Fiqh - فقہ - اسلامی فقہ - Tazkia.org - Urdu


نماز

  • نماز کی تعریف

      نماز کی نیت سے نماز کی شرائط کے ساتھ نما زکے ارکان کو ایسے طریقے کے ساتھ اداکرنا جیساکہ آپ ﷺ نے اداکی تھی نماز کہلاتی ہے۔

  • نماز کی قسمیں
    • فرض نمازیں

        رکعتوں کی تعداد

        1.فجر: دورکعت فرض
        2.ظہر: چار رکعت فرض
        3.عصر: چار رکعت فرض
        4.مغرب: تین رکعت فرض
        5.عشاء: چار رکعت فرض
        6.جمعہ:دو رکعت فرض
    • واجب نمازیں
        عشا کے تین وتر بعد از فرض و سنت
    • سُنت نمازیں
      • سنن مؤٴکدہ

          ان کی چونکہ احادیث شریفہ میں بڑی تاکید آئی ہے ، اس لئے ان کو سننِ مؤٴکدہ کہتے ہیں۔ یہ مندرجہ ذیل ہیں۔

        • 1. نماز فجر کے فرضوں سے پہلے دو رکعتیں۔
            سب سے زیادہ تاکید فجر کی دو رکعت سنتوں کی ہے ،یہ سنتیں واجب کے قریب قریب ہیں، اگر فجر کی سنتیں فجر کے فرضوں کے ساتھ فوت ہو جائیں، یعنی فجر کی نماز ہی قضا ہو جائے تو اگر سورج نکلنے کے بعد دوپہر شرعی سے پہلے اسے ادا کرے تو فرضوں کے ساتھ سنتوں کو بھی قضا کرے اور اگر زوال کے بعد قضا کرے تو اس سے سنتیں ساقط ہو جائیں گی، صرف فرضوں کی قضا کرے۔ اگر صرف سنتیں قضا ہوئی ہوں تو امام محمد کے نزدیک ایک نیزہ سورج بلند ہونے کے بعد سے دوپہر شرعی سے پہلے تک کسی وقت پڑھ لے، یہی بہتر ہے اور طلوع آفتاب سے قبل بالاتفاق نہ پڑھے ، کیونکہ اس وقت پڑھنا مکروہِ تحریمی اور منع ہے۔ فجر کی سنتوں کا گھر پر اول وقت میں ادا کرنا سنت ہے، ان کی پہلی رکعت میں سورة الکافرون اور دوسری رکعت میں سورة الاخلاص پڑھنا سنت ہے، لیکن کبھی کبھی دوسری سورتیں بھی پڑھا کریں۔
        • 2. نمازِ ظہر اور نمازِ جمعہ کے فرضوں سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے۔
        • 3. نماز ِظہر کے فرضوں کے بعد دو رکعتیں، نمازِ جمعہ کے فرضوں کے بعد دو رکعتیں۔
            امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چار رکعتیں ایک سلام سے سنتِ مؤکدہ ہیں اور امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چھ رکعتیں سنتِ مؤکدہ ہیں، یعنی پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے پھر دو رکعتیں پڑھے، یہی افضل ہے۔
        • 4. مغرب کے فرضوں کے بعد دو رکعتیں۔
        • 5. عشاء ءکے فرضوں کے بعد دو رکعتیں۔
            اس طرح روزانہ بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں اور جمعہ کے روز سولہ یا اٹھارہ رکعتیں ہیں۔ سنت فجر کے علاوہ اور وقتوں کی مؤکدہ سنتیں اگر فرضوں کے ساتھ یا صرف سنتیں فوت ہو گئیں تو وقت نکل جانے کے بعد ان کی قضا نہ کرے، لیکن ظہر اور جمعہ کے فرضوں سے پہلے مؤکدہ سنتیں اگر فرضوں سے پہلے نہیں پڑھیں تو وقت کے اندر فرضوں کے بعد پڑھ لے اور بہتر یہ ہے کہ فرضوں کے بعد کی مؤکدہ سنتوں کے بعد پڑھے۔
        • 6. رمضان شریف میں نماز تراویح کی بیس رکعتیں۔

            تراويح کا بيان

          • 1. ماہ رمضان المبارک میں نمازِعشاء کے بعد بیس رکعت تراویح پڑھنا مردوں اور عورتوں کے لئے بالاجماع سنتِ مؤکدہ علی العین ہے ۔ اگر کوئی شخص ترک کرے گا تو وہ ترکِ سنت کا گناہگار اور مکروہ کا مرتکب ہو گا۔
          • 2. یہ نماز دس سلاموں کے ساتھ مسنون ہے، یعنی دو دو رکعت کی نیت کرے اور ہر دوگانے پر سلام پھیرے اور ہر چار رکعت کے بعد بیٹھ کر آرام کرے، اس کو ترویحہ کہتے ہیں، اس طرح پانچ ترویحہ ہوتے ہیں ۔ پانچ سے زیادہ ترویحہ کرنا مکروہ ہے۔
          • 3. اس کا وقت عشاء کے بعد سے شروع ہو کر طلوعِ صبح صادق سے پہلے تک ہے، خواہ وتروں سے پہلے پڑھے یا بعد میں دونوں طرح جائز ہے، لیکن وتروں سے پہلے پڑھنا افضل ہے۔ تراویح کی نماز عشاء کی نماز کے تابع ہے، پس جو تراویح نماز عشاء سے پہلے ادا کی اس کا شمار تراویح میں نہیں ہو گا، اس کا اعادہ کیا جائے اور اگر نماز عشاء اور تراویح و وتر پڑھنے کے بعد ظاہر ہوا کہ عشاء کی نماز وضو کے بغیر پڑھی اور تراویح و وتر وضو کے ساتھ پڑھے ہیں ،یا کوئی اور وجہ معلوم ہوئی جس سے صرف عشاء کی نماز فاسد ہوئی، تو عشاء کے ساتھ تراویح کا بھی اعادہ کرے، وتروں کا اعادہ نہ کرے، کیونکہ وتر اپنے وقت میں عشاء کے تابع نہیں اور عشاء کی نماز کا اس پر مقدم کرنا ترتیب کی وجہ سے واجب ہے، اور بھولنے وغیرہ سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔
          • 4. نماز تراویح میں تہائی رات یا آدھی رات تک تاخیر کرنا مستحب ہے اور آدھی رات کے بعد بھی صحیح یہ ہے کہ مکروہ نہیں بلکہ مستحب و افضل ہے، لیکن اگر فوت ہونے کا خوف ہو تو احسن یہ ہے کہ تاخیر نہ کرے۔
          • 5. تراویح میں جماعت سنتِ کفایہ ہے، یعنی اگر محلہ کی مسجد میں نماز تراویح جماعت سے پڑھی گئی اور کوئی شخص گھر میں اکیلا نماز پڑھے تو گناہگار نہ ہو گا، لیکن اگر تمام محلے والے نمازِ تراویح جماعت سے نہ پڑھیں تو سب ترک سنت کی وجہ سے گناہگار ہونگے، اگر کچھ لوگوں نے مسجد کے علاوہ کہیں جماعت سےنماز پڑھ لی، تو ان لوگوں نے جماعت کی فضیلت پالی لیکن مسجد کی فضیلت نہیں پائی۔
          • 6. ہر چار رکعت کے بعد اتنی دیر تک بیٹھنا مستحب ہے جتنی دیر میں چار رکعتیں پڑھی گئیں ہیں یا پڑھی جائیں، اس کو ترویحہ کہتے ہیں، اگر اتنی دیر تک بیٹھنے میں لوگوں کو تکلیف ہو اور جماعت کم ہو جانے کا خوف ہو تو اس سے کم بیٹھے، اس بیٹھنے کے وقت میں اس کو اختیار ہے کہ چاہے تنہا نوافل پڑھے، چاہے قرآن مجید آہستہ آہستہ پڑھے، تسبیح وغیرہ پڑھے یا چپ بیٹھا رہے، اس وقفے میں جماعت سے نوافل پڑھنا مکروہ ہے ۔ بعض فقہاء نے یہ تسبیح تین بار پڑھنے کا لکھا ہے " سُبْحَانَ ذِی المُلْکِ وَ المَلَکُوْتِ، سُبْحَانَ ذِیْ العِزَّةِ وَ الْعَظْمَۃِ وَ الْہَیْبَۃِ وَالْقُدْرَةِ وَالْکِبْرِیَآءِ وَالْجَبَرُوْتِ، سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَنَامُ وَلَا یُمَوْتُ. سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ رَّبُّنَا وَ رَبُّ المَلَآئِکَۃ ِوَالرُّوْحِ،لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ نَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَ نَسْئَلُکَ الجَنَّۃَ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ "
          • 7. اگر کوئی کسی عذر وغیرہ کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو اس کے لئے بھی تراویح کا پڑھنا سنت ہے، اگر نہیں پڑھے گا تو سنت کے ترک کا گناہ ہو گا۔
          • 8. گھر یا مسجد میں تراویح پڑھانے کے لئے کسی شخص کو اجرت پر مقرر کرنا مکروہ ہے، اگر حافظ کے دل میں لینے کا خیال نہیں تھا اور لوگوں نے حافظ کی خدمت کے طور پر دے دیا تو اس کا لینا درست ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں، جو کچھ رواج اور عرف کے طور پر دیتے ہیں اور حافظ لینے کے خیال سے پڑہتا ہے، اگرچہ زبان سے نہیں کہتا تو یہ بھی درست نہیں ہے۔
          • 9. ایک مسجد میں ایک ہی گروہ کے لئے دو مرتبہ تراویح کی جماعت مکروہ ہے، اگر ایک امام دو مسجدوں میں پوری پوری تراویح پڑھاتا ہے تو یہ ناجائز ہے اور اگر مقتدی دو مسجدوں میں پوری پوری تراویح پڑھے تو مضائقہ نہیں، لیکن اس کو وتر ایک ہی جگہ پڑھنے چاہئیں۔ اگر کسی شخص نے گھر میں تنہا نماز عشاء، تراویح و وتر پڑھے، پھر مسجد میں آ کر امامت کی نیت سے دوسرے لوگوں کو تراویح پڑھائی، تو امام کے لئے مکروہ ہے اور جماعت کے لئے مکروہ نہیں۔
          • 10. افضل یہ ہے کہ سب تراویح ایک ہی امام پڑھائے اور اگر دو امام پڑھائیں تو مستحب یہ ہے کہ ہر ایک امام ترویحہ پورا کر کے الگ ہو، مثلاً ایک امام آٹھ رکعت اور دوسرا امام بارہ رکعت پڑھائے، اور اگر دس دس رکعت ہر امام نے پڑھائی تو یہ مستحسن نہیں ہے۔ اگر عشاء کے فرض اور وتر ایک شخص پڑھائے اور تراویح دوسرا شخص پڑھائے تو یہ بھی جائز ہے، اسی طرح اگر فرض ایک شخص پڑھائے اور وتر دوسرا شخص پڑھائے تو یہ بھی درست ہے۔
          • 11. نابالغ لڑکے کی امامت بالغوں کے لئے تراویح و نفلوں میں بھی جائز نہیں اور اگر وہ نابالغوں کی امامت کرے تو مضائقہ نہیں۔
          • 12. اگر کسی روز کی کُل یا بعض تراویح فوت ہو جائیں تو سنتوں کی طرح ان کو بھی قضا نہ کریں، اگر اسی وقت کے اندر وتر پڑھنے کے بعد یاد آیا کہ دو رکعت رہ گئی ہیں تو پڑھ لیں اور ان کو جماعت سے پڑھ لینا ہی زیادہ بہتر ہے۔
          • 13. اگر سب لوگوں نے عشاء کے فرض جماعت سے نہیں پڑھے تو ان کو تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ تراویح کی جماعت فرض نماز کی جماعت کے تابع ہے، لیکن اگر لوگ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ کر تراویح جماعت سے پڑھ رہے ہوں تو ایسے شخص کو جس نے عشاء کی نماز علیحدہ پڑھی ہو ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو کر تراویح کا جماعت سے پڑھنا درست ہے، پس اگر کوئی شخص ایسے وقت مسجد میں پہنچے کہ نمازِ عشاء کی جماعت ہو چکی ہو، بلکہ تراویح کی بھی کچھ رکعتیں ہو چکی ہوں تو اس کو چاہیے کہ پہلے عشاء کی فرض نماز پڑھ کر دو رکعت نماز سنت پڑھے، پھر نماز تراویح میں جماعت کے ساتھ شریک ہو جائے، اور وتر بھی جماعت کے ساتھ پڑھے اور اس درمیان میں تراویح کی جتنی رکعتیں ہو چکی ہیں وہ ان کو نماز وتر کے بعد پڑھ لے۔
          • 14. اگر کسی شخص نے عشاء کی فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھی اور تراویح امام کے ساتھ نہ پڑھی، یا کچھ تراویح امام کے ساتھ پڑھی تو اس کو وتر امام کے ساتھ جماعت سے پڑھنا جائز ہے، لیکن اگر فرض و تراویح جماعت سے نہ پڑھے ہوں تو وتر جماعت سے نہ پڑھے اور اگر سب نے تراویح جماعت سے نہ پڑھی ہو تو وہ سب لوگ وتر جماعت سے نہ پڑھیں۔
          • 15. وتر کی نماز جماعت سے ادا کرنا صرف رمضان المبارک میں مشروع ہے، رمضان المبارک کے علاوہ اور دنوں میں نمازِ وتر کا جماعت سے ادا کرنے کا حکم نفلوں کی طرح ہے، اور رمضان المبارک میں نمازِ وتر کا جماعت سے ادا کرنا گھر میں اکیلے ادا کرنے سے افضل ہے۔
          • 16. نمازِ فرض یا وتر یا نفل پڑھنے والے کے پیچھے نمازِ تراویح کی اقتدا صحیح نہیں ہے۔
          • 17. افضل یہ ہے کہ تراویح کے ہر دوگانے پر نئی نیت کرے اور تراویح کی نیت میں مطلق نیت نفل کافی ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ سنت و تراویح کا تعین بھی کر لیا کرے۔
          • 18. ماہ رمضان المبارک میں تراویح میں ایک مرتبہ قرآن کا ترتیب وار پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے، لوگوں کی کاہلی و سستی سے اس کو ترک نہیں کرنا چاہیے، لیکن اگر لوگ اس قدر سست ہوں اور یہ اندیشہ ہو کہ اگر پورا قرآن مجید پڑھا جائے گا تو لوگ نماز میں نہیں آئیں گے اور جماعت ٹوٹ جائے گی یا ان کو بہت ناگوار ہو گا تو بہتر یہ ہے کہ جس قدر پڑھنا لوگوں کو گراں نہ گزرے اسی قدر پڑھا جائے، یا سورة اَلَمْ تَرَکَیْفَ سے سورة الناس تک کی دس سورتوں میں سے ایک سورت ہر رکعت میں پڑھیں، دو دفعہ ایسا کرنے سے بیس رکعتیں ہو جائیں گی، یا اور جو سورتیں چاہے پڑھیں۔ جماعت کی سستی کی وجہ سے طمانیت و تعدیل ارکان ترک نہ کرے، قرآت میں جلدی نہ کرے،تعوذ و تسمیہ پڑھے اور قعدے میں التحیات کے بعد درود شریف ضرور پڑھ لیا کرے، اگرچہ صرف اَللّٰھُمَ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ تک ہی پڑھ لے، اور تراویح بھی ترک نہ کرے، تراویح میں ماہ مبارک میں دو مرتبہ ختم کرنا افضل ہے اور تین مرتبہ ختم کرنا زیادہ افضل ہے، لیکن یہ فضیلت اس وقت ہے جب کہ مقتدیوں کو دشواری نہ ہو۔
          • 19. ایک رات میں پورے قرآن مجید کا پڑھنا جائز ہے، بشرطیکہ لوگ سب ذوق و شوق والے ہوں، ورنہ مکروہ ہے۔ بعض اکابرامت سے ایک شب میں ختم قرآن کرنا ثابت ہے، لیکن شبینہ متعارفہ اس حکم میں داخل نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں بہت سے مکروہات و مفاسد کا ارتکاب ہوتا ہے، اس لئے یہ ناجائز ہے۔ افضل یہ ہے کہ تراویح کے سب دوگانوں میں قرآت برابر پڑھے اور اگر کم و بیش پڑھے تو مضائقہ نہیں ، لیکن اور نمازوں کی طرح اس میں بھی دوسری رکعت کی قرآت کو پہلی رکعت سے بڑھانا مکروہ ہے، معمولی زیادتی کا مضائقہ نہیں۔
          • 20. تراویح کا بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے، لیکن مستحب نہیں ہے ، بلکہ مکروہِ تنزیہی ہے اور دیگر نوافل کی طرح بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑا ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ہوتا ہے، اگر امام عذر کی وجہ سے بیٹھ کر تراویح پڑھے اور مقتدی کھڑے ہوں تو ان کی نماز صحیح ہو گی اور اس صورت میں جماعت کے لئے بھی بعض فقہا نے بیٹھ کر پڑھنا مستحب کہا ہے تاکہ امام کی مخالفت کی صورت نہ رہے۔
          • 21. اگر چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھیں اور دوسری رکعت پر قعدہ نہ کیا تو استحساناً اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی، لیکن اگر عمداً ایسا کیا تو اس نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے اور سہواً ایسا ہونے کی صورت میں سجدہ سہو واجب ہو گا اور وہ دو رکعتیں شمار ہونگی، یہی صحیح اور مفتیٰ بہ ہے، اور فتویٰ اس پر ہے کہ اس کو ان رکعتوں میں پڑھا ہوا قرآن مجید لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر مقتدیوں پر مشقت نہ ہو اور وہ رضامند ہوں تو اس قرآت کا لوٹانا احوط ہے، اور اگر دوسری رکعت کے بعد بھی قعدہ نہ کیا اور تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا تو تیسری رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے پہلے یاد آ جانے پر لوٹ کر قعدہ کرے اور سجدہ سہو کر کے سلام پھیر دے ۔ اگر تیسری رکعت کا سجدہ کرنے کے بعد یاد آیا تو ایک رکعت اور پڑھ کر قعدہ کرے اور سجدہ سہو کر کے سلام پھیر دے، پس یہ چاروں رکعتین ایک دوگانہ شمار ہوں گی جیسا کہ اوپر بیان ہوا، اور اگر دوسری رکعت کے بعد قعدہ کر کے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوا اور تیسری رکعت کا سجدہ کر لینے کے بعد یاد آیا اور ایک رکعت بڑھا کر چار رکعت پوری کر لیں اور سجدہ سہو بھی کر لیا تو صحیح یہ ہے کہ چار رکعت شمار ہوں گی۔
          • 22. اگر تراویح میں چھ، آٹھ یا دس رکعتیں ایک سلام سے پڑھیں اگر اس نے ہر دوگانے میں قعدہ کیا تو صحیح یہ ہے کہ جائز ہے، لیکن عمداً ایسا کرنا مکروہ ہے اور ایک ہی سلام سے بیس رکعتیں ادا کرنے اور ہر دوگانے پر قعدہ کرنے کا بھی یہی حکم ہے کہ سب تراویح ادا ہو جائیں گی ، لیکن عمداً ایسا کرنا مکروہ ہے۔ اور اگر ہر دوگانے پر قعدہ نہیں کیا بلکہ صرف آخر میں قعدہ کیا تو استحساناً ایک دوگانہ شمار ہو گا، یہ حکم تراویح کے لئے ہے عام نوافل میں اس صورت میں ساری نماز فاسد ہو جائے گی۔
          • 23. اگر کسی وجہ سے تمام نماز تراویح یا اس کا کوئی دوگانہ فاسد ہو جائے تو اس میں پڑھا ہوا قرآن مجید دوبارہ پڑھا جائے تاکہ تراویح میں ختم قرآن ناقص نہ رہے۔
          • 24. اگر تراویح میں قرآت میں غلطی ہوئی یا کوئی سورت یا آیت چھوٹ گئی تو معلوم ہونے پر صحیح کر کے پڑھے، اور صرف چھوٹی ہوئی آیت یا سورت کو پڑھ لے تو کافی ہے، اور اگر اس کے بعد کا قرآن مجید بھی دوبارہ پڑھ لے تو بہتر ہے تاکہ ختم ترتیب کے موافق ہو۔
          • 25. اگر مقتدی بلا عذر بیٹھ کر تراویح پڑھے اور جب امام رکوع میں جانے لگے تو یہ کھڑا ہو جائے تو یہ مکروہِ تحریمی ہے، اگر بڑھاپے یا بیماری وغیرہ کے عذر کی وجہ سے ایسا کرے تو مکروہ نہیں ہے۔ اس طرح بعض لوگ رکعت کے شروع میں نماز میں شریک نہیں ہوتے اور جب امام رکوع میں جانے لگتا ہے تو شریک ہو جاتے ہیں یہ بھی مکروہِ تحریمی ہے، شروع سے نماز میں شریک ہونا چاہیے ۔
          • 26. اگر نیند کا غلبہ ہو تو جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا مکروہ ہے، بلکہ اس کو علیحدہ ہو جانا چاہیے جب نیند دور ہو جائے اور خوب ہوشیار ہو جائے تو نماز میں شامل ہو جائے۔
          • 27. امام کو تراویح میں کسی سورت کے شروع میں ایک مرتبہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ آواز سے پڑھنا چاہیے، اس لئے کہ بسم اللہ بھی قرآن مجید کی ایک آیت ہے اور ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ کا آہستہ پڑھنا مستحب ہے۔
          • 28. امام کے لئے تراویح میں ختم قرآن ستائیسویں شب کو کرنا افضل ہے، اس سے پہلے بھی جائز ہے مگر ترک افضل ہے، اور جب بھی تراویح میں قرآن پاک ختم کر لیا جائے تو رمضان المبارک کی باقی راتوں میں تراویح نہ چھوڑے، کیونکہ تراویح کا تمام ماہِ رمضان المبارک میں پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے اور اس کا ترک مکروہ تحریمی ہے۔
          • 29. ختم کے وقت آخری رکعت میں الم سے مُفْلِحُوْنَ تک پڑھنا بہتر و مستحب ہے اور سورة اخلاص ایک ہی مرتبہ پڑھنی چاہیے ، اس کا تین مرتبہ پڑھنا جیسا کہ آج کل بعض لوگوں میں دستور ہے مکروہ ہے۔
          • 30. تراویح کی رکعتوں کو اس لئے شمار کرنا کہ کتنی باقی رہ گئی ہیں مکروہ ہے۔
          • 31. مسئلہ: وتر کا تراويح کے بعد پڑھنا بہتر ہے ، اگر پہلے پڑھ لے تب بھى درست ہے۔
          • 32. مسئلہ: اگر کوئى شخص عشاء کى نماز کے بعد تراويح پڑھ چکا ہو اور بعد پڑھ چکنے کے معلوم ہو کہ عشاء کى نماز ميں کوئى بات ايسى ہو گئى تھى جس کى وجہ سے عشاء کى نماز نہيں ہوئى تو اس کو عشاء کى نماز کے اعادہ کے بعد تراويح کا بھى اعادہ کرنا چاہيے۔
          • 33. مسئلہ: تراويح کا رمضان کے پورے مہينے ميں پڑھنا سنت ہے، اگرچہ قرآن مجيد قبل مہينہ تمام ہونے کے ختم ہو جائے۔ مثلا پندرہ روز ميں پورا قرآن شريف پڑھ ديا جائے تو باقى زمانہ ميں بھى تراويح کا پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔
          • 34. مسئلہ: صحيح يہ ہے کہ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ کا تراويح ميں تين مرتبہ پڑھنا جيسا کہ آجکل دستور ہے مکروہ ہے۔
      • سنن غیر مئوکدہ
        • ان کی چونکہ احادیث شریفہ میں فضیلت آئی ہے، اس لئے عام نوافل سے تو ان کا اجر زیادہ ہوتا ہے لیکن چونکہ تاکید کے ساتھ منصوص نہیں اس لئے ان کو سنن غیرمؤٴکدہ کہتے ہیں۔ ان کو سنن الزوائد اور سنن مستحب ومندوب بھی کہتے ہیں۔
        • 1. عصر سے پہلے چار رکعت۔
        • 2. عشاء سے پہلے چار رکعت۔
        • 3. عشاء کے بعد کی سنت مؤکدہ کے بعد چار رکعت، عصر و عشاء سے پہلے اور عشاء کے بعد دو رکعت بھی جائز ہے لیکن چار رکعت افضل ہے۔
        • 4. جمعے کے بعد کی سنت مؤکدہ کے بعد دو رکعتیں۔
        • 5. نماز وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا ، یہ اس شخص کے لئے مستحب ہے جو نماز وتر نماز عشاء کے بعد ہی سونے سے پہلے پڑھے اور اگر نماز تہجد کے بعد نماز وتر ادا کرے تو اس کے بعد بھی دو رکعت نفل پڑھنا جائز و ثابت ہے، ان کا بھی کھڑے ہو کر پڑھنا ہی افضل ہے تاکہ پورا ثواب ملے۔کچھ سنن زوائد اوقات کے ساتھ مخصوص ہیں اور کچھ حالات کے ساتھ جیسا کہ درج ذیل ہیں۔
      • رکعتوں کی تعداد
        • فجر: دو سنت مؤکدہ فرائض سے پہلے
        • ظہر: چار سنت فرائض سے پہلے اوردو سنت مؤکدہ فرائض کے بعد
        • عصر: چار سنت غیر مؤکدہ فرائض سے پہلے
        • مغرب: دو سنت مؤکدہ بعد از فرض
        • عشاء: دو سنت مؤکدہ بعد از فرض
        • جمعہ: چار سنت قبل ازفرض چار سنت مؤکدہ دو سنت مؤکدہ بعد از فرض (صاحبین کے نزدیک)
    • نفل نمازیں
      • سنن و نوافل کے مخصوص مسائل
        • 1. عام نفل نماز جس میں کوئی تخصیص نہ ہو سوائے اوقات مکروہ کے ہر وقت پڑھنا مستحب ہے، دن کی نفلوں میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعتوں سے زیادہ پڑھنا اور رات کی نفلوں میں آٹھ رکعتوں سے زیادہ ایک سلام سے پڑھنا مکروہ ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک افضل یہ ہے کہ خواہ دن ہو یا رات چار چار رکعت پر سلام پھیرے، بعض فقہا کے نزدیک اسی پر فتویٰ ہے ۔ اور صاحبین کے نزدیک افضل یہ ہے کہ دن کے وقت چار رکعت ایک سلام سے پڑھے اور رات کے وقت ہر دوگانہ پر سلام پھیرتا جائے، بعض کے نزدیک اسی پر فتویٰ ہے، یہی روایات کے زیادہ مطابق ہے اور اکثر علما اسی طرف گئے ہیں۔
        • 2. سنتیں خواہ فرض نماز سے پہلے ہوں یا بعد کی اور نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے۔
          نو نمازیں اس حکم سے مستثنٰی ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں۔
          اول: نمازِ تراویح۔
          دوم: تحیتہ المسجد۔
          سوم: سفرسے واپسی کی نماز۔
          چہارم: احرام کی دو رکعتیں جبکہ میقات کے نزدیک کوئی مسجد ہو۔
          پنجم: طواف کی دو رکعتیں۔
          ششم : اعتکاف کرنے والے کی نفل نماز۔
          ہفتم : سورج گہن کی نماز۔
          ہشتم : جس کو گھر میں جا کر کاموں میں مشغول ہو جانے کے سبب سنن و نوافل فوت ہو جانے کا ڈر ہو یا گھر میں جی نہ لگے اور خشوع کم ہو۔
          نہم : نماز جمعہ سے قبل کی سنتیں۔
        • 3. جماعت کھڑی ہو جانے کے بعد کسی نفل نماز کا شروع کرنا جائز نہیں، سوائے سنتِ فجر کے، پس اگر کوئی شخص گھر سے فجر کی سنتیں پڑھ کر نہیں آیا اور مسجد میں جماعت ہو رہی ہو اور یہ شخص جانتا ہے کہ سنتیں پڑھنے کے بعد اس کو جماعت مل جائے گی، خواہ قعدہ ہی مل جائے ، تو وہ سنتیں پڑھ لے ، مگر صف کے برابر کھڑا ہو کر نہ پڑھے، بلکہ جماعت سے الگ دُور پڑھے، مثلاً اگر مسجد میں اندر جماعت ہو رہی ہو تو باہر پڑھے، امام کے نماز شروع کرنے سے پہلے جہاں چاہے پڑھ لے، خواہ وہ کوئی سی سنتیں ہوں، اگر یہ معلوم ہو کہ جماعت جلدی کھڑی ہونے والی ہے اور یہ اس وقت تک سنتوں سے فارغ نہیں ہو سکے گا تو ایسی جگہ نہ پڑھے کہ اس کی وجہ سے صف قطع ہوتی ہو، اگر فجر کی نماز میں امام کو رکوع میں پایا اور یہ معلوم نہیں کہ پہلی رکعت کا رکوع ہے یا دوسری رکعت کا تو فجر کی سنتیں ترک کر دے اور جماعت میں مل جائے ، جو سنتیں فرضوں کے بعد پڑھی جاتی ہیں اُن کو مسجد میں اسی جگہ پڑھنا جائز ہے ، لیکن اولیٰ یہ ہے کہ وہاں سے کچھ ہٹ جائے اور امام کو اپنی جگہ سے ضرور ہٹنا چاہیے ، اس کے لئے اسی جگہ پڑھنا مکروہ ہے۔
        • 4. سنت خواہ مؤکدہ ہوں یا غیر مؤکدہ اور نوافل اور وتر کی ہر رکعت میں منفرد اور امام کے لئے الحمد کے ساتھ سورة ملانا واجب ہے۔
        • 5. چار رکعت سنتِ مؤکدہ یعنی ظہر اور جمعہ سے پہلے کی اور جمعہ کے بعد کی چار رکعتوں کے پہلے قعدے میں التحیات کے بعد درود شریف نہ پڑھے، اگر بھول کر پڑھ لیا تو اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ کی مقدار پڑھنے سے سجدہ سہو کرنا لازم آتا ہے ۔ جب سنتوں کی تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو تو سُبْحَانَکَ اْللّٰھُمَّ اور تعوذ نہ پڑھے، کیونکہ سنتیں مؤکدہ ہونے کی وجہ سے فرض کے مشابہ ہو گئیں۔ اگر چار رکعت والی سنتِ غیر مؤکدہ یا نفل نماز پڑھے تو اختیار ہے خواہ پہلے قعدے میں درود شریف و دعا بھی پڑھے اور تیسری رکعت میں ثنا اور تعوذ بھی پڑھے اور خواہ فرضوں کی طرح صرف التحیات پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور تیسری رکعت میں ثنا اور تعوذ بھی نہ پڑھے ، صحیح تر قول میں یہی دوسری صورت افضل ہے، چار سے زیادہ یعنی چھ یا آٹھ رکعت نوافل کا بھی یہی حکم ہے اور نماز نذر کا بھی یہی حکم ہے۔
      • بیٹھ کر نفل وغیرہ نماز پڑھنے کے مسائل
        • 1. جو شخص کھڑا ہونے پر قادر ہے اس کو اصح قول کے مطابق بیٹھ کر نفل نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے مگر کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے، اور بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ہوتا ہے۔
        • 2. اگر عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے خواہ فرض ہو یا نفل وغیرہ تو ثواب میں کمی نہیں ہوگی، یعنی کھڑے ہونے کی مطابق ثواب ملے گا۔
        • 3. صحیح یہ ہے کہ وتر کے بعد والے نفل بھی کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے اور بیٹھ کر پڑھنے میں آدھا ثواب ہے۔
        • 4. فرض و واجب نماز بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں، سنت فجر کا بھی یہی حکم ہے باقی سنتوں کو بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے خواہ وہ نماز تراویح ہو لیکن عمل سلف اور توارث کے خلاف ہے نذر کی نماز جس کو کھڑا ہونے کے ساتھ متعین نہ کیا ہو اس کا بھی یہی حکم ہے
        • 5. جب نفل نماز کھڑے ہو کر شروع کر دی پھر پہلی یا دوسری رکعت میں بلاعذر بیٹھ گیا تو امام ابوحنیفہ ؒکے نزدیک بلاکراہت جائز ہے اور صاحبین کے نزدیک بلا عذر ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر چار رکعت کی نیت کی اور پہلا دوگانہ کھڑے ہو کر پڑھا اور دوسرے دوگانے میں بیٹھ گیا تو بالاتفاق جائز ہے۔
        • 6. اگر نفل نماز کھڑے ہو کر شروع کی پھر تھک گیا تو لاٹھی یا دیوار وغیرہ پر سہارا لگانے میں کوئی کراہت نہیں ہے، اور بغیر تھکے ایسا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے۔
        • 7. اگر نفل نماز بیٹھ کر شروع کی پھر کھڑا ہو گیا خواہ ایک رکعت بیٹھ کر پڑھی ہو اور ایک رکعت کھڑے ہو کر یا ایک ہی رکعت کا کچھ حصہ بیٹھ کر اور کچھ حصہ کھڑے ہو کر پڑھا ہو اس کی نماز بالاتفاق بلا کراہت جائز ہے۔
        • 8. اگر کوئی شخص نفل بیٹھ کر پڑھے اور رکوع کے وقت کھڑا ہو کر رکوع کرے تو اس کے واسطہ افضل یہ ہے کہ کھڑا ہو کر کچھ قرآت بھی کر لے پھر رکوع کرے، تاکہ سنت کے موافق ہو جائے، اور اگر سیدھا کھڑا ہو کر کچھ قرآت کئے بغیر رکوع کر دیا تو جائز ہے ، اور اگر سیدھا کھڑا نہیں ہوا اور رکوع کر دیا تو جائز نہیں ہے، اس لئے کہ اس کا رکوع میں جانا نہ کھڑا ہونے کی حالت میں واقع ہوا نہ بیٹھنے کی حالت میں۔
        • 9. نفل نماز بھی فرض نماز کی طرح بلا عذر لیٹ کر اشارہ سے ادا کرنا جائز نہیں ہے اور عذر کی وجہ سے جائز ہے، اسی طرح اگر رکوع کے قریب جھکا ہوا ہونے کی حالت میں نماز نفل شروع کی تو صحیح نہیں ہے۔
      • مختلف اوقات کے ساتھ مخصوص نوافل
        • نماز تہجد
          • 1. صلٰوة اللیل یعنی رات کی نفل نماز کی ایک قسم عام ہے، نمازِ عشاء کے بعد جو نفل نماز پڑھی جائے وہ صلٰوة اللیل عام ہے۔ اس کی دوسری قسم صلٰوة اللیل خاص ہے، اور یہ نمازِ تہجّد ہے۔ وہ یہ ہے کہ عشاء کے بعد سو جائیں اور آدھی رات کے بعد اٹھیں اور نوافل پڑھیں، سونے سے پہلے جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں، لیکن جو شخص سو کر اٹھنے کا عادی نہ ہو وہ سونے سے پہلے کچھ نوافل پڑھ لیا کرے تو اس کو تہجد کا ثواب مل جائے گا، اگرچہ ویسا ثواب نہ ہو گا جو سو کر اٹھنے کے بعد تہجد پڑھنے سے ہوتا ہے۔ نماز تہجد کا وقت آدھی رات کے بعد سو کر اٹھنے سے شروع ہوتا ہے ۔ اور بہتر یہ ہے کہ رات کے چھ حصے کریں، پہلے تین حصے میں یعنی آدھی رات تک سوئے اور چھوتھے پانچویں حصے میں جاگے اور نماز تہجد پڑھے، اور ذکر وغیرہ کرے اور پھر آخری چھٹے حصے میں سوئے۔ اس کی کم سے کم دو رکعتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعتیں ہیں اور اوسط درجہ چار رکعت ہیں، دس اور بارہ رکعت تک کا بھی ثبوت ملتا ہے ، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر عادت آٹھ رکعت پڑھنے کی تھی، اور حسب موقع کم و بیش بھی پڑھی ہیں۔ پس یہی عادت ہونی چاہیے ۔ جو شخص تہجد کا عادی ہو اسے بلاعذر چھوڑنا مکروہ ہے۔ اس میں کوئی سورت پڑھنا معین نہیں ہے۔ حافظ کے لئے بہتر یہ ہے کہ قرآن شریف کی روزانہ کی منزل مقرر کر کے پڑھا کرے تاکہ چند دنوں میں پورا قرآن مجید ختم ہوتا رہے۔ جو حافظ نہ ہو لیکن بڑی سورتیں مثلاً سورة بقرہ، سورة آل عمران یا سورة یٰس وغیرہ یاد ہوں پڑھا کرے۔ بعض مشائخ سورة یٰس کو آٹھ رکعات میں تقسیم کر کے پڑھتے رہے ہیں، بعض سورة اخلاص کو ہر رکعت میں متعدد دفعہ مختلف طریقہ سے پڑھتے رہے ہیں ۔ صحیح یہ ہے کہ کوئی پابندی نہیں۔ اس وقت کی ماثورہ دعائیں بھی پڑھا کرے۔ عیدین و پندرہویں شعبان و رمضان کی آخری راتوں میں اور ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں میں جاگنا اور عبادت کرنا مستحب ہے، خواہ تنہا نفل پڑھے یا تلاوتِ قرآن پاک کرے یا ذکر و تسبیح و تحمید و تہلیل و درود شریف وغیرہ کا ورد کرے۔ اگر ساری رات کا جاگنا میسر نہ ہو تو جس قدر بھی ہو سکے اسی قدر شب بیداری کر لے۔
        • نماز اشراق
          • 1. نماز اشراق کی دو رکعت بھی ہیں اور چار بھی، بلکہ چھ بھی ہیں۔ اس کا وقت سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے سے شروع ہوتا ہے اور ایک پہر دن چڑھنے تک ہے، افضل یہ ہے کہ جب فجر کی نماز ہو چکے تو مصلے پر سے نہ اًٹھے، وہیں بیٹھا رہے اور درود شریف یا کلمہ شریف یا کسی اور ورد و وظیفہ یعنی ذکر و دعا یا تلاوت یا علمِ دین سیکھنے سکھانے وغیرہ میں مشغول رہے، جب سورج نکل آئے اور ایک نیزہ بلند ہو جائے تو دو رکعت یا چار رکعت نماز اشراق پڑھ لے، اس کو ایک پورے حج اور ایک عمرے کا ثواب ملتا ہے ۔ اور اگر باہر چلا گیا اور کسی دنیاوی کام میں مشغول ہو گیا پھر سورج ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد اشراق کی نماز پڑھی تب بھی درست ہے، لیکن ثواب کم ہو جائے گا۔
        • نماز چاشت
          • 1. اس کو نماز ضحٰی بھی کہتے ہیں۔ اس کی کم سے کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں۔ اوسط درجہ آٹھ رکعتیں ہیں اور یہی عادت افضل ہے ۔ اکثر علماءکے نزدیک افضل اور مختار چار رکعت ہے۔ ان میں کبھی کبھی سورة والشمس اور والیل اور والضحیٰ اور الم نشرح پڑھنا یا ہر دوگانہ میں سورة والشمس اور سورہ الضحیٰ پڑھنا مستحب ہے ، لیکن کبھی کبھی اور سورتیں بھی پڑھا کریں ۔ اس کا وقت سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے سے نصف النہار شرعی سے پہلے تک ہے۔ مختار اور بہتر وقت یہ ہے کہ چوتھائی دن چڑہے پڑھے، اکثر کاروباری مصروفیات کے خیال سے اشراق کی کم سے کم دو رکعت اور چاشت کی چار رکعت یعنی کل چھ رکعت اشراق ہی کے وقت میں پڑھ لیتے ہیں، بلکہ ایک دوگانہ استخارہ کا بھی ان کے ساتھ ہی پڑھ لیتے ہیں۔
        • صلٰوة الاوابین
          • 1. مغرب کی سنت مؤکدہ کے بعد چھ رکعتیں مستحب ہیں۔ ان کو صلٰوة الاوابین بھی کہتے ہیں۔ اس نماز کو خواہ ایک سلام سے پڑھیں یا دو سلام سے یا تین سلام سے تینوں طرح جائز ہے ، لیکن تین سلام سے پڑھنا یعنی ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا افضل ہے۔ نماز اوابین کی زیادہ سے زیادہ بیس رکعتیں ہیں اور دو یا چار رکعات بھی جائز ہیں۔
      • مختلف حالات میں مخصوص نوافل
        • تحیتہ الوضو
          • 1. (شکرانہ وضو) وضو کے بعد اعضا خشک ہونے سے پہلے دو رکعت نماز تحیۃ الوضو پڑھنا مستحب ہے ، اسی طرح غسل کے بعد بھی دو رکعت نماز مستحب ہے، اگر چار رکعتیں پڑھی جائیں تب بھی کچھ حرج نہیں، مگر مکروہ وقت میں نہ پڑھے۔
        • تحیتہ المسجد
          • 1. جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو اسے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھنامستحب ہے اور مسجد کی تحیۃ و تعظیم سے مراد رب ِمسجد کی تحیۃ و تعظیم ہے، اگر مسجد میں کسی ضرورت کی وجہ سے ایک وقت میں کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہو تو صرف ایک مرتبہ تحیۃ المسجد پڑھ لینا کافی ہے، خواہ پہلی مرتبہ پڑھ لے یا آخر میں یا درمیان میں کسی مرتبہ پڑھ لے ۔ اگر مکروہ وقت ہو تو تحیۃ المسجد نہ پڑھے بلکہ یہ کلمات کہہ لے: ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘
            پھر درود شریف پڑھ لے۔
            اگر بےوضو ہو اور مسجد میں جانا ضروری ہو تب بھی یہی کلمات کہہ لے۔
        • نمازِ استخارہ
          • 1. جب کوئی جائز اہم کام درپیش ہو، مثلاً کہیں منگنی یا شادی کرنے یا سفر میں جانے کا ارادہ ہو اور اس کے کرنے یا نہ کرنے میں تردد ہو یا اس بارے میں تردد ہو کہ کام کس وقت کیا جائے تو استحارہ کرنا سنت ہے۔ اس کی ترکیب یہ ہے کہ جب رات کو سونے لگے تو تازہ وضو کر کے دو رکعت نمازِ استحارہ پڑھے ، بہتر یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورة الکافرون اور دوسری رکعت میں سورة اخلاص پڑھے، ان دو رکعت کا سلام پھیرنے کے بعد دعائے استحارہ پڑھے، دعا کے اول و آخر میں حمد و صلٰوة کا پڑھنا مستحب ہے۔ پس سورة الحمد شریف یا صرف الحمد اللہ اور درود شریف پڑھ لیا کرے، دعائے استحارہ یہ ہے۔
            اَللّٰھمَّ اِنِّی اَستَخِیرُکَ بِعِلمِکَ وَ استَقدِرُکَ بِقُدرَتِکَ وَ اَسئَلُکَ ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَ اسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ العَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُوَ تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الغُیُوبِ اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھَذَا الْاَمرَ خَیْرٌ لِّی فِی دِینِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَۃِ اَمرِیْ وَ عَاجِلِہٖ وَ اٰجِلِہٖ فَاقْدِرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِی ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھَذَا الاَمرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَۃِ اَمرِیْ وَ عَاجِلِہٖ وَ اٰجِلِہٖ فَاصْرِ فْہُ عَنِّیْ وَ اصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اْرَضِنِی بِہٖ‘‘
            دونوں جگہ ھذا الامر کہتے وقت اپنے اس کام کا دل میں خیال کرے یا زبان سے اپنے مقصد کا ذکر کرے، مثلاً سفر کے لئے ھذا السفر کہے اور کہیں ٹھہرنے کے لئے ھذہ الاقامۃ کہے اور نکاح کے لئے ھذا النکاح کہے، کسی چیز کی خرید و فروخت کے لئے ھذاالبیع کہے وغیرہ، اور یہ بھی جائز ہے کہ ھذاالامر کہے اور پھر اپنی ضرورت کا نام لے۔ دعائے استخارہ پڑھنے کے بعد پاک و صاف بچھونے پر قبلے کی طرف منہ کر کے سو جائے، جب سو کر اٹھے اس وقت جو بات دل میں مضبوطی سے آئے وہی بہتر ہے، اس پر عمل کرے۔ استخارہ روزانہ اس وقت تک کرے جب تک رائے ایک طرف پوری طرح مضبوط نہ ہو جائے، اور بہتر یہ ہے کہ سات روز تک استخارے کا تکرار کرے، اگر کسی وجہ سے نمازِ استخارہ نہ پڑھ سکے تو صرف دعائے استخارہ ہی پڑھ لیا کرے۔ حج و جہاد و دیگر عبادات اور نیک کاموں یعنی فرض و واجب و سنت و مستحب کے کرنے اور حرام و مکروہ کو چھوڑنے کے لئے استخارہ نہ کرے ، کیونکہ ان کاموں کے لئے تو اس کو حکم دیا گیا ہے ، البتہ تعین وقت اور حالت مخصوص کے لئے ان میں بھی استخارہ کر سکتا ہے، مثلاً یہ تردد ہو کہ حج وغیرہ کے لئے خشکی کے راستے سے سفر کرے یا سمندر کے راستہ سے، یا یہ کہ سواری مول لے یا کرایہ پر لے، یا یہ کہ فلاں شخص کو اپنا رفیقِ سفر بنائے یا نہ بنائے یا یہ کہ سفر آج کیا جائے یا کل وغیرہ۔
        • نمازِ حاجت
          • 1. جب کوئی حاجت پیش آئے خواہ اس کا تعلق اللہ تعالی سے بلا واسطہ ہو یا بالواسطہ، و یعنی کسی بندے سے اس کام کا پورا ہونا متعلق ہو، مثلاً نوکری کی خواہش ہو یا کسی سے نکاح کرنا چاہتا ہو تو اس کے لئے مستحب ہے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نفل نماز پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درورد شریف پڑھے ، پھر یہ دعا پڑھے۔
            ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ الحَلِيْمُ الكَرِيْمُ، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ العَرْشِ العَظِيْمِ، اَلحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِيْنَ، أَسْأَلُكَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِيْمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّاغَفَرْتَهٗ، وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهٗ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ. ‘‘۔
            اس کے بعد جو حاجت درپیش ہو اس کا سوال اللہ تعالی سے کرے، انشاءاللہ اس کی وہ حاجت روا ہو گی، نماز استخارہ اور نماز حاجت میں فرق یہ ہے کہ نمازِ استخارہ حاجتِ آئندہ کے لئے ہے اور نمازِ حاجت موجودہ حاجت کے لئےہے۔
        • صلٰواة تسبیح
            اس نماز کا ثواب احادیث میں بہت زیادہ آیا ہے، اگر ہو سکے تو ہر روز ایک مرتبہ اس نماز کو پڑھ لیا کرے، ورنہ ہر ہفتہ میں ایک بار (مثلاً ہر جمعہ کے روز) پڑھ لیا کرے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ہر مہینہ میں ایک بار ورنہ سال میں ایک بار پڑھ لے اور یہ بھی نہ کر سکے تو تمام عمر میں ایک بار پڑھ لے۔ صلٰواةِ تسبیح کی چار رکعتیں ہیں، بہتر یہ ہے کہ چاروں رکعتیں ایک سلام سے پڑھی جائیں اور اگر دو سلام سے پڑھی جائیں تب بھی درست ہے، یہ نماز سوائے اوقات مکروہ کے ہر وقت پڑھ سکتا ہے، اور بہتر یہ ہے کہ زوال کے بعد ظہر سے پہلے پڑھے، اور اعتدال کا درجہ یہ ہے کہ اس کو ہر جمعہ کے روز زوال کی بعد نماز جمعہ سے پہلے پڑھا کرے۔

