Fiqh - فقہ - اسلامی فقہ - Tazkia.org - Urdu

زکٰوۃ

  • زکٰوةکے معنی
    • اسلام کا تیسرا رکن زکٰوة ہے، شرع شریف میں زکٰوة کے معنی یہ ہیں کہ اپنے مخصوص مال کا ایک مخصوص حصہ جو شرع شریف نے مقرر کیا ہےاللّٰہ تعالٰی کے لئے کسی مسلمان فقیر یا مسکین وغیرہ کو جو زکٰوة لینے کا شرع میں حقدار ہے دے کر اُسے اس طرح مالک کر دینا کہ اپنا نفع اس سے بلکل ہٹا لے
  • زکٰوةکا حکم
    • زکٰوةادا کرنا، فرضِ قطعی ہے جو شخص اس کی فرضیت کا انکار کرے وہ کافر ہے اور اس سے روکنے والے کو شرعی قاضی قتل کی سزا دے سکتا ہےاور جو شخص انکار تو نہیں کرتا مگر اپنے مال کی زکٰوة ادا نہیں کرتا قیامت کےروز اس کو بڑا سخت عذاب ہو گا فرض ہونے کے بعد فوراً ادا کرنا واجب ہے اور بلاعذر تاخیر کرنا مکروہِ تحریمی اور گناہ ہے ایسا شخص فاسق ہےاور اس کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی
  • زکٰوة فرضیت کا سبب
    • زکٰوةکے فرض ہونے کا سبب مال ہے جو بقدر نصاب ہو اور اس پر سال گزر چکا ہو نصاب کی تشریح آگے آتی ہے
  • زکوة فرض ہونے کی شرطیں
    • مسلمان ہونا
      • زکوة فرض ہونے کی شرط مسلمان ہونا ہے پس کافر پر زکٰوة فرض نہیں ہےخواہ کافر اصلی ہو یا مرتد ہو، کافر اگر دارالحرب میں اسلام لے آیا اس کے بعد چند سال تک وہاں رہا تو اگر وہ زکٰوة کی فرضیت کو جانتا تھا تو اس پر زکٰوة واجب ہو گی اور اس کےادا کرنےکا فتویٰ دیا جائے گا ورنہ نہیں بخلاف اس کے اگر ذمی کافر دارلالسلام میں مسلمان ہوا تو اس پر زکٰوة واجب ہو گی خواہ فرضیتِ زکٰوة کا مسئلہ اس کو معلوم ہو یا نہ ہو کیونکہ دارلالسلام میں نہ جاننا عذر نہیں ہے
    • عاقل ہونا
      • ایک شرط عاقل ہونا ہے لہذا اس مجنون ( دیوانہ) و معتوہ ( نیم پاگل) پر زکٰوة فرض نہیں ہے جو تمام سال مجنون رہے پس اگر نصاب کا مالک ہونے کے بعد سال کے کسی حصہ میں خواہ اول میں یا آخر میں بہت دنوں کے لئے یا تھوڑے دنوں کے لئے افاقہ ہو گیا تو زکٰوة لازم ہو گی یہ ظاہر الروایت ہے اور یہی صحیح ہے جس شخص پر بہوشی طاری ہو اس پر صحیح کی مانند زکٰوة واجب ہو گی اگرچہ کامل ایک سال تک بیہوش رہے
    • بالغ ہونا
      • ایک شرط بالغ ہونا ہے پس نابالغ لڑکے پر زکٰوة واجب نہیں ہے اس کے مال پر بالغ ہو جانے کے وقت سے سال شروع ہو گا اور سال پورا ہونے پر زکٰوة واجب ہو گی اس سے پہلے نہیں
    • بقدر نصاب مال کا پورے طور پر مالک ہونا
      • ایک شرط یہ ہے کہ وہ مال کا پورے طور پر مالک ہو اور وہ مال بقدر نصاب ہو، یعنی ملکیت اور قبضہ دونوں پائے جائیں۔ اگر صرف ملکیت ہو اور قبضہ نہ ہو جیسا کہ عورت کا مہر قبضے سے پہلے، یا قبضہ ہو اور ملکیت نہ ہو جیسا کہ مقروض کی ملکیت تو اس پر زکٰوة واجب نہیں ہو گی کیونکہ مقروض شخص کا مال پر قبضہ تو ہے مگر اسکی ملکیت نہیں۔تجارت کے لئے خریدی ہوئی چیز قبضہ سے پہلے صحیح یہ ہے کہ نصاب ہوتی ہے پس جو مال تجارت کے لئے خریدا اور سال بھر تک اس پر قبضہ نہ کیا توخریدارپر قبضہ سے قبل زکٰوة واجب نہیں اور قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سال کی زکٰوة بھی واجب ہے۔ مال سے مراد سکہ رائج الوقت درہم و دینار یا روپیہ اشرفی وغیرہ اور سونا چاندی یا ان دنوں کے زیورات برتن سچا گوٹہ ٹھپہ وغیرہ اور سامانِ تجارت اور جنگل میں چرانے والے جانور ہیں اور بقدر نصاب ہونے سے مراد یہ ہے کہ نصاب کی جو مقدار شریعت میں مقرر ہے اس سے کم نہ ہو سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے اور چاندی کا ساڑھے باون تولہ، تجارت کے مال کا سونا یا چاندی کے نصاب کی قیمت کے برابر ہونا ہے لہذا اگر مال تجارت سونے یا چاندی جسکی بھی قیمت کم ہو ،کے برابر ہو تو اس پر زکوۃ فرض ہو جائے گی۔ ان سب نصابوں اور ان کی زکٰوة کی تفصیل آگے الگ الگ بیان میں درج ہے
    • مال نصاب کا اس کی اصلی حاجتوں سے زائد ہونا
      • ایک شرط یہ ہے کہ اس کا مال اس کی اصلی حاجتوں سے فارغ و زائد ہو اصلی حاجتوں سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی انسان کو زندگی بسر کرنے میں ضرورت پڑتی ہے خواہ تحقیقی طور پر ہو جیسا کہ روزمرہ کا خرچ، رہنے کا گھر، لڑائی کے ہتھیار، پہننے اور سردی گرمی سے بچانے کے کپڑے خواہ کتنے ہی قیمتی ہوں اور اسی طرح دستکاروں کے اوزار، خانہ داری کا سامان، سواری کے جانور اور اہل علم کے لئے علمی کتابیں وغیرہ لیکن اگر کسی چیز میں چاندی استعمال ہوئی ہواور وہ اتنی ہے کہ اگر چاندی کو الگ کیا جائے تو ساڑھے باون تولہ یا اس سے زیادہ نکلے یا اس کے پاس اور چاندی یا نقدی یا سونا ہو یا تجارت کا مال ہو اور اس کے ساتھ مل کر نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے تو اس چاندی پر زکٰوة واجب ہو گی ورنہ نہیں، یا تقدیراً ان کی طرف محتاج ہو مثلاً قرضہ، پس ان چیزوں پر زکٰوة فرض نہیں ہے اس لئے یہ نصاب میں شامل نہیں کی جائیں گی
        اسی طرح آرائش کے برتن جو سونے چاندی کے نہ ہوں اور جواہرات، موتی ، یاقوت و زمرد، سچے موتیوں کا ہار وغیرہ جب کہ وہ تجارت کے لئے نہ ہو گھر کا اسباب، چھوٹے بڑے برتن مثلاً پتیلی، دیگچی، دیگ چھوٹی ہو یا بڑی، سینی لگن کھانے پینے کے برتن وغیرہ خواہ کتنے ہی ہوں اور چاہے روزمرہ کے استعمال میں آتے ہوں یا نہ آتے ہوں ان میں زکٰوة واجب نہیں ہے خلاصہ یہ ہے کہ سونا چاندی کے علاوہ اور جتنا مال و اسباب ہو اگر وہ تجارت کے لئے نہ ہو تو اس میں زکٰوة واجب نہیں ہے لیکن اگر یہ چیزیں تجارت کے لئے ہوں تو پھر ان میں زکٰوة فرض ہے دستکاروں کی وہ چیزیں جو خود تو استعمال میں ختم ہو جاتی ہیں لیکن ان کا اثر باقی رہتا ہے جیسے قسم اور زعفران کپڑا رنگنے کے لئے اور کس و تیل کھال رنگنے کے لئے یہ چیزیں اگر بقدر نصاب قیمت کی ہوں اور ان پر سال گزر جائے تو زکٰوة واجب ہو جائے گی عطاروں کی شیشیاں اور ان گھوڑوں وغیرہ کے لگام، رسیاں، مہاریں، جھول وغیرہ جو تجارت کے لئے خریدے گئے ہیں اگر یہ چیزیں ساتھ میں فروخت کی جائیں گی تو ان میں بھی زکٰوة ہے ورنہ نہیں کرایہ پر چلانے والے مال و اسباب میں زکٰوة واجب نہیں ہوتی پس اگر کسی کے پاس کچھ مکانات ہوں یا برتن ہوں جن کو وہ کرایہ پر چلاتا ہو تو ان پر زکٰوة واجب نہیں ہے خواہ کتنی ہی قیمت کے ہوں
    • مقروض کا قرض نکال کر صاحب نصاب ہونا۔
      • مقروض کی آمدنی سے اس پر موجود قرضے کو نکال کر دیکھا جاےٴ گا کہ وہ کتنے مال کا حقیقتاً مالک ہےپس اگر کسی شخص کے پاس دو سو درہم ہیں اور اتنے ہی درہموں کا وہ قرضدار ہے تو اس پر زکٰوة واجب نہیں ہے، اس لئے کہ اس پر جتنا قرضہ ہے اتنے مال کا وہ مالک نہیں ہے۔
      • قرضہ سے مراد وہ قرضہ ہے جس کا طلب کرنے والا کوئی بندہ ہو خواہ وہ قرض اللّٰہ تعالٰی کا قرض ہی ہو جیسا کہ زکٰوة اور خراج کا قرض اور جس کا طلب کرنے والا کوئی بندہ نہیں وہ وجوب زکوة کا مانع نہیں جیسے نذر کفارہ اور حج وغیرہ کا دین اور صدقہ فطر اور قربانی وغیرہ کا دین،
      • . دَینِ مہر معجل (یعنی خاوند کے ذمہ ایسا ممہر جسکی فوریادائیگی مکاح کرتے ہوئے طے ہو)زکٰوة واجب ہونے کا مانع ہے مطلقاً بلا اختلاف اور دَینِ مہر موجل (یعنی جسکی ادائگی فوری طور پر کرنا طے نہ ہو)کے وجوب زکوة کا مانع ہونے میں اختلاف ہے، بعض فقہ نے معجل و موجل دونوں کو مانع زکٰوة کہا ہے عالمگیری میں ہے کہ ظاہر مذہب کے بموجب یہی صحیح ہے اور بعض مشائخ کے نزدیک معجل مانع وجوبِ زکوة ہے موجل مانع نہیں ہے ، اور قہستانی نے جواہر سے اس کی تصحیح کی ہے اور بعض علماء نے اِس کو فتویٰ کے لئے اختیار کیا ہے لیکن اکثر کے نزدیک فتویٰ کے لئے مختار یہ ہے کہ دینِ مہر معجل و موجل دونوں مانع وجوب زکٰوة ہیں واللّٰہ عالم بصواب
      • دین ( قرضہ) خواہ اصالت کے طور پر ہو یعنی وہ شخص خود مقروض ہو یا کفالت کے طور پر ہو یعنی کسی قرضدار کا کفیل ہو ہر طرح زکٰوة واجب ہونے کا مانع ہے
      • زکوة کا قرضہ بھی وجوب زکٰوة کا مانع ہے پس اگر کسی شخص کے پاس بقدر نصاب مال مثلاً دو سو درہم ہے اور اس پر دو سال گزر گئے اور اس نے ان دو سالوں کی زکٰوة نہیں دی تو اس پر دوسرے سال کی زکٰوة نہیں ہے کیونکہ پہلے سال کی زکٰوة پانچ درہم جو اس کے ذمہ قرض ہے نکالنے کے بعد اس کا مال بقدر نصاب نہیں رہے گا
