Fiqh - فقہ - اسلامی فقہ - Tazkia.org - Urdu

معاشرت

  • تعریف
    • انسان اکیلے نہیں بلکہ مل جل کر رہنے کا عادی ہے۔ہر شخص کی صلاحیتیں خوبیاں خامیاں اور حالات مختلف ہوتے ہیں ۔ان مختلف حالات میں مختلف افراد آپس میں کیسے میل جول رکھتے ہیں ۔یہ ان کی معاشرت ہوتی ہے ۔یہ اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی ۔اچھی معاشرت کے لیٔے کیا کرنا ہوتا ہے یہ تجربے اور تجزیٔے سے حاصل ہوسکتا ہے لیکن اس میں جب اسلام سے رہنمائی حاصل کی جائے تو یہ اسلامی معاشرت بن جائے گا جو یقیناً باقی تجرباتی معاشرتوں سے بہتر ہوگا کیونکہ خالقِ کل اپنے بندوں کو خوب جانتے ہیں ۔یہاں اسی کو پیش کیا جائے گاان شاء اللہ۔
  • معاشرت کے بارے میں حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی تحریر
    • بعد حمد وصلوٰة کے عرض ہے کہ اس وقت دین کے پانچ اجزا میں سے عوام نے تو صرف دو ہی جزو کو داخل دین سمجھا۔ یعنی عقائد و عبادات اور علمائے ظاہر نے تیسرے جز وکو بھی دین اعتقاد کیا یعنی معاملات کو۔ مشائخ نے چوتھے جز کو بھی دین قرار دیا۔ یعنی اخلاق باطنی کی اصلاح کو۔ لیکن ایک پانچویں جز وکو کہ وہ آداب معاشرت ہے قریب قریب ان تینوں طبقوں نے، الا ّماشاء اللہ، اکثر نے تو اعتقاداً دین سے خارج اور بے تعلق قرار دے رکھا ہے اور اسی وجہ سے اور اجزا سے تو کم و بیش خاص طور پر یا عام طور پر یعنی وعظ میں تعلیم و تلقین بھی ہے۔ لیکن اس جز وکا کبھی زبان پر نام تک نہیں آتا۔ اسی لیے علماًعملاً یہ جز بالکلیہ نسیاً منسیا ہو چلا ہے اور میرے نزدیک باہمی الفت و اتفاق میں جو کمی ہے اس کا بڑا سبب یہ سوئے معاشرت بھی ہے، کیوں کہ اس سے ایک دوسرے کو تکدر و انقباض ہوتا ہے اور وہ رافع و مانع ہے انبساط و انشراح کا، جو اعظم مدار ہے الفت باہم دیگر کا۔ حالانکہ خود اس خیال کو کہ اس کو دین سے کوئی مس نہیں، آیات و احادیث و اقوال حکمائے دین کے رد کرتے ہیں۔
      چنانچہ اس میں بعض بطور نمونہ کے پیش کرتا ہوں: حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں جگہ فراخ کردو تو جگہ فراخ کردیا کرو اور جب تم سے کہا جائے کہ کھڑے ہو جاوٴ تو کھڑے ہو جایا کرو۔ اور ارشاد ہے کہ دوسرے کے گھر میں گو وہ مردانہ ہو مگر خاص خلوت گاہ ہو بے اجازت لیے مت جایا کرو۔ دیکھیے ،اس میں اپنے ہم جلیسوں کی راحت کی رعایت کا کس طرح حکم فرمایا ہے۔
      رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایک ساتھ کھانے کے وقت دو دو چھوارے ایک دم سے نہ لینا چاہیے، تاوقتیکہ اپنے رفیقوں سے اجازت لے لے۔
      دیکھیے، اس میں ایک خفیف امر سے محض اس وجہ سے کہ بے تمیزی ہے اور دوسروں کو ناگوار ہوگا ممانعت کردی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد ہے کہ جو شخص لہسن اور پیاز کھائے تو ہم سے علیحدہ رہے دیکھیے !کہ اس خیال سے کہ دوسروں کو ایک خفیف سی اذیت ہوگی، منع فرمایا اور ارشاد فرمادیا کہ مہمان کو حلال نہیں کہ وہ میزبان کے پاس اس قدر قیام کرے کہ وہ تنگ ہو جائے۔ اس میں ایسے عمل سے ممانعت ہے جس سے دوسروں کے قلب پر تنگی ہو۔
      اور ارشاد فرمایا کہ لوگوں کے ساتھ کھانے کے وقت گو پیٹ بھر جائے مگر جب تک کہ دوسرے لوگ فارغ نہ ہو جائیں ہاتھ نہ کھینچے، کیوں کہ اس سے دوسرا کھانے والا شرماکر ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ شاید اس کو ابھی حاجت باقی ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا کام نہ کرے جس سے دوسرا آدمی شرما جائے۔ بعض آدمی طبعی طور پر مجمع میں کسی چیز کے لینے سے شرماتے ہیں اور ان کو گرانی ہوتی ہے یا ان سے مجمع میں کوئی چیز مانگی جائے تو انکار و عذر کرنے سے شرماتے ہیں۔ گو پہلی صورت میں لینے کو جی چاہتا ہو اور دوسری صورت میں دینے کو جی نہ چاہتا ہو ایسے شخص کو مجمع میں نہ دے، نہ اس سے مانگے۔
      اور حدیث میں وارد ہے کہ ایک بار حضرت جابر در دولت پر حاضر ہوئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناگواری سے فرمایا، میں ہوں میں ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بات صاف کہے، جس کو دوسرے سمجھ سکیں۔ ایسی گول بات کہنا جس کے سمجھنے میں تکلیف ہو الجھن میں ڈالنا ہے۔
      اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہ تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اس لیے کھڑے نہ ہوتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار ہوتا تھا۔
      اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی خاص ادب و تعظیم یا کوئی خاص خدمت کسی کے مزاج کے خلاف ہو اس کے ساتھ یہ معاملہ نہ کرے، گو اپنی خواہش ہو، جی چاہتا ہو، مگر دوسرے کی خواہش کو اس پر مقدم رکھے بعضے لوگ جو بعض خدمات میں اصرار کرتے ہیں، وہ بزرگوں کو تکلیف دیتے ہیں اور ارشاد ہے کہ دو شخصوں کے درمیان جاکر بیٹھنا حلال نہیں بدون ان کی اجازت کے اس سے ظاہر ہے کہ کوئی ایسی بات کرنا، جس سے دوسروں کو کدورت ہو، نہ کرنا چاہیے۔
      اور حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چھینک آتی تو منہ ہاتھ یا کپڑے سے ڈھانک لیتے اور آواز کو پست فرماتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنے جلیس کی اتنی رعایت کرے کہ اس کو سخت آواز سے بھی اذیت و وحشت نہ ہو اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ ہم جب نبی کریمﷺ کے پاس آتے تو جو شخص جس جگہ پہنچ جاتا وہیں ہی بیٹھ جاتا‘ یعنی لوگوں کو چیر پھاڑ کر آگے نہ بڑھتا، اس سے بھی مجلس کا ادب ثابت ہوتا ہے کہ ان کو اتنی ایذا بھی نہ پہنچائے۔
      اور حضرت سعید بن المسیب سے مرسلاً مروی ہے کہ عیادت میں مریض کے پاس زیادہ نہ بیٹھے، تھوڑا بیٹھ کر اٹھ کھڑا ہو۔ اس حدیث میں کس قدر دقیق رعایت ہے اس امر کی کہ کسی کی گرانی کا سبب نہ بنے، کیوں کہ بعض اوقات کسی کے بیٹھنے سے مریض کو کروٹ بدلنے میں، پاوٴں پھیلانے میں یا بات چیت کرنے میں ایک گونہ تکلیف ہوتی ہے۔ البتہ جس کے بیٹھنے سے اس کو راحت ہو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔
      اور حضرت ابن عباس نے غسل جمعہ کے ضروری ہونے کی یہی علت بیان فرمائی ہے کہ ابتدائے اسلام میں اکثر لوگ غریب، مزدوری پیشہ تھے، میلے کپڑوں میں پسینہ نکلنے سے بدبو پھیلتی تھی۔ اس لیے غسل واجب کیا گیا تھا، پھر بعد میں یہ وجوب منسوخ ہوگیا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ اس کی کوشش واجب ہے کہ کسی کو کسی سے معمولی اذیت نہ پہنچے۔
      سنن نسائی میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ شب برأت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر سے آہستہ اٹھے اور اس خیال سے کہ حضرت عائشہ سوتی ہوں گی بے چین نہ ہوں، آہستہ سے نعل مبارک پہنے اور آہستہ سے باہر تشریف لے گئے اور آہستہ سے کواڑ بند کیے۔ اس میں سونے والے کی کس قدر رعایت ہے کہ ایسی آواز اور کھڑکا بھی نہ کیا جائے کہ جس سے سونے والا دفعةً جاگ اٹھے اور پریشان ہو ۔
      اور صحیح مسلم میں حضرت مقداد بن اسود سے ایک طویل قصہ مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان تھے اور آپﷺ ہی کے یہاں مقیم تھے، بعد عشا آکر لیٹ رہے تھے، حضور اقدس ﷺدیر میں تشریف لاتے تو آپﷺ سلام تو کرتے کہ شاید جاگتے ہوں، مگر ایسی آواز سے سلام کرتے کہ اگر جاگتے ہوں تو سن لیں اور اگر سوتے ہوں تو آنکھ نہ کھلے۔ اس سے بھی وہی اہتمام معلوم ہوا جو اس سے پہلے حدیث میں معلوم ہوا تھا اور بکثرت حدیثیں اس باب میں موجود ہیں۔
      روایات فقہیہ میں ایسے شخص کو جو طعام وغیرہ یا د رس یا اوراد میں مشغول ہو سلام نہ کرنا مصرّح ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بلاضرورت کسی مشغول بہ شغلِ ضروری کے قلب کو منتشر اور دو جانب کرنا شرعاً ناپسند ہے۔ اسی طرح گندہ دہنی کے مرض میں جو شخص مبتلا ہو اس کو مسجد میں نہ آنے دینا بھی فقہاء نے نقل کیا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی اذیت کے اسباب کا انسداد نہایت ضروری ہے۔
      ان دلائل میں مجموعی طور پر نظر کرنے سے بدلالت واضحہ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے نہایت درجہ اس کا خاص اہتمام کیا ہے کہ کسی شخص کی کوئی حرکت، کوئی حالت دوسرے شخص کے لیے ادنیٰ درجہ میں بھی کسی قسم کی تکلیف و اذیت یا ثقل و گرانی یا ضیق و تنگی یا تکدر و انقباض یا کراہت و ناگواری یا تشویش و پریشانی یا توحش و خلجان کا سبب و موجب نہ ہو اور حضرت شارع علیہ السلام نے صرف اقوال اور اپنے فعل سے ہی اس کے اہتمام کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ خدام کے ذرا بے اعتنائی کے موقع پر ان کو صحیح آداب پر عمل کرنے پر مجبور فرمایا اور ان سے کام لے کر بھی بتلایا ہے۔ چنانچہ ایک صحابی ہدیہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بدون سلام و استیذان داخل ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”باہر واپس جاوٴ اور کہو السلام علیکم، کیا میں حاضر ہوجاوٴں؟اور فی الحقیقت حسن اخلاق مع الناس کی بنیاد و اساس یہی امر ہے کہ کسی کو کسی سے ایذا وکلفت نہ پہنچے، جس کو حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت جامع الفاظ میں ارشاد فرمایا: "اَلْمُسْلِمُ مَنْ سِلمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہ وَ یَدِہ"․
      اور جس امر سے اذیت ہو گو وہ صورةً خدمت مالی ہو یا جانی ہو یا ادب و تعظیم ہو، جو عرف میں حسن خلق سمجھا جاتا ہے، مگر اس حالت میں وہ سب سوئے خُلق میں داخل ہیں، کیوں کہ راحت کہ جانِ خُلق ہے مقدم ہے خدمت پر، کہ پوستِ خُلق ہے اور قشر بلالبّ کا بیکار ہونا ظاہر ہے اور گو شعائر ہونے کے مرتبہ میں باب معاشرت موٴخر ہے باب عقائد و عبادات فریضہ سے، لیکن اس اعتبار سے کہ عقائد و عبادات کے اخلال سے اپنا ہی ضرر ہے اور معاشرت کے اخلال سے، دوسروں کا ضرر ہے اور دوسروں کو ضرر پہنچانا اشد ہے، اپنے نفس کو ضرر پہنچانے سے اس درجہ میں اس کو ان دونوں پر تقدم ہے آخر کوئی بات تو ہے جس کے سبب اللہ تعالیٰ نے سورہٴ فرقان میں ﴿اَلَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الأرْضِ ھوْنًا و اِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلامًا﴾ کو جو دال ہے حسن معاشرت پر ذکر میں مقدم فرمایا ؛صلوة و خشیت و اعتدال فی الانفاق و توحید پر، جو کہ باب طاعات مفروضہ و عقائد سے ہے اور یہ تقدم علی الفرائض تو محض بعض وجوہ سے ہے، لیکن نفل عبادت پر اس کا تقدم من کل الوجوہ ہے۔
      چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضورﷺکے روبرو دو عورتوں کا ذکر کیا گیا۔ ایک تو نماز ‘روزہ کثرت سے کرتی تھی، مگر اپنے ہمسایوں کو ایذا پہنچاتی تھی اور دوسری نماز‘ روزہ نہ کرتی تھی مگر ہمسایوں کو ایذا نہ دیتی تھی۔ آپ نے پہلی کو دوزخی اور دوسری کو جنتی فرمایا۔ اور باب معاملات سے گو اس حیثیت مذکور سے یہ مقدم نہیں۔ کیوں کہ ایک کی کوتاہی سے بھی دوسروں کو ضرر پہنچتا ہے۔ مگر دوسری حیثیت سے یہ اس سے بھی اہم ہے اور وہ یہ کہ گو عوام نہ سہی، مگر خواص معاملات کو داخل دین سمجھتے ہیں اور باب معاشرت کو بجز اخص الخواص کے بہت سے خواص بھی داخل دین نہیں سمجھتے اور گو بعض سمجھتے بھی ہیں، مگر معاملات کے برابر اس کو مہتم بالشان اعتقاد نہیں کرتے اور اسی وجہ سے عملاً بھی اس کا اعتنا کم کرتے ہیں اور اخلاق باطنی کی اصلاح عبادت مفروضہ کے حکم میں ہے جو حیثیت تقدم معاشرت علی العبادات کی اوپر مذکور ہوچکی ہے وہ یہاں پر بھی جاری ہے۔ غرض اس جز ویعنی باب معاشرت کا سبب اجزائے دین سے مقدم اور مہتم بالشان ہونا کسی سے من وجہ اور کسی سے من کل وجہ ثابت ہوگیا، مگر باوجود اس کے عوام کا تو بکثرت اور خواص میں سے بعض کا اس کی طرف خود عملاً بھی التفات کم ہے۔ اور جو کسی نے خود عمل بھی کیا مگر دوسروں کو خواہ وہ اجانب ہوں یا اپنے متعلق ہوں، روک ٹوک یا تعلیم و اصلاح کرنا مفقودہے۔
  • ازدواجی زندگی
    • یہ اسلامی معاشرت کی پہلی کڑی ہے ۔اگر یہ درست ہو تو معاشرت کو اسلامی بنانے میں بہت کم محنت درکار ہوتی ہے۔شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس کو خراب کردے ۔اس لئے میاں بیوی کے درمیان فتور ڈالنا اس کی اولین ترجیح ہے۔اللہ تعالٰی نکاح سے خوش ہوتے ہیں اور طلاق دینا اگر چہ جائز ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ازواج مطہرات کا کتنا خیال رکھتے تھے اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ وہ اچھا ہے جو اپنے گھر والو ں کے نزدیک زیادہ اچھا ہودوسری طرف بیوی کے لئے یہ فرمایا کہ میں اگر کسی غیر اللہ کے لئے سجدہ جائز قرار دیتا تو بیوی کے لئے خاوند کو سجدہ جائز قرار دیتا ﴿لیکن چونکہ سجدہ صرف اللہ کے لئے ہوتا ہے اس لئے ایسا نہیں کیا﴾۔ اس کے ساتھ ایک حدیث اور بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ کسی مخلوق کی وہ اطاعت جو خالق کی نافرمانی کے طرف لے جائے وہ جائز نہیں۔پس ا ٓپس کی دلجوئی اور اللہ کی نافرمانی سے بچنے پر بیک وقت جو عمل ممکن ہو اس سے گریز نہ کیا جائے۔ازدواجی زندگی خوشگوار ہو تو بچوں کی صحیح تربیت ممکن ہوجاتی ہے جو کہ اپنی نفس کے اصلاح کے بعد سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
  • رسم و رواج

      آپس میں رہنے سہنےسے کچھ چیزیں معاشرے میں ایسی چل پڑتی ہیں جن پر آنکھیں بند کر کے عمل کیا جاتا ہے۔ان کو رسم و رواج کہتے ہیں ۔اگر رسم و رواج اچھا ہو یعنی شریعت کے مطابق ہو تو اس سے بہت آسانی ہوجاتی ہے لیکن اگر خلاف شریعت ہو تو یہ فساد کا بہت بڑا جڑ بن جاتا ہے۔اس فساد سے بچنا ایمان کے لئے بہت بڑا امتحان بن جاتا ہے ۔بعض دفعہ وہ خواتین و حضرات جو کہ عبادات و معاملات میں بڑے اچھے ثابت ہوتے ہیں رسم و رواج کے آگے بے بس نظر آتے ہیں اس لئے کہا جاتا ہے کہ معاشرت کو درست کرنے کے لئے عبادات و معاملات کو صحیح کرنے کے لئے جتنا ایمان ضروری ہوتا ہے رسم و رواج کو درست کرنے کے لئے اس سے زیادہ درکار ہوتا ہے۔اس میں خوشی غمی کی رسمیں ،فیشن ،کھانے پینے کے طریقے ،تعلقات برتنے کے انداز وغیرہ شامل ہیں۔اس میں زور اس پر ہوتا ہے کہ فلاں کیا کہے گا ۔کہیں بھول کر بھی یہ نہیں سوچا جاتا کہ خدا کیا کہے گا۔اس لئے اس میں خدا سے بے وفائی اور مخلوق کی دلجوئی صاف نظر آتی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ سے دور کردیتی ہے۔اس کی وجہ سے عورتوں کے لئے پردہ کرنا اور مردوں کے لئے ڈاڑھی رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔اسلام سادگی کا درس دیتا ہے اور رسم ر رواج عموماً تکلفات کا ،جس کی وجہ سے محدود آمدنی ناکافی ثابت ہوتی ہے جس کا نتیجہ حرام ذرائع سے مال کمانا ہوتا ہے،کم سے کم سادگی کا اصول یہ ہے کہ جتنی چادر ہے اتنے پاؤں پھیلاؤ۔ پس اگر طاقت ہو تو جائز سہولتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن اہل حقوق کا خیال رکھ کر۔ اب ان رسومات کی چند قسمیں بیان کی جاتی ہیں:

    • شادی بیاہ کی رسمیں
      • اسلام نے سادگی کا درس دے کر شادی کے عمل کو آسان کردیا اور زنا کے قریب جانے سے بھی منع کردیا کہ یہ بہت برا رستہ ہے جبکہ شیطان نے اپنے گماشتوں کو استعمال کرکے رسومات اور تکلفات کے ذریعے شادی کو بہت مشکل اور زنا کو بے حیائی اور مادر پدر آزادی کو فروغ دے کر آسان کردیا۔لڑکیاں ماں باپ کے گود میں بیٹھ کر اپنے اشناؤں کے ساتھ میسجنگ کرتی ہیں اور والدین کو پتہ بھی نہیں چلتا اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب پانی سر سے اوپر گزر چکا ہوتا ہے۔شادی میں صرف دو چیزیں ہیں ۔ایک نکاح دوسرا ولیمہ اور وہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق لیکن ٓج دیکھا جاتا ہے کہ بارات اور مہندی کے لغویات کے ساتھ اب ویڈیو اور ہوٹلوں میں رات گئے تک محافل نے اس کو محض ایک شیطانی آوارہ گردی بنادیا۔سچ ہے کہ دولہا دلہن کا چہرہ بعد میں دیکھتا ہے اور ویڈیو والے پہلے ۔ وہ ہوٹل میں اور گھر میں ایسے دندھناتے پھرتے ہیں کہ جیسے یہ سب کچھ ان ہی کے لئے ہورہا ہے ۔اس حالت میں ایسی شادیاں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو دعوت دے رہی ہوں گی یا عذاب کو۔ان میں بعض رسومات تو ایسی ہوتی ہیں کہ باقاعدہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیئے جنگ کے میدان گرم ہوجاتے ہیں۔آتش بازی ، بے جا فائرنگ ،اسراف اور نمود و نمائش کے وہ مظاہرے ہوتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔مہندی کے رسم میں پڑوسیوں کی زندگی کو اجیرن کرنے کا اچھا خاصا اہتمام کیا جاتا ہے۔اپنے بے وقوفی پر فخر کیا جاتا ہے جیسا کہ ایک بے وقوف چودھری نے کہا کہ فلاں میرے ساتھ کیا مقابلہ کرے گا میرے گھر سے تو صرف ڈوم ستر ہزار روپے لے گئے ہیں۔ہمیں آپ ﷺ کی بیٹی کی اور صحابیات کی شادیاں یاد رکھنی چاہیئے جس میں نہ صرف یہ کہ گناہوں سے بچت ہے بلکہ اس زندگی میں بھی سکھ اور آرام ہے۔
    • فوتگی کی رسمیں
      • ان میں بھی اسلام ضروریات کو پورا کرنے پر ، تکلفات سے بچنے پراور اہل صدمہ کے ساتھ تعاون اور ہمدرسی پر زور دیتا ہے۔اس کے برعکس ہمارے رواج ان احکامات کے ضد پر جسکا نتیجہ خسر فی الدنیا و الآخرۃ ہوتا ہے زور دیتا ہے۔
        جنازے کے بارے میں حکم ہے کہ جب تیار ہوجائے تو اس میں دیر نہ کیا جائے۔جنازے کے بعد فوراً مردے کو دفنانے کا حکم ہے۔تین دن تک اہل صدمہ کے ہاں چولہا نہ جلے اور اس کے پڑوسی اور برادری اس کا دکھ بانٹے اور ان کو کھلائے۔اس میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ رسمی چیزوں میں مر حوم کا ترکہ استعمال نہ ہو کیونکہ یہ ورثاء کا مشترکہ حق ہے جب تک سب اس سے خرچ کی اجازت نہ دے اس سے خرچ ناجائز ہے اور ورثاء میں نابالغ ہوں تو پھر تو اجازت ممکن ہی نہیں۔ مرحوم کا ترکہ ورثاء میں جلد سے جلد تقسیم کرنے کا اور سب کو اس پر قبضہ دلانے کا حکم ہے۔رسم قل ، جمعراتوں اور چالیسویں کا شریعت میں اجازت نہیں ہے البتہ کوئی مرحوم کے لئیے اپنے مال سے کسی بھی وقت بلا تخصیص وقت و طریقہ ایصال ثواب کرنا چاہے تو اس کا بڑا اجر ہے۔اس میں پوشیدگی اختیار کرنا زیادہ مستحسن ہے۔مرد مردے کا مردانے حصے میں اور عورت کا زنانے حصے میں رکھنا ضروری ہے۔مردے پر آوازسے رونا ،بین کرنا ،ایسے انداز میں بات کرنا کہ لواحقین کا غم بڑھ جائے ،جائز نہیں۔مرحوم کے لواحقین کے ساتھ اپنے علاقے کے لوگوں کو تین دن تک تعزیت کرنا چاہیئے ۔اس سے زیادہ نہیں تاکہ ان کا غم مزید تازہ نہ ہو البتہ باہر کے لوگ تین دن کے بعد بھی پہلے دفعہ تعزیت کرسکتے ہیں۔تعزیت اس انداز سے کی جائے کہ اس سے لواحقین کی تسلی ہو اور صبر کا جو اجر ہے وہ ان کا ضائع نہ ہو۔
    • سالگرہ اور برسی کی رسم
      • ان دونوں رسموں کا شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور اغیار سے لی گئی ہیں۔اس میں سالگرہ میں تو بہت ساری لغویات شامل ہوتی ہیں ۔برسی کو اگر ثواب کا کام نہ سمجھا جائے تو ایک غیر ضروری کام ہوگا اور اگر ثواب سمجھ کر کیا جائے گا تو بدعت بن جائے گا۔
    • ختنے کا رسم
      • اس کے لئے بھی لوگوں کو جمع کرنے کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔حضرت عثمان ؓ کو ایک دفعہ اس کے لئے بلایا گیا تو وہ تشریف نہیں لے گئے اور فرمایا کہ ہمیں اس کے لئے نہیں بلایا جاتا تھا۔
  • قانون کی پاسداری
    • کسی بھی مہذب معاشرے میں قانون کی ضرورت ہوتی ہے۔قانون کا مطلب یہ ہے کہ ذاتی فائدے کی بجائے اجتماعی فائدے کو دیکھا جائے جس کے لئے اس معاشرے کے عقلاء سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ہر اجتماعی کام کے لئے کچھ قوانین بنادئیے جاتے ہیں ۔اس پر عمل سے مجموعی طور پر سب کا بھلا ہوتا ہے مثلاً ٹریفک کے قوانین کہ اگر ان پر عمل میں کوتاہی ہوتی ہے تو ناخوشگوار حادثات وجود میں آتے ہیں اس سے بچنے کے لئے ان قوانین پر سب کے لئے عمل لازمی قرار دیا جاتا ہے تاکہ سب کو فائدہ ہو۔اسلام جو کہ احکم الحاکمین کا بنایا ہوا ہے اس میں سب کی رعایت کی گئی ہے اس لئے اس میں جو معاشرتی قوانین ہیں ان پر عمل سے معاشرہ میں امن و سکون قائم ہوتا ہےاگر چہ مجرم کو اس سے تکلیف ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے قصاص میں حیات ہے۔اگر قصاص نہ ہو تو طاقتور کمزوروں کو کچا چبا جائیں جیسا کہ غیر مہذب لوگ کرتے ہیں۔
  • انصاف

      قانون ایسا بنانا چاہیئے اور اس پر ایسا عمل ہونا چاہیئے کہ سب کے ساتھ انصاف ہو تا نظر آئے۔یہ نہیں کہ مالدار کو چھوڑ دیا جائے اور غریب کو سزا ملے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد پاک ہے ۔الملک یبقیٰ مع الکفر و لا یبقیٰ مع الظلم کہ ملک کفر کے ساتھ تو بچ سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔یہود اس لئے راندہ درگاہ ہوئے کہ بارسوخ لوگوں کے لئے الگ قانون ہوتا تھا اور عام افراد کے لئے دوسرا۔عدالتی نظام کو جتنا آسان اور عام آدمی کے لئے قابل رسائی بنایا جائے گا اتنا ہی انصاف کا امکان زیادہ ہوگا۔اسلام میں حدود کے نفاذ اسی لئے بہت مؤثر اور علی الاعلان کیا جاتا ہے کہ مقصود سزا دینا نہیں بلکہ جرموں کو اس کی سزا کی دہشت کے ذریعے ختم کرنا مقصود ہے۔

    • معاشی انصاف
      • انصاف میں معاشی انصاف بھی آتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی وسائل تک سب کی رسائی ممکن ہو۔ملازمتیں میرٹ کی بنیاد پر تقسیم ہوں۔ہر علاقے کو جو زمینی وسائل اللہ تعالیٰ نے دی ہوں ان پر اس علاقے کے لوگوں کا حق تسلیم کیا جائے۔مزدور کو مزدوری آ سانی سے ملے اور مزور تندہی سے کام کریں تاکہ مالک کا نقصان بھی نہ ہو۔ملک و قوم کے وسائل ضائع ہونے سے بچائے جائیں۔
    • سرکاری ملازمتو ں کے ساتھ انصاف
      • سرکاری ملازمتوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر سفارشوں کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں اور اس پر مزید یہ کہ ڈیوٹی پوری نہیں کی جاتی حالانکہ کسی ایک آدمی کا حق اگر کھایا جائے تو اس کو منانا یا اس کو حق لوٹانا آسان ہوتا ہے لیکن پورے قوم کا پیسہ اگر کھایا گیا تو اس کو کیسے لوٹایا جاسکے گا ۔ا سلئے اس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔اس طرح رشوتوں نے سرکاری کاموں کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ بعض محکموں میں علی الاعلان انتہائی بے شرمی کے ساتھ رشوت طلب کیا جاتا ہے۔
    • وسائل کی تقسیم اور استعمال میں انصاف
      • اگر ملکی وسائل کا کوئی نگران ہو تو وہ اس کے پاس امانت ہیں وہ قوم کے بہبود کے مطابق ہی خرچ ہونے چاہیئے ۔حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ نے ملکی وسائل کے بارے میں کچھ زرین اصول حجة اللہ البالغہ میں تحریر فرمائے ہیں ۔