          • پہلا طریقہ
            • اس نماز کے پڑھنے کا طریقہ جو حضرت عبداللّہ بن مبارک سے ترمذی شریف میں مذکور ہے یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا یعنی سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ الخ پڑھے پھر کلمات تسبیح یعنی یعنی’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَر‘‘
              پندرہ مرتبہ پڑھے، پھر حسبِ دستور اعوذ باللہ، بسم اللہ، الحمد شریف اور سورة پڑھے، پھر قیام میں ہی یعنی سورة کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے وہی کلمات تسبیح دس مرتبہ پڑھے ، پھر رکوع کرے اور رکوع کی تسبیح کے بعد وہی کلمات دس بار کہے، پھر رکوع سے اٹھ کر قومہ میں سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ اور رَبَّنَالَکَ الْحَمْدُ کے بعد دس بار، اور دونوں سجدوں میں سجدے کی تسبیح کے بعد دس دس بار، اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی حالت میں یعنی جلسہ میں دس بار وہی کلماتِ تسبیح کہے، اس طرح ہر رکعت میں الحمد سے پہلے پندرہ مرتبہ اور سورة ملانے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے قیام ہی میں دس مرتبہ، اور رکوع و قومہ اور دونوں سجدوں میں اور دونوں سجدوں کے درمیانی جلسے میں دس دس بار وہی کلمات کہے ، اس طرح ہر رکعت میں پچھتر (٧٥) مرتبہ اور چار رکعتوں میں تین سو مرتبہ یہ کلماتِ تسبیح ہو جائیں، اور اگر ان کلمات کے بعد
              ’’وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ العَظِیْمِ ‘‘
              بھی ملا لے تو بہتر ہے، کیونکہ اس سے بہت ثواب ملتا ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ زیادہ آئے بھی ہیں۔
          • دوسرا طریقہ
            • 1. جو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ترمذی شریف میں آیا ہےاس طرح ہے کہ ثنا کے بعد اور الحمد شریف سے پہلے کسی رکعت میں ان کلمات تسبیح کو نہ پڑھے ، بلکہ ہر رکعت میں الحمد اور سورة پڑھنے کے بعد پندرہ مرتبہ پڑھے اور رکوع اور قومہ اور دونوں سجدوں اور جلسہ میں بدستور دس دس مرتبہ پڑھے اور دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر یعنی جلسہ استراحت میں دس مرتبہ پڑھے، اس طرح ہر رکعت میں پچھتر(75) مرتبہ پڑھے اور دونوں قعدوں میں التحیات سے پہلے پڑھ لے، یہ دونوں طریقے صحیح ہیں لیکن پہلا طریقہ حنفی مذہب کے زیادہ موافق ہے، کیونکہ دوسرے طریقہ میں جلسۂ استراحت میں پڑھنا آیا ہے اور جلسۂ استراحت احناف کے نزدیک مکروہ ہے ، لیکن بعض فقہا نے اس کو ترجیح دی ہے، کیونکہ یہ حدیث مرفوع سے ثابت ہے، بہتر یہ ہے کہ کبھی ایک روایت پر عمل کرے اور کبھی دوسری پر تاکہ دونوں پرعمل ہو جائے۔ اس نماز کی چاروں رکعتوں میں کوئی سورة معین نہ کرے، لیکن کبھی کبھی استحباب کے لئے چاروں رکعتوں میں علی الترتیب، التکاثر، العصر، الکافرون اور اخلاص پڑھا کرے ، اور کبھی اِذَا زُلْزِلَتْ اور وَالْعٰدِیَاتِ اور اِذَا جَاءَ اور سورة اخلاص پڑھے۔ اگر تسبیح کے کلمات بھول کر کسی جگہ دس سے کم پڑھے جائیں یا بالکل نہ پڑھے جائیں تو اس کو دوسری جگہ یعنی تسبیح پڑھنے کے آگے والے موقع میں پڑھ لے ، تاکہ تعداد پوری ہو جائے ، لیکن رکوع میں بھولے ہوئے کلمات تسبیح قومہ میں نہ پڑھےبلکہ دوسرے سجدے میں پڑھے ، کیونکہ قومہ اور جلسہ کا رکوع و سجدے سے طویل کرنا مکروہ ہے ۔ کلماتِ تسبیح کو انگلیوں پر شمار نہ کرے بلکہ اگر دل کے ساتھ شمار کر سکے اور نماز کی حضوری میں فرق نہ آئے تو یہی بہتر ہے ورنہ انگلیاں دبا کر شمار کرے۔
        • بوقت سفر و واپسی سفر
          • 1. جب کوئی شخص اپنے وطن سے سفر کرنے لگے تو اس کے لئے مستحب یہ ہے کہ دو رکعت نماز گھر میں پڑھ کر سفر کرے اور مزید دو رکعت مسجد میں پڑھ لینا بہتر ہے۔ اور جب سفر سے واپس آئے تو مستحب ہے کہ پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ لے اور کچھ دیر وہاں بیٹھے ، پھر اپنے گھر جائے۔ اور اثنائے سفر جب کسی منزل پر پہنچے اور وہاں قیام کا ارادہ ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔
        • نماز توبہ
          • 1. جس شخص سے کوئی گناہ صادر ہو جائے اس کے لئے مستحب ہے کہ دو رکعت پڑھ کر اپنے گناہ سے توبہ اور اس کی بخشش و معافی کے لئے اللہ تعالی سے دعا کرے۔
        • نماز قتل
          • 1. مسئلہ جب کسی مسلمان کو قتل کيا جا رہا ہو تو اس کے لیے مستحب ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ کر اپنے گناہوں کى مغفرت کى اللہ تعالى سے دعا کرے، تاکہ يہى نماز و استغفار دنيا ميں اس کا آخر عمل رہے۔ حديث : ايک مرتبہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے اصحاب رضى اللہ عنہم ميں سے چند قاريوں کو قرآن مجيد کى تعليم کے ليے کہيں بھيجا تھا، اثناء سفر راستے ميں کفار مکہ نے انھيں گرفتار کيا۔ سوائے حضرت خبيب کے اور سب کو وہيں قتل کر ديا۔ حضرت خبيب رضى اللہ عنہ کو مکہ ميں لے جا کر بڑى دھوم اور بڑے اہتمام سے شہيد کيا ۔ جب يہ شہيد ہونے لگے تو ان لوگوں سے اجازت لے کر دو رکعت نماز پڑھى۔ اسى وقت سے يہ نماز مستحب ہو گئى۔
        • نمازِ احرام
          • . حج یا عمرے کا احرام باندھتے وقت دو رکعت نماز پڑھنا سنت مستحبہ ہے ۔ اس نماز کی پہلی رکعت میں ’’قُلْ یَآ اَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ‘‘ اور دوسری میں ’’قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ پڑھنا مستحب ہے۔
        • نماز نذر
          • 1. نمازِ نذر واجب ہے لیکن یہ واجب لغیرہ ہے ، یعنی ان نوافل میں سے ہے جو بندے کے اپنے فعل سے اس پر واجب ہوتے ہیں ، اسی لئے اس کے بعض احکام فرضوں کے مشابہ ہیں اور بعض احکام نفلوں کے مطابق ہیں۔
          • 2. اگر کسی شخص نے کہا کہ میں نے اللہ تعالٰی کے واسطہ نذر کی کہ ایک دن کی نماز پڑھوں گا ، تو اس پر دو رکعتیں لازم ہوں گی ، اور اگر کسی نے مہینے بھر کی نمازوں کی نذر کی تو ایک مہینے کی جتنی فرض اور وتر نمازیں ہیں وہ اس پر لازم ہوں گی، سنتیں لازم نہ ہوں گی، لیکن اس کو چاہیے کہ مغرب کے فرض اور نماز وتر کے بدلے میں چار چار رکعتیں پڑھے۔
          • 3. اگر بغیر طہارت یا بغیر سترِ عورت یا بغیر قرآت دو رکعت نماز پڑھنے کی نذر مانی تو امام محمدؒ کے نزدیک اس پر کچھ لازم نہیں ہو گا ، کیونکہ یہ نذر بالمعصیت ہے، امام ابو یوسفؒ کے نزدیک دو رکعت طہارت اور ستر عورت اور قرآت کے ساتھ ادا کرنا لازم ہو گا ، اور یہ شرط لغو ہو جائے گی۔
          • 4. اگر ایک یا آدھی رکعت نماز پڑھنے کی منت مانی تو اس پر دو رکعتیں لازم ہوں گی اور اگر تین رکعتوں کی منت مانی تو چار رکعتیں لازم ہوں گی۔
          • 5. اگر ظہر کی فرض نماز کے لئے آٹھ رکعتیں پڑھنے کی نذر مانی اس پر صرف چار رکعتیں ہی ادا کرنا فرض ہے، اس سے زیادہ کچھ لازم نہ ہو گا ، کیونکہ یہ زائد رکعتوں کا التزام غیر مشروع و نذر بالمعصیت ہے۔
          • 6. اگر دو رکعت نماز پڑھنے کی نذر مانی اور ان کو کھڑے ہو کر پڑھنے کے ساتھ متعین نہیں کیا تو ان کو بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے ، لیکن سواری پر ادا کرنا جائز نہیں ۔ اور اگر کھڑے ہو کر ادا کرنے کی نذر مانی تھی تو کھڑے ہو کر پڑھنا واجب ہے اور کسی چیز پر سہارا لے کر کھڑا ہونا مکروہ ہے۔
          • 7. اگر کسی معین دن کے لئے دو رکعت نماز پڑھنے کی نذر مانی اور اس دن ادا نہ کی تو ان دو رکعت کو قضا کرے، اور اگر کسی معین دن کے لئے دو رکعت نماز پڑھنے کی قسم کھائی اور اس دن نہ پڑھی تو قسم کا کفارہ دے، اس پر قضا لازم نہیں ہے، اور قسم کا کفارہ ایک غلام آزاد کرانا یا دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہ۔ ے اگر یہ نہ ہو سکے تو تین روزے رکھنا ہے۔
          • 8. اگر مسجدالحرام یا مسجد بیت المقدس میں نماز ادا کرنے کی نذر مانی اور کسی اور کم درجے کی مسجد میں یا گھر کی مسجد میں ادا کی تو جائز ہے۔
          • 9. اگر کسی عورت نے کسی معین دن میں نماز ادا کرنے کی نذر مانی اور اس دن اس کو حیض آ گیا تو اس کی قضا واجب ہو گی، حیض وجوب کا مانع نہیں ادا کا مانع ہے ۔ اور اگر یہ نذر مانی کہ حالت حیض میں نماز پڑھے گی تو کچھ لازم نہ ہو گا ، کیونکہ نذر بالمعصیت ہے۔
          • 10. اگر کسی نے چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی منت مانی یا ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی قید نہیں لگائی تو اس کو چاروں رکعت ایک ہی سلام سے ادا کرنا واجب ہے۔ دو تسلیموں سے ادا کرنے میں وہ نذر ادا نہیں ہو گی۔ اور اگر اس کے برعکس چار رکعتیں دو تسلیمیوں سے ادا کرنے کی منت مانی تو ان چاروں کو ایک ہی سلام سے ادا کرنا بھی جائز ہے، منت ادا ہو جائے گی ۔ اور اگر نذر کی چار رکعت ادا کرنے کی نیت سے نماز شروع کی ، پھر اس کو توڑ دیا تو اس پر بلا خلاف چار رکعت کی قضا لازم ہے۔
        • استسقاء کى نماز
          • 1. جب پانى کى ضرورت ہو اور پانى نہ برستا ہو اس وقت اللہ تعالى ٰسے پانى برسنے کى دعا کرنا مسنون ہے۔ استسقاء کے ليے اس طريقہ سے دعا کرنا مستحب ہے کہ تمام مسلمان مل کر مع اپنے لڑکوں ، بوڑھوں اور جانوروں کے پا پيادا خشوع و عاجزى کے ساتھ معمولى لباس ميں جنگل کى طرف جائيں اور توبہ کى تجديد کريں۔ اور اہل حقوق کے حقوق ادا کريں ، اور اپنے ہمراہ کسى کافر کو نہ لے جائيں، پھر دو رکعت بلا اذان اور اقامت کے جماعت سے پڑھيں۔ امام جہر سے قرأت پڑھے، پھر دو خطبے پڑھے جس طرح عيد کے روز کيا جاتا ہے ، پھر امام قبلہ رو ہو کر کھڑا ہو جائے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالى سے پانى برسنے کى دعا کرے اور سب حاضرين بھى دعا کريں ۔ تين روز متواتر ايسا ہى کريں ، تين روز کے بعد نہ کریں،کيونکہ اس سے زيادہ ثابت نہيں۔ اور اگر نکلنے سے پہلے يا ايک دن نماز پڑھ کر بارش ہو جائے تو تب بھى تين دن پورے کر ديں، اور تينوں دنوں ميں روزہ بھى رکھيں تو مستحب ہے ۔اور جانے سے پہلے صدقہ خيرات کرنا بھى مستحب ہے۔
        • نماز کسوف و خسوف
          • 1. مسئلہ: کسوف یعنی سورج گرہن کے وقت دو رکعت نماز مسنون ہے۔
            مسئلہ: نماز کسوف جماعت سے ادا کى جائے بشرطيکہ امام جمعہ يا حاکم وقت يا اس کا نائب امامت کرے، اور ايک روايت ميں ہے کہ ہر امام مسجد اپنى مسجد ميں نماز کسوف پڑھا سکتا ہے ۔ مسئلہ: نماز کسوف کے ليے اذان يا اقامت نہيں بلکہ لوگوں کا جمع کرنا مقصود ہو تو ’’اَلصَّلٰوةُ جَامِعَةٌ‘‘ پکار ديا جائے۔
            مسئلہ: نماز کسوف ميں بڑى بڑى سورتوں کا مثل سورہ بقرہ وغيرہ پڑھنا اور رکوع اور سجدوں کا بہت دير تک ادا کرنا مسنون ہے اور قرأت آہستہ پڑھے۔
            مسئلہ: نماز کے بعد امام کو چاہيے کہ دعا ميں مصروف ہو جائے اور سب مقتدى آمين آمين کہيں، جب تک کہ گرہن موقوف نہ ہو جائے دعا ميں مشغول رہنا چاہيے ، ہاں اگر ايسى حالت ميں آفتاب غروب ہو جائے يا کسى نماز کا وقت آ جائے تو دعا کو موقوف کر کے نماز ميں مشغول ہو جانا چاہيے۔
            مسئلہ: خسوف چاند گرہن کے وقت بھى دو رکعت نماز مسنون ہے مگر اس ميں جماعت مسنون نہيں، سب لوگ تنہا عليحدہ عليحدہ نمازيں پڑھيں اور اپنے اپنے گھروں ميں پڑھيں، مسجد ميں جانا بھى مسنون نہيں۔
            مسئلہ: اسى طرح جب کوئى خوف يا مصيبت پيش آئے تو نماز پڑھنا مسنون ہے ۔ مثلا سخت آندھى چلے يا زلزلہ آئے يا بجلى گرے يا ستارے بہت ٹوٹيں يا برف بہت گرے يا پانى بہت برسے يا کوئى مرض عام مثل ہيضے وغيرہ کے پھيل جائے يا کسى دشمن وغيرہ کا خوف ہو، مگر ان اوقات ميں جو نمازيں پڑھى جائيں ان ميں جماعت نہ کى جائے، ہر شخص اپنے اپنے گھر ميں تنہا پڑھے۔ نبى صلى اللہ عليہ وسلم کو جب کوئى مصيبت يا رنج ہوتا تو نماز ميں مشغول ہو جاتے۔
            مسئلہ: جس قدر نمازيں يہاں بيان ہو چکيں ان کے علاوہ بھى نوافل کى جس قدر کثرت جائے باعث ثواب و ترقى درجات ہے ، خصوصا ان اوقات ميں جن کى فضيلت احاديث ميں وارد ہوئى ہے اور ان ميں عبادت کرنے کى ترغيب نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمائى ہے ۔ مثل رمضان کے اخير عشرہ کى راتوں اور شعبان کى پندرھويں تاريخ کے ۔ ان اوقات کى بہت فضيلتيں ہیں اور احاديث ميں ان اوقات ميں عبادت کا بہت ثواب وارد ہوا ہے۔ ہم نے اختصار کے خيال سے ان کى تفصيل نہيں کى۔ نہيں کى۔
    • مریض و معذور کی نماز کا بیا ن
      • 1. نماز کسی حالت میں ترک نہ کرے جب تک کھڑا ہو کر نماز پڑھنے کی قوت ہے کھڑے ہو کر نماز پڑھے، اور جس شخص کو بیماری یا کسی اور عذر کی وجہ سے بالکل کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو یا کھڑے ہونے سے سخت تکلیف ہو یا مرض کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو یا سر میں چکر آ کر گر جانے کا خوف ہو تو ان سب صورتوں میں فرض و واجب نماز بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ پڑھنا چاہیے ۔ رکوع کے لئے اتنا جھکے کہ پیشانی گھٹنوں کے مقابل ہو جائے۔
      • 2. اگر کسی شخص کو قیا م کی طاقت تو ہے لیکن رکوع و سجود سے عاجز ہے یا قیام و رکوع و سجود تینوں کی طاقت نہیں ہے اور بیٹھنےپر قادر ہے تو بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھے۔ سجدے کا اشارہ رکوع سے زیادہ نیچےتک کرے، یعنی رکوع کے لئے تھوڑا جھکے اور سجدے میں اس سے زیادہ جھکے۔ اگر دونوں برابر کرے گا تو نماز صحیح نہیں ہو گی۔(مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتھم کی تحقیق کے مطابق اگر کوئی شخص قیام پر قادر ہے اگرچہ رکوع و سجدے پر قادر نہ بھی ہو تو قیام کرے گا اور رکوع و سجدہ اشارے سے کرے گا )۔
      • 3. اگر کوئی شخص قیام کے پورے وقت قیام نہیں کر سکتا لیکن تھوڑی دیرکھڑا ہو سکتا ہے تو جس قدر قیام کر سکتا ہے اسی قدر قیام کرنا فرض ہے۔
      • 4. اگر دیوار وغیرہ کا سہارا لگا کر کھڑا ہونے پر قادر ہے تو صحیح یہ ہے کہ سہارا لگا کر کھڑا ہو کر نماز پڑھے، ورنہ نماز درست نہ ہو گی- اگر کوئی شخص طویل قرآت کے سبب سے کھڑا ہوا تھک جائے اور تکلیف ہونے لگے تو اس کو کسی دیوار یا درخت یا لکڑی وغیرہ کا سہارا لینا مکروہ نہیں ہے، لیکن بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے۔
      • 5. اگر گھر میں قیام کر کے نماز پڑھ سکتا ہو اور مسجد میں جماعت کے لئے جانے کے بعد قیام پر قادر نہیں رہتا تو اپنے گھر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھے، پس اگر گھر میں جماعت میسر ہو تو جماعت سے پڑھے ورنہ اکیلے پڑھ لے۔
      • 6. اگر رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی صورت میں کھڑا ہونے پر قادر نہیں رہتا اور روزہ نہ رکھنے کی صورت میں قیام کر سکتا ہے تو رمضان المبارک کے روزے رکھے اور بیٹھ کر نماز پڑھے۔
      • 7. بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں کسی خاص وضع پر بیٹھنا ضروری نہیں بلکہ جس طرح پر آسانی ہو اسی طرح بیٹھے، لیکن اگر دوزانو یعنی تشہد میں بیٹھنے کی طرح بیٹھنا آسان ہو یا دوسری طرح بیٹھنے کے برابر ہو تو دوزانو بیٹھنا بہتر ہے۔
      • 8. سجدے کے لئے تکیہ ، اینٹ یا تختی وغیرہ کوئی چیز پیشانی کے قریب تک اٹھا کر اس پر سجدہ کرنا مکروہِ تحریمی ہے، خواہ خود اٹھائی ہو یا کسی دوسرے نے اس کے لئے اٹھائی ہو ۔ اگر تکیہ یا اینٹ وغیرہ کوئی اونچی چیز زمین یا چوکی وغیرہ پر رکھی ہو اس پر سجدہ کرے اور رکوع کے لئے بھی صرف اشارہ نہ ہو بلکہ پیٹھ جھکائی ہو تو اس طرح رکوع و سجود کرنے والے کی نماز صحیح ہے۔
      • 9. اگر پیشانی پر زخم ہو تو ناک پر سجدہ کرنا فرض ہے، اس کو اشارہ سے نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
      • 10. اگر مریض یا معذور بیٹھنے پر قادر نہیں تو لیٹ کر اشارہ سے نماز پڑھے ، اس کی صورت یہ ہے کہ چت لیٹ جائے اور اپنے دونوں پاوَں قبلے کی طرف کرے، اگر ہو سکے تو دونوں گھٹنوں کو کھڑا کر کے قبلے کی طرف پاوَں نہ پھیلائے، اور اگر ایسا نہ کر سکے تو پاوَں پھیلا لے اور سر کے نیچے تکیہ وغیرہ رکھ کر سر کو ذرا اونچا کر دیا جائے اور رکوع و سجود کے لئے سر جھکا کر اشارہ سے نماز پڑھے۔ سجدے کا اشارہ زیادہ نیچا کرے، یہ صورت افضل ہے، جائز یہ بھی ہے کہ شمال کی جانب سر کر کے داہنی کروٹ پر لیٹے یا جنوب کی جانب سر کر کے بائیں طرف کروٹ پر لیٹے اور اشارہ سے نماز پڑھے، اور دونوں صورتوں میں داہنی کروٹ پر لیٹنا افضل ہے۔
      • 11. اگر تندرست آدمی نے کھڑے ہو کر نماز شروع کی پھر اس کو کوئی ایسا مرض لاحق ہو گیا کہ قیا م نہیں کر سکتا ، مثلاً رگ چڑھ گئی تو باقی نماز بیٹھ کر پڑھ لے، نئے سرے سے پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ اور اگر وہ رکوع و سجود پر بھی قادر نہ رہے تو بیٹھ کر اشارے سے باقی نماز پڑھے ، اور اگر بیٹھنے پر بھی قادر نہیں رہا تو لیٹ کر اشارے سے باقی نماز پڑھے۔
      • 12. اگر کوئی شخص عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ رہا تھا کہ نماز میں تندرست ہو گیا اور قیام پر قادر ہو گیا تو باقی نماز کھڑے ہو کر پوری ادا کرے۔ اور اگر بیما ری کی وجہ سے رکوع و سجود کی قوت نہ تھی اس لئے سر کے اشارہ سے رکوع و سجود کر رہا تھا، پھر جب کچھ نماز پڑھ چکا تو رکوع و سجود پر قادر ہو گیا تو اب یہ نماز جاتی ر ہی، اس کو پورا نہ کرے بلکہ نئے سرے سے رکوع و سجود کے ساتھ پڑھے، اور اگر ابھی اشارے سے رکوع و سجود نہ کیا ہو کہ تندرست ہو گیا تو نماز کا ادا کیا ہوا حصہ صحیح ہے اسی کو رکوع و سجود کے ساتھ ادا کر لے۔
      • 13. جو نمازیں عذر کی وجہ سے اشارے سے پڑھیں صحت کے بعد ان کا اعادہ نہیں ہے، جبکہ وہ عذر سماوی یعنی قدرتی ہو اور اگر عذر بندے کی طرف سے ہو تو عذر دور ہونے کے بعد اس کا اعادہ ضروری ہے۔
      • 14. جب مریض سر کے ساتھ اشارہ کرنے سے بھی عاجز ہو جائے تو اس وقت نماز پڑھنا اس پر فرض نہیں ہے ، اور اس کو آنکھ یا ابرو یا دل کے اشارہ سے نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے، کیو نکہ ان چیزوں کے اشارہ کا کچھ اعتبار نہیں ہے، ان نمازوں کی قضا واجب ہونے یا نہ ہونے کے متعلق چار صورتیں ہیں۔

        اول: اگر ایسا مرض ایک دن رات میں پانچ نمازوں سے زیادہ رہا ہو اور عقل بھی قائم نہ رہی تو بالا تفاق حالتِ مرض کی نمازوں کی قضا نہیں ہے۔

        دوم: اگر ایک دن رات سے کم مرض رہا اور عقل قائم رہی تو ان نمازوں کی قضا بالاجماع لازمی ہے، پس اگر ایک دن رات میں پھر اس قدر صحت ہو گئی کہ سر کے اشارہ سے ادا کر سکتا ہے تو ان نمازوں کو اشارہ سے ادا کر لے، اور یہ خیال نہ کرے کہ جب بلکل اچھا ہو جاوَں گا تب پڑھ لوں گا ، شاید اسی حالت میں مر جائے تو گناہگار ہو گا اور ان نمازوں کے فدیہ کی وصیت کرنی لازمی ہو گی۔

        سوم: اگر ایک دن رات سے زیادہ مرض رہا اور عقل قائم رہی اور

        چہارم: اگر مرض دن رات سے کم رہا لیکن عقل قائم نہ رہی تو ان دونوں صورتوں میں اختلاف ہے، ظاہر الروایتہ یہ ہے کہ ان کی قضا لازم ہے۔

      • 15. اگر کوئی شخص پانچ نمازوں کے وقت تک بیہوش رہا تو ان نمازوں کو قضا کرے، اگر بیہوشی پانچ نمازوں سے بڑھ جائے اور درمیان میں کچھ افاقہ نہ ہو تو اب ان نمازوں کی قضا نہ کرے ، کیونکہ اب نماز اس سے ساقط ہو گئی۔ جنون کا حکم بھی بیہوشی کی مانند ہے ۔ اگر کسی کو نشہ آور چیز کے استعمال سے ایک دن رات سے زیادہ عقل جاتی رہی تو اس سے نماز ساقط نہیں ہو گی ، خواہ اپنی مرضی سے استعمال کرے یا کوئی مجبور کر کے استعمال کرا دے، کیونکہ بندوں کے فعل سے اللہ تعالی کا حق ساقط نہیں ہوتا۔
      • 16. جو نمازیں حالتِ مرض میں قضا ہو گئیں جب صحت ہونے پر ان کو قضا کرے تو صحت کی حالت کی طرح ادا کرے بیماری کی حالت کی طرح بیٹھ کر یا اشارہ سے ادا کرے گا تو ادا نہ ہو گی ۔ اور اگر صحت کی حالت میں کچھ نمازیں قضا ہو گئیں تھیں پھر بیمار ہو گیا اور ان کو بیماری کی حالت میں قضا کرنا چاہتا ہے تو بیٹھ کر یا اشارے سے اس طرح پڑھے جس طرح پڑھنے پر اب قادر ہو ، اور یہ انتظار نہ کرے کہ جب قیام یا قعود اور رکوع و سجود کی طاقت آ جائے گی تب پڑھوں گا، یہ سب شیطانی خیالات ہیں، قضا کرنے میں دیر نہ کرے ، ایسا نہ ہو کہ موت آ جائے اور یہ توفیق نہ ہو سکے۔
      • 17. اگر فالج وغیر ہ کی وجہ سے ایسا بیمار ہو گیاکہ پانی سے استنجا نہیں کر سکتا تو کپڑے یا ڈھیلے سے پونچھ ڈالے، اور اسی طرح نماز پڑھ لے۔ اگر خود تیمم نہ کر سکے تو کوئی دوسرا تیمم کرا دے، اگر کپڑے یا ڈھیلے سے پونچھنے کی بھی طاقت نہیں ہے تب بھی نماز قضا نہ کرے، اسی طرح پڑھ لے ، ہاں اگر وہ خاوند والی عورت یا بیو ی والا خاوند ہو تو ایک دوسرے کا بدن پونچھ دے ، اور اگر دھونا ضرر نہ کرے تو دھو دے، دوسرا کوئی ایسا نہ کرے خواہ ماں باپ اور لڑکا، لڑکی ہی ہو۔
      • 18. تندرست آدمی کو نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے لیکن بلا عذر ایسا کرنے میں نصف ثواب ملتا ہے، اگر عذر کے ساتھ نفل بیٹھ کر پڑھے تو پورا ثواب ملتا ہے۔
    • جمعہ کی نماز
      • تعریف
        • 1. جمعہ کے دن ظہر کے وقت میں دو خطبوں کے بعد دو رکعت نماز جمعہ کی نیت سے پڑھنا جمعہ کی نماز کہلاتا ہے۔جن کے لیے جمعہ کی نماز فرض نہیں ان کی جمعہ کی نماز پڑھنے سے ظہر کی نماز ساقط ہوجاتی ہے۔
        • سنن و مستحبات ِ صلوٰۃ جمعہ
          نمازِ جمعہ کے لیے پیشتر سے جانا ، مسواک کرنا ، اچھے اور سفید کپڑے پہننا ، تیل اور خوشبو لگا نا اور پہلی صف ہی میں بیٹھنا مستحب ہے اور غسل سنت ہے۔
      • حکم
        • 1. جمعہ کی نماز فرضِ عین ہے اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ موکد ہے۔ یعنی ظہر کی نماز سے اس کی تاکید زیادہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو تین جمعے سستی کی وجہ سے چھوڑے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دے گا ، اور ایک روایت میں ہے وہ منافق ہے اور اللہ سے بے علاقہ۔ چونکہ اس کی فرضیت کا ثبوت دلیل قطعی سے ہے لہٰذا اس کا منکر کافر ہے۔
      • شرائط جمعہ

          جمعہ پڑھنے کی چھ شرطیں ہیں، ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہو (نہ پائی جائے ) تو جمعہ ہوگا ہی نہیں:

        • 1. شہر یا شہر کے قائم مقام بڑے گاؤں یا قصبہ میں ہونا ، یعنی وہ جگہ جہاں متعدد کوچے اور بازار ہوں اوروہ ضلع یا پرگنہ ہو، اور وہاں کوئی حاکم ہو کہ مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے۔ یونہی شہر کے آس پاس جو جگہ شہر کی مصلحتوں کے لیے ہو جسے فنائے مصر کہتے ہیں، جیسے قبرستان، فوج کے رہنے کی جگہ، کچہریاں اسٹیشن وہاں بھی جمعہ جائز ہے اور چھوٹے گاؤں میں جمعہ جائز نہیں، جو لوگ شہر کے قریب گاؤں میں رہتے ہیں انھیں چاہیے کہ شہر میں آکر جمعہ پڑھیں۔
        • 2. سلطانِ اسلام یا اس کا نائب جس نے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو وہاں جو سب سے بڑا فقیہ سُنی صحیح العقید ہ ہو وہ احکامِ شرعیہ جاری کرنے میں سلطان اسلام کے قائم مقام ہوتا ہے، لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے اور یہ بھی نہ ہو تو عام لوگ جس کو امام بنائیں وہ جمعہ قائم کرے۔عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطورِ خود کسی کو امام نہیں بنا سکتے، نہ یہ ہو سکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کر لیں، ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں۔
        • 3. وقت ظہر یعنی وقت ظہر میں نماز پوری ہو جائے تو اگر اثنائے نماز میں اگر چہ تشہد کے بعد عصر کا وقت آگیا تو جمعہ باطل ہو گیا ظہر کی قضا پڑھیں۔
        • 4. خطبہ جمعہ، اور اس میں شرط یہ ہے کہ وقت میں ہو ، نماز سے پہلے ہو، ایسی جماعت کے سامنے ہو جو جمعہ کے لیے شرط ہے، اتنی آواز سے ہو کہ پاس والے سن سکیں، اگر کوئی امر مانع نہ ہو اور خطبہ و نماز میں اگر زیادہ فاصلہ ہو جائے تو وہ خطبہ کافی نہیں۔
        • 5. جماعت، یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین مرد۔
        • 6. اذنِ عام، یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے، کسی کی روک ٹوک نہ ہو۔
      • 4. جمعہ کے واجب ہونے کے شرائط

          جمعہ واجب ہونے کے لیے گیارہ شرطیں ہیں، ان میں سے ایک بھی معدوم ہو تو جمعہ فرض نہیں، پھر بھی اگر پڑھے گا تو ہو جائے گا۔

        • 1. شہر میں مقیم ہو۔
        • 2. صحت،لہٰذا ایسے مریض پر جمعہ فرض نہیں کہ جو مسجد جمعہ تک نہ جاسکتا ہو یا چلے جانے میں مرض بڑھنے یا دیر میں اچھا ہونے کا قوی اندیشہ ہو ۔
        • 3. آزاد ہونا۔
        • 4. مردہو نا۔
        • 5. بالغ ہونا۔
        • 6. عاقل ہونا، اور یہ دونوں شرطیں خاص جمعہ کے لیے نہیں بلکہ ہر عبادت کے وجوب میں عقل و بلوغ شرط ہے۔
        • 7. انکھیارا ہونا، لہٰذا نابینا پر جمعہ فرض نہیں، ہاں جو اندھا مسجد میں اذان کے وقت باوضو ہو اس پر جمعہ فرض ہے۔ یونہی جونابینا بلاتکلیف بغیر کسی کی مدد کے بازاروں، راستوں میں چلتے پھرتے ہیں ان پر بھی جمعہ نماز فرض ہے۔
        • 8. چلنے پر قادر ہونا، لہٰذا اپاہج پر جمعہ فرض نہیں۔
        • 9. قید میں نہ ہونا۔
        • 10. بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا۔
        • 11. مینہ یا آندھی یا اولے یا سردی کا نہ ہونا ، یعنی اس قدر کہ ان سے نقصان کا خوفِ صحیح ہو۔
      • 5. نماز جمعہ کا طریقہ
        • 1. ظہر کے وقت میں پہلی اذان دینا۔ ا
          • 1. جمعہ کی پہلی اذان ہوتے ہی خرید و فروخت حرام ہو جاتی ہے، اور دنیا کے وہ تمام مشغلے اور کاروبار جو ذکر الٰہی سے غفلت کا سبب ہوں اس میں داخل ہیں، اذان ہونے کے بعد سب کو ترک کرنا لازم اور نمازکے لیے تیاری کرنا واجب ہے۔ یہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے اگر خرید و فروخت کی تو یہ بھی ناجائز ہے اور مسجد میں خرید و فروخت تو سخت گناہ ہے۔
            بہتر ہے کہ وعظ کے بعد جمعہ کی پہلی اذان دی جائے، تاکہ تیاری میں تاخیر سے عام لوگ گناہ گار نہ ہوں۔
        • 2. خطیب کا ممبر پر بیٹھنا
          • 1. خطبہ دینے کے لئے خطیب کا ممبر پر بیٹھنا سنت ہے۔ سنت یہ ہے کہ جو نماز پڑھائے وہی خطبہ دے۔ البتہ ہمارے ہاں جو اردو میں وعظ خطبہ سے پہلے دیا جائے وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔وعظ کہنے والا کوئی اور بھی ہو سکتا ہے۔
        • 3. خطیب کے سامنے دوسری دفعہ اذان دینا
          • 1. خطیب جب منبر پر بیٹھے تو اس کے سامنے دوبارہ اذان کہی جائے اور سامنے سے مراد یہ نہیں کہ مسجد کے اندر منبر سے متصل ہو ، اس لیے کہ مسجد کے اندر اذان کہنے کو فقہائے کرام منع کرتے اور مکروہ فرماتے ہیں ، اور اذانِ ثانی بھی بلند آواز سے کہیں کہ اس سے بھی اعلان مقصود ہے، تا کہ جس نے پہلی نہ سنی اسے سن کر حاضر ہو۔ خطبہ ختم ہو جائے تو فوراً اقامت کہی جائے۔ خطبہ و اقامت کے درمیان دنیا کی بات کرنا مکروہ ہے۔
        • 4. خطیب کا دو خطبے عربی میں دینا
          • 1. خطبہ ذکر الٰہی کا نام ہے۔ اگرچہ صرف ایک بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ یا سُبْحٰنَ اللّٰہِ یا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہا تو بھی فرض ادا ہو گیامگر اتنے ہی پر اکتفا ء کرنا مکروہ ہے۔ چھینک آئی اس پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہا یا تعجب کے طور پر سُبْحٰنَ اللّٰہِ یا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہا تو فرض ادا نہ ہوا۔
          • 2. خطبہ کی سنتیں
            • 1. خطیب کا پاک ہونا۔
            • 2. منبر پر ہونا۔
            • 3. خطبہ سے پہلے منبر پر بیٹھنا۔
            • 4. خطبہ کے لیے سامعین کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہونا۔
            • 5. 5. خطبہ سے پہلے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ آہستہ پڑھنا۔
            • 6. اتنی بلند آواز سے خطبہ پڑھنا کہ لوگ سنیں۔
            • 7. الحمد سے شروع کرنا۔
            • 8. اللہ عزوجل کی ثناء کرنا۔
            • 9. اللہ عزوجل کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہاد ت دینا۔
            • 10. کم از کم ایک آیت تلاوت کرنا۔
            • 11. حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا۔
            • 12. پہلے خطبہ میں وعظ و نصیحت ہونا۔
            • 13. اور دوسرے میں مسلمانوں کے لیے دعا کرنا اور حمد و ثنا و شہادت و درود کا اعادہ کرنا۔
            • 14. دونوں خطبے ہلکے ہونا اور دونوں خطبوں کے درمیان تین آیات پڑھنے کے بقدر بیٹھنا۔
          • خطبہ کے مستحبات
            • 1. مستحب یہ ہے کہ دوسرے خطبہ میں آواز بہ نسبت پہلے کے پست ہو اور خلفائے راشدین و عمین مکر میں حضرت حمزہ و حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ذکر ہو۔
          • خطبہ کی زبان
            • 1. عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں خطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ دوسری زبان خطبہ میں خلط کرنا سنتِ متواترہ اور مسلمانوں کے قدیمی طریقہ کے خلاف ہے۔ صحابہ کرام کے زمانہ میں عجم کے کتنے ہی شہر فتح ہو گئے، کئی ہزار مسجد یں بنائی گئیں، کہیں منقول نہیں کہ صحابہ نے ان کی زبان میں خطبہ فرمایا ہو۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں رومی، حبشی، عجمی ابھی تازہ حاضر ہوئے ہیں، عربی کا ایک حرف نہیں سمجھتے، مگر کہیں ثابت نہیں کہ حضور نے ان کی زبان میں خطبہ فرمایا ہو یا کچھ ان کی زبان میں فرمایا ہو، ایک حرف بھی ان کی زبان کا خطبہ میں منقول نہیں۔
              اب رہا یہ اعتراض کہ پھر تذکیرووعظ سے فائد کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نوکری کے واسطے عمریں انگریزی میں گنواتے ہیں اور عربی زبان جو ایسی متبرک کہ اس میں ان کا قرآن، ان کا نبی عربی، ان کی جنت کی زبان عربی، اس کے لیے اتنی کوشش بھی نہ کریں کہ خطبہ سمجھ سکیں، اعتراض تو انھیں معترضین پر پڑے گا، نہ کہ خطیب پر ، جو وعظ کہا جاتا ہے وہ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔
          • 5. خطبہ کے دوران سامعین کے لیے سنتیں
            • 1. حاضرین جمعہ امام کی جانب متوجہ رہیں۔ جو شخص امام کے سامنے ہو تو امام کی طرف منہ کرے اور دائیں بائیں ہو تو امام کی طرف مڑ جائے، اور امام سے قریب ہونا افضل ہے۔ مگر یہ جائز نہیں کہ امام سے قریب ہونے کے لیے لوگوں کی گردنیں پھلانگے۔ حدیث میں ہے ’’جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں، اس نے جہنم کی طرف پل بنایا‘‘ البتہ اگر امام ابھی خطبہ کو نہیں گیا ہے اور آگے جگہ باقی ہے تو آگے جاسکتا ہے اور خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد میں آیا تو مسجد کے کنارے میں ہی بیٹھ جائے۔ خطبہ سننے کی حالت میں دوزانو بیٹھے جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں۔
          • 6. خطبہ کے وقت ناجائز اور ممنوع کام
            • 1. جو چیزیں نماز میں حرام ہیں وہ سب خطبہ کی حالت میں بھی حرام ہیں، مثلاً کھانا ، پینا ، سلام اور جوابِ سلام وغیرہ۔ جب خطیب خطبہ پڑھے تو حاضرین پر سننا اور چپ رہنا فرض ہے۔ جو لوگ امام سے دور ہیں کہ خطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچتی انھیں بھی چپ رہنا واجب ہے۔ جب خطیب خطبہ کے لیے کھڑا ہو اس وقت سے ختم نماز تک اذکار، تلاوتِ قرآن اور ہر قسم کا کلام منع ہے ، البتہ صاحب ترتیب اپنی قضا نماز پڑ ھ لے۔ یونہی جو شخص سنت یا نفل پڑھ رہا ہے وہ جلد جلدہ پوری کر لے۔ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ پاک خطیب نے لیا تو حاضرین دل میں درود شریف پڑھیں، زبان سے پڑھنے کی اس وقت اجازت نہیں۔ اگر کسی کو بری بات کرتے دیکھیں تو ہاتھ یا سر کے اشارے سے منع کر سکتے ہیں، زبان سے ناجائز ہے۔ ہاں خطیب امر بالمعروف کر سکتا ہے۔
        • دو رکعت جمعہ کی نماز کی نیت سے5. دو رکعت جمعہ کی نماز کی نیت سے پڑھنا
          • 1. سنت ہے کہ جو خطبہ دے وہی نماز پڑھائے۔ البتہ ہمارے ہاں جو اردو میں وعظ خطبہ سے پہلے دیا جائے وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔وعظ کہنے والا کوئی اور بھی ہو سکتا ہے۔
        • مسنون قرأت
          • پہلی رکعت میں سورہ جمعہ اور دوسری رکعت میں سورہ منافقون یا پہلی میں ’’سَبِّحْ اِسْمَ رَبِّکَ الْأعْلٰی‘‘ اور دوسری میں ’’ ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ‘‘ پڑھنا مستحب ہے۔
    • 7. جنازے کی نماز
      • 1. جنازے کى نماز کے مسائل

          نماز جنازہ درحقيقت اس ميت کيلئے دعا ہے ’’اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ‘‘ سے۔

        • 1. مسئلہ: نماز جنازہ کے واجب ہونے کى وہى سب شرطيں ہيں جو اور نمازوں کيلئے ہم اوپر لکھ چکے ہيں، ہاں اس ميں ايک شرط اور زيادہ ہے وہ يہ کہ اس شخص کى موت کا علم بھى ہو ، پس جس کو يہ خبر نہ ہو گى وہ معذور ہے نماز جنازہ اس پر ضرورى نہيں۔
        • 2. مسئلہ: نماز جنازے کے صحيح ہونے کيلئے دو قسم کى شرطيں ہيں۔ ايک قسم کى وہ شرطيں ہيں جو نماز پڑہنے والوں سے تعلق رکھتى ہيں ، وہ وہى ہيں جو اور نمازوں کيلئے اوپر بيان ہو چکيں ، يعنى طہارت ، ستر عورت ، استقبال قبلہ، نيت، ہاں وقت اس کيلئے شرط نہيں ، اور اس میں نماز نہ ملنے کے خيال سے تیمم جائز ہے، مثلا نماز جنازہ ہو رہى ہو اور وضو کرنے ميں يہ خيال ہو کہ نماز ختم ہو جائے گى تو تيمم کر لے، بخلاف اور نمازوں کے کہ ان ميں اگر وقت کے چلے جانے کا خوف ہو تو تيمم جائز نہيں۔
        • 3. مسئلہ: آج کل بعضے آدمى جنازے کى نماز جوتہ پہنے ہوئے پڑہتے ہيں ، ان کے لئے يہ امر ضرورى ہے کہ وہ جگہ جس پر کھڑے ہوئے ہوں اور جوتے دونوں پاک ہوں ، اور اگر جوتہ پير سے نکال ديا جائے اور اس پر کھڑے ہوں تو صرف جوتے کا پاک ہونا ضرورى ہے۔ اکثر لوگ اسکا خيال نہيں کرتے اور ان کى نماز نہيں ہوتى۔ دوسرى قسم کى وہ شرطيں ہيں جن کا ميت سے تعلق ہے وہ چھ ہيں۔ ميت کا مسلمان ہونا ، پس کافر اور مرتد کى نماز صحيح نہيں ۔ مسلمان اگرچہ فاسق يا بدعتى ہو اسکى نماز صحيح ہے، سوا ئے ان لوگوں کے جو بادشاہ برحق سے بغاوت کريں يا ڈاکہ زنى کرتے ہوں، بشرطيکہ يہ لوگ بادشاہ وقت سے لڑائى کى حالت ميں مقتول ہوں، اگر بعد لڑائى کے اپنى موت سے مر جائیں تو پھر ان کى نماز پڑھى جائےگى ۔ اسى طرح جس شخص نے اپنے باپ یا ماں کو قتل کیا ہو اور اسکى سزا میں وہ مارا جائے تو اس کى نماز بھى پڑھى جائے گى۔ جس شخص نے اپنى جان خود کشى کر کے دى ہو اس پر نماز پڑھناصحیح یہ ہے کہ درست ہے۔
        • 4. مسئلہ: جس نابالغ لڑکے کا باپ یا ماں مسلمان ہوں وہ لڑکا مسلمان سمجھا جائےگا اور اسکى نماز پڑھى جائےگى۔
        • 5. مسئلہ: میت سے مراد وہ شخص ہے جو زندہ پیدا ہو کر مر گیا ہو۔ اگر مرا ہوا بچہ پیدا ہو تو اسکى نماز درست نہیں۔
          شرط: میت کے بدن اور کفن کا نجاست حقیقیہ اور حکمیہ سے طاہر ہونا شرط ہے۔ ہاں اگر نجاست حقیقیہ اسکے بدن سے بعد غسل خارج ہوئى اور اس سبب سے اسکا بدن بالکل نجس ہو جائے تو کچھ مضائقہ نہیں نماز درست ہے۔
        • 6. مسئلہ: اگر کوئى میت نجاست حکمیہ سے طاہر نہ ہو ، یعنى اسکو غسل نہ دیا گیا ہو یا درصورت ناممکن ہونے غسل کے تیمم نہ کرایا گیا ہو اسکى نماز جنازہ نہیں، ہاں اگر اسکا طاہر ہونا ممکن نہ ہو مثلا بے غسل یا تیمم کرائے ہوئے دفن کر چکے ہوں اور قبر پر مٹى بھى پڑ چکى ہو تو پھر اس کی نماز اس کى قبر پر اسى حالت میں پڑھنا جائز ہے۔ اگر کسى میت پر بے غسل یا تیمم کے نماز پڑھى گئى ہو اور وہ دفن کر دیا گیا ہو اور دفن کے بعد علم ہو کہ اسکو غسل نہ دیا گیا تھا تو اسکى نماز دوبارہ اسکى قبر پر پڑھى جائے ، اسلئے کہ پہلى نماز صحیح نہیں ہوئى۔ ہاں اب چونکہ غسل ممکن نہیں ہے لہذا نماز ہو جائےگى۔
        • 7. مسئلہ: اگر کوئى مسلمان بغیر نماز جنازہ پڑھے ہوئے دفن کر دیا گیا ہو تو اسکى نماز اسکى قبر پر پڑھى جائے ، جب تک اس کى نعش کے پھٹ جانے کا اندیشہ نہ ہو، جب خیال ہو کہ نعش اب پھٹ گئى ہو گى تو پھر نماز نہ پڑھى جائے اور نعش پھٹنے کى مدت ہر جگہ کے اعتبار سے مختلف ہے، اسکى تعیین نہیں ہو سکتى، یہى اصح ہے۔ اور بعض نے تین دن اور بعض نے دس دن اور بعض نے ایک ماہ مدت بیان کى ہے۔
        • 8. مسئلہ: میت جس جگہ رکھى گئى ہو اس جگہ کا پاک ہونا شرط نہیں۔ اگر پاک میت پلنگ یا تخت پر ہو اور پلنگ یا تخت ناپاک ہو یا میت کو بدون پلنگ و تخت کے ناپاک زمین پر رکھ دیا جائے تو اس صورت میں اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک طہارت مکان میت شرط ہے اسلئے نماز نہ ہو گى، اور بعض کے نزدیک شرط نہیں لہذا نماز صحیح ہو جائےگى۔ شرط : میت کے جسم اور واجب الستر کا پوشیدہ ہونا ۔ اگر میت بالکل برہنہ ہو تو نماز درست نہیں۔ شرط: میت کا نماز پڑہنے والے کے آگے ہونا۔ اگر میت نماز پڑہنے والے کے پیچھے ہو تو نماز درست نہیں۔ شرط : میت کا یا جس چیز پر میت ہو اسکا زمین پر رکھا ہوا ہونا۔ اگر میت کو لوگ اپنے ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں یا کسى گاڑى یا جانور پر ہو اور اسى حالت میں اسکى نماز پڑھى جائے تو صحیح نہ ہو گى۔ شرط: میت کا وہاں موجود ہونا۔ اگر میت وہاں موجود نہ ہو تو نماز صحیح نہ ہو گى۔
      • 2. جنازے کے متفرق مسائل
        • 1. مسئلہ: اگر ميت کو قبر میں قبلہ رو کرنا یاد نہ رہے اور بعد دفن کرنے اور مٹى ڈال دینے کے خیال آئے تو پھر قبلہ رو کرنے کے لئے اسکى قبر کھولنا جائز نہیں۔ ہاں اگر صرف تختے رکھے ہوں تو ان کو ہٹا کر قبلہ رو کر دینا چاہیے ۔
        • 2. مسئلہ: عورتوں کا جنازے کے ہمراہ جانا مکروہ تحریمى ہے۔
        • 3. مسئلہ: رونے والى عورتوں کا یا بین کرنے والیوں کا جنازے کے ساتھ جانا ممنوع ہے۔
        • 4. مسئلہ: میت کو قبر میں رکھتے وقت اذان کہنا بدعت ہے۔
        • 5. مسئلہ: اگر امام جنازے کى نماز میں چار تکبیر سے زیادہ کہے تو حنفى مقتدیوں کو چاہیے کہ ان زائد تکبیروں میں اس کی اتباع نہ کریں بلکہ سکوت کئے ہوئے کھڑے رہیں، جب امام سلام پھیرے تو خود بھى سلام پھیر دیں۔ ہاں اگر زائد تکبیریں امام سے نہ سنى جائیں بلکہ مکبر سے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ اتباع کریں اور ہر تکبیر کو تکبیر تحریمہ سمجھیں، یہ خیال کر کے کہ شاید اس سے پہلے جو چار تکبیریں مکبر نقل کر چکا ہے وہ غلط ہوں امام نے اب تکبیر تحريمہ کہى ہو۔
        • 6. مسئلہ: اگر کوئى شخص بحری جہاز وغيرہ پر مر جائے اور زمين وہاں سے اس قدر دور ہو کہ نعش کے خراب ہو جانے کا خوف ہو تو اس وقت چاہیے کہ غسل اور تکفين اور نماز سے فراغت کر کے اس کو دريا ميں ڈال ديں، اور اگر کنارہ اس قدر دور نہ ہو اور جلدى اترنے کى اميد ہو تو اس نعش کو رکھ چھوڑيں اور زمين ميں دفن کر ديں۔
        • 7. مسئلہ: اگر کسى شخص کو نماز جنازے کى وہ دعا جو منقول ہے ياد نہ ہو تو اس کو صرف " اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِلْمُوْمِنِينَ وَالمُوْمِنَاتِ" 8. مسئلہ: جب قبر ميں مٹى پڑ چکے تو اس کے بعد ميت کا قبر سے نکالنا جائز نہيں۔ ہاں اگر کسى آدمى کى حق تلفى ہوتى ہو تو نکالنا جائز ہے۔ مثال جس زمين ميں اس کو دفن کيا ہے وہ کسى دوسرے کى ملک ہو اور وہ اس کے دفن پر راضى نہ ہو یا کسى شخص کا مال قبر ميں رہ گيا ہو۔
        • 9. مسئلہ: اگر کوئی عورت مر جائے اور اس کے پيٹ ميں زندہ بچہ ہو تو اس کا پيٹ چاک کر کے وہ بچہ نکال ليا جائے۔ اسى طرح اگر کوئى شخص کسى کا مال نگل کر مر جائے اور مال والا مانگے تو وہ مال اس کا پيٹ چاک کر کے نکال ليا جائے، ليکن اگر مردہ مال چھوڑ کر مرا ہے تو اسکے ترکہ ميں سے وہ مال ادا کر ديا جائے اور پيٹ چاک نہ کيا جائے۔
        • 10. مسئلہ: قبل دفن کے نعش کا ايک مقام سے دوسرے مقام ميں دفن کرنے کے لئے ليجانا خلاف اولى ہے، جبکہ وہ دوسرا مقام ايک دو ميل سے زيادہ نہ ہو۔ اور اگر اس سے زيادہ ہو تو جائز نہيں اور بعد دفن کے نعش کھود کر لے جانا تو ہر حالت ميں نا جائز ہے۔
        • 11. مسئلہ: ميت کى تعريف کرنا خواہ نظم ميں ہو يا نثر ميں جائز ہے، بشرطيکہ تعريف ميں کسى قسم کا مبالغہ نہ ہو ، وہ تعريفيں بيان نہ کى جائيں جو اس ميں نہ ہوں۔
        • 12. مسئلہ: ميت کے اعزہ کو تسکين و تسلى دينا اور صبر کے فضائل اور اس کا ثواب سنا کر ان کو صبر پر رغبت دلانا اور ان کے اورميت کے لئے دعا کرنا جائز ہے، اسى کو تعزيت کہتے ہيں۔ تين دن کے بعد تعزيت کرنا مکروہ تنزيہى ہے، ليکن اگر تعزيت کرنيوالا يا ميت کے اعزہ سفر ميں ہوں اور تين دن کے بعد آئيں تو اس صورت ميں تين دن کے بعد بھى تعزيت مکروہ نہيں۔ جو شخص ايک مرتبہ تعزيت کر چکا ہو اسکو پھر دوبارہ تعزيت کرنا مکروہ ہے۔
        • 13. مسئلہ: اپنے لئے کفن تيار رکھنا مکروہ نہيں قبر کا تيار رکھنا مکروہ ہے۔
        • 14. مسئلہ: ميت کے کفن پر بغیر روشنائى کے ویسے ہى انگلى کى حرکت سے کوئى دعا مثل عہد نامہ وغیرہ کے لکھنا یا اسکے سینے پر ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ‘‘ اور پیشانى پر کلمہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلِ اللّٰہِ‘‘ لکھنا جائز ہے، مگر کسى صحیح حدیث سے اس کا ثبوت نہيں ہے اسلئے اسکے مسنون يا مستحب ہونے کا خيال نہ رکھنا چاہيے۔
        • 15۔ مسئلہ: قبر پر کوئى سبز شاخ رکھ دينا مستحب ہے اور اگر اس کے قريب کوئى درخت وغيرہ نکل آيا ہو تو اسکا کاٹ ڈالنا مکروہ ہے۔
        • 16. مسئلہ: ايک قبر ميں ايک سے زيادہ نعش نہ دفن کرنا چاہیے ، مگر بوقت ضرورتِ شديدہ جائز ہے، پھر اگر سب مرد ے مرد ہى ہوں تو جو ان سب ميں افضل ہو اسکو آگے رکھيں باقى سب کو اسکے پيچھے درجہ بدرجہ رکھديں۔ اور اگر کچھ مرد ہوں اور کچھ عورتيں تو مردوں کو آگے رکھيں اور ان کے پيچھے عورتوں کو۔
        • 17. مسئلہ: قبروں کى زيارت کرنا يعنى انکو جا کر ديکھنا مردوں کے لئے مستحب ہے، بہتر يہ ہے کہ ہر ہفتے ميں کم سے کم ايک مرتبہ زيارت قبور کى جائے اور بہتر يہ ہے کہ وہ دن جمعہ کا ہو۔ بزرگوں کى قبروں کى زيارت کے لئے سفر کر کے جانا بھى جائز ہے جبکہ کوئى عقيدہ اور عمل خلاف شرع نہ ہو، جيسا آج کل عرسوں ميں مفاسد ہوتے ہيں۔
    • مسافر کی نماز کا بیا ن
      • سفر شرعی کی تعریف
        • 1. شریعت میں مسافر اس کو کہتے ہیں جو تین منزل تک جانے کا ارادہ کر کے گھر سے نکلے۔ اس بارے میں عوام کی آسانی کے لئے ہمارے فقہائے کرام نے اڑتالیس میل انگریزی کی مسافت متعین کر دی ہے، اور اکثر علمائے کرام کا اِسی پر فتویٰ ہے۔
          سمندری سفر اور پہاڑی راستوں میں وہاں کی رفتار کے مطابق کم و بیش مسافت مقرر کرنی پڑے گی۔
          اس مسافت کا اعتبار اس راستے سے ہو گا جس سے وہ جا رہا ہے، پس اگر کسی جگہ کے لئے دو راستے ہیں ایک راستہ تین منزل کا ہے اور دوسرا راستہ تین منزل سے کم ، تو اگر وہ بعید کے راستہ سے جائے گا تو مسافر ہو گا اور تین منزل سے کم والے راستہ سے جائے گا تو مسافر نہیں ہو گا۔
          اگر کوئی جگہ عام عادت کے مطابق پیدل آدمی کے لئے تین منزل ہے اور کوئی شخص اس کو ریل گاڑی یا موٹر یا گھوڑا گاڑی وغیر ہ پر جلدی طے کر لیتا ہے تب بھی وہ مسافر ہے، خواہ کتنی ہی جلدی طے کر لیتا ہو ، وہ مسافر ہی ہے خواہ کتنی جلدی پہنچ جائے۔
      • احکام سفر