      • اسی طرح خراج کا قرضہ بھی زکٰوة واجب ہونے کا مانع ہے اس لئے کہ اس کا بھی بندوں کی طرف سے مطالبہ کیا جاتا ہے
      • قرضہ اس صورت میں مانع وجوبِ زکٰوة ہے جب کہ زکٰوة کے واجب ہونے سے پہلے کا ہو پس اگر زکٰوة واجب ہونے کے بعد یعنی سال پورا ہونے کے بعد لاحق ہوا تو زکٰوة ساقط نہیں ہوگی
      • جو قرضہ دوران سال لاحق ہوا اور وہ تمام نصاب کے برابر ہے یا نصاب کو کم کر دینے والا ہے پھر اگر سال کے اخیر تک نصاب پورا نہیں ہو سکا تو بلاتفاق مانع وجوبِ زکٰوة ہے (یعنی زکوۃ ساقط ہو جائے گی)اگر سال پورا ہونے سے پہلے وہ قرض معاف ہو کر یا کسی اور ذریعہ سے نیا مال حاصل ہو کر دَین نکالنے کے بعد نصاب پورا ہو گیا تو امام محمد کے نزدیک وہ مانع وجوب ہو گا اور قرض معاف ہونے یا نیا مال حاصل ہونے کے وقت سے نیا سال شروع ہو گا، بحرالرائق میں اسی کو ترجیع دی ہے اور شامی نے اسی کو اوجہ کہا ہے لیکن المجتبیٰ اور بدائع کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ وجوب زکٰوة کا مانع نہ ہونا ہمارے تینوں اماموں کا قول ہے واللّٰہ عالم
      • اگر مقروض چند نصابوں کا مالک ہے اور ہر نصاب سےقرضہ ادا ہو جاتا ہے تو قرضہ اس نصاب کی طرف لگایا جائے گا جس سے قرض ادا کرنا زیادہ آسان ہو پس پہلے درہم و دینار( روپیہ و اشرفی وغیرہ نقدی) کی طرف لگایا جائے گا اگر اس سے پورا نہ ہو تو پھر تجارت کے مال کی طرف لگایا جائے گا اگر پھر بھی بچ رہے تو چرنے والے جانوروں کی طرف لگایا جائے گا یہ حکم اس وقت ہے جب کہ بادشاہ کی طرف سے وصول کرنے والا ہو اور اگر خود صاحب مال ادا کرے تو اس کو اختیار ہے چاہے جس سے ادا کرے
      • اقسام قرض

          اگر کسی پر تمہارا قرض آتا ہے تو اس قرض پر بھی زکٰوة واجب ہے۔صاحبین کے نزدیک تمام قرضے برابر ہیں اور ان کی زکٰوة قبضہ سے پہلے ہی واجب ہو جاتی ہے اور اس کی ادائگی قبضہ کے وقت واجب ہو گی جس قدر وصول ہوتا جائےخواہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس کی زکٰوة ادا کرتا جائے امام ابوحنیفہ کے نزدیک قرض کی تین قسمیں ہیں ۔سب کا الگ حکم ہے۔

        • قوی
          • قوی یہ ہے کہ نقد روپیہ یا اشرفی یا سونا یا چاندی کسی کو قرض دیا یا تجارت کا سامان بیچا تھا اور اس کی قیمت باقی ہے اس کا حکم یہ ہے کہ وصول ہونے پر گزشتہ تمام سالوں کی زکٰوة واجب ہو گی بشرطیکہ قرض تنہا یا اور مال کے ساتھ جو پہلے سے اس کے پاس ہے مل کر نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے اور اگر یکمشت وصول نہ ہو تو جب اس میں سے نصاب کا پانچواں حصہ یعنی چالیس درہم وصول ہو جائے گا اس وقت ہر سال کا ایک درہم زکٰوة میں ادا کرنا واجب ہو گا اس سے پہلے نہیں اور اسی طرح باقی رقم میں سے ہر چالیس درہم کے وصول ہونے پر اس کی زکٰوة واجب ہوتی جائے گی اور گزشتہ تمام سالوں کی زکٰوة ادا کرنی واجب ہو گی اگر چالیس درہم سے کم پر قبضہ ہو تو اس پر زکٰوة کی ادائگی واجب نہیں ہوگی اور اگر اس کے پاس پہلے سے اور رقم بقدر نصاب ہے تو وصول شدہ رقم خواہ چالیس درہم سے کم ہی ہو اس رقم میں ملا کر پہلی رقم کا سال پورا ہونے پر زکٰوة واجب ہو جائے گی، اب موجودہ سال کا حساب وصول شدہ رقم کے سال سے نہیں ہو گا البتہ گزشتہ سالوں کا حساب قرضہ کے وقت سے ہو گا
        • متوسط
          • متوسط یہ ہےکہ قرضہ نقد نہیں دیا اور نہ ہی تجارت کا سامان بیچا بلکہ خانگی سامان بیچا اور اس کی قیمت وصول نہیں ہوئی پھر چند سال کے بعد وصول ہوئی تو اس قسم کے قرض کی بھی گزشتہ سب سالوں کی زکٰوة قرض وصول ہونے پر ادا کرنی واجب ہو گی اور اگر سارا ایک دفعہ میں وصول نہ ہو بلکہ تھوڑا تھوڑا وصول ہو تو جب تک بقدر نصاب (دو سو درہم) وصول نہ ہو جائے زکٰوة ادا کرنی واجب نہیں، جب کم از کم نصاب کی مقدار یا اس سے زائد یا تمام رقم وصول ہو جائے تو تمام گزشتہ سالوں کی زکٰوة حساب کر کے ادا کرنا واجب ہے اور اگر اس کے پاس پہلے سے اور مال بقدر نصاب موجود ہے تو وصول شدہ رقم خواہ کسی قدر بھی ہو اس پہلے مال میں ملا کر پہلے رقم کا سال پورا ہونے پر زکٰوة واجب ہو جائے گی اور اب موجودہ سال کا حساب وصول شدہ رقم کے سال سے نہیں کیا جائے گا البتہ گزشتہ سالوں کا حساب قرضہ کے وقت سے ہی ہوگا
        • ضعیف
          • ضعیف یہ ہے کہ وہ کسی مال کا بدلہ نہیں ہے یعنی نہ نقدی یا تجارت کے مال کا بدلہ ہے اور نہ مال تجارت کے علاوہ گھریلو سامان کا بدلہ ہے بلکہ یہ مہر ہے یا بدلہ خلع وغیرہ ہے اور چند سال کے بعد وصول ہوا ہے تو اس پر گزشتہ سالوں کی زکٰوة واجب نہیں ہے بلکہ کم از کم بقدر نصاب یا اس سے زیادہ یا تمام قرضہ وصول ہونے کے بعد سے اس رقم کا سال شروع ہو گا اور پھر سال پورا ہونے پر زکٰوة واجب ہو گی لیکن اگر پہلے سے اور رقم بھی بقدر نصاب موجود ہو تو وصول شدہ رقم اس میں ملا کر پہلی رقم کا سال پورا ہونے پر زکٰوة واجب ہو جائے گی۔(واضح رہے کہ موجودہ دور کے اکابر علماء کا فتویٰ گورنمنٹ پراویڈنٹ فنڈ سے متعلق بھی ہی ہے کہ وہ تیسری قسم میں شامل ہے)
    • مال نصاب کا بڑھنے والا ہونا
      • ایک شرط یہ ہے کہ مال نصاب بڑھنے والا ہو خواہ حقیقتاً بڑھنے والا ہو جیسے نقدی کا تجارت سے اور جانوروں کا توالد وتناسل سے بڑھنا یا تقدیراً یعنی حکماً بڑھنے والا ہو یعنی وہ تجارت وغیرہ کے ذریعہ اس کے بڑھانے پر قادر ہو اس طرح پر کہ مال اس کے یا اس کے نائب کے قبضہ میں ہو
      • بڑھنے والا مال دو طرح کا ہوتا ایک خلقی اور وہ سونا چاندی ہے، ان دونوں میں خواہ تجارت کی نیت کرے یا نہ کرے یا خرچ کرنے کی نیت کرے یا زیور وغیرہ بنا کر یا ویسے ہی رکھ چھوڑے استعمال نہ بھی کرے ہر حال میں زکٰوة واجب ہے دوسرا فعلی، سونے چاندی کےعلاوہ سب اموال فعلی طور پر بڑھنے والے ہیں کیونکہ یہ تجارت یا چرائی کے فعل سے بڑھیں گے، اس قسم کے مال میں تجارت کی نیت سے یا جانوروں کے چرانے کی نیت سے بڑھنے پر زکٰوة ہے ورنہ نہیں اور نیت کا تجارت یا چرائی کے فعل کے ساتھ متصل ہونا ضروری ہے ورنہ نیت معتبر نہیں ہو گی نیت کبھی صریحاً بھی ہوتی ہے جیسا معاملہ کرتے وقت یہ نیت کرے کہ یہ تجارت کے لئے ہے پس اگر روزمرہ کے استعمال کی نیت کی تو وہ تجارت کے لئے نہیں ہو گا اور کبھی دلالتاً بھی ہوتی ہے مثلاً تجارت کے مال کے بدلہ کوئی چیز خریدے یا جو گھر تجارت کے لئے ہےاس کو کسی اسباب کے عوض کرایہ پر دے تو خواہ صریحاً تجارت کی نیت نہ بھی کرے یہ اسباب تجارت کے لئے ہو جائے گا مضاربت کے مال کے لئے تجارت کی نیت کا ہونا شرط نہیں ہے پس مضاربت میں خواہ کسی نیت سے مال خریدے وہ تجارت ہی کا ہو گا
      • مال ضمار میں زکٰوة واجب نہیں ہے اس لئے کہ اس میں مِلک ہونا اور بڑھنا دونوں نہیں پائے جاتے اور مال ضمار شرعاً وہ مال ہے جس کی اصل اس کی مِلک میں باقی رہے لیکن وہ اس کے قبضہ سے ایسا نکل گیا ہو کہ غالب طور پر اس کے واپس ملنے کی امید نہ رہے پس جب مالِ ضمار پر قبضہ کرے تو اس پر گزرے ہوئے سالوں کی زکٰوة واجب نہیں ہے منجملہ مالِ ضمار وہ قرضہ ہے جس کا قرضدار نے انکار کر دیا ہو خواہ اس پر گواہ ہوں یا نہ ہوں اور خواہ گواہ عادل ہوں یا غیر عادل ہوں اور خواہ قاضی نے حلف لے لیا ہو یا نہ لیا ہو ہر حال میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس مال پر زکٰوة واجب نہیں ہو گی، اور اگر مقروض قرضہ کا اقرار کرتا ہے تو خواہ وہ مالدار ہو یا مفلس، اگر قاضی نے اس کو مفلس ہونے کا حکم جاری نہیں کیا ہے تو بلاتفاق اس مال پر قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکٰوة واجب ہو گی اور اگر قاضی نے اس کو مفلس ہونے کا حکم جاری و مشتہر کر دیا تو اس میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر گزرے ہوئے سالوں کی زکٰوة واجب ہے پس جب وہ اس مال پر قبضہ کر لے تو گزرے ہوئے سالوں کی زکٰوة ادا کرے اسی پر فتویٰ ہے۔
