کہتے ہيں۔
        تيسرى وہ جس ميں نکاح ابھى نہيں ٹوٹا صاف لفظوں ميں ايک يا دو طلاق دينے کے بعد اگر مرد پشيمان ہوا تو پھر سے نکاح کرنا ضرورى نہيں۔ بے نکاح کيے بھى اس کو رکھ سکتا ہے۔ پھر مياں بى بى کى طرح رہنے لگيں تو درست ہے البتہ اگر مرد طلاق دے کر اسى پر قائم رہا اور اس سے نہيں پھرا تو جب طلاق کى مدت گزر جائے گى تب نکاح ٹوٹ جائے گا اور عورت جدا ہو جائے گى۔ اور جب تک عدت نہ گزرے تب تک رکھنے نہ رکھنے دونوں باتوں کا اختيار ہے۔
        ايسى طلاق کو رجعى طلاق کہتے ہيں۔ البتہ اگر تين طلاقيں دے ديں تو اب اختيار نہيں۔
      • مسئلہ۔ طلاق دينے کى دو قسميں ہيں۔ ايک تو يہ کہ صاف صاف لفظوں ميں کہہ ديا کہ ميں نے تجھ کو طلاق دے دى يا يوں کہا کہ ميں نے اپنى بى بى کو طلاق دے دى۔ غرضيکہ ايسى صاف بات کہہ دى جس ميں طلاق دينے کے سوا کوئى اور معنى نہيں نکل سکتے ايسى طلاق کو صريح کہتے ہيں۔ دوسرى قسم يہ کہ صاف صاف لفظ نہيں کہے بلکہ ايسے گول گول لفظ کہے جس ميں طلاق کا مطلب بھى بن سکتا ہے اور طلاق کے سوا اور دوسرے معنے بھى نکل سکتے ہيں۔ جيسے کوئى کہے ميں نے تجھ کو دور کر ديا۔ تو اس کا ايک مطلب تو يہ ہے کہ ميں نے تجھ کو طلاق دے دى۔ دوسرا مطلب يہ ہو سکتا ہے کہ طلاق تو نہيں دى ليکن اب تجھ کو اپنے پاس نہ رکھوں گا۔ ہميشہ اپنے ميکے ميں پڑى رہ۔ تيرى خبر نہ لوں گا۔ يا يوں کہے مجھ سے تجھ سے کچھ واسطہ نہيں۔ مجھ سے تجھ سے کچھ مطلب نہيں تو مجھ سے جدا ہو گئى۔ ميں نے تجھ کو الگ کر ديا۔ جدا کر ديا ميرے گھر سے چلى جا۔ نکل جا۔ ہٹ دور ہو۔ اپنے ماں باپ کے سرجا کے بيٹھ۔ اپنے گھر جا۔ ميرا تيرا نباہ نہ ہوگا۔ اسى طرح کے اور الفاظ جن ميں دونوں مطلب نکل سکتے ہيں ايسى طلاق کو کنايہ کہتے ہيں۔
      • مسئلہ۔ اگر صاف صاف لفظوں ميں طلاق دى تو زبان سے نکلتے ہى طلاق پڑ گئى۔ چاہے طلاق دينے کى نيت ہو چاہے نہ ہو۔ بلکہ ہنسى دل لگى ميں کہا ہو ہر طرح طلاق ہو گئى اور صاف لفظوں ميں طلاق دينے سے تيسرى قسم کى طلاق پڑتى ہے يعنى عدت کے ختم ہونے تک اس کے رکھنے نہ رکھنے کا اختيار ہے اور ايک مرتبہ کہنے سے ايک ہى طلاق پڑے گى نہ دو پڑيں گى نہ تين۔ البتہ اگر تين دفعہ کہے يا يوں کہے تجھ کو تين طلاق ديں تو تين طلاقيں پڑيں۔
      • مسئلہ۔ کسى نے ايک طلاق دی تو جب تک عورت عدت ميں رہے تب تک دوسرى طلاق اور تيسرى طلاق اور دينے کا اختيار رہتا ہے اگر دے گا تو پڑ جائے گى۔
      • مسئلہ۔کسى نے يوں کہا تجھ کو طلاق دے دوں گا تو اس سے طلاق نہيں ہوئى۔ اسى طرح اگر کسى بات پر يوں کہا کہ اگر فلانا کام کرے گى تو طلاق دے دوں گا تب بھى طلاق نہيں ہوئى چاہے وہ کام کرے چاہے نہ کرے۔ ہاں اگر يوں کہہ دے اگر فلانا کام کرے تو طلاق ہے تو اس کے کرنے سے طلاق پڑ جائے گى۔