          وہ احکام جو سفر سے بدل جاتے ہیں یہ ہیں

        • نماز قصر ہونا

            اس بیان میں نماز قصر ہونے کی تفیصل بیا ن کی جاتی ہے

          • 1. نماز قصر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شرعی مسافر پر چار رکعتوں والی فرض نماز یعنی ظہر ، عصر و عشاء دو رکعتیں فرض ہیں ، اور فجر و مغرب اور وتر کی نماز میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔
          • مسافر کو قصر کرنا واجب ہے اور پوری رکعتیں پڑھنا گناہ ہے
          • 3. اگر مسافر نے قصر نماز میں چار رکعتیں پڑھ لیں اور دوسری رکعت پر بقدر تشہد قعدہ کیا تو اخیرمیں سجدہ سہو کر لینے سے نماز جائز ہو جائے گی، اس کی پہلی دو رکعتیں فرض اور آخری دو رکعتیں نفل ہو جائیں گی، لیکن قصداً ایسا کرنے سے گناہگار ہو گا ، یعنی وہ مکروہ تحریمی کا مرتکب ہو گا، اگر بھولے سے ایسا ہو گیا تو گناہ نہیں۔ اور اگر دوسری رکعت پر بقدر تشہد قعدہ نہ کیا تو اس کی فرض نماز باطل ہو گئی، اس لئے نئے سرے سے پڑھے، اور یہ نماز نفل ہو جائے گی۔ سنتوں میں قصر نہیں ہے، پس جہاں چار سنتیں پڑھی جاتی ہیں مسافر بھی چار ہی پڑھے، اور مختار یہ ہے کہ سفر میں خوف اور جلدی کی حالت ہو تو سنتیں نہ پڑھے ، اگر امن و بے خوفی ہو مثلاً منزل پر ٹھہرا ہوا ہو تو پڑھ لے، فجر کی سنتیں خاص طور پر پڑھے ۔ بعض کے نزدیک مغرب کے بعد کی دو رکعت سنتِ مؤکدہ کا بھی یہی حکم ہے۔
          • 4. جب سفر شرعی کی نیت کر کے اپنے شہر یا بستی کی آبادی سے باہر نکل جائے اس وقت سے نماز قصر کرنے لگے، شہر سے متصل شہر کی ضروریات مثلاً قبرستان و گھوڑ دوڑ کا میدان، مٹی کوڑا ڈالنے کی جگہ وغیرہ بھی آبادی کے حکم میں ہیں، ان سے بھی باہر نکل کر قصر کرنے لگے، جس طرف سے شہر سے نکلتا ہے اسی طرف کی آبادی سے باہر نکلنے کا اعتبار ہے۔
          • 5. اس طرح جب اپنے شہر کو واپس آئے تو جب تک آبادی کے اندر داخل نہ ہو جائے تب تک وہ مسافر ہے اور قصر نماز پڑھے گا اور جب اس آبادی میں داخل ہو جائے گا جس سے باہر نکلنے پر قصر شروع ہوتی ہے مقیم ہو جائے گا اور اس پر پوری نماز پڑھنا لازم ہو جائے گی۔
          • 6. مسافر کی جب تک تین منزل پوری نہ ہو جائے تو صرف نیت سے مقیم ہو جاتا ہے، پس اگر تین منزل کا ارادہ کر کے چلا پھر کچھ دور جا کر ارادہ بدل گیا اور واپس ہو گیا تو جب سے لوٹنے کا ارادہ ہوا تب ہی سے مسافر نہیں رہا اگرچہ وہ جنگل میں ہو ۔ اور اگر تین منزل طے کرنے کے بعد واپسی کی نیت کرے تو اب اپنے شہر میں داخل ہونے سے پہلے تک نماز قصر کرتا رہے۔
        • روزہ نہ رکھنے کی اجازت
        • مسح موزوں کی مدت کا تین دن رات ہو جانا
        • مسافر پر جمعہ و عیدین و قربانی واجب نہ ہونا
        • آزاد عورت کو محرم کے بغیر سفر پر جانا حرام ہونا
      • نیتِ اقامت کے مسائل
        • 1. جب تک سفر کرتا رہے اور جب تک تین منزل طے کرنے کے بعد کسی شہر یا قصبہ یا گاؤں (آبادی) میں ایک ساتھ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرے تب تک برابر سفر کا حکم رہے گا ، اور نماز قصر کرتا رہے گا۔ اور جب کسی آبادی میں پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت کر لے گا تو نیت کرتے ہی پوری نماز پڑھنی لازم ہو گی۔ اور اگر تین منزل چلنے سے پہلے واپسی کا ارادہ کیا یا اقامت کی نیت کی تو مقیم ہو جائے گا اگرچہ جنگل میں ہی ہو، اور نیت کرتے ہی اس کو پوری نماز پڑھنی ہو گی۔
        • مسافر کے مقیم ہونے اور پوری نماز پڑھنے کے لئے چھ شرطیں ہیں
          • 1. اقامت کی نیت کرنا۔
          • 2. ایک ہی جگہ پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرنا۔
          • 3. اپنا ارادہ مستقل رکھتا ہو یعنی کسی کا تابع نہ ہو۔
          • 4. چلنا موقوف کرنا۔
          • 5. وہ جگہ اقامت کے لائق ہو یعنی بستی ہو، جنگل یا دریا وغیرہ نہ ہو۔
          • 6. ایک ہی جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے۔
        • 3. کشتی و جہاز میں اقامت کی نیت معتبر نہیں جب تک کہ اس کے کھڑے ہونے کی جگہ آبادی سے متصل نہ ہو، جہاز اور کشتی کے ملازمین ملاح وغیرہ مسافر ہی ہیں خواہ ان کے اہل و عیال اور مال و متاع ہمراہ ہو، اگر کشتی یا جہاز کی بندرگاہ آبادی کے ساتھ متصل ہو اور کشتی یا جہاز بندرگاہ سے روانہ نہ ہوئی ہو تو اس میں سوار مسافر ابھی تک اپنے اصلی وطن میں ہونے کی وجہ سے مقیم ہوں گے اور پوری نماز پڑھیں گے ، اسی طرح اگر کشتی یا جہاز سفر کے دوران کسی شہر یا بستی سے متصل کنارے پر لنگر انداز ہو جائیں اور پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو اقامت کی نیت کرنے سے وہ لوگ مقیم ہو جائیں گے اور پوری نماز پڑھیں گے۔
          اگر ایک ساتھ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرے تو نمازِ قصر پڑھے خواہ اس حالت میں پندرہ دن سے زیادہ گزر جائیں، مثلاً یہ نیت ہے کہ دو چار دن میں کام ہو جائے گا تو چلا جائے گا لیکن کام پورا نہ ہوا ، اور پھر دو چار دن میں کام ہو جائے گا لیکن کام پورا نہ ہوا پھر دو چار دن کی نیت کر لی، پھر بھی کام پورا نہ ہوا اور ارادہ بدلتا رہا اس طرح خواہ پندرہ دن یا اس سے بھی زیادہ کتنے ہی دن گزر جائیں خواہ برسوں اسی ارادہ پر رہے اس کو نماز قصر ہی پڑھنا چاہیے، نیتِ اقامت کے لئے شرط ہے کہ ایک ہی جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، پس اگر کوئی شخص دو مستقل جدا جدا مقامات میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو وہ مقیم نہیں ہو گا بلکہ مسافر ہی رہے گا اور نماز قصر پڑھے گا ، اور اگر ایک مقام دوسرے مقام کے تابع ہو تو دونوں مقامات میں مجموعی طور پر پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت سے مقیم ہو جائے گا۔
          اگر دو جدا جدا بستیوں میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت اس طرح کرے کہ دن میں ایک بستی میں رہوں گا اور رات کو دوسری بستی میں تو یہ نیت اقامت درست ہے، پس جہاں رات کو رہنے کا قصد ہے وہاں کے حساب سے پندرہ دن کی نیت سے مقیم ہو جائے گا اور دونوں جگہ پوری نماز پڑھے گا ۔ اگر حج کو جانے والے لوگ ایسے دن مکہ معظمہ میں داخل ہوں کہ منیٰ میں جانے تک ان کو مکہ معظمہ میں پندرہ دن یا زیادہ مل جائیں تو وہ مکہ میں مقیم ہو جائیں گے اور پوری نماز پڑھیں گے، اور اگر ایسے وقت پہنچِے کہ پندرہ دن پورے ہونے سے پہلے ہی منیٰ کو جانا پڑے گا تو اب وہ نیتِ اقامت سے مقیم نہیں ہوں گے، ان کی نیتِ اقامت معتبر نہیں ہے۔
      • تابع و متبوع کی نیت کے مسائل
        • 1. جو شخص کسی کے تابع ہو وہ اُسی کی نیتِ اقامت سے مقیم ہو گا اور اسی کی نیت سفر سے اور سفر پر روانہ ہونے سے مسافر ہو گا۔
        • 2. عورت اپنے شوہر کے ساتھ، غلام اپنے مالک کے ساتھ ، شاگرد اپنے استاد کے ساتھ، نوکر اپنے آقا کے ساتھ، سپاہی اپنے امیر کے ساتھ سفر کرے تو وہ اپنی نیت سے مقیم نہیں ہو گا بلکہ یہ اپنے متبوع کی نیت سے مقیم ہوں گے ، لیکن عورت اپنے شوہر کے تابع اس وقت ہوتی ہے جب وہ اس کا مہر معجل ادا کر دے، اگر ادا نہ کرے تو وہ اپنے شوہر کی تابع نہیں ہو گی اور مہر معجل والی عورت ہر حال میں اپنی خاوند کے تابع ہے۔
        • 3. نابالغ بیٹا اگر باپ کی خدمت کرتا جاتا ہو تو وہ باپ کے تابع ہے۔
        • 4. قیدی کی اپنی نیت معتبر نہیں بلکہ وہ قید کرنے والے کے تابع ہے، جو شخص قرض کے بدلے قرض خواہوں کی قید میں ہو وہ قرض خواہ کے تابع ہے۔
        • 5. تابع کو اپنے متبوع کی نیت کا جاننا ضروری ہے، اس لئے ہر تابع کو اپنے متبوع سے پوچھ لینا چاہیے اور اس کے کہنے کے مطابق عمل کرنا چاہیے، اگر وہ کچھ نہ بتائے تو اس کے عمل سے معلوم کر لیں۔
      • نماز کے اندر نیت بدلنے کے مسائل
        • 1. اگر مسافر وقتی نماز پڑھنے کی حالت میں اقامت کی نیت کر لے خواہ اول میں یا درمیان میں یا اخیر میں تو وہ پوری نماز پڑھے، مثلاً اگر کسی مسافر نے ظہر کی نماز شروع کی اور ایک رکعت پڑھنے کے بعد اقامت کی نیت کر لی تو وہ چار رکعت پوری کرے ، لیکن اگر وقت گزر جانے کے بعد یا مسافر لاحق نے مسافر امام کے فارغ ہونے کے بعد لاحق ہونے کی حالت میں اقامت کی نیت کی تو اس نیت کا اثر اس نماز میں ظاہر نہ ہو گا، مثلاً کسی مسافر نے ایسے وقت ظہر کی نماز شروع کی کہ ایک رکعت پڑھنے کے بعد ظہر کا وقت ختم ہو گیا اس کے بعد اس نے اقامت کی نیت کی تو یہ نیت اس نماز میں اثر نہ کرے گی، اس لئے اس کو یہ نماز قصر پڑھنی ہو گی، لیکن اگر ایک رکعت پڑھنے کے بعد وقت کے اندر اقامت کی نیت کر لی اور نیت کر لینے کے بعد ظہر کا وقت نکل گیا تو اس کو پوری نماز یعنی چار رکعت پڑھنی ہو گی، اسی طرح اگر کوئی مسافر ظہر کی نماز میں کسی مسافر کا مقتدی ہوا اور پھر لاحق ہو گیا اور اپنی لاحقانہ نماز ادا کرنے لگا اور مسافر امام کے فارغ ہونے کے بعد اس لاحق مقتدی نے اقامت کی نیت کر لی تو اس نیت کا اثر اس کی نماز پر نہیں پڑے گا، اس کو نماز قصر ہی پڑھنی ہو گی، اور اگر امام کے فارغ ہونے سے پہلے اقامت کی نیت کرلی تو پوری نماز یعنی چار رکعتیں پڑھے۔
          اگر کسی نماز کے اول وقت میں کوئی شخص مسافر تھا وہ نماز اس نے قصر پڑھ لی پھر اُسی وقت میں اقامت کی نیت کر لی یا اپنے وطن واپس آ گیا تو اس کا اثر اس نماز میں ظاہر نہیں ہوا اور وہ قصر پڑھی ہوئی نماز کافی ہو گی ، اور اگر ابھی نماز نہیں پڑھی کہ وقت کے اندر اقامت کی نیت کر لی یا اپنے وطن واپس آ گیا تو اب پوری نماز پڑھے گا ، اس طرح اگر کسی مقیم نے وقتی نماز نہیں پڑھی تھی کہ اس وقت میں وہ مسافر ہو گیا تو اب قصر نماز پڑھے گا اور اگر پوری نماز پڑھنے کے بعد اس وقت میں سفر ہو گیا تو وہی پڑھی ہوئی نماز کافی ہے۔ غرض کہ وقتی فرض ادا کر چکنے کے بعد نیت و حالت بدلنے سے اس وقتی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ اس کا اثر اگلے وقتوں پر پڑے گا۔
          اگر وقتی نماز نہیں پڑھی اور اس کا وقت نکل گیا اور اس کے بعد مسافر نے اقامت کی نیت کی تو وہ قصر نماز قضا پڑھے گا، اور اگر مقیم نے وقتی نماز نہیں پڑھی اور وقت نکل جانے کے بعد سفر شروع کر دیا تو وہ پوری قضا کرے گا ، خلاصہ یہ ہے کہ اگر سفر میں قصر نماز قضا ہو گئی تو اس کو قصر ہی پڑھے خواہ سفر کی حالت میں قضا کرے یا اقامت کی حالت میں، اور اگر اقامت کی حالت میں کوئی نماز قضا ہوئی ہو تو اس کو پوری یعنی چار رکعتیں ہی قضا کرے خواہ سفر میں قضا کرے یا حالت اقامت میں۔
      • مسافر و مقیم کی امامت و اقتدا کے مسائل
        • 1. مسافر کی اقتدا مقیم کے پیچھے وقت کے اندر درست ہے اور مقیم کی اقتدا کی وجہ سے مقتدی مسافر پر بھی چاروں رکعتیں فرض ہو جاتی ہیں۔
          مقیم کی اقتدا مسافر کے پیچھے ادا و قضا دونوں صورتوں میں درست ہے جبکہ دونوں ایک ہی نماز قضا کریں، پس اگر مسافر امام ہے اور مقتدی مقیم ہے تو جب مسافر امام اپنی دو رکعتیں پوری کر کے سلام پھیر دے تو جو مقتدی ہو وہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے بلکہ اپنی نماز پوری کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں اور انفرادی طور پر اپنی اپنی دو رکعتیں پوری کر کے قعدہ کریں اور سلام پھیر دیں، لیکن یہ ان دو رکعتوں میں فاتحہ و سورة نہ پڑھیں کیونکہ وہ لاحق کی مثل ہیں، پس وہ سورة الحمد کی مقدار اندازاً چپ کھڑے ہونے کے بعد رکوع و سجود کریں ، ہر شخص اپنے اپنے اندازے کے مطابق قیام کرے، اگر ان دو رکعتوں میں کوئی سہو ہو جائے تو سجدہِ سہو بھی نہ کرے۔
          مسافر امام کے لئے یہ مستحب ہے کہ دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد فوراً اپنے مقتدیوں کو کہہ دے" میں مسافر ہوں آپ اپنی نماز پوری کر لیں" زیادہ بہتر یہ ہے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے کہہ دیں ورنہ سلام پھیرنے کے بعد فوراً کہہ دیں ، اگر شروع میں کہہ دیا ہے تب بھی بعد میں کہہ دینا بہتر ہے تاکہ بعد میں شامل ہونے والوں کو بھی معلوم ہو جائے۔
      • وطنِ اصلی و وطنِ اقامت کی تشریح
        • وطن دو قسم کا ہوتا ہے
          اول وطن اصلی اور وہ اس کے پیدا ہونے کی جگہ ہے جبکہ وہ وہاں رہتا ہو یا وہ جگہ جہاں اس کے اہل و عیال رہتے ہوں اور اس نے اس کو گھر بنا لیا ہو۔
          دوم وطنِ اصلی وطنِ اصلی سے باطل ہو جاتا ہے خواہ اس کے درمیان مسافتِ سفر ہو یا نہ ہو، پس اگر کسی شخص نے اپنا شہر بالکل چھوڑ دیا اور کسی دوسری جگہ اپنا گھر بنا لیا اور اپنے بیوی بچوں سمیت وہاں رہنے لگا، پہلے شہر اور پہلے گھر سے کچھ مطلب نہیں رکھا تو اب یہ دوسرا شہر اس کا وطنِ اصلی بن گیا اور پہلا شہر اس کے لئے پردیس ہو گیا۔
          جب یہ اپنے وطنِ اصلی میں آ جائے تو پوری نماز پڑھے گا اگرچہ ایک ہی نماز کے وقت کے لئے آیا ہو، اور خواہ اپنے اختیار سے آیا ہو یا اثنائے سفر میں کسی ضرورت کے لئے یا وہاں سے گزرنے کی نیت سے اس میں داخل ہوا ہو، اور خواہ اقامت کی نیت کرے یا نہ کرے ہر حال میں پوری نماز پڑھے ۔ ایک وطنِ اقامت دوسرے وطنِ اقامت سے باطل ہو جاتا ہے، نیز شرعی سفر کرنے یا وطنِ اصلی میں پہنچ جانے سے بھی باطل ہو جاتا ہے، پس اگر ایک وطنِ اقامت کو ترک کر کے دوسری جگہ وطن اقامت بنا لیا یعنی دوسری جگہ پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت کر لی تو پہلا وطنِ اقامت ختم ہو گیا خواہ ان دونوں جگہوں کے درمیان مسافت سفر ہو یا نہ ہو، اسی طرح اگر وطنِ اقامت سے سفر شرعی یعنی تین منزل پر روانہ ہو جائے تو وطن اقامت باطل ہو جائے گا، اور دوبارہ اس جگہ پر آنے پر قصر نماز ادا کرے گا، اور اگر وطنِ اقامت سے سفر شرعی سے کم مقدار پر روانہ ہو گا تو وطنِ اقامت باطل نہیں ہو گا اور دوبارہ یہاں آنے پر پوری نماز پڑھے گا، اسی طرح اگر اپنے وطنِ اصلی میں داخل ہو گیا تب بھی وطنِ اقامت باطل ہو جائے گا اور دوبارہ یہاں آنے پر قصر کرے گا، لیکن اگر ان صورتوں میں دوبارہ اس مقام پر آ کر پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت کر لے گا تو اب دوبارہ وطنِ اقامت ہو جائے گا۔
      • متفرق مسائل
        • 1. جمعہ کے روز زوال سے پہلے سفر کے واسطے گھر سے نکلنا مکروہ نہیں، اگرچہ ایسی جگہ جائے جہاں جمعہ فرض نہ ہو۔
        • 2. جمعہ کے روز زوال کے بعد جمعہ ادا کرنے سے پہلے نکلنا مکروہِ تحریمی ہے ، کیونکہ اس کو نماز جمعہ میں حاضر ہونا واجب ہے پس جمعہ ادا کر کے سفر کرے۔
        • 3. عورت شرعی سفر یعنی تین منزل یا اس سے زیادہ سفر بالغ محرم یعنی شوہر، بھائی، باپ وغیرہ کے بغیر نہ کرے۔ اور محرم کے لئے بھی یہی شرط ہے کہ وہ فاسق ، بیباک اور غیر مامون نہ ہو، پس جس کو اللّٰہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ڈر نہ ہو اور شریعت کی پابندی نہ کرتا ہو ایسے محرم کے ساتھ بھی سفر کرنا درست نہیں ہے، ایک یا دو دن کا سفر بھی بغیر محرم کے کرنا بہتر نہیں ہے، لیکن اگر قافلے کے ساتھ ہو تو تین دن سے کم کی راہ بغیر محرم کے جانا جائز ہے۔
        • 4. اگر مسافر کو چوروں، ڈاکوؤں یا کسی دشمن یا بلا کا خوف ہو یا قافلہ نماز پڑھنے کی مقدار نہ ٹھرے تو نماز کو موخر یا قضا کر سکتا ہے جبکہ نماز پڑھنے پر کسی طرح قادر نہ ہو ، مثلاً سواری پر نہیں ہے، پس قدرت ہوتے ہوئے قضا کر دینے سے گناہگار ہو گا اور اگر قادر نہ ہو تو گناہگار نہیں ہو گا۔
      • سواری پر اور کشتی میں نماز پڑھنے کے مسائل
        • 1. شہر یا بستی سے باہر گھوڑے وغیرہ جانور پر سوار ہو کر نفل نماز پڑھنا جائز ہے، خواہ کوئی عذر ہو یا نہ ہو، اور جدھر کو جانور جاتا ہو اُدھر ہی کو نماز پڑھے کیونکہ سواری پر نماز میں قبلے کی طرف منہ کرنا شرط نہیں ہے، لیکن اگر شروع کرتے وقت ممکن ہو تو استقبالِ قبلہ مستحب ہے ، جانور کے رخ کے خلاف سمت کو نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
        • 2. شہر (آبادی) کے اندر جانور پر سوار ہو کر نفل نماز پڑھنا امام ابو حنیفہ کے نزدیک جائز نہیں، امام ابو یوسف کے نزدیک بلا کراہت جائز ہے اور امام محمد کر نزدیک کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
        • 3. شہر سے باہر نکلنے کے بعد مسافر اور غیر مسافر اس حکم میں برابر ہیں، اس لئے اگر کوئی شخص اپنے کھیتوں وغیرہ کی طرف یا گرد و نواخ میں جاتا ہو اور سفر شرعی نہ ہو تب بھی سواری پر نفل نماز پڑھنا جائز ہے۔
        • 4. سنتُ مؤکدہ و غیر مؤکدہ سب نفل کے حکم میں ہیں لیکن سنتِ فجر امام ابو حنیفہ کے نزدیک بلا عذر سواری پر پڑھنا جائز نہیں۔
        • 5. سواری پر نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اشاروں سے نماز پڑھے، یعنی جس طرح سواری پر بیٹھا ہو نیت باندھ کر قرآت وغیرہ بدستور پڑھ کر رکوع و سجدہ اشارہ سے کرے اور سجدے کا اشارہ رکوع سے زیادہ جھکا ہوا ہو اور بدستور قعدے میں تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرے، سجدہ میں کسی چیز پر اپنا سر نہ رکھے خواہ جانور چلتا ہو یا کھڑا ہو اس لئے کہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔
        • 6. شہر سے باہر سواری پر نماز پڑھنے میں اگر جانور اپنے آپ چلتا ہو تو ہانکنا جائز نہیں اور اگر اپنے آپ نہ چلتا ہو تو عملِ قلیل سے ہانکنے میں نماز فاسد نہیں ہو گی، اور عمل کثیر سے ہانکنے میں نماز فاسد ہو جائے گی۔
        • 7. اگر نفل نماز زمین پر شروع کی پھر جانور پر سوار ہو کر اس کو پورا کیا تو جائز نہیں ، اور اگر سواری پر شروع کی اور زمین پر اتر کر پورا کیا تو جائز ہے، اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ عملِ قلیل سے اُترا ہو مثلاً پاؤں ایک طرف کو لٹکا کر پھسل جائے۔
        • 8. اگر سواری کے جانور پر نجاست ہو تو وہ مانع نماز نہیں، خواہ قلیل ہو یا کثیر لیکن نمازی کے بدن یا لباس پر ناپاکی ہو گی تو نماز جائز نہ ہو گی۔
        • 9. ہر شخص کو اپنی اپنی سواری پر اکیلے اکیلے نماز پڑھنی چاہیے ، اگر وہ جماعت سے پڑھیں گے تو امام کی نماز جائز ہو گی جماعت کی جائز نہ ہو گی اور اگر مقتدی سب ایک ہی جانور پر سوار ہوں تو سب کی نماز جائز ہو جائے گی۔
        • 10. جانور پر محمل (عمّاری) میں اور گاڑی میں نفل نماز پڑھنے کا وہی حکم ہے جو جانور پر پڑھنے کا بیان ہوا۔
        • 11. پیدل چلنے کی حالت میں بالاجماع نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
        • فرض نماز سواری پر پڑھنے کے مسائل
          • 1. جانور پر سواری کی حالت میں فرض نماز پڑھنا بلا عذر جائز نہیں اور عذر کے ساتھ جائز ہے۔ نماز جنازہ، نماز وتر، نذر اور وہ نفل و سنت نماز جس کو شروع کر کے توڑ دینے کی وجہ سے قضا کرنا واجب ہے اور سوار نہ ہونے کی حالت میں پڑھی ہوئی آیت سجدہ ،ان کا حکم بھی فرض نماز کی طرح ہے۔
          • 2. وہ عذرات جن سے فرض نماز سواری پر پڑھنا جائز ہے یہ ہیں، جانور سے اترنے میں اپنی جان و مال و اسباب یا جانور کے حق میں چور، ڈاکو، درندہ یا دشمن کا خوف ہو ، یا ساتھیوں کے چلے جانے کا خوف ہو ، یا جانور شریر ہو کہ اترنے کے بعد اس پر نہ چڑھ سکے گا ، یا بیماری یا ضعیفی کی وجہ سے دوبارہ نہ چڑھ سکے گا اور کوئی دوسرا آدمی چڑھانے والا بھی موجود نہ ہو ، یا عورت ہو جو بغیر مدد کے اتر چڑھ نہ سکتی ہو اور محرم موجود نہ ہو، یا عورت کو کسی فاسق سے خوف ہو، یا تمام زمین میں کیچڑ ہو کہیں خشک جگہ نماز کے لئے نہ ہو۔ عذر کی حالت میں سواری پر پڑھی ہوئی فرض و واجب نماز کا عذر دور ہونے کے بعد اعادہ لازم نہیں۔
          • 3. اگر سواری کو ٹھہرا کر قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا ممکن ہو تو فرض و واجب نماز کے لئے سواری کو ٹھہرانا اور قبلے کی طرف منہ کرنا لازمی ہے، ورنہ نماز جائز نہیں ہو گی ۔ اور اگر ٹھہرانا ممکن ہے لیکن استقبال قبلہ ممکن نہیں تو ٹھہرانا لازمی ہے اور استقبال قبلہ معاف ہے ، اور اگر ٹھہرانا ممکن نہ ہو لیکن استقبال قبلہ ممکن ہو تو استقبال قبلہ لازمی ہے اور ٹھہرانا معاف ہے۔
          • 4. فرض و واجب نمازوں کے سواری پر ادا کرنے کے باقی مسائل وہی ہیں جو نوافل کے سواری پر ادا کرنے کے بیان ہوئے ۔ اگر محمل یا گاڑی (بہلی یکہ وغیرہ) کا ایک سرا (جوا) جانور کے اوپر رکھا ہو تو خواہ وہ گاڑی چلتی ہو یا ٹھہری ہوئی ہو اس میں نماز پڑھنے کا حکم وہی ہے جو جانور پر نماز پڑھنے کا ہے، یعنی فرض و واجب بلا عذر جائز نہیں اور سنت و نفل بلا عذر جائز ہیں ، اور اگر گاڑی کا جوا جانور پر نہ ہو تو وہ زمین یا تخت کے حکم میں ہے، پس اس میں نماز فرض بلا عذر بھی جائز ہے مگر قیام پر قدرت ہوتے ہوئے کھڑے ہو کر پڑھے اور اگر قیام پر قدرت نہ ہو اور اترنا بھی ممکن نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھے۔
        • کشتی و جہاز میں نماز پڑھنے کے مسائل
          • 1. اگر کشتی یا جہاز پانی پر چل رہا ہو تو فرض و واجب نماز عذر کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنا بالاتفاق جائز ہے، اور صاحبین کے نزدیک بلا عذر جائز نہیں، یہی مختار و معتبر ہے۔ عذرات یہ ہیں، سر چکرانا، گر پڑنا اور قدم نہ جمنا، کشتی سے باہر نکلنے پر قادر نہ ہونا۔
          • 2. اگر کشتی پانی پر چل نہ رہی ہو بلکہ کنارے پر بندھی ہوئی ہو تو اس میں قیام پر قادر ہوتے ہوئے بیٹھ کر نماز پڑھنا بالاجماع جائز نہیں، کیونکہ یہ زمین کی مثل ہے ، لیکن جس عذر کی وجہ سے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے اسی عذر سے کشتی و جہاز میں بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے۔
          • 3. کشتی و جہاز میں نماز شروع کرتے وقت قبلے کی طرف منہ کرنا لازمی ہے، خواہ وہ نماز فرض و واجب ہو یا سنت و نفل ہو اور جب کشتی گھومے تو نماز پڑھنے والا بھی اپنا منہ قبلے کی طرف پھیر لے اور ہر دفعہ کشتی کے گھومنے کے ساتھ قبلے کی طرف گھومتا جائے یہاں تک کہ تمام نماز قبلے کی طرف پوری کر لے، اگر قدرت کے باوجود قبلے کی طرف نہیں گھومے گا تو اس کی نماز بالاتفاق جائز نہ ہو گی۔
          • 4. کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں رکوع و سجود پر قادر ہوتے ہوئے اشاروں سے نماز پڑھنا بالاجماع جائز نہیں، اور اگر رکوع و سجود پر قادر نہ ہو تو اشارہ سے نماز پڑھنا جائز ہے۔
          • 5. ایک کشتی میں جماعت سے نماز پڑھنے کے وہی مسائل ہیں جو زمین پر جماعت کرنے کے ہیں، ایک کشتی میں سوار آدمی کی اقتدا دوسری کشتی میں سوار آدمی کے پیچھے جائز نہیں ، یعنی امام کی نماز ہو جائے گی مقتدی کی جائز نہیں ہو گی، لیکن دونوں کشتیاں ملی ہوئی ہوں خواہ بندھی ہوں یا ویسے ہی قریب قریب ہوں تو اقتدا جائز ہے۔
        • ریل گاڑی میں نماز پڑھنے کے مسائل
          • 1. ریل گاڑی میں نماز پڑھنا جائز ہے خواہ وہ نماز فرض و واجب ہو یا سنت و نفل ہو اور خواہ کوئی عذر ہو یا نہ ہو اور خواہ وہ ریل گاڑی چل رہی ہو یا ٹھہری ہوئی ہو، اس لئے کہ ریل گاڑی زمین پر رکھے ہوئے تخت کی مانند ہے اور جانور پر رکھی ہوئی گاڑی کی مانند بھی مان لیا جائے تب بھی عذر کی وجہ سے اترنے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ چلتی ریل میں سے اترنا ممکن نہیں اور کھڑی ریل میں سے اترے گا تو اس کے چل دینے یا مال و اسباب کے جاتے رہنے کا اندیشہ ہے۔ اور اگر یہ امید ہو کہ نماز کا وقت باقی رہنے تک اترنے کا موقع مل جائے گا تب بھی ریل گاڑی میں نماز پڑھنا جائز ہے، کیونکہ نماز شروع کرتے وقت عذر کا ہونا معتبر ہے اگرچہ آخر وقت میں اس عذر کےدور ہو جانے کی امید ہو ، لیکن آخر وقت تک کا انتظار کرنا مستحب ہے۔ ریل گاڑی میں نماز پڑھنے والے کے لئے استقبالِ قبلہ پر قادر ہوتے ہوئی قبلے کی طرف منہ کرنا ضروری ہے اور اگر ریل گاڑی گھومے تو نمازی بھی گھوم کر قبلے کی طرف منہ کر لے، اسی طرح قیام پر قدرت ہوتے ہوئے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ضروری ہے ورنہ نماز نہ ہو گی ، اور قیام پر قادر نہ ہو تو اخیر وقت تک انتظار کرے پھر بھی قادر نہ ہو تو جس طرف کو ہو سکے نماز پڑھ لے، اگر ریل گاڑی اسقدر ہلتی ہو کہ چکر کھانے یا گر جانے کاخوف ہو تو یہ عذر ہے اس کو بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے، اگر یہ ممکن ہے کہ ریل گاڑی کے ڈبہ کے فرش پر ایک تختہ پر کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور دوسرے تختہ پر سجدہ کرے تو اسی طرح کھڑے ہو کر پڑھنا ضروری ہے، اگرچہ اس صورت میں گھٹنے زمین پر نہیں لگتے ، پس ایسی صورت پر قدرت ہوتے ہوئے بیٹھ کر نماز پڑھے گا تو نماز نہ ہو گی، اس طرح اگر اس شکل سے قبلے کی طرف منہ کرنے پر قادر ہو تو استقبالِ قبلہ ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہ ہو گی۔
  • نماز کی شرائط
    • وقت ہونا
      • فرض نمازوں کے اوقات
        • فجرکاوقت
          • 1. صبح صادق سے طلوع افتاب تک فجر کا وقت ہے،صبح کاذب کا کوئی اعتبار نہیں۔
          • 2. صبح صادق۔ مشرقی افق پر جب سورج کی روشنی( جبکہ سورج ابھی افق سے نیچے ہو) ایسی پھیل جائے کہ اس کی اونچائی اس کی افق پر پھیلاؤ سے کم ہو، کما فی الحدیث۔
          • 3. صبح کاذب۔بعض علاقوں میں بعض موسموں میں اہرام نما روشنی صبح صادق سے پہلے نمودار ہوتی ہے ، اس کی علامت یہ ہے کہ اس کی افق پر سے بلندی افق پر اس کے پھیلاؤ سے زیادہ ہوتی ہے، کما فی الحدیث۔
          • 4. طلوع افتاب۔جب سورج کا کوئی سا حصّہ افق سے باہر آئے۔
        • ظہر کا وقت
          • 1. جب زوال ختم ہوجائے اس کے فوراً بعد سے لیکر امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک مثل ثانی کی ابتدا تک اور دوسرے ائمہ کے نزدیک مثل اول کی ابتدا تک ظہر کا وقت ہے۔
          • 2. زوال۔جب سورج کا سایہ کم سے کم ہوجائے وقت زوال کہلاتا ہے۔ اس کا دورانیہ تقریباً دو منٹ اور آٹھ سیکنڈ ہوتا ہے۔تاہم اس میں نقشے میں مطلوب احتیاط دونوں طرف جمع کرنا چاہیے۔
        • عصر کا وقت
          • 1. مثل اول۔ سورج کے کم سے کم سائے کے ساتھ جب سائے والے جسم کی لمبائی جمع کی جائے تو جب اس جسم کا سایہ اس لمبائی کے برابر ہوجائے تو اس کو مثل اول کی ابتدا کہیں گے۔
          • 2. مثل ثانی۔ سورج کے کم سے کم سائے کے ساتھ جب سائے والے جسم کی لمبائی کا دگنا جمع کیا جائے تو جب اس جسم کا سایہ اس لمبائی کے برابر ہوجائے تو اس کو مثل ثانی کی ابتدا کہیں گے۔
          • 3. امام ابوحنیفہ ؒکے نزدیک مثل ثانی اور دیگر ائمہ کے نزدیک مثل اول سے لیکر غروب آفتاب تک عصر کا وقت ہے۔
        • مغرب کا وقت
          • 1. اس کی ابتدا غروب آفتاب سے ہوتی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک شفق ابیض کے غائب ہونے تک رہتی ہے اور دیگر ائمہ کرام کے نزدیک شفق احمر کے غائب ہونے تک رہتی ہے۔
          • 2. شفق ا حمر۔جب سورج غروب ہوجاتا ہے تو اس کے بعد ایک سرخی سی افق پر چھا جاتی ہے۔ یہ سرخی جب افق سے غائب ہوجائے توکہتے ہیں کہ شفق احمر غائب ہوگیا۔
          • 3. شفق ابیض۔ سرخی جب افق سے غائب ہوجائے تو اس کے بعد افق پر سفیدی پھیل جاتی ہے۔ اس کا افق پر پھیلاؤ اس کی افق سے بلندی سے زیادہ ہوتا ہے۔جب یہ بھی غائب ہوجائے تو کہتے کہ شفق ابیض بھی غائب ہوگیا۔
          • 4. اہرام نما روشنی۔ اس کا افق پر پھیلاؤ اس کی افق سے بلندی سے کم ہوتا ہے۔ یہ بعض موسموں میں بعض علاقوں میں نظر آسکتی ہے لیکن اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
        • عشاہ کا وقت
          • 1. امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک جب شفق ابیض غائب ہوجائے اور دیگر ائمہ کے نزدیک جب شفق احمر غائب ہوجائے تو عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور صبح صادق کی ابتدا تک رہتا ہے، لیکن آدھی رات کے بعد عشاء کے فرض اور سنتیں پڑھنا مکروہ ہے ، تاہم وتر پڑھنا اس وقت افضل ہے۔
      • نمازوں کے مستحب اوقات
        • فجر کی نماز کا مستحب وقت
          • 1. جب اُجالا ہو جائے اور اتنا وقت ہو کہ قرآتِ مستحبہ کے ساتھ سنت کے موافق اچھی طرح نماز ادا کی جائے اور پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد اتنا وقت باقی رہے کہ سورج نکلنے سے پہلے دوبارہ سنت کے موافق نماز پڑھی جا سکتی ہو تو ایسے وقت نماز پڑھنا مستحب و افضل ہے، یہ حکم ہر زمانے میں ہے لیکن قربانی کے دن حج کرنے والوں کے لئے مزدلفہ میں اول وقت فجر کی نماز پڑھنا افضل ہے۔
          • 2. عورتوں کے لئےہمیشہ فجر کی نماز اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے، اور باقی نمازوں میں مردوں کی جماعت کا انتظار کریں اور جماعت ہو جانے کے بعد پڑھیں-
        • ظہر کی نماز کا مستحب وقت
          • 1. گرمی کے موسم میں اتنی دیر کر کے پڑھنا کہ گرمی کی تیزی کم ہو جائے مستحب ہے، اور سردی کے موسم میں اول وقت پڑھنا افضل ہے، لیکن اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ ظہر کی نماز ہر حال میں ایک مثل سایہ کے اندر پڑھ لی جائے۔
          • 2. جمعہ کی نماز ہمیشہ اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے، جمہور کا یہی مذہب ہے اور اسی پر فتویٰ ہے کیونکہ اس میں مجمع بہت زیادہ ہوتا ہے اور لوگ پہلے سے آئے ہوئے ہوتے ہیں، پس تاخیر سے ان کو تنگی ہو گی۔
        • عصر کی نماز کا مستحب وقت
          • 1. خواہ سردی ہو یا گرمی ہر زمانے میں عصر کی نماز میں تاخیر مستحب ہے،مگر اتنی تاخیر نہ کرے کہ وقت مکروہ ہو جائے۔
        • مغرب کی نماز کا مستحب وقت
          • 1. ابر و غبار کے دن کے سوا ہمیشہ مغرب کی نماز میں جلدی کرنا یعنی اول وقت پڑھنا مستحب ہے۔
        • عشاء کی نماز کا مستحب وقت
          • 1. ایک تہائی رات تک مستحب وقت ہے، اس کے بعد آدھی رات تک تاخیر مباح ہے، اس کے بعد مکروہ وقت شروع ہو جاتا ہے۔
          • 2. وتر کی نماز میں اُس شخص کو آخر رات تک تاخیر کرنا مستحب ہے جس کو اپنے جاگ اُٹھنے کا پکا بھروسہ ہو، پس ایسے شخص کو نماز تہجد کے بعد صبح صادق سے پہلے پہلے نمازِ وتر پڑھنا مستحب ہے، لیکن اگر آنکھ کھلنے اور اٹھنے کا پورا بھروسہ نہ ہو تو اس کے لئے مطلقاً تعجیل افضل و مستحب ہے، پس اس کو نماز عشاء کے بعد سونے سے پہلے پڑھ لینا چاہیے۔
          • 3. ابر و غبار کے روز ہمیشہ فجر اور ظہر اور مغرب کی نماز ذرا دیر کر کے پڑھنا بہتر و مستحب ہے تاکہ وقت پوری طرح ہو جائے اور شبہ نہ رہے، اور عصر و عشاء کی نماز مستحب وقت سے پہلے ادا کرنا مستحب ہے۔
          • 4. فائدہ: دو فرض نمازوں کو کسی عذر سے ایک وقت میں جمع نہ کرے، نہ سفر میں نہ حضر میں، نہ بیماری میں، لیکن عرفات و مزدلفہ اس حکم سے مستثنٰی ہیں، عرفات میں اگر ظہر و عصر کی نماز میں جمع کرنے کی شرائط پائی جائیں تو یہ دونوں نمازیں ظہر کے وقت میں پڑھی جائیں، اور مزدلفہ میں مغرب و عشاءکی نماز عشاءکے وقت میں پڑھی جائے۔
      • نمازوں کےمکروہ اوقات
        • طلوع کے بعد
          • صبح صادق سے طلوع آفتاب تک فجر کا وقت ہے۔صبح کاذب کا کوئی اعتبار نہیں۔
          • دوران زوال۔جب تک سورج کا کوئی سا بھی حصّہ سمت الرأس کو شمالی اور جنوبی افق کے ملانے والے خط پر بھی موجود ہے زوال کا وقت جاری ہے۔ اس کو ہی حدیث شریف میں استوا شمس کہا گیا ہے۔واﷲ اعلم بالصواب۔
          • غروب سے پہلے۔جب سورج کو دیکھنا عصر کے بعد کھلی آنکھوں سے ایک صحیح نظر والے کے لئے ممکن ہوجائے تو عصر کا مکروہ وقت شروع ہوگیا اور یہ غروب آفتاب تک جاری رہتا ہے۔
          • ناظر کے آنکھ کی بالکل سیدھ میں کسی پہاڑ یا عارضی آڑ کو غائب تصور کرتے ہوئے نظر کی۔
        • اشرق کا وقت
          • جب طلوع آفتاب کے بعد مکروہ وقت ختم ہوجائے تو اشراق کا وقت شروع ہوجاتا اور اس کا دورانیہ اس دن کے عصر کے دورانئے کے برابر ہوگا۔
        • چاشت کا وقت
          • جب اشراق کا وقت ختم ہوجائے تو زوال کے شروع ہونے تک چاشت کا وقت ہے۔
        • تہجد کا وقت
          • آدھی رات کے بعد کسی بھی وقت جب تک صبح صادق نہ ہو البتہ اس کا بہترین وقت اس رات کا آخری چھٹا حصّہ ہے۔
      • نمازوں کے اوقات کا حساب
        • مندرجہ ذیل مساوات مںق B جس مقام کے نمازوں کے اوقات معلوم کرنے ہوں اس کا عرض بلد ہے اس دن کا ملم شمس ہے اور ہر دن بدلتا ہے۔ D اس نماز کے وقت کے لئے مطلوب زاویہ شمس ہے کیونکہ زاویہ شمس ہر نماز کے لئے مختلف ہوتا ہے ۔A اس مساوات کے ذریعے معلوم ہوسکتا ہے۔ سے مراد زاویہ زمانہہ ہے تویہ H
          اگر اس کو 15پرتقسمت کا جائے تو مطلوبہ نماز کے وقت کا وقت زوال سے فاصلہ گھنٹوں میںمعلوم ہوسکتا ہے۔ اب اگر وہ وقت قبل ظہر کا ہے تو اس کو زوال کے وقت سے تفریق کاو جائے ورنہ اس کے ساتھ جمع کا جائے۔زاویہ شمس اور عرض بلد کا اگر پتہ چل جائے تو ہمںا صرف دو چزووں کی ضرورت پڑے گی یینت ملے شمس اور ایک وقت زوال۔ یہ دونوں ملی شمس و وقت زوال کے جدول سے معلوم ہوسکتے ہںو۔ اس طرح ہمںپ مقامی وقت مںو مطلوبہ نماز کا وقت معلوم ہوجائےگا۔معایری وقت مںے اس کو معلوم کرنے کے لئے ہمںل درج ذیل مساوات استعمال کرنا چاہئےر۔ معاوری وقت اور مقامی وقت کا الجبرائی فرق =﴿مقامی طول بلد۔ معامری طول بلد ﴾*4منٹ معاوری وقت معلوم کرنے کے لئے اگر مندرجہ بالا فرق مثبت ہے تو اس کو مقامی وقت کے ساتھ جمع کرنے پڑے گا۔بصورت دیگر منفی کرنا پڑے گا۔ پس اگر ہم نے پشاور کے لئے کوئی وقت معلوم کرنا ہے تو چونکہ پشاور کا طول بلد منفی 71 درجے اور 30 دققہ ہے اور پاکستان کے معاپری وقت کا طول بلد منفی 75درجے ہے اور ان دونوں کا فرق (-75:00)--71:30=03:30یینے ساڑھے تن﴾ درجے ہے اور ہر درجے مںف 4منٹ کا فرق پڑتا ہے پس پشاور کے مقامی وقت کا معاجری وقت کے ساتھ14منٹ کا فرق ہے۔چونکہ یہ فرق مثبت ہے اس لئے اس کو مقامی وقت کے ساتھ جمع کاے جائے گا۔
        • نمازوں کے اوقات کے لئےزاویہ شمس A
          • فجر اور عشاء کے لئے 108درجےہوتا ہے
          • طلوع افتاب اور غروب افتاب کے لئے 90.833درجے ہوتا ہے
          • اشراق کے لئے 87.6درجے ہوتا ہے
          • عصر کے مکروہ وقت کے لئے 86.7درجے ہوتا ہے
          • (ملم شمس) ۫جس عرض بلد پر عن زوال وقت سورج بالکل سر کے اوپر ہوگا وہ اس وقت سورج کا ملک کہلاتا ہے۔ Declination
          • زاویہ شمس۔ سورج جس وقت کسی عمود کے ساتھ کوئی زاویہ بنا رہا ہوگا وہ اس وقت کا زاویہ شمس کہلائے گا مثلاً سورج عمود کے ساتھ عنے غروب کے وقت 90.833درجے کا زاویہ بناتا ہے سو یہ غروب کا زاویہ شمس ہے۔
          • زاویہ زمانہ۔ سورج آسمان مںو جس خط پر خرکت کرتا نظر آتا ہے یہ ایک سماوی دائرہ ہوتا ہے اس کے مرکز کے گرد وہ کسی وقت اس کے عنی زوال کے وقت کے مقام سے جتنے درجے طے کرچکا ہوتا ہے یا اس کو طے کرنے ہوں وہ اس وقت کا زاویہ زمانہو کہلاتا ہے۔
      • صبح صادق اور صبح کاذب کے بارے میں ایک علمی اور تحقیقی جائزہ

          سید شبیر احمد کاکا خیل ممبر مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان

        • صبح صادق کیا ہے ؟
          • اس کا جواب تو فقہ کی سارے کتابوں میں موجود ہے لیکن حسابی اعتبار سے کتنے درجات زیر افق پر واقع ہوتا ہے،اس کا جواب ایک علمی اور فنی پس منظر چاہتا ہے ماضی میں کراچی میں اس پر شدید اختلاف ہوا تھا لیکن اکابر نے مشاہدات اور متعلقہ تحقیقات میں دلچسپی لے کر اس مسئلے کو حل کردیا تھا اور حضرت مفتی رشید احمد ؒ نے بھی اپنے تشدد کو ختم کرکے یہ اعلان فرمایا تھا کہ کوئی ایک شخص بھی مسجد میں میرے نقشے پر مطمئن نہ ہو تو میرا نقشہ نہ لگایا جائے لیکن اکابر اکابر ہوتے ہیں اور اصاغر اصاغر۔حضرت کے بعض اصاغر حضرت کے اس عدم تشدد کا ساتھ نہیں دے سکے لہٰذا حضرت کی آنکھیں بند ہوتے ہی ایک طوفان کھڑا کیا اور جو ان کے اصحاب فتویٰ ہیں بجائے ان کے ماننے کے ان کو مطعون کیا۔عوام کے سامنے روزہ چھوٹا، سحری لمبی اور عشاء جلدی جیسے خوشنما نعرے رکھے۔ اس پر مزید یہ کہ اسلام آباد، راولپنڈی اور دیگر شہروں کے علماء کرام کے نام سے ان سے پوچھے بغیر غلط نقشے شائع کرکے خود تقسیم کئے حالانکہ جامعۃ الرشید میں پرانے نقشوں کے مطابق سحری کرنا اور جدید کے مطابق فجر پڑھنے کو بذریعہ اعلان لازمی کیا گیا ہے۔عوام ویسے بھی روز بروز تن آسانی کی طرف مائل ہیں اس پر مزید یہ کوششیں اس لئے بعض حضرات کو اس پر کسی سازش کا گمان ہونے لگا۔ اس پر احقر پہلے بھی لکھ چکا ہے لیکن وہ مناظراتی رنگ میں لکھا گیا اس دفعہ جب دوبارہ لکھنے پر مجبور کیا گیا تو ارادہ ہوا کہ اس کا مناظرانہ رنگ کم کیا جائے اور اس پر تحقیقی رنگ کو غالب کیا جائے۔ اس پر مزید اﷲ کا احسان یہ ہوا کہ دارالعلوم کراچی کے اساتذہ کرام نے اپنے تخصص کے طلبہ کو ساتھ لے کر جدید مشاہدات کئے۔ ان کے نتائج احقر کو بھی موصول ہوئے۔ ان مشاہدات سے گویا ایک انقلاب آگیا جو باتیں پہلے نظری بنیادوں پر سمجھا نے میں مشکل محسوس ہورہی تھیں۔ ان مشاہدات کے نتائج نے ان کا سمجھانا آسان کردیا۔ مزید اﷲ تعالیٰ کی مدد یہ شامل حال ہوئی کہ حضرت علامہ شامی ؒ اور چند دوسرے فقہائے کرام کی چند ایسی تحریریں سامنے آئیں جس نے گویا فیصلہ کردیا۔ الحمد ﷲ۔ اس لئے ارادہ ہوا کہ اب نئے سرے سے اس پر تحقیقی کتاب لکھی جائے تاکہ جو اس مسئلے کو سمجھنا چاہیں تو ان کے لئے اس میں کافی مواد موجود ہو۔ اس کتاب میں ا س بات کی کوشش کی گئی ہے کہ بلا وجہ کسی کا نام نہ آئے تاہم مشاہدات میں چونکہ نام کا آنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اسی سے وہ مستند ہوتے ہیں اس لئے وہاں نام دیئے گئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ قبول فرمائے۔علماءے کرام سے درخواست ہے کہ اس مسودے کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اس کے بارے میں مندرجہ ذیل پتہ پر اپنی رائے سے باخبر فرمائیں تاکہ اس کتاب کی باقاعدہ اشاعت میں ان کی رائے تقریط کی صورت میں آسکے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھے۔ سید شبیر احمد عفی عنہ۔ خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ ۔مکان نمبر CB-1991/1 اللّٰه آباد ویسٹریج 3 راولپنڈی۔