      • کسی نے کسی کا مال غصب کر لیا خواہ اس پر گواہ ہوں یا نہ ہوں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ وہ بھی مال ضمار ہے اور اس میں بھی قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکٰوة واجب نہیں ہے، قبضہ کے وقت سے نیا سال شروع ہو گا ظلماً لئے ہوئے مال کا بھی یہی حکم ہے، اسی طرح جو مال گم ہو گیا ہو پھر کئی سال کے بعد مل گیا ہو اور جو جانور یا غلام بھاگ گیا ہو اور اس کو ایک سال یا چند سال گزرنے کے بعد پا لیا ہو اور جو مال دریا یا سمندر میں گر گیا ہو پھر ایک سال یا چند سال گزرنے کے بعد نکالا گیا ہو اور وہ مال جس کو جنگل یا بڑے احاطہ میں دفن کیا ہو اور جگہ بھول گیا ہو پھر کئی سال کے بعد وہ جگہ یاد آئی ہو اور مال مل گیا ہو اور وہ مال جو کسی اجنبی کے پاس امانت رکھا ہو اور پھر اس شخص کو بھول گیا ہو پھر ایک سال یا چند سال کے بعد وہ مال مل گیا ہو تو یہ سب مالِ ضمار کی صورتیں ہیں ان سب میں قبضہ کے بعد گزرے ہوئے سالوں کی زکٰوة واجب نہیں ہو گی بلکہ قبضہ کے وقت سے نیا سال شروع ہو گا
    • مال پر سال کا گزرنا
      • ایک شرط یہ ہے کہ مال نصاب پر سال گزر جائے یعنی وہ مال پورا سال اس کی ملکیت میں رہے
      • زکوة میں قمری ( چاند کے حساب سے) سال کا اعتبار ہے
      • پورا سال گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ سال کے دونوں سروں میں پورا ہو درمیان میں اگر نصاب سے کم رہ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں مثلاً کسی کے پاس دس تولہ سونا تھا مگر سال کے بیچ میں پانچ تولہ رہ گیا مگر پھر آخر سال میں دس تولہ ہو گیا تو اسے دس تولہ کی زکٰوة دینی ہو گی، اسی طرح اگر کسی کے پاس سو روپے ضرورت سے زائد تھے پھر سال پورا ہونے سے پہلے پچاس روپے اور مل گئے تو سال پورا ہونے پر اس پر پورے ڈیڑھ سو روپے کی زکٰوة واجب ہو گی اور یہ سمجھا جائے گا کہ پورے ڈیڑہ سو پر سال گزر گیا ہے، اسی طرح اگر کسی کے پاس سو تولہ چاندی رکھی تھی پھر سال گزرنے سے پہلے دو چار تولہ یا زیادہ سونا مل گیا تو اب اس سونے کا سال نیا شروع نہیں ہو گا بلکہ جب چاندی کا سال پورا ہو جائے گا تو سونے کی قیمت کو چاندی کی قیمت میں ملا کر سب مال کی زکٰوة واجب ہو گی
      • اگر تجارت کے مال کو نقدی یعنی سونے چاندی یا روپیوں اشرفیوں سے بدلہ یا سونے کو چاندی یا چاندی کو سونے سے بدلا تو سال کا حکم منقطع نہیں ہو گا کیونکہ یہ سب ایک جنس ہیں اور اگر چرانے والے جانوروں سے بدلا یا چرنے والے جانوروں کو ان کی جنس یا غیر جنس سے بدلا تو سال کا حکم منقطع ہو جائے گا اور نئے سرے سے سال شروع ہو گا
      • . جو مال سال کے دوران میں حاصل ہو وہ اس کی جنس میں شامل کیا جائے گا اور پہلے والے مال کا سال پورا ہونے پر نئے اور پرانے سب کو ملا کر زکٰوة ادا کی جائے گی مثلاً کسی کے پاس دو سو درہم تھے مگر سال ختم ہونے سے پہلے اس کے پاس دو سو درہم اور آ گئے اور چار سو درہم ہو گئے تو وہ چار سو درہم کی زکٰوة دیگا اور اگر سال گزرنے کے بعد نیا مال حاصل ہوا تو وہ پہلے مال میں شامل نہیں کیا جائے گا
      • سونا چاندی اور اس کے سکے و زیور و برتن وغیرہ اور تجارت کا مال ایک ہی جنس ہیں اور ایک دوسرے میں ملائے جائیں گے چرانے والے جانور الگ جنس ہیں وہ نقدی میں نہیں ملائیں گے اسی طرح چرانے والے جانوروں میں بھی الگ اگ جنس ہیں یعنی اونٹ الگ ایک جنس ہیں ، گائے بیل بھینس بھینسا الگ ایک جنس ہیں اور بھیڑ بکری دُنبہ الگ ایک جنس ہیں پس یہ بھی ایک جنس دوسری میں نہیں ملائی جائے گی، مثلاً شروع سال میں کسی کے پاس اونٹ بقدر نصاب تھے اب درمیان سال میں اس کو کچھ بکریاں حاصل ہوئیں تو ان کو اونٹوں کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا۔
  • زکٰوة کی ادایئگی کی نیت شرط ہے۔
    • . زکوة ادا کرنے کی شرط یہ ہے کہ زکوة دیتے وقت متصل ہی زکوة دینے کی نیت کرے یا زکوة کی رقم اپنے مال سے علیحدہ کرنے کے وقت زکوة میں دینے کی نیت سے الگ کرے اور یہ نیت کافی ہے خواہ زکوة کی کل رقم علیحدہ کرتے وقت نیت کرے یا اس کا بعض حصہ نکالتے وقت نیت کرے کیونکہ مستحقین کو متفرق وقتوں میں دینا ہوتا ہےاور ہر وقت نیت کے حاضر ہونے میں دقت ہے اس لئے زکوة کی رقم یا سامان علیحدہ کرتے وقت کی نیت کو شرع نے کافی قرار دیا ہے
    • اگر اپنے مال میں سے زکوة کی نیت سے مالِ زکوة علیحدہ نہیں کیا اور یہ نیت کر لی کہ آخر سال تک جو کچھ دوں گا وہ زکوة ہے تو یہ جائز نہیں پس اس صورت میں وقتاً فوقتاً جو کچھ وہ فقیروں کو دیتا رہا اگر اس نے ہر دفعہ اس کے دینے کے وقت زکوة کی نیت کر لی تھی تو جائز و درست ہے اور بغیر نیت کے دیتا رہا تو زکوة ادا نہ ہو گی البتہ وہ صدقہ و خیرات ہو گا اس کا ثواب الگ ملے گا
    • . وکیل کو زکوة کی رقم دیتے وقت زکوة کی نیت کر لینا بھی کافی ہےکیونکہ زکوة دینے والے کی نیت کا اعتبار ہے اور اگر اس نے وکیل کو دیتے وقت زکوة کی نیت نہ کی اور جب وکیل نے فقرائ کو دیا اس وقت مالک نے نیت کر لی تب بھی جائز ہے
    • اگر کسی شخص نے سال پورا ہونے پر تمام مالِ نصاب خیرات کر دیا اور اس میں نہ زکوة کی نیت کی اور نہ کسی اور واجب مثلاً نذر وغیرہ کی نیت کی بلکہ نفل صدقہ کی نیت کی ہو یا بلکل کوئی نیت نہ کی ہو تو کل مال خیرات کرنے سے اس سے زکوة ساقط ہو جائے گی اور اگر نذر وغیرہ کسی دوسرے واجب کی نیت سے دیا تو وہ اُس ہی سے ادا ہو گا اور بقدرِ واجب زکوة اس کے ذمہ باقی رہے گی، اور اگر کل مال خیرات نہیں کیا بلکہ اس کا کچھ حصہ خیرات کیا تو امام ابو حنیفہ و امام محمد کے نزدیک خیرات کئے ہوئے حصہ کی زکوة اس سے ساقط ہو جائے گی یہی ارجح ہے
  • سونے اور چاندی کی زکٰوة
    • سونے کا نصاب بیس مثقال ہےاور چاندی کا نصاب دو سو درہم ہے اس سےکم میں زکٰوة واجب نہیں ہے اور جب زکٰوة کے مال پر پورا سال گزر جائے تو اسکا چالیسواں حصہ زکٰوة میں دینا فرض ہے پس ہر بیس مثقال سونے میں پوار سالگزرنے پر چالیسواں حصہ یعنی نصف مثقال سونا واجب ہوتا ہے اور ہر دو سودرہم میں پانچ درہم واجب ہوتا ہے اور ہر سو روپے میں اڑھائی روپے اور ہرچالیس روپے میں ایک روپیہ واجب ہوتا ہے بیس مثقال تولہ کے حساب سےساڑھے سات تولہ ہوتا ہے پس ہمارے ملک میں سونے کا یہی نصاب ہے اور دوسو درہم کے ساڑھے باون تولہ ہوتے ہیں پس یہ چاندی کا نصاب ہے
      سونا چاندی خواہ سکہ دار ہو یعنی روپے اشرفیاں وغیرہ ہوں یا بے سکہ ہو اورخواہ زیور ہو یا برتن وغیرہ اور چیز ہو مثلاً تلوار کا زیور یا پٹا یا لگام یا زین یاقران شریف میں سونے کو تار یا ستارے وغیرہ لگے ہوئے ہوں یا سچا گوٹہ ٹھپہ وغیرہ ہو خواہ یہ چیزیں استعمال میں آتی ہوں یا نہ آتی ہوں اور خواہ اس کا استعمال مباح ( جائز) ہو جیسے عورتوں کے لئے زیور اور خواہ مباح نہ ہو جیسے مرد کے لئے سونے کی انگھوٹھی اور خواہ اس سے تجارت کرے یا نہ کرے غرض کہ سونے چاندی اور اس کے سامان اور اس کے سکوںوغیرہ میں ہر حال میں زکٰوة واجب ہے اگر کسی کے پاس اتنے روپے یا نوٹ موجود ہوں جن کی بازار کے بھائو کے مطابق ساڑھے باون تولے چاندی آ سکے اور ان پر سال گزر چکا ہو اس پر زکٰوة واجب ہو گی
    • جب صرف سونا یا صرف چاندی ہو تو ادا اور وجوب دونوں کے لحاظ سےوزن کا اعتبار ہے قیمت کا اعتبار نہیں ہے ادا کے لحاظ سے وزن کا اعتبار ہونےکا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ زکٰوة میں دیا جائے اگر وہ اُسی جنس سے دیا جائےتو وزن میں زکٰوة واجب کی مقدار کے برابر ہو مثلاً ١٠٠ روپیہ بھر چاندی کےزیور کی قیمت فروخت پچاس روپے ہے تو اس قیمت کا کوئی اعتبار نہیں ہو گابلکہ اس کی زکٰوة چاندی کے وزن کے موافق سو روپیہ بھر چاندی کے زیور میں اڑھائی روپیہ بھر ( ڈھائی تولہ) چاندی دینی چاہئے خواہ زیور وغیرہ سے دےیا چاندی کی ڈلی دے یا چاندی کا روپیہ اگر رائج ہو وہ دے یا اڑھائی تولہ چاندی کی قیمت بازار کے نرخ سے دے یا مثلاً اگر چاندی کا لوٹہ وغیرہ کوئی برتن ہو جس کا وزن دو سو درہم ہو اور بنوائی کی اجرت لگا کر اس کی قیمت تین سو درہم ہے تو اگر اس کی زکٰوة چاندی میں دے تو اس کی زکٰوة پانچ درہم ہوگی لیکن اگر زکٰوة میں اس سے دوسری جنس دے تو بالاجماع قیمت کااعتبار ہو گامثلاً اگر بناوٹ کے اعتبار سے اس چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو بناوٹ کی قیمت سمیت جو کل قیمت ہو گی اس کا چالیسواں حصہ زکٰوة واجب ہو گی