      • مسئلہ۔ کسى نے طلاق دے کر اس کے ساتھ ہى انشاء اللہ بھى کہہ ديا تو طلاق نہيں پڑى۔ اسى طرح اگر يوں کہا اگر خدا چاہے تو تجھ کو طلاق۔ اس سے بھى کسى قسم کى طلاق نہيں پڑتى۔ البتہ اگر طلاق دے کر ذرا ٹھير گيا پھر انشاء اللہ کہا تو طلاق پڑ گئى۔
      • مسئلہ۔ کسى نے اپنى بى بى کو طلاقن کہہ کر پکارا تب بھى طلاق پڑ گئى اگرچہ ہنسى ميں کہا ہو۔
      • مسئلہ۔ کسى نے کہا جب تو لکھنو جائے تو تجھ کو طلاق ہے تو جب تک لکھنو نہ جائے گى طلاق نہ پڑے گى جب وہاں جائے گى تب پڑے گى۔
      • مسئلہ۔ اور اگر صاف صاف طلاق نہيں دى بلکہ گول گول الفاظ کہے اور اشارہ کنايہ سے طلاق دى تو ان لفظوں کے کہنے کے وقت اگر طلاق دينے کى نيت تھى تو طلاق ہو گئى اور اول قسم کى يعنى بائن طلاق ہوئى۔ اب بے نکاح کيے نہيں رکھ سکتا۔ اور اگر طلاق کى نيت نہ تھى بلکہ دوسرے معنى کے اعتبار سے کہا تھا تو طلاق نہيں ہوئى۔ البتہ اگر کہنے سے معلوم ہو جائے کہ طلاق ہى دينے کى نيت تھى اب وہ جھوٹ بکتا ہے تو اب عورت اس کے پاس نہ رہے اور يہى سمجھے کہ مجھے طلاق مل گئى۔ جيسے بى بى نے غصہ ميں آکر کہا کہ ميرا تيرا نباہ نہ ہوگا مجھ کو طلاق ديدے اس نے کہا اچھا ميں نے چھوڑ ديا تو يہاں عورت يہى سمجھے کہ مجھے طلاق دے دى۔
      • مسئلہ۔ جو شوہر جوان ہو چکا ہو اور ديوانہ پاگل نہ ہو اس کے طلاق دينے سے طلاق پڑ جائے گى۔ اور جو لڑکا ابھى جوان نہيں ہوا۔ اور ديوانہ پاگل جس کى عقل ٹھيک نہيں ان دونوں کے طلاق دينے سے طلاق نہيں پڑتى۔
      • مسئلہ۔سوتے ہوئے آدمى کے منہ سے نکلا کہ تجھ کو طلاق ہے يا يوں کہہ ديا کہ ميرى بى بى کو طلاق تو اس بڑبڑانے سے طلاق نہ پڑے گى۔
      • مسئلہ۔ کسى نے زبردستى کسى سے طلاق دلوادى۔ بہت مارا کوٹا دھمکايا کہ طلاق ديدے نہيں تو تجھے مار ڈالوں گى اس مجبورى سے اس نے طلاق دے دى تب بھى طلاق پڑ گئى۔
      • مسئلہ۔کسى نے شراب وغيرہ کے نشہ ميں اپنى بى بى کو طلاق دے دى جب ہوش آيا تو پشيمان ہوا تب بھى طلاق پڑ گئى۔ اسى طرح غصے ميں طلاق دينے سے بھى طلاق پڑ جاتى ہے۔
      • مسئلہ۔ شوہر کے سوا کسى اور کو طلاق دينے کا اختيار نہيں ہے البتہ اگر شوہر نے کہہ دیا ہو کہ تو اس کو طلاق دے تو وہ بھى دے سکتا ہے۔
    • بيمار کے طلاق دينے کے مسائل
      • مسئلہ۔ بيمارى کى حالت ميں کسى نے اپنى عورت کو طلاق دے دى پھر عورت کى عدت ابھى ختم نہ ہونے پائى تھى کہ اس بيمارى ميں مر گا۔ تو شوہر کے مال ميں سے بى بى کا جتنا حصہ ہوتا ہے اتنا اس عورت کو بھى ملے گا چاہے ايک طلاق دی ہو يا دو تين۔ اور چاہے طلاق رجعى دى ہو يا بائن سب کا ايک حکم ہے۔ اگر عدت ختم ہو چکى تھى تب وہ مرا تو حصہ نہ پائے گى۔ اسى طرح اگر مرد اسى بيمارى ميں نہيں مرا بلکہ اس سے اچھا ہو گيا پھر بيمار ہو گيا تب بھى حصہ نہ پائے گى۔ چاہے عدت ختم ہو چکى ہو يا نہ ختم ہوئى ہو۔