        ١۔ جس علاقے میں وسائل واقع ہوں اس علاقے کے لوگوں میں ان کا نفع برابری کے اصول پر تقسیم کرنا چاہیئے جیسا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا ۔
        ۲۔ لوگوں کو محدود ذاتی دولت کی ملکیت کا اختیار بھی دینا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے صلاحیتیں مختلف بنائی ہیں اس کے مطابق وہ بہتر زندگی گزارنے کے اہل ہوں۔
        ۳۔کوئی ایسی کوشش جس سے دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجائے اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیئے ۔
        ۴۔ ان چاروں پر عمل کچھ اس طرح ہونا چاہیئے کہ نظام کا فائدہ پورے قوم کو بحیثیت مجموعی ہو۔
        حضرت یہ بھی لکھتے ہیں کہ روٹی کپڑا ،مکان اور اتنی استطاعت کہ ہر شخص نکاح کرسکے حکومت پر ہر شخص کا پیدائشی حق ہے۔
  • حقوق و فرائض

      معاشرت کا سارا دار و مدار حقوق و فرائض پر ہے ۔ہر شخص پرمندرجہ ذیل حقوق ہیں۔

    • اللہ تعالٰی کے حقوق
      • اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے ، اس کی اطاعت کیا جائے۔اس سے محبت کی جائے،ہر کام اس کی رضا کے لئے کیا جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے اور اس کا کثرت کے ساتھ ذکر کیا جائے۔
    • آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حقوق
      • آپ کا یہ حق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لایا جائے،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اتباع کیا جائے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہر نسبت کے ساتھ محبت کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کثرت سے درود شریف بھیجا جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ناموس کی حفاظت کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کو ہر حاضر غائب تک پہنچانے کی کوشش کی جائے۔
    • صحابہ رضی اللہ عنھم کے حقوق
      • ان کے ساتھ محبت کی جائے۔ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی جائے۔ان کو کسی چیز میں بھی ملامت کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ان کے دشمنوں کے ساتھ دلی تعلق نہ رکھا جائے۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ صحابہ (رض) سے مراد امھات المؤمنین رضی اللہ علیھن ، اہل بیت طہار رضی اللہ عنھم و عنھن اور عام صحابہ اور صحابیات (رضی اللہ عنھن) سب شامل ہیں۔
    • علماء کے حقوق
      • علماء کا ادب کیا جائے،ان کا کہا مانا جائے،ان کو انبیاء کا وارث مانا جائے اور ان کی خدمت کی جائے اور ان سے علم سے سیکھا جائے۔
    • والدین کے حقوق
      • ان کا کہا مانا جائے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ان سے محبت کی جائے ۔ان کی خدمت کی جائے اور ان کی وفات کے بعد ان کے لئے ایصال ثواب کیا جائے اور والد کے دوستوں اور ماں کے سہیلیوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔
    • اولا دکے حقوق
      • ان کی پیدائش پر اچھا نام رکھا جائے۔ان کی بہترین کفالت کی ساتھ ان کو اچھی تعلیم دی جائے اور ان کی اچھی تربیت کی جائے۔ان کی ساتھ محبت کیا جائے، ان میں باہم فرق سے اجتناب کیا جائے۔ان کے لئے بشرط حلال و امکان مناسب ترکہ چھوڑا جائے تاکہ وہ بعد میں مفلوک الحال نہ پھرتے رہیں۔ان کی اچھی جگہ شادی کیا جائے۔
    • شریک حیات کے حقوق
      • بیوی کے خاص حقوق

          بیوی کے اپنے خاوند پر کچھ تومالی حقوق ہیں جن میں مہر ، نفقہ ، اوررہائش شامل ہے اورکچھ حقوق غیر مالی ہیں جن میں بیویوں کے درمیان تقسیم میں عدل انصاف کرنا ، اچھے اوراحسن انداز میں بود باش اورمعاشرت کرنا ، بیوی کوتکلیف نہ دینا ۔

        • مالی حقوق
          • مہر کی بروقت ادایئگی
            • مہر وہ مال ہے جو بیوی کااپنے خاوند پر حق ہے جوعقد یا پھر دخول کی وجہ سے ثابت ہوتا ہے ، اوریہ بیوی کا خاوند پر اللہ تعالی کی طرف سے واجب کردہ حق ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے
              اورعورتوں کوان کے مہر راضی خوشی دے دو ۔ النساء ( 4 )
              اورمہر کی مشروعیت میں اس عقد کے خطرے اورمقام کا اظہار اورعورت کی عزت و تکریم اوراس کے لیے اعزاز ہے ۔
          • نان ونفقہ
            • علماء اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ بیویوں کا خاوند پر نان ونفقہ واجب ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگرعورت اپنا آپ خاوند کے سپرد کردے توپھرنفقہ واجب ہوگا ، لیکن اگر بیوی اپنے خاوندکونفع حاصل کرنے سے منع کردیتی ہے یا پھر اس کی نافرمانی کرتی ہے تواسے نان ونفقہ کا حقدار نہیں سمجھا جائے گا ۔ عقد نکاح کی وجہ سے عورت خاوند کے لیے محبوس ہے ، اورخاوند کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر نکلنا منع ہے ، تواس لیے خاوند پرواجب ہے کہ وہ اس کے بدلے میں اس پرخرچہ کرے ، اوراس کے ذمہ ہے کہ وہ اس کوکفایت کرنے والا خرچہ دے ، اوراسی طرح یہ خرچہ عورت کا اپنے آپ کوخاوند کے سپرد کرنے اوراس سے نفع حاصل کرنے کے بدلے میں ہے ۔ بیوی کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا ، پینا ، رہائش وغیرہ ، یہ سب کچھ خاوند کے ذمہ ہے اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو اوروہ غنی بھی ہوتوپھر بھی خاوند کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے
              { اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان عورتوں کا روٹی کپڑا اوررہائش دستور کے مطابق ہے } البقرۃ ( 233 )
              اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالٰی نے کچھ اس طرح فرمایا
              اورکشادگي والا اپنی کشادگی میں سے خرچ کرے اورجس پر رزق کی تنگی ہو اسے جو کچھ اللہ تعالٰی نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا چاہيے (الطلاق )
          • رہائش مہیا کرنا
            • یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اس کے لیے اپنی وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش تیار کرے ۔ (الطلاق 6 ) ۔ { تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہا ں انہيں بھی رہائش پذیر کرو }
        • غیرمالی حقوق
          • بیویوں کے درمیان عدل وانصاف
            • بیوی یا اپنے خاوند پر حق ہے کہ اگر اس کی اور بھی بیویاں ہوں تووہ ان کے درمیان رات گزارنے ، نان ونفقہ اورسکن وغیرہ میں عدل و انصاف کرے ۔
          • حسن معاشرت
            • خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی کا برتاؤ کرے ، اوراپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جواس کےلیے محبت والفت کا با‏عث ہوں جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے
              اوران کے ساتھ حسن معاشرت اوراچھے انداز میں بود باش اختیار کرو } النساء ﴿١۹﴾ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہےکہ عورتوں کے بارہ میں میری نصیحت قبول کرو اوران سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کر ﴿ صحیح بخاری﴾
          • بیوی کوتکلیف سے دوچارنہ کرنا
            • جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا : تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو﴿ صحیح مسلم ﴾۔یہ اسلامی اصول بھی ہے ، اورجب کسی اجنبی اوردوسرے تیسرے شخص کونقصان اورتکلیف دینا حرام ہے توپھر بیوی کوتکلیف اورنقصان دینا تو بالاولی حرام ہوگا ۔
      • شوہر کے حقوق

          بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ خاوند کے حقوق توبیوی کے حقوق سے بھی زيادہ عظیم ہیں اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
          اوران عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ ، ہاں مردوں کوان عورتوں پر درجہ اورفضیلت حاصل ہے البقرۃ ﴿ 228 ﴾ ۔
          بیوی پر شوہر کے کچھ یہ ہیں

        • اطاعت کا وجوب
          • اللہ تعالی نے مرد کوعورت پرحاکم مقررکیا ہے جواس کا خیال رکھے گا اوراس کی راہنمائی اوراسے حکم کرے گا جس طرح کہ حکمران اپنی رعایا پر کرتے ہیں ، اس لئے کہ اللہ تعالی نے مرد کوکچھ جسمانی اورعقلی خصائص سے نوازا ہے ، اوراس پر کچھ مالی امور بھی واجب کیے ہیں ۔
            اللہ تعالی کافرمان ہے۔ مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالٰی نے ایک کودوسرے پر فضيلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں (النساء 34 ) ۔
            حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں ۔ علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ { مرد عورتوں پر حاکم ہیں } یعنی وہ ان پر حاکم اورامیر ہیں ، یعنی ان کی اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اطاعت کی جائے گی ، اوراس کی اطاعت اس کے اہل وعیال کے لیے احسان اوراس کے مال کی محافظ ہوگی ۔
        • جماع کا حق
          • خاوند کا بیوی پر حق ہے کہ وہ بیوی سے نفع حاصل کرے ، جب عورت شادی کرلے اوروہ جماع کی اہل بھی ہو توعورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کوعقد نکاح کی بنا پر خاوند کے طلب کرنے پر خاوند کے سپرد کردے اورجب بیوی جماع کرنے میں خاوند کی بات تسلیم نہ کرے تویہ ممنوع ہے اوروہ کبیرہ کی مرتکب ہوئي ہے ، لیکن اگر کوئی شرعی عذر ہوتو ایسا کرسکتی ہے مثلا حیض ، یا فرضی روزہ ، اور بیماری وغیرہ ہو ۔
            ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
            (جب مرد اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی انکار کردے توخاوند اس پر رات ناراضگي کی حالت میں بسر کرے توصبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں ) صحیح بخاری حديث نمبر ( 3065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1436 ) ۔
        • خاوند کی ناپسندیدہ شخص کو گھر میں داخل نہ ہونے دینا
          • خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے ۔
            ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
            کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں ( نفلی ) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے ، اورکسی کوبھی اس کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ لیکن اس کی اجازت ہو توپھر داخل کرے صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4899 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1026 ) ۔
        • خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلنا
          • خاوند کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی بیوی گھر سے باہر نہ نکلے۔
        • تادیب
          • خاوند کوچاہیے کہ وہ بیوی کی نافرمانی کے وقت اسے اچھے اوراحسن انداز میں ادب سکھائے نہ کہ کسی برائی کے ساتھ ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کواطاعت نہ کرنے کی صورت میں علیحدگی اورہلکی سی مارکی سزا دے کرادب سکھانے کا حکم دیا ہے ۔
            علماء احناف نے چارمواقع پر عورت کومار کے ساتھ تادیب جائز قرار دی ہے جو مندرجہ ذيل ہیں :
            جب خاوند چاہے کہ بیوی بناؤ سنگار کرے اوربیوی اسے ترک کردے
            جب بیوی طہر کی حالت میں ہواورخاوند اسے مباشرت کے لیے بلائے توبیوی انکار کردے ۔
            نماز نہ پڑھے ۔
            خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے ۔
            تادیب کے جواز پر دلائل :
            اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
            اورجن عورتوں کی نافرمانی اوربددماغی کا تمہیں ڈر اورخدشہ ہوانہيں نصیحت کرو ، اورانہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو ، اورانہیں مار کی سزا دو } النساء ( 34 ) ۔
        • اپنے خاوند کی خدمت کرنا
          • اس پر بہت سے دلائل ہيں جن میں سے کچھ کا ذکر تو اوپربیان ہوچکاہے۔
            شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالٰی کا قول ہے:
            بیوی پر اپنے خاوند کی اچھے اوراحسن انداز میں ایک دوسرے کی مثل خدمت کرنا واجب ہے ، اوریہ خدمت مختلف حالات کے مطابق ہوتی ہے ، توایک دیارتی عورت کی خدمت شہرمیں بسنے والی عورت کی طرح نہیں ، اوراسی طرح ایک طاقتور عورت کی خدمت کمزوراورناتواں عورت کی طرح نہیں ہوسکتی ۔
            دیکھیں الفتاوی الکبری ( 4 / 561 ) ۔
    • رشتہ داروں کے حقوق
      • شریعت مطہرہ نے تمام بنی نوع انسان کو باہمی حسن سلوک قائم کرنےقطع رحمی اور بدسلوکی سے بچنے کی تلقین اور ترغیب دی ہے‘ جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے
        واتقوا اللہ الذی تساء لون بہ والارحام“ ۔ (النساء)
        ترجمہ:․․․”اور ڈرتے رہو اللہ سے جس کے واسطے سوال کرتے ہو آپس میں اور خبردار رہو قرابت والوں سے
        اس آیت کے ذیل میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے تحریر فرمایاہے۔
        اہل قرابت کے ساتھ چونکہ قرب واتحاد مخصوص اور بڑھاہوا ہے اس لئے ان کی بدسلوکی سے اب خاص طور پر ڈرایا گیا کیونکہ ان کے حقوق
        دیگر افراد انسانی سے بڑھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سورہٴ بنی اسرائیل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے
        واٰت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل ولاتبذر تبذیراً“(بنی اسرائیل:۲۶ )
        ترجمہ:․․․”اور قرابت دار کو (بھی) اس کا حق ادا کر اور محتاج اور مسافر کو (بھی ان کا حق اداکر) اور مال کو فضولیات میں نہ اڑا“۔(۲) مولانا
        عبد الماجد دریا آبادی لکھتے ہیں:
        اسلام نفس جمع مال وکسب مال کا مانع نہیں‘ البتہ پہلے تو وہ کسب مال کے لئے شرائط جائز وحلال کی قید لگاتا ہے اور پھر صرف مال کے قاعدے مقرر کرتا ہے کہ مال ودولت پر تو عزیزوں کے‘ مسکینوں کے‘ نادار اور مسافروں‘پردیسیوں کے حق قائم ہیں‘ یہ انہیں کے کام میں آنے کی چیزیں ہیں ”حقہ حق کا لفظ مالی وغیر مالی (یعنی اخلاقی) ہرقسم کے حقوق کو شامل ہے‘ لیکن یہاں ذکر حقوق مالی ہی کا ہورہا ہے‘ حق کے لفظ نے یہ بھی بتادیا کہ عزیزوں ‘ مسکینوں وغیرہ کی اعانت واجب ہے‘ ان کا حق ہے کہ وہ مالداروں سے اعانت طلب کریں اور مالداروں پر لازمی ہے کہ ان پر احسان رکھ کر نہیں‘ اپنا فرض سمجھ کر ان کی اعانت کریں‘ یہ معنی ہیں صحیح سوشلزم (اشتراکیت) کے۔ نہ یہ کہ ایک طرف ناداروں کو سرمایہ داروں کے خلاف بھڑکا دیا جائے اور غصہ دلایا دیا جائے اور دوسری طرف نظام سرمایہ داری مالداروں کے قلب میں قساوت پیدا کردے‘ خدمت والدین کا حکم ابھی ابھی مل چکا ہے‘ اس کے معاً بعد یہ ہدایت لانا گویا یہ کہنا ہے کہ حقوق خدمت صرف والدین تک محدود نہ رہیں‘ والدین کے بعد ہی دوسرے عزیزوں کا نمبر ہے اور پھر درجہ بدرجہ ہرتعلق اور سابقہ رکھنے والے کا“۔
        اسی طرح سورہٴ روم میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
        فاٰت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل ذلک خیر للذین یریدون وجہ اللہ واولئک ھم المفلحون۔ (الروم: ۳۵)
        ترجمہ:․․․”سو (اے مخاطب) تو قرابت دار کو اس کا حق دیا کر اور (اسی طرح) مسکین اور مسافر کو۔ ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو اللہ کی
        رضا کے طالب رہتے ہیں اور یہی لوگ تو فلاح پانے والے ہیں“۔
        مولانا عبد الماجد دریا آبادی آیت مذکورہ کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
        اسلامی نظام معاشیات میں درجہ بدرجہ عزیزوں کے اور پھر تمام دوسرے اہل حاجت کے حصے مقرر ہیں ”حقہ“ لفظ حق بہت قابل غور ہے" ہر صاحب جائیداد کے مال میں ان سب کا حق مقرر ہوگیا ہے" ان کی ادائیگی خود اپنے سود وبہبود کے لحاظ سے واجب ہے دوسروں کو دیتے رہنا ان پر کوئی احسان کرنا اور منت رکھنا نہیں ہے‘ نظام معاشیات کو ان ضوابط الٰہی کے ماتحت چلانے والے" انفرادی طور پر بھی فلاح یاب ہوں گے اور اجتماعی طور پر بھی " دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی"یریدون وجہ اللہ"اس قید نے یہ حیثیت صاف کردی کہ خلعت قبول سے سرفرازی پانے کے لئے شرط لازمی یہ ہے کہ یہ خرچ جو کچھ بھی ہو سب رضاء الٰہی کی نیت سے ہو" محض جبری اور نمائشی چندے اور اسی قبیل کی دوسری چیزیں سب اس مد سے باہر ہیں "وجہ" کے معنی اس سیاق میں ذات کے ہوتے ہیں ،ای ذات اللہ اعنی یقصدون بمعروفہم ایاہ خالصاً"۔
        ایک اور مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
        واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئاً وبالوالدین احسانا وبذی القربیٰ والیتامیٰ والمساکین والجار ذی القربیٰ والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم ان اللہ لایحب من کان مختالا فخورا“(النساء:۳۶)
        ترجمہ:․․․”اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ کرو اور حسن سلوک رکھو والدین کے ساتھ اور قرابت دارروں کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینوں اور پاس والے پڑوسی اور دور والے پڑوسی اور ہم مجلس اور راہ گیر کے ساتھ اور جو تمہاری ملک میں ہے ان کے ساتھ‘ قطعاً اللہ ایسوں کو دوست نہیں رکھتا جو خود بین ہیں‘ فخار ہیں“۔(۴)
        اسی طرح سورہٴ نحل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”
        ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی وینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی یعظکم لعلکم تذکرون“۔ (النحل:۹۰)
        ترجمہ:․․․”بے شک اللہ عدل کا اور حسن سلوک کا اور اہل قرابت کو دیتے رہنے کا حکم دیتا ہے اور کھلی برائی سے اور مطلق برائی سے اور ظلم (سرکشی) سے ممانعت کرتا ہے وہ تمہیں (یہ) پند ونصیحت دیتا ہے اس لئے کہ تم نصیحت قبول کرو“۔(۵) قرآن کریم کی کئی آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا ہے‘ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا کیا مقام اور درجہ ہے اور اس کی کتنا اہمیت ہے‘ اسی صلہ رحمی کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ ا نے رشتہ داروں کے حقوق کی اہمیت کو دہرایا اور اس کے دنیوی اور اخروی فضائل و فوائد اور اس کے نقصانات سے اپنی امت کو آگاہ فرمایا ہے‘ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ا نے ارشاد فرمایا:
        خلق اللہ الخلق فلما فرغ منہ قامت الرحم فاخذت بحقوی الرحمان‘ فقال: مہ؟ قالت: ھذا مقام العائذ بک من القطیعۃقال: الا ترضین ان اصل من وصلک واقطع من قطعک؟ قالت:بلیٰ یا رب! قال فذاک۔ متفق علیہ ۔مشکوٰة: ۴۱۹
        ترجمہ:․․․”اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان صورتوں کے ساتھ اپنے علم ازلی میں مقدر کردیا جن پر وہ پیدا ہوں گی‘ جب اس سے فارغ ہوا تو رحم یعنی رشتہ ناتا کھڑا ہوا‘ پروردگار نے فرمایا: کہہ کیا چاہتا ہے؟ رحم نے عرض کیا:یہ قطع رحمی کے خوف سے تیری پناہ کے طلبگار کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے (یعنی کہ میں تیرے رو برو کھڑا ہوں اور تیرے دامن عزت وعظمت کی طرف دست سوال دراز کئے ہوئے ہوں‘ تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتاہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن کو جوڑنے کے بجائے اس کو تار تار کردے)پروردگار نے فرمایا: کیا تو اس پر راضی نہیں ہے جو شخص (رشتہ داری اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعہ) تجھ کو قائم وبرقرار رکھے اور اس کو میں بھی اپنے احسان وانعام اور اجر وبخشش کے ذریعہ قائم وبرقرار رکھوں اور جو شخص رشتہ داری اور حقوق کی پامالی کے ذریعہ تجھ کو منقطع کردے‘ میں بھی (اپنے احسان وانعام) کا تعلق اس سے منقطع کرلوں؟ رحم نے عرض کیا کہ: پروردگار! بیشک میں اس پر راضی ہوں‘ پرووردگار نے فرمایا: اچھا تو وعدہ تیرے لئے ثابت وبرقرار ہے“۔
        عن عبد الرحمانؓ بن عوف قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: قال اللہ تبارک وتعالی ”انا اللہ وانا الرحمان‘ خلقت الرحم وشققت لہا من اسمی فمن وصلہا وصلتہ ومن قطعھا بتتہ“۔ (ابوداود‘ مشکوٰة:۴۲۰)
        ترجمہ:․․․”حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم اکو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ وبرتر ارشاد فرماتاہے کہ میں اللہ ہوں ‘ میں رحمان ہوں (یعنی صفت رحمت کے ساتھ متصف ہوں) میں نے رحم یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمن کے لفظ سے نکالا ہے‘ لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتہ ناتاکے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناتے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص سے) جدا کردوں گا“۔
      • صلہ رحمی کے دنیوی فوائد
        • حدیث میں ہے
          عن انسؓ قال: قال رسول اللہ ا من احب ان یبسط لہ فی رزقہ وینسأ لہ فی أثر فلیصل رحمہ ۔ متفق علیہ (مشکوٰة:۴۱۹
          ترجمہ:․․․”حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول کریم ا نے فرمایا :جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو اس کو چاہئے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرے“۔ حدیث شریف کی علمی تحقیق کچھ بھی ہو‘ تاہم اتنی بات یقینی ہے کہ وسعت رزق اور درازی عمر کے جملہ اسباب میں صلہ رحمی اور رشتے ناتے کے حقوق کی ادائیگی ایک یقینی سبب ہے جس کو ادا کرکے اپنے رزق اور عمر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
          قطعی رحمی کی سزا دنیا وآخرت میں
          حدیث میں ہے:
          عن جبیرؓ بن مطعم قال: قال رسول اللہ ا لایدخل الجنۃقاطع متفق علیہ“ (مشکوٰة:۴۱۹) حضرت جبیؓر بن مطعم کہتے ہیں کہ رسول کریم ا نے فرمایا : قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا“۔
          عن ابی بکرۃؓقال: قال رسول اللہ ا ما من ذنب احریٰ ان یعجل اللہ لصاحبہ العقوبۃ فی الدنیا مع ما یدخرلہ فی الآخرة من البغی وقطیعۃ الرحم“۔ )
          ابوداود وترمذی ‘ مشکوٰة:۴۲۰(