      مثال مذکورا بالا میں چاندی کے برتن کی قیمت بناوٹ کے اعتبار سے تین سو درہم ہے تو غیر جنس کی زکٰوة ادا کرنے میں اس کی عمدگی و بناوٹ کی قیمت لگائی جائے گی اور اس کی زکٰوة ساڑھے سات درہم کا سونا وغیرہ دوسری جنس دینی چاہئے اگر صرف پانچ درہم دئے ہوں گے تو وہ قدر مستحق سے واقع ہو جائںگے اور باقی اڑھائی درہم کا سونا وغیرہ اور دینا ہو گا وجوب کے حق میں وزن کااعتبار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ وزن کے اعتبار سے نصاب کی مقدار کوپچک جائے تو زکٰوة واجب ہو گی ورنہ نہیں اور بالاجماع اس میں قیمت اور تعدادکا اعتبار نہیں ہو گا مثلاً اگر کسی کے پاس سونے یا چاندی کا برتن ہو جس کاوزن دس مثقال یا سو درہم کے برابر ہو اور اس کی قیمت بناوٹ کے اعتبار سےپیس مثقال یا دو سو درہم ہے یا چاندی کے کسی برتن کا وزن ڈیڑھ سو درہم ہواور اس کی قیمت دو سو درہم ہے تو ان میں کچھ زکٰوة واجب نہیں ہے اسی طرح اگر گنتی میں دو سو درہم پورے ہوں اور وزن میں کم ہوں تو ان میں زکٰوة واجب نہیں اگرچہ وہ کمی تھوڑی ہی ہو۔
  • مال تجارت کی زکٰوة
    • تجارتی مال خواہ کسی قسم کا ہو جب اس کی قیمت سونے چاندی کے نصاب کے برابر ہو گی اس میں زکٰوة واجب ہو جائےگی اور نقدی (سونا،چاندی اور اسکا سامان زیور برتن وغیرہ اور اس کے سکہ وغیرہ) کے علاوہ جو سامان تجارت کے لئے ہو وہ مال تجارت ہے تجارت کا مال وہ ہے جو تجارت ہی کے ارادہ سے خریدا گیا ہو لیکن اگر کسی نے گھر پر خرچ کے لئے یا شادی وغیرہ کے لئےمثلاً چاول خریدے پھر ارادہ ہو گیا کہ اس کو فروخت کر لیں تو وہ تجارت کا مال نہیں ہے اس لئے اس پر زکٰوة واجب نہیں ہے
    • مال تجارت کی قیمت مروجہ سکوں سے لگائی جائے گی ان کے علاوہ کسی دوسری چیز سے نہیں لگائی جائے گی
    • جب مالِ تجارت کی قیمت شروع سال میں ایسے دو سو درہموں کی برابر ہوجن میں چاندی غالب ہو تو اس کی زکٰوة واجب ہونے کے لئے نصاب کی قیمت کاحساب سال پورا ہونے کے وقت لگایا جائے گا
    • تجارتی مال میں اختیار ہے خواہ سونے کے سکے سے قیمت لگائی جائے یاچاندی کے سکہ سے لیکن اگر ان میں سے کسی ایک سے نصاب پورا ہو جاتا ہواور دوسرے سے پورا نہ ہوتا ہو تو جس سے نصاب پورا ہوتا ہو اس سے ہی قیمت لگانا متعین و ضروری ہو جائے گا، اور یہ اس وقت ہے جبکہ دونوں سکےبرابر چلتے ہوں ورنہ جو زیادہ رائج ہو گا اسی سے قیمت لگانا مقرر و متعین ہوجائے گا
    • . جس شہر میں مال موجود ہو اس شہر کے نرخ کے بموجب قیمت لگائی جائےگی اور اگر مال جنگل میں ہو تو اس شہر کی قیمت کا حساب لگایا جائے جو وہاں سے زیادہ قریب ہو یہی اولیٰ ہے
    • اگر زکٰوة قیمت کے حساب سے دے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک وجوب کےدن کی قیمت کا اعتبار ہے اور صاحبین کے نزدیک ادائیگی کے دن کی قیمت کا اعتبار ہو گا، جیسا کہ چرنے والے جانوروں میں ہے لیکن اگر جنس کی ذات میں قیمت کی زیادتی ہو گئی مثلاً گندم کی رطوبت خشک ہو گئی جس کی وجہ سےاسکی قیمت بڑھ گئی تو بالاجماع قیمت کا اعتبار اُسی زمانہ سے کیا جائے گا جب زکٰوة واجب ہوئی ہے اور اگر ان کی ذات میں نقصان ہو گیا مثلاً گیہوں بھیگ گئے تو بالاجماع زکٰوة ادا کرتے وقت جو قیمت ہے اس کا اعتبار ہو گا
    • اگر تجارت کے مال مختلف جنس کے ہوں تو بعض کو بعض میں قیمت کےساتھ ملائیں گے ۔
  • کان اور دفینہ کا حکم
    • کان (معدن) اور دفینہ میں خمس لیا جائے گا
    • کان یا دفینہ عشری زمین میں نکلے یا خراجی زمین میں ہر حال میں اس میں خمس واجب ہو گا
    • اگر کسی کے گھر یا اس کی دکان میں کان نکل آئی تو خمس واجب ہونے میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس میں خمس واجب نہیں ہے اور صاحبین کے نزدیک خمس واجب ہے اور باقی چار حصہ بالاتفاق مالک مکان کا ہو گامملوکہ زمین کی کان میں امام ابوحنیفہ سے دو روایتیں ہیں کتاب الاصل کی روایت میں مملوکہ زمین اور گھر میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی امام صاحب کے نزدیک انمیں کچھ واجب نہیں ہے سب مالک کا ہے اور دوسری روایت میں جو جامع الصغیرکی ہے اس کے مطابق دونوں میں فرق ہے یعنی گھر (مکان و دکان ) میں کچھ لازم نہیں ہے اور مملوکہ زمین میں خمس واجب ہے بعض کے نزدیک اصل کی روایت کو ترجیع ہےاور بعض کے نزدیک جامع الصغیر کی روایت کو ترجیع ہے اورقیاس بھی اسی کا مقتضی ہے۔
    • کان سے جوچیزیں نکلتی ہیں تیں قسم کی ہیں:
      • جو آگ میں پگھل جاتی ہیں
        • سونا، چاندی، لوہا، رانگ، تانبا ، کانسی اور پارہ ۔ان میں خمس ہے۔
      • مائعات یعنی بہنے والی چیزیں
        • پانی اور تیل وغیرہ ۔ان میں خمس واجب نہیں۔
      • جو نہ پگھلتی ہیں اور نہ بہنے والی ہیں۔
        • چونا، گچ، جواہرات مثلاً یاقوت، زمرد، فیروزہ،موتی، سرمہ اور پھٹکڑی وغیرہ ۔ان میں خمس واجب نہیں۔
  • عشر یعنی کھیتی اور پھلوں کی زکٰوة
    • عشر یعنی کھیتی یا پھلوں کی زکٰوة فرض ہے اور اس کی فرضیت کا حکم بھی زکٰوة کی طرح ہے یعنی فرض ہونے کے بعد فوراً ادا کرنا واجب ہے اورتاخیر کرنے سے گناہگار ہو گا ۔
    • پیداوار میں عشر واجب ہونے کے لئے کوئی مقدارِ نصاب مقرر نہیں ہےخواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ سب میں عشر واجب ہوتا ہے بشرطیکہ کم از کم ایک صاع ہو اور اس میں یہ بھی شرط نہیں ہے کہ وہ چیزیں تمام سال تک باقی رہیں پس سبزیات وغیرہ میں بھی عشر واجب ہے اور عشر واجب ہونے کے لئے پوراسال گزارنا بھی شرط نہیں ہے کیونکہ یہ حقیقت میں زمین کی پیداوار میں ہےاور اس لئے پیداوار سال میں کئی بار حاصل ہو تو ہر بار عشر واجب ہو گا
    • اس کے واجب ہونے کی شرطیں یہ ہیں
      اول مسلمان ہونا
      دوم اس کی فرضیت کا علم ہونا،
      سوم وہ زمین عشری ہو پس جو پیداوار خراجی زمین سے حاصل ہواس میں عشر واجب نہیں ہو گا
      چہارم وہ پیدا وار اس قسم کی ہو جس کی زراعت سے زمین کا فائدہ و ترقی مقصود ہوتی ہو، پس جس پیداوار سے زمین کی آمدنی لینا یا زمین کو فائدہ مند بنانا غالب مقصود نہ ہو اس میں عشر واجب نہیں ہے مثلاًلکڑی ( ایندھن) گھانس ، نرکل، چھائو اور کھجور کے پتوں میں عشر واجب نہیں ہوگا گیہوں، چنا، چاول ، ہر قسم کا غلہ ساگ، ترکاریاں، سبزیاں، پھل، پھول،ککڑی، خربوزہ، کھجوریں، گنّا، زیرہ ، کھیرا، شہد وغیرہ پر عشر واجب ہو گا،عشری زمین یا جنگل اور پہاڑوں سے جو شہد حاصل کیا جائے اس میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک اس میں عشر واجب ہو گا اسی پرفتویٰ ہےجیسا کہ کتب فتاویٰ سے ظاہر ہے اسی طرح جو پھل ایسے درختوںسےجمع کئے جائیں جو کسی کی ملکیت نہیں ہیں مثلاً جنگل اور پہاڑوں کے درخت تو ان میں بھی یہی اختلاف ہے کہ طرفین کے نزدیک عشر واجب ہے درختوں پرعشر واجب نہیں ہے وہ بمنزلہ زمین کے ہیں کیونکہ وہ زمین کے تابع ہیں اورزمین کے ساتھ بکتے ہیں اسی طرح گوند رال، لاک وغیرہ اور دوایئوں مثل ہلیلہ، کندر،اجوائن، کلونجی، خطمی وغیرہ پر بھی عشر واجب نہیں ہوتا لیکن اگر زمین کوانہی چیزوں میں لگا دیگا تو عشر واجب ہو گا، کپاس بھی پھل میں داخل ہے اوراس میں عشر ہے اگر گھانس دانہ بننے سے پہلے کاٹ لی جائے تو اس میں عشرواجب ہو گا، ساگ و سبزیات کے بیجوں میں عشر نہیں ہے اگر کسی نے گھر کےصحن وغیرہ میں کوئی پھلدار درخت لگائے اور ان میں پھل آیا، یا اناج و سبزیوغیرہ کچھ بویا تو اس گھر کے باغ یا کھیت کی پیداوار میں عشر واجب نہیں ہوگا کیونکہ وہ گھر کے تابع ہے ۔
      عقل و بلوغ وجوبِ عشر کے لئے شرط نہیں ہے اس لئےلڑکے اور مجنون کی زمین میں بھی عشر واجب ہوتا ہے، اسی طرح جس شخص پر عشر واجب ہو چکا ہے اگر وہ مر جائے اور اناج موجود ہو تو اس میں سےعشر لیا جائے گا لیکن زکٰوة کا یہ حکم نہیں ہے اسی طرح زمین کا مالک ہونا بھی شرط نہیں ہےپس وقف کی زمین اور غلامِ ماذون و مکاتب کی زمین میں بھی عشرواجب ہے .