      • مسئلہ۔ عورت نے طلاق مانگى تھى اس ليے مرد نے طلاق دے دى۔ تب بھى عورت حصہ پانے کى مستحق نہيں چاہے عدت کے اندر مرے يا عدت کے بعد۔ دونوں کا ايک حکم ہے۔ البتہ اگر طلاق رجعى دى ہو اور عدت کے اندر مرے تو حصہ پائے گى۔
      • مسئلہ۔ بيمارى کى حالت ميں عورت سے کہا اگر تو گھر سے باہر جائے تو تجھ کو بائن طلاق ہے۔ پھر عورت باہر گئى اور طلاق بائن پڑ گئى تو اس صورت ميں حصہ نہ پائے گى کہ اس نے خود ايسا کام کيوں کيا جس سے طلاق پڑى۔ اور اگر يوں کہا اگر تو کھانا کھائے تو تجھ کو طلاق بائن ہے يا يوں کہا اگر تو نماز پڑھے تو تجھ کو طلاق بائن ہے ايسى صورت ميں اگر وہ عدت کے اندر مر جائے گا تو عورت کو حصہ ملے گا کيونکہ عورت کے اختيار سے طلاق نہيں پڑى۔ کھانا کھانا اور نماز پڑھنا تو ضرورى ہے اس کو کيسے چھوڑتى۔ اور اگر طلاق رجعى دى ہو تو پہلى صورت ميں عدت کے اندر اندر مرنے سے حصہ پائے گى۔ غرضيکہ طلاق رجعى ميں بہرحال حصہ ملتا ہے۔ بشرطيکہ عدت کے اندر مرا ہو۔
      • مسئلہ۔ کسى بھلے چنگے آدمى نے کہا جب تو گھر سے باہر نکلے تو تجھ کو طلاق بائن ہے۔ پھر جس وقت وہ گھر سے باہر نکلى اس وقت وہ بيمار تھا اور اسى بيمارى ميں عدت کے اندر مر گيا تب بھى حصہ نہ پائے گى۔
      • مسئلہ۔ تندرستى کے زمانہ ميں کہا جب تيرا باپ پرديس سے آئے تو تجھ کو بائن طلاق۔ جب وہ پرديس سے آيا اس وقت مرد بيمار تھا اور اسى بيمارى ميں مر گيا تو حصہ نہ پائے گى۔ اور اگر بيمارى کى حالت ميں يہ کہا ہو اور اسى ميں عدت کے اندر مر گيا ہو تو حصہ پائے گى۔
    • کسى شرط پر طلاق دينے کے مسائل
      • مسئلہ۔ نکاح کرنے سے پہلے کسى عورت کو کہا اگر ميں تجھ سے نکاح کروں تو تجھ کو طلاق ہے تو جب اس عورت سے نکاح کرے گا تو نکاح کرتے ہى طلاق بائن پڑ جائے گى۔ اب بے نکاح کيے اس کو نہيں رکھ سکتا۔ اور اگر يوں کہا ہو اگر تجھ سے نکاح کروں تو تجھ پر دو طلاق۔ تو دو طلاق بائن پڑ گئيں اور اگر تين طلاق کو کہا تھا تو تينوں پڑ گئيں اور اب طلاق مغلظہ ہو گئى۔
      • مسئلہ۔ نکاح ہوتے ہى جب اس پر طلاق پڑ گئى تو اس نے اسى عورت سے پھر نکاح کر ليا تو اب اس دوسرے نکاح کرنے سے طلاق نہ پڑے گى۔ ہاں اگر يوں کہا ہو جس دفعہ تجھ سے نکاح کروں ہر مرتبہ تجھ کو طلاق ہے تو جب نکاح کرے گا ہر دفعہ طلاق پڑ جايا کرے گى۔ اب اس عورت کو رکھنے کى کوئى صورت نہيں۔ دوسرا خاوند کر کے اگر اس مرد سے نکاح کرے گى تب بھى طلاق پڑ جائے گى۔
      • مسئلہ۔ کسى نے کہا جس عورت سے نکاح کروں اس کو طلاق تو جس سے نکاح کرے گا اس پر طلاق پڑ جائے گى۔ البتہ طلاق پڑنے کے بعد اگر پھر اسى عورت سے نکاح کر ليا تو طلاق نہيں پڑى۔
      • مسئلہ۔ کسى غير عورت سے جس سے ابھى نکاح نہيں کيا ہے اس طرح کہا اگر تو فلانا کام کرے تو تجھ کو طلاق۔ اس کا کچھ اعتبار نہيں اگر اس سے نکاح کر ليا اور نکاح کے بعد اس نے وہى کام کيا تب بھى طلاق نہيں پڑى۔ کيونکہ غير عورت کو طلاق دينے کى يہى صورت ہے کہ يوں کہے اگر تجھ سے نکاح کروں تو طلاق۔ کسى اور طرح طلاق نہيں پڑ سکتى۔