          حضرت ابوبکرہ ؓفرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : کوئی گناہ اس بات کے زیادہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اس کی سزا دے اور (مرتکب کو) آخرت میں بھی دینے کے لئے (اس سزا) کو اٹھا رکھے‘ ہاں دوگناہ اس بات کے لائق ہیں ایک تو تعاون کرنا اور دوسرا ناتا توڑنا“۔ نصح اور خیر خواہی کے جذبہ کے تحت قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے ذخیرہ میں سے چند آیات اور احادیث مبارکہ نقل کی ہیں‘ اگر ان آیات قرآنی اور ارشادات نبوی ا پر عمل کرتے ہوئے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور باہمی حقوق کی ادائیگی صحیح طریقے پر کی جائے تو اس سے معاشرہ میں عموماً اورخاندان میں خصوصاً وہی خوشی‘ پیار اور محبت ومودت لوٹ کر واپس آسکتی ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں پائی جاتی تھی۔ وہ ایسی محبت تھی کہ آج کا مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا‘ مگر افسوس کہ اسلامی احکام سے روگردانی کرکے ہم اس محبت واخوت کو گم کر چکے ہیں‘ اس کی جگہ بغض‘ عداوت‘ انتشار اورافتراق نے لے لی ہے۔ مناسب ہوگا کہ اس مضمون کوحضرت شاہ ولی اللہ کے اس شکوے پر ختم کروں جس کو مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب مقالات احسانی کے حاشیہ میں ایک مناسبت سے نقل فرمایاہے جس میں شاہ صاحب نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کی غیر اسلامی زندگی پر تنقیدکی ہے‘ خاص طور پر رشتہ داروں کے مالی حقوق کی عدم ادائیگی کی شکایت کی ہے‘ حضرت لکھتے ہیں: ”کوئی ایسا امیر وتونگر آدمی نہیں ہے جس کے رشتہ داروں میں ایسے غریب غرباء اور نادار لوگ نہ ہوں جو مستحق ہوتے ہیں کہ انہیں کھلایا جائے اور ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے‘ مالداروں کو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ کچھ سلوک کے مواقع مل جاتے ہیں ان کے متعلق زکوٰة کی اور حکم الٰہی کی تعمیل کی نیت کرلیا کرے‘ یہ لوگ اتنا بھی کرلیں تو ان کے لئے کافی ہوسکتی ہے“۔
          شاہ صاحب تبصرہ کرتے ہوئے کے عربی الفاظ یہ ہیں: یعنی لو انہ نوی الزکوة والعبادة لکفاہ) اس ضمن میں حضرت مولانا مناظراحسن گیلانیفرماتے ہیں کہ: یہ ایک محدث جلیل اور فقیہ نبیل کا فتویٰ ہے‘ کاش! کچھ نہیں تو اسی نیت کی توفیق مسلمانوں کے ارباب ثروت وسرمایہ دار کو میسر آجائے‘ کیونکہ رشتہ دارروں کے ساتھ اس قسم کے حسن سلوک بہرحال عموماً لوگ کیا ہی کرتے ہیں‘ الا یہ کہ کوئی اشقی القوم واقسی القلب ہو۔ خلیفہ راشد ‘ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطاب کا دور خلافت کیوں مثالی سمجھا جاتا ہے‘ اس لئے کہ انہوں نے ہر پیدا ہونے والے اختلاف کی جڑ کاٹ دی تھی‘ آپ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم نامہ جاری فرمایا تھا جس کے الفاظ امام غزالی نے اپنی کتاب احیاء العلوم میں یوں نقل فرمائے ہیں: ”وروی ان عمر کتب الی عمالہ: مروا الاقارب ان یتزاوروا ولایتجاوروا وانما قال ذلک لان التجاور یورث التزاحم علی الحقوق وربما یورث الوحشة وقطیعة الرحم“۔ (۷(
          ترجمہ:․․”آپ  نے اپنے عمال کو لکھا کہ اقارب (رشتہ داروں) کو حکم کریں کہ آپس میں ملاقات کیا کریں اور ایک دوسرے کے پڑوس میں نہ رہا کریں اور یہ حکم نامہ اس لئے جاری فرمایا تھا کہ ایک ساتھ رہنے سے حقوق میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے جو بسا اوقات نفرت وقطع رحمی کا سبب بن جاتا ہے“۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے اور پوری امت مسلمہ کو احکام قرآنی اور ارشادات نبوی ا پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ اٰمین․
          حوالہ جات
          ۱- ترجمہ شیخ الہند ۲- ترجمہ وتفسیر مولانا عبد الماجد دریا آبادی ۳-ترجمہ وتفسیر دریا آبادی ۴-ترجمہ وتفسیر مولانا دریا آبادی ۵-تمام احادیث کا ترجمہ اور وضاحت مظاہر حق سے نقل کی گئی ہے ۶-مقالات احسانی ص:۲۲۵ ۷- احیاء العلوم ج:۲‘ ص:۲۹۰)
    • پڑوسیوں کے حقوق
      • حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے خود اپنا ایک واقعہ تحریر فرمایا ہے کہ ”۱۹۶۳ء میں جب میں سعودی عرب گیا تو وہاں کے ایک باشندے نے مجھے اپنا واقعہ خود سنایا کہ ایک مرتبہ میں کپڑا خریدنے کے لیے بازار گیا ایک دکان میں داخل ہوکر بہت سے کپڑے دیکھے دکاندار پوری خوش اخلاقی سے مجھے مختلف کپڑے دکھاتا رہا بالآخر میں نے ایک کپڑا پسند کرلیا دکاندار نے مجھے قیمت بتادی میں نے دکاندار سے کہا کہ مجھے یہ کپڑا اتنے گز کاٹ دو۔ وہ دکاندار ایک لمحہ کے لئے رکا اور اس نے مجھ سے کہا آپ کو یہ کپڑا پسند ہے؟ میں نے کہا جی ہاں اس نے کہا قیمت بھی آپ کی رائے میں مناسب ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ اس پر اس نے کہا اب آپ میرے برابر والی دکان پر چلے جائیے اور وہاں سے یہ کپڑا اسی قیمت پر لے لیجئے، میں بڑا حیران ہوا اور میں نے اس سے کہا کہ میں اس دکان پر کیوں جاؤں میرا معاملہ تو آپ سے ہوا ہے کہنے لگا کہ آپ کو اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو کپڑا چاہئے وہاں موجود ہے اور آپ کو اسی قیمت میں مل جائے گا جاکر وہاں سے لے لیجئے میں نے کہا پہلے وجہ بتائیں کیا وہ آپ ہی کی دکان ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ اب میں بھی اڑگیا اور میں نے اصرار کیا کہ جب تک آپ وجہ نہیں بتائیں گے میں اس دکان پر نہیں جاؤں گا۔ آخر کار اس نے ..... ہوکر کہا کہ آپ خواہ مخواہ بات لمبی کررہے ہیں بات صرف اتنی ہے کہ میرے پاس صبح سے اب تک بہت سے گاہک آچکے ہیں اور میری اتنی بکری ہوچکی ہے کہ میرے لئے آج کے دن کے حساب سے کافی ہوسکتی ہے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا پڑوسی دکاندار صبح سے خالی بیٹھا ہے اس کے پاس کوئی گاہک نہیں آیا اس لئے میں چاہتاہوں کہ اس کی بھی کچھ بکری ہوجائے آپ کے وہاں جانے سے اس کا بھلا ہوجائے گا آپ کا اس میں کیا حرج ہے“؟
        یہ اس اسلامی معاشرے کی ایک بچی جھلک تھی جس میں مسرت و کامیابی محض پیسوں کی گنتی کا نام نہیں تھا بلکہ روح کے اس سکون اور قلب وضمیر کے اس اطمینان کا نام تھا جو اپنے کسی بھائی بہن کا دکھ دور کرنے یا اس کے چہرے پر مسکراہٹ لاکر حاصل ہوتا ہے۔
        مذہب اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تاکید کی ہے حتی کہ تھوڑی دیر کے پڑوسی یعنی تھوڑی دیر کے ساتھی کے ساتھ بھی حسن سلوک اور خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنے کی ترغیب دی ہے جیساکہ سفر وغیرہ میں یہ مواقع پیش آتے ہیں جن کو عموماً پڑوسی اورہمسایہ تصور ہی نہیں کیاجاتا، اس کے حقوق کی رعایت، اس کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاشرت کا بالکل بھی خیال نہیں کیا جاتا حالانکہ اس کو بھی ہمسایہ وپڑوسی کی طرح قربت وصحبت اور ساتھ رہنے سہنے کا اتفاق ہوتا ہے جیساکہ سفرکے ساتھی کارخانہ کے ملازم، دوکان کے دوشریک اور اسی طرح طالب و شاگرد وغیرہ، یہ بھی ایک طرح کے پڑوسی ہیں اگرچہ ان کے ساتھ ہمسائیگی دائمی نہیں ہوتی اس کا نام صحبت و رفاقت بھی رکھ سکتے ہیں۔ قرآن کریم نے جہاں رشتہ داروں، ہمسایوں، یتیموں، اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم و ترغیب دی وہیں تھوڑی دیر کے ساتھی کے ساتھ کا بطور خاص ذکر فرمایا، چونکہ انسان عموماً ایسے ساتھی کے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا اوراس کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کوکوئی خاص اہمیت نہیں دیتا بہت کم خوش نصیب ایسے ہیں جو ان مواقع پر اپنے ساتھی کے حقوق کا خیال رکھتے اوراسکی راحت رسانی پر آمادہ ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے ایسے لوگ عموماً اجنبی اور بے گانہ ہوتے ہیں اور ان سے جدائی کے بعد دوبارہ اس ملاقات کی امید اور کوئی واسطہ نہیں پڑتا اس وجہ سے اگر ان کے ساتھ کوئی بداخلاقی اور ناروا سلوک اور اس کے ساتھ کچھ دل آزاری کا معاملہ پیش آگیا تو کسی دیرپا بدنامی اور رسوائی کا اندیشہ نہیں ہوتا اس وجہ سے لوگ سفر میں ریل، بس ہوائی جہاز وغیرہ ، اور اسی طرح دیگر مجالس و پروگراموں اور کارخانوں میں اس کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے کہ دیگر حضرات کو اس کے کس عمل و کردار سے ایذاء و تکلیف پہنچی حالانکہ بدزبانی و بداخلاقی سے پیش آنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی گئی ہے
        حدیث شریف میں ہے ”مَنْ بَذَا جَفَا“ جس نے بدزبانی کی اس نے ظلم کیا۔ (حاتم)
        بدزبانی یقینا ظلم ہے دوسروں پر بھی اور خود اپنے نفس پر بھی کیونکہ بدزبانی و بداخلاقی دوستوں اور خیرخواہوں سے محروم کردیتی ہے۔ اس کے مقابلے میں خوش خلقی اور رحم دلی ایک ایسا محمود و محبوب وصف ہے جو غیروں کو بھی اپنا بنادیتی ہے۔ مخلوقِ خدا کے ساتھ رحم دلی اور نرمی کا برتاؤ اللہ رب العزت کو بہت پسند ہے اس کے برعکس اگر کوئی بوقت ضرورت بھی لوگوں پر رحم نہ کرے تو یہ خدا کی ناراضگی کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ خود بھی اس پر رحم نہیں کرتے ”مَنْ لاَ یَرْحَمْ لاَ یُرْحَمْ“ جو دوسروں پر رحم نہ کرے اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔ (بخاری ومسلم) اور ایک حدیث میں ہے ”لاَ یَرْحَمُ اللّٰہُ مَنْ لاَّ یَرْحَمُ النَّاسَ“ جو لوگوں پر رحم نہیں کرتے اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا۔ مذہب اسلام نے کسی شخص کی دل آزاری وایذاء رسانی سے سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے حتی کہ حیوانات و چوپایوں کو بھی بلاوجہ تکلیف دینے سے اجتناب کی تاکید کی ہے اور ان کے ساتھ بے رحمی کا مظاہرہ کرنے سے منع کیاہے۔
        قرآن کریم نے تھوڑی دیر کے ساتھی کے بھی حقوق بیان فرمائے ”والصاحب بالجنب“ (نساء آیت۳۶) اس کے لفظی معنی ہیں ہم پہلو ساتھی یا تھوڑی دیر کا ساتھی جس میں رفیق سفر بھی داخل ہے جو جہاز، ریل، بس وغیرہ گاڑی میں آپ کے برابر اور پہلو میں بیٹھا ہو اور وہ شخص بھی داخل ہے جو کسی عام مجلس میں آپ کے برابر بیٹھا ہو۔ حضرت مفتی شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ”شریعت اسلام نے جس طرح نزدیک دور کے دائمی پڑوسیوں کے حقوق واجب فرمائے اسی طرح اس شخص کا بھی حق صحبت لازم کردیا جو تھوڑی دیر کے لئے کسی مجلس یاسفر میں آپ کے برابر بیٹھا ہو جس میں مسلم وغیرمسلم اور رشتہ دار وغیررشتہ دار سب برابر ہیں اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کی ہدایت فرمائی جس کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ آپ کے کسی قول و فعل سے اس کو ایذاء نہ پہنچے کوئی گفتگو ایسی نہ کرے جس سے اس کی دل آزاری ہو کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اس کو تکلیف ہو مثلاً سگریٹ پی کر اس کا دھواں اس کے منہ کی طرف نہ چھوڑیں یا پان کھاکر پیک اس کی طرف نہ ڈالیں اس طرح نہ بیٹھیں جس سے اس کی جگہ تنگ ہوجائے۔ مزید یہ بھی لکھا ہے کہ اگر قرآن کریم کی اس ہدایت پر لوگ عمل کرنے لگیں تو ریلوے مسافر کے ساتھ جھگڑے ختم ہوجائیں ہر شخص اس پر غور کرے کہ مجھے صرف ایک آدمی کی جگہ کا حق ہے اس سے زائد جگہ گھیرنے کا حق نہیں دوسرا کوئی اگر قریب بیٹھا ہے تو اس گاڑی میں اس کا بھی اتنا ہی حق جتناکہ میرا ہے۔
        حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہری کے اندرمختلف صحابہ و تابعین کے اقوال نقل کئے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت مجاہد، عکرمہ، قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ”صاحب بالجنب“ سے رفیق سفر مراد ہے۔ حضرت جریج وابن زید رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص مراد ہے جو تم سے کسی نفع کی امید پر تمہارے ساتھ شریک ہے لہٰذا یہ شاگرد اور ہم سبق ساتھی کو بھی شامل ہوگا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے بیوی مراد ہے جو شوہر کے پہلو میں رہتی ہے اور امام بخاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ رفیق سفر ہے۔ بعض حضرات مفسرین فرماتے ہیں کہ ”صاحب بالجنب“ میں ہر وہ شخص داخل ہے جو کسی کام اور کسی پیشہ میں آپ کا شریک صنعت ہے، مزدوری میں، دفتر کی ملازمت میں، سفر میں حضر میں اور کسی دعوت، جلسے، یا اجتماع عام کے مواقع میں جو شخص ہمارے قریب اور پہلو میں ہے وہ ہمارا ”صاحب بالجنب“ ہے۔ غرض قرآن کریم کے الفاظ کی وسعت ان تمام کو محیط ہے۔
        قرآن کریم نے خاص طور پر ”صاحب بالجنب“ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید بظاہر اس حکمت کے پیش نظر فرمائی ہے کہ انسان کی شرافت و خوش اخلاقی کا اصل مظاہرہ ایسے ہی موقعوں پر ہوتا ہے، اچھے اچھے بظاہر مہذب، بااخلاق، شائستہ ہوتے ہیں لیکن کبھی کسی انجانے اور اجنبی سے واسطہ اور سابقہ پڑا یا سفر وغیرہ کی نوبت پیش آئی تو وہ تہذیب و تمدن سے عاری اور خوش اخلاقی کے بجائے بداخلاقی کا مظاہرہ اور وہ بھی ایسی کہ انھوں نے اپنے ہم سفروں کے ساتھ پرلے درجے کی خود غرضی کا برتاؤ اور سنگدلی کرتے نظر آئے۔ اسی لئے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ تم کسی شخص کی نیکی کی حتمی گواہی اس وقت تک نہ دو جب تک تمہارا اس کے ساتھ کوئی لین دین نہ ہوجائے جس میں تم نے اس کے اندراسے کھرا پایا ہو یا اس کے ساتھ تم نے کوئی سفر کیا ہو جس کے اندر تم نے واقعی اس کو خوش اخلاق پایا ہو۔ انسان کی خوش خلقی اور بدخلقی کا سب سے بڑا معیار یہ ہے کہ اس کو وہ اچھا کہے جو اس سے سب سے زیادہ قریب ہو، چنانچہ ایک دن صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ ہم اچھا کررہے ہیں یا برا؟ فرمایا جب اپنے پڑوسی کو تم اپنی نسبت اچھا کہتے سنو تو سمجھو کہ اچھا کررہے ہو اور جب برا کہتے سنو تو سمجھ لو کہ برا کررہے ہو۔(ابن ماجہ)
        خوش اخلاقی جو صرف بدنامی کے خوف اور دوسروں کی طعن و تشنیع سے بچنے کے لئے کی جائے وہ خوش اخلاقی نہیں بلکہ ریا ہے، خوش اخلاقی دراصل ایسی صفت ہے جو صرف رضاء خداوندی کے پیش نظر کی جائے جس کے اندر شہرت ونیک نامی کو بالکل دخل نہ ہو اور جب یہ صفت کسی شخص کے اندر پیدا ہوجائے تو وہ شخص ہر جگہ اور ہر انسان کے ساتھ رضاخداوندی کے پیش نظر اپنی اس پاکیزہ فطرت کے تحت وہی رویہ وہی بتاؤ اور طرز عمل اختیار کرے گا جو اسے کرنا چاہئے کیونکہ اس کے سامنے شہرت وناموری اور لوگوں کے دیکھنے کا ڈر نہیں بلکہ اس ذات کے دیکھنے کا خوف ہے جس کی خوشی اور غضب سے جنت و جہنم کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اگر انسان اپنی روز مرہ کی زندگی میں بلا تفریق مذہب وملت اپنے ہرہمسایہ و پڑوسی اپنے مصاحب و قریبی اپنے ہم مجلس،اور اپنے ہر طرح کے ہم سفر کے ساتھ، نرمی، خوش خلقی، اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرے اور ان کے راحت وآرام کی خاطر تھوڑی تکلیف و مشقت ہی برداشت کرلے تو ان کے دلوں پر اس کے اخلاق و کردار کا جو نقش مرتب ہوگا وہ تادیر قائم رہے گا۔ وہ ہمیشہ اس کا محسن رہے گا اوراس کے نامہٴ اعمال میں نیکیوں کا جو بینک بیلنس ہوگا وہ دنیا کے مال و دولت کے ذخیرے سے بہتر و پائیدار ہوگا اور آخرت کی دائمی و ابدی زندگی میں اس کے لئے کارآمد و باعث نجات ہوگا، اور اس طرح ہمارا معاشرہ امن و امان کا گہوارہ اور زندگی کے اس چین و سکون کا باعث ہوگا، ہر شخص آج جس کا خواہاں اور مال و دولت کی فراوانی، سامان عیش و عشرت کی بہتات کے باوجود آج دنیا جس سے محروم ہے اور محرومیت کا سلسلہ مزید دراز ہوتا جارہا ہے۔ اللہ رب العزت تمام انسانوں کو چین وسکون کی لازوال دولت سے مالامال کرے بے چینیوں اور الجھنوں سے محفوظ رکھے اور اسلامی معاشرے کی خوش گوار فضاء کو قائم فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
    • عام مسلمانوں کے حقوق
      • نسائی شریف میں روایت ہے کہ ہر مومن کے لئے دوسرے مومن پر چھ حق ہیں۔ یہ کہ
        جب کوئی بیمار ہو تو عیادت کرنا۔
        جب ملاقات ہو سلام کرنا۔
        جب دعوت کرے قبول کرنا۔
        جب مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جانا۔
        غائب ہو یا حاضر اس کی خیر خواہی کرنا
        جب اسے چھینک آئے تو یرحمک اللہ کہنا
    • حقوق انسانیت
      • اسلام نے معاشرہ کے ہر فرد کی جان ومال، عزت وآبرو کو قابل احترام قراردیا ،ناحق کسی کو قتل کرنا گناہ عظیم ٹہرایا،یہاں تک کہ ایک شخص کا قتل ،ساری انسانیت کے قتل کے برابر قراردیا ،اس لئے کہ جس طرح تمام انسانوں کی جانیں قابل احترام ولائق حرمت وتقدس ہیں اسی طرح ایک شخص کی جان کا بھی اللہ تعالی کے پاس وہی درجہ ہے، اس کا دوسرامفہوم یہ ہے کہ جو شخص ایک انسانی جان ختم کرنے کی جسارت کرسکتا ہے اگر اس شخص کے لئے اسباب فراہم ہوجائیں اور نیوکلیر ہتھیار وغیرہ کے ذریعہ تمام افراد انسانیت کا خاتمہ کرنا ممکن ہو تو وہ اس کے لئے بھی گریز نہیں کرے گا۔
        اسی طرح کسی کو ہلاکت خیز مصیبت سے نکال کر اس کی جان بچانا ، ساری انسانیت کو موت کی آغوش سے نکال باہر لانے کے متراد ف ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے
        كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا
        ترجمہ : ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس شخص نے کسی ایک شخص کو کسی جان کے بدلہ کے بغیر یا زمین میں فساد نہ کرنے کے باوجود قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس شخص نے کسی ایک کے لئے زندگی کاسامان کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو بچالیا۔ (سورۃ المائدۃ ۔32)
        اسی طرح اسلام نے ہر شخص کے مال کی حفاظت اور عزت کے تحفظ کا حق دیا ہے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
        وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ
        ترجمہ: ایمان والاوہ ہے کہ جس سے دوسرے لوگ اپنی جان ومال کے بارے میں بے خوف ومامون رہیں۔
        (جامع ترمذی ،ابواب الإيمان، باب ما جاء فى أن المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده.حدیث نمبر: 2836 –سنن نسائی،باب صفة المؤمن. الإيمان وشرائعه، حدیث نمبر: 5012- سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن باب حرمة دم المؤمن وماله. حدیث نمبر: 4069- مسند امام احمد، مسند ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ،حدیث نمبر: 9166- مسند فضالۃبن عبید الانصاری رضی اللہ عنہ ،حدیث نمبر: 24694)
        سنن ابوداؤد شریف میں حدیث پاک ہے
        عَنْ خَالِدِ بْنِ الْفِرْزِ حَدَّثَنِى أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ وَلاَ تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلاَ طِفْلاً وَلاَ صَغِيرًا وَلاَ امْرَأَةً وَلاَ تَغُلُّوا وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ.
        ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے نام سے آغاز کرتے ہوئے ، اللہ کی پناہ میں آتے ہوئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ملت کے مطابق جاؤ اور کسی بوڑھے شخص کو قتل مت کرو، نہ کسی بچہ کو، نہ کسی شیرخوار کو اور نہ کسی خاتون کو، نیز مال غنیمت میں خیانت نہ کرو ،غنیمت کے اموال اکٹھا کرو، اصلاح کرو اور ہرکام حسن وخوبی سے انجام دو، یقینا اللہ تعالی احسان کرنے والوں کوپسند فرماتاہے۔ (سنن ابو داؤد،کتاب الجہاد، باب فی دعاء المشرکین، ج1ص352، حدیث نمبر: 2616)
      • اسلام کاپیام امن ساری مخلوق کے لئے
        • مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے :
          عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ مَنْ قَتَلَ صَغِيراً أَوْ كَبِيراً أَوْ أَحْرَقَ نَخْلاً أَوْ قَطَعَ شَجَرَةً مُثْمِرَةً أَوْ ذَبَحَ شَاةً لإِهَابِهَا لَمْ يَرْجِعْ كَفَافاً.
          ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے کسی بچہ کاقتل کیا یاکسی بوڑھے کا خون بہایا، یا کھجور کاباغ جلایا، یا کوئی پھل دار درخت کاٹا، یااس علاقہ کے باشندوں کی کسی بکری کو ذبح کیا تو وہ قابل مؤاخذہ وگرفت ہے۔مسند امام احمد ،حدیث نمبر: 23029)
          اسلام کا پیغام امن وسلامتی صرف اہل اسلام کے لئے نہیں، بلکہ تمام اقوام عالم کے لئے ہے، یہ و ہ ر حمت وا لا دین ہے جو تمام انسانی افراد کی جانوں کو بحیثیت انسان یکساں قابل احترام گردانتا ہے، انسانی شرافت وکرامت کے سبب کسی کی جان لینا تو کجا تکلیف دینا روانہیں رکھتا، جس وقت انسانی افراد کا خون بہانا باعث فخر سمجھاتا تھا اس دور میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مفتوحہ علاقہ کے باشندوں کی بکری ذبح کرنے سے بھی منع فرمایا۔
          اس دین سے زیادہ امن کی ضمانت کہاں مل سکتی ہے جس دین میں دشمن کے کھجور کے باغ جلانا ممنوع ہو، اس قانون سے بہتر سلامتی کا ضامن کونسا قانون ہوسکتا ہے جس میں دشمن کے پھل دار درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ۔
          اسلام نہ صرف انسانیت کے لئے امن کا ضامن ہے بلکہ حیوانات ونباتات اورعالم کے ‘ذرہ ذرہ کیلئے امن وسلامتی کی ضمانت دیتا ہے، درختوں اور سبزہ زاروں کوہلاکت وتخریب کی مسموم فضاء سے محفوظ رکھتاہے ۔
          اور جو لوگ نقضِ امن کے مرتکب ، فتنہ وخونریزی کے خواہاں اور برسرپیکار ہیں ،قتل وغارت گری کا بازار گرم کرتے ہیں‘ لوٹ مار اور رہزنی کرتے ہیں ‘دہشت پھیلاکرعَلََمِ بغاوت بلند کرتے ہیں، جبکہ بقائے امن کیلئے فتنہ انگیز سرگرمیوں کی روک تھام کرنا بقائے امن کیلئے لازمی ہے ،سوسائیٹی کی فضا کو پرامن رکھنے کی خاطر معاشرہ سے فتنہ وفساد کے انسداد کے لئے ان کے خلاف مدافعانہ کارروائی کرنا، ان کی طاقت کوختم کرنا، انہیں سزادینا، ازبس ضروری ہے ،شرپسندی وعناد کو روکنے کیلئے یہ دفاعی اقدام اور شدید ترین کارروائی نقضِ امن نہیں بلکہ بجائے خود امن پسند ی ہے، یہ زیادتی نہیں عین انصاف ہے ،یہ شدتِ انتقام نہیں، بلکہ ہرفرد کیلئے امن وسلامتی کا انتظام ہے، دین اسلام نے ان سے مقابلہ کرنے اوران کے تباہ کن حملوں کوروکنے کے لئے خود ساختہ طریقہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ ایسے جانی دشمنوں کے بھی حقوق بیان کئے، ان خون کے پیاسوں کے ساتھ بھی زیادتی کرنے سے منع فرمایا:
          وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ۔
          ترجمہ:اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے مقابلہ کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور ان پر زیادتی مت کرو یقینا اللہ تعالی حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔(سورة البقرة: 190)
          ان سے مقابلہ کرنے کے سلسلہ میں چندامور کا پابندکیا:
          اعلان جنگ کے بغیرغفلت میں حملہ کرنے سے گریز کیا جائے!
          باندھ کر قتل نہ کیا جائے !
          آگ میں جلانے کی سزا نہ دی جائے۔ جیسا کہ سنن ابوداؤد شریف میں حدیث پاک ہے:
          فَإِنَّهُ لاَ يُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلاَّ رَبُّ النَّارِ.