            اَلْحَمْدُ ِﷲ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔ اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ اور کھاؤ پیو جب تک صاف نظر آئے تم کو دھاری سفید جدا دھاری سیاہ سے۔ اس آیت کریمہ میں اﷲ جل شانہ روزہ کے ابتدائی وقت کے شروع کا معیار بتارہے ہیں اور ساتھ اس کا طریقہ بھی کہ جب صبح کی سفید دھاری اور سیاہ دھاری میں فرق واضح ہوجائے تو وہ صبح قرار پائے گی جس پر روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہوجائے گا۔ اسی لمحے کو صبح صادق کہا گیا ہے۔حدیث شریف میں اس لمحے کی مزید تفصیلات ہیں اور صبح کی دو قسمیں بتائی گئی ہیں۔ ایک صبح صادق اور دوسری صبح کاذب۔
        • احادیث شریفہ کے مطابق صبح صادق اور صبح کاذب
            1عَنْ اِبْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قال رَسُولُ اﷲ لَا یَمْنَعَنَّ اَحَداً مِنْکُمْ اَذَانُ بِلا َلٍ اَوْ قَالَ نِدَائُ بِلَالٍ مِنْ سُحُورِہِ فِاِنَّہُ یُؤَذِّنُ اَوَ یُنَادِی بِلَیْلٍ لِیَرْجِعَ قَایِمُکُمْ وَ یُوقِظَ نَائِمَکُمْ وَ قَالَ لَیْسَ اَنْ یَقُولَ ھٰکَذَا اَوْ ھٰکَذَا اَوْ صَوَّبَ یَدَہ، وَ رَفَعَھَا حَتّٰی یَقُولَ ھٰکَذَا وَ فَرَّجَ بَیْنَ اِصْبَعَیْہِ رَوَاہُ مُسْلِمُ وَ اَبُو دَاؤدْ وَ النِّسَائِی وَ ابْنِ مَاجَہ
            ا س کا مفہوم ہے کہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺِ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کو بلال کی اذان سحری کھانے سے نہ روکے، کیونکہ وہ تو اس لئے اذان دیتے ہیں تاکہ آپ میں سے نماز پڑھنے والے لوٹیں اور جو سو رہے ہوں وہ جاگیں اور فرمایا صبح اس طرح نہیں ہے، اور ہاتھ کو اوپر نیچے کردیا، اس کے بعد اشارہ کردیا کہ ایسے اور انگلیوں کو کھول دیا
            -2 حَدَّثْنَا عُبَیْدْ بِنْ اِسْمَاعِیْل عَنْ اَبِی اُسَامَہَ عَنْ عُبَیدُ اﷲ عَنْ نَافِعْ عَنْ ِابْنِ عُمَرَ وَ الْقَاسِمَ ْبْنِ مُحَمَّدَ عَنْ عَائِشَہ َ رضی اﷲ عنھااَنَّ بِلَالاً کَانَ یُؤِذِّنُ بِلَیْلٍ فَقَالَ رَسُولُ اللہ ﷺ کُلُوا وَاشْرَبُوا حَتّٰیٰ یُؤذِّنَ ابْنٍ اُم ِّمَکْتُومٍ فِاِنَّہ، لَا یُؤَذِّنُ حَتّٰی یَطْلعَ الْفَجْرُ قَالَ القَاسِمُ وَ لَمْ یَکُنْ بَیْنَ اَذَانِہِمَا اِلَّا اَن یَرقَی ذَا وَ یَنْزِلْ ذَا۔
            رواہ بخاریاس کا مفہوم ہے کہ بیشک بلا ل ؓ رات میں اذان دیتے تھے تو آپﷺِ نے ارشاد فرمایا کہ کھاؤ پیو جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دے پس بیشک وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے جب تک فجر طلوع نہ ہوجائے۔ اور قاسم نے کہا ان دونوں اذانوں کے درمیان بس اتنا ہی فرق ہوتا تھا کہ یہ چڑھے اور وہ اترے۔
            -3لَا یَمْنَعَنَّکُمْ مِنْ سُحُورِکُمْ اَذَانُ بِلَالٍ وَ لَا الْفَجْرَ الْمُسْتَطِیْلُ وَ لٰکِنَّ الْفَجْرُ الْمُسْتَطِیْرُ فِی الاُفُقِ۔
            اس حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ منع نہ کرے تمہیں تمہاری سحریوں سے بلال ؓ کی اذان اور فجر مستطیل بلکہ فجر مستطیر﴿سے سحری کا وقت ختم ہوتا ہے ﴾
            -4عَن عَبْدِاﷲ ِبْنِ مَسْعُود قَالَ قال رَسُولُ اﷲ ﷺ لَا یَمْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَذَانُ بِلا َلٍ مِنْ سُحُورِہِ فِاِنَّہُ یُؤَذِّنُ اَوَ یُنَادِی لِیَرْجِعَ قَایِمُکُمْ وَیَنْتَبِہَ نَائِمُکُمْ وَلَیْسَ الْفَجْرُ اَنْ یَقُولَ ھٰکَذ قَالَ مُسَدَّدٌ وَجَمَعَ یَحْیٰی کَفَّیْہِ حَتّٰی یَقُولَ ھٰکَذَا وَمَدَّ یَحْیٰی بِاُصْبُعَیْہِ السّبَابَتَیْنِ .﴿رواہ ابودؤد فی کتاب الصوم﴾
            ترجمہ : حضرت عبد للہ بن مسعود ؓ سے روایات ہے کہ رسول اللہ ﷺِنے فرمایا کہ بلال کی اذا ن سننے سے سحری کھانامت چھوڑے،کیونکہ بلال اذان یا ندا اس لئے دیتے ہیں تاکہ تہجد پڑھنے والے گھر چلے جائیں اورسوئے ہوئے جاگ اٹھیں۔ اور یحیٰ نے مٹھی بند کرکے فرمایااسی طرح فجر نہیں ہوتی،بلکہ انگلیاں دائیں بائیں کھول کر فرمایا ﴿فجر صادق ﴾ اسی طرح ہوتی ہے۔
            -5 عَن عَبْدِاﷲ ِبْن سَوَادَۃَ القُشَیْرِیِّ عَنْ اَبِیہِ قَالَ سَمِعْتُ سَمْرَۃَ بْنَ جُنْدُبٍ یَخْطَبُ وَ ھُوَ یَقُولُ قَالَ رَسُو لُ اﷲِﷺلَایَمْنَعَنَّ مِنْ سُحُورِکُمْ اَذَانُ بِلَالٍ وَلَا بَیَاض الُافُقِ الَّذِی ھٰکَذَا حَتّٰی یَسْتَطِیرَ . ﴿رواہ ابوداؤدفی کتاب الصوم ﴾
            ترجمہ : عبد اللہ بن سوادۃ اپنے باپ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے سمرہ بن جندب ؒ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ رسو ل للہﷺِنے فرما یا بلال کی اذان یاافق پر سیدھی روشنی آپ کوسحری کھانے سے نہ روکے،یہاںتک وہ روشنی افق پر عرضاً پھیل جائے۔
            -6 عَنْ ذَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِیِّ ﷺ ثُمَّ قَامَ اِلیٰ الصَّلوٰۃِ قُلْتُ کَمْ کَانَ بَیْنَ الَاذَانِ وَالسَّحُورِ قَالَ قَدرُخَمْسِینَ آیَۃً رو اہ مسلم،بخاری،ترمذی،ابن ماجہ،مسند احمد﴾
            ترجمہ : زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺِ کے ساتھ سحری کھائی،اس کے بعدآپ نماز کیلئے کھڑے ہوگئے۔﴿راوی کہتا ہے﴾میں نے کہا اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقفہ تھا﴿زید نے کہا﴾پچاس آیات پڑھنے کے برابر
            7۔عَنْ سَمَرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ رضی اﷲ عنہ قَالَ قَالَ رَسُو لُ اﷲِ ﷺِلَا یَغُرَّنَّکُمْ اَذَانُ بِلَالٍ وَلَا ھٰذا الْبَیَاضُ لِعَمُودِ الصُّبْحِ حَتّٰی یَسْتَطِیرَ ھٰکَذَ.﴿رواہ مسلم ﴾
            ترجمہ : آپکو بلالؓ کی اذان اور یہ آسمان کی طرف اونچائی میں جاتی ہوئی روشنی دھوکہ میں نہ ڈالے یہاں تک کہ یہ پھیل جائے
            -8اَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنِ غَیْلاَن قَالَ حَدَّثَنَا اَبُو دَ اؤدَ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ اَنْبَاَنَا سَوَادَۃُ بْنُ حَنْظَلَۃَ قَالَ سَمِعْتُ سَمُرَۃَ یَقُولُ قَالَ قَالَ رَسُو لُ اﷲ ﷺلَا یَغُرَّنَّکُمْ اَذَانُ بِلَال وَلَا ھٰذا الْبَیَاضُ حَتّٰی یَنْفَجِرَ الْفَجْرُ ھٰٰکَذٰا وَھٰٰکَذٰا مُعْتَرِضاًقَالَ ابُودَؤدُ وَبَسَطَ یَدَیْہِ یَمِیناً وَشِمَالاًمَادَّا یَدَیْہِ﴿رواہ نسائی﴾
            ترجمہ: آپ کو بلالؓ کی اذان اور نہ یہ سفید روشنی دھوکے میں ڈالے یہاں تک کہ چو ڑائی میں فجرپھیل جائے۔
        • احادیث شریفہ کا خلاصہ
          • پہلی حدیث شریف میں صبح کاذب کی نشانی ہاتھ اوپر نیچے کرکے ظاہر کی گئی کہ یوں وہ بلند ہوگی جبکہ اس کے مقابل صبح صادق کی نشانی انگلیاں پھیلا کر بتائی گئی گویا کہ یہ افق پر پھیلی ہوئی روشنی ہوگی۔
            دوسری حدیث شریف میں یہ بتایا گیا کہ بلال ؓ کی اذان رات میں ہوتی ہے اور سحری کے وقت کے خاتمے کے لئے ابن ام مکتوم کے اذان کو معیار ٹھہرایا گیا۔ اور قاسم نامی راوی کے گمان کا ذکر ہے کہ وہ ان میں فرق بہت تھوڑا سمجھتے تھے یعنی چڑھنے اور اترنے کے بقدر۔
            تیسری حدیث شریف میں بلال ؓ کی اذان اور فجر مستطیل کو سحری میں کھانے سے مانع ہونے کی نفی گئی اور اس کے لئے صبح صادق ﴿ فجر مستطیر ﴾ کو معیار قرار دیا۔
            چوتھی حدیث شریف میں اذان بلال کو محض تہجد کے لئے اور سونے والوں کے اٹھانے کے لئے ایک علامت قرار دیا اور جس طرح انگلیاں کھل کر پھیل جاتی ہیں اس طرح فجر مستطیر بمعنی صبح صادق کو سحری کھانے سے مانع قرار دیا۔
            پانچویں حدیث شریف میں بلال ؓ کی اذان اور افق پر اس طرح سفیدی ﴿مستطیل﴾ میں سحری کھانے سے روکنے سے ممانعت کی گئی یہاں تک کہ روشنی پھیل جائے۔
            چھٹی حدیث شریف میں اذان ﴿فجر﴾ اور سحری میں فاصلہ تقریباً پچاس آیتوں کی تلاوت کے بقدر بتایا گیا ہے۔
            ساتویں حدیث شریف میں خبردار کیا گیا ہے کہ نہ تو ہمیں بلال ؓ کی اذان سے اور نہ ہی عموداً اٹھتی ہوئی صبح کی سفیدی سے دھوکہ میں آنا چاہیئے بلکہ مستطیر روشنی کا انتظار کرنا چاہیئے۔
            آٹھویں حدیث شریف میں ساتویں حدیث شریف ہی کا مضمون ہے اور مستطیر روشنی کی مزید شرح کی گئی کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پو پھٹ جائے اور روشنی دائیں بائیں افق پر عرضاًپھیل جائے۔
        • صبح صادق اور صبح کاذب
          • قرآن شریف میں صرف اتنا فرمایاگیا ہے کہ ہمیں روزہ رکھنا ہو تو اس وقت کھا پی سکتے ہیں جب تک رات کی سیاہ دھاری سے صبح کی سفید دھاری کا واضح فرق محسوس نہ ہو۔جیسا کہ ہر مسئلے میں حدیث شریف قرآن کی تشریح کرتا ہے اس لئے جو احادیث شریفہ نقل کی گئی ہیں ان کے مطابق رات کی سیاہی سے صبح کی سفیدی کا واضح فرق تب معتبر ہوگا جب صبح کی روشنی افق پر اس طرح پھیل جائے کہ اس کا افق پر عرضاً پھیلاؤ اس کی افق سے بلندی سے زیادہ ہو۔ اس حالت کوصبح صادق کہتے ہیں۔ اگر افق پر روشنی کا پھیلاؤ اس کی بلندی سے کم ہو تو احادیث شریفہ میں اس سے دھوکہ کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ شرعی احکامات نماز روزہ کے وابستہ ہ نہیں کئے جائیں گے کیونکہ یہ کسی اور سبب سے پیدا شدہ وہ روشنی ہوتی ہے جس پر صبح کا گمان ہوسکتا ہے۔فقہاء نے اس کو اس لئے صبح کاذب کہا ہے۔
            اس کے ساتھ ساتھ آپ ﷺِ کے وقت میں تہجد کی نماز عام پڑھی جاتی تھی اور آپ ﷺِ پر تو فرض تھی اس لئے اس کے لئے باقاعدہ اذان دی جاتی تھی۔ اس اذان کے لئے حضرت بلال ؓ مقرر تھے۔ اب چونکہ دو قسم کی صبحیں روشنی کے لحاظ سے ہوگئیں اور دو قسم کے اذان تھے اس لئے مسلمانوں کو ان احادیث شریفہ کے مطابق خبردار کیا گیا تھا کہ وہ صرف صبح صادق پر ہی روزہ رکھنے کی صورت میں کھا نا پینا بند کیاکریں جب روشنی کا افق پر پھیلاؤ اس کی بلندی سے زیادہ ہوجائے اور تاکید کی گئی کہ نہ تو اس سلسلے میں بلال ؓ کی اذان کی پرواہ کریں اور نہ ہی فجر مستطیل کی جس میں روشنی کی بلندی اس کے افق پر پھیلاؤ سے زیادہ ہوتی ہے۔ چونکہ احادیث شریفہ میں بلال ؓ کی اذان اور فجر مستطیل دونوں کا ذکر آیا ہے اس لئے بعض حضرات اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ بلال ؓ صبح کاذب کو دیکھ کر اذان دیتے تھے حالانکہ احادیث شریفہ میں غور کرنے سے اس کا لازم ہونا نہیں آتا۔ یہ اشتباہ چونکہ علامہ بدر الدین عینی ؒ اور ابن حجر ؒ کے وقت میں دوسری حدیث شریف کی وجہ سے ہوگیا تھا تو اپنی اپنی شروح بخاری میں ان بزرگوں نے اس کا پرزور رد کیا تھا۔ اگر مشاہدات پر عمل ہو تو مسئلہ صاف ہوجاتا ہے۔ اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن آج کل کے دور میں ایسا نہیں ہے۔مشاہدات کالعدم ہوچکے ہیں ۔مشاہدات تو درکنار مشاہدات کو سمجھنے والے بھی بہت کم ہوگئے ہیں۔ اور اگر کوئی مشاہدات کرنا چاہیں بھی تو بجلی کے قمقموں اور ٹیوبوں کے باعث صحیح مشاہدات انتہائی مشکل ہوگئے ہیں۔ اس لئے بڑے بڑے علماء کرام بھی اب صحیح نقشوں کی تیاری کو بہت ضروری خیال کرنے لگے ہیں۔ اب جب نقشے کی بات ہوگئی تو صحیح نقشہ تیار کرنا ایک فنی بات ہوتی ہے جس کے لئے اس کے فن کا جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔کسی نقشے کی غلطی پکڑنے کے لئے اب فنی مباحث کی ضرورت بھی پڑ گئی۔ اس وجہ سے وفاق المدارس میں احقر کی کتاب فہم الفلکیات بطور نصاب شامل کی گئی تاکہ طلبہ اس فن سے بخوبی آگاہ ہوسکیں ۔
        • صبح صادق کس درجہ زیر افق پر ہے ؟
          • باقی اوقات نماز کے درجات زاویہ شمس میں تو اختلاف نہیں ہے البتہ صبح صادق اور شفق ابیض کے درجات زیر افق میں اختلاف پیدا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دو کے مشاہدات پر مصنوعی روشنیاں بہت ا ثر انداز ہوتی ہیں۔ اس لئے ان کے مشاہدات کے لئے خصوصی اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ اگر مشاہدات کئی دن تک ایسے مقامات پر مسلسل کئے جائیں کہ وہاں مصنوعی روشنیاں مشاہدات پر اثر انداز نہ ہوسکیں تو جو نتیجہ ظاہر ہوگا وہ ان مشاہدات سے مختلف ہوسکتا ہے جن میں ان دو باتوں کا خیال نہیں رکھا جا سکے یا کم رکھا جائے۔بعض بڑے اکابر بھی مصروفیات کے پیش نظر اول الذکر احتیاطوں کا خیال نہیں رکھ سکے اس لئے ان کے نتائج دوسرے بزرگوں سے مختلف ہوئے کیونکہ جب تک آنکھیں مشاہدات کے تسلسل کے ذریعے مناسب حالات میں صحیح مشاہدات کے ساتھ مانوس نہیں ہوجاتیں ناکافی مشاہدات کے ذریعے صحیح نتیجہ نکالنا عملاً بہت مشکل ہوتا ہے۔مشاہدہ دو چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے،آنکھوں سے دیکھنا اور دماغ کا اس سے صحیح تاثر لینا ۔ یہ دوسری بات تجربے اور قوت ادراک پر منحصر ہوتی ہے جس کی ضرورت محض اس لئے ہے کہ مشاہدے کا معمول نہیں اور مصنوعی روشنیاں ہمارے مشاہدات کے نتائج کو متاثر کرسکتی ہیں۔۔کسی بھی گروپ کے نیتوں پر شک کئے بغیر ہمیں کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا ضروری ہے کہ ہمیں صحیح نتائج حاصل ہوسکیں۔مشاہدات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے ہمیں جن چند اصطلاحات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔وہ اب ترتیب وار یہاں لکھی جاتی ہیں۔
        • فجر مستطیر اور قوس
          • مستطیر کی تعریف چونکہ اول الذکر حدیث شریف میں ہوچکی ہے اس لئے اسی تعریف کو اختیار کیا جائے گا۔ اس کے مطابق فجر مستطیر وہ ہے جب افق پر روشنی پھیل جائے۔ افق پر روشنی پھیلنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا افق پر پھیلاؤ اس کی افق سے بلندی سے زیادہ ہو جیسا کہ انگلیاں کھولنے کے اشارہ سے معلوم ہوا۔ یہ کب ہوتا ہے اس کے لئے افق پر سورج کی روشنی کے ظہور کے عمل کو سمجھنا ہوگا۔ اگر صبح صادق سورج کی روشنی کی وجہ سے سمجھی جائے تو سورج اگر زیر افق ہو تو افق پر اگر اس کی روشنی پھیلے گی تو وہ کس شکل کی ہوگی ؟ظاہر ہے سورج کی روشنی چونکہ ہر طرف پھیلتی ہے اس لئے یہ ایک حلقہ بناتی ہے۔ نوری حلقہ کے انتہائی حدود ایک دائرے کی شکل میں ہوتے ہیں، افق پراس دائرے کا صرف ایک حصہ نظر آسکتا ہے۔ سارے ریاضی دان جانتے ہیں کہ دائرے کا جزو قوس ہوتا ہے۔ اس لئے افق پر اس کے انتہائی حدود ایک قوس کی شکل میں نظر آنے چاہئیں۔ ا س کی کوئی اور شکل بن ہی نہیں سکتی۔ افق پر کسی قوس کو بھی دیکھا جائے گا تو یہ اس کی ایک لازمی صفت ہے کہ افق پر اس کی بلندی اس کی پھیلاؤ سے کم ہوگی جیسا کہ شکل میں ظاہر ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فجر مستطیر کی روشنی ایک قوس کی شکل میں افق پر ظاہر ہوسکتی ہے۔
        • فجر مستطیل ایک لمبوتری روشنی
          • فجر مستطیل فجر مستطیر کی ضد ہے اس لئے فجر مستطیر کے برعکس افق پر اس کا پھیلاؤ اس کی افق سے بلندی کے مقابلے میں کم ہونی چاہیئے جیسا کہ آپ ﷺِ نے ہاتھ کو اوپر نیچے کرکے اس کے بارے میں اشارہ فرمایا کہ اس کی بلندی افق پر پھیلاؤ سے زیادہ ہوگی۔ اب دونوں کو ملا کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ فجر مستطیر قوس کے شکل میں ہوتی ہے اور فجر مستطیل قوس کی شکل میں نہیں ہوتی۔ یہ دونوں نتائج بہت اہم ہیں۔ ان کو انشاء اﷲ آگے استعمال کیا جائے گا۔
        • صبح کاذب کی تعریف
          • لاَ یَمْنَعَنَّکُمْ مِنْ سُحُورِکُمْ اَذَانُ بِلَالٍ وَ لَا الْفَجْرُ الْمُسْتَطِیْلُ وَ لٰکِنَّ الْفَجْرُ الْمُسْتَطِیْرُ فِی الاُفُق میں الفجر المستطیل سے مراد صبح کاذب ہی ہوسکتی ہے۔کیونکہ یہی وہ فجر ہے جس پر سحری کھانے سے روکا نہیں جارہا ہے۔ اور پہلی حدیث شریف میں وَ قَالَ لَیْسَ اَنْ یَقُولَ ھٰکَذَا اَوْ ھٰکَذَا َوْ صَوَّبَ یَدَہ، وَ رَفَعَھَا حَتّٰی یَقُولَ ھٰکَذا میں فجر مستطیل کی نشانی اس طریقے سے بتائی گئی کہ ہاتھ کو اوپر نیچے کیا گیا کہ ایسے ہوتا ہے یعنی اس کی افق سے بلندی اس کی افق پر پھیلاؤ سے زیادہ ہوگی۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ فجر مستطیر جو کہ قوس کی شکل میں ہوتی ہے کبھی صبح کاذب نہیں ہوسکتی۔
        • صبح صادق کی تعریف
          • قرآنی تعریف کے مطابق صبح صادق وہ لمحہ ہوتا ہے جب سیاہ دھاری سے سفید دھاری کا واضح فرق نظر آئے اور حدیث شریف کے مطابق یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب افق پر روشنی پھیل جائے یعنی اس میں استطارت آجائے دوسرے لفظوں میں اس وقت اس کا افق پر پھیلاؤ اس کی بلندی سے زیادہ ہوتی ہے جیسا کہ آپ ﷺِ نے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر اس کی یہ صورت بیان فرمائی۔دوسری حدیث شریف میں دوسرے لفظوں میں اس کی کیفیت یوں بیان فرمائی کہ وہ روشنی ایسی نہ ہو اور ہاتھ کو اوپر نیچے کر کے اشارہ فرمایا جس کا لب لباب یہ ہے کہ صبح صادق کے وقت افق پر جو روشنی ظاہر ہوتی ہے اس کی افق سے بلندی اس کی افق پر پھیلاؤ سے کم ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر گیافنی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ صبح صادق کے وقت روشنی قوس کی شکل میں ہوتی ہے کیونکہ قوس پر یہ دونوں تعریفیں صادق آتی ہیں نیز یہ مسلم ہے کہ یہ روشنی سورج کی بدولت ہے اور سورج کی روشنی افق پر قوس کی شکل میں ہی پھیل سکتی ہے کسی اور شکل میں نہیں۔ ان دونوں تعریفوں کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں مشاہدہ کے ذریعے معلوم ہوسکتا ہے کہ صبح کاذب کونسی ہے اور صبح صادق کونسی ہے ؟
        • درجات زیر افق کے لحاظ سے صبح صادق کی تعریف
          • اسی پر اختلاف ہے اور اس کا فیصلہ مشاہدات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ہمارے ملک یہ اختلاف پہلی دفعہ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ نے کیا اور اعلان فرمایا کہ جو پرانے نقشے ہیں جن میں صبح صادق اور شفق ابیض کے اوقات کا 18درجات زیر افق کے حسابی اصول کے مطابق حساب کیا گیا تھا، وہ غلط ہیں۔ ابتدا میں چونکہ یہ نئی بات تھی اور حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ کے جلالت شان کے مطابق ٹندو آدم کے ناکافی مشاہدات کی بنیاد پر کراچی کے بڑے علماء کرام نے اس کی تصدیق فرمائی اور شبہ ظاہر کیا کہ شاید پرانے نقشوں میں دیئے ہوئے اوقات فجر صبح کاذب کے اوقات ہیں،اس لئے صبح صادق 15درجہ زیر افق پر قرار پایا جیسا کہ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ کی تحقیق تھی۔ اس کی تفصیل حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ کی احسن الفتاویٰ جلد دوم میں شائع شدہ کتاب صبح صادق میں دی ہوئی ہے۔بعد میں حضرت مفتی شفیع ؒ اور حضرت مولانا یوسف بنوری ؒ نے کراچی کے اکابر علماء کے ساتھ ملکر غیر جانبدارانہ تحقیق فرمائی اور مختلف مقامات پر مشاہدات کے لئے ٹیمیں بھیجیں جن کی تفصیل پروفیسر عبد اللطیف صاحب مد ظلہ کی کتاب صبح صادق اور صبح کاذب میں تفصیل سے موجود ہے۔
        • مشاہدات کی تفصیل
          • مشاہدات کے ان ٹیموں میں حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب ؒ، حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ،جناب مولانا محمد تقی عثمانی مد ظلہ، جناب مفتی محمد رفیع عثمانی مد ظلہ، جناب مولانا احمد الرحمٰن صاحب،جناب مولانا عبد القیوم صاحب، جناب مولانا یوسف لدھیانوی ؒ،جناب مولانا عبد السلام صاحب،جناب مولانا یحیٰی صاحب،جناب مولانامفتاح اﷲ صاحب،جناب حافظ عبد الرشید صاحب سورتی، جناب الحاج محمد یامین صاحب ،جناب محمد عثمان صاحب، جناب کلیم اﷲ صاحب اور پروفیسر عبد اللطیف صاحب شامل تھے۔ مشاہدات کی پہلی سیریز 3اپریل سے 12اپریل تک کے مشاہدات پر مشتمل تھی اور دوسری سیریز 18تا 19اگست کے مشاہدات پر مشتمل تھی۔
            بالکل قدرتی انداز میں جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ پہلی نظریں مشاہدات کے ساتھ مانوس نہ ہونے کی وجہ سے مشاہدات بالیقین نہیں کئے جاسکے لیکن چند روز ہی کے بعد میرپور ساکرد میں بتاریخ 11 اپریل پانچویں مشاہدہ میں حضرت مولانا عاشق الٰہی ؒ نے 4:54منٹ پر صبح صادق کا مشاہدہ کیا جبکہ آٹھ حضرات نے 04:55پر،تین حضرات نے 04:59منٹ،ایک ساتھی نے ٹھیک پانچ بجے اور جبکہ دو ساتھیوں نے 05:04منٹ پر نوٹ کرایا۔ یاد رہے کہ مقام مشاہدہ پر اس دن 18درجہ زیر افق کاوقت 04:54منٹ اور 15درجہ زیر افق کا وقت 05:08منٹ تھا۔ اگلے دن کے مشاہدے میں سب مشاہدہ کنند گان نے مسجد حاجی عثمان میں صبح صادق کا مشاہدہ 04:55منٹ پر نوٹ کرایا۔ اس دن 18درجہ زیر افق کا وقت 04:53منٹ اور 15درجہ زیر افق کا وقت 05:08پر تھا۔
            18اگست 1974کو پروفیسر عبد اللطیف صاحب اور جناب انوار احمد صاحب پروفیسرفزکس گورنمنٹ کالج ناظم آباد نے چند احباب کے ساتھ صبح صادق کا مشاہدہ کیا تو ان کو 04بجے سے کچھ پہلے صبح کاذب بھی نظر آئی جو کہ حدیث شریف کی نشانی کے مطابق بلندی مائل مخروطی شکل میں تھی۔ اس کے بعد اندھیرا چھا گیا اور 04:40منٹ پر قوس کی شکل میں روشنی نظر آگئی۔ یہ صبح صادق تھی کیونکہ اس کی روشنی نصف دائرے میں نمایاں تھی ۔ اس دن جنجھان سومرو میں 18درجہ زیر افق کا وقت 04:40منٹ ہی تھا۔ اگلے دن بھی قوس والی روشنی اسی وقت پر نوٹ کی گئی۔
            ان مشاہدات کے بعد کراچی کے تمام اکابر علماء نے 18درجہ زیر افق والے اوقات صبح صادق کی اوقات کی تصدیق فرمائی اور حضرت مفتی رشید احمد ؒ اس مسئلے میں اکیلے رہ گئے۔تاہم حضرت کے متعلقین حضرت ؒکے تیار کردہ نقشے استعمال فرماتے تھے اور ان کا پرچار بھی کرتے تھے۔
          • احقر کے مشاہدات
            • 1983میں احقر کو اس اختلاف کا پتہ چلا اس لئے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے مشاہدات کا پروگرام بنایا تو رمضان شریف میں تقریباً ایک مہینہ صبح صادق کے مشاہدات کئے اور تقریباً چھ مہینے شفق احمر کے مشاہدات کئے۔صبح صادق کے مشاہدات میں جب ہفتہ دس دن کے بعد آنکھیں مشاہدات کے ساتھ مانوس ہوگئیں تو 18درجہ کے قول کی تصدیق ہوگئی اور 15درجے کا قول ضعیف محسوس ہوا۔ اس نتیجے میں زیادہ قوت اس وقت آئی جب دو دفعہ 15درجہ کے وقت سے پہلے سرخی نظر آئی جبکہ ایک دفعہ ساڑھے پندرہ اور ایک دفعہ ساڑھے سولہ درجے کے مطابق شفق احمر غروب ہوا۔نیزان مشاہدات کے ذریعے یہ بھی معلوم ہوا کہ شفق احمر کے لئے کوئی خاص درجہ متعین نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ساڑھے بارہ اور ساڑھے سولہ درجے کے اوقات کے درمیان کسی بھی وقت غائب ہوسکتی ہے تو یہ بات پایہ تحقیق تک پہنچ گئی کہ 15درجے کا قول تو صحیح نہیں ہوسکتا کیونکہ پندرہ ررجے کے وقت سے پہلے چاہے سال میں ایک دن بھی سرخی نظر آئے تو 15درجے کا قول صحیح نہیں کہلائے گااور اس سے زیادہ کے اقوال میں بحث منتقل ہوجائے گی۔ اسی طرح شفق احمر کی بات بھی ہے کہ پندرہ درجے کے بعد چاہے ایک دن بھی شفق احمر موجود رہے گا تو پندرہ درجے والا قول صحیح نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ شفق ابیض کبھی بھی شفق احمر سے پہلے غائب نہیں ہوسکتا اور درجات کے لحاظ سے شفق ابیض اور صبح صادق کے اوقات ایک ہی ہیں یعنی دونوں ایک درجہ کے مطابق واقع ہوتے ہیں پس اگر شفق ابیض کا غروب 18درجے کے مطابق پایا گیا تو صبح صادق بھی 18درجے کے مطابق ہوگی۔ یہ ساری تفصیل جنوری 1984کو حضرت مفتی رشید احمد ؒ کے سامنے پیش کی گئیں۔حضرت اس وقت خاموش رہے لیکن دو تین دن کے بعد جب احقر استفادے کی نیت سے حاضر ہواتو حضرت نے انتہائی عالی ظرفی کا مظاہرہ کرکے اس مسئلے میں اپنے تشدد کے چھوڑنے کا ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ میں پہلے صرف 15درجے کے قول کو ہی واقعی قول سمجھتا تھا لیکن اب 18درجے کے قول کوبلکہ19درجے کے اقوال کوبھی نظر انداز نہیں کررہا ہوں۔ اس لئے مجھ سے فرمایا کہ بہتر ہے کہ عشاء، تہجد اور روزہ تو 18درجے کے مطابق ہوں اورفجر کی نماز میں 15درجے کے قول کی رعایت کی جائے اور یہ بھی فرمایا کہ میں بیمار ہوں سفر نہیں کرسکتا لیکن اگر آپ اس مسئلے کے لئے مجھے کسی وقت بلاناچاہیں تو بلا سکتے ہیں۔میں حضرت کی عالی ظرفی پر حیران تھا لیکن یہ ایک بڑی خوشگوار تبدیلی تھی جو کہ اس موضوع پر کام کرنے والے ایک محترم کے سمجھ میں نہیں آرہی تھی اور بار بار کہہ رہے تھے کہ جو حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ کی بات نہ مانے وہ تیری بات کیوں مانے گا۔میں نے عرض کیا کہ یہ علمی بات نہیں فنی ہے۔میں نے اگر فنی سیاق و سباق کے ساتھ اس کو پیش کیا اور حضرت نے اس کو قابل غور سمجھا تو آپ کو کیا عذر ہے ؟
          • ڈاکٹر خالد شوکت صاحب کی تصدیق
            • ڈاکٹر خالد شوکت صاحب شمالی امریکہ میں فلکیات کے شعبے میں ایک جانی پہنچانی شخصیت ہیں۔کچھ حضرات کو ہمارے مشاہدات پر تحفظات تھے لیکن وہ ڈاکٹر صاحب کے مداح تھے تو بندہ نے اپنے مشاہدات E mail کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کو ارسال کئے۔ ان کا جواب من و عن پیش کیا جاتا ہے۔آپ فلکیات کے اسلامی استعمال کے لئے ایک website بھی چلارہے ہیں
          • جدید مشاہدات
            • مئی2008میں دارلعلوم کراچی کے اساتذہ کی نگرانی میں تخصص کے طلبہ نے مشاہدات کئے ہیں۔ ان کے ساتھ بعض مشاہدات میں جامعۃ الرشید کے اساتذہ بھی شامل تھے۔ ان کے مشاہدات کی تفصیلات دی جاتی ہیں۔پہلی روئیداد بقلم مفتی حسین احمد مد ظلہ استاذ دارلعلوم کراچی ہے۔ دوسری بقلم مولانا عبد الحفیظ مد ظلہ ہے اور تیسری بقلم مولانا احسن ظفر طالبعلم تخصص سال دوم ہے۔
          • پہلی روئیداد
            • 28/ربیع الثانی 1429ھ مطابق 5/مئی 2008ء کوجامعہ دارالعلوم کراچی سے ایک جماعت صبح صادق کے مشاہدات کیلئے سندھ کے شہرمٹھی روانہ ہوئی۔ اس جماعت میں تخصص فی الافتاءکے طلباء کے علاوہ دارالافتاء کے دورفقاء مولاناعبدالحفیظ صاحب اوربندہ سیدحسین احمدبھی شریک ہوئے، جبکہ جامعہ الرشید کے دواساتذہ مولاناشہبازصاحب اورمولانافیصل صاحب بھی پہلے چاردن مشاہدات میں شریک رہے۔حضرت مفتی عبد المنان صاحب مدظلہم بھی دودن بعدتشریف لائے اورآٹھ اورنوتاریخ کے مشاہدات میں شریک رہے۔مشاہدات کی تفصیل درج ذیل ہے: مقام مشاھدہ: ’’ناتھڑا‘‘،جومٹھی شہر سے جنوب مشرق کی جانب ایک صحرا ہے، یہاں سے افق واضح نظرآتاہے۔بجلی نہ ہونے کی وجہ سے۔چاروں طرف اندھیراہوتاہے اسکاعرض البلد20.1 َ29 ْ24 اور طول البلد41.4 َ55 ْ69ہے، جبکہ مٹھی شہر کا عرض البلد 43 ْ24اور طول البلد 45 ْ69 ہے۔
            • پہلا دن 6مئی
              • مٹھی سے مقام مشاہدہ کے لئے روانگی رات 2:24 پر ہوئی اور 03:09 پر پہنچ گئے، اس دن افق پر دس، بارہ درجے تک گہرے سیاہ بادل تھے، 04:34 پر بادلوں کے اوپر آسمان پر سفید روشنی پھیلی ہوئی محسوس ہوئی۔واضح رہے کہ اس دن اٹھارہ درجے کے مطابق طلوع فجر کا وقت 4:20تھا اور 15 درجے کے مطابق طلوع فجر کا وقت 4:35تھا۔
            • دوسرادن 7مئی
              • اس دن 02:55 پر مٹھی شہر سے روانہ ہوئے اور 03:44 پر مشاہدے کے لئے ایک بلندٹیلے پر بیٹھ گئے، اس دن بھی افق پر تقریباًدس درجے تک سیاہی مائل بادل تھا ﴿جس کا ادراک خوب روشنی پھیل جانے کے بعد ہوا﴾ 04:27 پر بادلوں کے اوپر اوپر ہی روشنی کی ایک قوس نظر آئی، جس کا عرض طول کے مقابلے میں زیادہ محسوس ہورہا تھا اگر بادل نہ ہوتے تو شاید اس سے پہلے بھی روشنی نظر آجاتی۔ اس دن اٹھارہ درجے کے مطابق صبح صادق کاوقت 4:19تھاجبکہ پندرہ درجے کے مطابق وقت 4:34تھا۔4:27کے اعتبارسے سورج کازیرافق زاویہ ﴿ 16:23﴾بنتاہے۔
            • تیسرادن 8مئی
              • اس دن دو جماعتیں الگ الگ سواریوں سے مقام مشاہدہ پہنچی، پہلی جماعت 03:45 پر اور دوسری جماعت چار بجے پہنچی۔آسمان کے بالائی حصے پر ستارے خوب روشن تھے، جس کی وجہ سے افق اور آسمان کا فرق محسوس ہورہا تھا، البتہ افق کے قریب تارے نظر نہیں آرہے تھے، جس سے اندازہ ہورہاتھا کہ شاید افق پر بادل یا گرد وغبار ہے ﴿صبح جب روشنی خوب واضح ہوئی تو ہمارے خیال کی تصدیق ہوگئی اور محسوس ہوا کہ افق پر تقریباً آٹھ درجے تک سیاہی مائل بادل تھے ﴾
                04:21 پر بادلوں کے اوپر ہلکی روشنی کی ایک قوس محسوس کی گئی، شمال کی جانب یہ قوس ڈبلیو اسٹار تک پھیلی ہوئی تھی ﴿جہاں کہکشاں ختم ہورہی تھی ﴾ اور جنوب کی جانب بھی مشرقی افق پر کافی دور تک یہ قوس پھیلی ہوئی محسوس ہوئی، اس کا عرض طول کے مقابلے میں زیادہ تھا۔
                04:26 پر اس قوس میں روشنی خوب تیز ہوگئی اور عرض مزید پھیل گیا، اس وقت نیچے کے بادل واضح طور پرنظرآنے لگے۔آٹھ مئی کوصبح صاد ق کاوقت اٹھارہ درجے کے مطابق 4:18جبکہ پندرہ درجے کے مطابق 4:33تھا۔ 4:21پرسورج کازاویہ زیرافق ﴿17:26﴾ بنتاہے۔جبکہ 4:26کے حساب سے سورج کازاویہ زیرافق 16:26بنتاہے۔
            • چوتھادن 9مئی
              • 03:54 پر مقام مشاہدہ پہنچے، افق پر نیچے سیاہ رنگ کے بادل تھے، اور اوپر سفید رنگ کے بادل بہت اونچائی تک پھیلے ہوئے تھے، درمیان میں کہیں کہیں سے آسمان کا نیلگوں رنگ نظر آرہا تھا، تاہم سفید بادلوں کی وجہ سے طلوع فجر کی روشنی کا احساس نہ ہوسکا۔زمین پر خوب روشنی پھیل جانے کے بعد بھی افق پر روشنی کی حدود کا اندازہ نہیں ہورہا تھا۔
            • پانچواں دن 10مئی
              • اس دن مولاناشہباز صاحب اورمولانافیصل صاحب مشاہدات میں شریک نہیں تھے، کیونکہ وہ 9تاریخ کوواپس تشریف لے گئے تھے۔باقی ساتھی 03:46 پر مقام مشاہدہ پہنچے، افق پر کوئی بادل نہ تھا، اوپر آسمان میں بھی بادل نہیں تھے، البتہ افق کے اوپر معمولی گرد تھی، جس کا احساس سورج طلوع ہونے کے وقت ہوا۔
                04:18 پر ہلکی سفید روشنی کی ایک قوس محسوس ہوئی، جو مشرقی افق پر شمالی جانب میں ڈبلیو اسٹار کے پچھلے دو ستاروں تک پھیلی ہوئی تھی ، اور مشرقی افق پر جنوب کی جانب میں کافی دور تک محسوس ہوئی، اس قوس کا عرض، طول کے مقابلے میں واضح طور پر زائد تھا۔04:22 پر اس قوس کی حدود بہت واضح ہوئیں اور اس میں روشنی اتنی زیادہ ہوگئی کہ تحریر کی سیاہی نظر آنے لگی اگرچہ تحریر پڑھی نہیں جاسکتی تھی ۔04:39 پر اس روشنی میںحمرت بھی محسوس ہونے لگی۔
                واضح رہے کہ 04:18 پر روشنی کی جو قوس نظر آئی تھی اس کے بعد کوئی اندھیرا محسوس نہیں ہوا بلکہ یہ روشنی مسلسل بڑھتی ہی رہی۔
                دس مئی کواٹھارہ درجے کے مطابق صبح صادق کا وقت 04:16 جبکہ 15 درجے کے مطابق صبح صادق کا وقت 04:31 تھا۔4:18کے اعتبارسے سورج کازیرافق زاویہ ﴿17:44 ﴾بنتاہے۔
            • چھٹادن 11مئی
              • اس دن افق پرنیچے سیاہ رنگ کے گہرے بادل تھے، اوران کے اوپرسفیدرنگ کے بادل بہت اونچائی تک پھیلے ہوئے تھے۔ اسلئے مشاہدہ نہ ہوسکا۔
                واضح رہے کہ ان چھ ایام میں کبھی بھی ذنب السرحان کی طرح کوئی روشنی نظرنہیں آئی اس سے ان بعض فقھاء کرام کے قول کی تائیدہوتی ہے جوفرماتے ہیں کہ صبح کاذب پورے سال نظرنہیں آتی صرف سردیوں میں نظرآتی ہے۔
                فِی الشرْحِ الْکَبیِرلِلْدَرْدِیرْ ج۱ ص ۹۷۱ ’’وَلِلصُّبْحِ ﴾ ﴿ مِنْ الْفَجْرِ ﴾ أَیْ ظُہُورُ الضَّوْء ِ ﴿الصَّادِقِ﴾ وَہُوَ الْمُسْتَطِیرُ أَیْ الْمُنْتَشِرُ ضِیَاؤُہُ حَتَّی یَعُمَّ الْأُفُقَ احْتِرَازًا مِنْ الْکَاذِب وَہُوَ الْمُسْتَطِیلُ بِاللَّامِ وَہُوَ الَّذِی لَا یَنْتَشِرُ بَلْ یُطْلَبُ وَسَطَ السَّمَائ ِ دَقِیقًا یُشْبِہُ ذَنَبَ السِّرْحَانِ وَلَا یَکُونُ فِی جَمِیعِ الْأَزْمَانِ بَلْ فِی الشِّتَاء ِ ثُمَّ یَظْہَرُ بَعْدَہُ ظَلَامٌ ثُمَّ یَظْہَرُ الْفَجْرُ الْحَقِیقِیُّ
                وفِی مِنْحِ الْجَلیل ج۱ ص۸۸۳ ’’﴿ وَ ﴾ الْوَقْتُ الْمُخْتَارُ ﴿ لِلصُّبْحِ ﴾ مَبْدَؤُہُ ﴿ مِنْ ﴾ طُلُوعِ ﴿ الْفَجْرِ الصَّادِقِ ﴾ الْمُنْتَشِرِ یَمِینًا وَشِمَالًا حَتَّی یَعُمَّ الْأُفُقَ وَاحْتَرَزَ بِالصَّادِقِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ الْکَاذِبِ وَیُسَمَّی الْمُحْلِفَ بِکَسْرِ اللَّامِ الْمُسْتَطِیلِ الَّذِی لَا یَنْتَشِرُ وَیَرْتَفِعُ الَی جِہَۃِ السَّمَاء ِ دَقِیقًا یُشْبِہُ بَیَاضَ بَاطِنِ ذَنَبِ الذِّئْبِ الْأَسْوَدِ فِی أَنَّ کُلًّا بَیَاضٌ یَسِیرٌ فِی شَیْئ ٍ مُظْلِمٍ مُحِیطٍ بِہِ یَکُونُ فِی فَصْلِ الشِّتَاءِ ثُمَّ یَغِیبُ وَیَطْلُعُ الْفَجْرُ الصَّادِقُ بَعْدَہُ
                اوران مشاہدات میں اٹھارہ درجے کے قریب جوروشنی نظرآئی اس کوصبح کاذب کہناممکن نہیں کیونکہ اس کی شکل وہ نہ تھی جواحادیث میں بیان کی گئی ہے اورفقھاءِ کرام نے اس کی تعبیرذنب السرحان وغیرہ سے کی ہے۔بلکہ اس کی شکل قوس کی تھی، اورقوس میں عرض طول کے مقابلے میں زیادہ ہوتاہے، اورمشاہدہ میں بھی عرض زیادہ محسوس ہورہاتھا، جبکہ صبح کاذب میں طول عرض کے مقابلے میں زیادہ ہوتاہے۔
                تیسرایہ کہ صبح کاذب کی علامات میں یہ بھی لکھاہے کہ اس کے بعداندھیراچھاجاتاہے، جبکہ بعض حضرات کے قول کے مطابق اگرچہ مکمل اندھیرانہیں چھاتالیکن روشنی نیچے آجاتی ہے جوبعدمیں صبح صادق کی روشنی سے مل جاتی ہے، جبکہ مشاہدہ میں جوروشنی نظرآئی اس کے بعداندھیرانہیں چھایا اورنہ وہ روشنی کم ہوئی بلکہ مسلسل بڑھتی رہی۔ واللہ اعلم بالصواب
                سید حسین احمد دارالافتاء دارالعلوم کراچی نوٹ: چھ اورسات مئی کوافق پرنیچے نیچے بادل ہونے کی بناءپریہ فیصلہ کیاگیاکہ دوسرے مقامات پربھی جماعتیں بھیج کرمشاہدہ کرناچاہیئے ممکن ہے دوسری جگہ مطلع صاف ہو، چنانچہ ایک جماعت جس میں مولاناشہباز صاحب،مولاناعبد الحفیظ صاحب اورتخصص کے چندساتھی تھے موجودہ مقام مشاہدہ سے تقریباپچاس کلومیٹرجنوب میں ایک مقام ’’چچھی درس‘‘گئے، اس جماعت نے آٹھ مئی کومشاہدہ کیا،جس کی روئیداد بھی منسلک ہے۔ جبکہ دوسری جماعت تخصص کے دوساتھیوں پرمشتمل مٹھی شہرکے شمال میں واقع ایک شہر’’کھپرو‘‘گئی، انہوں نے بھی آٹھ مئی اورنومئی کومشاہدہ کیاجس کی روئیداد منسلک ہے﴾
          • دوسری روئیداد۔ دوسری ٹیم کی رپورٹ
            • 8مئی
              • اہمی مشورے سے ایک جماعت جس میں بندہ دارلعلوم کے تخصص سال دوم کے تین طلباء اور جامعۃ الرشید کی طرف سے مولانا شہباز صاحب تھے، کی تشکیل ایک صحرائی مقام’’ چھچھی درس‘‘ کی طرف کی گئی، اس تشکیل سے مقصود یہ تھا کہ مزید بہتر مقام مشاہدہ مل جائے، جہاں روشنی اور گرد وغیرہ کم سے کم ہوں۔ہم مذکورہ پانچ افراد بمع راہبر ﴿مولانا موسیٰ صاحب﴾ ایک جیپ پر روانہ ہوئے۔تقریباً نصف سفر پختہ سڑک پر اور نصف صحرائی ریت پر کرنے کے بعد ڈیڑھ سے پونے دو گھنٹے کے دورانیئے میں ہم مقام چھچھی درس پہنچے،اس وقت رات کے بارہ بج چکے تھے۔ اسی مقام میں ہمیں مغربی جانب ایسا بلند ٹیلہ مل گیا جس پر باآسانی مشاہدہ کیا جاسکتا تھا۔ہم نے میزبان محمد موسیٰ صاحب کے پاس سوا تین بجے تک آرام کیا، اس کے بعد تقریباً چار بجے سے پہلے پہلے ٹیلے پر مشاہدے کے لئے پہنچ گئے۔آسمان پر ستارے کافی واضح اور روشن تھے۔ افق پر نچلے حصّے میں بعض جگہوں پر بادل کے ٹکڑے موجود تھے لیکن پہلے دو دنوں کی نسبت مطلع بالکل صاف تھا۔
                4:11 پر بعض ساتھیوں کو افق کی جانب تکون نما روشنی محسوس ہوئی تاہم اس کی حتمی شکل متعین کرنا مشکل تھا، اس کے بعد ایک مرحلہ ایسا گزرا کہ سامنے کی جانب سے آنے والے ٹرک کی روشنی نے مشاہدے میں کچھ خلل ڈالا لیکن اﷲ تعالیٰ کی مہربانی سے وہ کچھ دیر بعد ایک طرف نکل گیا۔ اب دوبارہ تمام افراد کی نظریں یکسوئی کے ساتھ افق پر جم گئیں۔ ساتھ ساتھ شمالی اور جنوبی افق کو وقتاً فوقتاً مدّ نظر رکھا تاکہ مشرقی افق پر پھیلنے والی روشنی کا واضح احساس ہوسکے، 4:24پرقوس نما روشنی افق پر پھیلی ہوئی دکھائی دی، جسے دیگر ساتھیوں نے قوس تسلیم کیا۔ اس روشنی کا عرض اس کے طول سے زائد دکھائی دے رہا تھا۔ پھر یہی روشنی واضح ہوتی گئی یہاں تک کہ مولانا شھباز صاحب نے فرمایا کہ’’ اس روشنی کے صبح صادق ہونے میں کوئی شبہ نہیں، دیکھو وقت کیا ہے ؟‘‘ تو بندہ نے بتایا کہ 4:26منٹ ہیں۔ اور پھر 4:32پر یہ روشنی اتنی زیادہ ہوگئی کہ مولانا شھباز صاحب نے ظرافتہً مسکرا کر فرمایا کہ ’’ اس روشنی کے صبح صادق ہونے میں کسی کافر کو ہی شبہ ہوسکتا ہے ‘‘ اور فرمایا کہ اگر کوئی عام آدمی بھی سو کر اٹھے تو اس روشنی کو دیکھ کر کہے گا کہ صبح ہوگئی ہے۔ اور اسی دوراں قریب سے اذان کی آواز سنائی دی۔ اس کے بعد ہم نے اسی ٹیلے پر نماز فجر ادا کی۔
                دستخط عبد الحفیظ رفیق *دارالافتاء دارلعلوم کراچی* بندہ بھی اس مشاہدے میں شریک تھا۔بندہ بھی اس رائے کے موافق ہے۔
                دستخط عطاءالرحمان * دستخط محمد فرحان فاروقی * دستخط محمد نوید عالم ﴿تینوں حضرات تخصص سال دوم میں تخصص کر رہے ہیں۔
        • ﴿تیسری روئیداد﴾ کپرشو میں صبح صادق کا مشاہدہ
          • 8مئی
            • بندہ احسن ظفر اور مولانا زاہد سانگھڑوی صاحب اساتذہ کرام کے مشورہ سے 7مئی بروز بدھ شام چھ بجے مٹھی سے کھپرو کے لئے روانہ ہوئے۔رات 11:45پر مفتی سعید صاحب کے یہاں کھپرو پہنچ گئے۔مفتی سعید صاحب کے ہمراہ رات دو بجے قریبی گاؤں راڑ میں مولانا عبد الرزاق صاحب کے مکتب پہنچے۔ انہیں ساتھ لے کر رات تقریباً تین بجے ہم لوگ ایک ایسے ٹیلے پر پہنچے جس کی مشرقی سمت صحرا تھا اور دور دور تک آبادی نہیں تھی۔چار بجے کے قریب سارے ساتھی مشاہدے کے لئے متوجہ ہو گئے۔4:14 پر بندہ کو افق پر ایک مثلث سی معلوم ہورہی تھی لیکن یہ مثلث بہت ہی خفیف تھی۔چار بج کر 23منٹ پر سب نے اتفاق کیا کہ اب افق واضح ہوگیا ہے اور تبین کی کیفیت ہوگئی ہے۔ 4:29منٹ افق پر نصف دائرہ کی شکل واضح طور پر بن گئی اور سب نے اس کا مشاہدہ کیا اور 04:31منٹ پر اس کی گولائی کم ہوتی ہوئی معلوم ہورہی تھی اور 04:33پر گولائی مکمل ختم ہوگئی اور روشنی عرضاً افق کے دونوں طرف پھیل گئی پھر جوں جوں روشنی مزید ہوتی گئی تو معلوم ہوا کہ افق پر تقریباً 12درجے تک باریک بادل موجود ہیں۔
          • 9مئی
            • 8مئی رات تقریباً گیارہ بجے بندہ، مولانا زاہد صاحب، مفتی سعید صاحب اور ان کے مدرسے کے ایک مدرس صاحب کھپرو سے تقریباً پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاًؤں باکھرے جی پہنچے۔کچھ آرام کے بعد رات تین بجے صحرا میں ایک اونچے ٹیلے کی طرف روانہ ہوئے۔تقریباً 30منٹ بعد ہم لوگ ٹیلے کے او پر پہنچ گئے۔ یہاں افق پر ستارے واضح نہ تھے۔شمال مشرقی طرف دور کسی گاؤں کی روشنی افق پر اثر انداز ہورہی تھی۔ 04:12 پر افق کے اوپر ایک مثلث کی شکل معلوم ہورہی تھی۔04:27پر سب کو روشنی افق پر پھوٹتی ہوئی معلوم ہورہی تھی لیکن افق واضح نہیں تھا اور تبین کی کیفیت جو گزشتہ روز ہوئی تھی ایسا نہ تھا۔ افق کے اوپر اس روشنی میں اضافہ ہورہا تھا لیکن افق واضح نہیں ہورہا تھا۔جب کچھ روشنی مزید ہوئی تو معلوم ہوا کہ افق پر کافی بادل ہیں جس کی وجہ سے اوپر اوپر تو روشنی میں اضافہ ہورہا تھا لیکن افق کافی دیر تک واضح نہیں ہوا۔
        • علمی مباحث
          • 18درجہ زیر افق کے مطابق ظاہر ہونے والی روشنی کی کیفیت
            • مشاہدات کی تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ 18درجات زیر افق کے حساب سے جو روشنی ظاہر ہوتی ہے وہ قوس کی شکل میں ہوتی ہے اور افق پر اس کا پھیلاؤ اس کی افق سے بلندی سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر چہ یہ روشنی ابتدا میں مقدار میں کم ہوتی ہے لیکن بہت جلدی اس میں تیزی آتی ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ افق پر تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہو حالانکہ اس کے انتہائی حدود گو کم روشنی سے لیکن ابتدا ہی سے قوس کی شکل میں ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اس وقت اس کی کیفیت گویا کہ قرآنی سفید دھاری کی سیاہ دھاری سے واضح فرق کا عملی نمونہ ہوتی ہے کیونکہ تبین کا مطلب یہاں صبح کی روشنی کی رات کے اندھیرے سے واضح فرق ہے اور یہ فرق ابتدا ہی سے واضح ہوجاتا ہے۔ جن حضرات نے بھی تفصیلی مشاہدات کئے ہیں انہوں نے یہ نوٹ کرایا ہے کہ ابتدائی مشاہدات میں اگر یہ تبین محسوس نہیں ہوتا تو یہ مشاہدات کے ساتھ آنکھوں کے مانوس نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے جب چند دن مشاہدات کرنے سے آنکھیں مانوس ہوجاتی ہیں تو پھر یہ تبین ابتدا سے ہی ہونے لگتا ہے جیسا کہ احقر اور دارلعلوم کراچی کے علماء کے مشاہدات کے روزانہ ترتیب سے اندازہ ہوتا ہے لیکن ایک دفعہ جب یہ صلاحیت حاصل ہوجاتی ہے تو پھر عموماً زائل نہیں ہوتی جیسا کہ مولانا عاشق الٰہی صاحب ؒ نے بالکل ابتدا سے ہی صحیح وقت نوٹ کرایا تھا۔روشنی کے قوس میں روشنی میں تیزی کے ساتھ اضافہ وہ سرعت ہے جو کہ بعض فقہاء نے اس کی علامت کے طور پر لکھی ہے۔
              اس قسم کی روشنی کا سائنسی نام Astronomical twilight ہے۔ سینئر سائنٹفک آفیسر سپارکو اپنی چھٹی نمبر SR-3(9)/73 مورخہ 21ستمبر 1973پروفیسر عبد اللطیف صاحب کو لکھتے ہیں۔
              At the begining of morning twilight (SDA. 18 degree) the entire horizon is illuminated with faint reddish light . It is distributed all along the horizon in a circular form of distribution rather than a conical or rectangualr form. The light intensity increases without any apparent change in the form of distribution.
              اس کا ترجمہ ہے کہ’’ جب سورج افق سے 18درجہ نیچے ہوتا ہے تو اس وقت سارا افق ہلکی سرخی مائل روشنی کے ساتھ منور ہوجاتا ہے یہ سارے افق پر قوس کے شکل میں پھیلی ہوئی ہوتی ہے نہ کہ مخروطی یا مستطیل روشنی کی طرح۔ اس میں روشنی کی مقدار وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہوتی ہے لیکن اس کے قوس والی شکل میں فرق بظاہر نہیں ہوتا۔‘‘
          • 15درجہ زیر افق کے مطابق ظاہر ہونے والی روشنی کی کیفیت
            • یہ روشنی بھی قوس کی شکل میں ہوتی ہے لیکن یہ 18درجہ زیر افق کے مطابق جو قوس کی شکل پہلے بن چکی ہوتی ہے، اس کا تسلسل ہوتا ہے۔بادی النظر میں اس کی شکل میں اور 18درجہ زیر افق کی روشنی کے شکل میں صرف اتنا فرق ہوتا ہے کہ یہ زیادہ روشن ہوتی ہے اور اس کے فوراً بعد سارا افق روشن ہوجاتا ہے ۔نیز اس کے مشاہدے کے لئے کسی قسم کے تجربے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک ناتجربہ کار شخص بھی پہلے دن اس کو محسوس کرلے گا جبکہ 18درجہ زیر افق کی روشنی کو دیکھنے کے لئے ابتدا میں تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔تاہم جب ایک دفعہ اس کا تجربہ ہوجائے تو پھر جب بھی اس کو دیکھنا چاہے گا تو پھر کسی اور تجربے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ پرانا تجربہ ہی کافی ہوگا۔ ان شاء اﷲ۔
              یہ تجربہ صرف آنکھوں کو مانوس کرنے کے لئے ہوتا ہے جو کہ تقریباً ہفتہ دس دن میں محسوس ہونا شروع ہوجا تا ہے۔ہمیں بھی ابتدا میں یہ قوس 15درجہ زیر افق کے مطابق نظر آئی لیکن ہفتہ دس دن کے بعد ہم نے دیکھا کہ یہ تو چھ سات منٹ پہلے شروع ہوجا تی ہے اور پھر روزانہ یہ فصل بڑھتا گیا حتی کہ مہینے کے اختتام میں تقریبا ً 18 درجہ زیر افق کے برابر ہوگیا۔پس جس نے صرف چند دن مشاہدہ کیا ان کو 15درجہ زیر افق کے وقت قوس بنتی ہوئی نظر آئی اور جس نے زیادہ مشاہدات کئے ان کو یہ 18درجہ زیر افق کے وقت سے نظر آنا شروع ہوا۔ یہ گمان کرناکہ جب روشنی زیادہ ہو تو تبین اس وقت ہوگا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ یہاںتبین کا مطلب فجر کی سفید دھاری اور سیاہ دھاری کے درمیان واضح فرق کا ہوناہے جو کہ 18درجہ زیر افق پر ہوجاتا ہے اور اس میںروشنی سورج طلوع ہونے تک بڑھتی رہتی ہے۔