      • مسئلہ۔ اور اگر اپنى بى بى سے کہا اگر تو فلانا کام کرے تو تجھ کو طلاق اگر تو ميرے پاس سے جائے تو تجھ کو طلاق۔ اگر تو اس گھر ميں جائے تو تجھ کو طلاق يا اور کسى بات کے ہونے پر طلاق دى تو جب وہ کام کرے گى تب طلاق پڑ جائے گى اگر نہ کرے گى تو نہ پڑے گى اور طلاق رجعى پڑے گى جس ميں بے نکاح بھى روک رکھنے کا اختيار ہوتاہے۔ البتہ اگر کوئى گول لفظ کہتا ہے جيسے يوں کہے اگر تو فلانا کام کرے تو مجھ تجھ سے کچھ واسطہ نہيں تو جب وہ کام کرے گى تب طلاق بائن پڑے گى بشرطيکہ مرد نے اس لفظ کے کہتے وقت طلاق کى نيت کى ہو۔
      • مسئلہ۔ اگر يوں کہا اگر فلانا کام کرے تو تجھ کو دو طلاق يا تين طلاق تو جو طلاق کہى اتنى پڑيں گى۔
      • مسئلہ۔ اپنى بى بى سے کہا تھا گر اس گھر ميں جائے تو تجھ کو طلاق اور وہ چلى گئى اور طلاق پڑ گئى۔ پھر عدت کے اندر اندر اس نے روک رکھا يا پھر سے نکاح کر ليا تو اب پھر گھر ميں جانے سے طلاق نہ پڑے گى۔ البتہ اگر يوں کہا ہو جتنی مرتبہ اس گھر ميں جائے ہر مرتبہ تجھ کو طلاق۔ يا يوں کہا ہو جب کبھى تو گھر ميں جائے ہر مرتبہ تجھ کو طلاق۔ تو اس صورت ميں عدت کے اندر يا پھر نکاح کر لينے کے بعد دوسرى مرتبہ گھر ميں جانے سے دوسرى طلاق ہو گئى پھر عدت کے اندر يا تيسرے نکاح کے بعد اگر تيسرى دفعہ گھر ميں جائے گى تو تيسرى طلاق پڑ جائے گى۔ اب تين طلاق کے بعد اس سے نکاح درست نہيں۔ البتہ اگر دوسرا خاوند کر کے پھر اسى مرد سے نکاح کرے تو اب اس گھر ميں جانے سے طلاق نہ پڑے گى۔
      • مسئلہ۔ کسى نے اپنى عورت سے کہا اگر تو فلانا کام کرے تو تجھ کو طلاق۔ ابھى اس نے وہ کام نہيں کيا تھا کہ اس نے اپنى طرف سے ايک اور طلاق دے دى اور چھوڑ ديا اور کچھ مدت بعد پھر اسى عورت سے نکاح کيا اور اس نکاح کے بعد اب اس نے وہى کام کيا تو پھر طلاق پڑ گئى۔ البتہ اگر طلاق پانے اور عدت گزر جانے کے بعد اس نکاح سے پہلے اس نے وہى کام کر ليا ہو تو اب اس نکاح کے بعد اس کام کے کرنے سے طلاق نہ پڑے گى۔ اور اگر طلاق پانے کے بعد عدت کے اندر اس نے وہى کام کيا ہو تب بھى دوسرى طلاق پڑ گئى۔
      • مسئلہ۔ اگر کسى نے بى بى سے کہا اگر تو روزہ رکھے تو تجھ کو طلاق تو روزہ رکھتے ہى فورا طلاق پڑى گئى البتہ اگر يوں کہا اگر تو ايک روزہ رکھے يا دن بھر کا روزہ رکھے تو تجھ کو طلاق۔ تو روزہ کے ختم پر طلاق پڑے گى۔ اگر روزہ توڑ ڈالے تو طلاق نہ پڑے گى۔
      • مسئلہ۔ عورت نے گھر سے باہر جانے کا ارادہ کيا مرد نے کہا ابھى مت جاؤ۔ عورت نہ مانى۔ اس پر مرد نے کہا اگر تو باہر جائے تو تجھ کو طلاق۔ تو اس کا حکم يہ ہے کہ اگر ابھى باہر جائے گى تو طلاق پڑے گى اور اگر ابھى نہ گئى کچھ دير ميں گئى تو طلاق نہ پڑے گى۔ کيونکہ اس کا مطلب يہى تھا کہ ابھى نہ جاؤ پھر جانا۔ يہ مطلب نہيں کہ عمر بھر کبھى نہ جانا۔