          ترجمہ: آگ کا عذاب دینا سزا وار نہیں مگر اسے جوآگ کا پرور دگار ہے۔ (سنن ابوداود،کتاب الجہاد، باب فی کراہیۃ حرق العدو،ج2،ص362،حدیث نمبر: 2675)
      • پیامِ اسلام کی آفاقیت
        • اسلامی مملکت میں کسی مذہب ،کسی قوم یاکسی علاقہ کے اعتبار سے حقوق واہل حقوق کی تقسیم نہیں کی گئی بلکہ بلالحاظ مذہب وملت ، بلااعتبار رنگ ونسل تمام اقوام وقبائل کو انسانیت کے حوالہ سے بنیادی حقوق میں یکساں رکھا گیا۔
          اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کوبحیثیت انسان مساویانہ طورپر وہ تمام حقوق دیئے جاتے ہیں جومسلمانوں کے لئے ہوتے ہیں ،اس میں تعصب وجانبداری کی کوئی گنجائش نہیں ۔
          انہیں مذہبی آزادی ، معاشی آزادی اور سماجی آزادی کا حق حاصل ہے، ان کے تحفظ کا انتظام کرنا، ان کیلئے امن وسلامتی کی فضاء قائم رکھنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے
          عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِىِّ :.... فَقَالَ : أَنَا أَحَقُّ مَنْ أَوْفَى بِذِمَّتِهِ. ۔
          ترجمہ: غیرمسلم افراد کے حقوق کی حفاظت میرے ذمہ ہے۔
          (سنن کبری للبیہقی،ج8،ص31)
          اگر کوئی مسلمان، صاحب معاہدہ غیرمسلم کو قتل کردے جس کے لئے تحفظ فراہم کرنے کا مسلمانوں نے معاہدہ کیا ہے تواس مسلمان شخص کیلئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وعید بیان فرمائی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے:
          عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رضى الله عنهما عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرَحْ رَائِحۃَ الْجَنَّةِ ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے معاہدہ والے غیر مسلم اقلیتی فرد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا، حالانکہ اسکی خوشبوچالیس سال کی مسافت سے سونگھی جاتی ہے۔ (صحیح بخاری شریف،کتاب الجزیۃ،باب اثم من قتل معاہدا بغیر جرم، حدیث نمبر:3166)
          سنن ابوداؤد شریف میں حدیث پاک ہے :
          قَالَ أَلاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
          . ترجمہ:حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خبردار ! جس شخص نے کسی صاحب معاہدہ غیر مسلم شخص پر ظلم کیا یا اس کا حق چھین لیا یا اسے اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری دی یا اس کی خوشدلی کے بغیر اس کی کوئی چیزلے لی، میں قیامت کے دن اس زیادتی کرنے والے کے خلاف مقدمہ پیش کروں گا۔ (سنن ابوداؤد شریف، باب فى تعشير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات. حدیث نمبر( 3054)
          اسلامی مملکت میں غیر مسلموں پر ڈیفنس ذمہ داریوں کا بارنہیں ڈالا جاتا، اگر بیرون مملکت سے کوئی حملہ ہو یا اندرون مملکت کوئی انہیں ہراساں کرے، تکلیف دینے کے درپے ہوتو مسلمان ان کے جان، مال، عزت وآبرو کے محافظ ونگہبان ہوتے ہیں اوران کی جانب سے دفاعی کارروائی کرتے ہیں اس کے بدلہ غیر مسلموں پرجزیہ عائد کیا جاتا ہے، اقلیتی افراد پر جزیہ کی ذمہ داری عائد کرنے کے سلسلہ میں عورتوں ، بچوں، نابینا اور معذور لوگوں کو مستثنی رکھا گیا۔
          ولذلک قال اصحابنا ان من لم يکن من اهل القتال فلاجزية عليه فقالوا من کان اعمی اوزمنا او مفلوجا اوشيخا کبيراً فانيا۔ ۔ ۔ ۔ (احکام القرآن للجصاص،ج3ص125،سورة البراءة ،باب من توخذ منه الجزية)
          امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الخراج میں ہے:
          عن اسلم مولی عمر ان کتب الی عماله لا تضربوا الجزیۃ علی النساء والصبيان ولاتضربوها الاعلی من جرت عليه الموسی۔
          ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت اسلم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے گورنروں کو لکھا: عورتوں اور بچوں کے ذمہ جزیہ لازم مت کرو‘ صرف ایسے مردوں پر جزیہ عائد کرو جوبالغ ہوں۔
          نیز اسی کتاب الخراج ص150، میں مذکور ہے: فماالجأک الی ما اری قال اسال الجزیۃ والحاجۃوالسن فاخذعمر بيده وذهب به الی منزله فرضخ له بشیء من المنزل ثم ارسل الی خازن بيت المال فقال انظر هذا وضرباء ه فو الله ماانصفنا ان اکلنا شبيبته ثم نخذله عند الهرم۔
          ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گزر ایک مکان کے پاس سے ہوا، جہاں ایک مانگنے والا مانگ رہا تھا، بہت بوڑھا ، نابینا شخص تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا بازوپکڑا اور فرمایا، تمہیں کس چیز نے اس حالت پر مجبور کیا ہے جو میں دیکھ رہاہوں؟ کہنے لگا جزیہ میرے ذمہ ہے، ضروتمند ہوں اور بوڑھا ہوچکا ہوں، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا، اپنے گھر لے گئے اور گھر سے کچھ سرفرازفرمایا پھر بیت المال کے خازن کے پاس پیغام بھیجا کہ اس کا اور اس جیسے بوڑھے غیر مسلموں کا خیال رکھو، اگر ہم نے اس کی جوانی میں اس سے جزیہ وصول کیا پھر بڑھاپے میں اسے بے مدد چھوڑ دیا تواللہ کی قسم! ہم نے انصاف نہیں کیا، پھر آپ نے اس شخص کے اور اس جیسے بوڑھے غیر مسلم افراد کے ذمہ سے جزیہ ساقط کردیا۔
          جزیہ چونکہ غیر مسلموں کی جان ومال، عزت وآبروکی حفاظت کی ذمہ داری کا عوض ہے، لہذا جب بھی اہل اسلام اندیشہ کرتے کہ اس ذمہ داری کو پورا نہ کرپائیں گے تو جزیہ کی حاصل شدہ رقم غیر مسلموں کو واپس کردیتے جیساکہ اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے جنگ یرموک کے موقع پر اہل حمص کو اس وقت جزیہ کی رقم واپس کردی ،جب انہیں جنگی مصلحت کی بناء حمص چھوڑنا ضروری ہوچکا تھااور فرمایا ہم نے تمہاری حفاظت کی ذمہ داری لی تھی اس ذمہ داری کے عوض تم نے ہمیں جزیہ دیا تھا ، اب ہم اس ذمہ داری کو سنبھانے سے قاصرہیں، بنابریں ہم جزیہ کی یہ رقوم تمہیں واپس کرتے ہیں۔
          مسلمانوں کے اس رویہ سے اہل حمص کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے اور وہ دعائیں مانگنے لگے کہ اللہ تعالی تمہیں سلامتی کے ساتھ واپس لائے اور تمہیں ان پر غلبہ عطافرمائے، اگر رومی ہوتے تو ہمیں پھوٹی کوڑی بھی نہ لوٹاتے۔ (فتوح البلدان ،ج1ص162)
    • ملک و قوم کے حقوق
      • ملک و قوم کا یہ حق ہے کہ ہمیشہ ملک و قوم کا خیر خواہ رہے۔ان کے خلاف کسی منصوبے میں شریک نہ ہو ۔نہ ہی کسی قسم کی غداری کا مرتکب ہو۔اپنے ملک و قوم کی بہتری کی ایسی کوشش کرنا کہ کسی اور قوم کی حق تلفی نہ ہو تعصب نہیں ۔
  • مہمان نوازی
    • مَن کان یُومن باللہ و الیوم الآخر فلیُکرم ضیفَہ ۔
      اس کا مطلب ہے کہ جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔مہمان نوازی انبیاء کی سنت ہے۔یہ رشتہ داروں اور احباب کے ساتھ حسن سلوک اوراعلیٰ اخلاق کا مظہر ہے۔ میزبان کو چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے خاطر مہمان کا دل سے استقبال کرے اورپہلے دن بتکلف حسب توفیق اس کی تواضع کرے اور پھر باقی دنوں میں ما حضر پیش کرلیا کرے۔مہمان کو بھی چاہیئے کہ تین دن سے زیادہ مہمان نہ بنے کہیں ان کے لیئے معاشی یا انتظامی بوجھ نہ بن جائےکیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےارشاد فرماہےکہ مہمان کو حلال نہیں کہ وہ میزبان کے پاس اس قدر قیام کرے کہ وہ تنگ ہو جائے۔
  • امانت داری
    • آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ لا ایمان لمن لا امانۃ لہ یعنی اس شخص کا ایمان معتبر نہیں جس میں امانت داری نہ ہو۔اس حدیث شریف کا تقضا ہے کہ مومن کے ساتھ اگر کوئی امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہ کرے ۔کسی عہدہ دار کا عہدہ بھی اس کے پاس قوم کی امانت ہے اس لئے اس کے بارے میں پوچھ ہوگی۔ کسی کو اگر کسی بات کا راز دان بنایا جائے تو صاحب راز کی اجازت کے بغیر اس کو کسی اور کو نہ بتایا جائے۔ڈیوٹی کے دوران وقت بھی مالک کی امانت ہے اس لیئے اس میں اپنا ذاتی کام نہ کیا جائے حتی کہ نفلی کام بھی نہیں البتہ فرائض اور واجبات کی اجازت ہے ۔اگر فرائض اور واجبات سے مالک روکے تو ایسا کام ہی ناجائز ہے اس کو چھوڑ دے ورنہ اتنے پیسے تنخواہ سے کم کروا کے فرائض اور واجبات ادا کرے۔حدیث شریف کے مطابق اگر کوئی شخص بات کرتے وقت پیچھے مڑ کر دیکھے تو اس کی وہ بات اس کی راز اور امانت ہے ۔حدیث شریف کے مطابق مجلسین امانت ہیں اس لیئے ان کی رازوں کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرنا چاہیئے البتہ تین چیزیں ان سے مستثنیٰ ہے ۔ناجائز خون ریزی ، بدکاری اور چوری یا ڈاکہ زنی کیونکہ اس میں دوسروں کے مفادات متاثر ہوں گے۔ان کی حفاظت زیادہ اہم ہے۔
  • اخوت
    • المسلم اخو المسلم یعنی مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔اسی حدیث کا اگلا حصہ یہ بیان کرتا ہے کہ ہے کہ ایک مسلمان ، دوسرے مسلمان پر نہ ظلم کرے نہ اسے بے یار و مدد گار چھوڑے۔جو اپنے بھائی کے حاجت پوری کرنے میں مدد کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی حاجت میں اس کا مدد گار ہوگا۔جو کسی مسلمان کا دکھ دور کرے گا اللہ تعالی ٰ اس کے بدلے میں قیامت کی پریشانیوں میں سے کسی پریشانی سے نجات عطا فرمائے گا۔ جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا ، اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی پردہ پوشی کرے گا۔
      مدینہ منورہ میں مہاجرین کے پہنچنے پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا تو انصار نے اس پر مثالی عمل کرکے دکھا یا۔معاشرے میں مسلمانوں کے بہت سارے کام اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر سدھر سکتے ہیں۔اس میں اگر صرف ہماری زکوٰة کا نظام ذرا منظم ہوجائے تو بہت سارے بے کسوں کا بھلا ہوجائے۔
  • ایذا رسانی سے اجتناب
    • حدیث شریف میں ہے ۔المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ۔ یعنی مسلمان و ہ ہے جس کی زبان ﴿کی کاٹ سے ﴾ اور ہاتھ ﴿کے شر سے﴾ دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔مسلمان کو تو فیض رسان ہونا چاہیئے نہ کہ ضرر رساں۔اس وجہ سے طنز و طہنیک کی زہر میں بجھے ہوئے تیر چلانے والوں کو اپنے عاقبت کی فکر کرنا چاہیئے۔محغ ایک چھوٹی سی ذاتی فائدے کے لئے کثیر مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا کیسے ایک مسلمان کا کام ہوسکتا ہے۔اس لئے ملاوٹ ، نوجوانوں کو نشہ کی لت ڈالنا اپنے اوپر کتنا بڑا ظلم ہوگا۔
      آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتے جو لوگوں پر رحم نہ کرے۔
  • خدمت خلق اور فیض رسانی
    • يايها الناس افشو السلام واطعمو الطعام وصلو الارحام وصلو والناس نيام تدخلو الجنه بسلام
      (رواه الترمذی)
      آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مبارک ارشاد ہے کہ اے لوگو سلام پھیلاو ٴ کھانا کھلاوٴ صلہ رحمی کرو اور نماز اس وقت پڑھو جب باقی لوگ سو رہے ہوں یعنی تہجد کی نماز پڑھو اور جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاوٴ۔
      آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مبارک ارشاد ہے کہ بیواوں اور مسکینوں کی خبر گیری کرنے والا یوں ہے جیسے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا ہوتا ہے اور میرا گمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یوں ارشاد فرمایا
      کہ وہ اس نمازی کی طرح ہے جس کا کبھی نماز نہ چھوٹے اور اس روزہ دار کی طرح ہے جس کا روزہ کبھی نہ چھوٹے۔
      دین کا ہر کام جو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوکار خیر اور باعث اجر و ثواب ہے۔ انہی کاموں میں خدمت خلق بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق کی بے لوث خدمت کرنا انسانی اخلاق کا نہایت اعلیٰ جوہر ہے۔ جو انسان مخلوق کی خدمت کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے بندوں سے پیار کرتا ہے اور ان کی کسی غرض اور لالچ کے بغیر خدمت کرتا ہے حق تعالیٰ کے نزدیک اس کا مرتبہ بہت بلند ہوتا ہے، محتاجوں کی ضرورت کو پورا کرنا، بھوکے کو کھانا کھلانا، ننگے کو کپڑے پہنانا، بیمار کے لیے علاج کاانتظام کرنا، یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنا، اور ان کی سرپرستی کرنا فی نفسہ عظیم الشان کار خیر ہے۔ لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اس بلند مرتبے پر صرف وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو اسلام و ایمان و تقویٰ سے مشرف ہوں ورنہ بظاہر مخلوق کی خدمت تو یہود و نصاریٰ بھی کرتے ہیں لیکن ان کی خدمت عنداﷲ مقبول نہیں کیونکہ وہ خالق کے وفادار نہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بیٹا باپ سے تو بغاوت کرتا ہے لیکن بھائیوں کی بظاہر خوب خدمت کرتا ہے تو باپ کے نزدیک اس کی خدمات مقبول نہ ہوں گی اور ان خدمات میں درپردہ اس کی اپنی اغراض فاسدہ شامل ہوتی ہیں جن کے حصول کے لیے وہ خدمت کررہا ہے کہ ہم تمہاری خدمت کررہے ہیں تم ان اغراض فاسدہ کے حصول میں ہماری مدد کرنا۔
      شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں
      کہ انبیاءعلیہم السلام کی دعوت الی اﷲ اور خدمت خلق صرف اﷲ کے لیے تھی۔ وہ فرماتے تھے ان اجری الاعلیٰ رب العالمین ہمارا اجر تو ہمارے رب کے پاس ہے۔ اس کے برعکس اہل باطل اپنی دعوت پر جو بظاہر مفت دودھ کے ڈبے اور کپڑے وغیرہ تقسیم کرتے ہیں یہ بلا اجرت نہیں بلکہ اس میں ان کی اغراض فاسدہ مثلاً اپنا غلبہ و مقبولیت، باطل کی حمایت، اپنے ملک و قوم و تجارت کی منفعت وغیرہ پوشیدہ ہوتے ہیں اور ان کی دعوت دعوة الی اﷲ نہیں دعوة الیٰ غیر اﷲ ہے، صرف مفت چیزیں تقسیم کرنا حق پر ہونے کی دلیل نہیں۔ اگر قرآن پاک میں صرف یہ نازل ہوتا کہ اتبعوا من لا یسئلکم اجرا ان کی اتباع کرو جو تم سے بدلہ نہیں مانگتے تو یہود و نصاریٰ دعویٰ کرسکتے تھے کہ ہم بھی اجرت نہیں مانگتے، ہماری مشتریاں اناج، دودھ کے ڈبے اور دوائیاں مفت تقسیم کرتی ہیں، ہم مفت میں انسانوں کی خدمت کررہے ہیں اور اس کا ہم کوئی معاوضہ بھی نہیں مانگتے لہٰذا ہماری دعوت بھی حق ہے اور ہم بھی اس آیت کے مصداق ہیں لیکن سبحان اﷲ! قرآن پاک کے علوم جامع اور مانع ہوتے ہیں پس اﷲ تعالیٰ نے آگے فوراً قید لگادی وہم مہتدون کہ اجرت نہ مانگنے والوں کا ہدایت یافتہ ہونا ضروری ہے۔ وہم مہتدون حال ہے اور حال ذوالحال کے لیے قید ہوتا ہے۔ پس جو لوگ اپنی خدمات کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے ان کی اتباع مقید ہے اس حال کے ساتھ کہ وہ ہدایت یافتہ بھی ہوں۔ پس جو لوگ ہدایت یافتہ نہیں ہیں مغضوب علیہم اور ضآلین ہیں، وہ لاکھ خدمت کریں اور معاوضہ طلب نہ کریں ان کی اتباع جائز نہیں۔ وہم مہتدون نے ان کو متبوع ہونے سے خارج کردیا۔ معلوم ہوا کہ مفت دینی خدمات سے دھوکہ نہ کھانا چاہیے بلکہ خدام دین کا وہم مہتدون سے ہونا یعنی ہدایت یافتہ ہونا ضروری ہے۔ (خزائن شریعت و طریقت ص۷۱۱)
      لہٰذا خدمت خلق بھی ہمیں اہل باطل کے طریقوں سے نہیں کرنی چاہیے جو حدود الٰہیہ کو توڑ کر خدمت کرتے ہیں مثلاً ہسپتال قائم کرنے کی آڑ میں زنانہ نرسوں سے مرد مریضوں کا علاج کراکے بے پردگی و بے حیائی کو عام کرنا، خدمت خلق میں بھی حدود الٰہیہ کی رعایت ضروری ہے۔
      رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت ہر مسلمان کے لیے بہترین نمو نہ ہے جس کی اطاعت و پیروی کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ ایک عورت مکہ کی ایک گلی سے گز ررہی تھی اس کے سر پر اتنا بھاری بوجھ تھا کہ وہ بمشکل قدم اٹھا سکتی تھی۔ بعض لوگ اس کا مذاق اڑانے لگے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کہیں قریب ہی تھے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس عورت کو مشکل میں دیکھ کر فوراً آگے بڑھے اور اس کا بوجھ خود اٹھا کر اس کی منزل پر پہنچادیا۔
      ہادی برحق صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کی برکت تھی کہ مسلمان صحرائے عرب سے نکلے اور دنیا کے چپے چپے کو نور ایمان سے منور کردیا، ان کے سامنے قرآن کا یہ فیصلہ تھا۔ ”احسن کما احسن اﷲ الیک “ یعنی لوگوں کے ساتھ سلوک کرو جیسا کہ اﷲ نے تمہارے ساتھ کیا ہے۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جملہ تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
  • تحائف کا تبادلہ
    • آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مبارک ارشادہے۔
      تھادوا تحابوا
      یعنی ہدیہ دیا کرو اس سے محبت بڑھے گی۔ ہدیہ دینا چاہئے لیکن اس کا ادب یہ ہے کہ اس میں ثواب کی نیت بھی نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ اس طرح یہ خیرات بن جائے گا اور محبوب کو خیرات نہیں دیا جاتا بلکہ محض جس کو ہدیہ دیا جارہا ہے اس کی محبت کی نیت کرنی چاہیئے پس اگر یہ محبت اللہ تعالی کے لیئے ہے تو یہ اللہ کی محبت ہے اور اس سے بڑھ کر پھر کیا بات ہوگی؟ جیسا کہ درج ذیل حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے۔
      ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ۔ " تمام اعمال سے افضل ترین عمل الحب فی اﷲ والبغض فی اﷲ ہے " (ابوداؤد:4599 )
    • تحائف نہ کہ قرض
      • ایک بات یاد رکھنا چاہیئے کہ تحائف دیتے وقت اس کا بدلہ لینے کی نیت نہ ہو ورنہ یہ قرض ہو جائے گا جس کے قوانین پر پھر عمل کرنا پڑے گا نہیں تو سود ہوجائے گا۔یہ اس لئے کہ شادی بیاہ کے وقت لوگ عموماً تحفے جو دیتے ہیں ان کا دل میں لوٹائے جانے کا مطالبہ رکھتے ہیں ۔اس لئے یہ محض نام کے لطائف ہوتے ہیں اصل میں قرض سمجھا جاتا ہے۔
  • عیادت کرنا
    • حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
      جس نے وضو کیا اور اچھے طریقے سے وضو کیا (فرائض‘ سنت‘ مستحبات) کا خیال رکھا اور اپنے بھائی جو کسی مسلمان کی عیادت کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے اس پر کتنے انعامات ہوتے ہیں اس کا اندازہ آپ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے خود لگالیں گے۔
      حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘
      رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
      بھوکے کو کھلاؤ‘ مریض کی عیادت کرو اور ناحق (بے گناہ قیدی کو آزاد کراو۔
      اسی طرح ایک دوسرے موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں‘ سلام کا جواب دینا‘ مریض کی عیادت کرنا‘ جنازے کے ساتھ چلنا‘ دعوت کا قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا‘لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر دیگر حقوق کے علاوہ ایک حق یہ بھی ہے کہ جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو دوسرے مسلمان پر اس کی عیادت لازم اور ضروری ہے۔
      ہر ایک کی عیادت کرو اگرچہ وہ تمہاری عیادت نہ کرتا ہو مقصود صرف اور صرف اللہ کی رضا ہو‘ دنیاوی غرض نہ ہو تب اس پر اجر ملتا ہے۔
      لہٰذا بیہقی میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت منقول ہے
      کہ اس شخص کی بھی عیادت کرو جو تمہاری عیادت نہیں کرتا اور اس شخص کو ہدیہ دو جو تم کو ہدیہ نہیں دیتا۔ اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے دوسرے بھائی کی بیمار پرسی نہیں کی تو اس نے ایک جرم کیا ہے تو اب دوسرے کو نہیں چاہے کہ اس سے تعلق منقطع کردے بلکہ ایسا طرز عمل اختیار کرے جس سے اخوت وبھائی چارہ میں اضافہ ہو اور کدورتیں اور رنجشیں دور ہوں۔
    • عیادت مریض کا ثواب
      • اسی طرح ایک دوسرے موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
        ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں‘
        سلام کا جواب دینا‘
        مریض کی عیادت کرنا‘
        جنازے کے ساتھ چلنا‘
        دعوت کا قبول کرنا
        چھینک کا جواب دینا‘
        لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر دیگر حقوق کے علاوہ ایک حق یہ بھی ہے کہ جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو دوسرے مسلمان پر اس کی عیادت لازم اور ضروری ہے۔
        ہر ایک کی عیادت کرو اگرچہ وہ تمہاری عیادت نہ کرتا ہو مقصود صرف اور صرف اللہ کی رضا ہو‘ دنیاوی غرض نہ ہو تب اس پر اجر ملتا ہے۔ لہٰذا بیہقی میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت منقول ہے کہ اس شخص کی بھی عیادت کرو جو تمہاری عیادت نہیں کرتا اور اس شخص کو ہدیہ دو جو تم کو ہدیہ نہیں دیتا۔ اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے دوسرے بھائی کی بیمار پرسی نہیں کی تو اس نے ایک جرم کیا ہے تو اب دوسرے کو نہیں چاہے کہ اس سے تعلق منقطع کردے بلکہ ایسا طرز عمل اختیار کرے جس سے اخوت وبھائی چارہ میں اضافہ ہو اور کدورتیں اور رنجشیں دور ہوں۔ عیادت مریض کا ثواب حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے وضو کیا اور اچھے طریقے سے وضو کیا (فرائض‘ سنت‘ مستحبات) کا خیال رکھا اور اپنے بھائی کی عیادت کی اس کا مقصود صرف اور صرف اللہ کی رضا ہو تو یہ جہنم سے ساٹھ سال کی مسافت کے بقدر دور ہوگیا۔ (مشکوٰة) آپ اندازہ لگائیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خالصتاًعیادت پر کتنا عظیم اجر عطا فرماتے ہیں۔ اگر مسلمان اس جذبے کے تحت عیادت مریض کرے تو عام معاشرے پر اس کے کتنے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔
        ایک دوسرے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو یہ جنت کی ہواوں میں ہوتا ہے جب تک واپس لوٹ نہیں آتا۔ (مسلم)
        سبحان اللہ کتنا بڑا اجر صرف اس سنت کے عمل پر ملتا ہے۔ اسی طرح ایک اور موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی مریض کی عیادت کرتا ہے تو ایک غیبی آواز کرنے والا آواز کرتا ہے تو نے اچھا کیا اور تمہارے قدم مبارک ہوں تو نے اپنے لیے جنت میں جگہ تیار کرلی۔ (ابن ماجہ)
    • عیادت کرنے والے پر ملائکہ کی دعا
      • حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا انہوں نے فرمایا صبح کے وقت کوئی مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس کیلئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اسی طرح شام کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کیلئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
    • عیادت سے اللہ کو پالینا یقینی
      • جب آدمی خالصتاً لوجھہ اللہ مریض کی بیمار پرسی کرتا ہے ہے تو وہاں اللہ یعنی اس کی رضا کو پالیتا ہے ۔حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بروز قیامت اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائیں گے اے ابن آدم! میں مریض ہوا تو نے میری بیمار پرسی نہیں کی۔ ابن آدم کہے گا میں کیسے آپ کی بیمار پرسی کرتا آپ تو رب العالمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تجھے معلوم نہیں میرا فلاں بندہ بیمار تھا اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے وہاں پالیتا۔ (مسلم شریف)
      • مریض کے سامنے کیا کہنا چاہیے
        • حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی بیمار پرسی کیلئے داخل ہوئے تو فرمایا ”کوئی فکر نہیں انشاءاللہ شفاءہوگی۔
          اور حضرت سعید بن المسیب سے مرسلاً مروی ہے کہ عیادت میں مریض کے پاس زیادہ نہ بیٹھے، تھوڑا بیٹھ کر اٹھ کھڑا ہو۔ اس حدیث میں کس قدر دقیق رعایت ہے اس امر کی کہ کسی کی گرانی کا سبب نہ بنے، کیوں کہ بعض اوقات کسی کے بیٹھنے سے مریض کو کروٹ بدلنے میں، پاوٴں پھیلانے میں یا بات چیت کرنے میں ایک گونہ تکلیف ہوتی ہے۔ البتہ جس کے بیٹھنے سے اس کو راحت ہو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔
  • وعدے کی پاسداری
    • وعدے کی نوعيّت نجی ہو يا کاروباری،عہد اللہ سے کيا جائے يا مخلوق سے ،بہرصورت اس کی پا بندی کرنا تقویٰ کے تقاضوں ميں سے ہے اور معاشرتی ذمہ داری ہے۔ ۔ قرآن نے ايک جگہ يہود کے بارے ميں ان کی عہد شکنی کی بدولت ہی کہا :۔
      اَ لَّذِ يْنَ عَھَدْ تَّ مِنْھُمْ ثُمَّ يَنْقُضُوْنَ عَھْدَ ھُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّة وَھُمْ لاَ يَتَّقُوْنَ ہ ( الانفال : ٥٦ )
      وہ لوگ جن سے تو نےعہد کيا۔ہر مرتبہ اس کو توڑتے ہيں اور خدا سےڈرتے نہيں "۔
      سورۃ توبہ ميں ايک مقام پرحضور صلی اللہ عليہ وسلم کو مشرکين سے بھی وعدہ پورا کرنے کو کہا گيا ہے ۔
      فاَ تِمُّوْااِلَيْھِمْ عَھْدَ ھُمْ اِلٰی مُدَّ تِھِمْ ط اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ ہ ( التوبہ : ٤ )
      "ان سے وعدوں کی مّدت کے مطابق پورا کرو بے شک اللہ متقين سے مّحبت کرتا ہے "۔
      سورۃ مائدہ ميں ارشادِ ربّانی ہے :۔
      "اے مومنو ! اپنے بندھے ہوئے وعدوں کو پورا کرو "۔
      ايک مقام پرآتا ہے :۔
      اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْوُ لا ً ۔
      يعنی وعدے کےبارے ميں پرسش ہو گی "۔
      حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ عليہ وسلم نے ہميشہ وعدے کی پا بندی کی اور سا تھ ہی اپنے پيروکاروں کو ايفائے عہد کی تلقين کرتے رہے ۔ آپ کی مشہور و معروف
      حديث ہے کہ :۔
      لاَ دِيْنَ لِمَنْ لاَعَھْدَ لَہُ ۔
      اس کا دين نہيں جس کا عہد نہيں ۔
      ايک موقع پر جب حضور صلی اللہ عليہ وسلم اسلامی لشکر کے ساتھ بدر ميں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے ۔قلتِ تعداد کی وجہ سے ايک ايک آدمی کی ضرورت پڑ رہی تھی ۔دوصحابی حضرت حذيفہ رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت حسَيلُ جنہوں نے مشرکين سےعدم شرکت کا وعدہ کرليا تھا حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت ميں حا ضر ہوئے اورساری داستان سنائی تو آپ نے ان کو مدينہ بھيج ديا اور فرمايا ہم وعدے کی پا بندی کريں گے ۔
      عہد کو پورا کرنا بھی تقویٰ کے لوازمات ميں سے ہے اور متّقين کا شعار ہے ۔
      وعدہ کرتے ہوئے اس بات کا لحاظ ضرور رکھنا چاہيے کہ کيا جانے والا وعدہ کہيں اسلامی شريعت کی رُوح کے خلاف نہ ہو بلکہ زبان سے ہی ايسے الفاظ نہيں نکالنے چاہيئں ۔جن پر عمل کرنا مُمکن نہ ہو ۔اسلام نے اس بات سے منع کيا ہے ۔ايسی باتيں نہ کيا کرو جو تم نہيں کر سکتے ۔اس لئے کہ اللہ کے ہاں بڑے غصّے کی بات ہے۔
      يٰٓاَ يُّھَا الَّذِ يْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْ لُوْ نَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ ہ (الصف : ٢)
      " اے ايمان والو ! کيوں کہتے ہو ،جو تم کرتے نہيں "۔
      واللہ ! علم باالصواب
  • جماعت کے ساتھ رہنا
    • عنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ افْتَرَقَتْ عَلَي إِحْدَي وَسَبْعِيْنَ فِرْقۃً. وَإِنَّ أُمَّتِي سَتَفْتَرِقُ عَلَي ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً. کُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً۔وَهِيَ الْجَمَاعۃُ.
      أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب : افتراق الأمم، 2 / 1322، الرقم : 3991 - 3993،
      وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 145، الرقم : 12501،
      وأبويعلي في المسند، 7 / 36، الرقم : 3944.
      حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً بنی اسرائیل اکتہّر (71) فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت یقیناً بہتّر (72) فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ وہ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے۔
      عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي (أَوْ قَالَ أَمَّةَ مُحَمَّدٍ) عَلَي ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اﷲِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذًّ إِلَي النَّارِ.
      أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في لزوم الجماعۃ، 4 / 466، الرقم : 2167،
      والحاکم في المستدرک، 1 / 201، الرقم : 397،
      حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا (یا فرمایا : امتِ محمدیہ کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا) اور جماعت پر اللہ تعالیٰ (کی حفاظت) کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا۔
      عَنِ الْحَارِثِ الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ أَمَرَنِيَ اﷲُ بِهِنَّ : الْجَمَاعَةِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَالْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ فِي سَبِيْلِ اﷲِ، فَمَنْ خَرَجَ مِن الْجَمَاعَةِ قِيْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رَبْقَةَ الإِْسْلَامِ مِنْ رَأْسِهِ إِلاَّ أَنْ يَرْجِعَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ خُزَيْمَةَ.
      وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
      أخرجه الحاکم في المستدرک، 1 / 204، 582، الرقم : 404، 1534،
      وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 195، الرقم : 1895،
      والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 157،
      والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 286، 287، 289، الرقم : 3427، 3430، 3431،
      وأبو يعلي في المسند، 3 / 140، الرقم : 1571.
      حضرت حارث اَشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے (اور وہ پانچ باتیں یہ ہیں ) جماعت کے ساتھ ہونے، نصیحت سننے، فرمانبرداری اختیار کرنے، ہجرت کرنے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کا۔ پس جو جماعت سے ایک بالشت برابر بھی الگ ہوا پس اس نے اسلام کا قلادہ (یعنی پٹہ) اپنے گلے سے اتار دیا جب تک کہ وہ (جماعت کی طرف) لوٹ نہیں آتا۔
      عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما في رواية طويلة قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرُ بِالْجَابِيَةِ فَقَالَ : يَأَيَهَا النَّاسُ، إِنِّي قُمْتُ فِيْکُمْ کَمَقَامِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْنَا فَقَالَ : عَلَيْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ، وَإِيَاکُمْ وَالْفُرْقَۃَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ، وَهُوَ مِنْ الاِثْنَيْنِ أَبْعَدُ مَنْ أَرَادَ بُحْبُوْحَۃَ الْجَنّۃِ فَلْيَلْزَمِ الْجَمَاعَةَ، مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِئَتُهُ فَذَلِکُمُ الْمُؤْمِنُ.
      رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
      وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
      أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في لزوم الجماعۃ، 4 / 465، الرقم : 2165،
      والنسائي في السنن الکبري، 5 / 388، الرقم : 9225،
      وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 370، الرقم : 23194،
      وابن أبي عاصم في السنۃ، 1 / 42، الرقم : 88،
      والعسقلاني في فتح الباري، 13 / 316،
      حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جابیہ کے مقام پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطاب فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اس جگہ پر کھڑا ہوں جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے درمیان قیام فرماتے پھر فرمایا : جماعت کو لازم پکڑو اور علیحدگی سے بچو کیونکہ شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور دو آدمیوں سے دور رہتا ہے جو شخص جنت کا وسط چاہتا ہے اس کے لیے جماعت سے وابستگی لازمی ہے جس شخص کو اس کی نیکی خوش کرے اور برائی پریشان کرے پس وہی مومن ہے۔
      عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَا يَجْمَعُ اﷲُ هَذِهِ الْأُمَّةَ عَلَي الضَّلَالَةِ أَبَدًا وَقَالَ : يَدُ اﷲِ عَلَي الْجَمَاعَةِ فَاتَّبِعُوْا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شُذَّ فِي النَّارِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
      أخرجه الحاکم في المستدرک، 1 / 199.201، الرقم : 391. 397،
      وابن أبي عاصم في کتاب السنة، 1 / 39، الرقم : 80،
      واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 106، الرقم : 154،
      وأبو نعيم في حلية الأولياء، 3 / 37،
      والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 258، الرقم : 8116،
      والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 1 / 4222،
      والمناوي في فيض القدير، 2 / 271.
      حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس امت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کا دستِ قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ پس سب سے بڑی جماعت کی اتباع کرو اور جو اس جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ آگ میں ڈال دیا گیا۔
      عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أُمَّتِي لَا تَجْتَمِعُ عَلَي ضَلَالَةٍ فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْکُمْ بِالسََّوَادِ الْأَعْظَمِ.
      رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ.
      أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب : السَّوَادِ الأعْظَمِ، 4 / 367، الرقم : 3950،
      والطبراني في المعجم الکبير، 12، 447، الرقم : 13623،
      والکناني في مصابح الزجاجة، 4 / 169، الرقم : 1395، .
      حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میری امت (مجموعی طور پر) کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت (کا ساتھ) اختیار کرو۔
      عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ : اثْنَانِ خَيْرٌ مِنْ وَاحِدٍ، وَثَلاثَةٌ خَيْرٌ مِنِ اثْنَيْنِ، وَأَرْبَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ ثَلَاثَةٍ، فَعَلَيْکُمْ بِالْجَمَاعَةِ، فَإِنَّ اﷲَ عزوجل لَنْ يَجْمَعَ أُمَّتِي إِلاَّ عَلَي هُدًي. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
      أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 145، الرقم : 21331،
      والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 177 : 5 / 218،
      حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دو (شخص) ایک سے بہتر ہیں اور تین (شخص) دو سے بہتر ہیں، اور چار (اشخاص) تین سے بہتر ہیں، پس تم پر لازم ہے کہ جماعت کے ساتھ رہو، یقیناً اﷲتعالیٰ میری امت کو کبھی ہدایت کے سوا کسی شے پر اکٹھا نہیں کرے گا۔ ان احادیث شریفہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور ہماری حفاظت جماعت کے ساتھ چلنے میں ہے ۔اللہ تعالیٰ تفرقے کو پسند نہیں فرماتے اور جو جو لوگ امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالتے ہیں ان کے لئے وعیدیں ہیں۔کہتے ہیں ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں تو جو کام جماعت کے ساتھ کیا جائے اس میں اللہ تعالیٰ کی مدد ہوتی ہے۔لوگوں میں مختلف صلاحیتیں ہوتی ہیں ۔ایک جماعت کے ساتھ ہونے میں سب کی صلاحیتیں استعمال ہوجاتی ہیں۔
    • پارٹی بازی نہیں
      • جماعت کے ساتھ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی جماعت کی بری چیز کو بھی اچھا کہا جائے بلکہ اپنی جماعت کی کمزوریوں کو مل جل کر دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
  • حیاء جوہر ایمان
    • حیاء ایمان کا شعبہ ہے ۔حیاء سے انسان انسان رہتا ہے ورنہ اس میں اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ بے حیائی کا عمل جب شروع ہوجاتا ہے تو پھر وہ رکتا نہیں ہے بلکہ بڑھتا رہتا ہے حتی ٰ کہ اپنے منطقی انجام تک انسان کو پہنچا دیتا ہے ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں زنا کے قریب بھی جانے سے منع فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے۔
      لاتقربوا الزنیٰ انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا․
      اور پاس نہ جاؤ زنا کے، وہ ہے بے حیائی اور بری راہ ہے۔ اسکی مختصر تفسیر یوں ہے کہ:
      اور زنا کے پاس بھی مت پھٹکو ( یعنی اُس کے مبادی اور مقدمات سے بھی بچو)، بلاشبہ وہ ( خود بھی ) بڑی بے حیائی کی بات ہے اور ( دوسرے مفاسد کے اعتبار سے بھی) بری راہ ہے، ( کیوں کہ اس پر عداوتیں اور فتنے اور تضیع نسب مرتب ہوتے ہیں )۔
      یہ حکم زنا کے متعلق ہے، جس کے حرام ہونے کی دو وجہ بیان کی گئی ہیں، اول یہ کہ وہ بے حیائی ہے او رانسان میں حیاء نہ رہی تو وہ انسانیت ہی سے محروم ہو جاتا ہے، پھر اس کے لیے کسی بھلے برُے کام کا امتیاز نہیں رہتا ۔ اسی معنی کے لیے حدیث میں ارشاد ہے۔
      ”اذا فاتک الحیاء فافعل ماشئت“
      یعنی جب تیری حیا ہی جاتی رہی تو کسی برائی سے رکاوٹ کا کوئی پردہ نہیں رہا جو چاہو گے کروگے۔ اور اسی لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حیا کو ایمان کا ایک اہم شعبہ قرار دیا ہے
      ”والحیاء شعبة من الایمان“․ ( بخاری) دوسری وجہ معاشرتی فساد ہے جو زنا کی وجہ سے اتنا پھیلتا ہے کہ اس کی کوئی حد بندی نہیں رہتی اور اس کے نتائج بد بعض اوقات پورے قبیلوں اور قوموں کو برباد کر دیتے ہیں ۔ سارے فتنے چوری ، ڈاکہ، قتل کی جتنی کثرت آج دنیا میں بڑھ گئی ہے اس کے حالات کی تحقیق کی جائے تو آدھے سے زیادہ واقعات کا سبب کوئی عورت ومرد نکلتے ہیں، جو اس جرم کے مرتکب ہوئے۔ اس جرم کا تعلق اگرچہ بلاواسطہ حقوق العباد سے نہیں، مگر اس جگہ حقوق العباد سے متعلقہ احکام کے ضمن میں اس کا ذکر کرنا شائد اسی بنا پر ہو کہ یہ جرم بہت سے ایسے جرائم ساتھ لاتا ہے جن سے حقوق العباد متاثر ہوتے ہیں۔ اور قتل وغارت گری کے ہنگامے برپا ہوتے ہیں ۔ اس لیے اسلام نے اس جرم کو تمام جرائم سے اشد قرار دیا ہے، اس کی سزا بھی سارے جرائم سے زیادہ سخت رکھی ہے، کیوں کہ یہ ایک جرم دوسرے سینکڑوں جرائم کو اپنے میں سموئے ہوئے ہے۔
      حدیث میں ہے
      کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں او رجہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بدبوپھیلے گی کہ اہل جہنم بھی اُس سے پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں بھی ہوتی رہے گی۔ (رواہ البزار عن بریدہ)۔ مظہری
      ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے
      کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ زنا کرنے والا زنا کرنے کے وقت مؤمن نہیں ہوتا۔ چوری کرنے والا چوری کرتے وقت مومن نہیں ہوتا اور شراب پینے والا شراب پیتے وقت مؤمن نہیں ہوتا۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں ہے ۔ اس کی شرح ابوداؤد کی روایت میں یہ ہے کہ ان جرائم کے کرنے والے جس وقت مبتلائے جرائم ہوتے ہیں تو ایمان ان کے قلب سے نکل کر باہر آجاتا ہے اور جب پھر اس سے لوٹ جاتے ہیں تو ایمان واپس آجاتا ہے ۔ (مظہری)
      حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
      کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل سے حیا کرو جیسا اس سے حیا کرنے کا حق ہے"۔ ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہم حیاکرتے ہیں اور تمام تعریف اللہ تعالٰی کےلیے ہے۔ رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حیا نہیں، بلکہ حیا یہ ہے کہ تو اپنے سر اور جن پر پردہ مشتمل ہے (عورتوں کو سر سے پاؤں کے ناخن تک) کی حفاظت کرو۔ (جامع ترمذی)
  • صدق
    • سچائی کی فضلیت
        وَ الَّذِ يْ جَآ ٕ بِالّصِدْق ِ وَ صَدَّ قَ بِہ اُوْ ٓلٰيِکَ ھُمُ الْمُتَّقُونَ ہ ( الزمر : ٣٣ )
        " جو سچ لے کر آيا اور اس کو سچّا بھی جانا سو وہی پر ہيز گار ہے "۔
        صدق اور سچائی کو جہاں خدائی صفت ہونے کا شرف حاصل ہے وہاں انسانی اخلاق کے ميدان ميں بھی اسے سب سے اعلٰی اور اونچا مقام حاصل ہے ۔معاشرہ سچ پر ہی چل سکتا ہے ۔جب کسی کے قول کا اعتبار نہیں ہوگا تو اس کے ساتھ کوئی نعاملہ کیسے کیا جاسکتا ہے اور ہمارے آپس کے معاملات پر ہی پورا معاشرہ سوار ہے اس لئے معاشرہ میں سچ کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ صدق چونکہ دل اور زبان کی ہم آہنگی کا نام ہے ۔اس لئے اگر سچائی اور صداقت حاصل ہو اجائے تو نيکيوں کا حصول آسان ہو جاتا ہے ۔
        اعمال اور اخلاق کی بنياد سچائی ہے ۔اسی لئے اسلام نے صرف "صدق " کے اختيار کرنے کا حکم ہی نہيں ديا بلکہ ہميشہ سچّوں کے ساتھ رہنے کا مسلمانوں کو پابند بناتے ہوئے اس کو تقویٰ کا ايک تقاضا قرار ديا ہے ۔
        يٰآ َيُّھَا الَّذِ يْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللہَ وَ کُونُوْا مَعَ اْلصّٰدِقيْنَ ہ ( التوبہ : ١١٩ )
        " اے اہل ايمان تقویٰ اختيار کرو اورسچّوں کے ساتھ ہو جاؤ "۔
        قيامت کے دن بھی صدق ہی کام آئے گا ۔
        ھٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِ قِيْنَ صِدْ قُھُمْ ہ ( المائدہ : ١١٩ ) " يہ ايسا دن ہے کہ سچوں کو ان کا سچ ہی کام دے گا "۔
        اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بے حساب و بے شمار رحمتیں کر رکھی ہیں ، اللہ کی اپنے بندوں اور خاص طور پر ایمان والے بندوں پر رحمت کا تو انداز ہی جُدا ہے کہ اُن کے لیے اُن کی زندگیوں کے ہر ایک لمحے میں رحمت اور مغفرت اور درجات کی بلندی کا سبب رکھ دیا ، اور اپنے بندوں کی درجہ بندی فرما کر اُن کے اِیمان اور اعمال کے مطابق اُنہیں مختلف اِقسام میں بیان فرمایا اور اُن اعمال کو اپنی رحمت و مغفرت ، اجر و ثواب ، یا اپنے غیض و غضب ، سزا و عذاب کا سبب بیان فرمایا ،
        ان اعمال میں سے دو کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا
        لِیَجزِیَ اللَّہُ الصَّادِقِینَ بِصِدقِہِم وَیُعَذِّبَ المُنَافِقِینَ إِن شَاء أَو یَتُوبَ عَلَیہِم إِنَّ اللَّہَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیماً
        تا کہ اللہ صِدق والوں کو اُن کے صِدق کی جزاء عطا فرمائے اور اگر چاہے تو منافقوں کو عذاب دے یا اُن کی توبہ قبول کرے بے شک اللہ بخشش کرنے والا اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے الأحزاب/آیت 24،
        اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہ خبر ملتی ہے کہ ، اِیمان کی بنیادوں میں سے اہم بنیاد صِدق ہے،اور منافقت کی بنیاد جھوٹ ہے ، پس ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ یہ دونوں ایک جگہ اکٹھے ہوں ، ایک دوسرے کو پہچان لیں اور ان کا جھگڑا نہ ہو،
        اور یہ خبر بھی ملتی ہے کہ مُنافقت آخرت میں عذاب کا سبب ہے جبکہ سچائی ثواب کا ، بلکہ معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ صرف ثواب پر موقوف نہیں ، بلکہ آخرت میں بندے کی نجات کے بنیادی اسباب میں سے ہے ، جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے
        ہَذَا یَومُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدقُہُم لَہُم جَنَّاتٌ تَجرِی مِن تَحتِہَا الأَنہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَداً رَّضِیَ اللّہُ عَنہُم وَرَضُوا عَنہُ ذَلِکَ الفَوزُ العَظِیمُ
        اللہ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کی سچائی نفع دے گی ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے دریا بہہ رہے ہیں ، ان باغات میں یہ سچے لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ ہے عظیم کامیابی
        سورت المائدہ / آیت 119 ،
        صِدق ، جسے عام طور پر ہم لوگ سچائی کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں، اور اس کا مفہوم سچ بولنا لیا جاتا ہے ، لیکن اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان ظاہری طور پر ، باطنی طور پر ، سب کے سامنے ، اور تنہائی میں ، غرضیکہ ہر وقت اس طرح رہے کہ اُس کا عمل اور اُس کے اقوال ، اسکا ظاہر اور اس کا باطن ایک دوسرے کی تکذیب نہ کرتے ہوں ،
        اس سلسلے میں ایک خاص معاملہ یہ ہے کہ اِیمان کے لیے اِخلاص لازمی صفت ہے اور صِدق اِخلاص کو اپنے اندر لیے ہوتا ہے ، یعنی ہرایک صاحب صِدق مُخلص ہوتا ہے لیکن ہر مُخلص صاحبِ صِدق نہیں ہوتا ،
    • صِدق کی پہچان
      • تین درجوں پر ہوتی ہے صدق کی پہچان
        کسی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہو کہ وہ صادق ، یعنی سچا ہے ،
        کسی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ صُدُوق یعنی بہت سچا ہے ،
        کسی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ صِدِّیق یعنی بہت ہی زیادہ سچا ہے ،
        اور یہ تیسرا درجہ ''' صِدق ''' کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے ،
        اللہ تعالی نے اُنہیں ، اُن کے اِس صِدق کا ، دُنیا میں ایک پھل تو یہ عنایت فرمایا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُن کی محبت ہر ایک اِیمان والے اور اِیمان والی کے دِل میں راسخ کر دی ، اور دوسرا انعام یہ عطا فرمایا کہ ، ان کی بہت ہی زیادہ سچے ہونے کی خبر ہر ایک اِیمان والے اور اِیمان والی کے دِل و دماغ میں راسخ کر دی اُس کی زُبان اور قلم پر رائج کر دی ، اور آخرت کے انعامات کے بارے میں خبر عطا فرمائی
        وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولائِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنعَمَ اللّہُ عَلَیہِم مِّنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَائِکَ رَفِیقاً
        اور جو اللہ کی اطاعت کرے گا اور رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اطاعت کرے گا تو وہ (آخرت میں ) یقینا ، نبیوں اور صدیقوں اور شھیدوں اور نیکو کار لوگوں کے ساتھ ہو گا اور یہ ساتھی (تو) بہت ہی اچھے ہیں (سورت النساء / آیت69 ، )
        اللہ سبحانہ و تعالیٰ یقینا یہ جانتا تھا کہ اُسکی مخلوق میں کچھ ایسے بد بخت بھی ہوں گے جنہیں اُس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پہلے بلافصل خلیفہ ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہُ کی یہ فضیلت بھی برداشت نہ ہو گی اس لیے اگلی ہی آیت میں ، ایمان والوں کی دِل جمعی کے لیے اور ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہُ سے بغض و عناد رکھنے والوں کے لیے عذاب کی خبر کے لیے اِرشاد فرمایا
        ذَلِکَ الفَضلُ مِنَ اللّہِ وَکَفَی بِاللّہِ عَلِیماً
        سورت النساء /آیت (70)
        یہ اللہ کی طرف سے فضل ہے اور اللہ (سب کے بارے میں) بہت اچھی طرح عِلم رکھنے والا کافی ہے
        اس آیت مبارکہ میں''' صدیق''' سے مُراد نبیوں علیھم السلام کے پیروکار ہیں ، اور یہ بتایا گیا ہے کہ انبیاء کے بعد ان کے درجہ ہوتا ہے ، ان '' صدیقوں '' کی تعریف یوں کی گئی کہ
        یہ وہ لوگ ہیں جو انبیاء اور رسولوں کے براہ راست پیروکاروں ، ساتھیوں میں صحابیوں میں سے اپنے تصدِیق کی قوت کی بنا پر سب سے بہترین اور ہوں ، اور یا انبیاء ہی کی طرف سے خاص طور پر چُنے گئے ہوں ،
        اس صفت کی بنا پر یہ لوگ انبیاء کے بعد سب سے زیادہ افضل اور بُلند رُتبے والے ہیں ، ان کے بعد والا درجہ ''' صادقین ''' کا ہے ، جن کی راہ پر چلتے ہوئے اُن کے ساتھ رہنے یعنی ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر ایمان اور اُن کی تابع فرمانی میں اُن کے ساتھ رہنے ، کا حُکم اللہ تعالیٰ نے دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا
        یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّہَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَاے ایمان لانے والو اللہ (کے غیض و عذاب ) سے بچو اور سچائی والوں کے ساتھ رہو (سورت التوبہ / آیت 119، )
        یہ وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ چلے منافقین کے ساتھ نہیں ہوئے ، اور ان میں سب سے پہلا گروہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ،
        اس آیت مبارکہ میں '' صادقین سچائی والوں '' کی تفسیر میں چند اور اقول بھی مذکور ہیں ، پس کہا گیا کہ '' صادقین '' سے مُراد انبیاء اور رسول علیہم الصلاۃ و السلام ہیں ، اور کہا گیا کہ '' صادقین '' سے مُراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد پورے کیے ، اور کہا گیا کہ '' صادقین '' سے مُراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے دو بلافصل خلیفہ ابو بکر الصدیق اور عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما ہیں ، اور کہا گیا کہ ''' صادقین ''' سے مُراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ، اور کیا گیا کہ '' صادقین''' سے مُراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس طرح حق قبول کیا اور اسکی تصدیق کی کہ اُنکے ظاہر اور باطن میں کوئی فرق نہیں ہوا ، ( تفسیر الطبری ، تفسیر القرطبی )(خیال رہے یہ مختلف اقوال اختلاف نہیں ہیں بلکہ تنوع فہم ہیں اور سب کے اپنی اپنی جگہ پر ایک صحیح مفہوم لیے ہوئے اور کوئی بھی اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کسی فرمان کے خلاف نہیں ۪)
      • صِدق کے حصول کےچند اہم ذرائع
        • پہلا ذریعہ ۔ والدین کا اپنا عمل
            یہ سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہے جس کو استعمال کر کے ہم اپنی اولاد کے دِلوں اور دِماغوں میں کچھ بھی ڈال سکتے ہیں او راُسے راسخ کر سکتے ہیں اور اس طرح کہ انہیں یہ احساس بھی نہ ہو کہ انہیں کیا سکھایا جا رہا ہے ،
            اگر بچے یہ دیکھیں کہ ان کے والدین ہر معاملے میں سچ پر عمل پیرا رہتے ہیں ، ان کے قول اور ان کے فعل ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والے ہوتے ہیں ، تو بچے خود بخود ایسا ہی کرنا سیکھتے چلے جائیں گے ، اور جب یہ کام اُن کی زندگیوں کا لازمہ بن جائے اور وہ کہی ہوئی بات کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں تو پھر انہیں صِدق کے بارے میں معلومات اور قولی تعلیم کا آغاز کیاجانا چاہیے ،
            ذرا سوچیے ایسے والدین جو سچے نہیں ہوتے ، ان کے قول اور فعل ان کے ظاہر اور باطن ایک دوسرے کی تصدیق کرنے کی بجائے تکذیب کرتے ہیں ایسے والدین کی اولاد بھی خودبخود جھوٹ اور دھوکہ دہی سیکھتی چلی جاتی ہے اور پھر بعد میں ، یا ساتھ ہی ساتھ کی جانے والی نصیحت کسی کام نہیں آتی ، مثلاً بچے دیکھتے اور سنتے ہیں کہ ان کے والد صاحب لوگوں سے جھوٹ بولتے ہیں اپنے کام نکلوانے کے لیے ، اپنی تجارت چلانے کے لیے ، اپنی ساکھ بنانے کے لیے ، لوگوں میں اپنی شان بنانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں ، اور کچھ ایسا ہی معاملہ والدہ کا بھی ہوتا ہے ،
            عام روزمرہ کے معمولات میں ایسے جھوٹ اور دھوکہ باری کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں ، جیسا کہ والد کسی کے آنے پر یا کسی کے فون آنے پر بچوں میں سے کسی کو کہتے ہیں کہ کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں ، یا ، کہہ دو کہ ابو سو رہے ہیں '''وغیرہ وغیرہ ، اور والدہ چند روپے کی چیز کی قیمت کئی سو میں بتاتی دکھائی دیتی ہیں، خاوند کی دی ہوئی چیز یا خود خریدی ہوئی چیز کو میکے کا تحفہ بتاتے ہوئے سنائی دیتی ہیں ، وغیرہ وغیرہ ،
            بچے یہ غیر محسوس تربیت اور تعلیم صرف اپنے والدین سے ہی حاصل نہیں کرتے بلکہ اپنے خاندان اور اپنے اِرد گِرد کے ہر بڑے سے حاصل کرتے ہیں ، پس جب یہ والد یا والدہ ، خاندان کے بڑے ، معاشرے میں بڑے بچوں کو جھوٹ بولنے سے منع کرتے ہیں یا ڈانٹتے ہیں تو ان بچوں کے دِلوں میں اپنے والدین اور بڑوں کے لیے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جن کے نتائج بعد میں نکل کر ہی رہتے ہیں ، جن میں سے سب سے پہلا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اولاد اپنے کاموں کے بارے میں ان والدین سے جھوٹ بولنے لگتی ہے اور ان کو دھوکہ دینے لگتی ہے ،
            پس یہ ہم سب کا اجتماعی فریضہ ہے کہ ہم صِدق کو اپنائیں رکھیں تا کہ ہم اپنی مانے والے نئی نسل اور ان کے ذریعے ان کے بعد آنے والے اگلی نسلوں میں صِدق کے پودے لگاتے جائیں اور جھوٹ اور دھوکہ دہی کی بیج کنی کرتے جائیں ، اللہ ہم سب کو جھوٹ اور دھوکہ دہی سے محفوظ رکھے اور ہماری نسلوں کو بھی ،
        • دوسرا ذریعہ ۔ اللہ کی ذات پاک ، اس کی صفات اور اس کی قدرت کی پہچان
          • انسان کے اندر وہ احساسات اجاگر کرنے کا اہم سبب ہے اور انسان کو جھوٹ سے دور رکھنے اور صِدق کی مزلیں طے کروانے کا اہم سبب ہے ،
        • تیسرا ذریعہ۔ دُنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی ہمیشگی کا یقین