  • وہ جانور جن پر زکٰوة فرض ہے
    • گائے بیل اور بھینس کی زکٰوة
      • ائے اور بھینس ( نر و مادہ) ایک قسم میں ہیں دونوں کا نصاب ایک ہی ہے اور اگردونوں کے ملانےسے نصاب پورا ہوتا ہو تو دونوں کو ملائیں گے مثلاً بیس گائیں ہوں اور دس بھینسیں تو دونوں کو ملا کر تیس کا نصاب پورا کر لیں گے مگر زکٰوةمیں وہی جانور دیا جائے گا جس کی تعداد زیادہ ہو یعنی اگر تعداد میں گائے زیادہہوں تو زکٰوة میں گائے دی جائے گی اور بھینس زیادہ ہو تو بھینس دی جائے گی جیسا کہ مثال مذکورا میں گائے زیادہ ہیں پس گائے دی جائے گی اور اگر دونوںبرابر ہوں تو اختیار ہے چاہے جس سے ادا کر دے لیکن قسم اعلٰی میں جو جانورکم قیمت کا ہو یا قسم ادنیٰ میں جو جانور زیادہ قیمت کا ہو وہ دیا جائے گا گائےبیل بھینس اور بھینسا میں جب تک تیس سے کم ہوں زکٰوة نہیں ہے جب تیس ہوجائیں اور وہ سائمہ (جنگل میں چرنے والے) ہوں تو ایک گائے یا بھینس کا بچہ نریا مادہ دے جس کو دوسرا سال شروع ہو چکا ہو تیس کے بعد انتالیس تک اورکچھ واجب نہیں ہے اور جب چالیس پورے ہو جائیں تو جو بچہ پورے دو برس کاہو کر تیسرے میں لگ گیا ہو لیا جائے گا خواہ نر ہو یا مادہ ہو اکتالیس سےانسٹھ تک کچھ نہیں اور جب ساٹھ ہو جائیں تو ایسے دو بچے نر یا مادہ واجب ہوں گے جن کو دوسرا سال شروع ہو چکا ہو کیونکہ ساٹھ میں تیس تیس کے دو نصاب ہیں، ساٹھ کے بعد چالیس چالیس اور تیس تیس کا حساب کیا جائے گا اور ہرچالیس میں ایک گائے یا بھینس کا بچہ تیسرے سال کا (دو سالہ) اور ہر تیس میں ایک بچہ دوسرے سال کا( یک سالہ) واجب ہو گا یعنی ہر دس کے بعد واجب بدلتا رہے گاپس ستّر میں ایک تیسرے سال کا ایک دوسرے سال کا بچہ واجب ہو گا کیونکہ اسمیں ایک نصاب چالیس کا ہے اور ایک تیس کا ہے اور اسّی میں چالیس چالیس کےدو نصاب ہیں اس لئے تیسرے سال کے دو بچے واجب ہوں گے علی الہذا القیاس نوے میں تین بچے دوسرے سال والے اور سو میں ایک بچہ تیسرے سال اور دوبچے دوسرے سال کے واجب ہوں گے کیونکہ نوے میں تیس تیس کے تین نصاب ہیں اور سو میں تیس تیس کے دو اور چالیس کا ایک نصاب ہے اور اگر ایسا ہو کہ دوسرے سال کے بچوں سے بھی حساب ٹھیک رہتا ہے اور تیسرے سال کے بچوںسے بھی ٹھیک رہتا ہے تو اختیار ہے دونوں میں سے جو بھی چاہے دیدے مثلاًایک سو بیس گائے بیل ہوں تو چاہے تین بچے تیسرے سال کے دیدے یا چار بچےدوسرے سال کے دیدے کیونکہ اس میں چالیس چالیس کے تین نصاب اور تیس تیسکے چار نصاب ہیں اسی طرح دو سو چالیس میں آٹھ بچے دوسرے سال کے یا چھ بچے تیسرے سال کے دیدیں گائے بیل بھینس اور بھینسا کی زکٰوة میں نر و مادہ کاحکم برابر ہے جو بھی چاہے زکٰوة میں دیدے چرانے والی گائے بھینس میں کم سے کم عمر جس پر زکٰوة واجب ہوتی ہے اور جس کا زکٰوة میں لیا جانا جائز ہےیہ ہے کہ دوسرا سال شروع ہو چکا ہو، اس سے کم کا بچہ زکٰوة میں نہیں لیاجائے گا۔
    • سائمہ(چرنے والے جانوروں) کی زکٰوة
      • جو جانور سال کا اکثر حصہ مباح چرائی پر یعنی جس چرئی میں مالک کوکچھ دینا نہ پڑے اکتفا کرے وہ شرعاً سائمہ ( چرانے والے جانور) کہلاتے ہیں پس سائمہ وہ جانور ہے جو دودھ حاصل کرنے یا بچے ( نسل) لینے کے لئے یاموٹے ہو کر بیش قیمت ہو جانے کے لئے جنگلوں میں چرائے جاتے ہیں ایسے جانوروں میں خواہ وہ نر ہوں یا مادہ یا ملے جلے ہوں زکوة واجب ہے جب کہوہ بقدر نصاب ہوں جو جانورپالتو اور جنگلی جانور کے ملنے سے پیدا ہوا ہو اگراس کی ماں پالتو ہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے یعنی اس بارے میں ماں کااعتبار کیا جائے گا یا اگر ماں پالتو ہے تو بچہ بھی پالتو ہے اور ماں جنگلی ہے تو بچھ بھی جنگلی سمجاھ جائے گا پس بکری اور ہرن سے کوئی جانور پیدا ہو تووہ بکری کی حکم میں ہے اور نیل گاو اور گائے سے پیدا ہو تو وہ گائے کے حکم میں ہے
      • اگر وہ جانور گوشت کھانے یا لادنے یا سواری کے لئے ہوں اور دودھ کےلئے یا نسل بڑھانے کے لئے نہ ہو تو ان میں زکوة نہیں ہےاور اگر جانور تجارت کے لئے ہو تو ان میں تجارتی مال کی طرح قیمت کے حساب سے چالیسواں حصہ زکوة دی جائے گی
      • سال کا نصف سے زیادہ حصہ جنگل میں چرانے سے وہ جانور سائمہ ہوجائیں گے نصف سال یا اس سے کم حصہ چرانے سے سائمہ نہیں ہوں گےاور ان میں زکوة واجب نہیں ہو گی
      • اگر تجارتی جانوروں کو سائمہ بنانے کی نیت سے جنگل میں چرنے کی نیت سے چھوڑ دیا تو نیت سے چرنے کے لئے چھوڑنے کے وقت سے سال شروع ہوگا اور تجارتی مال کا سال ختم ہو جائے گا اسی طرح سائمہ جانوروں کو سال کےدرمیان میں تجارت کی نیت سے بیچ دیا جائے تو اس سال کی زکوة واجب نہ ہوگی بلکہ تجارت کی نیت کے وقت سے سال شروع ہو گا لیکن اگر اس کے پاس نقدی یا مال تجارت کا نصاب ہے تو یہ سائمہ کی قیمت اس میں ملائی جائے گیاور سب کی اکٹھی زکوة اس نقدی و مال تجارت کے نصاب کا سال پورا ہونے پر دی جائے گی
      • اندھے اور پائوں کٹے ہوئے جانوروں میں زکوة نہیں ہے اس لئے کہ وہ سائمہ نہیں ہیں
      • جانوروں کے بچوں میں جب کہ وہ تنہا ہوں زکوة فرض نہیں ہے اگربڑوں کے ساتھ شامل ہوں تو ان میں بھی زکوة ہے یعنی بڑوں سے ملا کر نصاب میں شمار کئے جائیں گے لیکن زکوة مین بڑا جانور دیا جائے گا بچہ نہیں دیا جائےگا
      • جن سائمہ جانوروں میں زکوة واجب ہے ان کی تین جنسیں ہیں اونٹ گائے بکری ان کے علاوہ کسی اور سائمہ میں زکوة واجب نہیں ہے ان تینوں جنسوں:کے نصاب کی تفصیل علیحدہ علیحدہ درج ہے۔
    • اونٹوں کی زکٰوة
      • اونٹوں کا نصاب پانچ اونٹ ہیں اس سے کم میں زکٰوة فرض نہیں، وہ پانچ اونٹ خواہ نر ہوں یا مادہ یا ملے جلے ہوں اور چھوٹے بڑے ملے جلے ہوں سب چھوٹے نہ ہوں، چھوٹا بچہ بڑوں کو ساتھ ملا کر نصاب میں شمار ہو گا لیکن زکٰوة میں لیا نہیں جائے گا، چرنے والے اونٹوں میں کم سے کم عمر جس پر زکٰوةواجب ہوتی ہے اور جس کا زکٰوة میں لیا جانا جائز ہے یہ ہے کہ دوسرا سال شروع ہو چکا ہو اس سے کم عمر کا جائز نہیں ہے پا نچ اونٹ سے لیکر چوبیس اونٹ تک ہر پانچ اونٹ پر ایک ایسے بکری واجب ہو گی جس کو ایک سال پورا ہو کر دوسرا سال شروع ہو گیا ہو خواہ ایک ہی دن اوپر ہوا ہو اور خواہ وہ نر ہویا مادہ ہو، پس پانچ اونٹ پر ایک بکری، دس میں دو، پندرہ میں تین اور بیس میں چار بکری دینا فرض ہے اور درمیان میں کچھ نہیں ہے اور پھر پچیس اونٹ میں ایک اوٹنی جس کو دوسرا برس شروع ہو چکا ہو دی جائے گی چھبیس سے پینتیس تک اور کچھ نہیں اور چھتیس اونٹ میں ایک ایسی اونٹنی جس کو تیسرا برس شروع ہوا ہو دی جائے پھر سینتیس سے پنیتالیس تک اور کچھ نہیں اور چھیالیس میں ایک ایسی اونٹنی جس کو چوتھا برس شروع ہوا ہو دی جائے اور سینتالیس سے ساٹھ تک کچھ نہیں پھر اکسٹھ میں ایک ایسی اونٹنی جس کو پانچواں برس شروع ہوا ہودی جائے اور باسٹھ سے پچھتر تک کچھ نہیں پھر چھہتر میں دو اونٹنیاں دیں جن کوتیسرا برس شروع ہوا ہو اور ستر سے نوے تک کچھ نہیں پھر اکیانوے اونٹ میں دو اونٹنیاں دیں جن کو چوتھا برس شروع ہوا ہو اور بانوے سے ایک سو بیس تک کچھ نہیں پھر جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں تو پھر نیا حساب شروع ہوجائے گا یعنی اگر چار زیادہ ہوئیں تو کچھ نہیں اور جب زیادتی پانچ تک پہنچ جائےیعنی ایک سو پچیس ہو جائے تو چوتھے سال والی دو اونٹنیوں کے ساتھ ایک بکری بھی دی جائے گی اسی طرح ہر پانچ کی زیادتی پر ایک بکری اور دینی آئے گی یعنی ایک سو سینتیس اونٹوں پر دو چوتھے سال والی اونٹنیوں کے ساتھ دو بکریاںاور ایک سو پینتیس پر تین بکریاں اور ایک سو چالیس پر چار بکریاں ملائی جائیں گیاور جب پچیس کی زیادتی ہو جائے یعنی ایک سو پینتالیس ہو جائیں تو دو اونٹنیاں چوتھے سال والی اور ایک اونٹنی دوسرے سال والی واجب ہو گی اور ایک سوپچاس میں تین اونٹنیاں چوتھے سال والی واجب ہوں گی اور جب ڈیڑھ سو سے بھی بڑھ جائے تو پھر نئے سرے سے حساب ہو گا یعنی چوبیس کی زیادتی تک ہر پانچ کی زکٰوة میں ایک بکری کا اضافہ ہو گا پھر جب پچیس کی زیادتی ہو جائے یعنی ایک سو پچھتر ہو جائیں تو (ایک سو پچیاسی ) تک تین چوتھے سال والی اونٹنیوں کےساتھ ایک دوسرے سال والی اونٹنی دی گا اور پھر ایک سو چھیاسی میں تین چوتھےسال والی اونٹنوں کے ساتھ ایک تیسرے سال والی بھی دے گا ایک سو پچانوے تک یہی حکم ہے، جب ایک سو چھیانوے ہو جائیں تو چار اونٹنیاں ایسی دے جن کوچوتھا سال شروع ہوا ہو، دو سو تک یہی حکم ہے، یہاں پہنچ کر دوسرا نیا حساب بھی ختم ہو جاتا ہے اس سے آگے پانچویں سال والی اونٹنی واجب نہیں ہوتی دوسو میں اختیار ہے چاہے ایسی چار اونٹنیاں دے جن کو چوتھا سال شروع ہواہے یعنی ہر پچاس پر چوتھے سال کی اونٹنی کے حساب سے دے اور چاہے توپانچ ایسی اونٹنیاں دے جن کو تیسرا سال شروع ہوا ہو یعنی ہر چالیس میں ایک تیسرے سال کی اونٹنی ہو گی دو سو کے بعد ہمیشہ اسی طرح حساب چلتا رہےگا جس طرح ڈیڑھ سو کے بعد پچاس میں یعنی دو سو تک چلا ہے اونٹ کی زکٰوةمیں جب اونٹ واجب ہوتا ہے تو مادہ جانور یعنی اونٹنی زکٰوة میں دی جائے گی ۔