      • مسئلہ۔ کسى نے يوں کہا جس دن تجھ سے نکاح کروں تجھ کو طلاق۔ پھررات کے وقت نکاح کيا تب بھى طلاق پڑ گئى۔ کيونکہ بول چال ميں اس کا مطلب يہ ہے کہ جس وقت تجھ سے نکاح کروں تجھ کو طلاق۔
    • طلاق رجعى ميں رجعت کر لينے يعنى روک رکھنے کے مسائل
      • مسئلہ۔ جب کسى نے رجعى ايک طلاق يا دو طلاقيں ديں تو عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے مرد کو اختيار ہے کہ اس کو روک رکھے پھر سے نکاح کرنے کى ضرورت نہيں۔ اور عورت چاہے راضى ہو يا راضى نہ ہو اس کو کچھ اختيار نہيں ہے اور اگر تين طلاقيں ديں دے تو اس کا حکم اوپر بيان ہو چکا اس ميں يہ اختيار نہيں ہے۔
      • مسئلہ۔ رجعت کرنے يعنى روک رکھنے کا طريقہ يہ ہے کہ يا يہ صاف صاف زبان سے کہہ دے کہ ميں تجھ کو پھر رکھے ليتا ہوں تجھ کو نہ چھوڑوں گا۔ يا يوں کہہ دے کہ ميں اپنے نکاح ميں تجھ کو رجوع کرتا ہوں يا عورت سے نہيں کہا کسى اور سے کہا کہ ميں نے اپنى بى بى کو پھر رکھ ليا اور طلاق سے باز آيا۔بس اتنا کہہ دينے سے وہ پھر اس کى بى بى ہو گئى۔
      • مسئلہ۔ جب عورت کا روک رکھنا منظور ہو تو بہتر ہے کہ دو چار لوگوں کو گواہ بنا لے کہ شايد کبھى کچھ جھگڑا پڑے تو کوئى مکر نہ سکے۔ اگر کسى کو گواہ نہ بنايا تنہائى ميں ايسا کر ليا تب بھى صحيح ہے۔ مطلب تو حاصل ہى ہو گيا۔
      • مسئلہ۔ اگر عورت کى عدت گزر چکى تب ايسا کرنا چاہا تو کچھ نہيں ہو سکتا۔ اب اگر عورت منظور کرے اور راضى ہو تو پھر سے نکاح کرنا پڑے گا بے نکاح کيے نہيں رکھ سکتا۔ اگر وہ رکھے بھى تو عورت کو اس کے پاس رہنا درست نہيں۔
      • مسئلہ۔ جس عورت کو ايک يا دو طلاق رجعى ملى ہوں جس ميں مرد کو طلاق سے باز آنے کا اختيار ہوتا ہے ايسى عورت کو مناسب ہے کہ خوب بناؤ سنگار کر کے رہا کرے کہ شايد مرد کا جى اس کى طرف جھک پڑے اور رجعت کرلے۔ اور مرد کا قصد اگر باز آنے کا نہ ہو تو اس کو مناسب ہے کہ جب گھر ميں آئے تو کھانس کھنگار کے آئے کہ وہ اپنا بدن اگر کچھ کھلا ہو تو ڈھک لے اور کسى بے موقع جگہ نگاہ نہ پڑے۔ اور جب عدت پورى ہو چکے تو عورت کہيں اور جا کے رہے۔
      • مسئلہ۔ اگر ابھى رجعت نہ کى ہو تو اس عورت کو اپنے ساتھ سفر ميں لے جانا جائز نہيں اور عورت کو اس کے ساتھ جانا بھى درست نہيں۔
      • مسئلہ۔ جس عورت کو ايک يا دو طلاق بائن دے ديں جس ميں روک رکھنے کا اختيار نہيں ہوتا اس کا حکم يہ ہے کہ اگر کسى اور مرد سے نکاح کرنا چاہيے تو عدت کے بعد نکاح کرے۔ عدت کے اندر نکاح درست نہيں۔ اور خود اسى سے نکاح کرنا منظور ہو تو عدت کے اندر بھى ہو سکتا ہے۔
    • تين طلاق دينے کا حکم