          • دُنیا اور اس کی سجاوٹ اور اس کے پھلوں اور پھولوں کی حقیقت جان کر اُس کی طرف راغب نہ رہنا اور آخرت کی حقیقت جان کر اس میں خیر اور فائدے کے حصول کی تگ ودو بھی انسان کو مسالکءِ صِدق کا سالک بنانے کا سبب ہے ،
        • چوتھا اور سب سے اہم ذریعہ تصوف
          • آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ حب الدنیا رأس کل خطیئۃ یعنی دنیا کی محبت ساری خطاوٗں کی جڑ ہے۔جب یہ بات ذہن میں رکھی جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ اس ساری خطاؤں کی جڑ کو اگر دل سے نکال لیا جائے تو جھوٹ اور منافقت سے بھی جان چھوٹ جائے گی ۔کہتے ہیں ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں ۔پس دنیا کی محبت نکالنے کی جو بھی ترکیب ہوگی وہ صدق حاصل کرنے کی بھی ترکیب ہوگی۔یہ بات اب قارین پر مخفی نہیں ہوگی کہ دنیا کی محبت کو دل سے نکالنے کا فن تصوف کہلاتا ۔اس لئے سالکین آخر میں صادقین بھی ہوجاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صادقین میں شامل فرمائے۔
      • جھوٹ اور دِکھاوے کی بات میں فرق
        • اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دِین ، جس سے ہم منسوب ہیں ، اللہ نے اپنے ایمان والے بندوں کے لیے آسانی بنایا ہے ، اور اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندوں کے لیے آسانی چاہتا ہےیُریدُ اللہُ بِکُم الیُسرَ ولا یُریدُ بِکُم العُسر اللہ تُم لوگوں کے لیے آسانی چاہتا اور تُم لوگوں کے لیے تنگی نہیں چاہتا سورت البقرہ ، پس اپنی اس شفقت کے مطابق ، اپنی مکمل بے عیب حِکمت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زُبان مُبارک سے اِیمان والوں کے لیے ، صِدق کی مشقت میں سے کچھ رُخصت یعنی چُھوٹ کے مواقع بھی عطا فرمائے ، صِدق کے بارے میں یہ بنیادی معلومات جاننے کے بعد ضروری ہےکہ ان مواقع کے بارے میں بھی مختصر طور پر کچھ بات کر لی جائے ،
          دِکھاوے کی بات جسے عربی میں ''' التوریۃٌ ''' کہا جاتا ہے ، یعنی ایک بات کی آڑ میں دوسری بات کو چھپانا ، اس سے مُراد ذومعنی بات ہے ، یعنی ایسی بات جس کے دو یا دو سے زیادہ معنی ہو ں ، کہنے والا کا مقصد وہ نہ ہو جو ظاہری الفاظ سے عیاں ہوتا ہو ، بلکہ باطنی معنیٰ میں پوشیدہ ہو ، جو کہ سننے والے کی رسائی میں نہ آ سکتا ہو ،
          اس قسم کی بات کی دلیل کے طور پر ایک تو اِبراہیم علیہ السلام کا مذکورہ بالا فرمان کہ جب انہوں نے اپنی بیوی کے بارے میں یہ کہا کہ ''' ھی اُختی میری بہن ہے ''' ، کہ اس طرح انکی مراد یہ تھی کہ اُن کی بیوی بحیثیت مسلمان ان کی مسلمان بہن تھیں
          اور دوسری دلیل خلیفہ اول بلا فصل ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی وہ بات جو انہوں مدینہ المنورہ کی طرف ہجرت کے دوران فرمائی کہ جب راستے میں لوگ ان سے اُن کے ساتھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بارے میں پوچھتے کہ یہ کون ہیں تو اس ڈر سے کہ کہیں قریش کو خبر نہ کر دے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں یہ بتاتے کہ ھذا ھادی یھدینی الی الطریق یہ راہنما ہیں مجھے راستہ دکھا رہے ہیں
          ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ جو فرما رہے تھے وہ بالک سچ تھا ، لیکن سننے والے کو لامحالہ یہ ہی سمجھ آتا کہ یہ کوئی مقامی راستے جاننے والا ایسا راہبر ہے جسے ابو بکر نے اپنے ساتھ اجرت پر لے رکھا ہے تا کہ انہیں ریگستان اور پہاڑوں وغیرہ میں راستہ دکھا کر بتا کر ان کی منزل مقصود یثرب یعنی مدینہ المنورہ تک پہنچا دے ، اور ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی بات سے اُنکی مراد مدینہ کی طرف راستہ نہ تھا بلکہ اللہ کی طرف ، اللہ کی رضا اور اللہ کی جنت کی طرف کا راستہ تھا ،
          اس سفر میں مدینہ منورہ کی طرف راستہ بتانے کے لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے عبداللہ بن أریقط کو اُجرت پر لے رکھا تھا ، لیکن ابو بکر الصدیق کی اس ذومعنی بات سے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو زمینی راستہ بتانے والا راہبر سمجھتے ، تو ایسی بات کو جھوٹ نہیں کیا جاتا ، گو کہ ظاہری طور پر یہ جھوٹ ہی لگتی ہے ، اور ایسی بات کسی شرعاً جائز اور فائدہ مند عمل کے لیے کہی جانا جائز ہے ،
          اس قسم کی بات کو '''التوریۃ '''بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا اور اس کو ''' المعاریض ''' بھی کہا جاتا ہے ، دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے کہ کوئی شخص کوئی چیز دکھا کر یا کہہ کر کچھ اور دکھانا یا کہنا چاہتا ہو ،
          خیال رہے کہ یہ تقیہ نہیں ، جو لوگ تقیہ کرتے اور کرنے کا کہتے ہیں وہ کسی خیر کے لیے ایسا نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کے نقصان کے لیے اپنے شر کو چھپانے اور خیر اور اِیمان کے طور پر دکھانے کے لیے جھوٹے قول و فعل ادا کرتے ہیں ،
          ہم نے جو جھوٹ ، یا سچی ذومعنی بات کرنے کے جواز کا ذکر کیا ہے وہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ بات اسلام اور مسلمانوں کے لیے خیر والی ہو ، جبکہ تقیہ میں یہ شرط بالکل نہیں پائی جاتی بلکہ اس کا اُلٹ ہے ،
          پس
          صِدق وہ راہ ہے کہ اس کے چھوڑنے والے اللہ کی راہ سے کٹ جانے والے اور ھلاک ہوجانے والے ہوجاتے ہیں ،
          صِدق وہ راہ ہے جو اپنے راہیوں کو اہل نفاق اور اہل کفر اور اہل شرک سے الگ اور ممتاز کرتی ہے ،
          صِدق وہ راہ ہے جو اہل جنت اور اہل جہنم میں فرق کرتی ہے ، کہ اس پر چلنے والے جنت میں جانے والے ہو جاتے ہیں اِن شاء اللہ ، اور اس کو چھوڑنے والے جہنم میں جانے والے ، اِن شاء اللہ ،
          ابو القاسم الجنید بن محمد القواریری جو اہل تصوف کے ایک بڑے عالم تھے ، سے کیا خوب بات منسوب ہے کہ
          صِدق (پر عمل پیرا رہنا )ایسا ہے جیسا کہ پہاڑوں کو اٹھائے رکھنا کہ جس پر بہت ہی مضبوط اِرداہ والے لوگ قائم رہ سکتے ہیں اور یہ لوگ اس وزن کے نیچے کسی حاملہ کی طرح رہتے ہیں جو اپنا حمل اٹھائے مشقت اور تکلیف میں اپنا وقت گذارتی ہے ، اور جھوٹ کسی پَر کی طرح ہلکا ہوتا ہے ، جس کا کوئی وزن اور تکلیف جھوٹا شخص محسوس نہیں کرتا اس لیے وہ اُسے اُٹھائے ہوئے جہاں چاہتا ہے لیے چلتا ہے اور اِستعمال کرتا رہتا ہے۔
          اے اللہ ہمیں اپنا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا سچا عملی تابع فرمان بنا دے۔
        • اماِم غزالی رحمتہ اللہ نے احياء العلوم ميں " صدق " کی چھ اقسام بيان کی ہيں
          • زبان کی سچائی
            • زبان کی سچائی سے مراد یہ ہے کہ سچ بولے۔
          • نیت کی سچائی
            • نیت کی سچائی یہ ہے کہ درست نیت کے ساتھ کام کیا جائے
          • عزم کی سچائی
            • ارادے کی پختگی عزم کی سچائی ہے،
          • عزم کی تکمیل کی سچائی
            • اپنے عزم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے صحیح اسباب کو اختیار کرنا
          • عمل میں سچائی
            • یعنی عمل اس ارادے کے مطابق ہو
          • امور دینیہ میں سچائی
            • صدق کی برکت کے بارے ميں حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی وہ روايت ملاحظہ ہو جس ميں ايک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے عرض کی تھی کہ مجھ ميں چار بُری خصلتيں ہيں ،يارسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ! ايک کو چھوڑ دينے کی تلقين فرمائيں ۔تو آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا " جھوٹ بولنا چھوڑدو "۔تو اللہ تعالٰی نے ترکِ جھوٹ اور سچائی اختيار کرنے کی وجہ سے اسے ساری بُری خصلتوں سے محفوظ کرديا۔ : اللہ تعالٰی سچ اختيار کرنے کی تو فيق عطا فرمائے ۔
  • نفاست ،صفائی اور پاکی
    • فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُ وْ ا وَ اللہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ (التوبہ: ۱۰۸)
      اس میں ایسے مرد ہیں وہ پسند کرتے ہیں کہ پاکیزہ رہیں اور اللہ پسند فرماتا ہے پاکیزہ رہنے والوں کو
      اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرامؓ کی ایک عادت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکیزگی سے محبت رکھتے تھے اور ساتھ یہ خوشخبری بھی سنا دی گئ کہ اللہ رب العزت پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔ پس ہر مومن کے دل میں یہ تمنا ہونی چاہئے کہ وہ پاکیزہ رہے تاکہ رب کریم کے محبوب بندون میں شمولیت نصیب ہو۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔
      اَلطَّھُوْ رُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ
      (صفائی ایمان کا حصہ ہے)
    • صفائی اور پاکیزگی میں فرق
      • اگر ہم تعلیمات اسلا م پر ایک غائر اور گہری نگاہ ڈالیں اور اسلامی عبادات پر غور کریں تو ہمیں ایک بہت واضح چیز جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام پاکیزگی، طہارت اور صفائی کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور اس کی پڑی ہی تا کید کرتا ہے ۔پاکی اور صفائی دو مختلف چیزیں ہیں ۔پاکی یعنی طہارت نجاست کی ضد ہے ۔فقہ میں طہارت کے قوانین بتائے گئے ہیں ۔اس میں نماز کے لئے کپڑوں ، جسم اور جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے۔اس میں ایک خاص حد تک تو طہارت فرض ہے یعنی بغیر اس کو پاک کئے نماز ہی نہیں ہوگی اور اس سے آگے مستحب ہے یعنی بغیر اس سے پاک کئے نمناز ہو تو جاتی ہے لیکن اس کا پاک کرنا بہتر اور زیادہ ثواب کا باعث ہوتا ہے۔صفائی کا معاملہ بھی اس طرح ہے کہ انسان صاف نہ ہو لیکن پاک ہو نماز تو ہوجائے گی لیکن ایسا پسندیدہ نہیں ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا ہے ۔خدا تعالیٰ میلا کچیلا بدن اور بکھرے بال پسند نہیں فرماتا “ (ترندی)۔
        مثلا ً غسل ہی کو لیجئے ۔ صحت مندی تازگی اور صفائی کے یہ تقاضے ہیں کہ انسان روزانہ غسل کرے اوراگر پانی کی قلت یا اور کسی دوسری وجہ سے یہ ممکن نہ ہوتو ہفتے میں ایک روز جمعہ کی نماز کے لئے اس کا اہتمام ضرور کرے ، پھر اسلام نے ہمیں درس بھی دیا ہے کہ ہم دانتوں کو صاف رکھنے کے لئے پابندی سے مسواک کریں کیوں کہ پیٹ کی بیسیوں بیماریاں دانتوں کے میل کچیل سے ہی پیدا ہوتی ہےں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اگر مجھے امت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں مسواک کو ہرمومن پر فرض قرار دیتا “۔
        انسان کا لباس بھی جسم کی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا آئینہ دار ہوتا ہے اسلام اگرچہ لباس میں شان و شکوہ‘ اسراف بے جا اور تکلف کو پسند نہیں کرتا لیکن لباس میں صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا مطالبہ ضرور کرتا ہے ۔ ظاہری شکل و صورت کو بھی قرینے سے رکھنے کی اسلام تاکید کرتا ہے کیوں کہ یہ بات بھی پاکیزگی اور صفائی کے ضمن میں آتی ہے ، اسلام اس کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنی شکل و حشیوں کی سی بنائے رکھے ، میلا کچیلا بدن رکھے یا بے تکے بال بڑھائے۔
        ناخنوں کے ذریعے سے بھی بہت سی غلا ظت کھانے کے ساتھ پیٹ کے اندر جا کرمعدے کی بیماریاں بہت سی پیدا کرتی ہے اور ویسے بھی وحشیوں کی طرح ناخن بڑھائے ہوئے آدمی اچھا نہیں معلوم ہوتا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دس چیزوں کو پیغمبر کی سنت قرار دیا ہے ان میں ایک ناخنوں کا تراشنا بھی ہے ۔جسم اور روح کی پاکیزگی اور صفائی کے ساتھ اسلام اس ماحول کی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا بھی مطالبہ کرتا ہے جس میں انسان رہتا ہے ۔ مثلاً جس گھر میں وہ رہتا ہے اسے صاف ستھرا رکھے او رہرایسی چیز سے پرہیز کرے کہ جسے دیکھ کر دوسروں کو کراہت آتی ہو یا تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔مثلا ً بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ گھر کا کوڑا کرکٹ صاف کر کے اپنے دروازے کے سامنے سڑک یا گلی میں ڈال دیتے ہیں اس سے ایک تو خود ان کے گھر والوں کاپھو ہڑپن ظاہر ہوتا ہے دوسرے راہ چلنے والوں کو ان کے اس عمل سے تکلیف ہوتی ہے ۔ اسی طرح راستوں میں تھوکنا ،باربار ناک یا کان میں انگلیاں ڈال کر میل نکا لنا ،سائے دار درختوں کے نیچے ،گلی بازاروں یا گزر گاہوں میں پیشاب کرنا وغیرہ ۔ یہ سب چیزیں صاف ستھرے ماحول کو متا ثر کرتی ہیں ۔ اسلام ان سب باتوں کو طہارت اور تہذیب کے خلاف قرار دیتا ہے ۔
        صحت اور تندرستی اللہ تعالی ٗ کی بہت بڑی نعمت ہے اس لئے اس نعمت کا شکر کرنا واجب ہے اور وہ یوں کہ ایک تو اس صحت کو خدا کی نافرمانی میں استعمال نہ ہونے دیا جائے دوسرا یہ کہ جو چیز صحت کے لئے مضر ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔پس اگر صحت مند زندگی بسر کرنا مقصود ہے تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے حفظ صحت کے اصولوں کو جانا جائے اوردیانت کے ساتھ ان پر عمل کیا جائے ۔ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ بد پر ہیز ی کا سلسلہ جاری ہے ان تمام اصولوں کو نظر انداز کیا جائے جو صحت وتندرستی قائم رکھنے میں ممدد معاون ہوتے ہیں ان تمام عادتوں کا اختیار کر لیا جائے جن سے صحت بگڑتی ‘زندگی کم ہوتی اور بیماری قابو پاتی ہے اورپھر توقع کی جائے کہ ہم صحیح سلامت رہیں ۔مرض دوسروں کے لئے ہیں عافیت اور صحت ہمار احصہ ہے ،کوئی بیماری ہمارے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی ۔یہ محض خوشی فہمی، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں خود فریبی ہے ۔ جس طرح دو اور دو چار ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح انسان کا کردار اور اسکا عمل اس کے مستقبل کی سلامتی یا بربادی کا غماز اور ثمرہ ہوتا ہے ۔
        مسلانوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ”خیرامت ‘ ‘کے خطاب سے نوازہ ہے اور انہیں معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کا فریضہ سونپا گیا ہے ۔ کیا یہ فریضہ کوئی ایسی قوم یاجماعت انجام دے سکتی ہے جو نحیف و ضعیف ہو ،جس کی صحت خراب ہو ،جو زمانے کے مصائب برداشت کرنے کی ہمت نہ رکھتی ہو ؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہی دیا جا سکتاے ۔پھر اگر ہم واقعی ”خیرامت “بننا چاہتے ہیں اور وہ فرائض ادا کرنا چاہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد ہوتے ہیں تو ہمیں مضبوط ،توانا اور طاقت ور بننا چاہئے ۔طاقت ور توانائی حاصل کرنے کے لئے ضروری اور بہت ضروری ہے کہ ہماری صحت قابل رشک ہو اور پھر اس سے ہم اللہ تعالیٗ کی فرمانبرداری کا کام لیں۔
        اندلسی مسلمانوں نے یورپ کو ایک نئی تہذیب سے متعارف کروایا۔ اِسلام کی آمد سے قبل یورپ میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ختم نہ ہوتے تھے، سیوریج کا گندہ پانی گلیوں اور بازاروں میں ہر سُو بکھرا رہتا تھا، عموماً لوگ مہینہ بھر نہاتے نہ تھے اور کوئی ہفتے میں ایک آدھ بار نہا لے تو اُس کے مسلمان ہونے کا شک کیا جاتا تھا۔ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہ تھا۔ پورے یورپ میں ہسپتالوں کا وُجود ہی نہ تھا۔ خطرناک بیماریوں کا علاج جادُو، ٹونے اور عملیات کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ لوگ توہمات کے اِس قدر رسیا تھے کہ معالج کی بجائے عامل کی طرف رُجوع کرنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ کھانے اور پہناوے میں نفاست کا فقدان تھا۔ تعلیم، علاج اور تہذیب و ثقافت غرض عملی زندگی کا ہر شعبہ قابلِ رحم حالت کو پہنچا ہوا تھا۔
        مسلمانوں نے ہی یورپ کو ایک فکرِ تازہ سے رُوشناس کیا۔ زندگی کے نئے اَسالیب عملی طور پر اُن کے سامنے رکھے اور دیکھتے ہی دیکھتے سپین کی زندگی کی کایا ہی پلٹ دی۔ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اِسلامی سپین یورپ بھر کے لئے رشکِ فلک بنا۔ دُنیا سپین کی ترقی اور تہذیب کی مثالیں دینے لگی۔ آج کتنی افسوس کی بات ہے کہ جو اس وقت یورپ کی حالت تھی وہ ہماری ہے۔ہم صفائی ستھرائی سے اس حد تک بے پرواہ ہوگئے ہیں کہ اب جو صفائی کا کچھ خیال رکھنے لگتا ہے تو اس کو یورپ سے متاثر سمجھا جاتا ہے۔خوشبو لگانا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سنت ہے۔کیا ہم اس نیت سے خوشبو نہیں لگا سکتے ہیں کہ یہ آپ کی سنت ہے اور اپنی بد بو سے دوسروں کو اس کے ذریعے سے بچانا ہے۔ڈاڑھی رکھنا آپ کی سنت ہے ہی اس میں کنگھی کرنا اور اس کو خوبصورت رکھنا تو بھی آپ کی سنت ہے۔کپڑے پاک رکھنا فرض ہے تو اس کو صاف رکھنا سنت مستحبہ تو ہے ہی۔
        نفاست۔ اگر کوئی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے ہوئے سلیقے کے ساتھ ہر کام کرے تو اس کو نفیس کہتے ہیں اور اس عمل کو نفاست کہتے ہیں۔
  • امر بالمعروف و نہی عن المنکر
    • اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
      وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّۃٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
      ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں۔
      (آل عمران:104)
      اس میں مومنوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ان میں ایک ایسی جماعت موجود ہونی چاہیے جو لوگوں کو اس راہ کی طرف بلائے اور اس کے دین کی رہنمائی کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہے۔ اس جماعت میں وہ علماء بھی شامل ہیں جو لوگوں کو دین سکھاتے ہیں، وہ مبلغ بھی جو دوسرے مذاہب والوں کو دین اسلام میں داخل ہونے کی اور بدعملی میں مبتلا لوگوں کو دین پر کاربند ہونے کی تبلیغ کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے بھی اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کے حالات معلوم کرتے رہیں اور انہیں شرعی احکام مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی پابندی کروائیں اور غلط کاموں سے روکیں۔مشائخ کرام جو لوگوں کی دلوں پر محنت کرکے اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرکے ان کو اس قابل بناتے ہیں کہ قرآن و سنت پر دل سے عمل پیرا ہوں ان کا اس گروہ میں ہونا بدیہی طور پر ثابت ہے۔
      كُنْتُمْ خَيْرَ أُمّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
      ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے ہی پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو۔
      آل عمران آیت 110 کا ابتدائی حصہ)
      اللہ تعالی اس امت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ تمام امتوں سے بہتر اور افضل امت ہے جسے اللہ نے لوگوں کیلئے پیدا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کامل کرتے ہیں یعنی ایسا ایمان رکھتے ہیں جو اللہ کے ہر حکم پر عمل کرنے کو مستلزم ہے۔ اور دوسروں کو بھی کامل بناتے ہیں۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہوتے ہیں، جس میں مخلوق کو اللہ کی طرف بلانا، اس مقصد کیلئے ان سے جہاد کرنا، ان کو گمراہی اور نافرمانی سے روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنا شامل ہے۔ اس وجہ سے وہ بہترین امت ہیں۔"
      (تفسیر السعدی)
      لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقۃٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
      ترجمہ: ان کے اکثر مصلحتی مشورے بے خیر ہیں، ہاں! بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے۔ اور جو شخص صرف اللہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے۔(النساء:114)
      آپ ﷺ کا مبارک ارشاد ہے
      کہ الدال علی الخیر کفاعلہ رواه مسلم یعنی جس خیر کی کوئی دعوت دے وہ اس کے کرنے والے کی طرح ہے۔ یہ امر بالمعروف کی بہت بڑی فضیلت ہے کیونکہ انسان اچھے سے اچھے کام کی دعوت دے سکتا ہے اور اگر مدعو اس کو کرلے توداعی کو اس کے کرنے کا مفت میں اجر مل جاتا ہے ۔مثلاً کسی نے دس افراد کو اپنی دعوت سے نمازی بنا دیا تو وہ اب جب تک نمازیں پڑھے گا تو ان دس افراد کو جتنا اجر اپنی نمازوں کا ملے گا اس داعی کو اکیلے ان دس افراد کی نمازوں کا اجر بھی ملے گا ۔سبحان اللہ کیا کرم ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ کا۔اب بھی ہم کسی کو نیک کام کرنے کا نہیں بتائیں گے؟
      اس طرح نہی عن المنکر اپنے سے اس منکر کا وبال دور کرنے کے لئے ضروری ہے کیونکہ اگر یہ ہم نہیں کریں گے تو اس کا وبال صرف اس کو خراب نہیں کرے گا ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبے گا۔
      حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جو نبی بھی بھیجا اس کی امت میں اس کے حواری اور ساتھی تھے جو اس کی سنت پر عمل اور اس کے حکم کی اقتدا کرتے تھے، پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو ایسی باتیں کہتے جو وہ کرتے نہیں تھے اور وہ ایسے کام کرتے تھے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ پس جو شخص اپنے ہاتھ سے ان کے ساتھ جہاد کرے گا وہ مومن ہے اور جو شخص اپنے دل سے ان کے ساتھ جہاد کرے گا، وہ مومن ہے اور جو شخص اپنی زبان سے ان کے ساتھ جہاد کرے گا، وہ مومن ہے اور اس کے بعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔'
      (مسلم)
      حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔'' صحابہ نے کہا: "اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے وہاں بیٹھے بغیر چارہ نہیں، ہم وہاں بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر تم نے وہاں ضرور ہی بیٹھنا ہے تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔'' انہوں نے پوچھا: "اے اللہ کے رسول! راستے کا حق کیا ہے؟" آپ نے فرمایا: ''نگاہوں کو پست رکھنا، تکلیف دہ چیزوں کو راستے سے ہٹانا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔''
      (متفق علیہ)
      حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بنی آدم میں سے ہر انسان کو تین سو ساٹھ جوڑوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، پس جس شخص نے اللہ اکبر کہا، الحمد للہ کہا، لا الہ الا اللہ کہا، سبحان اللہ کہا، استغفر اللہ کہا، لوگوں کے راستے سے کسی پتھر ،کسی کانٹے یا کسی ہڈی کو دور کردیا، یا نیکی کا حکم دیا، یا کسی برائی سے منع کیا اور اس نے تین سو ساٹھ مذکورہ کام کیے تو وہ اس روز اس حال میں شام کرتا ہے کہ اس نے اپنے نفس کو جہنم کی آگ سے بچا لیا ہوتا ہے۔''
      (متفق علیہ)
      حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے ہر ایک کے ہر جوڑ پر صبح کو ایک صدقہ ہے، پس ہر تسبیح (سبحان اللہ) کہنا صدقہ ہے ہر حمد (الحمد للہ) کہنا صدقہ ہے، ہر تہلیل (لا الہ الااللہ) کہنا صدقہ ہے اور ہر تکبیر (اللہ اکبر) کہنا صدقہ ہے۔ نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور ان سب سے وہ دو رکعتیں کافی ہوجاتی ہیں جو انسان چاشت کے وقت پڑھے۔''
      (مسلم)
      حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ "۔۔۔۔۔۔ نیکی کاحکم کرنا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے ۔۔۔"
      اختصار کے پیشِ نظر پوری روایت نقل نہیں کی گئی
      (مسلم)
      غزوۂ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو علم (جھنڈا) عطا فرماتے ہوئے منجملہ دیگر ارشادات کے یہ بھی فرمایا کہ "اللہ کی قسم، تمہارے ذریعے اللہ تعالی ایک آدمی کو بھی ہدایت دیدے، تو یہ تمہارے لئے سُرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔"
      (بخاری)
      حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (بیعت عقبہ ثانی کے موقع پر) ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم آپ سے کس بات پر بیعت کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اس بات پر کہ چستی اور سستی ہر حال میں بات سنو گے اور مانو گے، تنگی اور خوشحالی ہر حال میں مال خرچ کرو گے، بھلائی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے، اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوگے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ کرو گے۔ اور جب میں تمہارے پاس آجاؤں گا تو میری مدد کرو گے اور جس چیز سے اپنی جان اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو اس سے میری بھی حفاظت کرو گے۔ اور تمہارے لیے جنت ہے۔"
      (رواہ احمد باسناد حسن)
      حضرت ابو رقیہ تمیم بن اوس داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''دین خیر خواہی کرنے کا نام ہے۔'' ہم نے کہا: "کس کی خیر خواہی اے اللہ کے رسول؟" آپ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے حکمرانوں کی اور عام مسلمانوں کی۔''
      (مسلم)
    • تبلیغ کی حقیقت
      • امر بالمعروف یقینا واجب ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے اور حکم سب کو عام ہے مگر اس میں ایک تفصیل ہے وہ یہ کہ اس کی دو قسمیں ہیں ایک خطاب عام اور دوسرا خطاب خاص ۔تبلیغ خاص تو ہر جگہ اور ہر شخص پر ہے یہ کسی فرد بشر سے ساقط نہیں ہوتی اور امر بالمعروف (تبلیغ )عام یعنی وعظ کہنا یہ سب کے ذمہ فرض نہیں بلکہ یہ صرف علماء پر واجب ہے مگر عوام مسلمین کے ذمہ سفر خرچ و دیگر اسباب کا مہیا کرنا ہے اور امر بالمعروف کا مدار قدرت پر ہے یعنی جس کو جس کسی پر جتنی قدرت ہے اس کے ذمہ اتنی تبلیغ واجب ہے مثلا ماں باپ کے ذمہ واجب ہے کہ اپنی اولاد کو نماز روزہ اور دیگر ضروریات دین کی نصحیت کریں خاوند پر فرض ہے کہ اپنی بیوی کو احکام شرعیہ پر مجبور کرے آقا کے لیے لازم ہے کہ اپنے نوکر چاکر اور جو ان کے ماتحت ہیں ان کو امر بالمعروف کرے ۔