          • بروجی روشنی کی کیفیت
            • جیسا کہ اس کتاب کے آخر میں انڈکس میں اس کا انگریزی متن موجود ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ روشنی طولانی ہوتی ہے اور بعض حالات میں 60درجہ افق سے بلندی تک جاسکتی ہے۔ اس پر تاریک راتوں میں صبح کا دھوکہ ہوسکتا ہے۔ یہ سورج کی روشنی ہوتی ہے لیکن براہ راست نہیں بلکہ سورج کی روشنی بین السیاراتی ذرات سے منعکس ہو کر افق پر ظاہر ہوتی ہے۔ سورج کی روشنی اگر براہ راست افق پر نہ آئے بلکہ کسی چیز سے منعکس ہو کر آئے تو اس کی شکل اسی چیز کے مطابق ہونی چاہیئے جس سے وہ منعکس ہو کر آرہی ہو۔ سورج کے گرد جو بین السیاراتی ذرات ہیں ان کا ارتکاز دائرۃ البروج کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے اس لئے اس سے منعکس شدہ روشنی اسی دائرۃ البروج کے ساتھ ساتھ ہوگی۔پس اگر دائرۃ البروج افق کے متوازی ہو تو یہ روشنی بھی افق کی متوازی یعنی افقی ہوگی ۔ ایسا قطبین پر ممکن ہے اوراگر دائرۃ البروج افق پر عموداً ہو تو یہ روشنی بھی افق پر عموداً قائم ہوگی یعنی اس کی افق سے بلندی اس کی افق پر پھیلاؤ سے زیادہ ہوگی۔ ایسا خط استوا پر ممکن ہے۔باقی عرض بلد والے علاقوں پر اس کی کیفیت درمیانی ہونی چاہیئے۔ اگر مدینہ منورہ میں اس روشنی کو دیکھنے کی کوشش کی جائے تو مدینہ منورہ کا عرض بلد چونکہ تقریباً24درجہ ہے جو کہ عمود کے قریب ہے اس لئے مدینہ منورہ میں اس کی شکل ایسی لمبوتری ﴿مستطیل ﴾ہونی چاہیئے جو افق کے ساتھ ایک زاویہ بنا رہی ہوتی ہے۔ یہ قوس کی شکل میں نہیں ہوتی بلکہ عرض بلد کے مطابق افق کے ساتھ ایک زاویہ بناتی ہوئی لمبی، اہرام نما یا بھیڑئے کی دم کی طرح روشنی ہوتی ہے۔ سائنسدان اس کو False dawn کہتے ہیں۔
          • صبح صادق کونسی روشنی کو کہا جاسکتا ہے ؟
            • احادیث شریفہ نمبر 1،3، 4،5،7اور 8 کے مطابق صبح صادق وہ پہلالمحہ ہے جب افق پر مستطیر روشنی ظاہر ہوجائے۔صفحہ نمبر4پر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ سورج کی روشنی جب افق پر مستطیر ہوگی تو اس وقت اس کی شکل قوس کی ہوگی۔ پس پہلی دفعہ جو روشنی رات کی سیاہ خط سے دن کی سفیدی کا تبین کرواے اور احادیث شریفہ کے مطابق افق پر وہ قوس کی شکل میں پائی جائے تواس پر مکمل صبح صادق کی تعریف صادق آتی ہے اور ایسا پہلی دفعہ 18درجہ زیر افق پر ہوجاتا ہے اس لئے یہی صبح صادق ہے۔
          • 15درجہ زیر افق کی روشنی کی حیثیت کیا ہے ؟
            • چونکہ صبح صادق اس سے پہلے 18درجہ زیر افق پر واقع ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد طلوع افتاب تک فجر کا وقت ہے،پس یہ روشنی بھی فجر کے وقت کی ہے یعنی اس دوران فجر کا وقت جاری رہتا ہے۔ سحری میں کھانے پینے کی گنجائش چونکہ صبح صادق کے پہلے لمحے تک تھی اور وہ 18درجہ زیر افق کی روشنی کے ظہور کے ساتھ ختم ہوچکی اس لئے 15زیر افق تک جو بھی کھائے گا پیئے گا اس کا روزہ نہیں ہوگا۔
          • صبح کا ذب کونسی روشنی ہے ؟
            • اس کی جو علامات احادیث شریفہ اور فقہ میں موجود ہیں،اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
            • -1یہ روشنی صبح صادق سے پہلے ظاہر ہوتی ہے۔
            • -2اس پر عام لوگوں کو جن کو علامات کا پتہ نہ ہو صبح کا دھوکہ ہوسکتا ہے۔
            • -3یہ روشنی مستطیل بمعنی لمبوتری ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ افق سے اس کی بلندی اسکی افق پر پھیلاؤ سے زیادہ ہوتی ہے۔تفسیر روح المعانی،تفسیر خازن،مرقات المفاتیح، بحر الرائق،کتاب الفقہ المذاہب الاربعہ نے صبح کاذب کو بھیڑیئے کے دم سے تشبیہ دی ہے۔
            • -4تفسیر خازن،مرقات المفاتیح،بحر الرائق،کتاب الفقہ المذاہب الاربعہ اور شامی میں اسکا ظاہر ہونے کے بعد صبح صادق سے پہلے غائب ہوجا نا بھی بتایا گیا ہے۔
            • -5کچھ حضرات کے نزدیک یہ بالکل غائب تو نہیں ہوتی لیکن اس کا بلند حصّہ غائب ہوکر صبح صادق کی روشنی میں مل جاتا ہے۔
            • -6ان دو قولوں میں تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ جن کی نظریں اس کے بلند حصّے پر تو ہو لیکن اس کے افقی حصّے پر نہ ہو ان کے نزدیک یہ روشنی غائب ہوجاتی ہے ۔صحرا و غیر ہ میں اس قسم کا مشاہدہ ممکن ہے۔ اور جن کی نظریں اس کی افقی حصّے پر بھی ہوں تو ان کے نزدیک صرف اس کا بلند حصّہ غائب ہوتا ہے۔پہاڑ یا مینار سے اس قسم کا مشاہدہ ممکن ہے۔چونکہ اکثر لوگ نیچے سے مشاہدہ کرتے ہیں اس لئے پہلی صورت کا مشاہدہ اکثر بتایا جاتا ہے۔
            • -7مصباح اللغات میں ذنب السرحان کے سامنے فجر کاذب لکھا ہے گویا یہ دو مترادف الفاظ ہیں۔
            • احادیث شریفہ اور فقہ میں صبح صادق اور کاذب کی علامات بتائی جاتی ہیں۔ یہ کن درجات پر ہوتی ہے یہ بعد میں ماہرین ان علامات اور مشاہدات کے ذریعے خود متعین کرتے ہیں۔ اکابر کے، احقر کے، اور دارلعلوم کراچی کے اساتذہ و طلبہ کے جو مشاہدات دیئے گئے ہین ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 18درجہ زیر افق پر ظاہر ہونے والی روشنی افق پر قوس کی شکل میں نمودار ہوتی رہی ہے اس لئے اس کو تو صبح کاذب نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مستطیر بمعنی قوس کی شکل میں روشنی صبح کاذب کی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی افق سے بلندی افق پر پھیلاؤ سے کم ہے جبکہ صبح کاذب میں احادیث شریفہ نمبر1،4،5اور7کے مطابق افق سے اس کی بلندی اس کی افق پر پھیلاؤ سے زیادہ ہونا ضروری ہے نیز فقہاء کرام کی تحقیق کے مطابق یہ ظاہر ہونے کے بعد صبح صادق سے پہلے غائب ہوجاتی ہے ورنہ اس پر تو فقہاء کرام کا اجماع ہے کہ صبح صادق سے پہلے اس کی روشنی بلندی سے اتر جاتی ہے۔18درجہ زیر افق کی روشنی جب ظاہر ہوتی ہے تو یہ پھر غائب نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی روشنی کم ہوتی ہے۔ یہی مشاہدہ جامعۃ الرشید کے استاد مولانا شھباز صاحب کا بھی تھا جس کی تصدیق احقر نے بذریعہ ٹیلیفون مولانا موصوف سے کروائی ہے۔ اس لئے جو حضرات کہتے ہیں کہ 18درجہ زیر افق کی روشنی صبح کاذب کی ہے مشاہدات ان کا ساتھ دیتے نظر نہیں آتے اور فیصلہ مشاہدات پر ہونا ہے اس لئے ان کا قول قابل قبول ہر گز نہیں ہوسکتا۔
              دوسری طرف صبح کاذب کی جو علامات کتابوں میں لکھی ہیں وہ بروجی روشنی پر ساری کی ساری منطبق ہوتی ہیں۔قارین کرام خود ہی صبح کاذب کی علامات اور بروجی روشنی کی تفصیلات کا آپس میں تقابل کرکے دیکھیں۔ اب رہا یہ سوال کہ بروجی روشنی ماہرین فلکیات کی دریافت اس کا شرعی امور کے ساتھ کیا واسطہ ؟ تو اس کے لئے عرض ہے کہ صبح کاذب کے ساتھ بھی ہمارا کسی قسم کا شریعت کے لحاظ سے واسطہ نہیں البتہ فقہاء کرام نے اس کی تفصیلات کتابوں میں اس کی معرفت کے لئے دے دیں۔ اب ہمارے لئے تو صبح کاذب کی بات کافی تھی لیکن جب سائنس کا دور آیا تو ان کے لئے یہ ایک سوال تھا کہ اسکی روشنی کس قسم کی ہے ۔18درجہ زیر افق کی روشنی کا تو وہ جان چکے تھے کہ یہ سورج کی براہ راست روشنی ہے لیکن صبح کاذب کی روشنی کا سراغ ان کو نہیںملا تھا۔ اس کی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ دائرۃ البروج میں پھیلے ہوئے ذرات سے منعکس ہونے والی سورج کی روشنی ہے جس کی روشنی بروجی پٹی کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے اس لئے انہوں نے اس کا نام بروجی روشنی رکھا۔ اب جیسا کہ صبح صادق کو انہوں نے Astronomical twilightکہا تو ہم نے ان کے لئے اس کو نہیں چھوڑا اس طرح اگر انہوں نے صبح کاذب کا نام بروجی روشنی رکھا تو کیا ہوا وہ ہے تو صبح کاذب ہی۔ہمیں تو علامات کے لحاظ سے اس کو دیکھنا ہے نہ کہ نام کے لحاظ سے اس کو دیکھنا۔ یہ تو ایک اتفاق ہے کہ کچھ سائنسدان بھی اس کو Dawnیعنی صبح صادق کا مشابہ سمجھ کر False Dawnکہنے لگے ہیں لیکن اس کی حاجت نہیں ہمارے لئے علامات کافی ہیں۔
        • چند اشکالات اور ان کے جوابات
          • اشکال نمبر 1
            • چونکہ ان مشاہدات میں صبح کاذب نظر نہیں آیا ہے اس لئے جس روشنی ﴿18درجہ زیر افق والی ﴾ کو صبح صادق سمجھاگیا ہے وہ فی الحقیقت صبح کاذب ہے کیونکہ صبح کاذب کا ہر روز نظر آنا ضروری ہے جیسا کہ صبح صادق روزانہ نظر آتا ہے ۔
              جواب۔ اس سوال کا جواب دینے کے لئے اس کے تین حصّے کرتے ہیں۔
              پہلا حصّہ۔کیا 18درجہ زیرافق کی روشنی کو صبح کاذب کہا جاسکتاہے ؟
              دوسرا حصّہ۔ اگر نہیں تو صبح کاذب پھر کب نظر آتا ہے ؟
              تیسرا حصّہ۔ کیا صبح کاذب کا ہر روز نظر آنا ضروری ہے۔
              پہلے حصّے کا جواب صفحہ نمبر 17اور 18پر موجود ہے۔
              دوسرے حصّے کا جواب یہ ہے کہ اس کو آجکل سائنسدان بروجی روشنی کہتے ہیں ۔صفحہ نمبر18پر بروجی روشنی کی کیفیت اور صفحہ نمبر19پر صبح کاذب کی علامات موجود ہیں۔ ان کا آپس میں مقابلہ کیا جائے۔ اس سے اس کا جواب کہ صبح کاذب کب نظر آتا ہے خود بخود سامنے آئے گا۔
              اب تیسرے حصّے ’’ کیا صبح کاذب کا ہر روز نظر آنا ضروری ہے ؟‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں۔
              احادیث شریفہ سے جو بات ہر زمانے کے لئے قابل عمل واضح طور پر معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب تک مستطیر روشنی جس کی افق سے بلندی اس کے افق پر پھیلاؤ سے کم ہوتی ہے نظر نہ آئے سحری میں کھانے پینے سے نہیں رکنا چاہیئے۔ اس کے برعکس اگر ایسی روشنی نظر آئے جو طولانی ہو یعنی اس کی بلندی افق پر اس کے پھیلاؤ سے زیادہ ہو اس کا اعتبار نہ کیا جائے۔پہلے علامت والی روشنی صبح صادق کی ہے اور دوسری علامت والی روشنی صبح کاذب کی۔ اس سے صبح کاذب کا ہمیشہ نظر آنا ضروری ثابت نہیں ہوتا۔صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایسی روشنی نظر آئے تو اس کا اعتبار نہ کیا جائے کیونکہ یہ صبح صادق نہیں ہے ۔بعض فقہاء نے صاف لکھا ہے کہ ایسی روشنی سردیوں میں نظر آتی ہے مثلاً
              فقہ مالکیہ کی کتاب الشرْحِ الْکَبیِرلِدَرْدِیرْ میں لکھا ہے۔ ’’وَلِلصُّبْحِ ﴾﴿ مِنْ الْفَجْرِ ﴾ أَیْ ظُہُورُ الضَّوْئ ِ ﴿الصَّادِقِ﴾ وَھُوَ الْمُسْتَطِیرُ أَیْ الْمُنْتَشِرُ ضِیَاؤُہُ حَتَّی یَعُمَّ الْأُفُقَ احْتِرَازًا مِنْ الْکَاذِب وَھُوَ الْمُسْتَطِیلُ بِاللَّامِ وَھُوَ الَّذِی لَا یَنْتَشِرُ بَلْ یُطْلَبُ وَسَطَ السَّمَاءِ ِ دَقِیقًا یُشْبِہُ ذَنَبَ السِّرْحَانِ وَلَا یَکُونُ فِی جَمِیعِ الْأَزْمَانِ بَلْ فِی الشِّتَاء ِ ثُمَّ یَظْہَرُ بَعْدَہُ ظَلَامٌ ثُمَّ یَظْہَرُ الْفَجْرُ الْحَقِیقِیُّ ’’
              اور منح الجلیل شرح مختصر خلیل جلد اول صفحہ نمبر388 میں ہے۔ ’’﴿ وَ ﴾ الْوَقْتُ الْمُخْتَارُ ﴿ لِلصُّبْحِ ﴾ مَبْدَؤُہُ ﴿ مِنْ ﴾ طُلُوعِ ﴿ الْفَجْرِ الصَّادِقِ ﴾ الْمُنْتَشِرِ یَمِینًا وَشِمَالًا حَتَّی یَعُمَّ الْأُفُقَ وَاحْتَرَزَ بِالصَّادِقِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ الْکَاذِبِ وَیُسَمَّی الْمُحْلِفَ بِکَسْرِ اللَّامِ الْمُسْتَطِیلِ الَّذِی لَا یَنْتَشِرُ وَیَرْتَفِعُ الَی جِہَۃِ السَّمَاءِ ِ دَقِیقًا یُشْبِہُ بَیَاضَ بَاطِنِ ذَنَبِ الذِّئْبِ الْأَسْوَدِ فِی أَنَّ کُلًّا بَیَاضٌ یَسِیرٌ فِی شَیْئ ٍ مُظْلِمٍ مُحِیطٍ بِہِ یَکُونُ فِی فَصْلِ الشِّتَاءِ ِ ثُمَّ یَغِیبُ وَیَطْلُعُ الْفَجْرُ الصَّادِقُ بَعْدَہُ ’’ ۔ ان تحریروں میں خط کشیدہ حصّوں کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ صبح کاذب کی روشنی ہر موسم میں نظر آنا ضروری نہیں بلکہ اس کو سردیوں میں زیادہ بہتر دیکھا جاسکتا ہے۔
              مالکیہ میں شھاب الدین احمد بن ادریس القرافیؒ بھی صبح کاذب کاظہور شتاء کے ساتھ مشروط بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں ﴿وکثیر من الفقہاء لا یعرف حقیقتہ ویعتقد أنہ عام الوجود فی سائر الأزمنۃ وہو خاص ببعض الشتائ﴾۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہرجگہ یہ صرف سردی کے دو مہینوں میں ہی نظر آسکتا ہے۔منطقہ حارہ میں یہ سارا سال بھی نظر آسکتا ہے لیکن ہرجگہ یہ مطالبہ کرنا کہ ہر موسم میں نظر آئے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ ان عبارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فقہاء جس کو صبح کاذب کہتے ہیں وہ نشانیاں بروجی روشنی پر صادق آتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روشنی اونچے عرض بلد پر ستمبر سے نومبر تک زیادہ بہتر حالت میں نظر آتی ہے البتہ یہ روشنی خط استوا کے آس پاس ہر رات نظر آسکتی ہے بشرطیکہ چاندنی زیادہ نہ ہو۔درمیانے عرض بلد پر یہ موسم و بہار و خزان میں زیادہ بہتر نظر آسکتی ہے۔ موسم بہار میں جب کہ درمیانی درجات عرض بلد پر یہ تقریباً عموداً پڑرہی ہوتی ہے تو یہ شفق ابیض کے بعد نظر آتی ہے ۔﴿امداد الاحکام میں اس کا مشاہدہ بالتفصیل دیا ہوا ہے اور حضرت تھانوی ؒ کا اس پر تبصرہ بھی ہے ﴾۔ اس کو شفق کاذب کہہ سکتے ہیں جبکہ اس کے برعکس موسم خزاں میں یہ صبح صادق سے پہلے نظر آتی ہے۔جیساکہ پروفیسر عبد الطیف صاحب نے اپنے احباب کی معیت میں اس کو کراچی میں دیکھا ہے ﴿ص 80صبح صادق اور صبح کاذب﴾۔
              منطقہ حارہ میں بروجی روشنی سال کے زیادہ حصّے میں دیکھی جاسکتی ہے اس لئے کراچی جو کہ منطقہ حارہ کے کنارے پر واقع ہے مناسب موسم میں اگست سے نومبر تک کے مہینوں کے علاوہ بھی بروجی روشنی بمعنی صبح کاذب نظر آسکتی ہے جیساکہ جدید مشاہدات ﴿کھپرو و چھچی درس میں(04:10سے 04:14تک تین دن تکونی روشنی نظر آئی۔مشاہدہ کرنے والوں کو شاید ان تفصیلات کا علم نہیں تھا اس لئے وہ اس کا پورا ادراک نہیں کرسکے۔پروفیسر عبد اللطیف صاحب نے 18اگست 1974کو جنجھان سومرو میں صبح صادق ﴿18درجہ زیر افق ﴾سے تقریباً 40منٹ پہلے صبح کا ذب کا مشاہدہ کیا اور انہوں نے باقاعدہ یہ نوٹ کیا کہ وہ بالکل حدیث شریف اور فقہ کے بیان کردہ مخروطی شکل میں بلندی مائل تھا اور اس کے بعد صبح صادق سے پہلے اندھیرا بھی چھا گیا تھا۔
          • اشکال نمبر 2
            • بعض حضرات ایک عجیب اشکال کرتے ہیں اور وہ یہ کہ بروجی روشنی تو کبھی رات کی ابتدا میں کبھی وسط اور کبھی آخر میں ہوتی ہے اور یہ ہمیشہ نہیں ہوتی بلکہ صرف چند مہینوں میں ظاہر ہوتی ہے اس لئے بروجی روشنی صبح کاذب نہیں ہے ۔
              جواب۔ رات کی ابتدا میں جو بروجی روشنی ہوتی ہے اس پر شفق کا دھوکہ ہوسکتا ہے لیکن اس کو شفق نہیں سمجھیں گے۔وہاں بھی یہ رات کا حصّہ سمجھا جائے گا جیسا کہ امداد الاحکام میں حضرت تھانوی ؒ اور حضرت مفتی عبد الکریم گمتھلوی ؒ کی تحقیق ہے۔رات کے وسط میں بروجی روشنی کبھی ظاہر نہیں ہوتی یہ محض غلط فہمی یا کم علمی ہوسکتی ہے اور رات کے آخر میں صبح صادق سے کچھ پہلے جو بروجی روشنی ظاہر ہوتی ہے وہی صبح کاذب کہلائے گی کیونکہ اس پر صبح کا دھوکہ ہوسکتا ہے۔ احقرنے انٹرنیٹ پر سرچ کے دوران ماہرین فلکیات کی بروجی روشنی کی اخذ کی ہوئی تصویریں دیکھیں۔ ان میں سے ایک تصویر مسٹر لوڈنگس نے کیلیفورنیا کے مقام چیوز رج سے 10اکتوبر1984 کو بوقت 5بجکر 22منٹ پر لی ہے ۔ اس مقام کا طول بلد 105:28مغربی اور عرض بلد 31:47شمالی ہے۔ اس دن 18درجہ زیر افق کے مطابق صبح صادق کا وقت اس مقام پر05:44تھا۔ دوسری تصویر مشٹر سی گروہوسکو نے 30نومبر2000کو بوقت 5بجے صبح بمقام کورنوڈاس ٹیکساس امریکہ لی ہے۔ اس مقام کا طول بلد 121:34مغربی اور عرض بلد 36:14شمالی ہے۔ اس دن اس مقام پر 18درجہ زیر افق کے مقام پر صبح صادق کا وقت 5:28منٹ تھا۔ پس پہلی صورت میں بروجی روشنی یا صبح کاذب صبح صادق سے 22منٹ پہلے،دوسری صورت میں 28منٹ پہلے اور دارلعلوم کے شاہدات میں تقریباً 5منٹ پہلے نظر آیا ۔دارلعلوم والے حضرات کو زیادہ واضح غالباً اسلئے نظر نہیں آیا کہ مشاہدہ اس کے بہترین موسم میں نہیں کیا گیا تھا۔ یہ تصویریں چونکہ رنگین ہیں اس لئے اصل کتاب میں رنگین دی جائیں گی۔ ان شاء اﷲ۔
          • اشکال نمبر3
            • بعض حضرات یہ اشکال پیش کرتے ہیں کہ بلا ل ؓ اذان صبح کاذب کو دیکھ کر دیتے تھے اور یہ سوال کرتے ہیں کہ ان کو آخرکیسے پتہ چلتا تھا کہ تہجد کا وقت ہوگیا ہے۔ لازماً ان کو صبح کاذب دیکھ کر اذان دینا پڑتا تھا۔
              جواب۔ پرانے زمانے میں لوگ ستارے دیکھ کر وقت معلوم کرلیتے تھے۔ ابھی تک ستاروں کے ذریعے وقت معلوم کرنے والے خال خال ملتے ہیں۔ آخر دوسرے دنیاوی ضروریات کے لئے وہ کیسے رات کا اندازہ کرتے ہوں گے۔جو طریقہ اس کے لئے ہوتا وہی تہجد کے اذان کے لئے بھی ہوسکتا تھا۔ ا حادیث شریفہ میں ان بلالاً کان یؤذن بلیل سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بلال ؓ اذان اسوقت دیتے تھے کہ ابھی رات ہوتی تھی۔ظاہر ہے صبح صادق سے پہلے رات ہوتی ہے اس دوران صبح کاذب کا بھی ظہور ہوسکتا ہے۔تیسری حدیث شریف میں اذان بلال ؓ اور فجر مستطیل میں’’ و ‘‘عطف ہے جو کہ تغائر کا تقاضا کرتا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے فلا صدق و لا صلی و لکن کذب و تولی اس لئے اذان بلالؓ اور فجر مستطیل کے وقوع کو ایک وقت پرثابت کرنے کے لئے مستقل دلیل کی ضرورت ہے جو کہ یہاں نہیں ہے۔ اس میں دو علیحدہ کاموں کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ ان دونوں کے مطابق سحری کھانا نہ چھوڑا جائے۔ ایک فجر طولانی ﴿اگر نظر آئے ﴾ اور دوسرا بلا ل ؓ کی اذان۔کیونکہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی۔ہاںجب افق پر پھیلی ہوئی صبح بھی نمودار ہوجائے تو اب کھانے پینے سے رکنا چاہیئے کیونکہ یہ صبح صادق کہلائے گی۔ اس میں واضح طور پر طولانی اور پھیلی ہوئی فجر کا فرق کیا گیا۔بلا ل ؓ کی اذان کو اس لئے ساتھ شامل کیا گیا ہے کہ یہ بھی صبح صادق سے پہلے دی جاتی تھی تو یہ بھی سحری سے مانع ہوسکتی تھی۔کس لئے دی جاتی تھی تو جیسا کہ پہلی حدیث شریف میں ہے َ لا یَمْنَعَنَّ اَحَداً مِنْکُمْ اَذَانُ بِلا َلٍ اَوْ قَالَ نِدَاءِ بِلَالٍ مِنْ سُحُورِہِ فِاِنَّہُ یُؤَذِّنُ اَوْ قَالَ یُنَادِی بِلَیْلٍ لِیَرْجِعَ قَایِمَکُمْ وَ یُوقِظَ نَائِمَکُمْ کہ بلال ؓ اس لئے اذان دیتے ہیں تاکہ لوٹیں تم میں نماز پڑھنے والے اور اٹھیں تم میں سونے والے۔ اس سے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سونے سے جاگنے کے لئے اور سحری کرنے کے لئے صبح کاذب کا دیکھنا ضروری تھا ؟آج کل بھی حرمین شریفین میں تہجد کی اذان فجر سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے دی جاتی ہے۔ اصل میں مسئلہ یہ ہوسکتا تھا کہ ممکن ہے کوئی فجر مستطیل کو دیکھ لیتا تو اس کو یہ شبہ ہوجاتا کہ صبح ہوگئی اور وہ کھانا پینا چھوڑ دیتا اور یہ بھی ہوسکتا تھا کہ بلال ؓ کی اذان سن لیتا جس کا فجر مستطیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اس سے بھی شبہ پڑ سکتا تھا کہ کوئی کھانا پینا روک دیتا۔آپ ﷺِ نے دونوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کے مطابق سحری میں کھانا پینا نہ چھوڑے بلکہ جب فجر مستطیر ظاہر ہوجائے تو اس وقت البتہ کھانا پینا چھوڑنا لازمی ہے کیونکہ اس سے روزہ کا وقت شروع ہوجاتا تھا جس کا قرآن میں ذکر ہے وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ اس سے یہ بات واضح ہوگی کہ قرآن میں خیط ابیض و اسود کے درمیان جو تبین کا ذکر ہے اس سے مراد فجر مستطیر کا ظہور ہے کہ اس وقت خیط ابیض و اسود میں تبین ہوجاتا ہے۔
          • اشکال نمبر 4
            • یرقی ذا و ینزل ذا،یہ ٹکڑا دوسری حدیث شریف سے لیا گیا ہے،اس کی بنیاد پر اشکال کیا گیا ہے کہ بلا ل ؓ کی اذان اور ابن ام مکتوم ؓ کی اذان میں بس چڑھنے اور اترنے کا فرق ہوتا تھا۔ اس لئے بروجی روشنی اور صبح صادق میں جو زیادہ فرق ہے اس کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ 18درجہ زیر افق کی روشنی صبح کاذب اور 15درجہ زیر افق کی روشنی صبح صادق ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ اس حدیث شریف سے ثابت ہوتا ہے۔
              جواب۔ اس ٹکڑے پر علامہ عینیؒ کی شرح عمدۃ القاری میں تفصیل سے کلام کرچکے ہیں۔حضرت کا کلام اس میں بہت مفید ہے۔حضرت اس ٹکڑے کے بارے میں رقم طراز ہیں ﴿الا ان یرقی ﴾ بِفَتِح القَافْ اَیٰ یَصَْعَدُ یُقَالُ رَقِیَ یَرقَی رَقیاً مِن بَابٍ عَلِم یَعْلَمُ قولہ ﴿ َویَنْزِلَ ﴾ بِالنَصَب اَیٔ وَاَن ینِْزِلَ و کَلِمَۃُ اَنْ مَصْدَرِیَۃُ وَکَلِمَۃُ ذَا فِی الْمَوْضِعَیْنِ فِی مَحَلِ الرَّفْعِ عَلَی الفَاعِلِیَّۃِ و قَالَ المُھْلَبْ وَالَّذِی یُفھَمُ مِنْ اِخْتِلافِ الَالْفَاظِ ِلھٰذا الْحَدِیْثِ اَنَّ بِلاَلاً کَانَتْ رُتْبَتُہ، اَنَّ یُؤذِّنَ بِلَیْلٍ عَلیٰ مَا اَمَرَہ، بِہِ الشَّاِرعُ مِنَ الْوَقْتِ لِیَرْجَع الْقَائِمُ وَ یُنَبِّہَ النَائِمُ وَلِیُدْرِکَ السُّحُور مِنْہُمْ مَنْ لَمْ یَتَسَحَّرُ وَ قَدْ رَوَی ہٰذا کُلُّہ، ابْنُ مَسْعُود ؓ عَنْ رَسُولِ اﷲِ ﷺ فَکَانُوا یَتَسَحَّرونَ بَعْدَ اَذَانِہِ وَ فِیْہِ قَرِیْبُ اَذَانِ ابْنِ مَکتْوُمٍ مِنْ اَذَانِ بِلَالٍ وَ قَالَ الدَّاوٰدی قَولُہ ﴿ لَمْ یَکُنْ بَیْنَ اَذَانِہِمَا ﴾ اِلٰی آخِرہِ وَ قَدْ قِیْلَ اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ دَلِیْلٌ عَلٰی اَنَّ ابْنِ اُمِّ مَکْتُومٍ کَانَ یَرَاعِی قُرُبَ طُلُوعِ اْلفَجْرِ اَوْ طُلُوعِہِ لِاَنَّہ، لَمْ یَکُنْ یَکْتفِی بِاَذَانِ بِلَالٍ ؓ فِی عِلْمِ الْوَقْتِ لِاَنَّ بِلَالاً فِیْمَا یَدُلُّ عَلَیْہِ الْحَدِیْثُ کَانَ تَخْتَلِفُ اَوْقَاتُہ، وَ ِانَّمَا حَکیَ مَنْ قَالَ یَنْزِلُ ذَا وَ یَرقَی ذَا مَاشَاھَدَ فِی بَعْضِ الَاوْقَاتِ وَ لَو کَانَ فَعَلَہ، لَا یَخْتِلُف لَاکْتَفَی بِہِ رَسُولُ اﷲَِ ﷺ وَ لَمْ یَقُلْ ﴿ فُکُلُوا وَاشْرَبُواحَتّٰی یُؤَذِّنَ ابُنُ اُمِّ مَکْتُومٍ وَ لَقَالَ اِذَا فَرَغَ بِلَالٌ فَکَفَّؤا وَ لَکِنَّہ، جَعَلَ اَوَّلَ اَذَانِ ابْنِ اُمِّ مَکْتُوٍم عَلَامَۃُ الْکَفِّ وَ یَحْتَمِلُ لِاَنَّ لِاْبِنِ ْاُمِّ مَکْتُومٍ مَنْ یُرَاعِی الْوَقْت وَ لَوْ لَا ذَالِکَ لَکَانَ رُبَّمَا خَفِیَ عَنْہُ الْوَقْتُ وَ بَیْنَ ذَاِلکَ مَا رَوَی ابْنُ وَہْبٍ عَنْ یُونِسَ عَنْ ابْنِ شَھَابٍ ﴿ عَنْ سَالِمٍ قَالَ کَانَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُومٍ ضَرِیْرَ البَصَرُ وَ لَمْ یَکُنْ یُؤذِّنُ حَتَّی یَقُولَ النَّاسُ حِیْنَ یَنْظُرُونَ الٰی بُزُوعِِ الْفَجْرِ اَذِّنْ﴾۔چند سطروں کے بعد لکھتے ہیں وَ قَاَل الدَّاوُدِیُّ فَعَلَے ہَٰذَا کَانَ فِی وَقْتِ تَاخِیرِ بِلَالٍ بِاَذَانِہِ فَشَہِدَہُ الْقَاسِمُ فَظَنَّ اَنَّ ذَالِکَ عَادَتَہُمَا قَالَ وَ لَیْسَ بِمُنْکَرٍاَنْ یَاکُلُوا حَتَّی یَاخُذَالآخَرُ فِی اَذَانِہِ وَ جَائَ اَنَّہُ کَانَ لَایُنَادِی حَتَّی یُقَالَ لَہ، اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ اَیٔ دَخَلْتَ فِی الصَّبَاحِ اَوْ قَارَبْتَہ، وَ قَالَ صَاحِبُ التَّوْضِیْحِ قَوْلُہ، فَشَہِدَہُ الْقَاسِمُ غَلَطٌ فَتَاَمَّلہ، ﴿قُلْتُ﴾ لِاَنَّ قَاسِمًالَمْ یُدْرِکْ ہَٰذَا۔
              اس کا لب لباب یہ ہے کہ بلال ؓ کی ذمہ داری یہ لگائی گئی تھی کہ وہ اذان دیا کریں کہ جو لوگ سوئے ہوں وہ اٹھیں جو نماز پڑھ رہے ہوں وہ لوٹیں اور جنہوں نے سحری نہ کی ہو وہ سحری کریں اور عبد اﷲ بن مسعود ؓ سے یہ سب مروی ہے ا ور وہ بلال ؓ کے اذان کے بعد سحری کرتے تھے اور حضرت یہ فرماتے ہیں کہ احادیث شریفہ سے ثابت ہے کہ بلا ل ؓمختلف اوقات میں اذان دیا کرتے تھے تو بعض اوقات میں ان دونوں اذانوں کے درمیان فصل کم بھی ہوسکتا تھا اس وقت راوی قاسم ؒ کو گمان ہوا کہ شاید یہ عادت ہو حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو لوگ اس میں سحری کیسے کرتے اور اتنے کام کیسے کرتے۔﴿صبح کاذب کی اذان دینے کی شرعی ضرورت بھی نظر نہیں آتی ﴾ پس اگر اتنا کم فرق دونوں میں ہوتا کہ چڑھنے اور اترنے کا فرق ہو تو ابن ام مکتوم ؓ کی اذان کو سحری کے ختم ہونے کے معیار کی بجائے بلا ل ؓ کی اذان کو کھانا پینا بند کرنے کے لئے معیار بنایا جاتا۔پس حضرت کے نزدیک راوی قاسم سے سمجھنے میں غلطی ہوئی حقیقت حال یہ ہے کہ بلال ؓ کی اذان مختلف اوقات میں ہوتی تھی کبھی زیادہ فصل کے ساتھ کبھی تھوڑے فصل کے ساتھ۔ ا سلئے اس پر زور دے کر یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ دونوں اذانیں روشنی دیکھ کر دی جاتی تھیں یا 18درجہ زیر افق کے اوقات صبح کاذب کے اوقات ہیں عجیب در عجیب ہے۔
          • اشکال نمبر 5
            • حدیث شریف میں آتا ہے۔ قال رسول للہ ﷺِِ لبلالٍ انِکَّ تُؤَذِّنُ اِذَا کَانَ اْلفَجْرُ سَاطِعاً وَلَیْسَ ذَالِکَ الصُّبْحُ اِنَّمَا الصُّبُحُ ھَکَذَا مُعْتَرِضاً وَ فِی سَنَدِہِ اِبْنِ لَھِیْعَہ کَذَا فِی نَصْبُ الرَّایَہ .﴿تحفۃ الاحوذی بشرح جامع الترمذی، للمبارکفوریؒ،مجلد:۳،صفحہ نمبر ۹۱۳، دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان﴾
              ترجمہ : رسول اللہ ﷺِ نے بلال ؓ کو فرمایا کہ تم جو اذان دیتے ہواس وقت فجر کی روشنی اونچائی کی طرف ہو تی ہے،جو کہ صبح ﴿صادق ﴾ نہیں ہے۔صبح صادق تو وہ ہے جس کی روشنی دائیں بائیں پھیلی ہو ئی ہو۔ اور اس کی سند میں ابن لھیعہ ہے‘‘ اس پر بعض حضرات یہ اشکال کرتے ہیں کہ اس سے تو واضح ثابت ہوتا ہے کہ بلال ؓ صبح کاذب کو دیکھ کر اذان دیتے تھے۔
              جواب۔ اس حدیث شریف کی سند میں ابن لھیعہ ہے جو کہ مجروح ہے۔ اس پر اصحاب رجال نے بڑی گرفت کی ہے۔ اس کو منکر،کذاب جیسے خطابات سے نوازا ہے۔ حدیث شریف سر آنکھوں پر۔فقہی امور میں احادیث شریفہ کی تطبیق ہوتی ہے۔تمام احادیث شریفہ کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر مسئلہ صرف فضائل کا ہوتا تو اس کی حدیث سے استنباط کرنا ممکن ہوتا لیکن یہاں پر تو احکامات اور وہ بھی نماز کے احکامات کے بارے میں بات چل رہی ہے اس لئے اس حدیث شریف کو اس موقع پر استعمال کرنے پر اصرار کرنا عجیب ہے۔ اگر بالفرض اس سے استنباط صحیح بھی ہو تو مدینہ منورہ جو کہ منطقہ حارہ کے جوار میں ہے اس لئے اس میں پورے سال بھی صبح کاذب دیکھی جاسکتی ہے جیسا کہ جدید مشاہدات میں کھپرو اور چیچھی درس میں مئی کے مہینے میں دیکھا گیا ہے۔مدینہ منورہ تو اس سے اور بھی نیچے عرض بلد پر ہے ورنہ اس کا یہ مفہوم بھی لیا جاسکتا ہے کہ اس سے مراد رات کے وقت میں اذان دینا ہو جیسا کہ دوسرے صحیح احادیث شریفہ سے ثابت ہے۔ ایک ایسے مجروح اور قابل تاویل قول کی وجہ سے ایسے احادیث شریفہ کیسے نظر انداز کی جاسکتی ہیں جس سے یہ حق الیقین حاصل ہوتا ہے کہ صبح صادق صرف مستطیر روشنی ہے اور صبح کاذب مستطیل۔ نیز یہ ظاہر ہونے کے بعد غائب ہوجاتی ہے ورنہ کم تو ضرور ہوجاتی ہے۔ اور مشاہدات کے ذریعے یہ عین الیقین ہو چکا ہو کہ 18درجہ زیر افق کی روشنی مستطیر ہے اوریہ روشنی ظہور کے بعد مسلسل بڑھتی رہتی ہے اس نہ میں کمی ہوتے دیکھی گئی نہ یہ غائب ہوتے دیکھی گئی۔پس اس روشنی کے صبح کاذب نہ ہونے کا یقین حاصل ہوگیا۔ اس روشنی سے پہلے قریب ترین روشنی صرف صبح کاذب کی یعنی بروجی روشنی ہوتی ہے۔ اسی پر ہی بلندی مائل روشنی کا اطلاق ہوسکتاہے۔جن فقہاء نے اس کو شتاء میں بتایا وہ بلند درجہ عرض بلد کے مشاہدات کی بنیاد پر کہہ رہے ہوں گے۔مولانا عبد الحفیظ صاحب سے خود میری ٹیلیفوں پر بات ہوئی وہ فرماتے تھے کہ 18درجہ زیر افق سے پہلے جو روشنی ان کو نظر آئی تھی اس کی بلندی اس کی عرض سے زیادہ محسوس ہورہی تھی۔ یہ روشنی جامعۃ الرشید کے اساتذہ کو بھی نظر آئی تھی لیکن انہوں نے اس کو ناممکن سمجھ کر درخور اعتناء نہیں سمجھا۔ اگر بروجی روشنی کو دیکھ کر اذان دیتے ہوں گے تو معتدل موسم میں امداد الاحکام کے مطابق 35منٹ تک کا وقت اس میں لگ سکتا ہے،باقی موسموں میں کچھ زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔
          • اشکال نمبر6
            • شرح چغمینی میں ہے قَالَ فِی شَرْحِ چَغْمینِی وَ َقدْ عُرِفَ بِالتَّجْرُبَۃِ اَنَّ اَوَّلَ الصُّبْحِ وَ آخَرَ الشَّفَقِ اِنَّمَا یَکُونَ اِذَا کَانَ اِنْحِطَاطُ الشَّمْسِ ثَمَانِیۃَ عَشْرَجُزْءً ا قَالَ المُحَشیِّ ھَٰذَا ہُوَ الْمَشْہُورُ وَ وَقَعَ فِی بَعْضِ کُتُبِ اَبِی رَیْحَانِ اَنَّہ سَبعَۃَ عَشَرَ جُزْء اً وَ قِیْلَ اَنَّہ تِسْعَۃَ عَشَرَ جُزْئً وَ ھَٰٰذَا فِی اِبْتِدَائِ الصُّبْحِ الْکَاِذِب وَ اَمَّّا فِی ابْتِداءِ الصُّبْحِ الصَّادِقِ فَقَدْ قِیْلَ اِنَّ اِنْحِطَاطِ الشَّمْسِ حِینَئِذٍ خَمْسَۃَ عَشَرَ جُزءًً ً
              اشکال یہ ہے کہ شرح چغمینی ایک معتبر کتاب ہے اس میں صاف لکھا گیاہے جہاں تک صبح صادق کا تعلق ہے تو یہ کہا جاتاہے کہ یہ اس وقت واقع ہوتا ہے جب سورج کا افق سے 15درجات کا فرق واقع ہوجائے۔ اس طرح شرح اللتشریح فی التصریح میں بھی اذ قد علم بالتجربۃان انحطاط الشمس اول الصبح الکاذب وآخر الشفق ثمانیۃ عشر درجہ لکھا ہے جس میں صبح کاذب اور آخر الشفق کے لئے 18درجہ زیر افق لکھا ہے۔
              جواب۔ اس میں تین باتیں قابل غور ہیں۔ ایک تو یہ کہ شرح چغمینی کے محشی نے قد قیل کے ساتھ اس کو لکھا ہے اس میں مصنف نے اپنا کوئی دلیل کوئی تجربہ بیان نہیں کیاجو کہ تجرباتی اور تحقیقاتی امور میں ضعف کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسرا اس میں حوالہ ابوریحان البیرونی کا دیا گیاہے جن کا اپنا قول اس کے خلاف ہے۔تیسرا یہ ایک تجرباتی چیز ہے جس کی تصدیق و تردید تجربے پر منحصر ہے۔ اسی طرح تصریح کے شارح نے بھی عرف بالتجربۃ لکھ کر کسی بھی تجربہ کی تفصیل نہیں لکھی ہے۔ ابوریحان البیرونی فجر کی تین قسمیں بیان کرتے ہوئے القانون المسعودی میں لکھتے ہیں۔
              اَوَّلھَا مُسْتَدِقٌ مُسْتَطِیلٌ مُنْتَصِبٌ یُعْرَفْ بِالصُّبْحِ الْکَاذِبِ وَ یُلَقَّبْ بِذَنَبِ السَّرْحَانِ وَ لَا یَتَعَلَّقُ بِہِ شَیئٌ مِنَ الَاحْکَامِ الشَّرْعِیَّۃِ َوَ لَا مِنَ الْعَادَاتِ الرَسْمِیَّۃِ،وَالنَّوعُ الثَّانِی حُمْرَۃٌ تَتْبَعُھَا وَ تَسْبِقُ الشَّمَسَ وَ ہُوَ کَالْاَوَّلِ فِی بَابِ الشَّرَع وَ عَلیٰ مِثْلِہِ حَالِ الشَّفَقِ فِانْ سَبَبھُمَا وَاحِدٌ وَ کَو نُہُمَا وَاحِدٌ، وَ ہُوَ اَیْضاً ثَلَاثَۃُ اَنْوَاعٍ مُخَالِفَۃُ التَّرتِیْبِ لَمَا ذَکَرْنَا، وَ ذَالِکَ اَنَّ الْحُمْرَۃَ بَعْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ اَوَّلُ اَنْوَاعِہ، وَ البَیَاضُ الْمُنْتَشِرُ ثَانِیْہَا، وَ اخْتِلَافُ الَائِمَّۃِ فِی اسْمِ الشَّفَقِ عَلٰی اَیِّہِمَایَقَعُ اُوجَبَ اَنْ یَتَنَبَّہُ لَہُمَا مَعاً، وَالثَّالِثُ الْمُسْتَطِیْلُ الْمُنْتَصِبُ الْمَوَازِی لِلْذَنَبِ السَّرْحَانِ، وَ اِنَّمَا لَا یَتَنَبَّہُ النَّاسُ لَہ، لِٲنَّ وَقْتہُ عِنْدَ اِخْتِتَامِ الَاعْمَالِ وَ اِشْتِغَالِہُمْ بِالِاکْتِنَانِ، وَ اَمَّا وَقْتُ الصُّبْحِ فَالعَادَۃُ فِیْہِ جَارِیَۃٌ بِاسْتکْمَالِ الرَّاحَۃِ وَ التَّہیؤلِلْتَصُّرفِ فَہُمْ فِیْہِ مُنْتَظِرُونٌ طَلِیعَۃٌ النَّہَارِ لِیَٲخُذُوا فِی الِانْتِشَارِ فَلِذَالِکَ ظَہَرَ لَہُمْ ہٰذَا وَ خَفِیَ ذَالِکَ، وَ بِحَسْبِ الْحَاجَۃِ اِلَی الْفَجْرِ وَ الشَّفَقِ رَصَدَ اَصْحَابُ ہٰذہِ الصَّنَاعَۃَ اَمْرَہ، فَحَصَلُوا مِن قَوَانِیْنِ وَقْتِہِ اَنَّ اِنحِطَاطَ الشَّمْسِ تَحْتَ الُافُقِ مَتیٰ کَانَ ثَمَانِیۃَ عَشَرَ جُزْئً کَانَ ذَالِکَ الْوَقْتُ طُلُوعِ الفَجْرِ فِی المَشْرِقِ وَ مَغِیْبَ الشَّفَقِ فِی الْمَغْرِبِ وَ لَمَّا لَمْ یَکُنْ شَیْاً مُعَیِّناً بَل بِالَاوَّلِ مُخْتَلِطاً اُخْتُلُفَ فِی ہٰذَا القَانُونِ فَرَاٰہُ بَعْضُھُمْ سَبْعَ عَشَرَ جُزءً
              اس میں صبح صادق اور شفق دونوں کے لئے 18درجے کا وقت بتایا ہے اوربعض صورتوں میں پہلی صبح کے ساتھ مختلط ہونے کی وجہ سے کچھ حضرات نے اس کو 17 درجہ پر دیکھا۔ البیرونی نے فجر اور شفق میں مطلوب اور غیر مطلوب کو علیحدہ علیحدہ کیا ہے۔ اس میں پھر فرماتے کہ لوگوں نے حسب الحاجۃ اپنے مطلوب اوقات کے لئے درجات اخذکئے ہیں کہ وہ فجر اور شفق کے لئے 18درجات ہیں۔ اس سے صبح صادق کے لئے 15درجہ زیر افق کی دلیل پکڑنے والوں سے دو سوالات ہیں۔
              -1خط کشیدہ حصّوں پر غور کریں کیا یہ ماننے کی بات ہوسکتی ہے کہ شفق سے مراد تو شفق ابیض مستطیر ہو جو مطلوب ہے ﴿کیونکہ شفق مستطیل کے بارے میں تو حضرت نے فرمایا کہ لوگ اس سے غافل ہوتے ہیں﴾ اور طلوع الفجر سے مراد صبح کاذب ہو جو غیر مطلوب ہے۔ اگر یہ صبح کاذب ہے تو پھر حسب الحاجۃ کی یہاں کیا ضرورت تھی۔
              -2اگر طلوع الفجر سے مراد صبح کاذب ہے تو مختلط بالاولسے پھر کونسی صبح مراد ہے۔ اس اول سے ہی پتہ چلتا ہے کہ بیان کردہ طلوع الفجر فجر ثانی یعنی صبح صادق ہے۔
              اس تمام سیاق و سباق سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ صبح صادق اور شفق دونوں کے لئے 18درجہ زیر افق ہیں۔ اب اگر البیرونیؒ خود اس کو صبح صادق کے لئے بتاتے ہیں تو ناقل کو کیا حق ہے کہ اس کو اپنی طرف سے صبح کاذب کے لئے سمجھے۔ بظاہر یہ سہو ہے لیکن چونکہ یہ تجرباتی امر ہے اس لئے اگر مشاہدہ اس کا ساتھ نہ دے تو قابل ذکر ہی نہیں اﷲ اعلم۔
              تجرباتی امر چاہے کسی کا بھی ہو اس کی تصدیق و تکذیب تجرباتی ہی ہوگی اور اگر تجرباتی امور کے نتائج کا آپس میں تقابل ہوگا تو اس میںیہ دیکھا جائے گا کہ کس کے تجربات اور مشاہدات زیادہ باقاعدہ ہیں۔ ان کی تفصیلات جانے بغیر ان کے نتائج مجہول ہوں گے کیونکہ ان تفصیلات سے ہی یہ بات طے ہوسکتی ہے کہ کیا یہ مشاہدہ کبھی کبھی کا تھا چاہے کتنے لمبے عرصے کے لئے کبھی کبھی کا مشاہدہ کہا جائے یا یہ باقاعدہ ایک تسلسل کے ساتھ مشاہدے کے تمام موافق اور مخالف اشیاء کے ادراک کے ساتھ مشاہدات کئے گئے ہیں۔مشاہدات کے معاملے میںعامی اور عالم کی بنیاد پر فیصلہ نہیں بلکہ مشاہدات کی باقاعدگی اور تفصیلات کی بنیاد پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس فیصلے کے لئے پھر علم کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ مشاہدہ میں کن کن چیزوں کو پیش نظر رکھنا ہے یہ علم سے ہی معلوم ہوسکتا ہے جیسا کہ ہاتھ کی صفائی تو عموماً ٹیکنیشین کو زیادہ حاصل ہوتی ہے لیکن اس کی تفصیلات کو انجنیئر زیادہ سمجھتا ہے واﷲ اعلم۔نجانے اتنی واضح بات بعض حضرات کو کیوں سمجھ نہیں آتی۔میں نے جب اپنے مشاہدات مولانا موسیٰ روحانی بازی ؒ کے سامنے بیان کئے تو حضرت ؒ نے مجھ سے پوچھا مشاہدات کتنے کئے میں نے کہا کہ صبح صادق کے ایک مہینہ تسلسل کے ساتھ اور شفق احمرکے چھ مہینے تک تو حضرت ؒنے فرمایا اب میں مانتا ہوں کیونکہ میری ماں مجھ سے زیادہ بہتر مشاہدہ کرتی ہے غالباً خود وقت نہ ہونے کے بنیاد پر فرمایا واﷲ اعلم۔ہمارے جتنے مشاہیر ہیں ان سے ہم کیسے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ مسلسل اتنا وقت نکال سکتے ہیں۔آخر خود اپنے بارے میں غور کریں خود ان کو اتنا عرصہ اس طریقے سے مشاہدات کی توفیق کیوں نہیں ہورہی ہے اور اگر ہے تو اس کی اس طرح تفصیلات کیوں سامنے نہیں لاتے جیسا کہ دارلعلوم کراچی کے اساتذہ اور تخصص کے طلبہ نے پیش کئے ہیں۔
          • اشکال نمبر 7
            • علامہ شامیؒ کا قول بعض حضرات نقل کرتے ہیں کہ حضرت ؒنے صبح صادق و کاذب اور شفق احمر و ابیض میں 3درجے کا فصل بتایا ہے۔ اس لئے صبح صادق چونکہ 15درجہ زیر افق پر ہے تو صبح کاذب 18درجہ زیر افق پر ہونا چاہیئے۔
              جواب۔عجیب بات ہے۔ یہ تو بالکل اس طرح ہے جیسا کہ کہا جائے کہ سردیوں میں دن چھوٹے ہوتے ہیں اس لئے زمین گول ہے۔علامہ شامی ؒ ہمارے بڑے فقہاء میں سے ہے۔ ان کا قول سر آنکھوں پر لیکن یہاں حضرت ؒ نے کہاں لکھا ہے کہ صبح صادق 15درجے پر ہے کہ اس سے استدلال کرکے صبح کاذب کو 18درجے پر مانا جائے ۔۔حضرت ؒ تو تحریر فرماتے ہیں لَا یَمْنَعَنَّکُمْ مِنْ سُحُورِکُمْ اَذَانُ بِلَالٍ وَ لَا الْفَجْرُ الْمُسْتَطِیْلُ وَ لٰکِنَّ الْفَجْرُ الْمُسْتَطِیْرُ فِی الاُفُقِ فَالمُعْتَبَرُ الْفَجْرُ الصَّادِقُ وَ ہُوَالْفَجْرُ الْمُسْتَطِیرُ ا الَّذِی یَنْتَشِرُ ضُوئُ ہُ فِی ٲَطْرَافِ السَّمائِ لَاالْکَذِب وَ ہُوَالْفَجْرُ الْمُسْتَطِیلُ الَّذِی یَبْدَو طَوِیلاً فِی السَّمائِ کَذَنَبِ السَّرْحَانِ اَیٔ الذئب ثُمَّ یَعْقِبَہُ ظُلْمَۃٌ۔ یعنی تمہیں نہ روکے سحری میں کھانے سے بلال ؓ کی اذان اور نہ ہی فجر مستطیل لیکن فجر مستطیر ﴿پر رکنا چاہیئے﴾ اور وہ صبح صادق ہے جو فجر مستطیر ہے جسکی روشنی آسمان کے اطراف میںمنتشر ہوتی ہے نہ کہ صبح کاذب جو کہ لمبائی کے رخ شروع ہوتی ہے جیسا کہ بھیڑیئے کی دم ہو پھر اس کے بعد اندھیرا چھا جاتا ہے۔آگے محقق علی آفندی الداغستانی سے نقل کرتے ہیں کہ دونوں صبحوں اور شفقوں کے درمیان تین درجات کا فصل ہوتا ہے۔پس اس عبارت سے تو اتنا مستفاد ہوتا ہے کہ حضرت ؒ نے صبح صادق کی جو علامت بتائی ہے اس کے مطابق مشاہدات سے صبح صادق کا وقت معلوم ہوجائے اور اس کے ساتھ تین درجے جمع کئے جائیں تو صبح کاذب کا وقت معلوم ہوجائے گا۔ مشاہدات کی تفصیل دی ہوئی ہے۔ اس کے مطابق صبح صادق 18درجات پر ہوتی ہے اس لئے اس کا نتیجہ حضرت ؒ کے تحریر کے مطابق یوں نکلے گا کہ صبح کاذب 21درجات پر ہونا چاہیئے ۔دوسری طرف چونکہ شفق ابیض اور صبح صادق کے لئے ایک ہی قانون مسلم ہے اس لئے اس کے مطابق شفق ابیض 18درجات پر اور شفق کاذب 21درجات پر ہوناچاہیئے۔ یہی مشاہدہ جامعۃ الرشید کے علماء کو ہوچکا ہے کہ وہ فرمارہے تھے کہ 21درجات تک سفیدی نظر آرہی تھی۔چونکہ ان کے ذہن میں یہ پہلے سے طے تھا کہ شفق ابیض تو 15درجے پر ہوتی ہے اور سفیدی ان کو 21درجات تک نظر آرہی تھی لہٰذا انہوں نے اس مشاہدہ کو ہی عبث سمجھا حالانکہ وہ اگر غیر جانبدار رہتے تو اﷲ تعالیٰ نے ان کو شفق ابیض اور شفق کاذب دیکھنے کا موقع فراہم کیا تھا، اس سے فائدہ اٹھالیتے۔ اس لئے کہتے ہیں تجربات اور مشاہدات میں تعصب نہیں برتنا چاہیئے واﷲ اعلم۔
              باقی علامہ شامی ؒ کا صبح صادق کے لئے کونسے درجات زیر افق پر عمل تھا، درج ذیل عبارت سے ظاہر ہے رد المختار کے صفحہ 93جلد نمبر 2میں فرماتے ہیں۔’’ قَدْ عَلِمْتُ اَنَّ النَّھَارَالشَّرْعِی مِنْ طُلُوعِ الفَجْرِ الٰیَ الْغُرُوبِ: اعْلَمْ أَنَّ کُلَّ قُطْرٍ نِصْفُ نَہَارِہِ قَبْلَ زَوَالِہِ بِقَدْرِ نِصْفِ حِصَّۃِ فَجْرِہِ فَمَتَی کَانَ الْبَاقِی لِلزَّوَالِ أَکْثَرَ مِنْ ہَذَا النِّصْفِ صَحَّ وَاِلَّا فَلَا فَفِی مِصْرَ وَالشَّامِ تَصِحُّ النِّیَّۃُ قَبْلَ الزَّوَالِ بِخَمْسَ عَشْرَۃَ دَرَجَۃً لِوُجُودِ النِّیَّۃِ فِی أَکْثَرِ النَّہَارِ ؛ لِأَنَّ نِصْفَ حِصَّۃِ الْفَجْرِ لَا تَزِیدُ عَلَی ثَلَاثَ عَشْرَۃَ دَرَجَۃً فِی مِصْرَ وَأَرْبَعَ عَشْرَۃَ وَنِصْفٍ فِی الشَّامِّ فَاِذَا کَانَ الْبَاقِی الَی الزَّوَالِ أَکْثَرَ مِنْ نِصْفِ ہَذِہِ الْحِصَّۃِ، وَلَوْ بِنِصْفِ دَرَجَۃٍ صَحَّ الصَّوْمُ کَذَا حَرَّرَہُ شَیْخُ مَشَایِخِنَا ابْرَاہِیمُ السَّائِحَانِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ تَعَالَی ﴿منحۃالخالق علی البحر الرائق ،اقسام الصوم۔ اس میں علامہ شامی نے نھارشرعی کے بارے میں یہ اصول بتایا ہے کہ یہ فجر سے غروب تک ہوتاہے اور ساتھ یہ اصول بھی بتایا کہ جب فجر اور طلوع کے درمیان جتنا وقت ہے اس کے نصف سے زیادہ وقت زوال میں باقی ہو اور روزے کی نیت کی جائے تو صحیح ہے ورنہ نہیں۔مثال کے طور پر فرمایا کہ مصر اور شام میں جب زوال میں پندرہ درجے کے برابر وقت یعنی ایک گھنٹہ کیونکہ ایک درجہ چار منٹ کا ہوتا ہے باقی ہو تو روزے کی نیت کی جاسکتی ہے کیونکہ فجرکے وقت کا نصف مصر میں 13درجے یعنی 52منٹ سے اور شام میں ساڑھے چودہ درجے یعنی 58منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا، پس جب زوال میں اس نصف حصّے کے بقدر وقت سے زیادہ چاہے دو منٹ ہی کیوں نہ ہو باقی ہو تو روزے کی نیت صحیح ہے۔
              شام کا زیادہ سے زیادہ درجہ عرض بلد تقریباً 37 درجے ہے۔ اس کے مطابق فجر کا زیادہ سے زیادہ کل وقت ایک گھنٹہ اور 56منٹ ساڑھے 18درجہ زیر افق کے مطابق ہوتا ہے نہ کہ 15درجہ زیر افق پر۔ اب بھی تسلی نہ ہو تو قصر کے لئے جتنی سفر کی کم سے کم مقدار کی ضرورت ہوتی ہے، اس ضمن میں علامہ شامیؒ کتاب صلوٰۃ المسافر میں لکھتے ہیں۔
              ’’ ثُمَّ انَّ مِنْ الْفَجْرِ الَی الزَّوَالِ فِی أَقْصَرِ أَیَّامِ السَّنَۃِ فِی مِصْرَ وَمَا سَاوَاہَا فِی الْعَرْضِ سَبْعُ سَاعَاتٍ الَّا رُبُعًا فَمَجْمُوعُ الثَّلَاثَۃِ الْأَیَّامِ عِشْرُونَ سَاعَۃً وَرُبْعٌ .وَیَخْتَلِفُ بِحَسَبِ اخْتِلَافِ الْبُلْدَانِ فِی الْعَرْض۔
              قُلْت : وَمَجْمُوعُ الثَّلَاثَۃِ الْأَیَّامِ فِی دِمَشْقَ عِشْرُونَ سَاعَۃًالَّا ثُلُثَ سَاعَۃٍ تَقْرِیبًا لِأَنَّ مِنْ الْفَجْرِ الَی الزَّوَالِ فِی أَقْصَرِ الْأَیَّامِ عِنْدَنَا سِتُّ سَاعَاتٍ وَثُلُثَا سَاعَۃٍ الَّا دَرَجَۃً وَنِصْفًا، وَانْ اعْتَبَرْت ذَلِکَ بِالْأَیَّامِ الْمُعْتَدِلَۃِ کَانَ مَجْمُوعُ الثَّلَاثَۃِ أَیَّامٍ اثْنَیْنِ وَعِشْرِینَ سَاعَۃً وَنِصْفَ سَاعَۃٍ تَقْرِیبًا لِأَنَّ مِنْ الْفَجْرِ الَی الزَّوَالِ سَبْعُ سَاعَاتٍ وَنِصْفًا تَقْرِیبًا ﴿ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر﴾
              اس صورت میں د مشق جس کا عرض بلد 33:31شمالی اور طول بلد 36:18مشرقی ہے۔ اس کے مطابق اقصر الایام یعنی 22دسمبر کو فجر سے زوال تک 6گھنٹے اور 34منٹ 19درجہ زیر افق کے مطابق بنتے ہیں۔ اب حضرت تو فجر 19درجات کے مطابق دے رہے ہیں جو کہ ممکن بھی ہے کیونکہ دمشق اور مصر میں اب بھی صبح صادق 19درجات زیر افق پر مانا جاتا ہے جیسا کہ حرمین شریفین کے کیلنڈر میں بھی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں علامہ ؒ ایک شرعی مسئلے کی تحقیق کے سلسلے میں حساب کررہے ہیں جبکہ صبح کاذب کا شرعی مسائل میں کوئی دخل نہیں کیونکہ نہ اس کے مطابق نماز پڑھی جاسکتی ہے اور نہ اس کے مطابق روزہ رکھا جاسکتا ہے۔ اس لئے قصر اور روزے کی نیت دونوںکے لئے صبح صادق ہی کی ضرورت تھی اس لئے اس سے معلوم ہو ا کہ حضرت ؒ کا مسلک 18درجہ زیر افق یا 19درجہ زیر افق کا تھا واﷲ اعلم۔
          • اشکال نمبر 8
            • لیکن احسن الفتاویٰ جلد دوم میں اس کی تاویل کی گئی ہے اور فرماتے ہیں کہ ماہرین فلکیات صبح سے مراد صبح کاذب لیتے ہیں اور احتیاط کے پیش نظر عمداً بھی سحر کے صبح کاذب کے اوقات لکھے جاتے ہیں۔
              جواب۔حضرت ؒ کی اس تاویل کو محققین نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا کیونکہ نہ تو اس کا نقلی ثبوت ہے کہ ماہرین فن نے یہ خود کہا ہو کہ ہم جو صبح کے اوقات دے رہے ہیں یہ صبح کاذب کے ہیں اور نہ ہی سحری کے اوقات شائع کرنے والوں نے یہ کہا ہے کہ ہم اصل میں صبح کاذب کے اوقات دے رہے ہیں کہ اس میں احتیاط ہے۔ احتیاط کا علیحدہ بتایا جاتا ہے اور وہ عموماً دو تین منٹ ہوتا ہے۔ احتیاط پر زیادہ کام تو خود احقر کا ہے۔ اس سے پہلے تو احتیاط کو صرف رسمی کارروائی سمجھ کر نظر انداز بھی کیا جاتا تھا۔عقلی طور پر بھی اسکا موقع نہیں کیونکہ علامہ شامی ؒ اس کو شرعی مسائل یعنی مسافت قصر اور نصف النھار شرعی کے تحقیق کے لئے استعمال کررہے ہیں جس میں صبح صادق کی اوقات کی ضرورت تھی نہ کہ صبح کاذب کی۔
        • چند سمجھانے والے سوالات اور ان کے سمجھ میں آنے والے جوابات