      • مسئلہ۔ اگر کسى نے اپنى عورت کو تين طلاقيں دے دىں تو اب وہ عورت بالکل اس مرد کے ليے حرام ہو گئى اب اگر پھر سے نکاح کرے تب بھى عورت کو اس مرد کے پاس رہنا حرام ہے اور يہ نکاح نہيں ہوا چاہے صاف لفظوں ميں تين طلاقيں دى ہوں يا گول لفظوں ميں سب کا ايک حکم ہے۔
      • مسئلہ۔ تين طلاقيں ايک دم سے دے ديں۔ جيسے يوں کہہ ديا تجھ کو تين طلاق يا يوں کہا تجھ کو طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے يا الگ کر کے تين طلاقيں ديں جيسے ايک آج دى ايک کل ايک پرسوں۔ يا ايک اس مہينہ ميں ايک دوسرے مہينہ ميں ايک تيسرے ميں يعنى عدت کے اندر اندر تينوں طلاقيں دے ديں سب کا ايک حکم ہے اور صاف لفظوں ميں طلاق دے کر پھر روک رکھنے کا اختيار اس وقت ہوتا ہے جب تين طلاقيں نہ دے فقط ايک يا دو دے۔ جب تين طلاقيں دے ديں تو اب کچھ نہيں ہو سکتا۔
      • مسئلہ۔ کسى نے اپنى عورت کو ايک طلاق رجعى دى۔ پھر مياں راضى ہو گيا اور روک رکھا۔ پھر دو چار برس ميں کسى بات پر غصہ آيا تو ايک طلاق رجعى اور دے دى جس ميں روک رکھنے کا اختيار ہوتا ہے۔ پھر جب غصہ اترا تو روک رکھا اور نہيں چھوڑا۔ يہ دو طلاقيں ہو چکيں اب اس کے بعد اگر کبھى ايک طلاق اور ديدے گا تو تين پورى ہو جائيں گى اور اس کا وہى حکم ہوگا کہ بے دوسرا خاوند کيے اس مرد سے نکاح نہيں ہو سکتا۔ اسى طرح اگر کسى نے طلاق بائن دى جس ميں روک رکھنے کا اختيار نہيں ہوتا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر پشيمان ہوا اور مياں بى بى نے راضى ہو کر پھر سے نکاح پڑھوا ليا۔ کچھ زمانہ کے بعد پھر غصہ آيا اور ايک طلاق بائن دے دى اور غصہ اترنے کے بعد پھر نکاح پڑھوا ليا يہ دو طلاقيں ہوئيں۔ اب تيسرى دفعہ اگر طلاق دے گا تو پھر وہى حکم ہے کہ بے دوسرا خاوند کيے اس سے نکاح نہيں کر سکتى۔
      • مسئلہ۔ شوہر کے سوا کسى اور کو طلاق دينے کا اختيار نہيں ہے البتہ اگر شوہر نے کہہ دیا ہو کہ تو اس کو طلاق دے تو وہ بھى دے سکتا ہے۔
  • مياں کالاپتہ ہو نا
    • جس کا شوہر بالکل لاپتہ ہو گيا معلوم نہيں مر گيا يا زندہ ہے تو وہ عورت اپنا دوسرا نکاح نہيں کر سکتى بلکہ انتظار کرتى رہے کہ شايد آجائے۔ جب انتظار کرتے کرتے اتنى مدت گزر جائے کہ شوہر کى عمر نوے برس کى ہو جائے تو اب حکم لگا ديں گے کہ وہ مر گيا ہوگا۔ سو اگر وہ عورت ابھى جوان ہو اور نکاح کرنا چاہے تو شوہر کى عمر نوے برس کى ہونے کے بعد عدت پورى کر کے نکاح کر سکتى ہے مگر شرط يہ ہے کہ اس لاپتہ مرد کے مرنے کا حکم کسى شرعى حاکم نے لگايا ہو۔
  • خلع کے مسائل