        حدیث شریف میں ہے ۔
        "مُرو اصبیانکم بالصلوٰۃاذا بلغو۱ سبعاً واضربو ھم اذا بلغوا عشراً" تم اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا امر کرو جب کہ جب کہ ان کی عمر سات سال ہو اوردس سال کی عمر میں مار کر پڑھائو۔ غرض ہر شخص پر واجب ہے کہ اپنے ماتحتوں کو اُمور خیر کا حکم کرے اور خلاف شرع باتوں سے روکے۔
        "الذین ان مکنّٰھم فی الارض اقاموا الصلوٰۃ واتوا الزکوٰۃ و امرو ا بالمعروف ونھو ا عن المنکر
        " یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں حکومت دے دیں تو یہ لوگ خود بھی نماز کی پابندی کریں اور زکوٰ ۃ دیں اور دوسروں کو بھی نیک کاموں کے کرنے کو کہیں اور برے کاموں سے منع کریں ۔ ان سب کا نچوڑ یہ ہوا کہ جو شخص امر بالمعروف و نہی المنکر پر قادر ہے یعنی قرائن سے غالب گمان رکھتا ہو کہ اگر امر و نہی کروں گا تو مجھ کو کوئی قابل اعتبار ضرر لاحق نہیں ہوگا اس کے لئے اُمور واجبہ میں امر و نہی کرنا واجب ہوگا اور اُمور مستحبہ میں مستحب ،مثلاً نماز پنجگانہ فرض ہے تو ایسے شخص پر واجب ہوگا کہ بے نماز کو نصیحت کرے ۔اور نوافل مستحب ہیں ان کی نصیحت کرنا مستحب ہوگا۔جو شخص کسی وجہ سے تبلیغ پر قادر نہ ہو اس پر اُمور واجبہ میں بھی تبلیغ کرنا واجب نہیں۔اس کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ تارک اُمور واجبہ کو دل سے برا سمجھے البتہ اگر ہمت کرے گا تو ثواب ملے گا ۔پھر جس پر تبلیغ واجب ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر ہاتھ سے قدرت ہے تو ہاتھ سے تبلیغ واجب اور اگر زبان سے ہے تو زبان سے تبلیغ واجب ہے ۔
      • ہاتھ سے تبلیغ
        • ہاتھ سے تبلیغ کی اجازت صرف حکام کو ہے عوام کو نہیں کیونکہ اس میں فتنہ کا احتمال ہے پس اس سے فساد ہوسکتا ہے جبکہ تبلیغ کا مقصد اصلاح ہے فساد نہیں لیکن حکومت کی بھی قسمیں ہیں ۔باپ کو بیٹے پر اور شوہر کو بیوی پر حکومت حاصل ہے اس لئے یہاں اگر ہاتھ سے تبلیغ ممکن ہو تو اس کی کوئی حرج نہیں۔
          حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب لوگ معصیت میں مبتلا ہوجائیں اور ان میں ایسے لوگ موجود ہوں جو ان کو معصیت سے روک سکیں مگر وہ کاہلی کریں اور ان کو معصیت سے منع نہ کریں تو حق تعالیٰ ان پر عذاب نازل فرمائے گا۔حضرت عایشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہ) فرماتی ہیں کہ ایک قصبہ پر عذاب نازل ہوچکا ہے جس میں اٹھارہ ہزار مسلمان آباد تھے اور ان کے اعمال انبیاء جیسے تھے مگر اتنا نقص تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں دیکھ کر ان کو غصّہ نہیں آتا تھا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑے ہوئے تھے لہٰذا ہلاک کردیئے گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی جگہ پر کوئی کسی ناجائز کام کو ہوتا ہوا دیکھے اورخاموش بیٹھا رہے تو اس گناہ میں وہ شریک سمجھا جائے گا۔پس ان گناہوں سے نہ صرف خود بچنا ضروری ہوا بلکہ دوسروں کو بھی بچانا ضروری ہوا۔
      • زبان سے تبلیغ
        • اجتماعی طور سے زبان سے تبلیغ کا مطلب یہ ہے کہ مواعظ حسنہ س کے ذریعے لوگوں کو اچھے کاموں کی تلقین کرے اور برے کاموں سے منع کرے لیکن اس میں حکمت کی قید لگائی گئی ہے پس اس طریقے سے بات کی جائے کہ لوگوں کو فائدہ ہو۔اس کام کو سیکھا جائے اور مشورہ سے کام کیا جائے ۔جہاں بات کرنی ہو وہاں کے حالات اگر معلوم نہ ہوں تو پہلے معلوم کریں ۔زبان سے تبلیغ میں قلم کے ذریعے ، ریڈیو کے ذریعے اور انٹرنیٹ کے ذریعے تبلیغ بھی شامل ہے کیونکہ یہ موثر طریقے ہیں۔
      • تبلیغ کے آداب اور شرائط
        • جس چیز کی تبلیغ کرنا ہو اس کے احکامات تفصیل سے معلوم ہوں۔
          اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے نصیحت نہ ہو بلکہ اس سے مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو۔
          نصیحت کرتے ہوئے طریقہ مشفقانہ ہو۔
          تبلیغ کے وقت صرف تبلیغ ہی کو مقصود سمجھے ۔ثمرات پر نظر نہ رکھے کیونکہ ان کا حصول غیر اختیاری ہے اور غیر اختیاری میں کاوش کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
          وعظ میں کسی کو نشانہ بنائے بلکہ سب کو مخاطب کرے۔
          واعظ ہدایا وعیرہ لینے سے اجتناب کرے تاکہ بے لوث رہے اس سے کام میں برکت ہوتی ہے۔
          کسی بھی شخصی کی مجمع عام میں اصلاح نہ کی جائے کیونکہ اس سے اس کو واعظ سے بغض ہوسکتا ہے جس سے وہ ضد پر اتر آکر مزید بگڑ سکتا ہے۔
          واعظ کے لئے سختی اور درشتی کا طریقہ مناسب نہیں بلکہ جتنی شفقت اور نرمی ہوگی فائدہ ہوگا ۔اس پر بھی مخالفت ہو تو تحمل کرے ۔طاقت نہ ہو تو خطاب خاص کی بجائے صرف خطاب عام پر اکتفا کرے ۔
      • تبلیغ کا طریقہ
        • ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ و جادلھم بالتی ھی احسن۔
          حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم آپ لوگوں کو سبیل رب کی طرف حکمت اور مواعظ حسنہ کے ساتھ بلایئے اور اگر مجادلہ کی ضرورت ہو تو ان سے مجادلہ بھی کیجئے (مگر) یہ احسن طریقہ سے ہو۔ سبیل رب سے مراد اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ ہے جو کہ ازوئے حدیث شریف صرف اسلام ہے پس اس کی طرف بلانے کا آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کو حکم ہوا ۔اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں بتائیں ۔
          دعوت بالحکمت
          دعوت بالموعظۃ الحسنہ
          مجادلہ مگر بطریقہ احسن
          گفتگو میں دو چیزیں ہوتی ہیں ایک اپنے دعوٰی پر علی دلائل قائم کرنا اور دوسرا مخاطب کے دلائل کا توڑ اور ابطال۔پہلے کو عوت بالحکمت کہیں گے اور دوسرے کو مجادلہ ۔اب ایک تو ظابطے کے طور پر بتانا ہے جیسا کہ ڈھنڈورچی بادشاہ وقت کا حکم لوگوں تک پہنچاتا ہے کہ اس کا اس کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہوتا کہ کون اس پر عمل کرتا ہے کون نہیں اور ایک باپ کا بیٹے کو سمجھا نا ہے کہ اس میں غایت شفقت ہوتی ہے اور ایسے طریقے سے بات کی جاتی ہے کہ بیٹا کسی طریقے سے مان لے ۔اس کے لئے چاہے اس کو کتنی تکلیف اٹھانی پڑے لیکن اس کوسمجھاکر چھوڑتا ہے کیونکہ باپ اس کو برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کا بیٹا خیر سے محروم ہوجائے ۔یہی موعظۃ الحسنۃ کا اصل ہے کہ واعظ ایسے طریقے سے بات کرے کہ مخاطبین کا دل پگھل جائے اور عمل کے لئے تیار ہوجائیں ۔وہ ظابطے کی خانہ پری نہیں کرتا ۔یہی انبیاء کا طریقہ ہے جیسا کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کو ارشاد ہوا تھا آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ نے بھی تمام زندگی اس پر عمل کرنے کا حق ادا کیا ۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی تمام زندگی اس طرح کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے لئے ہر واعظ کوعافیت کے ساتھ لمبی عمر ،صحیح فہم اور صحیح نیت نصیب فرمائے ۔آمین ۔ثم آمین۔
    • نہی عن المنکر ہر وقت صرف استحبابی نہیں
      • بنی اسرائیل میں سے ایک طائفے پر دو جلیل القدر پیغمبروں، حضرت داوُد اور حضرت عیسی علیہما السلام کی زبانی لعنت کی گئی۔ اور اُس جماعت کے جرم جو قرآن مجید میں بیان کیا گیا، وہ یہ تھا کہ یہ برائی کے کاموں سے ایک دوسرے کو روکا نہیں کرتے تھے
        لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (78) كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (79 )
        ترجمہ: بنی اسرائیل کے کافروں پر (حضرت) داود اور (حضرت) عیسی بن مریم (علیہما السلام) کی زبانی لعنت کی گئی۔ اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے۔ جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وہ بہت بُرا تھا۔(المائدہ:78،79)
        اس سےیہ معلوم ہوا کہ نہی عن المنکر ہروقت معاف نہیں ہوتاہے ۔قدرت ہونے کی حالت میں اپنی دنیا کی چیزوں کے لئے اگر اپنا رسوخ کوئی استعمال کرسکتا ہے اور دین کے لئے اس کے استعمال سے اپنے آپ کو معذور سمجھتا ہے وہ اس آیت کے مفہوم میں غور کریں کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے نہی عن المنکر والے کیوں مستحق ہوئے۔
        ایک مقام پر اللہ سبحانہ و تعالی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں خطاب ہے
        خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ(الاعراف:199)
        ترجمہ: آپ درگزر کو اختیار کریں، نیک کام کا امر کریں اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجائیں۔
        اور یہی وہ فریضہ ہے جس کی ادائیگی انبیاء و مرسلین نے کی اور اسی کی بجا آوری کیلئے کتابیں نازل ہوئیں۔ ہمارے پیارے، اللہ کے
        آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس فریضہ کو بحسن و بخوبی بجا لائے اور اس کی خبر اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید میں یوں دی:
        الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ
        ترجمہ: جو لوگ ایسے رسول نبیِ امی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں(الاعراف آیت 157 کا ابتدائی حصہ)
      • ایک قابل غور بات
        • اللہ تعالٰی کا ارشاد مبارک ہے۔
          الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (التوبۃ:67)
          ترجمہ: تمام منافق مرد و عورت آپس میں ایک ہی ہیں، یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں، یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں بھلا دیا۔ بے شک منافق ہی فاسق و بدکردار ہیں۔(التوبۃ:67)
          اور ایک دوسری آیت میں ارشاد ربانی ہے۔
          وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (التوبۃ:71)
          ترجمہ: مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار و معاون اور) دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور بُرائیوں سے روکتے ہیں ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجالاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالٰی بہت جلد رحم فرمائے گا۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
          پہلی آیت میں امر بالمنکر اور نہی عن المعروف منافقوں کی صفت بتائی گئی جبکہ دوسری آیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مومنین کی صفت بتائی گئی پس اب مسلمانوں کو خود غور کرنا چاہِئے کہ ان کو کس گروہ میں ہونا چاہیئے ۔یہاں یہ معلوم ہوا کہ ہر وقت نہی عن المنکر سے چشم پوشی جائز نہیں ۔
          بعض حضرات اس بات سے دلیل پکڑتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
          "جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلافِ شرع) کام کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی۔ (دل میں اس کو بُرا جانے اور اس سے بیزار ہو) اور یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے۔" (صحیح مسلم، کتاب الایمان)
          اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اگر دل سے بھی اس کو برا نہ سمجھے تو پھر تو اس سے کم ایمان کا درجہ نہیں البتہ ان کی برائی اگر ایسی نوعیت کی ہو کہ اس سے دوسرے بھی متاثر ہوتے ہوں تو ایسے لوگوں کے بارے میں اجتماعی طور کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ ان کی لگائی ہوئی آگ سے وہ بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
          "تم ضرور اچھائی کا حکم کرو گے اور بُرائی سے روکو گے، ورنہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے۔ پھر تم اس کو پکارو گے (لیکن) وہ تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا۔(صحیح مسلم)
          اس حدیث سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ دعاؤں کی عدم قبولیت کا ایک سبب امر بالمعروف و نہی عنِ المنکر سے غفلت برتنا بھی ہے۔
          واللہ اعلم۔
          حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔'' ایک آدمی نے کہا: "اے اللہ کے رسول! جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں لیکن یہ بتائیں کہ اگر وہ ظالم ہو تو پھر میں اس کی مدد کیسے کروں ؟ آپ نے فرمایا: ''تم اسے ظلم کرنے سے روک دو، یہی اس کی مدد کرنا ہے۔ ؟"(رواہ البخاری)
      • معاشرے کی بقا ءامر بالمعروف و نہی عن المنکر میں
        • حدیث مبارکہ میں ایک خوبصورت تمثیل کے ذریعے وضاحت کی گئی ہے کہ معاشرے کی بقا کیلئے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا قیام کتنا ضروری ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ِ
          اللہ کی حدوں میں مداہنت (نرمی اور درگزر) کرنے والوں اور حدوں کے توڑنے والے کی مثال اس قوم کی سی ہے جنہوں نے ایک (دو منزلہ) کشتی میں سفر کرنے کیلئے قرعہ اندازی کی، بعض کے حصے میں بالائی منزل اور بعض کے حصے میں نچلی منزل آئی، نچلی منزل والے پانی لینے کیلئے بالائی منزل پر آتے اور بالا نشینوں کے پاس سے گزرتے تو وہ تکلیف محسوس کرتے، چنانچہ نچلی منزل والوں نے کلہاڑا پکڑ کر کشتی میں سوراخ کرنا شروع کردیا تاکہ نیچے سے ہی پانی لے لیں اور اوپر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ سوراخ کرنے کی آواز سن کر اوپر والے آئے اور پوچھا: "تم یہ کیا کررہے ہو؟" انہوں نے کہا "ہم پانی لینے اوپر جاتے ہیں تو تم ناگواری محسوس کرتے ہو، چنانچہ ہم نیچے ہی سوراخ کرنے لگے ہیں، کیونکہ پانی کے بغیر تو چارہ نہیں"
          (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اگر وہ (اوپر کی منزل والے) اسی وقت ان کا ہاتھ پکڑ لیں اور سوراخ سے روک دیں تو وہ سوراخ کرنے والوں کو بھی بچالیں گے اور خود کو بھی بچالیں گے اور اگر وہ ان کو اپنے حال ہی پر چھوڑ دیں گے تو ان کو بھی ہلاک کردیں گے اور خود کو بھی ہلاک کرلیں گے"۔
          (صحیح البخاری، الشہادات، باب القرعۃ فی المشکلات، و کتاب الشرکۃ، باب ہل یقرع فی القسمۃ)
          ایک اور حدیثِ مبارکہ میں ہے
          جو قوم گناہوں میں مبتلا ہوجائے اور ان میں اسے روکنے کی قدرت والے بھی موجود ہوں اور وہ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ جل شانہ ان (رواہ الترمذی و قال حسن صحیح) سب کو اپنی طرف سے عذاب میں مبتلا کردیں۔
    • مسلمان حکومتوں کا فریضہ
      • سورۃ الحج میں اپنے نیک بندوں کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں
        الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآَتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبۃِ الْأُمُورِ
        ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جمادیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ اور تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔ (الحج:41)
        حضرت لقمان حکیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت فرماتے ہیں۔
        يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
        ترجمہ: اے میرے بیٹے! تُو نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا۔ بے شک یہ (بڑی) ہمت کے کاموں میں سے ہے۔(لقمان: 17)
        یہ نصیحت اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ نصیحت ہے تبیک تو تاقیامت اس کو قرآن پاک میں جگہ دی گئی۔کیا اس نصیحت پر عمل نہیں کرسکتے تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس کی بیان کرنے کی منشاء مبارک پوری ہوجائے۔
    • اللہ کے عذاب کا سبب
      • جب ایک معاشرہ اس حال تک پہنچ جائے، کہ اس میں ایک شخص سرِ عام گناہ کر رہا ہو اور ناظرین میں سے نہ اسے (حسبِ استطاعت ہاتھ یا زبان سے) کوئی روکنے والا ہو، نہ اُس کے اِس فعل کو کم از کم دل ہی میں بُرا جاننے والا ہو، تو یہ درحقیقت اُس معاشرے کی تباہی کی اطلاع و ابتدا ہے اور ایسے میں آفات و مصائب کا نزول صد فیصد متوقع ہے۔ جیسا کہ مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اطلاع دی ہے۔ فرمانِ نبوی ہے: "
        یقیناً اللہ تعالی خاص لوگوں کے عمل (گناہوں) کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا، یہاں تک کہ جب عام لوگوں کا یہ حال ہوجائے کہ وہ برائی اپنے درمیان ہوتے دیکھیں اور وہ اس پر نکیر کرنے پر قادر بھی ہوں لیکن وہ اس سے نہ روکیں، جب ایسا ہونے لگے تو اللہ کا عذاب عام اور خاص سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔(مسند الامام احمد ج 5 ص 388)
        ایک موقع پر نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ارشاد فرمایا: "اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی"، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:
        "اے اللہ کے رسول! کیا ایسا بھی ہوگا؟" فرمایا "ہاں اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب نہ تم بھلائی کا حکم کرو گے، نہ برائی سے منع کرو گے۔" صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! کیا ایسا بھی ہوگا؟" فرمایا "ہاں اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی؟ جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو برائی سمجھنے لگو گے۔" (مسند ابی یعلی)
        حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بنی اسرائیل میں جو پہلا نقص داخل ہوا وہ یہ تھا کہ اگر ایک آدمی کسی دوسرے آدمی سے ملاقات کرتا تو اسے کہتا: "اے شخص! اللہ سے ڈرو اور جو (برا) کام تو کرتا ہے اسے چھوڑ دے، اس لیے کہ یہ تمہارے لیے حلال نہیں،" پھر وہ اسے کل ملتا تو وہ اپنی اسی حالت پر ہوتا تو پھر اس کی یہ حالت اسے اس کا ہم نوالہ، ہم پیالہ اور ہم مجلس بننے سے نہ روکتی۔ (یعنی یہ بھی اسی طرح ہوجاتا) جب انہوں نے ایسے کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک جیسا کردیا۔'' پھر آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں: ''بنی اسرائیل کے کافروں پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی لعنت کی گئی، یہ اس سبب سے جو انہوں نے نافرمانی کی اور وہ زیادتی کرنے والے تھے، وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے، یقیناً بہت برا ہے جو وہ کرتے تھے۔ تم اکثر لوگوں کو دیکھو گے کہ یہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں۔ البتہ برا ہے جو ان کے نفسوں نے ان کے لیے آگے بھیجا'' آپ نے (فاسِقون) تک تلاوت فرمائی، پھر فرمایا: ''ہرگز نہیں اللہ کی قسم! تم ضرور نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو اور تم ضرور ظالم کے ہاتھ کو پکڑو، تم ان کوزبردستی حق کی طرف موڑو اور ان کو حق پر مجبور اور پابند رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ تم سب کے دلوں کو ایک جیسا کردے گا، پھر تم پر لعنت کرے گا جیسے ان پر لعنت کی۔( ابوداؤد، ترمذی۔ امام ترمذی نے کہا کہ حدیث حسن ہے)
        یہ الفاظ ابو داؤد کے ہیں۔ اور ترمذی کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوگئے تو ان کے علماء نے انہیں منع کیا لیکن وہ باز نہ آئے پھر وہ (عالم) بھی ان کی مجلسوں میں بیٹھنے لگ گئے، ان کے ساتھ کھانے پینے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک جیسا کردیا اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی زبانی ان پر لعنت فرمائی۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ زیادتی کرنے والے تھے۔'' پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سیدھے) بیٹھ گئے جب کہ (پہلے) آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا:'' نہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! (تمہاری نجات نہیں) حتیٰ کہ تم انہیں حق کی طرف موڑو۔''
        (أخرجہ أبوداؤد (4336) و الترمذی (3047) و ابن ماجہ و فی اسنادہ ضعف)
        رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: "اے ثعلبہ! اچھائی کا حکم کرو اور برائی سے روکو۔ جب دیکھو کہ کنجوسی کی روش جاری ہوچکی ہے اور خواہشات کی پیروی ہورہی ہے اور ہر صاحبِ رائے اپنی رائے پر اِترا رہا ہے تو تم اپنے آپ کو بچاؤ اور عوام سے دور ہوجاؤ۔ تمہارے پیچھے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح فتنے ہوں گے، تمہارے عقیدہ و عمل کو اپنانے والوں کیلئے تم میں سے پچاس آدمیوں کی طرح ثواب ملے گا۔ پوچھا گیا "اے اللہ کے رسول! کیا پچاس انہی میں سے؟" فرمایا "نہیں، بلکہ تم میں سے۔ کیونکہ (آج) نیکی کرنے میں معاون دستیاب ہیں، جو ان کو دستیاب نہیں ہوں گے۔ (اللہ اکبر) (
        سنن ابی داود، سنن ابنِ ماجہ و سنن الترمذی و حسنہ)
      • قرآن مجید میں ایک قوم کا قصہ
        • وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ لَا تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (163)وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (164) فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (165)فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ (166)
          ترجمہ: اور آپ ان لوگوں (یہود) سے ان بستی والوں کا جو کہ دریا کے کنارے آباد تھے اس وقت کا حال پوچھیے جب کہ وہ ہفتے (کے دن) کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جب کہ ان کے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ظاہر ہو کر ان کے سامنے آتی تھیں، اور جب ہفتے کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں، ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے۔ اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا ان کو سخت سزا دینے والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبرو عذر کرنے کیلئے اور اس لئے کہ شاید یہ ڈر جائیں۔ سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچالیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے۔ یعنی جب وہ، جس کام سے ان کو منع کیا گیا تھا اس میں حد سے نکل گئے تو ہم نے ان کو کہہ دیا کہ تم بندر ذلیل بن جاؤ۔
          (الاعراف آیات 163 تا 166)
          ان آیات میں بنی اسرائیل کی جس قوم کا تذکرہ کیا گیا ہے، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ان کی بابت نقل کیا ہے کہ یہ قوم "ایلہ" نامی ایک بستی میں آباد تھی، یہ مدین اور کوہ طور کے درمیان بحر قلزم کے ساحل پر واقع تھی۔ (اس بستی کے نام و تعین میں کچھ اختلاف ہے تاہم جو قول نقل کیا ہے اکثر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے) انہیں ہفتے کے دن شکار کی ممانعت تھی، لیکن ان کی آزمائش کیلئے حکمتِ الہی سے اس دن مچھلیاں ہفتے کے باقی دنوں کی بنسبت سمندر میں بکثرت نظر آتیں۔ ان لوگوں نے یہ حیلہ کیا کہ گڑھے کھود لیے جن میں ہفتے کے دن مچھلیاں آتیں تو پھنس جاتیں، پھر یہ دوسرے دنوں میں انہیں پکڑ لیتے۔
          اس واقعہ کی تفسیر میں بڑے لطیف نکات ہیں۔ مذکورہ بستی میں لوگ تین حصوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک وہ جنہوں نے اس برے فعل کا ارتکاب کیا۔ دوسری جماعت ان صالحین کی تھی جو اپنی قوم کو اس فعل سے باز رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ تیسری جماعت ان لوگوں کی تھی جو اس فعل کے مرتکب بھی نہیں تھے لیکن یہ اپنی قوم کی اصلاح سے مایوس ہوگئے تھے۔ اور انہی کے قول کا قرآن مجید میں بیان ہے کہ انہوں نے اپنے اُن ساتھیوں سے، جو اپنی قوم کے لوگوں کو اس فعل سے منع کرتے تھے، کہا کہ "تم کیوں ان لوگوں کو نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا سخت سزا دینے والا ہے؟" اس پر صالحین کی جماعت کا جواب آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ان کے قول کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ "ہم اس لیے ان لوگوں کو برے کام سے منع کرتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے معذرت پیش کرسکیں، کہ ہم نے تو ان لوگوں کو روکا تھا۔ اور معصیتِ الہی کا ارتکاب ہوتے ہوئے دیکھنا اور پھر اسے روکنے کی (حسبِ استطاعت) کوشش نہ کرنا بھی جرم ہے، جس پر اللہ تعالی کی گرفت ہوسکتی ہے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ شاید یہ لوگ باز آجائیں۔" نتیجتاً ان لوگوں کو تو بچالیا گیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے۔ اور نافرمانوں کو مسخ کرکے بندر بنادیا گیا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے نہ تو اس فعل کا ارتکاب کیا نہ نافرمانوں کو منع کیا، ان کے بارے میں مفسرین کے ہاں اختلاف ہے۔ کہ آیا یہ بھی نجات یافتگان میں سے تھے۔ یا عذاب کا شکار ہوئے۔ حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے۔
    • عذاب سے نجات کیسے؟
      • اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔
        وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ (ہود:117)
        ترجمہ: آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کردے اور وہاں کے لوگ مصلحین ہوں۔
        پس جب تک امر بالمعروف و نہی عنِ المنکر کا کسی بستی میں اہتمام رہے، اللہ سبحانہ و تعالی اس بستی کے باشندوں کو ہلاک نہیں فرماتے
        جیسا کہ قرآن پاک اور احادیث شریفہ میں ذکر کیا گیا کہ جب قوم اجتماعی طور پر کسی گناہ میں مبتلا ہوگئی تو جنہوں نے ان کو خیر کی دعوت دی اور ان کو برائی سے روکا تو وہ تو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ گئے باقی لوگ نہ بچ سکے۔اس لئے عذاب سے نجات کو یہی ایک طریقہ ہے کہ نہی عن المنر کیا جائے ۔
    • امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والوں کی فضیلت
      • تفسیر ابن کثیر میں روایت ہے کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: "اے اللہ کے
        رسول!