            مسئلے کو زیادہ واضح کرنے کیلئے راقم اب اپنے آپ سے چند سوالات کرنا چاہتا ہے۔ اس کتاب کی روشنی میں اس کے جوابات سے مسئلہ ان شاء اﷲ بالکل واضح ہوجائے گا۔

          • کیا حدیث شریف کے مطابق صبح کاذب کی روشنی مستطیل ہوتی ہے یا مستطیر؟
            • جواب۔حدیث نمبر1،3،5اور 7کے مطابق صبح کا ذب کی روشنی مستطیل بمعنی لمبوتری ہوتی ہے۔
          • کیا حدیث شریف کے مطابق صبح صادق کی روشنی مستطیل ہوتی ہے یا مستطیر؟
            • جواب۔حدیث شریف 1،3،4،5،7،8کے مطابق صبح کاذب کی روشنی مستطیر ہوتی ہے۔
          • کیا 18درجہ زیر افق کی روشنی مستطیل ہوتی ہے یا مستطیرہوتی ہے؟
            • جواب۔ احقر،ڈاکٹر شوکت صاحب، دارلعلوم کراچی کے اساتذہ و تخصص کے طلبہ اور بالخصوص اکابر علماءے کراچی کے مشاہدات کے مطابق 18درجہ زیر افق کی روشنی قوس کی شکل میں ہوتی ہے اور اس کا عرض اس کی افق سے بلندی سے زیادہ ہوتی ہے جس کو مستطیر کہتے ہیں۔
          • کیا 15درجہ زیر افق کی روشنی مستطیل ہوتی ہے یا مستطیر ہوتی ہے؟
            • جواب۔ اس کی روشنی بھی مستطیر ہوتی ہے۔
          • قوس کی شکل میں جو روشنی ظاہر ہوتی ہے وہ مستطیل کہلاتی ہے یا مستطیر؟
            • جواب۔قوس کی شکل جو بھی روشنی ظاہر ہوگی حسابی اعتبار سے یہ بات یقینی ہے کہ وہ مستطیر ہو تی ہے۔
          • کیا 18درجہ زیر افق کی روشنی قوس کی شکل میں ہوتی ہے یا لمبوتری ؟
            • جواب۔مشاہدات سے اس کا قوس کے شکل میں ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ یہ لمبوتری ہر گز نہیں ہٰوتی۔
          • جامعۃ الرشید کے دو اساتذہ نے مشاہدات کا ایک الگ نوٹ بھیجا ہے۔ انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ ہمیں روشنی قوس کی صورت میں تو نظر آئی لیکن نیچے بادل تھے لہٰذا اس قوس کا صبح صادق ہونا مشکوک ہوگیا۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ روشنی افق پر اکثر طولاً ہوگی یا اکثر عرضاً۔
            • جواب۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر وہ اس کو سورج کی روشنی مانتے ہیں تو افق پر چاہے بادل ہی کیوں نہ ہوں بادلوں سے اوپر اگر اس کا کچھ حصّہ قوس کی شکل میں نظر آرہا ہو تو بادلوں کے پیچھے بھی وہ قوس کی ہی شکل بنا رہی ہوگی کیونکہ یہ روشنی چونکہ سورج سے افق پر منتشر ہورہی ہوتی ہے اس لئے اس قوس کے زیرین حصّے کو گو بادل چھپا بھی لیں لیکن بادلوں کے اوپر کی روشنی قوس کے شکل میں اگر نظر آتی ہو تو بادلوں کے پیچھے افق کے ساتھ اس کا جو حصّہ افق کے ساتھ مس کر رہا ہوگا وہ اسی روشنی کا حصّہ ہونے کی وجہ سے قوس ہی کا حصّہ ہوگا۔ اگر اسکی تصویر لی جائے اور مشہودہ قوس کے تسلسل کو افق کے ساتھ ملا دیا جائے تو یہ تقریباً نصف دائرہ بن جائے گا جیسا کہ شکل میں جالی دار حصّے کے پیچھے اس کا تسلسل نظر آرہا ہے۔ اس قوس کا قاعدہ قطر کے برابر ہوگا اور بلندی م ن کے برابر ہوگی اس طرح اس وقت افق پر اس کا پھیلاؤ اس کی بلندی دگنی ہوگی۔
          • اگر مشہوٰد قوس پر ہی فیصلہ کیا جائے تو کیا پھر بھی اس مشہود افق پرروشنی اکثر عرضاً ہوگی؟
            • جواب۔ کیوں نہیں بلکہ زیادہ ہوگی۔ اس کو سمجھنے کے لئے آپ مثلث ا م ج کو دیکھیں۔ اس میں زاویہ ا م ج30 درجے کا ہے اس لئے زاویہ م ج ص بھی 30درجے کا ہونا چاہیئے۔ اس صورت میں
              م جr= یعنی قوس کا رداس
              پس ج ص r cos 30 = = 0.866 r
              اور م ص= r sin 30 = 0.5 r اور ن م= r اس لئے
              ن ص=ن م-م ص r - 0.5 r = = 0.5 rجواب۔ کیوں نہیں بلکہ زیادہ ہوگی۔ اس کو سمجھنے کے لئے آپ مثلث ا م ج کو دیکھیں۔ اس میں زاویہ ا م ج30 درجے کا ہے اس لئے زاویہ م ج ص بھی 30درجے کا ہونا چاہیئے۔ اس صورت میں
              م جr= یعنی قوس کا رداس
              پس ج ص r cos 30 = = 0.866 r
              اور م ص= r sin 30 = 0.5 r اور ن م= r اس لئے
              ن ص=ن م-م ص r - 0.5 r = = 0.5 r
              پس مشہود افق کا قاعدہ یعنی افقی پھیلاؤ 1.732 r = 2x 0.866 r= اس لئے اس مشہود قوس کی بلندی یعنی 0.5 r اس کی مشہود افقی پھیلاؤ یعنی 1.732 r کا 28.86 فیصد ہے جو کہ 50فیصد سے کم ہے۔ اگر یہ زاویہ 45 درجے ہے تو پھر بلندی افقی پھیلاؤ کی 20.7فیصد ہوگی اور اگر یہ زاویہ 60ہوگا تو پھر بلندی افقی پھیلاؤ کی 13.4فیصد ہوگی۔ پس مشہود افق کا قاعدہ یعنی افقی پھیلاؤ 1.732 r = 2x 0.866 r= اس لئے اس مشہود قوس کی بلندی یعنی 0.5 r اس کی مشہود افقی پھیلاؤ یعنی 1.732 r کا 28.86 فیصد ہے جو کہ 50فیصد سے کم ہے۔ اگر یہ زاویہ 45 درجے ہے تو پھر بلندی افقی پھیلاؤ کی 20.7فیصد ہوگی اور اگر یہ زاویہ 60ہوگا تو پھر بلندی افقی پھیلاؤ کی 13.4فیصد ہوگی۔
          • قوس کی شکل کی جوروشنی بادلوں کی اوپر سے نظر آرہی ہے کیا بادلوں کے اندر یہ روشنی لازماًقوس ہی کی شکل میں رہے گی؟
            • جواب۔جی ہاں۔ کیونکہ جو بادلوں کے پیچھے لمبوتری روشنی ہوتی ہے اس کا بادلوں کے او پر تسلسل بھی لمبوتری روشنی کا ہونا چاہیئے جیسا کہ شکل میں جالیوں کے اوپر نظر آرہا ہے۔ پس اگر بادلوں کے اوپر سے روشنی قوس کی شکل میںنظر آرہی ہو تو وہ پھر لازماًمستطیر روشنی کا ہی ٹکڑا ہوسکتاہے جو قوس کی شکل میں ہوتی ہے۔واﷲ اعلم۔
          • کیا صبح صادق کی مستطیر روشنی نصف دائرے میں ہوتی ہے ؟
            • جواب۔بادی النظر میں ایسا ہی نظر آتا ہے لیکن یہ اصل میں نصف دائرے سے کچھ کم ہی ہوتی ہے۔ سوال نمبر9کے جواب میںزاویہ ا م ج 30درجے کی بجائے 18درجے رکھ دیا جائے تو اس روشنی کی قوس کی بلندی اس کی افقی پھیلاؤ کی 36.32فیصد اور اگر15درجے رکھ دیا جائے تواس روشنی کی قوس کی بلندی اس کی افقی پھیلاؤ کی 38.36فیصد ہوگی۔پس پتہ چلا کہ18درجہ زیر افق اور 15درجہ زیر افق کے قوس کی شکل میں صرف دو فیصد فرق ہوتا ہے جو آنکھوں سے محسوس کرنا مشکل ہے البتہ اس میں روشنی کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔18درجہ سے زیادہ کا فرق زمین کی گولائی اور افق کی طبعی حالت کی وجہ سے نظر نہیں آتا۔ بروجی روشنی البتہ چونکہ سورج کی روشنی کا بین السیاراتی ذرات سے انعکاس ہے اس لئے وہ مناسب حالات میں نظر آسکتی ہے۔
          • جامعۃ الرشید کے اساتذہ نے 04:10پر تکون نما روشنی دیکھی تھی ان کا خیال ہے کہ اس روشنی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس طرح شفق کے مشاہدے میں وہ بتارہے ہیں کہ شفق ابیض 21درجے زیر افق کے وقت تک بھی غائب نہیں ہورہا تھا۔ لا محالہ افق پر کوئی اور چیز اثر انداز ہورہی تھی۔
            • جواب۔ وہ یہی صبح کاذب ہی تو تھا کیونکہ کراچی منطقہ حارہ کی سرحد پر واقع ہے اس لئے مئی میں بھی اس کی روشنی کسی حد تک نظر آئی نیز شفق احمر اور شفق ابیض کے مشاہدے میں ان کو جو شفق ابیض21درجے تک بھی غروب ہوتا نظر نہیں آیا جس کا دورانیہ 18درجہ زیر افق کے بعد 15منٹ بنتا ہے وہ بھی یہی بروجی روشنی ہی تھی جس کو شفق کاذب بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی اشتباہ امداد الاحکام کے مشاہدات میں بھی ناظر کو ہوا تھا جس میں 18درجات زیر افق کے وقت کے بعد 35منٹ میں ایک ستون نما روشنی غائب ہوتی ہے۔ پس اگر یہ بروجی روشنی شفق ابیض کے اتنے قریب ہے تو صبح صادق کی بھی بالعکس اتنی قریب ہونی چاہیئے ۔معلوم ہوا کہ 04:10 پر نظر آنے والی تکونی روشنی صبح کاذب ہی تھی۔ چونکہ مئی کا مہینہ اکتوبر کے مقابلے میں مارچ سے زیادہ قریب ہے، اس لئے شام کی بروجی روشنی تو زیادہ صاف نظر آئی اور صبح کی کم فجزاہم اﷲ خیراً۔
          • بعض حضرات شفق احمر کے مشاہدات کو مستند نہیں سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سورج کے غروب ہونے کے بعد سرخی ہی سرخی رہتی ہے اس لئے یہ مستند نہیں۔
            • جواب۔ اس کے بارے میں سوائے افسوس کے کیا کہا جاسکتا ہے۔تین آئمہ کرام اور صاحبین کے نزدیک شفق سے مراد شفق احمر ہے۔کیا ان حضرات کے نزدیک ایک غیر مستند چیز پر ایک نماز کے وقت کا مدار رکھا جاسکتا ہے ؟ اﷲ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔وہ حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ جیسے صبح صادق کی ابتد تو اہم ہے لیکن اس کا تسلسل نہیں اس طرح شفق ابیض کی انتہا اہم ہے اس سے پہلے اس کا وقوع نہیں۔بعینہ شفق احمر کا بھی انتہا اہم ہے اس کے ابتدائی لمحات نہیں۔شفق احمر کے غائب ہونے کے وقت یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ شفق احمر غائب ہوا ہے۔باقی سرخی سے کیا مراد ہے ؟ اگر اس سے مراد دوسرے عوارض کی وجہ سے سرخی ہے تواس میں تبدیلی ان عوارض کی وجہ سے ہی ہوتی ہے سورج کی روشنی کی وجہ سے نہیں اس لئے ان دونوں کا فرق معلوم ہوجاتا ہے۔ احقر کا تو اپنے مشاہدات کے تجربے کے بعد یہ یقین ہے کہ شفق احمر کے مشاہدات شفق ابیض سے زیادہ آسان ہوتے ہیں البتہ اس کا حساب مشکل ہوتاہے کیونکہ یہ کسی خاص درجہ متعینہ کے مطابق واقع نہیں ہوتابلکہ 12.5اور 16.5کے درمیاں متغیر رہتا ہے۔ اصل میں یہ حضرات اس نتیجے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ یہ خالی الذہن ہوکر مشاہدات کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان نتائج سے ان کے مزعومہ 15درجہ زیر افق کے عشائ پر زد پڑتی ہے جو ان سے برداشت نہیں ہورہا ہے ورنہ ڈاکٹر شوکت صاحب کی طرح خالی الذہن ہوکر مشاہدات کرتے تو حقیقت کو فوراً پالیتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ ایک عملی مسئلہ ہے جو محض ایک دو روز کے مشاہدات کی بنیاد پر یہ نتائج حاصل کرنا چاہتے ہوں ان کو اس کا ادراک کیسے ہو؟
          • بعض حضرات کہتے ہیں کہ مشاہدات میں زہرہ سیارہ کی وجہ سے بھی افق پر ایک قوس کی روشنی نظر آتی ہے۔ اس لئے 18درجات زیر افق پر جو قوس کی طرح روشنی نظر آتی ہے وہ ممکن ہے کسی سیارے کی وجہ سے ہو۔
            • جواب۔کیا عجیب بات کرتے ہیں۔فرض کریں ایسا ہی ہے۔زہرہ سیارے کی وجہ سے قوس کی روشنی وجود میں آئی لیکن ان حضرات کے نزدیک تو 18درجات زیر افق کی روشنی صبح کاذب کی ہے جو حدیث شریف کے مطابق مستطیل ہونا چاہیئے نیز یہ حضرات صبح کاذب کو سورج کی روشنی کا اثر سمجھتے ہیں اس لئے صبح کاذب بھی ادھر سے نکلتا ہوا ہونا چاہیئے جہاں سے سورج نکلتا ہے پس 18درجات زیر افق پر زہرہ سیارے کی قوس والی روشنی اور صبح کاذب کا مجموعہ افق پر موجود ہوگا۔پس افق پر گو کہ زہرہ سیارے کی قوس والی روشنی موجود ہو کیا وہ روشنی صبح کاذب کی روشنی کو ان مقامات پر ختم کرے گی جو مستطیل ہونے کی وجہ سے افق سے بلندی پر موجود ہونی چاہیئے۔ اگر نہیں تو کیا دونوں کا مجموعہ مستطیل روشنی نہیں ہونا چاہیئے ؟ پس کیا زہرہ کی روشنی کی وجہ سے صبح کاذب مستطیل ہونے کے باوجود مستطیر نظر آسکتا ہے ؟ دوسری بات، زہرہ سیارہ کی روشنی سورج کی روشنی کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے اس لئے اس کی قوس افق کے بہت قریب ہونی چاہیئے گویا کہ یہ صبح کاذب کی جو جڑ ہے اس کو کچھ زیادہ روشن کردے گا اور کچھ نہیں کرے گا۔ یہ سب کچھ اس صورت میں ہوگا جب زہرہ سیارہ بقول ان حضرات کے افق سے نیچے ہوگا لیکن اس کا اثر افق پر ایک قوس کی شکل میں ہوگا۔ اگر زہرہ سیارہ افق پر موجود ہو تو پھر تو بات ہی دوسری ہے۔ کیونکہ اگر اس کی روشنی صبح کاذب کو ختم کرتی ہے تو ان کا یہ دعویٰ بے کار ہوجاتا ہے کہ صبح کاذب ہمیشہ نظر آنی چاہیئے اور اگر ایسا نہیں تو روشنی پھر بھی مستطیل ہی نظر آنی چاہیے۔ واﷲ اعلم۔
          • بعض حضرات کچھ علمائے کرام کے بیس بیس پچیس سال کے مشاہدات کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے صبح صادق کو ہمیشہ 18درجات زیر افق کے اوقات کے مقابلے میں تاخیر سے دیکھا اس لئے وہ سحری تاخیر سے کرتے رہے ہیں۔
            • جواب۔ ان بزرگوں کی غایت احترام کی ساتھ عاجزانہ عرض ہے کہ مشاہدات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ۱لف۔ وہ مشاہدات جو اپنی حالت میں لوگ عام طور پر کرتے ہیں اور ان میں مشاہدات کرنے کے لئے جن احتیاطوں کا خیال رکھنا چاہیئے وہ نہیں رکھے جاتے مثلاً آج کل ہرجگہ مصنوعی روشنیاں عام ہیں اس لئے مشاہدات کے صحیح نتائج کو حاصل کرنے کے لئے کافی تگ و دود کرنی پڑتی ہے۔مصنوعی روشیوں کے اثرسے پاک جگہوں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے جیسا کہ احقر نے کیا تھا اور دارلعلوم کے علماء کرام اور کراچی کے اکابر علماء نے کیا تھا کیونکہ مصنوعی روشنیوں کی وجہ سے صبح صادق کا مشاہدہ اس طرح متاثر ہوسکتا ہے کہ اس کی ابتدائی روشنی مصنوعی روشنی کی وجہ سے نظر نہ آئے۔ تو ایک طرف ان عام مشاہدات کے نتائج ہیں اور ایک طرف خاص مشاہدات جن میں کئی علماء کرام ایک جگہ ایک وقت میں انتہائی اہتمام اور احتیاط کے ساتھ مشاہدہ کرنے والے ہیں۔ اگر ان دو قسم کے مشاہدات والوں میں اختلاف پایا جائے تو ترجیح کن کے مشاہدات کو حاصل ہوگی ۔ ایک خالی الذہن شخص کے لئے اس کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں۔دوسری طرف جو عام مشاہدات ہوتے ہیں ان کا باقاعدہ ریکارڈ نہیں ہوتا نہ ان کی تفصیلات ہوتی ہیں کہ ان کا جائزہ لیا جاسکے۔ ایک بات البتہ ہے کہ اگر کوئی خود مشاہدہ کرے اور اس میں اس کو غلطی بھی ہوجائے اور اس کو اپنی غلطی کا پتہ نہ چل سکے تو وہ معذور ہے۔ ازروئے تحری اس پر خود اس کا عمل جائز ہے لیکن اگر اس کو ایک اصول وضع کرنے کے لئے استعمال کرنا ہو تو پھر عام مشاہدہ نہیں بلکہ خاص مشاہدہ کرنا پڑے گا یعنی اس میں تمام احتیاطوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جملہ تفصیلات کی حفاظت کے ساتھ سامنے لانا ہوگا تب اس کی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہوسکے گا۔ورنہ ان مشاہدات کی وجہ سے ان بزرگوں پر کوئی الزام تو نہیں دھرا جائے گا لیکن ان کو فنی معاملات میں استعمال کرنے سے عذر کیا جائے گا۔ واﷲ اعلم۔
          • ایک شخص کہتا ہے کہ صبح کاذب جس کا ذکر ایک حدیث شریف میں یوں آتا ہے ’’ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روکے اور نہ فجر مستطیل ﴿صبح کاذب ﴾بلکہ تم فجر مستطیر﴿صبح صادق ﴾تک کھاؤ پیؤ‘‘ سے مراد بروجی روشنی ہے۔
            • -15ایک شخص کہتا ہے کہ صبح کاذب جس کا ذکر ایک حدیث شریف میں یوں آتا ہے ’’ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روکے اور نہ فجر مستطیل ﴿صبح کاذب ﴾بلکہ تم فجر مستطیر﴿صبح صادق ﴾تک کھاؤ پیؤ‘‘ سے مراد بروجی روشنی ہے۔ دوم۔ اس کے رد میں زید کہتا ہے کہ درج ذیل وجوہ کی بنا پر شرعاً بروجی روشنی کو صبح کاذب سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔ الف۔بروجی روشنی سال میں صرف دو ماہ ﴿15 اگست تا 15اکتوبر ﴾ تک نظر آتی ہے اور وہ بھی صبح صادق سے بہت پہلے۔ لہٰذا سال کے باقی دس مہینوں میں جس روشنی کا کوئی وجود ہی نہیں حضور ﷺِ کا اس سے منع کرنے کا کیامطلب ؟خصوصاً جب کہ آپ ﷺِ کے دس سالہ مدنی زندگی میں رمضان المبارک ان دنوں میں آیا ہی نہیں۔ ب۔ لہٰذا بروجی روشنی کے علاوہ کوئی دوسری روشنی تھی کہ جس کے ظاہر ہونے پر حضرت بلال ؓ اذان دے کر صحابہ کو جگاتے تھے اور یہ وہ روشنی ہے جس کے بارے میں علامہ شامی لکھتے ہیںکہ یہ صبح صادق سے تین درجے پہلے مدینہ منورہ میں 16-12منٹ پہلے ﴿قبل از صبح صادق ﴾ ہر روز ظاہر ہوتی ہے۔ اور یہ وہی قدرتی اور مختصر سا سہولت کاوقفہ ہے کہ جس کے مطابق ہمارے ہاں 20-15منٹ بعد نماز پڑھنے کا معمول ہے۔ سوم۔ سوال یہ ہے کہ شرعی نقطہ نگاہ سے آیا الف۔بروجی روشنی پر صبح کاذب کی تعریف آتی ہے یا ب۔ وہ روشنی جو بمطابق علامہ شامی صبح صادق سے تین درجے پہلے افق شرقی پر نمودار ہوتی ہے۔ اس بارے میں اپنی عالمانہ رائے سے مستفیض فرماکر عند اﷲ ماجور ہوں۔
            • جواب۔ یہ استفتاء نہیں بلکہ مفتی کے منہ میں اپنا مطلوبہ فتوٰی ڈالنے کی کوشش ہے۔ کیا استفتاء ایسا ہوتا ہے ؟صحیح بات یہ ہوتی کہ علماءے کرام کو بروجی روشنی کی صحیح کیفیت بتا کر پوچھا جاتا کہ اس قسم کی روشنی کیا صبح کاذب کی تعریف میں آتی ہے یا نہیں ؟ دوسری بات یہ ہے کہ کیا ہمیشہ صبح کاذب نظر آنی چاہیے یا نہیں اس کا تفصیلی جواب اس کتاب میں دیا گیا ہے اور فقہاء کی وہ تحریریں بھی پیش کی گئی ہیں کہ یہ شمالی علاقوں میں شتاء(سردی کے موسم) میں نظر آتا ہے۔علامہ شامی ؒ کی عبارت پر ہی اگر اس کا فیصلہ کرنا ہو تو علامہ شامی ؒ کی عبارت میں یہ نہیں لکھا گیا ہے کہ صبح صادق 15درجہ زیر افق کے مطابق ہوگا۔علامہ شامی ؒ کے قول کا فائدہ 15درجہ زیر افق کے قائلین کو نہیں مل سکتا کیونکہ حضرت ؒ کا اپنا عمل صبح صادق کے بارے میں 18درجہ اور 19درجہ زیر افق کے مطابق ثابت کیا جاچکاہے۔پس علامہ شامی ؒ کی مذکورہ عبارت کے مطابق صبح کاذب 21 یا 22درجہ پر ہونا چاہیئے۔مستفتی کا اگر صبح کاذب سے مراد یہی21 یا 22درجہ زیر افق کے اوقات لینا ہے تو یہ بروجی روشنی کے اوقات کے ہی قریب ہیں اور اگر اس سے مراد صبح کاذب کا 18درجہ زیر افق کے مطابق لینا ہے تو علامہ شامی ؒ کی عبارت سے ان کا مطلوب ہونا ثابت کرے۔واﷲ اعلم۔
          • آپ نے جو فنی نقطے بیان کئے اس کی کیا ضرورت تھی ؟ دین تو بہت سادہ ہے۔کیا یہ معقول کو منقول پر ترجیح دینا نہیں ہے ؟
            • جواب۔واقعی دین سادہ ہے اور اگر کوئی براہ راست مشاہدہ کرے تو اس کو کسی قسم کے فنی مباحث کی ضرورت نہیں لیکن اگر نمازوں کے اوقات کا حساب کرکے نقشہ بنانا ہو تو اس کے لئے فن کے جاننے کی ضرورت ہے۔ یہ درجات کی جو بحث ہے یہ بھی تو فن ہی ہے۔پھر فنی طور ان مشاہدات کو پرکھ کر ان سے فنی اصول اخذ کرنا یہ بھی فن کی بدولت ہے۔وفاق المدارس میں جو احقر کی کتاب فہم الفلکیات پڑھائی جاتی ہے فن ہی کو تو پڑھانے کے لئے پڑھائی جارہی ہے۔جو حضرات یہ سوال اٹھارہے ہیں وہ بھی تو درجات کی بات کرکے فنی مباحث ہی کو تو چھیڑ رہے ہیں۔
          • ان کا مطلب یہ نہیں ہے۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے شامی ؒ کے قول کو فنی طور پر غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ حضرت شریعت اور فقہ کے بڑے عالم ہیں۔ ان کی بات کو محض فن کے بل بوتے پر رد کرنے کا آپ کو کیا اختیار حاصل ہے ؟
            • جواب۔ماشاء اﷲ۔ اب کھل کے بات ہوگئی۔ انصاف سے کام لینے کی شرط پر آپ غور فرمائیں کہ ہم نے حضرت کے فرمودہ حصّے میں کونسے حصّے کے ساتھ اختلاف کیا ہے۔ہمارا تو دعویٰ یہ ہے کہ حضرت کے قول کا فائدہ تو ہمیں ملتا ہے۔ہم اس کو کیوں رد کریں گے۔
              آخر کلام۔ اس تمام تفصیل سے راقم جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ جو حضرات صبح صادق کے لئے 15درجہ زیر افق کا اصول ثابت کرتے ہیں وہ کبھی بھی یہ ثابت نہیں کرسکتے
              1۔کہ 18درجہ زیر افق کے وقت روشنی مستطیل ہوتی ہے۔
              2۔ یا 18درجہ زیر افق کی روشنی کے ظہور کے بعدوہ روشنی ایک لمحے کے لئے ختم یا کم ہوتی ہے۔
              -3یا علامہ شامی ؒ 15درجہ زیر افق کے مطابق صبح صادق کے قائل تھے۔
              -4دنیا میں ہر جگہ ہر روز صبح کاذب کا نظر آنا ضروری ہے۔
              اس کے برعکس الحمد ﷲ ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ 18درجہ زیر افق کی روشنی مستطیر ہوتی ہے فنی لحاظ سے یوں کہ سب اس کے قائل ہیں کہ یہ سورج کی روشنی پر منحصر ہے اور ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ زیر افق سورج کی براہ راست روشنی جب بھی افق پر پڑے گی وہ قوس کی شکل میں ہوگی اور ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ قوس کی روشنی مستطیر ہوتی ہے
              مشاہدات کے ذریعے بھی ثابت کیا جاچکا ہے کہ 18درجہ زیر افق کی روشنی مستطیر ہوتی ہے۔نیز ہم یہ بھی ثابت کرچکے ہیں کہ چاہے افق کے قریب بادل ہی کیوں نہ ہوں افق پر مستطیر روشنی مستطیر نظر آئے گی اور مستطیل روشنی مستطیل۔
              مشاہدات کے ذریعے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ 18درجہ زیر افق کی روشنی کے ظہور کے بعد نہ روشنی میں کمی آتی ہے اور نہ یہ ختم ہوتی ہے
              ہم یہ بھی ثابت کرچکے ہیں کہ علامہ شامی ؒ خود 19درجہ زیر افق کے مطابق صبح صادق کے قول پر عمل فرماتے تھے۔
              ہم یہ بھی ثابت کرچکے ہیں کہ بلند درجات عرض بلد پر فقہاء صبح کاذب کے صرف سردی میں نظر آنے کے قائل رہے ہیں
              نیز کھپرو کے مشاہدات سے پتہ چلا کہ اگر کراچی کے نواح میں باقی موسموں میں بھی تکونی ﴿مستطیلی ﴾روشنی 18درجہ زیر افق سے کچھ پہلے نظر آسکتی ہے تو مدینہ منورہ میں تو لازماً سارے موسموں میں مستطیلی روشنی کے 18درجہ زیر افق سے پہلے نظر آنے کا امکان ہے، اس طرح ان کا یہ سب سے بڑا اعتراض دم توڑ دیتا ہے کہ صبح کاذب ہر روز کیوں نظر نہیں آتا واﷲ اعلم۔
              پس قرآن و حدیث اور فقہ کی علامات کی رو سے اگر 18درجہ زیر افق کی روشنی مستطیل نہ ہو اور ظاہر ہونے کے بعد یہ نہ کم ہو نہ ختم تو صرف اس بنیاد پر کوئی بھی شخص قیامت تک اس کو صبح کاذب نہیں کہہ سکتا چہ جایئکہ اس کے منکرین کے دوسرے اعتراضات کے جوابات بھی دیئے گئے ہوں۔
              15درجہ زیر افق پر بھی فجر مستطیر موجود رہتا ہے لیکن چونکہ 18درجہ زیر افق پر فجر مستطیر کا لمحہ پہلے واقع ہوچکاہوتا ہے لہٰذا وہی صبح صادق کی ابتدا ہوتی ہے کیونکہ اس میں اعتبار ابتدا کو ہے،پس15درجہ زیر افق کے وقت کی کوئی شرعی ضرورت نہیں ہے۔پہلے جو راقم کہتا تھا کہ15 زیر افق کا بھی خیال رکھا جائے وہ محض رفع نزاع کے لئے تھا کہ اختلاف سے اگر بچنا ممکن ہو تو یہ اولیٰ ہے لیکن اگر کسی مستحب کو واجب سمجھا جائے تو پھر اس کا ترک واجب ہوجاتا ہے اس لئے اس صورت میں کہ اس احتیاط کو زبردستی نافذ کروانے کی کوشش کی جارہی ہو اور اس کی وجہ سے اکابرکی شان میں نامناسب الفاظ تحریر کئے جارہے ہوں اور دوسری طرف روزہ چھوٹا اور عشائ جلدی کے عنوان سے نقشے چھاپ کر ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کیئے جارہے ہوں،ایسی صورت میں اس احتیاط کی حقیقت کا واضح کرنا امت کا راقم پر قرض تھا جو اس کتاب میں ان شائ اﷲ چکایا گیا۔ اب اس احتیاط کو ترک کرنے کے لئے کہا جائے گا تاکہ عوام و خواص کو اصل مسئلہ سمجھ میں آجائے۔ اس کے بعد خود اگر کوئی احتیاط پر عمل کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حرج تو فتنے میں ہے جس کا دور کرنا ضروری ہے ۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس سے حضرت مفتی رشید احمد ؒ کی جلالت شان کے خلاف کوئی بات نکالنے کی کوشش خبث باطن کی وجہ سے ہوگی کیونکہ یہ محض ایک عارض کی وجہ سے ہے۔ہم ان سب حضرات سے دلی گزارش کرتے ہیں کہ خدا کے لئے اپنی عاقبت کی فکر کریں۔بیان معروضات میں غور و فکر کریں اور اﷲ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کریں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کاملہ نصیب فرمائے۔آمین ثم آمین۔و ما علینا الاالبلاغ۔
              ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّـدُنْكَ رَحْـمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ ِ
        • ایک ضروری تصحیح
          • احقر کے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ ملک بشیر احمد بگوی صاحب احقر کو اپنا شاگرد بتاتا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔مجھے انہوں نے میراث پر کام کرنے کے لئے ضرور قائل کیا تھا جس کے لئے میں ان کا ممنون ہوں لیکن اس علم فلکیات میں ان سے کوئی استفادہ کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ البتہ ان کو پتہ ہے کہ ان کی کئی غلطیاں احقر نے درست کی ہیں مجھے نہیں معلوم وہ ان کو کس کھاتے میں ڈالتے ہیں۔
        • انٹرنیٹ سے حاصل شدہ بروجی روشنی﴿صبح کاذب﴾ کے بارے میں معلومات
          • Zodiacal Light: It is a faint, roughly triangular shaped glow of light extending away from Sun. In September and October, because the ecliptic is more nearly perpendicular to the horizon at sunrise, the zodiacal light extends more nearly vertically from the horizon and we have a better opportunity to see it shortly before sunrise than when it lies along the horizon and is lost in the dust and haze of Earth's atmosphere. You should begin looking for the zodiacal light before the beginning of astronomical twilight, the time when sunlight first begins to be in the sky. Astronomical twilight begins about 1 1/2 hours before sunrise, so if you are up a little before then, if the sky is clear, and you can get away from any lights, you might look to the east and try to locate this triangular glow of light extending up to 35 or 40 degrees from the horizon, slanting slightly to the right. Near the horizon it may be more than 15 degrees wide, narrowing to about 5 degrees, and under ideal conditions may be as bright as the brightest parts of the Milky Way. When seen early in the morning it is sometimes called the false dawn, followed later by the true dawn. RoyL. Bishop, writing for the Observer's Handbook, describes it as "a huge, softly radiant pyramid of white light with its base near the horizon and its axis centered on the zodiac." 15 درجے کے حق میں لکھنے والے حضرات خود ساختہ فتاوٰی دکھا کر حاصل کئے گئے تھے اس لئے جب ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان کا حوالہ دینے والوں پر نہ صرف حیرت کا اظہار کیا بلکہ بعض مفتیان کرام نے ان کو کذاب کا سرٹیفیکیٹ بھی عطا کیا۔18 درجے کے حق میں فتاوٰی دینے والے جو زندہ ہیں اپنے فتاویٰ پر قائم ہیں اور جو فوت ہوگئے ہیں اپنے فتاویٰ پر آخر دم تک قائم رہے۔درج ذیل ان میں سے چند فتاویٰ دئے جاتے ہیں۔
    • نیت
      • نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں اسلئے جو نماز اس وقت پڑھی جا رہی ہو اس کے بارے میں دل سے یہ ارادہ ہو کہ وہ اس نماز کو پڑھ رہا ہے۔ اورجس امام کے پیچھے پڑھ رہا ہو اس کو یہ علم ہو کہ وہ اس وقت جو امامت کر رہا اس کی اقتدا میں نما زپڑھ رہا ہے۔بس اتنی نیت اصل ہے۔باقی چونکہ بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے،اس لئے ان کی علیحدہ نیت کی ضرور ت نہیں۔مثلاً قبلے کی طرف منہ کیا،اللہ کے لئے پڑھنے کی ،رکعتوں کی تعدادوغیرہ۔ الفاظ کی ادائیگی فقط دل کی نیت کوظاہر کرنے کے لئے ہے۔ اصل اس کی ضرورت نہیں۔
    • جگہ پاک ہونا

        جس جگہ نمازپڑھنی ہو اس کا نجاست (نجاست خفیفہ اورنجاست غلیظہ )سے پاک ہونا شرط ہے۔

      • نماز کے صحیح ہونے کے لئے نماز پڑہنے کی جگہ کا پاک ہو نا شرط ہے اس سے مراد قیام اور سجود کی جگہیں ہیں، یعنی صرف دونوں قدموں، دونوں ہاتھوں، دونوں گھٹنوں اور پیشانی کی جگہ کا پاک ہونا شرط ہے، زمین یا فرش وغیرہ جس چیز پر نماز پڑھتا ہے اس کے سارے حصہ کا پاک ہونا نماز کی صحت کے لئے شرط نہیں پس اگر ایسے فرش پر نماز پڑھی جس کے ایک طرف نجاست تھی اور اس کے دونوں پاوَں اور سجدے کی جگہ پاک ہے تو مطلقاً نماز جائز ہے خواہ وہ فرش بڑا ہو یا ایسا چھوٹا ہو کہ ایک طرف کے ہلانے سے دوسری طرف ہلتا ہو کیونکہ جو چیز نمازی کے بدن سے متصل نہیں جیسا کہ فرش و کپڑے وغیرہ کا جانماز تو اگر ان اعضا کی جگہ پاک ہو جو اس جانماز پر ٹکتے ہوں تو اس پر مطلقاً نماز جائز ہے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا
      • اگر ناک رکھنے کی جگہ نجس ہو اور پیشانی رکھنے کی جگہ پاک ہو تو بلا خلاف نماز درست ہے، اسی طرح اگر ناک رکھنے کی جگہ پاک ہو اور پیشانی رکھنے کی جگہ نجس ہو اور ناک پر سجدہ کرے تو بلا خلاف اس کی نماز جائز ہو گی کیونکہ عذر کے ساتھ ناک پر اکتفا کرنا سجدہ کے لئے کافی ہے، اگر ناک اور پیشانی کی جگہ ناپاک ہو اور ناک اور پیشانی دونوں پر سجدہ کرے تو اصح یہ ہے کہ اس کی نماز درست نہ ہو گی اور صرف سجدہ ناک پر کرے تو امام ابوحنیفہ سے ایک روایت کے مطابق نماز درست ہو جائے گی، اس لئے کہ ناک ایک درہم سے کم جگہ پر لگتی ہے
      • اگر سجدہ میں ہاتھوں یا گھٹنے کے نیچے کی جگہ قدرِ درہم سے زیادہ نجس ہو تو صحیح یہ ہے کہ نماز درست نہ ہو گی اگر پاک جگہ پر نماز پڑھی اور پاک جگہ پر ہی سجدہ کیا لیکن سجدہ میں اس کا کپڑا دامن وغیرہ خشک نجس جگہ پر پڑتا ہے تو اس کی نماز درست ہے
      • اگر نجاست نمازی کے کپڑے میں قدرِ درہم سے کم ہو اور اس کے پاؤں کے نیچے بھی قدرِدرہم سے کم ہو اور جمع کریں تو قدرِدرہم سے زیادہ ہو جائے تو جمع نہیں کریں گے اور نماز درست ہو جائے گی اگر نمازی پاک جگہ پر کھڑا ہوا پھر نجس جگہ پر چلا گیا پھر پہلی (پاک) جگہ آ گیا تو اگر نجس جگہ پر اتنی دیر نہیں ٹھرا جتنی دیر میں چھوٹا رکن ادا کر سکیں یعنی تین بار سبحان اللّٰہ کہنے کی مقدار نہیں ٹھہرا تو اس کی نماز درست ہو گی اور اگر رکن کی مقدار ٹھہرا تو نماز درست نہیں ہو گی
      • اگر نجس جگہ پر کھڑے ہو کر نماز شروع کی اور پھر پاک جگہ میں چلا گیا تو نماز شروع ہی نہیں ہوئی نئے سرے سے پاک جگہ پر نیت باندھے- اگر فرش پر نجاست لگی اور یہ معلوم نہیں کہ کس جگہ لگی ہے تو جس جگہ اس کے دل میں پاکی کا گمان غالب ہو وہیں نماز پڑھے
      • اگر نجاست کی جگہ اپنے بدن کا کوئی حصہ مثلاً ہاتھ بچھا کر اس پر سجدہ کرے تو نماز جائز نہیں، اسی طرح جو کپڑا نمازی کے بدن سے متصل ہے اس کا فالتو حصہ مثلاً آستین وغیرہ بچھا کر اس پر سجدہ کرے تو صحیح یہ ہے کہ نماز نہیں ہو گی اس لئے کہ وہ بدن کے تابع ہے
      • اگر زمین یا فرش پر خشک نجاست ہو اور اُس پر کوئی کپڑا بچھایا تو اگر وہ کپڑا اتنا باریک ہو کہ اس میں سے نجاست نظر آتی ہو یا اس کی بو آتی ہو تو اس پر نماز جائز نہیں اور اگر وہ کپڑا گاڑھا ہے کہ اس میں سے نجاست نظر نہ آئےاور اس کی بو بھی نہ آئے تو اس پر نماز درست ہے، اگر اعضاء سجدہ کی جگہ پاک ہو تو قریب یا بعید سے نجاست کی بو کا آنا نماز کا مانع نہیں ہے لیکن بلا ضرورت قصداً ایسی جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے اگر نجس جگہ پر کھڑے ہو کر نماز شروع کی اور پھر پاک جگہ مںد چلا گاں تو نماز شروع ہی نہںو ہوئی نئے سرے سے پاک جگہ پر نتہ باندھے
      • اگر جانماز کا کپڑا دوہرا ہو اور اس کے اوپر کی تہہ پاک ہو اور نیچے کی تہہ ناپاک ہو اگر یہ دونوں تہیں آپس میں سلی ہوئی نہ ہوں اور اوپر کی تہہ اتنی موٹی ہو کہ نیچے کی نجاست کا رنگ یا بو محسوس نہ ہو تو نماز اس پر درست ہے اور اگر دونوں تہیں (پرت) سلی ہوئی ہیں تو احتیاط اس میں ہے کہ اس پر نماز نہ پڑھے اور اگر ایک ہی کپڑے کی دوہری تہ کرلے اور اوپر کی تہہ پاک ہو اور نیچے کی تہہ ناپاک ہو تو اس پر نماز جائز ہے
      • اگر نجس زمین پر کچھ خشک مٹی چھڑک دی تو اگر مٹی اتنی تھوڑی ہے کہ نجاست کی بو آتی ہے تو نماز جائز نہیں ہو گی اور اگر اتنی بہت ہے کہ بو نہیں آتی تو نماز درست ہو گی اگر نجس زمین کو گارے یا چونے سے لیپ دیا اور خشک ہونے پر اس پر نماز پڑھی تو جائز ہے اگر نجس کپڑا بچھائے اور اس پر مٹی بچھا کر نماز پڑھے تو جائز نہیں
      • اینٹیں اگر ایک طرف سے نجس ہوں اور ان کی دوسری جانب پر جو پاک ہے نماز پڑھے تو جائز ہے خواہ اُن اینٹوں کا زمین پر فرش لگا ہوا ہو یعنی جڑی ہوئی ہوں یا ویسے ہی رکھی ہوں
      • اگر چکی کے پتھر یا دروازے کے تختہ یا موٹے بچھونے وغیرہ سخت چیز پر نماز پڑھی اور وہ اوپر سے پاک ہے اور نیچے سے نجس ہے تو اس پر نماز جائز ہے، اور ایسے نمدے اور موٹے فرش کا جس کے موٹائی میں چیر کر دو بن سکیں اور اس لکڑی کا بھی جو موٹائی میں چر سکے یہی حکم ہے
      • اگر نجاست پر کھڑا ہو اور پاؤں میں جوتیاں یا جرابیں یا موزے پہنے ہوئے ہو تو نماز جائز نہ ہو گی کیونکہ وہ نمازی کے بدن کے تابع ہیں اور اگر جوتیاں نکال کر اُن پر کھڑا ہو جائےاور جوتیوں کے اوپر کی جانب جہاں پاؤں رکھتا ہے پاک ہے تو نماز جائز ہے خواہ نیچے کی جانب جو زمین سے ملتی ہے پاک ہو یا ناپاک۔
      • اگر جانور کی پیٹھ پر نماز پڑھی اور اس کی زین پر نجاست قدرِ درہم سے زیادہ ہے تو صحیح یہ ہے کہ اس کی نماز جائز ہے، اسی پر فتویٰ ہے
      • اگر نجاست غلیظہ نمازی کے ایک پاوَں کے نیچے قدرِ درہم سے زیادہ ہو اور دوسرے پاؤں کی جگہ پاک ہو اور اس نے دونوں پاؤں رکھ کر نماز پڑھی تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے، اصح یہ ہے کہ اس کی نماز جائز نہ ہوگی اور اگر وہ پاؤں رکھا جس کی جگہ پاک ہے اور دوسرا پاوَں جس کی جگہ ناپاک ہے اُٹھا لیا تو نماز جائز ہوگی بلا ضرورت ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگر نجاست دونوں پاؤں کے نیچے ہے اور ہر ایک پاؤں کے نیچے قدرِ درہم سے کم ہے اور جمع کیا جائے تو قدرِ درہم سے زیادہ ہو جائے گی تو جمع کریں گے اور اس سے نماز جائز نہیں ہو گی اسی طرح سجدہ کی جگہ اور پاؤں کی جگہ کی نجاست جمع کی جائے گی
      • جن مقامات پر نماز پڑھنا مکروہ ہے
        • راستہ
        • اونٹ، گائے، بیل، بھیڑ، بکری وغیرہ چوپایوں کے باندھنے کی جگہ
        • . گھوڑے پر
        • جانوروں کی ذبح کرنے کی جگہ
        • پاخانہ اور اس کی چھت
        • غسل خانہ اور اس کی چھت
        • حمام اور اس کی چھت
        • کعبہ مکرمہ کی چھت (کیونکہ تعظیم و ادب کے خلاف ہے اور حدیثِ پاک میں بھی اس کی ممانعت آئی ہے) مسجد کی چھت کا بھی یہی حکم ہے جبکہ بلا ضرورت پڑھے
        • مقبرہ (قبرستان) لیکن اگر قبرستان میں نماز کے لئے الگ جگہ بنائی گئی ہو اور اس جگہ کوئی قبر نہ ہو اور نہ نمازی کے سامنے کوئی قبر ہو اور نہ وہاں کوئی نجاست ہو تو ایسی جگہ نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے اگر قبر نمازی کے دائیں یا بائیں یا پیچھے ہو یا اگر سامنے ہو مگر سترے کی مقدار کوئی چیز نمازی اور قبر کے درمیان حائل ہو تو کچھ کراہت نہیں
        • نالہ بہنے کی جگہ
        • آٹا پیسنے کی چکی کے پاس
        • مزبلہ (کوڑا ڈالنے کی جگہ)
        • چھینی ہوئی زمین یا پرائی زمین میں مالک کی اجازت کے بغیر جبکہ وہ بوئی یا جوتی ہوئی ہو، ورنہ مجبوری کی حالت میں راستہ میں پڑھے
        • جنگل و میدان میں سترے کے بغیر نماز پڑھنا، سترے کی تفصیل مکروہاتِ نماز میں ہے، (گھاس، بوریا، چٹائی اور کپڑے وغیرہ کے فرش پر نماز پڑھنے اور سجدہ کرنے میں کوئی کراہت نہیں لیکن زمین پر اولیٰ ہے کہ اس میں عجز و نیاز ظاہر ہوتا ہے)
        • ہمارے زمانے میں احتیاطاً سفر میں اپنے ہمراہ جانماز (مصلی) رکھنا بہتر ہے پانی کے لئے لوٹا و غیرہ بھی ہمراہ ہونا بہتر ہے
      • حقیقی نجاست ۔ جسم پر کوئی ظاہری یعنی نظر آنے والی ناپاک چیز ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔
        • نجاست خفیفہ﴿ہلکی ناپاکی﴾
          • حلال جانوروں اور گھوڑے کا پیشاب،حرام پرندوں کی بیٹ اورحلال جانوروں کا پتہ نجاست خفیفہ ہے۔ نجاست خفیہ کا حکم یہ ہے کہ کپڑے کے جس حصے یا بدن کے جس عضو پر لگی ہے اگر اس کی چوتھائی سے کم ہے (مثلا دامن میں لگی ہے تو دامن کی چوتھائی سے کم اور آستین میں لگی ہے تو آستین کی چوتھائی سے کم، یوں ہی ہاتھ میں ہاتھ کی چوتھائی سے کم) تو معاف ہے کہ اس سے نماز ہوجائے گی اور اگر پوری چوتھائی میں ہو یا زیادہ میں تو بے دھوئے نماز نہ ہوگی۔ (درمختار وغیرہ)
        • نجاست غلیظہ
          • درہم سے کم ہے تو پاک کرنا سنت ہے کہ بے پاک کیےنماز پڑھ لی تو ہوگئی مگر سنت کے خلاف ہوئی اس کو دہرالینا اچھا ہے۔ (درمختار وغیرہ) پاخانہ، پیشاب، بہتا ہوا خون، پیپ، منہ بھرقے، حیض و نفاس و استحاضہ کا خون، منی، مذی، ودی، دکھتی آنکھ سے، یا ناف اور پستان سے درد کے ساتھ نکلنے والا پانی، دودھ پیتے لڑکے اور لڑکی کا پیشاب، دودھ پینے والے بچہ نے جو دودھ ڈال دیا اور منہ بھر ہے۔ خشکی کے ہر جانور کا بہتا خون، مردار کا گوشت اور چربی، حرام چوپائے جیسے کتا، شیر، وغیرہ اورسور کا پاخانہ، پیشاب اور گھوڑے کی لید۔ ہر حلال چوپائے کا پاخانہ جیسے گائے، بھینس کا گوبر، بکری، اونٹ کی مینگنی اور جو پرندہ کہ اونچا نہ اڑے اس کی بیٹ جیسے مرغی اور بطخ چھوٹی ہو یا بڑی۔ سور کا گوشت اور ہڈی اور بال اگرچہ ذبح کیا گیا ہو، چھپکلی یا گرگٹ کا خون، ہاتھی کی سونڈھ کی رطوبت اور شیر، کتے، چیتے اور دوسرے درندے چوپایوں کا لعاب، سانپ کا پاخانہ، پیشاب اور اس جنگلی سانپ اور مینڈک کا گوشت جن میں بہتا خون ہوتا ہے۔ یو ںہی ان کی کھال اگرچہ پکائی گئی ہو، یونہی حرام جانوروں کا پتہ۔ ہرقسم کی شراب اور نشہ لانے والی تاڑی اور سیندھی اور حرام جانوروں کا دودھ، یہ سب چیزیں نجاست غلیظہ ہیں۔ (درمختار، ردالمحتار) (ہر چوپائے کی جگائی کا وہی حکم ہے جو اس کے پاخانے کا۔(عامہ کتب) نجاست غلیظہ، خفیفہ میں مل جائے تو کل غلیظہ ہے، اگرچہ خفیفہ زائد ہو۔ (درمختار، ردالمحتا ر وغیرہ) نجاست اگر گاڑھی (دل والی) ہو جیسے پاخانہ، لید، گوبر وغیرہ تو درہم کے برابر یا کم یا زیادہ کے معنی ہیں کہ وزنی میں اس کے برابر یا کم یا زیادہ ہو اور دریم کا وزن اس جگہ ساڑھے چار ماشہ ہے اور اگر پتلی ہو جیسے آدمی کا پیشاب اور شراب تو درہم سے مراد اس کی لمبائی چوڑائی ہے اور شریعت میں اس کی مقدار ہتھیلی کی گہرائی کی گہرائی کے برابر یعنی تقریبا یہاں کے روپے کے برابر ہے۔ (عامہ کتب)) نجاست غلیظہ اور خفیفہ کے جو حکم الگ الگ بتائے گئے ہیں یہ اسی وقت ہیں کہ کپڑے یا بدن میں لگے اور اگر کسی پتلی چیز جیسے سر کہ یا پانی میں گرے تو چاہے غلیظہ ہو یا خفیفہ وہ چیز کل ناپاک ہو جائے گی، اگرچہ ایک قطرہ گرے۔ مثلاً پیشاب کا ایک قطرہ پانی کے بڑے مٹکے میں گرگیا تو سب ناپاک ہوگیا۔ (درمختار وغیرہ)) نجاست غلیظہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا بدن میں ایک درہم سے زیادہ لگ جائے تو اس کا پاک کرنا فرض ہے۔ بے پاک کیے نماز پڑھ لی تو ہوگی ہی نہیں اور جان بوجھ کر پڑھ لی تو گناہ بھی ہوا۔ ان دونوں نجاستوں سے کسی چیز کا پاک ہونا طہارت حقیقی کہلاتا ہے۔
    • کپڑے پاک ہونا

        جن کپڑوں میں نمازپڑھنی ہو اس کا نجاست (نجاست خفیفہ اورنجاست غلیظہ )سے پاک ہونا شرط ہے۔

      • کپڑے نماز پڑھنے والے کے بدن پر ہوں جیسے کرتہ پاجامہ ٹوپی، عمامہ، اچکن، موزہ وغیرہ ان سب کا پاک ہونا ضروری ہے، یعنی ان میں سے کسی پر نجاست غلیظہ کا ایک درہم سے زیادہ نہ ہونا اور نجاست خفیفہ کا کپڑا کے چوتھائی حصہ تک نہ ہونا نماز صحیح ہونے کے لئے شرط ہے پس اگر نجاست غلیظہ ایک درہم یا اس سے کم اور نجاستِ خفیفہ چوتھائی کپڑے سے کم ہو گی تو نماز مکروہ ہو گی
      • اگر نمازی کے بدن سے متصل کپڑا پاک ہے اور اس کا فالتو حصہ جو بدن سے الگ فرش وغیرہ پر ہے اور وہ نجس ہے اگر وہ نجس حصہ نمازی کے حرکت کرنے سے حرکت کرتا ہے تو نماز نہ ہو گی اور اگر اتنا بڑا ہے کہ حرکت نہ کرے تو نماز ہو جائے گی
      • اُس چیز کا بھی پاک ہونا فرض ہے جس کو نمازی اًٹھائے ہوئے ہے جبکہ وہ چیز اپنی قوت سے رکی ہوئی نہ ہو، مثلاً نمازی کی گود میں آدمی کا بچہ بیٹھ گیا یا اُس سے چمٹ کر چڑھ گیا اور اُس بچہ میں سنبھلنے کی سکت نہیں ہے اور اُس بچہ پر اس قدر نجاست لگی ہوئی ہے جس سے نماز درست نہیں ہوتی اور وہ بچہ اتنی دیر ٹھرا جس میں ایک رکن ادا کر سکے یعنی تین بار سبحان اللّٰہ کہہ سکے تو نماز فاسد ہو جائے گی اگر اس سے کم ٹھرا تو نماز فاسد نہیں ہو گی اور اگر وہ بچہ نمازی کے تھامنے کا محتاج نہ ہو یعنی اس میں خود سنبھلنے کی طاقت ہو اور وہ خود نمازی کو چمٹا ہو تب بھی نماز فاسد نہیں ہو گی خواہ بہت دیر تک ٹھرا رہے
      • اگر نمازی کے جسم پر ایسی چیز ہو جس کی نجاست اپنی جائے پیدائش میں ہو اور خارج میں اس کا کچھ اثر نہ ہو تو کچھ حرج نہیں اور نماز درست ہو جائے گی، مثلاً اگر نمازی کے پاس آستین یا جیب وغیرہ میں ایسا انڈا ہو جس کی زردی خون بن چکی ہو یا انڈے میں مرا ہوا بچہ ہو تو نماز درست ہو جائے گی کیونکہ نجاست اس کے اپنے جائے پیدائش میں ہے جیسا کہ خود نمازی کے پیٹ میں اس کا فضلہ رہتا ہے اور وہ نماز کا مانع نہیں ہے
      • اگر کسی نے نماز پڑھی اور شہید اُس کے کاندھے پر ہے اور شہید کے بدن یا کپڑوں پر خون بہت پڑا ہے تو نماز درست ہو گی کیونکہ شہید کا خون جب تک اس کے بدن یا کپڑے پر ہے اور کپڑے اُس کے جسم پر پہنے ہوئے ہیں پاک ہے اور جب وہ خون بدن یا کپڑے سے الگ ہو گیا یا کپڑا بدن سے الگ ہو گئے تو اب ناپاک ہیں
      • اگر اکھڑے ہوئے دانت کو پھر منہ میں رکھ لیا اور نماز پڑہی تو نماز جائز ہو گی اگرچہ قدر درہم سے زیادہ ہو یہی صحیح ہے کیونکہ آدمی کا دانت پاک ہے، اسی طرح خنزیر کے سوا سب جانوروں کی دانت یا ہڈی پاک ہے جبکہ اس پر چکنائی نہ ہو خواہ وہ مردے کے ہوں یا زندہ جانور کی پس اگر کسی نے نماز پڑھی اور اس کی گردن میں ایک پٹہ تھا جس میں کتے یا بھیڑئیے کے دانت ہیں تو نماز درست ہے
      • اگر کسی نے اس حال میں نماز پڑھی کہ اس کے پاس چوہا یا بلی یا سانپ ہے تو نماز درست ہو گی مگر گنہگار ہو گا اور یہی حکم ان سب جانوروں کا ہے جن کے جھوٹے پانی سے وضو جائز ہے
      • اگر کوئی شخص ایک جبہ پہن کر نماز پڑھتا رہا اور اس جبہ کے اندر روئی وغیرہ کچھ بھرا ہوا تھا پھر کسی وقت اس میں مرا ہوا چوہا نکلا اگر اس جبہ میں کوئی سوراخ تھا یا وہ پھٹا ہوا تھا تو وہ تین دن رات کی نمازیں لوٹائے اور اگر تازہ مرا ہوا نکلا کہ پھولا یا پھٹا نہیں یا خشک نہیں ہوا تو ایک دن رات کی نمازیں لوٹائے، اگر کوئی سوراخ یا پھٹا ہوا نہیں تھا تو جتنی نمازیں اس جبہ سے پڑھی ہیں سب لوٹائے
      • اگر ایسے دو کپڑوں میں نماز پڑھی کہ ہر ایک پر مقدار درہم سے کم نجاست لگی ہے لیکن اگر دونوں کو جمع کریں تو قدر درہم سے زیادہ ہے تو جمع کریں گے اور اس سے نماز درست نہ ہو گی موزہ بھی لباس میں شامل ہے پس اگر کپڑے اور موزہ میں سے ہر ایک پر قدرِدرہم سے کم نجاست لگی ہو اور ان دونوں کی نجاست مل کر قدرِ درہم سے زیادہ ہو تو نماز درست نہ ہوگی، اگر ایک ہی کپڑے پر کئی جگہ نجاست لگی ہو تب بھی جمع کریں گے اگر قدرِ درہم سے زیادہ ہو گی تو مانع نماز ہو گی غرض کہ جسم پر لباس وغیرہ سے جو بھی چیز ہو گی سب کی نجاست متفرقہ کو جمع کیا جائے گا
      • اگر اکہرے اکہرے کپڑے میں نجاست قدر درہم سے کم لگی ہے مگر دوسری طرف کو پھوٹ نکلی اور دونوں طرف کی نجاست مل کر قدرِ درہم سے زیادہ ہو جاتی ہے تو یہ جمع نہیں کی جائے گی اور نماز درست ہو گی
      • اگر دوہرے کپڑے کی ایک تہ پر قدرِ درہم سے کم نجاست لگی اور دوسری تہ تک پھوٹ نکلی تو امام ابو یوسف کے نزدیک وہ اکہرے کپڑے کے حکم میں ہے اور نماز کی مانع نہیں، اس قول میں آسانی ہے اور امام محمد کے نزدیک جمع کریں گے پس اگر قدرِ درہم سے زیادہ ہو گی تو نماز درست نہ ہو گی اس قول میں احتیاط زیادہ ہے
      • اگر نمازی کے پاس نماز کی حالت میں ایسا درہم تھا جس کی دونوں طرفین نجس تھیں تو مختار یہ ہے کہ وہ نماز جائز ہونے کے مانع نہیں اور یہی صحیح ہے کیونکہ وہ کل ایک درہم ہے
      • نمازی اگر اپنے کپڑے پر قدرِ درہم سے کم نجاستِ مغلظہ پائے اور وقت میں گنجائش ہو تو افضل یہ ہے کہ کپڑا دھو کر نماز شروع کرے اور اگر وہ جماعت اس سے فوت ہو جائے اور کسی دوسری جگہ جماعت مل جائے تب بھی یہی حکم ہے اور اگر یہ خوف ہو کہ جماعت نہ ملے گی یا وقت جاتا رہے گا تو اسی طرح نماز پڑھتا رہے، یہ حکم اس وقت ہے جبکہ نماز میں شامل ہو گیا ہو پھر اس کو نجاست کا علم ہوا ہو، اگر نماز میں شامل نہیں لیکن جماعت کے قریب پہنچ گیا ہے اور جماعت والے نماز میں ہیں اور اس کو خوف ہے کہ اگر اس کو دھوئے گا تو جماعت فوت ہو جائے گی تو بہتر یہ ہے کہ نماز میں شامل ہو جائے اور اس کو نہ دھوئے
      • اگر اپنے کپڑے پر نجاست مغلظہ قدرے درہم سے زیادہ لگی ہوئی دیکھے اور یہ معلوم نہیں کہ کب لگی تھی تو بالاجماع یہ حکم ہے کہ کسی نماز کا اعادہ نہ کرے یہی صحیح ہے
      • اگر کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کے کپڑے میں نجاست قدرِ درہم سے زیادہ دیکھے تو اگر اس کو گمان غالب ہے کہ اس کو خبر کر دینے پر وہ نجاست کو دھو لے گا تو اس کو خبر دینا فرض ہے اور اس صورت میں چپ رہنا جائز نہیں اور اگر اس کو یہ گمان غالب نہ ہو یا یہ گمان ہو کہ وہ کچھ پرواہ نہیں کرے گا تو اس کے اختیار ہے کہ خبر کرے یا نہ کرے یعنی چپ رہنا بھی جائز ہے ہر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لئے یہی اصول ہے اور اس میں یہ بھی شرط ہے اپنی ذات پر ضرر کا خوف نہ ہو پس اگر ضرر کا خوف ہو تو وہ مختار ہے کہ امر بالمعروف کرے یا نہ کرے لیکن کرنا افضل ہے اور اس حالت میں اگر قتل کر دیا گیا تو شہید ہو گا
      • اگر نمازی کو پاک اور نجس کپڑوں میں شبہ پڑ جائے تو تحری کرے اور ظنِ غالب پر عمل کرے اور اس کے ظنِ غالب میں جو کپڑا پاک ہو اس سے نماز پڑھے، اگر کسی نے ایسے کپڑے میں نماز پڑھی جو اس کے نزدیک نجس تھا پھر نماز سے فارغ ہو کر معلوم ہوا کہ وہ پاک تھا تو وہ نماز جائز ہو گی
      • حقیقی نجاست ۔ جسم پر کوئی ظاہری یعنی نظر آنے والی ناپاک چیز ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔
        • نجاست خفیفہ﴿ہلکی ناپاکی﴾
          • حلال جانوروں اور گھوڑے کا پیشاب،حرام پرندوں کی بیٹ اورحلال جانوروں کا پتہ نجاست خفیفہ ہے۔ نجاست خفیہ کا حکم یہ ہے کہ کپڑے کے جس حصے یا بدن کے جس عضو پر لگی ہے اگر اس کی چوتھائی سے کم ہے (مثلا دامن میں لگی ہے تو دامن کی چوتھائی سے کم اور آستین میں لگی ہے تو آستین کی چوتھائی سے کم، یوں ہی ہاتھ میں ہاتھ کی چوتھائی سے کم) تو معاف ہے کہ اس سے نماز ہوجائے گی اور اگر پوری چوتھائی میں ہو یا زیادہ میں تو بے دھوئے نماز نہ ہوگی۔ (درمختار وغیرہ)
        • نجاست غلیظہ
          • درہم سے کم ہے تو پاک کرنا سنت ہے کہ بے پاک کیےنماز پڑھ لی تو ہوگئی مگر سنت کے خلاف ہوئی اس کو دہرالینا اچھا ہے۔ (درمختار وغیر)) پاخانہ، پیشاب، بہتا ہوا خون، پیپ، منہ بھرقے، حیض و نفاس و استحاضہ کا خون، منی، مذی، ودی، دکھتی آنکھ سے، یا ناف اور پستان سے درد کے ساتھ نکلنے والا پانی، دودھ پیتے لڑکے اور لڑکی کا پیشاب، دودھ پینے والے بچہ نے جو دودھ ڈال دیا اور منہ بھر ہے۔ خشکی کے ہر جانور کا بہتا خون، مردار کا گوشت اور چربی، حرام چوپائے جیسے کتا، شیر، وغیرہ اورسور کا پاخانہ، پیشاب اور گھوڑے کی لید۔ ہر حلال چوپائے کا پاخانہ جیسے گائے، بھینس کا گوبر، بکری، اونٹ کی مینگنی اور جو پرندہ کہ اونچا نہ اڑے اس کی بیٹ جیسے مرغی اور بطخ چھوٹی ہو یا بڑی۔ سور کا گوشت اور ہڈی اور بال اگرچہ ذبح کیا گیا ہو، چھپکلی یا گرگٹ کا خون، ہاتھی کی سونڈھ کی رطوبت اور شیر، کتے، چیتے اور دوسرے درندے چوپایوں کا لعاب، سانپ کا پاخانہ، پیشاب اور اس جنگلی سانپ اور مینڈک کا گوشت جن میں بہتا خون ہوتا ہے۔ یو ںہی ان کی کھال اگرچہ پکائی گئی ہو، یونہی حرام جانوروں کا پتہ۔ ہرقسم کی شراب اور نشہ لانے والی تاڑی اور سیندھی اور حرام جانوروں کا دودھ، یہ سب چیزیں نجاست غلیظہ ہیں۔ (درمختار، ردالمحتار) (ہر چوپائے کی جگائی کا وہی حکم ہے جو اس کے پاخانے کا۔(عامہ کتب) نجاست غلیظہ، خفیفہ میں مل جائے تو کل غلیظہ ہے، اگرچہ خفیفہ زائد ہو۔ (درمختار، ردالمحتا ر وغیرہ) نجاست اگر گاڑھی (دل والی) ہو جیسے پاخانہ، لید، گوبر وغیرہ تو درہم کے برابر یا کم یا زیادہ کے معنی ہیں کہ وزنی میں اس کے برابر یا کم یا زیادہ ہو اور دریم کا وزن اس جگہ ساڑھے چار ماشہ ہے اور اگر پتلی ہو جیسے آدمی کا پیشاب اور شراب تو درہم سے مراد اس کی لمبائی چوڑائی ہے اور شریعت میں اس کی مقدار ہتھیلی کی گہرائی کی گہرائی کے برابر یعنی تقریبا یہاں کے روپے کے برابر ہے۔ (عامہ کتب)) نجاست غلیظہ اور خفیفہ کے جو حکم الگ الگ بتائے گئے ہیں یہ اسی وقت ہیں کہ کپڑے یا بدن میں لگے اور اگر کسی پتلی چیز جیسے سر کہ یا پانی میں گرے تو چاہے غلیظہ ہو یا خفیفہ وہ چیز کل ناپاک ہو جائے گی، اگرچہ ایک قطرہ گرے۔ مثلاً پیشاب کا ایک قطرہ پانی کے بڑے مٹکے میں گرگیا تو سب ناپاک ہوگیا۔ (درمختار وغیرہ)) نجاست غلیظہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا بدن میں ایک درہم سے زیادہ لگ جائے تو اس کا پاک کرنا فرض ہے۔ بے پاک کیے نماز پڑھ لی تو ہوگی ہی نہیں اور جان بوجھ کر پڑھ لی تو گناہ بھی ہوا۔ ان دونوں نجاستوں سے کسی چیز کا پاک ہونا طہارت حقیقی کہلاتا ہے۔
    • جسم پاک ہونا
      • بوقت نماز جسم کا نجاست حکمی اور نجاست حقیقی سے پاک ہونا چاہئے
      • حکمی نجاست
        • اگرچہ ظاہر میں بدن پر کوئی ناپاک چیز لگی ہوئی نہ ہو لیکن پھر بھی بدن شرعی حکم سے ناپاک ہو۔ مثلاً کوئی شخص جنابت کی وجہ سے ناپاک ہو اس نے اپنے بدن کی ظاہری نجاست تو دھو ڈالی لیکن جب تک وہ باقاعدہ غسل نہ کرے اس وقت تک اس کا بدن ناپاک رہے گا اور اس شخص کے لئے نماز ادا کرنا اور مسجد میں داخل ہونا جائز و درست نہیں ہے۔ یا کوئی شخص جنبی تو نہیں لیکن بے وضو ہے یعنی پیشاب و پاخانہ کے بعد استنجاء تو کر لیا لیکن وضو نہیں کیا تو یہ شخص بھی شرعاً ناپاک ہے اور اس کو نماز پڑھنا اور قرآن مجید کا چھونا جائز نہیں ہے۔ ایسی نجاست کو نجاست حکمی کہتےہیں یعنی وہ نجاست جو دیکھنے میں تو نہ آسکے لیکن شریعت کے حکم سے ثابت ہو نجاست حکمی کہلاتا ہے اوران دونوں نجاستوں سے بدن کا پاک ہونا طہارت حکمی کہلاتا ہے۔ نجاستِ حکمی کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔
        • حدث اصغر کا پاک کرنا
          • بے وضو ہونا(تفصیل دیکھئے وضو کا بیان میں)
        • حدث اکبر کا پاک کرنا
          • غسل کا فرض ہونا
          • غسل کے مسائل
            • غسل فرض ہونے کے اسباب
              • جنابت
                • جنابت کے دو اسباب ہیں پہلا سبب منی کا شہوت سے کود کر بغیر دخول کے نکلنا خواہ چھونے سے ہو یا دیکھنے سے یا کسی خیال و تصور سے یا احتلام یا جلق (یعنی ہاتھوں سے حرکت دے کر) سے نکلے سوتے میں یا جاگتے میں۔ حالت ہوش میں ہو یا بیہوشی میں۔ مرد سے نکلے یا عورت سے۔ ان سب سورتوں میں اس پر غسل فرض ہو جائے گا۔ اگر کوئی مرد یا عورت سو کر اٹھے اور اگر جسم یا کپڑے پر تری دیکھے تو اگر اس کو احتلام یاد ہو تو اس پر غسل فرض ہو گا اور اگر احتلام یاد نہ ہو مگر منی کا یقیں ہو تو بھی غسل فرض ہے۔ اور ندی کا یقین ہو تو غسل فرض نہیں۔ اگر مرد یا عورت سو کر اٹھے اوراحتلام اور لذت یاد ہے لیکن تری نہ پائے تو غسل فرض نہ ہو گا۔ رات کو خاوند و بیوی کسی بچھونے پر سوئے تھے اور اس بچھونے پر منی پائی جائے اور دونوں میں کسی کو احتلام یاد نہ ہو اور دونوں اپنی اپنی منی ہونے کا نکار کریں اور مرد و عورت کی منی کی تمیز کی علامت بھی نہ پائی جاتی۔ تو دونوں پر غسل واجب ہو گا۔ اگر مرد کی منی کی علامت ہے تو صرف مرد پر غسل واجب ہو گا اور اگر عورت کی منی کی علامت ہے تو عورت پر واجب ہو گا اور اگر احتلام یاد ہے تو اسی پر ہو گا جس کو یاد ہے۔ دوسرے پر واجب نہیں اور اگر منی خشک ہے اور اس بستر پر پہلے کوئی دوسرا سویا تھا اور ان میں سے کسی کو احتلام یاد نہیں تو دونوں پر غسل واجب نہیں۔ مرد کی منی کی علامات یہ ہیں . سخت اورگاڑھا ہونا ٢ جنابت کا دوسرا سبب دخول ہے۔ یعنی زندہ عورت کے فرج کے مقام یا زندہ عورت یا مرد کے پاخانہ کے مقام میں (یہ بہت گناہ کا کام ہے اور اس کی سختی سے ممانعت آئی ہے) سر ذکر کے داخل ہو جانے سے خواہ انزال ہے یا نہیں۔ فائل اور مفعول دونوں پر غسل فرض ہو جاتا ہےجبکہ دونوں مکلف ہوں یا ان میں سے جو مکلف ہو اس پر غسل فرض ہو گا۔
              • حیض
                • حیض وہ خون ہے جو رحم سے بغیر ولادت یا بیماری کے ہر مہینہ فرج (آگے) کی راہ سے نکلتا ہےاگر خون پاخانہ کے مقام کی طرف سے نکلے تو حیض نہیں اور اس کے بند ہو جانے پر غسل فرض نہیں بلکہ مستحب ہےزمانہ حیض کے علاوہ اور دنوں میں کسی دوائی کے استعمال سے خون آجائے وہ بھی۔حیض نہیں ہے

                  حیض کا خون ان چند باتوں پر موقوف ہے وقت اور وہ نو برس کی عمر سے ایاس (ناامیدی) کی عمر تک ہے، نو برس سے پہلے جو خون نکلے وہ حیض نہیں ہے ایاس کا وقت پچپن برس کی عمر ہونے پر ہوتا ہے یہی اسح ہے اور اسی پر فتویٰ ہے، اس کے بعد جو خون آئے گا وہ حیض نہیں بشرطیہ وہ قوی نہ ہو یعنی زیادہ سرخ یا سیاہ نہ ہو پس اگر ایسا ہے تو حیض ہے اور اگر زرد و سبز یا خاکی رنگ ہو تو حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے بشرطیہ اس عمر سے پہلے ان رنگوں میں سے کسی رنگ کا خون نہ آتا ہو وربہ اگر عادت کے مطابق ہو گا تو اب بھی حیض شمار ہو گا،

                  خون کا فرجِ خارج تک نکلنا اگرچہ گدی کے گر جانے سے ہو پس جب تک کچھ گدی یا روئی خون اور فرج خارج کے درمیان حائل ہے تو حیض نہ ہو گا، حیض کے خون میں سیلان (بہنا) شرط نہیں، مطلب یہ ہے کہ جب تک خون فرج کے سوراخ سے باہر کی کھال تک نہ آئے اس وقت تک حیض شروع ہونے کا حکم نہیں لگے گا اور سوراخ سے باہر کی کھال میں نکل آئے تب سے حیض شروع ہے گا خواہ اس کھال سے باہر نکلے یا نہ نکلے کیونکہ بہنا شرط نہیں ہے، اگر کوئی عورت سوراخ کے اندر روئی وغیرہ رکھ لے جس سے خون باہر نہ نکلنے پائے تو جب تک سوراخ کے اندر ہی اندر خون رہے اور باہر والی روئی یا گدی وغیرہ پر خون کا دھبہ نہ آئے تب تک حیض شروع ہونے کا حکم نہ لگے گا ، اور جب خون کا دھبہ باہر والی کھال میں آجائے یا روئی وغیرہ کھینچ کر باہر نکال لیں تب سے حیض کا حساب ہو گا اور جس وقت سے خون کا دھبہ باہر کی کھال میں یا روئی وغیرہ کے باہر والے حصہ پر دیکھا ہے اسی وقت سے حیض شروع ہونے کا حکم ہو گا،