    • مسئلہ۔ اگر مياں بى بى ميں کسى طرح نباہ نہ ہو سکے اور مرد طلاق بھى نہ ديتا ہو تو عورت کو جائز ہے کہ کچھ مال دے کر يا اپنا مہر دے کر اپنے مرد سے کہے کہ اتنا روپيہ لے کر ميرى جان چھوڑ دے۔ يا يوں کہے جو ميرا مہر تيرے ذمہ ہے اس کے عوض ميں ميرى جان چھوڑ دے۔ اس کے جواب ميں مرد کہے ميں نے چھوڑ دى تو اس سے عورت پر ايک طلاق بائن پڑ گئى۔ روک رکھنے کا اختيار مرد کو نہيں ہے البتہ اگر مرد نے اسى جگہ بيٹھے بيٹھے جواب نہيں ديا بلکہ اٹھ کھڑا ہوا يا مرد تو نہيں اٹھا عورت اٹھ کھڑى ہوئى تب مرد نے کہا اچھا ميں نے چھوڑ دى تو اس سے کچھ نہيں ہوا۔ جواب سوال دونوں ايک ہى جگہ ہونے چاہيں۔ اس طرح جان چھڑانے کو شرع ميں خلع کہتے ہيں۔
    • مسئلہ۔ مرد نے کہا ميں نے تجھ سے خلع کيا۔ عورت نے کہا ميں نے قبول کيا تو خلع ہو گيا۔ البتہ اگر عورت نے اسى جگہ جواب نہ ديا ہو وہاں سے کھڑى ہو گئى ہو يا عورت نے قبول ہى نہيں کيا تو کچھ نہيں ہوا۔ ليکن عورت اگر اپنى جگہ بيٹھى رہى اور مرد يہ کہہ کر کھڑا ہوا اور عورت نے اس کے اٹھنے کے بعد قبول کيا تب بھى خلع ہو گيا۔
    • مسئلہ۔مرد نے فقط اتنا کہا ميں نے تجھ سے خلع کيا اور عورت نے قبول کر ليا روپے پيسے کا ذکر نہ مرد نے کيا نہ عورت نے تب بھى جو حق مرد کا عورت پر ہے اور جو حق عورت کا مرد پر ہے سب معاف ہوا۔ اگر مرد کے ذمے مہرباقى ہو تو وہ بھى معاف ہو گيا۔ اور اگر عورت پا چکى ہے تو خير اب اس کا پھيرنا واجب نہيں البتہ عدت کے ختم ہونے تک روٹى کپڑا اور رہنے کا گھر دينا پڑے گا۔ ہاں اگر عورت نے کہہ ديا ہو کہ عدت کا روٹى کپڑا اور رہنے کا گھر بھى تجھ سے نہ لوں گى تو وہ بھى معاف ہوگا۔
    • مسئلہ۔اور اگر اس کے ساتھ مال کا بھى ذکر کر ديا جيسے يوں کہا سو روپے کے عوض ميں نے تجھ سے خلع کيا پھر عورت نے قبول کر ليا تو خلع ہو گيا اب عورت کے ذمے سو روپے دينے واجب ہو گئے۔ اپنا مہر پا چکى ہو تب بھى سو روپے دينے پڑيں گے اور اگر مہر ابھى نہ پايا ہو تب بھى دينے پڑيں گے اور مہر بھى نہ ملے گا کيونکہ وہ بوجہ خلع معاف ہو گيا۔
    • مسئلہ۔ خلع ميں اگر مرد کے ذمے مہر باقى ہو تو وہ بھى معاف نہيں ہوا۔
    • مسئلہ۔ يہ سب باتيں اس وقت ہيں جب خلع کا لفظ کہا ہو يا يوں کہا ہو سو روپے پر يا ہزار روپے کے عوض ميں ميرى جان چھوڑ دے يا يوں کہا ميرے مہر کے عوض ميں مجھ کو چھوڑ دے اور اگر اس طرح نہيں کہا بلکہ طلاق کا لفظ کہا جيسے يوں کہے سو روپے کے عوض ميں مجھے طلاق دے دے تو اس کو خلع نہ کہيں گے اگر مرد نے اس مال کے عوض طلاق دے دى تو ايک طلاق بائن پڑ گئى اور اس ميں کوئى حق معاف نہيں ہوا نہ وہ حق معاف ہوئے جو مرد کے اوپر ہيں نہ وہ جو عورت پر ہى مرد نے اگر مہر نہ ديا ہو تو وہ بھى معاف نہيں ہوا۔ عورت اس کى دعويدار ہو سکتى ہے اور مرد يہ سو روپے عورت سے لے ليگا۔
    • مسئلہ۔ مرد نے کہا ميں نے سو روپے کے عوض ميں طلاق دى تو عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہے۔ اگر نہ قبول کرے تو نہ پڑے گى اور اگر قبول کر لے تو ايک طلاق بائن پڑ گئى۔ ليکن اگر جگہ بدل جانے کے بعد قبول کيا تو طلاق نہيں پڑى۔