        لوگوں میں سے کس کو قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب دیا جائے گا؟" فرمایا: "وہ شخص جس نے نبی کو قتل کیا، یا (ایسے شخص کو قتل کیا) جو نیکی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرمائیں
        إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآَيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (21) أُولَئِكَ الَّذِينَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ(آل عمران: 21،22)
        ترجمہ: جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں اور نبیوں کو ناحق قتل کرڈالتے ہیں اور جو لوگ عدل و انصاف کی بات کہیں انہیں بھی قتل کرڈالتے ہیں، تو (اے نبی) انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجیے۔ ان کے اعمال دنیا و آخرت میں غارت ہیں اور ان کا کوئی مددگار نہیں۔

        انصاف سے یہاں مراد نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ہے۔ (تفسیر السعدی) یہاں ان لوگوں کا انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ تذکرہ فرمایا گیا جو ان کی عظمت و فضیلت کی دلیل ہے۔
        رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: "اے اللہ کے رسول! کون سب سے زیادہ متقی ہے؟" فرمایا: "نیکی کا حکم دینے والا، برائی سے روکنے والا اور صلہ رحمی کرنے والا" او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم۔
        (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الادب)
    • امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے بارے میں چند عقلی دلائل
      • تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہے کہ اگر بیماری کا علاج نہ کیا جائے تو وہ جسم میں پھیل جاتی ہے اور پھر اس کا علاج مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح برائی کو اگر ابتدا ہی میں ختم نہ کیا جائے اور اسے معاشرے میں پھیلنے دیا جائے اور چھوٹے بڑے اس کے عادی ہوجائیں تو پھر اسے مٹانا اور اس کا ازالہ مشکل ہوجاتا ہے اور بالآخر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے، یہ قانونِ ایزدی ہے جس میں کوئی تغیر نہیں ہوسکتا
        جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
        سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا(سورۃ الفتح آیت 23)
        ترجمہ: (یہ) اللہ کا قانون ہے جو (پہلی قوموں میں) گزر چکا ہے، اور تُو قانونِ الہی میں ہرگز تبدیلی نہ پائے گا۔
        یہ بھی مشاہدہ ہے کہ اگر کسی مکان کی صفائی نہ کی جائے اور اس میں سے کوڑا کرکٹ دور نہ پھینکا جائے تو کچھ عرصہ بعد وہ جگہ رہائش کے قابل نہیں رہتی، اس کی ہوا متعفن اور زہر آلود ہوجاتی ہے اور اس میں وبائی جراثیم کی خوب پرورش ہوتی ہے۔ کیونکہ میل کچیل اور غلاظتوں کی کثرت و بہتات کا یہی لازمی نتیجہ ہے۔
        اسی طرح اگر اسلامی معاشرہ میں برائی کو پنپنے دیا جائے اور اچھائی کا پرچار معدوم ہوجائے تو کچھ مدت بعد لوگ گندے اور شریر النفس بن جائیں گے۔ اچھائی و برائی کا امتیاز مٹ جائے گا اور پھر اس زمین پر انہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ چنانچہ مختلف اسباب و ذرائع سے اللہ سبحانہ و تعالی انہیں برباد کردیں گے۔
        ارشادِ باری تعالی ہے: إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ(سورۃ البروج آیت 12)
        ترجمہ: تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
        اور فرمایا: وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ(سورۃ آل عمران آیت 4)
        ترجمہ: اور اللہ غالب ہے، انتقام لینے والا۔
        یہ بات بھی تجربہ سے ثابت ہے کہ انسانی نفوس جب قبیح اور خراب چیزوں کے عادی ہوجائیں تو وہ انہیں اچھی لگتی ہیں۔ جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیا جائے تو لوگ اچھے کام چھوڑ دیتے ہیں اور برے کام کرنے لگ جاتے ہیں اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برائی عام ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کی عادات اور بتقاضائے بشری وہ برائی محسوس نہیں ہوتی، بلکہ الٹا اسے اچھائی اور عمدہ بات سمجھ لیا جاتا ہے اور یہی بصیرت کا ختم ہونا اور یہی فکری مسخ ہے۔ (العیاذ باللہ)
        اسی بنا پر اللہ سبحانہ و تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو مسلمانوں پر لازم قرار دیا ہے کہ یہ انسانی معاشرہ کی پاکیزگی اور درستگی کا باعث ہے اور اقوام و ملل کے عز و شرف کا محافظ بھی۔
        (مندرجہ بالا عقلی دلائل کتاب "منہاج المسلم" ص 121، 122 سے لیے گئے، مؤلفِ کتاب "شیخ ابوبکر جابر الجزائری" ہیں)
    • آدابِ امر و نہی
      • داعی یہ جانتا ہو کہ جس بات کا وہ حکم دے رہا ہے، وہ شریعت میں معروف اور نیکی ہے۔ اسی طرح وہ برائی کی حقیقت بھی سمجھتا ہو، جس سے منع کرتا ہے اور جسے مٹانے کی کوشش کررہا ہے۔ نیز وہ کام واقعتاً شریعت میں گناہ ہو اور اسے حرام قرار دیا گیا ہو۔
        اصلاح کرنے والا جس بات سے منع کررہا ہو، خود بھی اس پر عامل ہو اور اس کے قریب نہ جائے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں
        يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (2) كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ
        ترجمہ: اے ایمان والو! کیوں وہ بات کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی ناراضگی کا باعث ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو۔
        (الصف: 2،3) نیز فرمانِ الہی ہے:
        أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
        ترجمہ: کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟
        (البقرۃ: 44)
        3: ایک مبلغ کو اچھے اخلاق کا مالک ہونا چاہیے، جو نرمی کے ساتھ حکم کرے اور منع کرے، اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں شدت و تکلیف پہنچے تو دل میں محسوس نہ کرے اور نہ ہی غصے کا اظہار کرے، بلکہ اس بارے میں درگزر، عفو اور اعراض سے کام لے۔
        ارشادِ عالی ہے:
        وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ(لقمان: 17)
        ترجمہ: اور اچھائی کا حکم دے، برائی سے منع کر اور تجھے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کر۔ یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔

        4: برے کام جاننے کیلئے لوگوں کی جاسوسی نہ کرے۔ یہ بات غیر مناسب ہے کہ منکرات کی دریافت کیلئے لوگوں کے گھروں میں جھانکتے پھریں، یا کسی کا کپڑا اٹھا کر دیکھیں کہ اندر کیا ہے اور برتن کا ڈھکنا اٹھاتے پھریں کہ برتن میں کیا ہے۔ بلکہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے تو لوگوں کے عیوب چھپانے کا بھی حکم فرمایا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
        وَلَا تَجَسَّسُوا(الحجرات: 12)
        ترجمہ: اور تم خفیہ انداز سے ٹوہ نہ لگاؤ۔
        اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاسوسی نہ کرو"
        (صحیح بخاری)
        نیز فرمایا: "جو شخص ایک مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے، اللہ تعالی آخرت میں اُس کی پردہ پوشی کرے گا۔"
        5: مبلغ جسے وعظ و تبلیغ کرنا چاہتا ہے، اسے نیکی اور برائی کی پہلے پہچان کرائے، اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ نیکی اور برائی کو پہچانتا ہی نہ ہو، جبھی تو وہ اس کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اس لئے اولاً برائی اور نیکی کی ضروری وضاحت کرنی چاہیے۔
        6: اچھائی کے حکم اور برائی سے منع کرنے کے بعد بھی اگر وہ نیکی پر عمل نہیں کرتا اور برائی والا برائی نہیں چھوڑتا تو شریعت کے مطابق ترغیب و ترہیب سے کام لے۔ اگر پھر بھی وہ تعمیل سے گریزاں ہے تو ڈانٹ اور سختی اپنائی جائے، اگر اس طرح بھی کام نہیں چلتا تو حکومت یا برادران اسلام کا تعاون حاصل کیا جائے۔
        7: اگر اپنے ہاتھ اور زبان سے برائی کو ختم نہ کرسکے کہ اس صورت میں اسے اپنی جان و مال اور عزت کے ضائع ہونے کا ڈر ہے اور وہ مصائب پر صبر کی طاقت نہیں رکھتا تو پھر دل سے ہی اس کو برا جانے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو تم میں سے برا کام دیکھے، اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہیں تو زبان سے۔ ورنہ دل سے ضرور بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے"۔ (صحیح مسلم)
        (آدابِ امر و نہی "منہاج المسلم" سے لیے گئے، صفحات 122، 123)
    • دوسروں کو نصیحت کرنے اور خود عمل پیرا نہ ہونے پر وارد وعیدیں
      • اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:
        أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
        (البقرة :44)
        ''کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اورخود اپنے نفسوں کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو، پس کیا تم نہیں سمجھتے؟ ''
        ایک اور مقام پر فرمایا:
        يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ
        ''اے ایمان والو!تم وہ بات کیوں کہتے ہو۔ جو تم کرتے نہیں ہو، اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بات بڑی ناراضی والی ہے کہ تم وہ باتیں کہو جو تم نہ کرو'' (الصف:2،3)
        حضرت شعیب علیہ السلام کا یہ قول بھی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں نقل فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا:
        وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ''میں نہیں چاہتا کہ میں تمہیں جس چیز سے روکتا ہوں میں خود وہ کرکے تمہاری مخالفت کروں'' (سورة ھود:88)
        وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآَيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ
        (النمل آیت 82)
        ترجمہ: "جب ان کے اوپر عذاب کا وعدہ ثابت ہوجائے گا، ہم زمین سے ان کیلئے ایک جانور نکالیں جو ان سے باتیں کرتا ہوگا کہ لوگ ہماری آیتوں پریقین نہیں کرتے تھے"۔
        حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ فرمایا: "جب نیکی کا حکم نہیں کیا جائے گا اور برائی سے نہیں روکا جائے گا (تب ان کے اوپر عذاب کا وعدہ ثابت ہوجائے گا۔ اور دابۃ الارض کا خروج ہوگا۔)"۔ (
        مصنف ابن ابی شیبہ)
        (متفق علیہ)
        حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''ایک شخص کو روز قیامت لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیاجائے گا، اس کی انتڑیاں نکل آئیں گی اور وہ ان کو لے کر اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا چکی پر چکر لگاتا ہے۔ اتنے میں جہنمی اس کے پاس جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے "اے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ کیا تم نیکی کا حکم نہیں کرتے تھے اور برائی سے نہیں روکتے تھے؟" وہ کہے گا: "ہاں! یقیناً میں نیکی کا حکم تو کرتا تھا۔ لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا۔ اور برائی سے (دوسروں کو) منع تو کرتا تھا۔ لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔''
      • امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اجتماعی نظم
        • انفرادی دعوت و تبلیغ تو ضروری ہے ہی اس کی اجتماعی ترتیب بھی ضروری اور فرض کفایہ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
          وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّۃٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران:104)
          ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں۔
          اس میں مومنوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ان میں ایک ایسی جماعت موجود ہونی چاہیے جو لوگوں کو اس راہ کی طرف بلائے اور اس کے دین کی رہنمائی کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہے۔ جیسا کہ اس سے واضح ہے کہ نہ صرف امر بالمعروف کے لیٗے جماعتی سطح پر کوشش ہونا چاہیٗے بلکہ نہی عن المنکر کے لیٗے بھی ایسا انتظام ضروری ہے۔امر بالمعروف کے لیٗے دینی تحریکوں میں سب سے زیادہ مشہور تبلیغی جماعت ہے جس کو حضرت مولانا الیاس ؒ اور حضرت مولانا زکریا ؒ نے متعارف کرایا۔
          موجودہ تبلیغی جماعت چونکہ اہل حق کے کوششوں سے وجود میں آئی ہے اور اس کے لئے اہل خیر نے بہت دعائیں کی ہیں اور اب بھی کرتے ہیں اس لئے اس میں خیر کا پہلو غالب ہے اس لئے ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیئے تاہم جیسا کہ انبیاء کے تشریف لے جانے کے بعد ان کے ماننے والوں نے انبیاء کی تعلیم کی جب حفاظت نہیں کی تو گمراہ ہوگئے اس لئے اس جماعت کے جو اصول اکابر چھوڑ چکے ہیں ان پر جب تک یہ جماعت قائم رہے گی تو اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے ساتھ شامل حال رہے گی اور اور اگر ان پر یہ عمل چھوڑ دیں تو پھر خطرہ ہے کہ خیر ان سے اٹھ نہ جائے ۔اس لئے اس جماعت کے ذمہ داروں کے سامنے یہ بات لائی جائے کہ اپنے جماعت میں مندرجہ ذیل کمزوریوں کی اصلاح کا جلد سے جلد بندوبست فرمائے ۔
          ۔ علماء حق کے ساتھ ٹکراؤ نہ ہو بلکہ اپنے آپ کو ان کا خادم سمجھے اور جو کچھ سنے ان سے اس کی تصدیق کرواتے رہیں کہ وہ ٹھیک ہے یا غلط تاکہ کہیں ناسمجھی سے غلط باتوں کی تشہیر نہ کررہے ہوں۔
          ۲۔مشائخ کے ساتھ اپنی انفرادی اصلاح کے لئے تعلق رکھیں اور ان سے اپنی اصلاح کرائیں کیونکہ اپنی اصلاح فرض عین ہے اور دوسروں کی اصلاح فرض کفایہ۔
          ۳۔صرف اپنی جماعت کو خیر پر نہ سمجھیں بلکہ اہل حق کے جتنے کام ہیں ان سب کو حق پر سمجھتے ہوئے اپنا کام سمجھیں اور ان کے ساتھ نہ صرف یہ کہ توڑ نہ ہو بلکہ ان کے لئے دل سے دعائیں کریں۔
          ۴۔جو فضائل دین کے دوسرے کاموں کے لئے احادیث شریفہ میں وارد ہوں اور جماعت کے اکابر نے تاویل کے ساتھ ان کو تبلیغ کے کسی جزو کے لئے ثابت کئے ہوں تو ان کو بیان تو بے شک کیا جائے لیکن جن کاموں کے لئے یہ اصلاً ثابت ہوں ان سے کسی طرح انکار نہ ہو کیونکہ یہ حدیث شریف کے معنوی تحریف میں آئے گا جس سے بہت بڑے فتنے کا دروازہ کھل سکتا ہے
          مثلاً تبلیغی جماعت والےحضرات ایک دن اور ایک رات تبلیغ میں لگانے والے کے لئے یہ اجر بتاتے ہیں کہ اس کا اتنا اجر ہے کہ یہ دنیا اور مافیھا سے بہتر ہے۔یہ فضیلت اصل میں اس حدیث شریف سے لیا گیا ہے جس میں جہاد میں ایک دن اور ایک رات پہرہ دینے والے کے لئے اس فضیلت کا ذکر ہے ۔اس کے جماعت والے حضرات نے تبلیغ میں وقت لگانے کو پہلے جہاد فی سبیل اللہ قرار دیا ۔پھر اس میں ایک دن اور ایک رات لگانے کو جہاد میں پہرہ دینے کا مشابہ قرار دیا اور پھر اس پر اس فضیلت کو قیاس کیا گیا ۔یہاں پر اس قیاس کی نفی مراد ہر گز نہیں ۔اس پر قیاس کرنا ممکن ہے ۔اور فضیلت کے لئے ضعیف استدلال بھی کافی ہوسکتا ہے لیکن اگر اس فضیلت کا اصلی جہاد فی سبیل اللہ میں پہرہ دینے کے لئے ہونے سے انکار کیا گیا تو یہ بلاشبہ اس حدیث شریف کی معنوی تحریف قرار پائے گی۔اس طرح جماعت والے حضرات جب گشت میں چلنے والے حضرات کے لئے یہ فضیلت بیان کرتے ہیں کہ گشت میں جانے والوں کے راستے میں فرشتے پر بچھاتے ہیں۔اس فضیلت کی اصل وہ حدیث شریف ہے جس میں طالبعلم کے راستے میں فرشتوں کے پر بچھانے کی فضیلت مذکور ہے۔اس طرح جماعت والے حضرات اپنے بیان کے لئے جمع ہونے والوں کے لئے اس فضیلت کو ثابت کرتے ہیں جس میں ذکر کرنے والوں کے بارے میں ذکر ہے کہ ان کے ارد گرد فرشتے جمع ہوتے ہیں اور وہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے دربار میں ان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں آخر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹحنے والے بھی محروم نہیں ۔تو بیان کے لئے اس فضیلت کو بیان کرنا جائز ہے لیکن ذکر کے حلقوں سے اس کی نفی کوئی کرے گا تو یہ حدیث شریف کی معنوی تحریف کے ذمرے میں آئے گا۔
          حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے مبلغین علماء مقرر کرنے اور ان کی معاشی تکفل کے لیٗے فرمایا ہے۔تبلیغی جماعت میں یہ خوبی تو ہے کہ وہ خود اپنا خرچ اٹھاتے ہیں اور اپنا وقت لگاتے ہیں لیکن اس میں مشکل یہ ہے کہ چونکہ سارے علماء نہیں ہوتے نیز فضائل کی تعلیم سے ان کو اس کام پر آمادہ جب کیا جاتا ہے تو تبلیغ کے فضائل سن سن کر اور دوسرے دینی کاموں کے فضائل سے غافل ہوکر اس کام کے علاوہ باقی دینی کاموں کی ناقدری کرتے ہیں جس سے بعض دفعہ فائدہ کی جگہ نقصان بھی ہوجاتا ہے۔
          اِن صواباً فمن اللہ تبارک و تعالی۔ و اِن خطاءً فمن نفسی والشیطان۔ واللہ اعلم۔ وصلی اللہ و سلم و بارک علی نبینا محمد۔
      • فساد اور فتنے سے بچنا اور بچانا
        • وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہ‘ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیُشْھِدُاللّٰہَ عَلٰی مَا فِی قَلْبِہٰ وَھُوَ اَ لَدُّالْخِصَامِ﴿۴۰۲﴾ وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۔ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿۵۰۲﴾ وَاِذَاقِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہ‘ جَھَنَّمُ۔ وَلَبِئْسَ الْمِھَادُ﴿۶۰۲﴾
          بامحاورہ ترجمہ۔اور بعض آدمی ایسے بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی گفتگو جو محض دنیاوی غرض سے ہوتی ہے مزے دار معلوم ہوتی ہے اور وہ (اپنا اعتبار بڑھانے کو )اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہے اپنے دل کی سچائی پر حالانکہ (بالکل جھوٹا ہے کیونکہ واقع میں )وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت میں( بہت) شدید ہے اور( جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مخالف ہے اس طرح اور مسلمانوں کو بھی ایذا پہنچاتا ہے چنانچہ )جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجلس سے پیٹھ پھیرتا ہے تو اس دوڑ دھوپ میں پھرتا ہے کہ شہر میں (کوئی )فساد کرے اور (کسی کی )کھیت اور مواشی کو تلف کرے اور اللہ تعالیٰ فساد (کی باتوں )کو پسند نہیں فرماتے۔
          جیسا کہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا فسا د اور فتنہ شدید معاشرتی جرم ہے اس سے معاشرے کا امن و سکون برباد ہوجاتا ہے ۔لوگ اپنے آپ کو مھفوظ نہیں سمجھتے اس لئے ان ذرائع کی بیخ کنی کرنا حکومت وقت اور بارسوخ افراد کی اہم ذمہ داری ہے ۔حدیث شریف میں آیا ہے الفتنۃ اشد من القتل۔چغلی کھانا کانا پھوسی کرنا یہ اسی قسم کے امراض ہیں جس سے معاشرے کے اندر فتنہ اور فساد برپا ہوتا ہے اس لئے ایسے لوگوں کے بارے میں سخت وعیدیں ہیں جیسا کہ ارشاد مبارک ہے کہ چغلخور جنت میں نہیں جائے گا۔فتنے سے بچنے کے لئے نہ تو ایسے لوگوں کی باتوں پر کان دھرنا چاہیئے نہ ان کی کسی قسم کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔ایسی باتوں کی تحقیق لازمی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے
          یآأَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ إِن جَآءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبِإٍ فَتَبَیَّنُواْ أَن تُصِیبُواْ قَوْماً بِجَهَالۃٍ فَتُصْبِحُواْ عَلَى‏ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ حجرات 6
          اے ایمان والو جب کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرنی چاہئیے مبادا کہ اگر اس پر بغیر تحقیق کے عمل کی جائے تو بعد میں ندامت اور افسوس ہوا ۔
  • عبادت
    • اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدونِ پس اصل کام تو ہمارا عبادت ہے ۔باقی کام عبادات کرنے کے لئے ذرائع کے طور پر ضروری ہیں ۔اس لئے مسلم معاشرے کا یہ لازمی فریضہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادات کو اّسان تر کیا جائے۔اس کے لئے مناسب فاصلے پر مساجد کی تعمیر ،ان میں حسب موسم نمازیوں کے لئے لازمی سہولیات کی فراہمی ہو۔روزے رکھنے کے لئے آسان تر اوقات کا نفاذ ہو ،زکوٰۃ کی ادایئگی کے لئے موثر نظام کی موجودگی اور حج کے مناسب انتظامات یقینی بنائی جائے۔عبادات کی تفصیل کے لئے چونکہ فقہ کا ایک سیکشن وقف ہے اس لئے اس کےبارے میں مزید معلومات کے لئے اس سے استفادہ کیا جائے۔
  • تعلیم و تربیت
    • ہمیں ہر وقت کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لئے دو روشنیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ایک خارجی روشنی جیسے سورج یا قمقموں کی روشنی دوسری آنکھوں کی بینائی کی۔ان میں سے کسی ایک کی غیر موجودگی دیکھنا ناممکن بنادیتی ہے ۔اسی طرح ہدایت کے لئے بھی دو روشنیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک خارجی روشنی یعنی قرآن اور سنت دوسری بصیرت۔پہلی روشنی کو حاصل کرنے کے لئے مدارس ہوتے ہیں جس میں قرآن ، سنت اور اس سے ماخوذ فقہ پڑھایا جاتا ہے۔اس کے لئے مناسب تعداد میں مدارس کا قیام ضروری ہے۔اس کے علاوہ عوام کو فرض عین علم پہنچانے کے لیئے مساجد میں ضروری فقہ پڑھانا اشد ضروری ہے۔سکولوں اور کالجوں میں بھی فرض عین علم کی تعلیم لازمی ہو۔
      اس روشنی کا اثر تب ہوتا ہے جب کہ اس کے ساتح داخلی روشنی کا بحی بندوبس کیا جائے۔ اس مقصد کے پیش نظر دل کی صفائی اور نفس کی اصلاح کا اہتمام ایک صحتمند معاشرے کے لئے از حد ضروری ہے بصورت دیگر پڑھے لکھے بھیڑیئے ، کتے خنزیر اور چوہے وجود میں آیئں گے جو معاشرے کے نظام کو زیادہ باقاعدگی کے ساتھ تہہ و بالا کردیں گے۔
      تربیت کے لئے دوچیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک ذکر اللہ کی کیونکہ حدیث شریف میں ذکر اللہ کو دل کے زنگ کے دور کرنے کا ذریعہ بتایا گیا ہے دوسری مجاہدہ کی کیونکہ مجاہدہ سے نفس قابو میں آتا ہے اور جب تک نفس قابو میں نہ ہو کوئی کام صحیح نہیں کیا جاسکتا ۔ان دونوں کو کسی ان چیزوں کے ماہر کی نگرانی میں کرنا پڑتا ہے کیونکہ عموماًعلاج بغیر معالج کے نہیں ہوسکتا۔اس معالج کو شیخ کہتے ہیں ۔جہاں اس قسم کا علاج کیا جاتا ہے اس کو خانقاہ کہتے ہیں ۔اس لئے اس مقصد کے لئے معاشرے میں مناسب تعداد میں صحیح خانقاہوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔اس کے بارے میں چونکہ اس سائٹ پر چونکہ تصوف نام کا پورا ایک سیکشن موجود ہے اس لئے اس کے بارے میں تفصیلات وہاں سے مل سکتی ہیں۔