نر جائز نہیں ہے لیکن قیمت کے اعتبار سے جائز ہے پس اگر نر قیمت میں مادہ کے برابر ہو تو جائز و درست ہے اور جب بکری واجب ہوتی ہے تو اس کا مذکریا مونث دینا جائز ہے۔
    • بکری و بھیڑ کی زکٰوة
      • جنگل میں چرنے والی بکریوں اور بھیڑوں کا نصاب چالیس ہے چالیس سے کم میں زکٰوة نہیں ہےاور جب چالیس ہو جائیں اور ان پر سال پورا ہو جائے توایک بکری یا بھیڑ واجب ہو گی ایک سو بیس تک یہی حکم ہے صرف ایک بکری یا بھیڑ واجب ہو گی اور زائد کچھ واجب نہیں ہو گا جب ایک سو اکیس ہو جائیں تو دو بکریاں یادو بھیڑیں واجب ہوں گی دو سو تک یہی حکم ہے اور جب دو سو ایک ہو جائیں تو تین بکریاں یا بھیڑیں واجب ہوں گی پھر تین سے ننانوے تک یہی حکم ہے اور جب چار سو پوری ہو جائیں تو چار بکریاں یا بھیڑیں واجب ہوں گی اس کے بعد ہرسینکڑے پر ایک بکری یا بھیڑ واجب ہو گی خواہ کتنی ہی ہو جائیں یہی حساب رہے گا اور سو سے نیچے کی زیادتی میں کچھ واجب نہیں ہو گا اور جو چیزیں زکٰوة میں مجتمع ہیں ان کو جدا جدا نہیں کریں گے اور جو جدا جدا ہیں ان کو جمع نہیں کریں گے مثلاً اگر کسی شخص کے پاس اسّی بکریاں ہیں تو ان کا حساب جداجدا نصاب بنا کر اس طرح نہیں کریں گے کہ اگر یہ دو آدمیوں کے پاس چالیس چالیس ہوتیں تو دو بکریاں واجب ہوتیں پس ایک آدمی پر دو بکریاں واجب کر دی جائیں ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ جب مالک ایک ہے تو چالیس سے ایک سوبیس تک ایک ہی نصاب رہے گا اور ایک ہی بکری واجب ہو گی اور اگر انہی بکریوں کے دو شخص نصف نصف حصہ کے مالک ہوں تو اس صورت میں دونوں کو جمع کرکے ایک نصاب نہیں بنائیں گے اور یہ نہیں کہیں گے کہ اگر ایک شخص کے پاس اسّی بکریاں ہوتی تو ایک بکری واجب ہوتی لہذا ان دونوں سے بھی ایک بکری لے لی جائے کیونکہ یہ درست نہیں ہے بلکہ دونوں کے الگ الگ نصاب پرایک ایک بکری واجب ہو گی اسی طرح اگر کسی ایک شخص کی ملکیت میں ایک سوبیس بکریاں ہیں تو صدقہ وصول کرنے والا اس سے ایک ہی بکری وصول کرے گاجدا جدا نصاب کر کے ہر چالیس پر ایک بکری کے حساب سے تین بکریاں لینا جائزنہیں ہے اس کے برخلاف اگر ایک سو بیس بکریوں کے تین برابر کے مالک ہوں توہر ایک کے حصہ کی ایک ایک بکری کے حساب سے تین بکریاں وصول کرے گاایک بکری سب کی جگہ لینا درست نہیں ہے اور اگر چالیس بکریاں دو آدمیوں میں برابر برابر مشترک ہوں تو کسی پر زکٰوة نہیں ہو گی کیونکہ ہر ایک کا حصہ نصاب سے کم ہے اونٹوں اور گائے بیلوں میں بھی یہی حکم ہے چرانے والی بکریوں میں کم سے کم عمر جس پر زکٰوة واجب ہوتی ہے اور جس کا زکٰوة میں لیا جانا جائز ہے یہ ہے کہ ایک سال پورا ہو کر دوسرا سال شروع ہو چکا ہوایک سال سے کم کا بچہ زکٰوة میں نہیں لیا جائے گا، یہی حکم بھیڑوں دنبوں سب کے لئے ہے اس پر فتویٰ ہے اور نر و مادہ کی قید نہیں ہے نصاب پورا کرنےکے لئے بکریاں ( نر و مادہ) اور بھیڑ و دنبہ ( نر و مادہ ) ان سب کا ایک ہی حکم ہے کہ ایک کو دوسرے میں ملا کر نصاب کو پورا کریں گے اور مجموعہ پرزکٰوة لی جائے گی مثلاً کسی کے پاس چالیس بکریاں اور چالیس بھیڑیں ہیں تو اسکے دو نصاب نہیں کہیں گے اور دو جانور واجب نہیں ہوں گے بلکہ ان کےمجموعہ یعنی اسی پر ایک بھیڑ یا بکری واجب ہو گی لیکن اگر بکری دے گا تو ادنی ٰدرجہ کی جائز ہے اور بھیڑ دے گا تو اعلیٰ درجہ کی دے گا زکٰوة میں دینےکے لئے اگر صرف بکریاں ( نر و مادہ ) ہیں تو بکریوں سے زکٰوة لی جائے گی،بھیڑ یا دنبہ نہیں لیا جائے گا اور بھیڑیں اور دنبہ ( نر و مادہ) ہیں تو انہی میں سےزکٰوة لی جائے گی بکری نہیں لی جائے گی اور اگر مخلوط ہوں جو زیادہ ہےزکٰوة میں بھی وہی لی جائیں گی اور اگر برابر ہوں تو اختیار ہے چاہے جس میں سے ادا کر دے لیکن اعلیٰ قسم میں سے ادنیٰ قیمت کا اور ادنیٰ قسم میں سے اعلیٰ قیمت کا دے جیسا کہ گائے کی زکٰوة میں بیان ہوا ہے
  • وہ جانور جن میں زکٰوة نہیں
    • گھوڑوں پر زکٰوة واجب نہیں ہے لیکن اگر تجارت کے لئے ہوں تو وہ مال تجارت کے حکم میں ہیں جب ان کی قیمت بقدر نصاب ہو گی تب ان پر تجارتی مال کی طرح قیمت کی حسب سے چالیسواں حصہ زکٰوة واجب ہو گی خواہ وہ جنگل میں چرتے ہوں یا گھر پر گھاس کھانے والے ہوں
    • وقف کے مویشیوں میں زکٰوةنہیں
    • گدھے، خچر، چیتےاور سکھائے ہوئے کتوں اور ہرن وغیرہ جنگلی جانوروں پر زکٰوة فرض نہیں ہے لیکن اگر تجارت کے واسطے خرید کر رکھے ہوں توتجارتی مال کی طرح ان کی زکٰوة قیمت کے اعتبار سے چالیسواں حصہ دی جائےگی
    • جن سائمہ جانوروں میں زکٰوة واجب ہے اگر ان کے صرف بچے ہوں اوران بچوں کے ساتھ بڑا جانور ایک بھی نہ ہو تو ان بچوں پر زکٰوة واجب نہیں ہےیہی صحیح قول ہے اور اگر ان کے ساتھ ایک جانور بھی پوری عمر کا ہو گا تو وہ سب بچے نصاب پورا کرنے میں اس کے تابع ہو جائیں گے اور ان سب کی تعدادملا کر نصاب پورا ہونے پر بالاجماع زکٰوة واجب ہو جائے گی مگر زکٰوة میں بچےنہیں دئےجائیں گے بلکہ پوری عمر کا بکری دیا جائے گا مثلاً کسی کے پاس بکریوں کے انتالیس بچے ایک سال سے کم عمر کے ہیں ایک بکری ایک سال سے اوپرکی ہے تو ان پر زکٰوة واجب ہو گی پس اگر وہ ایک سال سے زیادہ عمر کی بکریاوسط درجہ کی ہے تو وہی لی جائے گی اور اول درجہ کی ہے تو صاحب مالاوسط درجہ کی بکری دے گا اور اگر وہ بکری اوسط درجہ سے کم کی ہو توپھر یہی واجب ہے اسی طرح اونٹوں اور گائے بیلوں میں سمجھ لیجئے، اگر کئی جانور واجب ہوں تو اگر بڑوں سے زکٰوة پوری نہ ہوتی ہو تو بڑے جانور جوموجود ہیں وہی واجب ہوں گے اور باقی ساقط ہو جائیں گے، چھوٹے جانور ملاکر تعداد پوری نہیں کریں گے
    • جو جانور کام کرتے ہیں مثلاً ہل چلاتے اور زمین سیراب کرتے ہیں یا ان پربوجھ لادا جاتا ہو یا سواری کے لئے ہوں یا نصف سال سے زیادہ گھر پر چارہ کِھلایا جاتا ہو ان پر زکٰوة نہیں ہے لیکن گھر پر چارہ کھانے والے جانور اگرتجارت کے لئے ہوں تو ان میں زکٰوة قیمت کے اعتبار سے واجب ہو گی بلکہ سائمہ بھی اگر تجارت کے لئے ہوں تب بھی اس کی زکٰوة قیمت لگا کر دی جائے گی جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے
  • زکٰوة ادا کرنے کا وقت
    • جب زکوة کے مال پر سال پورا ہو جائے تو زکوة فوراً ادا کرنا واجب ہےاگر بغیر عذر تاخیر کرے گا تو گناہگار ہو گا وہ شخص فاسق ہو گا اور اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی بظاہر تھوڑی تاخیر مثلاً ایک یا دو دن کی تاخیر سےبھی گناہگار ہو گا بعض کے نزدیک فوراً سے مراد یہ ہے کہ آنے والے سال تک تاخیر نہ کی جائے
    • نصاب کا مالک ہونے کے بعد وقت سے پہلے زکوة دے دینا جائز ہے نصاب( دو سو درہم) کا مالک ہونے سے پہلے زکوة پیشگی دینا جائز نہیں، پس وقت سےپہلے زکوة دینا تین شرطوں سے جائز ہے اول یہ کہ پیشگی زکوة دیتے وقت صاحبِ نصاب ہو دوم یہ کہ جس نصاب کی زکوة پیشگی دیدی وہ نصاب سال پورا ہونے پر بھی کامل رہے سوم یہ کہ اس درمیان میں نصاب منقطع یعنی بلکل ختم نہ ہو جائے