                  حیض کا خون ان چھ رنگوں میں سے کسی ایک رنگ کا ہو1. سیاہ 2. سرخ3. زرد 4. تیرہ (سرخی مائل سیاہ یعنی گدیلا)5. سبز 6. خاکستری (مٹیلا) اور جب تک بلکل سفید نہ ہو جائے وہ حیض ہے تری کی حالت کا اعتبار ہے پس جب تک کپڑا تر ہے اگر اس وقت تک خالص سفیدی ہو اور جب خشک ہو جائے تب زرد ہو جائے تو اس کا حکم سفیدی کا ہےاور تر حالت میں سرخ یا زرد ہے اور خشک ہونے کے بعد سفید ہو گیا تو سرخ یا زرد سمجھا جائے گا اور وہ حیض کے حکم میں ہو گا

                  مدت حیض، حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور تین راتیں ہیں، تین دن اور رات سے ذرا بھی کم ہو تو حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے کہ کسی بیماری کی وجہ سے ایسا ہو گیا ہے اور اکثر مدت حیض دس دن اور دس راتیں ہیں پس دس دن سے زائد جو خون آیا وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہو گا ،

                  رحم حمل سے خالی ہو یعنی وہ عورت حاملہ نہ ہو

                  طہر کی کامل مدت اس سے پہلے ہو چکی ہو، دو حیض کے درمیان پاک رہنے کی مدت کم سے کم پندرا دن ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے، پس دو حیض کے درمیان میں جو طہر یا پاکی کے دن آئیں اگر وہ پندرہ روز سے کم ہیں تو ان دونوں حیض کو جدا نہیں کرے گا پس اگر وہ وقفہ دس دن سے زیادہ نہ ہو تو وہ طہر اور خون سب حیض ہوں گے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر اس کو پہلی ہی بار حیض آیا ہو تو دس دن حیض کے سمجھے جائیں گے اوراگر اس کی عادت مقرر ہو تو مقررہ عادت کے مطابق حیض سمجھا جائے گا اور طہر کی کم سے کم مدت یعنی پندرہ دن یا اس سے زیادہ وقفہ ہو تو طہر۔ سمجھا جائے گا ورنہ باقی دن استحاضہ ہو گا

                • استحاضہ کا بیان

                    جو خون حیض اور نفاس کی صفت سے باہر ہو وہ استحاضہ ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اس میں بدبو نہیں ہوتی اور حیض اور نفاس کے خون میں بدبو ہوتی ہے اور استحاضہ کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں

                  • ایام حیض میں جو خون تین دن سے کم ہو،
                  • ایام حیض میں جو خون دس دن سے زیادہ ہو
                  • جو خون نفاس چالیس دن سے زیادہ ہو
                  • جو حیض و نفاس عادت مقررہ سے زیادہ ہو اور اپنی اکثر مدت یعنی دس دن اور چالیس دن سے زیادہ ہو جائے
                  • حاملہ کا خون دوران حمل میں چاہے جتنے دن آئے
                  • نو برس سے کم عمر کی لڑکی کو جو خون آئے
                  • پچپن برس سے زیادہ ہو جانے پر جو خون آئے بشرطیہ وہ قوی نہ ہو یعنی زیادہ سرخ و سیاہ نہ ہو،
                  • پندرہ روز سے کم وقفہ ہونا
                  • پاخانہ کے مقام سے جو خون آئے
                  • ولادت کے وقت آدھا بچہ یا اس سے کم آنے پر جو خون نکلے لیکن نصف سے زیادہ بچہ نکلنے کے بعد جو خون آئے گا وہ نفاس ہو گا
                  • بالغ ہونے پر پہلی دفعہ حیض آیا اور وہ بند نہیں ہوا تو ہر مہینہ میں پہلے دس روز حیض کے شمار ہوں گے اور بیس روز استحاضہ شمار ہوں گے اسی طرح جس کو پہلی دفعہ نفاس آیا اور خون بند نہیں ہوا تو پہلے چالیس روز۔نفاس شمار ہو گا اور باقی استحاضہ
              • نفاس
                • نفاس وہ خون ہے جو بچہ پیدا ہونے کے بعد رحم سے آگے کی راہ سے نکلے جب نصف سے زیادہ بچہ باہر نکل آئے تو اب جو خون نکلے گا وہ نفاس ہو گا، اس سے پہلے نفاس نہیں ہو گا اگر توام (جوڑا) بچے پیدا ہوں تو نفاس پہلے بچے کے پیدا ہونے کے وقت سے ہو گا اور اس کی پیدائش کے بعد سے چالیس دن تک نفاس ہو گا اس کے بعد استحاضہ ہے مگر غسل کا حکم دیا جائے گا یعنی نہا کر نماز پڑھے گی شرط یہ ہے کہ دونوں توام بچوں کی ولادت میں چھ مہینہ سے کم کا فاصلہ ہو اگر دونوں کے درمیان چھ مہینہ یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو تو دو حمل اور دو نفاس ہونگے

                  نفاس کی کم سے کم مدت کچھ مقرر نہیں، نصف سے زیادہ بچہ نکلنے کے بعد خون آ جائے خواہ ایک ہی ساعت ہو وہ نفاس ہے اگر بچہ نصف سے کم نکلا اور اس وقت خون آیا تو وہ نفاس نہیں بلکہ استحاضہ ہے اور نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے، اگر خون چالیس دن سے زیادہ آتا رہا تو اس عورت کے لئے جس کو پہلی مرتبہ نفاس آیا چالیس دن نفاس ہو گا اور باقی استحاضہ اور جس عورت کی نفاس کی عادت مقرر ہے اس کے لئے مقررہ عادت کے دنوں تک نفاس ہے اور باقی استحاضہ، نفاس کی عادت کے ایک بار خلاف ہونے سے عادت بدل جاتی ہے اسی پر فتویٰ ہے

              • متفرق مسائل
                • اگر پورے دس دن رات حیض آیا اور ایسے وقت خون بند ہوا کہ صرف ایک دفعہ اللّٰہ اکبر کہ سکتی ہے اور نہانے کی گنجائش نہیں تب بھی نماز واجب ہو جاتی ہے اس کی قضا پڑھنی چاہیے اور رمضان شریف میں اگر رات کو پاک ہوئی اور اتنی ذرا سی رات باقی ہے جس میں ایک دفعہ اللّٰہ اکبر بھی نہیں کہ سکتی تب بھی اس صبح کا روزہ واجب ہو،
                • اگر حیض کا خون دس دن سے کم میں بند ہو جائے تو اگر نماز کا اتنا آخری وقت پا لے کہ جس میں غسل کر کے کپڑے پہن کر تکبیر تحریمہ کہ سکے تو اس پر اس وقت کی نماز واجب ہو جاتی ہے پس اس نماز کی قضا پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو وہ نماز اس پر واجب نہیں ہوتی، یعنی وہ نماز معاف ہےاور روزہ کے لئے حکم یہ ہے کہ اگر رات کو پاک ہوئی اور پھرتی سے نہا سکنے کا وقت تو ہو لیکن ایک دفعہ بھی اللّٰہ اکبر نہیں کہ سکتی تب بھی اس دن کا روزہ واجب ہے پس اسے چاہیے کہ روزہ کی نیت کر لے اور صبح کو نہا لے اور اگر پھرتی سے غسل کرنے کا وقت بھی نہ ہو تو اس دن کا روزہ فرض نہیں ہو گا لیکن اس کے لئے دن میں کھانا پینا درست نہیں روزہ دار کی طرح رہے اور اس روزہ کی قضا دے،
                • اسی طرح رمضان شریف میں دن کو پاک ہوئی تو اب پاک ہونے کے بعد کھانا درست نہیں شام تک روزہ داروں کی طرح رہنا واجب ہے لیکن یہ دن روزہ میں شمار نہیں ہو گا بلکہ اس کی قضا رکھنی پڑے گی،
                • کسی لڑکی نے پہلی دفعہ خون دیکھا اگر اس کو دس دن یا اس سے کم خون آئے تو سب حیض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ آئے تو پورے دس دن حیض ہے اور اس سے جتنا زیادہ ہو وہ سب استحاضہ ہے،
                • کسی عورت کو مثلاً تین دن حیض آنے کی عادت ہے لیکن کسی مہینہ میں ایسا ہوا کہ تین دن پورے ہو چکے اور ابھی خون بند نہیں ہوا تو ابھی غسل نہ کرے اور نہ نماز پڑھے اگر دس دن رات پورے ہونے پر یا اس سے پہلے مثلاً نویں دن خون بند ہو جائے تو ان سب دنوں کی نمازیں معاف ہیں کچھ قضا نہیں پڑھنی پڑے گی اور یوں کہیں گے کہ عادت بدل گئی اس لئے یہ سب دن حیض کے ہوں گے اور اگر گیارہویں دن یعنی دس دن رات سے ایک لحظہ بھی زیادہ خون آیا تو اب معلوم ہوا کہ حیض کے فقط تین ہی دن یعنی مقررہ عادت کے مطابق اور باقی سب استحاضہ ہے پس گیارہوں دن نہائے اور عادت کے تین دن چھوڑ کر باقی دنوں کی جتنی نمازیں ہوئی ان سب کو قضا پڑھے،
                • حیض یا نفاس میں ایک مرتبہ کے بدلنے سے عادت بدل جاتی ہے اسی پر فتویٰ ہے مثلاً کسی عورت کے ہمیشہ چار دن حیض آتا تھا پھر ایک مہینہ میں پانچ دن خون آیا اور پھر دوسرے مہینہ میں پندرہ دن خون آیا تو ان پندرہ دن میں سے پانچ دن حیض کے اور دس دن استحاضہ کے ہیں، اب عادت یعنی چار دن کا اعتبار نہیں کریں گے اور یہ سمجھیں گے کہ عادت بدل گئی اور پانچ دن کی عادت ہو گئی ہے نفاس کو بھی اسی پر قیاس کر لیجیے،
                • جس عورت کی عادت مقرر نہ ہو بلکہ کبھی چار دن خون آتا ہے کبھی سات دن اسی طرح بدلتا رہتا ہے کبھی دس دن بھی آجاتا ہے تو یہ سب حیض ہے ایسی عورت کو اگر کبھی دس دن سے زیادہ خون آجائے تو اس سے پہلی مہینہ میں جتنے دن حیض آیا تھا اتنے دن حیض کے ہیں اور باقی سب استحاضہ ہے
                • جس عورت کی عادت مقرر نہ ہو بلکہ کبھی مثلاً چھ دن حیض کے ہیں اور کبھی سات دن اب جو خون آیا تو کبھی بند نہیں ہوتا اس کے لئے نماز روزہ کے حق میں کم مدت یعنی چھ دن حیض کے قرار دئے جائیں گے اور وہ ساتویں دن نہا کر نماز پڑھے اور روزہ رکھے مگر سات دن پورے کرنے کے بعد پھر نہانے کا حکم ہے اور ساتویں دن جو فرض روزہ رکھا ہے اس کی۔قضا کرے
                • حدث اصغر و اکبر کے احکام

                    حدث اصغر یعنی بے وضو ہونے اور حدث اکبر یعنی غسل واجب ہونے یا حیض یا نفاس کی حالت طاری ہونے اور استحاضہ کے احکام کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

                  • وہ احکام جو صرف حدث اصغر کے ساتھ مخصوص ہیں
                    • 1. قرآن مجید کا پڑھنا اور پڑھانا جائز اور درست ہے خواہ چھوئے بغیر دیکھ کر یا زبانی حفظ سے پڑھے پڑھائے۔
                    • 2. نابالغ بچوں کو قرآن مجید دینا اور چھونے دینا مکروہ نہیں ہے۔
                  • وہ احکام حدث اصغر و اکبر میں مشترک ہیں

                      حدث اصغر یعنی بے وضو ہونے اور حدث اکبر یعنی غسل واجب ہونے یا حیض یا نفاس کی حالت طاری ہونے اور استحاضہ کے احکام کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

                    • 1. ہر قسم کی نماز پڑھنا حرام و ممنوع ہے خواہ فرض و واجب ہو یا سنت و نفل ، اور خواہ رکوع و سجود والی نماز ہو یا بغیر رکوع سجدے کی یعنی نماز جنازہ، پس جو شخص بے وضو ہو یا اس پر غسل کرنا فرض ہو اس کے وضو یا غسل کرنے کے بعد نماز ادا کرنی چاہیے ، اور حیض و نفاس والی عورت سے نماز ساقط ہو جاتی ہے یعنی بالکل معاف ہو جاتی ہے، اور پاک ہونے کے بعد بھی اس کی قضا واجب نہیں ہوتی۔ اگر فرض یا واجب نماز پڑھنے کی حالت میں حیض آ گیا تو وہ نماز معاف ہو گی، اب اس نماز کو پڑھنا ترک کر دے اور پاک ہونے کے بعد اس کی قضا بھی نہ پڑھے، اور اگر سنت یا نفل پڑھنے کی حالت میں حیض آگیا تو اب اس کو بھی ادا نہ کرے لیکن پاک ہونے کے بعد اس کی قضا پڑھنی ہو گی ۔ اور اگر نماز کے آخر وقت میں حیض آیا اور ابھی نماز نہیں پڑھی تب بھی وہ نماز معاف ہو گی۔ حیض والی عورت کے لئے مستحب یہ ہے کہ ایام حیض میں ہر نماز کے وقت وضو کرے اور اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی پاک جگہ میں بیٹھے اور اندازاً نماز ادا کرنے کی مدت تک ذکر اللہ اور تسبیح و تہلیل و تکبیر و درود شریف و استغفار و دعا وغیرہ میں مشغول رہے تاکہ نماز کی عادت نہ چھوٹنے پائے ، اور پاک ہونے کے بعد نماز سے جی نہ گھبرائے اور سستی پیدا نہ ہو۔
                    • 2. قرآن مجید کا چھونا جائز نہیں یعنی حرام ہے، خواہ اس جگہ کو چھوئے جس میں آیت لکھی ہوئی ہے یا اس جگہ کو جو سادہ ہے ، لیکن اگر قرآن مجید ایسے غلاف میں ہے جو اس سے جدا ہو، یا رومال میں لپٹا ہوا ہو ، یا ایسی جلد ہو جو اس کے ساتھ سلی ہوئی نہ ہو، یا اس پر کپڑے کی چولی اس طرح چڑھی ہوئی ہو کہ جلد کے ساتھ سلی ہوئی نہ ہو بلکہ الگ ہو کہ اتارنے سے اتر سکے تو چھونا اور اٹھانا جائز ہے، اور جو جلد قرآن شریف کے ساتھ سلی ہوئی ہو یا چولی جلد کے ساتھ سلی ہوئی ہو تو اس کا چھونا جائز نہیں۔ پہنے ہوئے کپڑے مثلاً کرتے کی آستین یا دامن یا دوپٹے کی آنچل وغیرہ سے چھونا بھی جائز نہیں، اور اگر کپڑا بدن پر پہنا ہوا نہ ہو بلکہ الگ ہو جیسے رومال وغیرہ تو اس سے چھونا یا پکڑ کر اٹھانا و کھولنا جائز ہے۔ اگر پورا قرآن مجید نہ ہو بلکہ کسی کاغذ یا کپڑے یا جھلی یا روپیہ پیسہ یا تشتری یا تعویذ یا کسی اور چیز پر قرآن شریف کی کوئی آیت یا آیتیں لکھی ہوئی ہوں اس کو اس لکھی ہوئی جگہ سے چھونا اٹھانا جائز و درست نہیں ، لیکن جو حصہ سادہ ہے اس کو چھونا اور پکڑنا جائز ہے جب کہ آیت کو ہاتھ نہ لگے، اگر ایسا روپیہ پیسہ وغیرہ تھیلی میں ہو یا کسی برتن وغیرہ میں رکھا ہو یا تعویذ پر الگ سادہ کاغذ لپٹا ہوا ہو تو اس تھیلی، برتن اور تعویذ کا چھونا اور اٹھانا جائز ہے۔ قرآن مجید کی طرف دیکھنا مکروہ نہیں ہے ، کیونکہ یہ مس کرنا نہیں ہے صرف نظر کا قرآن مجید کے سامنے ہونا پایا جاتا ہے۔
                    • حدث اصغر و اکبر کے احکام

                      قرآن مجید کے علاوہ اور آسمانی کتا بوں مثلاً توریت و انجیل و زبور وغیرہ کے صرف اس مقام کو چھونا مکروہ و ممنوع ہے جہاں لکھا ہوا ہے، سادہ مقام کا چھونا مکروہ نہیں اور یہی حکم قرآن مجید کی ان آیتوں کا ہے جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے۔ بعض کے نزدیک توریت و انجیل وغیرہ دیگر کتب سماویہ کا بھی وہی حکم ہے جو قرآن مجید کے مس کرنے کا بیان ہوا کیونکہ ان سب کی تعظیم واجب ہے، لیکن یہ حکم ان کتب سماویہ کے لئے مخصوص ہونا چاہیے جن میں کوئی تحریف اور تغیر و تبدل نہیں ہوا ہے۔ کتب تفسیر مع اصل قرآن و فقہ و حدیث کے چھونے کے متعلق تین قول ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ ان میں آیت قرآنی کی جگہ کا مس کرنا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ دوسری جگہ کا مس کرنا جائز ہے اور یہ قواعد شرعیہ کے زیادہ موافق ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ان کے مس کرنے میں مطلقاً کوئی کراہت نہیں ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ کتب تفسیر کا مس کرنا مکروہِ تحریمی ہے اور کتب فقہ و کتب حدیث وغیرہ کا مس کرنا مکروہ نہیں ہے ، یہ تیسرا قول اظہر و احوط ہے کیونکہ کتب تفسیر میں قرآن مجید دوسری کتابوں سے زیادہ ہوتا ہے، اور ان میں قرآن مجید کا ذکر مستقلاً ہوتا ہے نہ کہ تبعاً اس لئے یہ مشابہ بالمصحف ہے ۔

                    • 4. اگر قرآن مجید کا محض ترجمہ اردو فارسی وغیرہ میں لکھا ہوا ہو اصل عربی قرآن ساتھ میں لکھا ہوا نہ ہو تو اس کا چھونا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مکروہ ہے ، اور امام محمد و امام ابو یوسف رحمہما اللہ کا صحیح قول یہی ہے۔
                    • 5. قرآن مجید کا لکھنا مکروہ نہیں بشرطیکہ لکھے ہوئے کو ہاتھ نہ لگے اگرچہ خالی مقام کو چھوئے، یہ امام ابو یوسف کے نزدیک ہے اور یہ قیاس کے زیادہ نزدیک ہے، اور امام محمد کے نزدیک خالی مقام کو چھونا بھی جائز نہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ قرآن مجید کو مس کرنے والے کے حکم میں ہے اور یہی احوط ہے، طحطاوی (رح) نے ان میں اس طرح تطبیق (مطابقت کرنا) دی ہے کہ امام ابو یوسف کے قول میں کراہتِ تحریمی کی نفی ہے اور امام محمد کے قول میں کراہتِ تنزیہی کا اثبات ہے۔ ایک آیت سے کم کا لکھنا مکروہ نہیں جب کہ کسی کتاب وغیرہ میں لکھے اور قرآن شریف میں ایک آیت سے کم لکھنا بھی جائز نہیں۔
                  • وہ احکام جو حدث اکبر کے ساتھ مخصوص ہیں
                    • 1. مسجد میں داخل ہونا حرام و ممنوع ہے خواہ گزرنے کے لئے ہو لیکن اگر کوئی سخت ضرورت ہو تو جائز ہے، مثلاً مسجد کے اندر پانی ہو اور باہر کہیں پانی نہ ملے ، یا درندے ، چور یا سردی کا خوف ہو، یا کسی کے گھر کا دروازہ مسجد میں ہو اور اس کے نکلنے کا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ ہو اور وہ اس کو تبدیل نہ کر سکتا ہو اور نہ وہاں کے سوا کسی دوسری جگہ رہ سکتا ہو تو اس کو مسجد میں جانا جائز ہے، لیکن اس کو دخول مسجد کے لئے تیمم کرنا واجب ہے بخلاف اس شخص کے جس کو مسجد میں احتلام ہو جائے اور وہ اس وقت مسجد سے باہر نکل جائے تو اس کو تیمم کر کے نکلنا مستحب ہے واجب نہیں، لیکن اگر کسی خوف وغیرہ کی وجہ سے اس کو مسجد میں ٹھہرنا پڑے تو اب اس کو تیمم کرنا واجب ہے۔
                    • 2. خانہ کعبہ اور مسجد الحرام کے اندر داخل ہونا اور خانہ کعبہ کا طواف کرنا حرام ہے اگرچہ طواف مسجد کے باہر سے کرے۔
                    • 3. عیدگاہ و جنازہ گاہ ، مدرسہ و خانقاہ وغیرہ میں جانا جائز ہے۔
                    • 4. قرآن مجید پڑھنا حرام ہے تلاوت کی نیت سے ذرا سا بھی نہ پڑھیں لیکن جن آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی ثنا یا دعا کا مضمون ہو اگر ان کو قرأت کے ارادے سےنہ پڑھے بلکہ ثنا یا کام شروع کرنے یا دعا یا شکر کے ارادے سے پڑھے تو جائز ہے، مثلاً شکر کے ارادے سے الحمد للہ کہے یا کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھے تو مضائقہ نہیں، اگر کوئی شخص پوری سورہ الحمد دعا کی نیت سے پڑھے یا رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ً یا رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِيْنَا " الخ یا کوئی اور ایسی ہی دعا والی آیت دعا کی نیت سے پڑھے تو جائز ہے اس میں کچھ گناہ نہیں۔ دعائے قنوت کا پڑھنا بھی درست ہے، نیز کلمہ شریف، درود شریف، اللہ تعالی کا نام لینا، استغفار پڑھنا یا کوئی اور وظیفہ مثلاً لا حول ولا قوة إلا باللّٰه پڑھنا منع نہیں ہے ، بلکہ ان دعاؤں وغیرہ کا پڑھنا چھونا اور اٹھانا جائز و درست ہے۔
                    • 5. اگر معلمہ عورت (استانی) کو حیض یا نفاس آ جائے تو اس کو چاہیے کہ بچوں کو رواں پڑھاتے وقت پوری آیت نہ پڑھے بلکہ ایک ایک کلمہ سکھائے، اور ان کے درمیان میں توقف کرے، اور سانس توڑ دے اور رک رک کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے رواں پڑھائے، اس کو بھی مرکب الفاظ کا ایک دم پڑھنا جائز نہیں ہے، اور ہجے کرانا اس کے لئے مکروہ نہیں بلکہ درست ہے ۔ بعض فقہا نے یہ حکم حیض والی عورت کے لئے مخصوص کیا ہے اور جنبی کے لئے ان کو جائز نہیں رکھا کیونکہ عورت ہر مہینہ میں چند روز اس کے لئے مضطر ہے جس کی وجہ سے بہ خیال حرج تعلیم اس کو اجازت دی گئی ہے، بخلاف جنبی کے لیکن مختار یہ ہے کہ جنبی کا بھی یہی حکم ہے۔
                  • 4. وہ احکام جو صرف حیض و نفاس والی عورت کے ساتھ مخصوص ہیں۔
                    • 1. اس حالت میں روزہ رکھنا حرام ہے لیکن روزہ بالکل معاف نہیں ہوتا بلکہ پاک ہونے کے بعد ان روزوں کی قضا لازم ہے، یعنی فرض روزہ کی قضا فرض اور واجب روزہ کی قضا واجب ہے۔ اگر فرض روزہ کی حالت میں حیض و نفاس شروع ہو گیا تو وہ روزہ جاتا رہا اس کی قضا رکھے خواہ وہ روزہ فرض یا واجب ہو یا سنت یا نفل کیونکہ شروع ہونے کے بعد سنت و نفل روزہ بھی واجب ہو جاتا ہے۔
                    • 2. حیض و نفاس والی عورت سے جماع حرام ہے اور اس کو جائز و حلال جاننا کفر ہے، اور جو چیزیں جماع کے ہم معنی ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے، پس ایسی عورت کے ناف اور زانو کے درمیان کے جسم کو دیکھنا اس سے اپنے جسم کو ملانا جبکہ کوئی کپڑا درمیان میں حائل نہ ہو حرام ہے، ناف اور زانو کے درمیانی حصہ کے علاوہ باقی بدن یعنی ناف اور ناف کے اوپر کے حصے اور زانو سے نیچے کے حصہ کا بدن کو اپنے جسم کے ساتھ ملانا (یعنی اس حصہ سے مباشرت و استمتاع) جائز ہے، اگرچہ کپڑا درمیان میں حائل نہ ہو اور ناف و زانو کے درمیانی حصہ بدن سے اپنا بدن ملانا یعنی مباشرت و استمتاع اس وقت جائز ہے جبکہ کپڑا درمیان میں حائل ہو، پس ناف و زانو کے درمیان کپڑا ہونے کی صورت میں حیض و نفاس والی عورت کے ساتھ لیٹنا وغیرہ جائز ہے بلکہ حیض کی وجہ سے جائز نہ جانتے ہوئے عورت سے علیحدہ ہو کر سونا اور اس کے اختلاط سے بچنا مکروہ ہے، جبکہ غلبہ شہوت نہ ہو۔
                    • 3. حیض و نفاس والی عورت سے کھانا پکوانا اور اس کی مستعملہ چیزوں کا استعمال جائز ہے، ان کو کھانے پینے کے لئے ہاتھ دھو لینا اور کلی کر لینا مستحب و اولیٰ ہے، اس کا ترک مکروہ تنزیہی ہے، اور پورا وضو کر لینا زیادہ بہتر ہے۔
                    • 4. حیض و نفاس کا خون بند ہونے کے بعد غسل واجب ہو جاتا ہے۔
                    • 5. اگر کسی عورت کو نہانے کی ضرورت تھی اور ابھی وہ نہانے نہ پائی تھی کہ حیض شروع ہو گیا تو اب اس پر نہانا واجب نہیں ہے بلکہ جب حیض سے پاک ہو تب نہائے اور ایک ہی غسل ہر دو سبب کی طرف سے ہو جائے گا۔
            • فرائضِ غسل

                غسل میں تین فرض ہیں:

              • 1. کلی کرنا۔
              • 2. ناک میں پانی ڈالنا۔
              • 3. سارے بدن کا ایک بار دھونا۔
              • 4. کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کی حد وضو میں بیان ہو چکی۔ اگر دانتوں میں یا ان کے خلا میں کھانا وغیرہ کچھ باقی رہا یا اس کی ناک میں تر رینٹھ ہے اوراس کی جگہ یقیناً پانی نہیں پہنچا تو غسل نہیں ہوا۔ اگر عورت کے سر کے بال گندھے ہوئے ہوں اور بغیر کھولے پانی نہیں پہنچ سکتا تو کھول کر پانی پہنچانا فرض ہے۔ پہنے ہوئے زیورات کو حرکت دینا واجب ہے جبکہ تنگ ہوں۔ ناف کے سوراخ میں پانی پہنچانا واجب ہے۔
                فائدہ:
                وضو کی طرح غسل میں بھی کوئی فعل واجب نہیں ہے یعنی وہ واجب جو فرض سے کم درجہ کا ہو اور یہ واجب کی ضعیف و ادنیٰ قسم ہے۔ اس کے ادا نہ ہونے سے وضو و غسل کا جواز فوت نہیں ہوتا۔ بعض کتب میں لکھا ہے کہ غسل میں صرف ایک فرض ہے اور وہ سارے بدن کا ایک بار دھونا ہے اور باقی امور جن کو ہم نے فرائض غسل میں بیان کیا ہے یعنی کلی کرنا۔ ناک میں پانی ڈالنا انہوں نے واجبات میں شمار کیا ہے تو وہ ایسے واجبات ہیں جو عمل میں فرض کے ہم معنی ہیں یعنی فرضِ عملی ہیں، کیونکہ ان میں سے کسی فعل کے ادا نہ ہونے سے غسل صحیح و جائز نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عام کتب میں ان کو فرائضِ غسل میں شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ وضو اور غسل میں کوئی واجب نہیں ہے۔
            • غسل کی سنتیں
              • 1. غسل کرنے یا ناپاکی دور کرنے یا پاکی حاصل ہونے یا نماز جائز ہونے کی نیت دل سے کرنا اور زبان سے کہہ لینا بھی بہتر ہے۔
              • 2. کپڑے اتارنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا۔
              • 3. دونوں ہاتھ کلائی تک تین بار دھونا۔
              • 4. استنجا کرنا یعنی پیشاب اور پاخانہ کے مقام کو دھونا۔
              • 5. اگر جسم پر کہیں نجاست لگی ہو تو اس کو دھونا۔
              • 6. نماز کی طرح وضو کرنا، اس میں مسواک کرنا اور ہاتھ پیر اور داڑھی کا خلال کرنا۔ اگر غسل سے پہلے وضو نہیں کیا تو غسل کے اندر وضو بھی ادا ہو گیا پھر وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
              • 7. سارا جسم تین دفعہ دھونا۔
              • 8. ترتیب یعنی جس ترتیب سے اوپر بیان ہوا اسی ترتیب سے ادا کرنا، پس پہلے ہاتھ دھونا ، پھر استنجا کرنا، پھر بدن کی نجاست دور کرنا ، پھر وضو کرنا ، پھر سارا بدن دھونا۔
            • غسل کے مستحبات اور آداب
              • 1. زبان سے بھی نیت کہہ لینا مستحسن و بہتر ہے۔
              • 2. پانی کے استعمال میں بےجا کمی یا زیادتی نہ کرنا۔
              • 3. بلا ضرورت کسی سے بات نہ کرنا۔
              • 4. ایسی جگہ نہانا جہاں کوئی نہ دیکھے یا تہبند وغیرہ باندھ کر نہانا۔
              • 5. تمام بدن کا ملنا، بعض نے اس کو سنن میں شمار کیا ہے، اور وضو میں اعضا کے ملنے کا سنت ہونا اس کی تائید کرتا ہے۔
              • 6. تواتر یعنی پے در پے دھونا، اس طرح کہ معتدل موسم میں ایک حصہ خشک ہونے سے پہلے دوسرا حصہ دھو ڈالے۔
              • 7. تمام جسم پر تین مرتبہ پانی بہانا، یعنی ایک مرتبہ پانی بہانا فرض ہے اور مزید دو مرتبہ سنت ہے۔ یہ مل کر تین مرتبہ ہوا۔ غسل کے بعد کسی پاک و صاف کپڑے سے اپنا بدن پونچھ ڈالے۔
              • 8. نہانے کے بعد فوراً کپڑے پہن لے۔
              • 9. جو چیزیں وضو میں سنت و مستحب ہیں وہ غسل میں بھی سنت و مستحب ہیں سوائے قبلہ رو ہونے کے جبکہ ننگا نہاتا ہو ، اور اگر کپڑا باندھ کر نہائے تو قبلہ رو ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، سوائے دعائیں پڑھنے اور غسل کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پینے کے کہ یہ امور مستحب نہیں بلکہ مکروہ ہیں، اور سوائے ترتیب کے غسل کی اپنی ترکیب ہے جو وضو سے مختلف ہے۔
            • غسل کے مکروہات

                غسل کے مکروہات وضو کے مکروہات کی طرح ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ مکروہات یہ ہیں:۔

              • 1. ننگا نہاتے وقت قبلہ رو ہونا۔
              • 2. بلا عذر غیر محرم کے سامنے نہانا۔
              • 3. دعاؤں کا پڑھنا۔
              • 4. ستر کھلے ہوئے بلا ضرورت کلام کرنا۔
              • 5. پانی زیادہ بہانا۔
              • 6. سنت کے خلاف غسل کرنا۔
            • اقسامِ غسل

                غسل کی چار قسمیں ہیں

              • فرض

                  فرض غسل چھ طرح کا ہوتا ہے۔

                • 1. شہوت کے ساتھ منی نکلنے پر خواہ سوتے میں ہو یا جاگتے میں، خواہ بیہوشی میں ہو یا ہوش میں ، جماع سے ہو یا بغیر جماع کے کسی خیال و تصور وغیرہ سے ہو۔
                • 2. زندہ عورت کے پیشاب کے مقام میں یا زندہ مرد و عورت کے پاخانہ کے مقام میں کسی باشہوت مرد کے حشفے کے داخل ہونے پر خواہ انزال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو (یہ دونوں قسم کا غسل غسلِ جنابت کہلاتا ہے)۔
                • حیض سے پاک ہونے پر۔
                • نفاس سے پاک ہونے پر۔
                • میت کا غسل اور یہ زندہ پر واجب علی الکفایہ ہے۔
                • سارے بدن پر نجاست لگنے یا بدن کے بعض حصہ پر نجاست لگنے سے جب نجاست کا مقام معلوم نہ ہو۔
              • واجب

                  یہ تین طرح کا ہوتا ہے۔

                • 1. جب کوئی جنبی کافر مسلمان ہو، یعنی جب کوئی مرد یا عورت جبکہ جنابت کا غسل اس پر باقی ہو اور وہ مسلمان ہو جائے یا عورت پر حیض و نفاس کا غسل باقی ہو اور وہ مسلمان ہو جائے۔
                • 2. نابالغہ لڑکی پندرہ سال کی عمر سے پہلے حیض سے بالغ ہوئی ہو تو حیض سے پاک ہونے پر احتیاطاً اس پر غسل واجب ہو گا ، اور اس کے بعد جو حیض آتے رہیں گے ان سے پاک ہونے پر غسل فرض ہو گا۔
                • 3. ایسے ہی لڑکا پندرہ سال کی عمر سے پہلے احتلام کے ساتھ بالغ ہو اور اُسے پہلا احتلام ہو تو اس پر احتیاطاً غسل واجب ہے، اور اس کے بعد جو احتلام ہو گا اس سے غسل فرض ہو جائے گا ، اور اگر عمر کے لحاظ سے بالغ ہوا یعنی پندرہ سال کی عمر کے بعد احتلام ہوا تو اس پر غسل فرض ہے۔
                  فائدہ:
                  واجب غسل سے مراد فرضِ عملی ہے اس لئے بعض نے ان سب کو فرض غسل میں شمار کیا ہے۔ اس طرح میت کا غسل اور سارے بدن پر نجاست لگنے یا بعض حصہ پر لگنے اور جگہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں غسل کرنا بھی فرضِ عملی ہے، اس لئے بعض نے ان دونوں کو بھی واجب میں شمار کیا ہے۔
              • سنت

                  سنت غسل چار ہیں

                • 1. جمعہ کے دن ان لوگوں کےلئےغسل کرنا سنت ہے جن پر جمعہ فرض ہے۔
                • 2. دونوں عیدین کے دن طلوع فجر کے بعد ان لوگوں کو غسل کرنا سنت ہے جن پر عیدیں کی نماز واجب ہے۔
                • 3. حج یا عمرہ کے احرام کے لئے احرام باندھنے سے پہلے غسل کرنا۔
                • 4. حاجی کو عرفہ کے دن میدانِ عرفات میں زوال کے بعد وقوف کے لئےغسل کرنا۔
              • مستحب

                  مستحب غسل بہت ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

                • 1. بدن پر نجاست لگ جائےلیکن معلوم نہ ہو کہ کس جگہ لگی ہے۔
                • 2. لڑکا یا لڑکی جب عمر کے لحاظ سے پندرہ برس کی عمر کو پہنچ کر بالغ ہو اور اس وقت تک بلوغت کی علامات اس میں نہ پائی جائیں۔
                • 3. عرفہ کی رات یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں و نویں تاریخ کی درمیانی شب میں۔
                • 4. مزدلفہ میں ٹھہرنے کے لئے دسویں تاریخ کی صبح کو بعد طلوع فجر۔
                • 5. کنکریاں پھینکنے کے لئے منیٰ میں داخل ہوتے وقت اور بقیہ دو دن اور جمرات پر کنکریاں مارنے کے لئے۔
                • 6. مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے لئے۔
                • 7. شب برات یعنی شعبان کی پندرہویں رات کو۔
                • 8. شبِ قدر کی راتوں میں جو شخص شبِ قدر کو دیکھے یعنی اس کو کشف و الہام یا علامات سے معلوم ہو جائے۔
                • 9. سورج گرہن کی نماز کے لئے۔
                • 10. چاند گرہن کی نماز کے لئے۔
                • نمازِ استسقاء کے لئے۔
                • جب مجنون مست و بیہوش اچھا ہو جائے۔
                • رفع خوف و دفع مصیبت کی نمازوں کے لئے۔
                • دن کی تاریکی و سخت آندھی کے وقت۔
                • نیا کپڑا پہنتے وقت۔
                • آدمیوں کے مجمع میں جانے کے لئے۔
                • پچھنے(فصد، ٹیکہ) لگنے کے بعد
                • 18. میت کو غسل دینے کے وقت اور غسل دینے کے بعد غسل دینے والے کے لئے۔
                • 19. اس شخص کے لئے غسل مستحب ہے جس کے قتل کا قصد کیا جائے خواہ جبراً قتل کیا جائے یا قصاص میں یا ظلم سے۔
                • کسی گناہ سے توبہ کے لئے۔
                • 21. جب کوئی مسلمان ہو جائے اور وہ جنابت میں نہ ہو تو اس کو غسل کرنا۔
                • سفر سے واپس وطن پہنچنے پر۔
                • مجالسِ خیر میں حاضر ہونے کے لئے۔
                • استحاضہ والی عورت کو جبکہ اس کا استحاضہ دور ہو جائے۔
            • غسل کے متعلق متفرق مسائل۔
              • 1. جنبی کو نماز کے وقت تک غسل میں تاخیر جائز ہے اس سے وہ گناہگار نہیں ہو گا۔ا
              • 2. جنبی بغیر غسل کے سوئے یا پھر وطی کرے تو جائز ہے البتہ وضو کر لینا بہتر ہے۔
              • 3. جنبی کو وضو کرنے یا ہاتھ منہ دھونے اور کلی کرنے کو بعد کھانا پینا مکروہ نہیں بغیر اس کے ویسے ہی کھا پی لیا تو گناہ نہیں لیکن مکروہ ہے۔
              • 4. غسل کے لئے کم سے کم ایک صاع یعنی تقریباً چار سیر پانی ہونا چاہیے اور وضو کے لئے ایک مُدّ یعنی ایک سیر، لیکن یہ مقدار لازمی نہیں کیونکہ انسانوں کی طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں۔
              • 5. مرد و عورت ایک برتن سے غسل کریں تو مضائقہ نہیں۔
              • 6. اگر فرض غسل کی حاجت ہو اور دریا میں غوطہ لگائے یا بارش میں کھڑا ہو جائے یا بڑے حوض میں گر پڑے اور اس کے تمام بدن پر پانی بہہ جائے اور وہ کلی کر لے اور ناک میں پانی ڈال لے تو اس کا غسل ہو جائے گا ، چاہے غسل کرنے کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔
              • 7. اگر بدن میں بال بھر بھی جگہ خشک رہ گئی تو غسل نہیں ہو گا۔ لیکن اب اس کو پھر نہانا واجب نہیں صرف خشک جگہ پانی بہا لینا چاہیے صرف گیلا ہاتھ پھیر لینا کافی نہیں ہے اور کلی یا ناک میں پانی ڈالنا ترک ہونے کی صورت میں صرف کلی یا ناک میں پانی ڈالنا کافی ہے۔
            • غسل کا مسنون طریقہ
              • 1. غسل کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جو شخص غسل کرنا چاہے اس کو چاہیے کہ کوئی کپڑا تہبند وغیرہ باندھ کر نہائے اور اگر ننگا نہائے تو کسی ایسی جگہ نہائے جہاں کسی نامحرم کی نظر نہ پہنچ سکے۔ عورت کو اور ہر ننگا نہانے والے کو بیٹھ کر نہانا چاہیے، اور ننگا نہانے والا قبلہ کی طرف منہ کر کے نہ نہائے۔ سب سے پہلے دونوں ہاتھ کلائی تک تین مرتبہ دھوئے ، پھر استنجاء کرے یعنی پیشاب و پاخانہ کے مقام کو دھوئے خواہ استنجاء کی جگہ پر نجاست ہو یا نہ ہو، اور بدن پر جہاں جہاں نجاست حقیقی لگی ہو اس کو بھی دھو ڈالے، پھر کلی غرارہ کرے اور ناک میں پانی ڈالے اور اس میں مبالغہ کرے، اور اگر روزہ دار ہو تو غرارہ نہ کرے، اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ نہ کرے ، مسواک بھی کرے اور پورا وضو کرے، ہاتھ پیر کی انگلیوں اور داڑھی کا خلال بھی کرے۔ اگر کسی چوکی یا پتھر وغیرہ پر بیٹھ کر غسل کرتا ہو تو وضو کرتے وقت پاؤں بھی دھو لے پھر بعد میں دھونے کی ضرورت نہیں ، اور اگر ایسی جگہ ہے کہ پاؤں بھر جائیں گے اور غسل کے بعد دھونے پڑیں گے تو پاؤں نہ دھوئے بلکہ غسل سے فراغت کے بعد دوسری جگہ ہٹ کر پاؤں کو دھوئے۔ وضو کے بعد پہلے سر کو دھو لے، پھر تمام بدن پر تھوڑا سا پانی ڈال کر ہاتھ سے ملے یا گیلا ہاتھ تمام بدن پر پھرائے تاکہ جب پانی ڈالے تو بدن پر سب جگہ اچھی طرح پہنچ جائے اور کوئی جگہ خشک نہ رہ جائے، پھر سارے بدن پر تین مرتبہ پانی بہالے اور ہر دفعہ بدن کو ملے کہیں سوکھا نہ رہ جائے۔اصح و ظاہر الروایت حدیث کے موافق بدن پر پانی اس ترتیب سے ڈالے کہ پہلے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالے، پھر دائیں کندھے پر تین مرتبہ، پھر بائیں کندھے پر تین مرتبہ ڈالے۔ اور غسل فرض ہو تو سوائے بسم اللہ کے اور کوئی دعا نہ پڑھے، اور بسم اللہ بھی کپڑے اتارنے سے پہلے پڑھ لے اور نہاتے وقت بغیر سخت ضرورت کے کسی سے کوئی بات نہ کرے۔ غسل کے بعد چاہے تو اپنے جسم کو کسی کپڑے سے پونچھ ڈالے اور نہانے کے بعد فوراً کپڑے پہن لے اور اب بلا وجہ ستر کو کھلا نہ رکھے۔
    • وضو
      • وضو کے مسائل
        • وضو کے فرائض

            وضو میں چار فرض ہیں

          • منہ دھونا
            • 1. منہ دھونا ، منہ دھونے کی حد یہ ہے کہ لمبائی میں پیشانی پر سر کے بالوں کے اگنے کی جگہ سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور چوڑائی میں ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک دھونا فرض ہے، گنجان داڑھی (یعنی جس کے اندر سے کھال نظر نہ آئے) کے ظاہری یعنی اوپر کےحصہ کو دھونا فرض ہے، اور اگر کھال نظرآتی ہو تو اُس کھال تک پانی پہنچانا فرض ہے۔
          • دونوں ہاتھوں کا کہنیوں سمیت دھونا
            • 1. دونوں ہاتھوں کا کہنیوں سمیت دھونا، انگھوٹی‘ چھلا‘ چوڑی‘ کنگن وغیرہ کے نیچے پانی پہنچانا، اور اگر وہ ایسے تنگ ہوں کہ بغیر ہلائے پانی نہ پہنچ سکے تو ان کو ہلا کر پانی پہنچانا فرض ہے۔ اگر کوئی چیز آٹا وغیرہ ناخنوں وغیرہ پر جما ہوا ہو تو اس کا چھڑانا بھی فرض ہے ۔ آج کل ناخنوں پر ناخن پالش وغیرہ لگاتے ہیں اس کی موجودگی میں وضو و غسل درست نہیں۔
          • چوتھائی سر کا مسح کرنا
            • 1. کم از کم تین انگلیوں سے چوتھائی سر کا کا مسح کرے، ایک یا دو انگلیوں سے جائز نہیں۔ ٹوپی یا عمامہ یا اوڑھنی یا برقعے وغیرہ پر مسح کیا تو درست نہیں۔ سر پر خضاب یا مہندی کی تہہ (یعنی جب خضاب یا مہندی لگانے کے لئے اوپر لیپ دی جاتی ہے) لگی ہوئی ہو تو اس کے اوپر سے مسح جائز نہیں۔
          • دونوں پاوٴں ٹخنوں سمیت دھونا
            • 1. اگر کسی کے ہاتھ یا پیر کی انگلیاں بالکل ملی ہوئی ہوں یعنی ان میں کھلا فاصلہ نہ ہو تو ان میں خلال کرنا فرض ہے۔ اگر اعضائے غسل و وضو میں کوئی چکنی چیز لگی ہوئی ہو تو اس کے اوپر سے پانی بہہ جانا شرط ہے، اندر تک اثر کرنا شرط نہیں لہذا اس کا غسل و وضو جائز ہے۔
        • واجبات وضو

            وضو غسل اور تیمم میں کوئی واجب نہیں ہے ، یعنی وہ واجب جو عمل میں فرض سے کم درجہ رکھتا ہو۔ بعض کتب میں کچھ واجب الگ لکھے ہیں۔

          • 1. داڑھی، مونچھ اور بھنویں اگر قدرے گنجان ہو ں کہ نیچے کی کھال نظر نہ آئے تو ان بالوں کا دھونا۔
          • کہنیوں کا دھونا۔
          • ٹخنوں کا دھونا۔
          • 4. چوتھائی سر کا مسح کرنا لیکن دراصل وہ فرض ہی میں شامل ہیں جیسا کہ اوپر فرائضِ وضو کی تفصیل میں ان کا بیان ہو چکا ہے اس لئے کہ عملاً وہ فرض ہی ہیں اور ان کے ترک سے وضو غسل اور تیمم نہیں ہوتا۔
        • وضو کی سنتیں

            وضو میں تیرہ سنًتیں ہیں

          • 1. وضو کی نیت کرنا، نیت دل کے ساتھ ہو، زبان سے بھی کہہ لینا مستحب ہے ، اس کا وقت منہ دھونے کے وقت یا اس سے پہلے ہے۔ نیت نماز کی ہو یا ایسی عبادت کی ہو جو بغیر وضو جائز نہیں ہو، طہارت حاصل کرنے یا اللہ تعالٰی کی رضا اور ثواب کی نیت ہو۔
          • 2. بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمَ َ پڑھنا۔ کوئی ذکر الہی مثلاً لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یا یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وغیرہ پڑھ لے تو سنت ادا ہو جائے گی، اگر شروع میں پڑھنا بھول گیا تو جہاں یاد آئے پڑھ لینا افضل ہے لیکن سنت ادا نہ ہو گی۔
          • 3. وضو شروع کرتے وقت پہلے دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک تین بار دھونا جبکہ پاک ہوں اور اگر ناپاک ہوں تو دھونا فرض ہے۔
          • 4. تین بار کلًی کرنا اور ہر دفعہ جدا پانی لینا سنت ہے، اور اگر روزہ دار نہ ہو تو پانی پہنچانے میں مبالغہ کرنا یعنی غرغرہ کرنا افضل ہے۔ ایک ہی دفعہ کے پانی یعنی ایک ہی چلو سے تین بار کلّی کرنا جائز ہے۔
          • 5. ناک میں تین بار پانی ڈالنا، ہر بار جدا پانی لے، ایک ہی چلو سے تین بار ناک میں پانی ڈالنا جائز نہیں ، اگر روزہ دار نہ ہو تو اس میں مبالغہ کرنا یعنی ناک میں نرم حصہ تک پانی پہنچانا اور ترتیب یعنی پہلے کلّی کرنا پھر ناک میں پانی ڈالنا افضل ہے ۔
          • 6. داڑھی کا خلال کرنا جبکہ داڑھی گنجان ہو اور وہ شخص احرام کی حالت میں نہ ہو۔

            خلال کا طریقہ یہ ہے

            خلال کا طریقہ یہ ہےکہ دائیں ہاتھ کے چلو میں پانی لے کر داڑھی کے نیچے کے بالوں کی جڑوں میں ڈالے اور داڑھی میں انگلیاں ڈال کر نیچے کی جانب سے اوپر کو خلال کرے اور اس طرح کہ ہاتھ کی پشت گردن کی طرف رہے ، یعنی انگلیوں کی پشت بالوں کے ساتھ لگے اور ہتھیلی باہر کی جانب رہے۔ بعض کے نزدیک اس کی ترکیب یہ بھی ہے کہ بالوں کے نیچے سے انگلیاں اس طرح داخل کرے کہ ہتھیلی گردن کی طرف ہو اور ہاتھ کی پشت باہر کی طرف ہو تاکہ چلو کا پانی بالوں میں داخل ہو سکے۔حدیث شریف کے الفاظ سے یہی صورت متبادر ہو تی ہے۔
          • 7. ہاتھ پاوٴں کی انگلیوں کا خلال کرنا۔ ہاتھوں کی انگلیوں کے خلال کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالے اور پانی ٹپکتا ہوا ہو یہی طریقہ اولیٰ ہے۔ دوسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک ہاتھ کی ہتھیلی اس ہاتھ کی پشت پر جس کا خلال کرنا ہے رکھ کر اوپر کے ہاتھ کی انگلیاں نیچے کے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر کھینچے اور اسی طرح دوسرے ہاتھ کا خلال کرے۔ پاؤں کا خلال اس طرح کرے کہ بائیں ہاتھ کی چھنگلیا کے ذریعہ پاؤں کی انگلیوں کے نیچے سے اوپر کو خلال کرے اور دائیں پاؤں کی چھنگلیا سے شروع کر کے بائیں پاؤں کی چھنگلیا پر ختم کرے۔ پانی میں ہاتھ یا پاؤں داخل کر دینا خلال کے لئے کافی ہے خواہ پانی جاری ہو یا نہ ہو۔ اگر انگلیاں بالکل ملی ہوئی ہوں تو خلال واجب ہے۔
          • 8. وضو کے ہر عضو کو تین تین بار دھونا اس طرح پر کہ ہر دفعہ کچھ بھی خشک نہ رہے ، یعنی ہر دفعہ پوری طرح دھونا۔
          • تین بار سے زیادہ نہ دھوئے
          • تمام سر کا ایک دفعہ مسح کرنا یعنی بھیگا ہوا ہاتھ پھیرنا۔
          • دونوں کانوں کا مسح کرنا
          • ترتیب سے وضو کرنا یعنی جس ترتیب سے فرائض میں بیان ہوا
          • 13. وضو کے ا عضاء کا پے درپہ دھونا اس طرح کہ پہلا عضو خشک ہونے سے پہلے دوسرا عضو دھونے لگنا، خشک ہونے کا اعتبار معتدل موسم کے مطابق ہو گا عذر کے ساتھ توقف جائز ہے یعنی اگر پانی ختم ہو گیا تو اس کے لئے جائے۔
        • وضو کے آداب اور مستحبات
          • وضو کے جو اعضاء دو دو ہیں ان میں دائیں کو پہلے دھونا اور پھر بائیں کو مگر دونوں کانوں کا مسح ایک ساتھ کرے
          • گردن کا مسح
          • پانی اندازہ سے خرچ کرنا زیادہ خرچ کرنا فضول خرچی اور خلاف ادب ہےاور پانی میں بہت کمی نہ کرے کہ جس سے اچھی طرح دھونے میں مشکل ہو
          • وضو کے لئے ایک سیر یعنی تقریباً ایک لیٹر سے کم پانی نہ ہو
          • انگھوٹی‘چھلا‘ کڑے‘ چوڑیاں اور نتھ وغیرہ اگر ڈھیلی ہوں‘ ان کو حرکت دے کر ان کے نیچے پانی پہنچانا‘ لیکن اگر تنگ ہوں تو ان کے نیچے پانی پہنچانے کے لئے حرکت دینا فرض ہے
          • وضو خود کرنا بلا عذر کسی سے مدد نہ لینا (اگر کوئی اپنی مرضی سے مدد دے اور وضو کرنے والا اعضائ کو خود دھوئے تو بلا عذر بھی مضائقہ نہیں(
          • وضو کرتے وقت بلا ضرورت دنیاوی باتیں کرنا
          • دائیں ہاتھ سے پانی لے کر کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا اوربائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا
          • منہ پر پانی آہستہ سے ڈالنا یعنی منہ پر تمانچہ سا نہ مارے
          • اعضاء کو دھوتے وقت ہاتھ سے ملنا
          • کانوں کے مسح کے وقت کانوں کے سوراخوں میں چھوٹی انگلی کا سر بھگو کر ڈالنا
          • ہمیشہ اور خاض طور پر سردیوں میں ہاتھ اور پیر کو دھوتے وقت پہلے گیلے ہاتھ سے ان کو ملنا تاکہ دھوتے وقت اچھی طرح اور آسانی سے ہر جگہ پانی پہنچ جائے
          • مستعمل پانی کپڑوں سے بچا کر رکھنا
          • نماز کے وقت سے پہلے وضو کرنا جبکہ معذور نہ ہو
          • وضو کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا
          • اونچی اور پاک جگہ بیٹھنا
          • اطمناضن سے وضو کرنا اور اعضاء کے دھونے اور خلال وغیرہ کو پوری طرح دھونا اتنی جلدی نہ کرے کہ کوئی مستحب ترک ہو جائے
          • وضو کے برتن کو پکڑنے کی جگہ سے تین بار دھونا
          • منہ دھوتے وقت اوپر سے نیچے کو پانی ڈالنے اور ہاتھ پیروں پر انگلیوں کی طرف سے ڈالے‘ سر کا مسح اگلی طرف سے شروع کرے
          • پا ؤں پر پانی دائیں ہاتھ سے ڈالنا اور بائیں ہاتھ سے ملنا
          • اعضاء کا دھونا جہاں تک واجب ہے اس سے کچھ زائد دھونا
          • جس کپڑے سے استنجاء کے مقام کو پونچھا ہو اس سے اعضاء وضو کو نہ پوچھنا
          • مٹی کے پرتن سے وضو کرنا
          • وضو کے وقت اگر برتن چھوٹا ہو تو جیسے لوٹا وغیرہ تو بائیں طرف رکھنا اور اگر بڑا ہو جیسے ٹب وغیرہ تو دائیں طرف رکھے اور ہاتھ ڈال کر چلو سے پانی لینا
          • ہاتھوں کو نہ جھاڑنا
          • نماز کے لئے وضو کی نیت کرنا اور نیت دل و زبان دونوں سے کرنا
          • ہر عضو کو دھوتے وقت بسم اللہ‘ درود شریف‘ کلمہ شہادت اور حدیثوں میں آئی ہوئی دیگر دعائیں پڑھنا
          • وضو کا بچا ہوا پانی قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر پینا
          • وضو کے بعد دو رکعت تحیۃ الوضو پڑھنا
          • وضو کے بعد درود شریف و کلمہ شہادت اور یہ دعا پڑھنا اللھم اجعلنی من التّوّابین واجعلنی من التطھرین و اجعلنی من عبادک الصالحین ط
          • اعضاء وضو کو نہ پوچھنا جبکہ اس کی ضرورت نہ ہو اور جب پونچھے تو کچھ نمی رہنے دے
          • جب وضو کر چکے تو دوسری نماز کے وضو کے لئے پانی بھرنا
        • مکروہات وضو

            اصول یہ ہے کہ جو چیزیں مستحب ہیں ان کے خلاف کرنا مکروہ ہے اسی طرح جو چیزیں مکروہ ۔ ہیں ان سے بچنا مستحب ہے‘ کچھ مشہور مکروہات درج ذیل ہیں

          • ناپاک جگہ پر وضو کرنا یا ناپاک جگہ پر وضو کا پانی ڈالنا
          • کلی کے لئے بائیں ہاتھ سے پانی لینا
          • بائیں ہاتھ سے ناک میں پانی ڈالنا
          • بلا عذر دائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا یا استنجاء کرنا
          • منہ پر سختی سے یعنی طمانچہ کی طرح پانی مارنا
          • پانی اس قدر کم خرچ کرنا کہ مستحب طریقہ پر وضو ادا نہ ہو
          • پانی ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا
          • تیں بار سے زیادہ اعضاء کو دھونا
          • تین بار نیا پانی لے کر مسح کرنا
          • وضو کے اعضاء کے علاوہ کسی اور عضو کو بلا ضرورت دھونا
          • وضو کرنے میں بلا ضرورت دنیاوی باتیں کرنا
          • وضو کے بعد ہاتھوں کا پانی جھٹکنا
          • مسجد میں اپنے لئے کسی پرتن کو خاص کرلینا
          • مرد کا عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا
          • وضو کے پانی میں تھوکنا یا ناک صاف کرنا خواہ وہ جاری پانی ہو
          • مسجد کے اندر وضو کرنا
          • لوٹے یا کپڑے وغیرہ پر اعضاء وضو سے پانی ٹپکانا
          • بلا عذر ایک ہاتھ سے منہ دھونا
          • گلے (حلقوم) کا مسح کرنا
          • دھوپ کے گرم پانی سے وضو کرنا
          • ہونٹ یا آنکھیں زور سے بند کرنا
          • وضو کے لئے بلا عذر کسےدوسرے سے مدد لینا
          • سنت طریقے کے خلاف وضو کرنا
        • وضو کا مسنون اور مستحب طریقہ
          • جب وضو کرنے کا ارادہ ہو تو وضو کے لئے مٹی کے کسی پاک صاف برتن میں پاک پانی لے کر پاک و صاف اونچی جگہ پر بیٹھے (اگر تانبہ پیتل کا برتن ہو تب بھی مضائقہ نہیں مگر تانبہ کا برتن قلعی دار ہو) قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے تو اچھا ہے اور اگر اس کا موقع نہ ہو تو کچھ حرج نہیں‘ آستینیں کہنیوں سے اوپر تک چڑھا لے اور دل میں یہ نیت کرے کہ میں یہ وضو خالص اللہ تعالی کی رضا اور ثواب اور عبادت کے لئے کرتا ہوں محض بدن کا صاف کرنا اور منہ کا دھونا مقصود نہیں ہے‘ نیت زبان سے بھی کہہ لے تو اچھا ہے اور یہی ارادہ و نیت ہر عضے کو دھوتے وقت یا مسح کرتے وقت حاضر رہے۔ وضو شروع کرتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے اور دائیں چلو میں پانی لے کر دونوں ہاتھوں کو کلائی تک مل کر دھوئے اور اس طرح تین بار کرے پھر دائیں ہاتھ کے چلو میں پانی لے کر کلی کرے پھر مسواک کرے‘ مسواک نہ ہو تو انگلی سے دانت مل لے‘ پھر دو کلیاں اور کر لے‘ تاکہ پوری تین ہو جائیں زیادہ نہ کرے‘ اگر روزہ دار نہ ہو تو اسی پانی سے غرارا بھی کرے یعنی کلی میں مبالغہ کرے اور اگر روزہ دار ہو تو مبالغہ نہ کرے‘ پھر دائیں ہاتھ کے چلو میں پانی لے کر ناک میں پانی ڈالے‘ اگر روزہ دار نہ ہو تو اس میں مبالغہ کرے یعنی نتھنوں کی جڑوں تک پانی پہنچائے‘ اور اگر روزہ دار ہو تونرم گوشت سے اوپر پانی نہ چڑھائے‘ بائیں ہاتھ کی چھنگلیا نتھنوں میں پھیرے اور بائیں ہاتھ سے ہی ناک صاف کرے‘ تین بار ناک میں پانی ڈالے اور ہر بار نیا پانی لے‘ پھر دونوں ہاتھ میں پانی لے کر یا ایک چلو میں پانی لے کر پھر دوسرے کا سہارا لگا لے اور دونوں ہاتھوں سے ماتھے کے اوپر سے نیچے کو پانی ڈالے‘ پانی نرمی سے ڈالے طمانچہ سا نہ مارے اور تمام منہ کو مل کر دھوئے‘ پیشانی یعنی سر کے بالوں کی ابتدائی سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک سب جگہ پانی پہنچ جائے‘ دونوں ابرووٴں اور مونچھوں کے نیچے بھی پانی پہنچ جائے کوئی جگہ بھی بال برابر بھی خشک نہ رہے‘ اگر احرام باندھے ہوئے نہ ہو تو داڑھی کا خلال کرے پھر دو دفعہ اور پانی لے کر منہ کو اسی طرح دھوئے اور داڑھی کا خلال کرے تاکہ تین بار پورا ہے جائے اور اس سے زیادہ نہ دھوئے‘ پھر گیلے ہاتھوں سے دونوں ہاتھوں کی کہنیوں تک ملے‘خصوصاً سردیوں میں اور پھر دائیں ہاتھ کے چلو میں پانی ہر ایک ہاتھ پر تین تین دفعہ پانی ڈالے یعنی پہلے دائیں ہاتھ پر پھر بائیں ہاتھ پر کہنیوں سمیت پانی ڈالے اور مل کر دھوئے کہ بال برابر بھی کوئی جگہ خشک نہ رہنے پائے‘ انگوٹھی‘ چھلا‘ آرسی‘ کنگن اور چوڑی وغیرہ کو حرکت دے اگرچہ ڈھیلی ہوں۔ منہ دھوتے وقت عورت اپنی نتھ کو بھی حرکت دے‘ پھر انگلیوں کا خلال کرے اسطرح کہ ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالے اور پانی ٹپکتا ہوا ہو‘ پھر دائیں ہاتھ کے چلو میں پانی لے کر دونوں ہاتھوں کو تر کرے اور ایک مرتبہ پورے سر کا مسح کرے پھر کانوں کا مسح کرے ‘ کلمہ کی انگلی سے کان کے اندر کی طرف اور انگوٹھے سے باہر کی طرف اور دونوں چھنگلیا دونوں کانوں کے سوراخ میں ڈالے پھر انگلیوں کی پشت کی طرف سے گردن کا مسح کرے لیکن گلے کا مسح نہ کرے‘ مسح صرف ایک دفعہ کرنا چاہئے۔ پھر دونوں پاوٴں ٹخنوں سمیت تین دفعہ دھوئے اور ہر بار اس کی انگلیوں کا خلال بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے نیچے سے اوپر کو کرے‘ پاوٴں کی چھوٹی انگلی سے شروع کرے اور اس کے انگوٹھے پر ختم کرے پھر اسی طرح دائیں ہاتھ سے پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے بایاں پاوٴں ٹخنوں سمیت تین بار دھوئے اور ہر بار اس کی انگلیوں کو بھی،اسی طرح خلالاس کے انگوٹھے سے شروع کر کے چھنگلیا پر ختم کرے ۔ہر عضو کو دھوتے وقت یا مسح کرتے یا مسح کرتے وقت بسم اللہ اور کلمہ شہادت پڑھ کر یہ دعا پڑھے اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطہرین پڑھے اور آخر میں سورة القدر اور درود شریف پڑھے اور اس کے بعد اگر نماز کا مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نماز تحت الوضو پڑھے۔
        • وضو کی قسمیں
          • فرض
            • یہ ہر نماز کےلئے ہے خواہ نماز فرض ہو یا واجب یا سنت و نفل ہو۔