    • مسئلہ۔ عورت نے کہا مجھے طلاق ديدے مرد نے کہا تو اپنا مہر وغيرہ اپنے سب حق معاف کر دے تو طلاق دے دوں۔ اس پر عورت نے کہا اچھا مىں نے معاف کيا اس کے بعد مرد نے طلاق نہيں دى تو کچھ معاف نہيں ہوا۔ اور اگر اسى مجلس ميں طلاق دے دى تو معاف ہو گيا۔
    • مسئلہ۔ عورت نے کہا تين ہزارروپے کے عوض ميں مجھ کو تين طلاقيں ديدے۔ اس پر مرد نے ايک ہى طلاق دی تو فقط ايک ہزارروپے مرد کو ملے گا۔ اور اگر دو طلاقيں دى ہوں تو دو ہزارروپے اور اگر تينوں دے ديں تو پورے تين ہزارروپے عورت سے دلائے جائيں گے اور سب صورتوں ميں طلاق بائن پڑ گئى۔ کيونکہ مال کا بدلہ ہے۔ مسئلہ۔ نابالغ لڑکا اور ديوانہ پاگل آدمى اپنى بى بى سے خلع نہيں کرسکتا۔
  • سوگ کرنے کے مسائل
    • مسئلہ۔ جس عورت کو طلاق رجعى ملى ہے اس کے عدت تو فقط يہى ہے کہ اتنى مدت تک گھر سے باہر نہ نکلے نہ کسى اور مرد سے نکاح کرے۔ اس کو بناؤ سنگار وغيرہ درست ہے اور جس کو تين طلاقيں مل گئيں يا ايک طلاق بائن ملى يا اور کسى طرح سے نکاح ٹوٹ گيا يا مرد مر گيا۔ ان سب صورتوں کا حکم يہ ہے کہ جب تک عدت ميں رہے تب تک نہ تو گھر سے باہر نکلے نہ اپنا دوسرا نکاح کرے نہ کچھ بناؤ سنگار کرے يہ سب باتيں اس پر حرام ہيں۔ اس سنگار نہ کرنے اور ميلے کچيلے رہنے کو سوگ کہتے ہيں۔
    • مسئلہ۔ جب تک عدت ختم نہ ہو تب تک خوشبو لگانا کپڑے بسانا زيور گہنا پہننا پھول پہننا سرمہ لگانا پان کھا کر منہ لال کرنا مسى ملنا سر ميں تيل ڈالنا کنگھى کرنا مہندى لگانا اچھے کپڑے پہننا ريشمى اور رنگے ہوئے بہار دار کپڑے پہننا يہ سب باتيں حرام ہيں۔ البتہ اگر بہار دار نہ ہوں تو درست ہے چاہے جيسا رنگ ہو مطلب يہ ہے کہ زينت کا کپڑا نہ ہو۔
    • مسئلہ۔ سر ميں درد ہونے کى وجہ سے تيل ڈالنے کى ضرورت پڑے تو جس ميں خوشبو نہ ہو وہ تيل ڈالنا درست ہے۔ اسى طرح دوا کے ليے سرمہ لگانا بھى ضرورت کے وقت درست ہے ليکن رات کو لگائے اور دن کو پونچھ ڈالے۔ اور سر ملنا اور نہانا بھى درست ہے۔ ضرورت کے وقت کنگھى کرنا بھى درست ہے جيسے کسى نے سر ملايا جوں پڑ گئى۔ ليکن پٹى نہ جھکائے نہ باريک کنگھى سے کنگھى کرے جس ميں بال چکنے ہو جاتے ہيں بلکہ موٹے دندانے والى کنگھى کرے کہ خوبصورتى نہ آنے پائے۔
    • مسئلہ۔ سوگ کرنا اسى عورت پر واجب ہے جو بالغ ہو۔ نابالغ لڑکى پر واجب نہيں۔ اس کو يہ سب باتيں درست ہيں۔ البتہ گھر سے نکلنا اور دوسرا نکاح کرنا اس کو بھى درست نہيں۔
    • مسئلہ۔ جس کا نکاح صحيح نہيں ہوا تھا بے قاعدہ ہو گيا تھا وہ توڑ ديا گيا يا مرد مر گيا تو ايسى عورت پر بھى سوگ کرنا واجب نہيں
    • مسئلہ۔ شوہر کے علاوہ کسى اور کے مرنے پر سوگ کرنا درست نہيں۔ البتہ اگر شوہر منع نہ کرے تو اپنے عزيز اور رشتہ دار کے مرنے پر بھی تين دن تک بناؤ سنگار چھوڑ دينا درست ہے۔ اس سے زيادہ بالکل حرام ہے اور اگر منع کرے تو تين دن بھى نہ چھوڑے۔