    • اگر صاحبِ نصاب ایک سال سے زیادہ کی زکوة پیشگی دیدے تو جائز ہےاس کی مثال یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس تین سو درہم ہیں اس نے ان میں سےدو سو درہم کی زکوة بیس سال کے لئے سو درہم دیدئے تو یہ جائز ہے
    • جس طرح ایک نصاب کا مالک ہونے کے بعد وقت سے پہلے زکوة دینا جائزہے اسی طرح بہت سے نصابوں کی زکوة بھی وقت سے پہلے دینا جائز ہے لیکن ان سب نصابوں کا جنس واحد سے ہونا ضروری ہے ورنہ جائز نہیں مثلاً کسی کے پاس تین سو درہم ہیں اس نے ان میں سے سو درہم زکوة میں اس تفصیل سےدیدئے کہ موجودہ نصاب دو سو درہم کی زکوة میں پانچ درہم اور غیر موجوددرہموں یا سونے یا چاندی یا مال تجارت کے انیس نصابوں کی زکوة میں جن کےحاصل ہونے کی اس کو اسی سال میں امید ہے پچانوے درہم دیے پھر اگر وہ انیس نصاب اس کو اسی سال میں حاصل ہو گئے تو یہ زکوة صحیح ہو گی اوراگر وہ غیر موجودہ نصاب اسی سال میں حاصل نہ ہوئے بلکہ آئندہ سال حاصل ہوئے تو اب یہ ان کی زکوة میں شمار نہ ہو گی بلکہ ان کی زکوة علیحدہ دیناضروری ہے اور وہ سو درہم پیشگی زکوة موجودہ نصاب یعنی دو سو درہم کی بیس سال کے لئے ہو جائے گی جیسا کہ مثال ٣ میں ہے اسی طرح اگر کسی کےپاس سو درہم ضرورت سے زیادہ رکھے ہوئے ہیں اور سو درہم کہیں اور سےملنے کی امید ہے اس نے دو سو درہم کی زکوة سال پورا ہونے سے پہلے پیشگی دیدی تو یہ درست ہے لیکن اگر سال ختم ہونے پر روپیہ نصاب سے کم ہو گیا تو زکوة معاف ہو گی اور وہ دی ہوئی زکوة نفلی صدقہ ہو گی
    • اگر کسی کے پاس دو نصاب ہیں ایک سونے کا اور دوسرا چاندی کا اور اسنے ان میں سے ایک کی زکوة وقت سے پہلے دیدی تو وہ دونوں سے ادا ہو گی کیونکہ یہ دونوں ایک ہی جنس ہیں اور اگر ان میں سے ایک نصاب ہلاک ہو گیا تواس صورت میں دوسرا نصاب متعین ہو جائے گا اور وہ اسی کی زکوة ہو گی
    • اگر وقت سے پہلے کسی فقیر کو زکوة دیدی اور سال پورا ہونے سے پہلےوہ فقیر مالدار ہو گیا یا مر گیا یا مرتد ہو گیا تو وہ زکوة ادا ہو گی اس لئے کہ زکوة دیتے وقت اس کا صحیح مصرف میں ہونا ضروری ہے آگے پیچھے کاکوئی اعتبار نہیں
    • اگر کسی شخص کے پاس مال نصاب تھا اس نے زکوة نہیں دی یہاں تک کہ وہ بیمار ہو گیا تو اب وارثوں سے پوشیدہ زکوة دے اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو اگر اس کو یہ گمان غالب ہے کہ قرض لے کر زکوة ادا کر دے گااور پھر اس قرض کے ادا کرنے میں کوشش کرے گا اور ادا کر سکے گا ایسے آدمی کے لئے افضل یہ ہے کہ قرض لے کر ادا کرے پھر اگر قرض ادا کرنےپر قادر نہ ہوا یہاں تک کہ مر گیا تو امید ہے کہ اللّٰہ تعالٰی آخرت میں اس کاقرض ادا فرمائے گا اور اگر ادا کر سکنے کا گمان غالب نہ ہو تو افضل یہ ہےکہ قرض نہ لے اس لئے کہ صاحب قرض کی دشمنی بہت ہی سخت ہے۔
  • زکٰوة ادا کرنے کا طریقہ
    • مالکِ مال کو اختیار ہے کہ ان ساتوں مصارف میں سے ہر قسم کے آدمی کوتھوڑا تھوڑا دے یا اہک ہی قسم کے مصرف کو سب زکٰوة دیدے اگرچہ دوسری اقسام کے لوگ بھی موجود ہیں، اور اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ سب زکٰوة ایک ہی شخص کو دیدے
    • اور جس قدر زکٰوة دینی ہے اگر وہ بقدر نصاب نہیں ہے تو ایک شخص کودینا افضل ہے اور ایک فقیر کو نصاب کی مقدار یا اس سے زیادہ دینا مکروہ ہے لیکن اگر دیدے گا تو جائز ہو گی اور یہ حکم اس وقت ہے جب کہ فقیر قرضدارنہ ہو اور اگر قرضدار ہو تو اس قدر دینا کہ قرض کی رقم منہا کرنے کے بعدنصاب کی مقدار سے کم ہو تو بلا کراہت جائز ہے، اسی طرح اگر اس کے اہل و عیال بہت ہوں تو اس کو اس قدر دینا(بلا کراہت) جائز ہے کہ اگر وہ سب اہل وعیال پر تقسیم کرے تو ایک قدر نصاب (دو سو درہم) سے کم پہنچے اور اگر فقیرکے پاس پہلے سے کچھ رقم ہو تو اتنا دینا مکروہ ہو گا جس سے مل کر وہ رقم نصاب کو پہنچ جائے
    • ایک فقیر کو اس قدر دینا مستحب ہے کہ اس روز اس کو سوال کی حاجت نہ ہو، اس میں اس کی اور اس کے اہل و عیال کی ضرورت کا اعتبار کیا جائے گاضرورت سے مراد صرف خوراک نہیں ہے بلکہ کپڑا، تیل مکان کا کرایہ وغیرہوہ تمام چیزیں ہیں جن کا وہ اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال کے لئے اس روز محتاج ہے
    • زکٰوة کے مال کا ایک شہر سے دوسرے شہر بھیجنا مکروہِ تنزیہی ہے اوربعض کتابوں میں مکروہِ تحریمی لکھا ہے لیکن دس صورتوں میں دوسرے شہر کوبھیجنے میں کوئی کراہت نہیں ہےاوروہ یہ ہے:
      جبکہ دوسرے شہر میں زکٰوة دینے والے کوئی رشتہ دار ہوں
      یا دوسرے شہر کے لوگ اس شہر والوں سے زیادہ محتاج ہوں،
      یا دوسرے شہر کا فقیر زیادہ پرہیزگار ہو،
      یا وہ زیادہ نیک ہوں،
      یا وہ ایسا شخص ہو جس سے مسلمانوں کو زیادہ نفع پہنچ رہا ہو،
      یا طالب علم ہو،
      یا وہ شخص زاہد ہو،
      یا دارالحرب سے دارالسلام کے فقرا کی طرف بھیجے،
      یا مسلمان قیدیوں کے لئے دوسرے شہر میں بھیجے،
      یا اگر وقت سے پہلے زکٰوة ادا کی جائے تو دوسرے شہروں کو بھیجنا خواہ بلاکسی وجہ کے ہو تب بھی مکروہ نہیں ہے ۔
  • جن لوگوں کو زکٰوة دینا جائز نہیں ہے
    • زکٰوة کا مال کافروں کو دینا اگرچہ ذمی ہوں بالاتفاق جائز نہیں ہے اِسیطرح عشروخراج بھی ان کو دینا جائز نہیں ہے نفلی صدقہ کافروں کو دینا بالاتفاق جائز ہے صدقہ فطر و نذر و کفارہ یعنی باقی تمام واجب صدقات کے دینے میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ و امام محمد کے نزدیک ان کا ذمی کافر کو دینا جائز ہےلیکن بہتر یہ ہے کہ مسلمان فقرا کو دیا جائے اس کو ترجیع ہے حربی کافرمستامن ( یعنی جو امن میں آیا ہوا ہو ) ذمی کافر کے حکم میں ہے اور حربی کافرمحارب ( لڑنے والا) کو کسی قسم کا صدقہ دینا جائز نہیں ہے
    • مالدار کو جو نصاب کا مالک ہو زکٰوة دینا جائز نہیں ہے خواہ وہ نصاب بڑھنے والے مال کا ہو یا نہ بڑھنے والے مال کا ہو لیکن اس مال کا اس کی ضروریات اصلیہ مثلاً رہنے کا مکان، گھر کا سامان، کپڑے، خادم، سواری ہتھیاراور کتابیں وغیرہ سے فارغ ہونا شرط ہے بڑی بڑی دیگیں، بڑے بڑے فرش اورشامیانے وغیرہ ایسی چیزیں جن کی برسوں میں کبھی کبھار ضرورت پڑتی ہوںوہ ضروریات اصلیہ میں شامل نہیں ہیں ایسے سامان والے شخص کو زکٰوة دیناجائز نہیں ہے
    • غنی کا غلام اگر مکاتب نہ ہو تو اس کو زکٰوة دینا جائز نہیں اور یہ حکم اس وقت ہے جب کہ اس غلام پر اتنا قرض نہ ہو جو اس کےکسب و رقبہ(ذات)کو محیط ہو لیکن اگر یسا ہو تو اس کو زکٰوة دینا جائز ہے غنی کے مکاتب غلام کو زکٰوة دینا جائز ہے مالدار آدمی کی چھوٹی اولاد کو زکٰوة دینا جائز نہیں ہےاس لئے کہ باپ کے مالدار ہونے سے نابالغ اولاد بھی مالدار شمار ہو گی مالدارآدمی کی بالغ اولاد کو جب کہ فقیر ہوں زکٰوة دینا مطلقاً جائز ہے، مالدار آدمی کی عورت یا بالغ بیٹی اگر فقیر ہے تو اس کو زکٰوة دینا جائز ہے کیونکہ باپ اور خاوند کے مالدار ہونے سے بیوی یا بیٹی مالدار نہیں ہو جاتی، مالدار آدمی کاباپ اگر مفلس ہے تو اس کو زکٰوة دینا جائز ہے کیونکہ بیٹے کے مالدار ہونےسے باپ مالدار شمار نہیں ہوتا مالدار عورت کے مفلس نابالغ لڑکے کو زکٰوة دیناجائز ہے اس لئے کہ وہ اپنی ماں کے مالدار ہونے سے مالدار شمار نہیں ہو گا
    • اپنے اصل یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اوپر کے لوگ اور اپنےیعنی فروع بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی وغیرہ میں نیچے کے لوگ ان کو زکٰوة دیناجائز نہیں بلکہ ہر واجب صدقہ کفارات صدقہ فطر اور صدقہ نذر کا دینا بھی جائز نہیں ہے لیکن نفلی صدقہ ان کو دینا جائز ہے بلکہ اولیٰ و مستحسن ہے، ان اصول و فروع رشتوں کے سوا باقی رشتیداروں مثلاً بھائی بہنوں، چچا چچی، خالہ خالوں وغیرہ کو دینا جبکہ وہ فقیر ہوں زکٰوة و صداقاتِ واجبہ کا دینا جائز بلکہ اولیٰ ہے سوتیلی ماں اپنے بیٹے کی بیوی اور اپنی بیٹی کے خاوند کو زکٰوة دیناجائز ہے اور اصول و فروع اور بیوی کے علاوہ جس رشتہ دار کا نفقہ اس پرواجب ہے اگر وہ اس رشتہ دار کو زکٰوة دے تو جائز ہے جبکہ اس زکٰوة کو نفقہ کے حساب میں شمار نہ کرے، اور یہ بات مکروہ ہے کہ اپنےغریب والدین کوزکٰوة دینے کے لئےحیلہ کیا جائے کہ زکٰوة کا مال کسی فقیر کو دیا جائے پھراس فقیر کو کہا جائے کہ وہ اس کے والدین کو دے دے۔
  • مصارف زکٰوة و عشر

      مصارف مصرف کی جمع ہے، شرع میں اس مسلمان کو کہتے ہیں جس کو زکٰوةدینا شرعیت کے مطابق درست ہے جو مصارف زکٰوة کے ہیں وہی عشر، صدقہ فطر، کفارات، نذر اور دیگر صدقاتِ واجبہ کے بھی ہیں معدنیات اور دفینوں کےمصارف غنیمت کے مصارف کی مانند ہیں، جن کی تفصیل کتب فقہ میں جہاد کےبیان میں ہے قرآن مجید میں زکٰوة کو آٹھ مصارف بیان ہوئے ہیں ان میں سےایک مصرف المولفتہ قلوب (کفار کی تالیف کے لئے دینا) بہ اجماع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین ساقط ہو چکا ہے اب سات مصارف باقی ہیں جن میں زکٰوةکا خرچ کرنا جائز ہے وہ یہ ہیں

    • فقیر
      • فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس تھوڑا سا مال ہو یعنی بڑھنے والا اورقرضہ سے بچا ہوا ہونے کو باوجود نصاب کی مقدار سے کم ہو یا بقدر نصاب ہو لیکن بڑھنے والا نہ ہو، فقیر عالم کو زکٰوة دینا فقیر جاہل کو دینے سے افضل ہے
    • مسکین
      • مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور وہ اپنے کھانےکے لئے یا بدن ڈھاپنے کے لئے مانگنے کا محتاج ہو اور اس کے لئے سوال کرناحلال ہو بخلاف فقیر کے کہ اس کو سوال کرنا حلال نہیں پس مسکین فقیر سےزیادہ تنگ حال ہوتا ہے ۔
    • عامل
    • رقاب (غلام)
    • غارم ( قرضدار)
    • فی سبیل اللّٰہ
    • ابن السبیل ( مسافر)
  • عامل /عاشر کے احکام
    • عاشر اُس کو کہتے ہیں جسے بادشاہِ اسلام نے راستہ پر اِس لئے مقرر کیاہو کہ جو تاجر لوگ مال لیکر گزریں ان سے صدقات وصول کرے اور وہ اس لئےمقرر کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس کے عوض میں تاجروں کو چوروں اور ڈاکئوں سےبچائے اور امن دے پس اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان کی حفاظت پر قادرہو اس لئے بادشاہ ان سے جو مال لیتا ہے وہ ان اموال کی حفاظت کے لئےلیتا ہے
    • . عاشر کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ آزاد، مسلمان اور غیر ہاشمی ہو پس عاشر کا غلام اور کافر ہونا درست نہیں ہے، اور ہاشمی کے لئے اگر بادشاہ بیتِ المال سے کچھ مقرر کر دے یا ہاشمی تبرع کے طور پر اس خدمت کو انجام دے اور اس کا معاوضہ عشر و زکٰوة سے نہ لے تو اس کو مقرر کرنا جائز ہے
    • مال دو قسم کا ہوتا ہے اول ظاہر اور وہ مویشی ہیں اور وہ مال ہے جسکو تاجر لیکر عاشر کے پاس سے گزرے دوم اموالِ باطن ہیں وہ سونا چاندی اورتجارت کا وہ مال ہے جو آبادی میں اپنی جگہوں میں ہو عاشر اموال ظاہر کاصدقہ لیتا اور ان اموالِ باطن کا صدقہ بھی لیتا ہے جو تاجر کو ساتھ ہوں
    • صدقہ وصول کرنے کی ولایت کے لئے کچھ شرطیں ہیں اول یہ کہ بادشاہِ اسلام کی طرف سے چوروں اور ڈاکوں سے حفاظت پائی جائے، دوم یہ کہ اس پرزکٰوة واجب ہو، سوم مال کا ظاہر ہونا اور مالک کا موجود ہونا پس اگر مالک موجود ہے اور مال گھر میں ہے تو عاشر اس سے زکٰوة نہیں لے گا
    • شرع میں عاشر کا مقرر کرنا جائز و درست ہے حدیث شریف میں جو عاشرکی مذمت آئی ہے وہ اس عاشر کے متعلق ہے جو لوگوں کے مال ظلم سے لیتاہے
    • اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس کے مال کو سال پورا نہیں ہوا، یا یہ کہےکہ اس کے ذمہ قرضہ ہے یا یہ کہے کہ میں نے زکٰوة دیدی ہے، یا یہ کہےکہ میں نے دوسرے عاشر کو دیدی ہے اور جس کو وہ دینا بتاتا ہے وہ واقعی عاشر ہے، اگر وہ ان تمام صورتوں میں اپنے بیان پر حلف اٹھائے تو اس کا قول مان لیا جائے گا اور اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ دوسرے عاشر کی رسیددکھائے، اگر سائمہ جانوروں کے متعلق بیان کرے کہ ان کی زکٰوة اس نے اپنےشہر کے فقیروں کو دیدی ہے تو اس کا قول نہیں مانا جائے گا بلکہ اس سےدوبارہ وصول کی جائیگی خواہ بادشاہِ اسلام کو اس کی ادائیگی کا علم بھی ہوکیونکہ یہ اموالِ ظاہرہ میں سے ہے جس کی زکٰوة لینے کا حق بادشاہ ہی کوہے اس کو خود تقسیم کر دینے کا اختیار نہیں ہے اگر صاحبِ مال یہ کہے کہیہ مالِ تجارت کا نہیں ہو تو اس کا قول مان جائے گا
    • جن امور میں مسلمانوں کا قول مانا جاتا ہے ذمی کافر کا قول بھی مانا جائےگا کیونکہ اس کے مال میں بھی وہ تمام شرطیں پائی جانی ضروری ہیں جو زکٰوةمیں ہیں اور اس سے زکٰوة کا ہی دو چند لیا جاتا ہے لیکن ذمی کافر اگر یہ کہےکہ میں نے فقرا کو دیدیا ہے تو اس کا قول نہیں مانا جائے گا اس لئے کہ اہل ذمہ کے فقرا اس کا مصرف نہیں ہیں اور مسلمانوں میں صرف کرنے کا اس کو اختیارنہیں ہے۔
  • بیت المال کے اقسام اور اس کے مصارف
    • بیت المال میں جو مال رکھا جاتا ہے وہ چار قسم پر ہے اول چرنے والے جانوروںکی زکٰوة اور عشر و اموالِ ظاہرہ کی زکٰوة جس کی تفصیل عشر کی بیان میں گزری ہے ان کے مصارف وہی ہیں جو زکٰوة کے مصارف ہیں جو کہ بیان ہوچکے ہیں دوم غمتوں، کانوں اور دفینوں کا مال اس کے مصارف
      اس زمانے میں تین قسم کے لوگ ہیں
      یہ یتیم
      مسکین
      اور ابن السبیل سوم خراج وجزیہ اور وہ مال جو عاشر ذمی کافروں اور مستامن حربیوں کے تاجروں سے لیتا ہے
      اس مال کومسلمانوں کی مصلحتوں میں خرچ کیا جائے یعنی لڑنے والوں کے عطیات دینے،
      حدود ملک کی حفاظت،
      قلعوں کے بنانے
      اور ملک کے راستوں کی حفاظتی چوکیاں قائم کرنے،
      پل وغیرہ بنانے
      اور درست کرانے،
      بڑی نہروں کو کھودنے،
      مسافرخانے،
      مسجدیں بنانے
      دریائوں کا پانی روکنے کے لئے بند بنانے میں خرچ کیاجائے،
      قاضیوں، مفتیوں، محتسبوں، معلموں اور طالبعلموں کا روزینہ بھی اس میں سے دیا جائے
      چہارم وہ اموال جو پڑے ہوئے ملیں جس مال کا کوئی وارث نہ ہو یہ مال مریضوں کےخرچ اور ان کی دوائوں میں خرچ کریں بشرطیکہ وہ فقیر ہو،
      اور ان مُردوں کے کفن میں جن کے پاس مال نہ ہو
      اور لاوارث فقیربچوں میں جو کہیں پڑے ہوئے ملیں
      اور ان کی خطا کے جرمانے میں اور جوشخص کسب سے عاجز ہو اس کے کھانے پہننے وغیرہ میں
      اور اسی قسم کےدیگر کاموں میں صرف کرے
      خلاصہ یہ کہ
      اس کا مصرف عاجز فقرا ہےبادشاہ اسلام کو چاہئے کہ چار بیت المال بنائے یعنی ہر قسم کے مال کے لئے الگ الگ بیت المال ہو، ایک کا مال دوسرے میں شامل نہ کیا جائے اگر ان میں سےکسی قسم میں کوئی مال نہ ہو تو بادشاہ کو جائز ہے کہ دوسری قسم میں سے قرض لے کر اس کے مصارف میں خرچ کر دے اور جب اس بیت المال کی رقم آ جائےوہ قرضہ اس سے ادا کر کے اس بیت المال کو واپس کردے جس سے قرض لیا تھالیکن جو مصارف ان میں مشترک ہوں اگر ان میں خرچ کیا ہو تو واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے مثلاً صدقات یا غنیمتوں کا مال خراج والوں پر صرف کیا ہواور وہ فقیر ہوں تو اب اس بیت المال کو کچھ بھی واپس نہ کیا جائے کیونکہ فقیرہونے کی وجہ سے وہ ان صدقات کے بھی مستحق ہیں بادشاہِ اسلام پر واجب ہے کہ حق داروں کو ان کے حقوق پہنچائے اور مال کو ان سے روک کر نہ رکھے، اور ان کو ان کی ضرورت اور علم و فضل کے مطابق دے اگر اس نے اس میں قصور کیا تو اللّٰہ تعالٰی اس سے حساب لے گا بادشاہِ اسلام اور اس کے مددگاروں کو بیت المال سے اِسی قدر لینا حلال ہے جو کہ انکے اور ان کے اہل و عیال کے لئے کافی ہو اگر بادشاہ اس میں قصور کرے گاتو اس کا وبال اس کی گردن پر ہوگا۔
  • زکوۃ فارم