              سجدہ تلاوت کے لئے

              قرآن شریف کو بلا غلاف چھونے کے لئے

              نماز جنازہ کے لئے

          • واجب
            • یہ کعبہ مکرمہ کے طواف کے لئے ہے
          • مستحب

              یہ مواقع بکثرت ہیں جن میں سے چند یہ ہیں

            • ہر وقت باوضو رہنے کے لئے
            • نماز کے باہر قہقہے کے بعد
            • غیبت و برے کام کے بعد
            • وضو کے ہوتے ہوئے وضو کرنا
            • عالم کی زیارت کے لئے
            • کھانا کھانے کےلئے
            • غسل میت کے لئے
            • میت کو غسل دینے کے بعد
            • اذان و تکبیر کہنے کے لئے
            • زیارت قبور کے لئے
            • علم ذین کی تعلیم کے وقت
            • دین کی کتاب چھوتے وقت
            • اللہ تعالی کا ذکر کرتے وقت
            • روضہ اطہر کی زیارت کے وقت
        • جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور جن سے وضو نہیں ٹوٹتا
          • انسان کے جسم سے کوئی چیز نکلنے کی وجہ سے
            • پیشاب و پاخانہ کے راستہ سے نکلنے والی چیزوں کی وجہ سے
          • باقی جسم کے کسی مقام سے نکلنے والی چیزوں جیسے قے‘ خون وغیرہ سے
            • کوئی ناپاک چیز نکلےاور جسم پر بہے مثلاً خون ‘ کچا لہویا پیپ وغیرہ تو وضو ٹوٹ جاتا ہے خواہ تھوڑی سی بہے۔
            • اگر آنکھ میں خون نکل کرآنکھ میں ہی بہا اور باہر نہیں نکلا تو وضو نہیں ٹوٹا کیونکہ آنکھ کو اندر کا حصہ نہ وضو میں دھونا فرض ہے نہ غسل میں ‘ اور اگر باہر نکل کر بہا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
            • قےمیں اگر پت‘ خون یا کھانایا پانی منہ بھر کر نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا اگر منہ بھر سے کم ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ منہ بھر وہ ہو جو بغیر مشقت نہ رک سکے اگر خالص بلغم نکلے تو وضو نہیں ٹوٹے گا خواہ منہ بھر ہی ہو۔
            • منہ یا دانتوں سے خون تھوک کے ساتھ مل کر آئے تو اگر خون غالب یا برابر ہے تو وضو جاتا رہے گا اور کم ہے تو نہیں ٹوٹا۔
            • اگر زخم پر خون ظاہر ہوا اور اس کوانگلی یا کپڑے سے پونچھ لیا پھر ظاہر ہوا پھر پونچھ لیا کئی بار ایسا کیا اگر یہ سب دفعہ کا خون مل کر اتنا ہو جاتا ہے کہ بہ جائے تو وضو ٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔
            • اگر آنکھ یا کان یا چھاتی یا ناف یا کسی حصہ جسم سے درد کے ساتھ پانی نکلا تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا‘ اگر بغیر درد کے نکلا تو وضو نہیں ٹوٹے گا‘
            • اگر آنکھ نہ دکھتی ہو‘ نہ اس میں کھٹک ہوتی ہو اور محض نڑلہ کی وجہ سے یا یونہی پانی بہے یا آنسو نکل آئے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔
            • اگر جما ہوا خون مسور کے دانے کے برابرناک صاف کرتے وقت نکلے تو وضو باقی رہا
            • انسان پر طاری ہونے والی کسی حالت سے جیسے بیہوشی‘ نیند وغیرہ
            • وضو توڑنے والی دوسری قسم یعنی جو انسان پر طاری ہوتی ہے اس کی یہ صورتیں ہیں۔ نیند‘ لیٹ کر سونا خواہ چت ہو یا پٹ یا کروٹ پریا تکیہ وغیرہ کے سہارے سےہو یا کسی اور شکل پر ہو جس سے سرین زمین سے جدا ہو جائیں یا صرف ایک سرین پر سہارا دے کر سو جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ سہارے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سہارا ہٹا لیا جائے تو وہ گر پڑے اور سرین زمین سے جدا ہو جائےاور اگر بغیر سہارا لئے کھڑے کھڑے یا بغیر سہارا لگائے بیٹھ کر سو جائے یا نماز کی کسی ہیئت پرجو مردوں کے لئے مسنون ہے مثلاً سجدہ یا قعدے میں مسنونہ ہیئت پر سو گیا تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اگر دونوں سرین پر بیٹھا ہے‘ گھٹنے کھڑے ہیں‘ ہاتھ پنڈلیوں پر لپٹے ہوئے ہیں اور سر گھٹنوں میں ہے تو اس حالت میں سونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔
            • بیہوشی‘ خواہ بیماری یا کسی اور وجہ سے ہو مثلاً غشی‘ جنوں‘ مرگی اور نشہ وغیرہ سے بیہوشی ہو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اگرچہ تھوڑی دیر ہی ہو اس کی حد یہ ہے کہ اس کے پاؤں میں لغزش آجائے۔
            • نماز کے اندر قہقہہ مارنا یعنی اس طرح کھلکھلا کر ہنسنا کہ اس برابر والے سن لیں‘ قہقہہ وضو اور نماز دونوں کو توڑتا ہے خواہ عمداً ہو یا سہواً‘
            • اگر نماز کے باہر قہقہہ سے ہنسے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔
            • مباشرت فاحشہ یعنی عورت اور مرد کی شرمگاہوں کا اسطرح ملنا کہ ننگے ہوں تو وضو ٹوٹ جائے گا
      • مسواک کرنا
        • مسواک کی فضیلت

            مسواک کی فضیلت وضو میں ایک سنت مسواک کرنا بھی ہے یہ سنت مئوکدہ ہے اس کا بہت ثواب ہے۔حدیث پاک میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے۔

            حضورِ انور صلی اللّٰہ علیہ !وسلم نے فرمایا

            لَو لَآ اَن اَشّقَّ عَلٰی اَمَّتِی لَاَمَر تُھُم بِالسَّوَاکِ مَعَ کُلَّ وُضُوئِ ( موطا امام مالک رح) ترجمہ: " اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ میری امت مشقت اور تنگی میں پڑ جائے گی تو میں ہر وضو کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔" !

            اور حدیث میں ہے

            اَلسَّوَاکُ مُطَھَّرةُ‘ لِلفَمِ وَ مَرضَاةُ لَّلرَّبَّ (مسلم) ترجمہ: " مسواک کرنا منھ کی صفائی اور پروردگارِ عالم کی خوشنودی کا سبب ہے"۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ جو نماز مسواک کر کے پڑھی جائے وہ بےمسواک والی نماز سے ستر درجہ افضل ہے۔ بعض صحابہ کی یہ حالت تھی کہ وہ مسواک قلم کی طرح اپنے کان پر لگائے رکھتے۔تھے مسواک کے فوائد علمائے کرام نے مسواک کے اہتمام میں تقریباً ستر فائدے لکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:
          • منھ کو صاف کرتی ہے۔
          • فصاحت میں اضافہ کرتی ہے۔
          • اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کا سبب ہے۔
          • شیطان کو غصہ دلاتی ہے۔
          • نیکیوں کو زیادہ کرتی ہے۔
          • مسواک کرنے والوں کو اللّٰہ تعالٰی اور فرشتے محبوب رکھتے ہیں۔
          • نماز کے ثواب کو بڑھاتی ہے۔
          • پل صراط پر چلنا آسان ہو جائے گا۔
          • مسوڑھوں۔ دانتوں اور معدے کے قوت دیتی ہے اور دانتوں کو سفید کرتی ہے
          • بلغم کو قطع کرتی ہے۔
          • کھانے کو ہضم کرتی ہے۔
          • منھ میں خوشبو پیدا کرتی ہے۔
          • صفرا کو دور کرتی ہے۔
          • ریح نکلنے کو آسان کرتی ہے۔
          • بڑھاپا دیر میں آتا ہے۔
          • موت کے سوا ہر مرض کی شفا ہے۔
          • سر کے رگوں پٹھوں کو اور دانتوں کے درد کو سکون دیتی ہے۔
          • نگاہ کو تیز کرتی ہے۔
          • منہ کی بدبو دور کرتی ہے وغیرہ۔
          • ان سب باتوں کر علاوہ ایک مسلمان کےلئے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت ہے
          • اور ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جس کی ہر مسلمان کو آرزو ہوتی ہے کہ مرتے وقت کلمہ پڑھنا نصیب ہوتا۔ہے
        • مسواک کا حکم

            مسواک وضو کی سنت ہے نہ کہ نماز کی پس جب مسواک کو ساتھ وضو کیا تو اس وضو سے جتنی نمازیں پڑھے گا ہر نماز کا ثواب مسواک کے وضو والی نماز کا ہو گا

        • مسواک کے لئے مستحب اوقات
          • دیر تک وضو نہ کرنے کی وجہ سے منھ کی بو بدل جائے تو مسواک کرنا۔
          • اگر وضو کے وقت مسواک کرنا بھول جائے تو نماز کے وقت مسواک کرنا۔
          • وضو کے ساتھ مسواک کرنے کے باوجود ہر نماز کے وقت مسواک کرنا۔
          • سو کر اٹھنے کے بعد۔
          • دانتوں پر زردی آ جانے کے وقت مسواک کرنا وغیرہ
        • مسواک کا مستحب طریقہ

            مسواک کسی کڑوے درخت کی جڑ یا لکڑی کی ہونی چاہئے۔ پیلو کی جڑ یا نیم و کیکر و پھلاہی وغیرہ کی شاخ ہو۔ زہریلے درخت کی نہ ہو۔چھنگلیا کے برابر موٹی اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی ہو۔ انگوٹھے سے زیادہ موٹی اور بالشت سے زیادہ لمبی نہ ہو۔ اتنی چھوٹی بھی نہ ہو کہ اس کا کرنا دشوار ہو جائے۔ مسواک نہ بہت نرم ہو نہ بہت سخت درمیانے درجہ کی ہو۔ سیدھی ہو گرہ دار نہ ہو۔ دائیں ہاتھ میں اس طرح پکڑنا مستحب ہے کہ چھنگلیاں نیچے اور انگوٹھا برابر میں اور باقی تین انگلیاں اوپر رہیں۔ مٹھی باندھ کر نہ پکڑیں تین مرتبہ مسواک کرنا اور ہر مرتبہ نیا پانی لینا چاہئے۔ اول اوپر کے دانتوں پر داہنی طرف سے ملتے ہوئے بائیں طرف لے جائیں اور پھر اسی طرح نیچے کے دانتوں میں ملیں۔ اس طرح تین بار کریں اور ہر بار دھو لیں۔ زبان اور تالو بھی صاف کریں۔ مسواک کو دانتوں کی چوڑائی کے رخ پھرائیں یعنی منھ کی لمبائی میں پھرائیں۔ دانتوں کے طول میں یعنی اوپر سے نیچے کو نہ ملیں کیونکہ اس سے مسوڑھوں کی جڑوں کے چھلنے اور خون نکلنے کا اندیشہ ہے۔ مسواک کو دھو کر شروع کریں اور استعمال کے بعد دھو کر دیوار وغیرہ کے ساتھ اس طرح کھڑی رکھیں کہ ریشہ کی جانب اوپر ہو۔ یوں ہی لٹا کر نہ رکھیں۔ مسواک کا وقت وضو سے پہلے یا کلی کے وقت ہے۔ اگر لکڑی کی مسواک نہ ملے تو دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے دانتوں کو ملنا مستحب ہے یا موٹے کپڑے سے دانت صاف کر لیں کہ سب میل کچیل جاتا رہے۔

        • مکروہاتِ مسواک
          • لیٹ کر مسواک کرنا (اس سے تلی بڑھتی ہے)۔
          • مٹھی سے پکڑنا (اس سے بواسیر ہو جاتی ہے)۔
          • مسواک کو چوسنا (اس سے بینائی جانے کا اندیشہ رہتا ہے)۔
          • مسواک کو زمین پر ایسے ہی لٹا کر رکھنا (اس سے جنون کا اندیشہ ہے اس لئے کھڑی رکھے اور ریشہ اوپر کی جانب ہو)۔
          • فراغت کے بعد مسواک کا نہ دھونا۔
          • انار یا ریحان یا بانس یا میوہ دار یا خوشبودار درخت کی لکڑی سے کرنا
          • مسواک دانتوں کے طول میں یعنی اوپرسے نیچے کو کرنا۔
      • تیمم کے احکام
        • تعریف
          • پاک مٹی یا کسی ایسی چیز سے جو مٹی کے حکم میں ہو بدن کی نجاستِ حکمیہ۔ سے پاک کرنے کو تیمّم کہتے ہیں۔ تیمم غسل اور وضو کا قائم مقام ہوتا ہے
        • تیمّم واجب ہونے کی شرطیں

            تیمم واجب ہونے کی آٹھ شرطیں ہیں

          • عاقل ہونا
          • بالغ ہونا
          • اسلام
          • مٹی وغیرہ پر قادر ہونا
          • حدث کا پایا جانا
          • حیض کا نہ موجود ہونا
          • نفاس کا نہ موجود ہونا
          • صاحبِ عذر کے لئے وقت کا تنگ ہونا
        • تیمّم کا حکم
          • جن حالتوں میں وضو فرض ہے عذر کے وقت اُن حالتوں میں تیمّم بھی فرض ہے جیسے نماز کے لئے اور جن حالتوں میں وضو واجب ہے ان میں تیمّم بھی واجب ہے اور جن حالتوں میں وضو مستحب ہےان میں تیمّم بھی مستحب ہے جیسے۔پاک آدمی کا دخولِ مسجد کے لئے
        • تیمّم صحیح ہونے کی شرطیں

            تیمّم صحیح ہونے کی نو شرطیں ہیں

          • نیت اس کے بغیر تیمّم درست نہیں ہوتا اور اس کا وقت مٹی وغیرہ پر ہاتھ مارنے کے وقت ہے، بعض کے نزدیک چہرے کا مسح کرتے وقت، نیت حدث یا جنابت کو دور کرنے یا نماز جائز ہونے کی یا کسی ایسی عبادتِ مقصودہ کی کرے جو طہارت کے بغیر جائز نہ ہو، حدث اور جنابت میں فرق کرنا، یا غسل اور وضو کے لئے دو تیمّم کرنا فرض نہیں بلکہ دونوں میں سے محض ایک کی نیت سے تیمّم کرے تو دونوں ہوں جائیں گے۔ جن عبادتوں کے لئے دونوں حدثوں سے یا حدث اصغر سے طہارت شرط نہیں جیسے سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا ، یا قرآن پاک کی تلاوت و اذان وغیرہ ان کے لئے وضو اور غسل کا تیمّم بغیر عذر کے ہو سکتا ہے اور ان تیمموں سے وہی عبادتیں جائز ہیں دوسری جائز نہیں، پس اگر قرآن مجید پڑھنے یا چھونے یا مسجد میں جانے یا اذان کہنے یا سلام کہنے یا سلام کا جواب دینے کے لئے تیمم کیا تو اس سے نماز جائز نہیں۔ پانی موجود ہونے کی صورت میں قرآن مجید چھونے کے لئے تیمم کرنا درست نہیں کسی کو دکھانے کے لئے تیمم کیا لیکن دل میں اپنے تیمم کرنے کی نیت نہ کی تو تیمم نہیں ہو گا، نماز جنازہ یا سجدہ تلاوت کرنے کو لئے تیمم کیا تو اس سے فرض نماز جائز ہے۔ نماز کے لئے تیمم کیا تو قرآن مجید کو چھونا وغیرہ امور جائز ہیں۔ بیمار یا معذور کو کوئی دوسرا شخص تیمم کرائے تو جائز اور نیت مریض پر فرض ہے اور تیمم کرانے والے پر نہیں۔
          • تیمم عذر

              عذر اس کی چند صورتیں ہیں

            • پانی نہ ملنا یعنی پانی کا ایک میل شرعی یا زیادہ دور ہونا، پس جو شخص پانی سےایک میل دور ہو خواہ شہر میں ہو یا باہر اور خواہ مسافر ہو یا مقیم اور سفر کثیر ہو یا قلیل مثلاً یونہی تھوڑی دور جانے کے لئے نکلا ہو تو اس کو تیمم کرنا جائز و درست ہے۔ پس اگر کوئی شخص آبادی سے ایک میل کے فاصلہ پر۔ ہو اور ایک میل سے قریب کہیں پانی نہ ملے تب بھی تیمم کر لینا درست ہے پانی کا تلاش کرنا ضروری ہے جبکہ اس کو جان و مال کا خوف اور ساتھیوں کو انتظار کی مشقت نہ ہو، اس کو پانی تلاش کئے بغیر تیمم کرنا درست نہیں ہے اور جب کسی کے بتانے پر یا اپنی اٹکل سے اس بات کا گمان غالب ہو جائے کہ پانی ایک میل کے اندر ہے اور اس کو یا اس کے ساتھیوں کو تکلیف یا حرج نہیں ہو گا تو پانی لانا اور وضو کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی بتانے والا نہ ہو اور کسی طریقہ سے بھی پانی کا پتہ نہ چلے یا یہ پتہ چلے کہ پانی ایک میل شرعی یا اس سے زیادہ دور ہے تو پھر پانی لانا واجب نہیں بلکہ تیمم کر لینا جائز ہے، اس میں فاصلہ کا اعتبار ہے وقت چلے جانے کے خوف کا اعتبار نہیں، پس اگر آدھے میل پر پانی ہو اور وقت تنگ ہو وضو کر کے نماز پڑھے چاہے وقت قضا ہو جائے، شرعی میل انگریزی ایک فرلانگ اور دس گز بڑا ہوتا۔ہے
            • پانی لینے میں درندے یا دشمن کا خوف ہونا، خواہ اپنی جان کا ہو یا مال کا اور خواہ وہ اپنا مال ہو یا امانت کے طور پر ہو، سانپ یا آگ یا چور یا کسی اور بلا یا جانور وغیرہ کا خوف ہونا بھی عذر ہے، اسٹیشن پر پانی ہے لیکن ریل۔گاڑی چھوٹ جانے کا خوف ہے تو یہ بھی عذر ہے اور تیمم جائز ہے
            • پانی تھوڑا ہو اور پیاس کا خوف ہو خواہ اپنے لئے ہو یا اپنے ساتھی یا اہل قافلہ میں سے کسی آشنا یا اجنبی کے لئے ہو، یا سواری کے جانور کے لئے ہو خواہ اس وقت ہو یا آئندہ ہو یہ سب امور عذر ہیں، اسی طرح آٹا گوندھنے کی ضرورت ہو تو تیمم جائز ہے، شوربا پکانے کی ضرورت ہو تو عذر نہیں۔ اس پانی سے وضو کرے تیمم جائز نہیں
            • . بیمار ہو جانے یا بیماری بڑھ جانے کا خوف ہو، جبکہ اپنے تجربہ یا علامات سے گمان غالب ہو جائے یا کسی تجربہ کار مسلمان حکیم کے کہنے سے معلوم ہو، اگر ٹھنڈا پانی نقصان کرتا ہو اور گرم پانی نقصان نہ کرے تو گرم پانی سے وضو و غسل کرے لیکن اگر آدمی کسی ایسی جگہ ہے کہ گرم پانی نہیں مل سکتا تو پھر تیمم کر لینا درست ہے۔ اگر کہیں اتنی سردی اور برف پڑتی ہو کہ نہانے سے مر جانے یا بیمار پڑ جانے کا خوف ہو اور رضائی لحاف وغیرہ کوئی چیز بھی پاس نہیں کہ نہا کر اس سے گرم ہو جائے تو ایسے۔وقت کی مجبوری کے وقت تیمم کر لینا درست ہے
            • . ایسی نماز کے فوت ہونے کا خوف ہو جس کا قائم مقام و بدل نہ ہو جیسے ۔عیدیں کی نماز، چاند گرہن، سورج گرہن، نماز جنازہ وغیرہ
            • . پانی نکالنے کا سامان نہ ہونے کی وجہ سے پانی پر قادر نہ ہونا یعنی کنواں موجود ہے مگر ڈول اور رسی نہیں ہے۔ اگر کپڑا لٹکا کر کچھ پانی نکالنا ممکن ہو تو اس کو نچوڑ کر وضو کرنا لازمی ہے اگرچہ پورا وضو چند مرتبہ میں ادا ہو ایسی صورت میں تیمم جائز نہیں، اگر پانی موجود ہے مگر وہ شخص اٹھ کر اسے نہیں لے سکتا اور دوسرا آدمی موجود نہیں تو وہ معذور ہے اور اس۔کو تیمم درست و جائز ہے
          • تیمم۔ مسح مٹی یا مٹی کی جنس پر کرنا
            • پاک مٹی یا جو چیز زمین کی جنس سے ہے اس پر تیمم کرے اس پر گردوغبار نہ ہو ، جو چیز جل کر راکھ ہو جائیں جیسے لکڑی گھاس وغیرہ اور جو چیز پگھل کر نرم ہو جائیں جیسے سونا، چاندی، لوہا، کانسی، تانبا وغیرہ یہ چیزیں زمین کی جنس سے نہیں ہیں پس ہر قسم کی مٹی سرخ، سیاہ، سفید وغیرہ ریت گچ، چونا، پتھر، سرمہ، ہڑتال، گیرو، ملتانی، گندھک، فیروزہ، عقیق، زمرد، زبرجد، یاقوت وغیرہ پتھر کی قسمیں ہیں کچی یا پختہ اینٹ اور مٹی کے کچے یا پکے برتن خواہ نئے ہوں یا ان میں پانی بھر چکے ہوں ان سب پر تیمم جائز ہے خواہ ان پر گرد وغبار ہو یا نہ ہو لیکن مٹی کو برتن پر روغن پھرا ہوا ہو تو تیمم درست نہیں اور لکڑی، لوہا کان سے نکلنے کے بعد، صاف کیا ہوا سونا، چاندی، تانبا، پیتل، المونیم، سیسہ، رانگ، جست، گیہوں، جو، ہر قسم کا غلہ، کپڑا، راکھ، عنبر، کافور، مشک، مونگا وغیرہ ان تمام چیزوں پر تیمم جائز نہیں، لیکن اگر ان چیزوں پر مٹی کا گردوغبار ہو تو جائز ہے۔ پس جو چیز زمین کی جنس سے نہیں اور اس پر اتنا غبار ہے کہ ہاتھ مارنے سے اڑنے لگے یا اس چیز پر ہاتھ رکھ کر کھینچنے سے ہاتھوں پر مٹی کا نشان پڑ جائے تو اس سے تیمم کر سکتا ہے۔ پس اس پر دونوں ہاتھ مارے اور جب غبار اس کے ہاتھ پر لگ جائے اور اس کا اثر ظاہر ہو تو تیمم کرے یا اپنا کپڑا جھاڑے اور ہاتھوں کو غبار کی طرف ہوا میں اٹھائے جب غبار اس کے ہاتھوں پر پڑے تو اس سے تیمم کر لے۔ ڈھیلا مٹی وغیرہ ایک ہی جگہ سے ایک ہی آدمی بار بار تیمم کرے۔ یا بہت سے آدمی تیمم کریں تو جائز ہے اور وہ جگہ مستعمل نہیں ہو جاتی ۔مسجد کی دیوار یا زمین سے تیمم کرنا بلا کراہت جائز ہے
          • استعاب (پورا پورا مسح کرنا)
            • استعاب (پورا پورا مسح کرنا) یعنی اس طرح مسح کرنا کہ کوئی حصہ باقی نہ رہے اگر بال برابر بھی کوئی جگہ رہ گئی تو تیمم نہ ہوا۔ بھوئوں کے نیچے اور آنکھوں کے اوپر جو جگہ ہے اگر اس کا مسح نہ کیا تو تیمم صحیح نہ ہوا، روغن ، چربی، موم، تنگ انگھوٹھی،۔کنگن، چوڑیاں وغیرہ نکال دینا ضروری ہے۔ تاکہ مسح پوری طرح ہو جائے انگھوٹھی، کنگن، چوڑی وغیرہ کو حرکت دینا کافی نہیں، بلکہ اپنی جگہ سے ہٹا کر اس کے نیچے بھی مسح کرے، دونوں نتھنوں کے بیچ میں جو پردہ ہے اس پر بھی مسح کرے ورنہ نماز نہ ہو گی، اگر انگلیوں کے بیچ میں غبار داخل نہ ہوا تو ان کا خلال کرنا واجب ہے، کسی کی لبیں اتنی زیادہ بڑھی ہوئی ہوں کہ ہونٹ چھپ جائیں تو انہیں اٹھا کر ہونٹوں کا ظاہری حصہ کا مسح کرے ورنہ۔تیمم نہ ہو گا
          • پورے ہاتھ سے یا کثیر ہاتھ سے مسح کرے اکثر کا مطلب یہ ہے کہ تین انگلیوں سے مسح کرے ایک یا دو انگلیوں سے مسح۔جائز نہیں
          • جو چیزیں تیمم کے منافی ہوں ان کا نہ پایا جانا جیسے حیض و نفاس وغیرہ ٧. اعضائے مسح پر جو چیز مسح روکنے والی ہے اس کو دور کرنا جیسے موم، چربی یا انگھوٹھی وغیرہ کو حرکت دے کر یا اتار کر اس کا مسح۔کرنا
          • . پانی کا طلب کرنا جبکہ گمان ہو کہ پانی قریب ہے مثلاً سبزہ نظر آئے یا پرندے گھومتے ہوں یا کسی اور علامت سے یا کسی متقی آدمی کے بتانے سے پانی کا قریب ہونا معلوم ہو تو تقریباً چار سو گز شرعی کی مقدار چاروں طرف تلاش کرے، خود تلاش کرنا لازم نہیں اگر کسی دوسرے شخص سے تلاش کرا لیا تب بھی کافی ہے اور اس کے لئے ادھر اُدھر جانا واجب نہیں بلکہ اسی جگہ سے ہر طرف نظر دوڑانی واجب ہے جبکہ درخت وغیرہ دیکھنے سے مانع نہ ہوں ورنہ اونچی جگہ چڑہ کر دیکھےاور اگر وہاں سے دیکھنا بوجہ رکاوٹوں کے کافی نہ ہو تو چلنا لازمی ہے اگر وہاں قریب پانی ہونے کا گمان غالب نہ ہو اور کوئی خبر دے تو وہاں تلاش کرنا واجب نہیں، پس اگر شک ہو تو طلب کرنا مستحب ہے اور اگر شک بھی نہ ہو تو تلاش نہ کرنے پر مستحب کا تارک نہ ہو گا، اگر اس کے ساتھی کے پاس پانی ہے اور اس کو گمان ہے کہ اگر مانگے تو دیدے گا تو مانگنا واجب ہے اور تیمم جائز نہ ہو گا، اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ نہ دے گا تو مانگنا واجب نہیں اور تیمم ج ائز ہے۔ اگر پانی قیمت کے بغیر نہ ملے اور اس کے پاس رقم نہیں یا کرایہ وغیرہ راستہ کے خرچ سے فالتو رقم نہ ہو تو خریدنا واجب نہیں تیمم کر کے نماز پڑھے اگر فالتو رقم ہو اور وہ رواجی قیمت مانگتا ہوتو پانی خرید کر وضو کرے تیمم نہ کرے ، اگر بہت زیادہ مثلاً رواج سے دگنی قیمت مانگتا ہو۔ اس سے کم نہ کرے تو تیمم کرے
          • اسلام مسلمان ہونا
          • تیمم کے ارکان

              تیمم کے دو رکن ہیں

            • دو ضربیں یعنی دو دفعہ خشک و پاک مٹی یا مٹی کی جنس کی چیز پر دونوں۔ہاتھ مارنا
            • مسح کرنا یعنی ایک ضرب سے منہ (چہرے) کا مسح کرے اور دوسری ضرب سے دونوں ہاتھوں کا کہنیوں سمیت مسح کرے، ایک ہی ضرب سے منھ اور ہاتھوں پر مسح کرنا جائز نہیں، اگر ایک ہاتھ سے منھ کا مسح کیا اور دوسرے ہاتھ سے ایک ہاتھ کا مسح کیا تو منھ اور ہاتھ کا مسح جائز ہو گا اور اس کو چاہئے کہ دوسرے ہاتھ کے لئے دوسری ضرب لگائے مگر یہ خلاف۔ سنت ہے، تیمم میں سر اور پاؤں کا نہیں ہے
        • تیمم کی سنتیں

            تیمم کی سات سنتیں ہیں

          • ہاتھوں کو مٹی پر رکھ کر آگے کو لانا
          • پھر پیچھے کو لیجانا
          • پھر ان کا جھاڑنا
          • انگلیوں کو کھلا رکھنا تاکہ ان میں گردوغبار آ جائے
          • شروع میں بسم اللّٰہ پڑھنا
          • ترتیب کا لحاظ رکھنا
          • پے درپے تیمم کرنا سنت سے مراد یہاں مستحب ہے
        • مستحبات تیمم
          • ہتھیلیوں کی اندرونی سطح سے تیمم کرنا
          • پہلے دائیں عضو کا مسح کرنا پھر بائیں کا
          • مٹی سے تیمم کرنا نہ کہ اس کی ہم جنس سے
          • منھ کے مسح کے بعد داڑھی کا خلال کرنا
          • مسنون طریقہ سے مسح کرنا
          • دونوں ہاتھوں کا مٹی پر مارنا تاکہ مٹی انگلیوں کے اندر پہنچ جائے اب کل تیرہ سنتیں ہو گئیں
        • تیمم کرنے کا پورا مسنون طریقہ
          • تیمم کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بسم اللّٰہ پڑھ کر نیت کرے کہ میں ناپاکی دور کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے تیمم کرتا ہوں پھر دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی کے بڑے ڈھیلے پراپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کی اندرونی جانب سے کشادہ کر کے مار کر ملتا ہوا آگے کو لائے اور پھر پیچھے کو لے جائے پھر ان کو اٹھا کر اس طرح جھاڑے کہ دونوں ہتھیلیوں کو نیچے کی طرف جھکا کر دونوں انگوٹھوں کو آپس میں ٹکرا دے تاکہ زائد مٹی جھڑ جائے اور جھاڑنے کے لئے دونوں ہتھیلیوں کو آپس میں نہ ملے کہ اس طرح ضرب بیکار ہو جائے گی، اگر زیادہ مٹی لگ جائے تو منھ سے پھونک دے پھر دونوں ہاتھوں سے اپنے پورے منھ پر اوپر سے نیچے کو اس طرح مسح کرے کہ کوئی جگہ ایسی باقی نہ رہے جہاں ہاتھ نہ پہنچے ایک بال برابر بھی جگہ چھوٹ جائے گی تو تیمم جائز نہ ہوگا پھر داڑھی کا خلال کرے پھر دوسری مرتبہ پہلے کی طرح مٹی پر مارے اور جھاڑے اور کلمہ کی انگلی اور انگھوٹھے کے سوا بائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کو دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے سوا باقی چاروں انگلیوں کے سرے پر پشت کی جانب رکھ کر کہنیوں تک کھینچ لائے اس طرح کہ بائیں ہاتھ کی کچھ ہتھیلی بھی لگ جائے اور کہنیوں کا مسح بھی ہو جائے پھر باقی دونوں انگلیوں (یعنی انگشت شہادت اور انگوٹھا) اور ہاتھ کی باقی ہتھیلی کو دوسری جانب رکھ کر کہنی کی طرف سے کلائی تک کھینچتا ہوا لائے اور انگوٹھے کے اوپر کی جانب بھی اس کے ساتھ ہی مسح کرے ایک عضو کا مسح پورا ہونے سے پہلے اگر ہاتھ اٹھا لیا تو ضرب باطل ہو جائے گی۔ اسی طرح دائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں ہاتھ کا مسح کرے پھر انگلیوں کا خلال کرے، وضو اور غسل دونوں کے تیمم کا یہی ایک طریقہ ہے، اگر انگوٹھی وغیرہ ہو تو اس کو اتار کر ہلا کر اس کی۔جگہ بھی مسح کرے
        • تیمم کو توڑنے والی چیزیں

            یہ دو قسم کی ہیں

          • جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان سے وضو کا تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے اور جو چیزیں غسل کو واجب کرتی ہیں وہ غسل کے تیمم کو توڑتی ہیں، پس غسل کا تیمم صرف حدث اکبر سے ٹوٹتا ہے، وضو کو توڑنے والی چیز سے غسل کا تیمم نہیں ٹوٹتا، مثلاً کسی نے وضو اور غسل دونوں کا تیمم کیا پھر اس سے وضو توڑنے والا فعل سرزد ہوا تو اس کا وضو کا تیمم ٹوٹ جائے گا اور غسل کا تیمم بدستور رہے گا اب اگر پانی نہ ملے تو صرف وضو کی نیت سے تیمم کرے، اگر کوئی شخص ریل پر سوار ہو اور اس نے پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کیا پھر اثنائے سفر میں ریل گاڑی میں اس کو پانی دریا یا تالاب وغیرہ نظر آیا تو اس کا تیمم نہیں ٹوٹے گا کیونکہ ریل گاڑی وہاں ٹہر نہیں سکتی اور وہ چلتی ریل گاڑی سے اتر نہیں سکتا اس لئے وہ پانی کےاستعمال پر قادر نہیں۔ہوا
          • . جس عذر کی وجہ سے تیمم جائز ہوا تھا جب وہ عذر جاتا رہا تو تیمم ٹوٹ جائے گا مثلاً پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کیا تھا تو وہ پانی پر قدرت حاصل ہو جانے کی صورت میں ٹوٹ جائے گا۔ وضو کے موافق پانی ملنے سے وضو کا تیمم ٹوٹ جائے گا اور غسل کے موافق پانی ملنے سے غسل کا تیمم ٹوٹے گا پس اگر اتنا پانی مل جائے جس سے غسل کے فرائض ادا ہو سکیں تو غسل کا تیمم ٹوٹ جائے گا، خواہ غسل کی سنتیں ادا ہو نہ سکیں ، اسی طرح اگر وضو کے لئے اتنا پانی مل سکے جس سے وضو کے فرائض ادا ہو سکیں تو وضو کا تیمم ٹوٹ جائے گا خواہ وضو کی سنتیں ادا نہ ہو سکیں۔ اور اگر مرض وغیرہ کس اور عذر کی وجہ سے تیمم کیا تھا تو اس عذر کے جاتے رہنے سےبھی تیمم ٹوٹ جائے گا۔ تیمم جائز ہونے کے اسباب یعنی پانی دور ہونا، خوفِ مرض، خوفِ دشمن، خوفِ پیاس اور پانی نکالنے کا سامان نہ ہونا، علیحدہ علیحدہ ہونے کی وجہ سے ایک عذر دوسرے میں شامل نہیں ہو سکتا جب کسی شخص نے ایک عذر کی وجہ سے تیمم کیا پھر کوئی دوسرا عذر پہلی اجازت کی حالت میں لاحق ہو گیا پھر پہلا عذر جاتا رہا تو اس کی پہلی اجازت بالکل ختم ہو گئی اور اس کا تیمم بھی ختم ہو گیا اب دوسری اجازت کا تیمم دوبارہ کرے ، مثلاً مسافر نے پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کیا اسی حالت میں ایسا مرض ہو گیا جس سے تیمم جائز ہوتا ہے پھر وہ شخص مقیم ہو گیا تو پہلا سبب یعنی سفر ختم ہو جانے سے وہ تیمم ختم ہو گیا، اب اس سے نماز جائز نہ ہو گی بلکہ اب مرض کی وجہ دوبارہ تیمم کرے یا مسافر کو تیمم کے بعد پانی مل گیا لیکن ایسا مرض ہو۔گیاجس سے تیمم جائز ہوتا ہے تب بھی پہلا تیمم ختم ہو گیا اب دوبارہ تیمم کرے
        • تیمم کے مختلف مسائل
          • اگر وقت کے داخل ہونے سے پہلے تیم کر لے تو جائز ہے
          • ایک تیمم سے جب تک وہ نہ ٹوٹے جس قدر فرض و نفل نمازیں پڑھے جائز ہیں۔ اسی طرح نماز کے لئے جو تیمم کیا ہو اس سے فرض نماز، نفل نماز، قرآن مجید کی تلاوت، جنازے کی نماز، سجدہ تلاوت اور تمام عبادتیں جائز ہیں،
          • . جب تک پانی نہ ملے یا کوئی اور عذر باقی رہے تیمم کرنا جائز ہے اگر اسی حالت میں کئی سال گزر جائیں تو کچھ مذائقہ نہیں، عذر کی حالت میں تیمم کرنے سے وضو اورغسل کے برابر کی پاکی حاصل ہو جاتی ہے یہ نہ سمجھے کہ اچھی طرح پاک نہیں ہوا جب تک عذر رہے یہی حکم ہے البتہ عذر دور ہونے کے بعد ناپاکی عود کر آتی ہے،
          • . اگر پانی ملنے کی امید ہو تو آخری وقت تک تاخیر کرنا مستحب ہے اور۔ اگر امید نہ ہو تاخیر نہ کرے، اور وقتِ مستحب میں تیمم کر کے نماز پڑہ لے ٥. اگر پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کر لیا اور نماز پڑھ لی پھر پانی مل گیا تو اس کی نماز ہو گئی اب لوٹانے کی ضرورت نہیں خواہ وہ پانی وقت کے انذر ملا ہو یا وقت گزرنے کے بعد،
          • اگر کہیں پانی مل گیا لیکن اتنا تھوڑا ہے کہ ایک ایک دفعہ منھ اور دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت اور دونوں ٹخنوں سمیت دھو سکتا ہے تو تیمم کرنا درست نہیں ہے ان اعضا کو ایک دفعہ دھو لے اور سر کا مسح کر لے کلی وغیرہ وضو کی سنتیں چھوڑ دے اور اگر اتنا بھی نہ ہو تو تیمم کر لے،
          • ایک ہی تیمم وضو اور غسل دونوں کے لئے کافی ہوتا ہے اگر جنبی کے پاس اتنا پانی ہو کہ اس کے کچھ اعضائے غسل یا پورے وضو کو کفایت کرتا ہے تو غسل کا تیمم کرے اور یہ تیمم غسل اور وضو دونوں کے لئے کافی ہے اس کو وضو اور بعض اعضائ غسل کو دھونے کی ضرورت نہیں پھر اگر غسل کے تیمم کے بعد وضو ٹوٹ جائے تو اب وضو کے لئے تیمم نہ کرے بلکہ اس کو وضو ہی کرنا چاہئے کیونکہ اب وہ بقدر کفایت پانی پر قادر ہے یہی حکم اس وقت بھی ہے جبکہ پانی تو کافی ہے مگر غسل کرنا نقصان کرتا ہے اور وضو کرنا نقصان نہیں کرتا،
          • جنبی کو جنازہ اور عیدین کی نماز کے لئے تیمم جائز ہے
          • اگر جنازہ حاضر ہو اور ولی کے سوا دوسرے شخص کو وضو کرنے تک نمازِ جنازہ فوت ہو جانے کا خوف ہو تو تیمم جائز ہے اور اگر وضو کر کے ایک تکبیر بھی مل سکے تو تیمم جائز نہیں، اس صورت میں ولی کے واسطے تیمم جائز نہیں (کیونکہ اس کا انتظار ضروری ہے اور اس کی اجازت سے نماز ہو گی(
          • عورت کے لئے پانی کے ہوتے ہوئے سفر میں پانی لینے نہ جانا اور تیمم کر لینا جائز نہیں ایسا پردہ جس میں شرعیت کا کوئی حکم چھوٹ جائے ناجائز و حرام ہے پس اس کو برقعہ اوڑھ کر یا سارے بدن پر چادر لپیٹ کر پانی کے لئے جانا واجب ہے البتہ لوگوں کے سامنے بیٹھ کر وضو نہ کرے اور ہاتھ منھ نہ کھولے، اگر پانی کی جگہ جانے میں اس کو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو وعصمت کا خوف ہو تو نہ جائے اس کو تیمم کرنا جائز ہے،
          • جنبی کو مسجد میں بلا ضرورت جانے کے لئے تیمم جائز نہیں لیکن اگر مجبوراً جانا پڑے تو جائز ہے۔ مگر ضرورت پوری ہونے پر جلدی نکل آئے، اسی طرح اگر مسجد میں سویا ہوا تھااور نہانے کی ضرورت ہو گئی تو آنکھ۔کھلتے ہے جہاں سویا تھا فوراً تیمم کر کے باہر نکل آئے دیر کرنا حرام ہے
          • ریل میں سیٹوں اور گدوں پر جو گرد وغبار جم جاتا ہے اس پر تیمم جائز ہے، یہ وہم نہیں کرنا چاہئے کہ شاید یہ غبار پاک ہے یا ناپاک،
          • . ریل گاڑی میں جہاں مسافر جوتے پہن کر چلتے ہیں وہ مٹی ناپاک ہے اس سے تیمم کرنا درست نہیں،
          • اگر کسی آدمی کے آدھے سے زیادہ جسم پر زخم یا چیچک نکلی ہو تو تیمم کرنا درست ہے
          • اگر سفر میں کسی دوسرے آدمی کے پاس پانی ہے اور اس کا گمان غالب یہ ہو کہ اگر اس سے پانی مانگوں گا تو مل جائے گا تو بغیر مانگے تیمم کرنا درست نہیں اور گمان غالب یہ ہو کہ مانگنے سے وہ شخص پانی نہیں دے گا تو تیمم کر کے نماز پڑھ لینا درست ہے لیکن اگر نماز پڑھنے کے بعد اس سے پانی مانگا اور اس نے دیدیا تو نماز کو دہرانا پڑے گا ، اسی طرح اگر نماز کی حالت میں کسی شخص کے پاس پانی دیکھا اور اس کو گمان غالب یہ ہے کہ مانگنے سے دیدے گا تو نماز قتع کر دے اور پانی مانگے اگر وہ دیدے تو وضو کرے اور اگر نہ دے تو اس کا وہی تیمم باقی ہے اور اگر نہیں مانگا اور نماز پوری کر لی پھر اس نے ازخود یا مانگنے پر پانی دیدیا تو اعادہ لازم ہے اور اگر نہ دے تو اعادہ لازم نہیں اور گمان غالب نہ ہو صرف شک ہو تو نماز نہ توڑے اور پوری کرنے کے بعد پانی مانگے پھر اگر ازخود یا مانگنے سے دیدے تو وضو کر کے نماز کا اعادہ کرے اور اگر نہ دے تو وہی نماز کافی ہے،
          • اگر وہ عذر جس کی وجہ سے تیمم کیا گیا ہے بندوں کی طرف سے ہو تو جب عذر جاتا رہے جس قدر نمازیں اس تیمم سے پڑھی ہیں سب دوبارہ پڑہنی چاہئیں مثلاً کوئی شخص جیل خانہ میں ہو اور وہاں کے ملازم اس کو پانی نہ دیں یا مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اگر تو وضو کرے گا تو تجھ کو مار ڈالوں گا ایسی صورت میں تیمم کر کے نمازیں ادا کرے اور عذر دور ہونے پر سب نمازوں کو دوبارہ پڑھنا چاہئے،
          • اگر پانی پر بھی قادر نہ ہو اور مٹی سے تیمم پر بھی قادر نہ ہو تو بلا طہارت نماز پڑھ لے پھر عذر دور ہونے پر اس کو طہارت کے ساتھ لوٹانا لازمی۔ہے
          • اگر پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کر لیا اور نماز پڑھ لی پھر پانی مل گیا تو اس کی نماز ہو گئی اب لوٹانے کی ضرورت نہیں خواہ وہ پانی وقت کے انذر ملا ہو یا وقت گزرنے کے بعد،
      • موزوں پر مسح کرنا

          موزوں پر مسح کرنا رخصت (جائز) ہےاور پاؤں کا دھونا عزیمت (افضل) ہے۔ اگر اس کو جائز جان کر عزیمت اختیار کرے تو اولیٰ ہے۔جو چیزیں موزوں پر مسح جائز ہونے کیلئے ضروری ہیں

        • موزوں کے لازمی اوصاف
          • ایسے دبیز ہوں کہ بغیر کسی چیز سے باندھے پیروں پر ٹھر جائیں

            ان کو پہن کر تین میل یا اس سے زیادہ پیدل چل سکے

            ان کے نیچے کی جلد نظر نہ آئے

            پانی کو جذب نہ کرتے ہوں یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو ان کے نیچے کی سطح تک نہ پہنچے پس تین قسم کے موزوں پر مسح جائز ہے

            اول: چمڑے کے موزہ جن سے پاوٴں ٹخنوں تک چھپے رہیں

            دوم: اونی یا سوتی موزے جن میں چمڑے کا تلا مردانہ ہندی جوتے کی شکل۔پر لگا ہوا ہے

            سوم: وہ اونی یا سوتی موزے جو اس قدر گاڑھے یا موٹے ہوں کہ خالی موزہ پہن کر تین میل راستہ پیدل چلنے سے نہ پھٹیں اور پنڈلی پر بغیر باندھے تھمے رہیں اور نیچے کی جلد نظر نہ آئے اور اس میں پانی نہ چھنے۔ موزوں کے کے نیچے اگر کپڑے وغیرہ کی جراب پہنے ہوئے ہو تب بھی موزوں پر مسح جائز ہے، کپڑے وغیرہ کی جرابوں پرمسح کرنا درست نہیں، لیکن اگر مردانہ جوتے کی شکل پر چمڑا چڑھایا گیا ہو یا وہ بہت سخت اور موٹی ہوں جیسا اوپر بیان ہوا تب ان پر مسح جائز ہے

        • موزوں پر مسح کے فرائض

            مسح میں دو فرض ہیں

          • اول موزوں کے اوپر کی جانب سے مسح کرے،
          • دوم ہر پاؤں پر ہاتھ کی تین انگلیوں کی برابر مسح کرے، ہاتھ کی تین چھوٹی انگلیوں کے برابر فرض ہے۔ اس سے کم میں مسح درست نہ ہو گا اور یہ دونوں فرضِ عملی ہیں موزے کے نیچے کی جانب یا ایڑی پر یا ساق پر یا اس کے طرف میں ٹخنے پر مسح جائز نہیں۔ اگر ایک پاؤں پر دو انگشت کی مقدار مسح کرے اور دوسرے پر چار یا پانچ انگشت مسح کرے تو جائز نہیں،

            مسح تین انگشت سے کرے، اگر ایک ہی انگلی سے تین دفعہ الگ الگ جگہ پر مسح کرے اور ہر دفعہ نیا پانی لے تو جائز ہے اور نیا پانی نہ لے تو جائز نہیں، اگر انگوٹھے اور اس کے پاس کی انگلی سے مسح کرے اور دونوں کھلی ہوئی ہوں تو جائز ہے ، اگر تین انگلیاں رکھ دے اور کھینچے نہیں تو جائز ہے مگر سنت کے خلاف ہے اگر انگلیوں کو کھڑا رکھے اور صرف انگلیوں کے سروں سے مسح کرے تو اگر پانی ٹپکتا ہوا ہو اور اس سے موزہ تین انگلیوں کی مقدار پر ہو جائے تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں، اگر کسی نے موزہ پر مسح نہیں کیا لیکن پانی برستے وقت باہر نکلا یا گیلی گھاس پر چلا جس سے موزہ۔بھیگ گیا تو مسح ہو گیا

            موزوں پر مسح کرنا اس وقت جائز ہے جبکہ موزے پورا وضو کر کے پہنے ہوں، اس کے بعد وضو ٹوٹا ہو، یا دونوں پاؤں دھو کر موزے پہنے ہوں اور پھر حدث ہونے یعنی وضو توڑنے والا امر واقع ہونے سے پہلے وضو پورا کر لیا ہو تو اب وضو ٹوٹنے پر اس کو موزوں پر مسح کرنا جائز ہے پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں، صرف وضو میں موزوں پر مسح کرنا جائز ہے غسل میں نہیں، پس اگر کسی پر نہانا واجب ہو گیا ہے تو موزے اتار کر نہائے اور جس شخص نے حدث کا تیمّم کیا ہو اس کو موزوں پر مسح جائز نہیں خواہ وہ۔تیمّم غسل کا ہو یا وضو کا یا دونوں کا مسح اس کی مدت کے اندر جائز ہے۔ مدت گزرنے کے بعد جائز نہیں، مسح کی مدت مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات ہے اور مسافر کے لئے تین دن اور تین رات، جس وقت سے موزے پہنے اس وقت سے مدت شروع نہیں ہو گی بلکہ موزے پہننے کے بعد جس وقت حدث ہو اس وقت سے یہ مدت شروع ہو گی، موزہ پہننے یا وضو کرنے کے وقت سے نہیں پس اگر کسی نے جمعہ کو فجر کے وقت وضو کر کے موزہ پہنے پھر عصر کے وقت اس کو حدث ہوا اور اس نے وضو میں موزہ پر مسح کیا اگر وہ مقیم ہے تو دوسرے دن یعنی ہفتہ کو عصر کے وقت اسی ساعت تک اس کے لئے مسح کی مدت باقی رہے گی جس ساعت میں اول روز حدث ہوا تھا اور اگر مسافر ہے تو چوتھے روز یعنی پیر کے دن کی اسی ساعت تک مسح کی مدت باقی رہے گی پس مقیم کبھی چھ نمازوں میں مسح کرتا اور کبھی مسح کے ساتھ صرف چار نماز پر قادر ہوتا ہے۔ مقیم نے مدت مسح یعنی ایک دن رات پورا ہونے سے پہلے سفر کیا تو سفر کی مدت تک مسح کرتا رہے۔ یعنی تین رات تک موزے پہنے رہے اور مسح کرتا رہے اور اگر دن پورا ہونے کے بعد سفر کیا تو موزہ اتار کر پیر دھو لے اور پھر موزہ پہنے اب نئے سرے سے مسح کی مدت شروع ہو گی اور اگر مسافر موزوں پر مسح کرنا شروع کرے اور ایک دن رات سے قبل گھر آجائے یا اقامت کی نیت کر لے تو اقامت کی مسح کی مدت یعنی آٹھ پہر تک مسح کر سکتا ہے اور ایک دن رات کے بعد گھر آیا یا اقامت کی نیت کی تو اس کے مسح کی رخصت ختم ہو گئی وہ پیروں کو دہوئے اور نئے سرے سے مسح کی مدت شروع ہو گی، اگر وضو کی حالت میں موزہ اتار دیا یا وضو ہونے کی حالت میں مسح کی مدت پوری ہو گئی تو ان دونوں حالتوں میں صرف پاؤں دھو کر موزہ پہن لینا۔کافی ہے اور پورا وضو کر لینا مستحب ہے۔

            موزہ بہت پھٹا ہوا نہ ہو، بہت پھٹا ہوا ہونے کی مقدار پاوٴں کی تین چھوٹی نگلیاں ہیں، خواہ سوراخ موزہ کے نیچے یا اوپر یا ایڑی کی طرف اور اگر سوراخ ٹخنے سے اوپر پنڈلی میں ہو تو یہ مسح کا مانع نہیں ہے کیونکہ یہ مسح کی حد سے باہر ہے پس اگر تین چھوٹی انگلیوں کی مقدار پاؤں کھل گیا یا چلتے میں کھل جاتا ہے تو اس پر مسح جائز نہیں ہے اور اس سے کم پھٹا ہو تو مسح جائز ہے۔ تین چھوٹی انگلیوں کی مقدار کا اعتبار اس وقت ہو گا جبکہ انگلیوں کے سوا کوئی اور جگہ کھل جائے اور اگر انگلیاں ہی کھل جائیں تو معتبر یہ ہے کہ انہی تین انگلیوں کے کھلنے کا اعتبار ہو گا حتٰی کہ اگر انگوٹھا اور اس کو برابر والی انگلی کھل جائے تو مسح جائز ہے حالانکہ یہ سب مل کر تین چھوٹی انگلیوں کے برابر ہیں اور اگر انگوٹھا اور اس کے برابر کی دونوں انگلیاں کھل گئیں تو اب مسح جائز نہیں، ایک موزہ کے سوراخ جمع کئے جائیں دونوں کے جمع نہ کئے جائیں گے پس اگر ایک ہو موزہ کئی جگہ سے تھوڑا تھوڑا پھٹا ہوا ہے اور اسے جمع کر کے تین انگلیوں کے برابر ہے جائے تو مسح کرنا ناجائز ہے اور کم ہو تو جائز ہے اور اگر ایک موزہ میں بقدر ایک انگشت کے اور دوسرے میں بقدر دو انگشت کے کھلا ہوا ہو تو مسح ان دونوں پر جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مسح پھٹے ہوئے حصہ پر واقع نہ ہو بلکہ درست حصہ پر ہو، سوراخ کم از کم اتنا بڑا ہے جس میں ٹاٹ وغیرہ سینے کا سوا جا سکے اور جو اس سے کم ہو اس کا اعتبار نہیں وہ معاف ہے۔ اگر موزہ کا سیون کھل گئی لیکن اس سے پاؤں دکھائی نہیں دیتا تو مسح درست ہے اور اگر ایسا ہو کہ چلتے وقت تین انگلیوں کے برابر دکھائی دیتا ہے ویسے نہیں تو مسح درست نہیں ہے۔ موزہ پر مسح کے حکم میں مرد و عورت برابر ہیں، دستانے جو ہاتھ پر پہنے ہوں ان پر مسح جائز نہیں، عمامہ، ٹوپی، اور نقاب (گھونگھٹ) پر بھی مسح جائز نہیں ہے،

        • مسح کا مسنون طریقہ
          • مسح کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو پانی سے تر کرکے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں داہنے موزہ کی انگلیوں کے اگلے حصہ پر رکھے اور بائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں موزہ کی انگلیوں پر رکھے، انگلیاں پوری پوری رکھے صرف سرا نہ رکھے اور انگلیوں کے کھولے ہوئے ٹخنوں کی طرف ٹخنوں سے اوپر کی طرف کھینچے، اگر کوئی الٹا مسح کرے یعنی ٹخنوں کی طرف سے انگلیوں کی طرف کھیچے یا دونوں موزوں پر عرض سے مسح کرے تو مسح ہو جاتا ہے مگر سنت کے خلاف ہے مکروہ اور بدعت ہے، اگر ہتھیلی کو رکھ کر یا صرف انگلیوں کو رکھ کر کھینچے تو یہ دونوں صورتیں حسن ہیں اور احسن یہ ہے کہ سارے ہاتھ سے مسح کرے تو جائز مگر مکروہ ہے اور مستحب یہ ہے کہ اندر کی جانب سے مسح کرے مسح میں خطوط کا ظاہر ہونا شرط نہیں البتہ۔ سنت ہے۔ مسح کئی بار کرنا سنت نہیں اور اس کے لئے نیت شرط نہیں ہے
        • مسح توڑنے والی چیزیں

            جو چیز وضو کو توڑتی ہے وہ مسح کو بھی توڑتی ہے،

          • دونوں موزوں یا ایک موزہ کا پاؤں سےنکالنا یا نکل جانا، اگر کسی کا وضو تو نہیں ٹوٹا مگر اس نے موزہ اتار دیا تو اب مسح جاتا رہا، اب دونوں پاؤں دھولے پھر سے وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اگر ایک موزہ اتار دیا یا نکل۔گیا تو اب دوسرا بھی اتار کر دونوں پاوٴں دھونا واجب ہے
          • مدت مسح کا گزر جانا، پس اگر وضو نہ ٹوٹا ہو تو موزے اتار کر دونوں پاؤں دھو لے پورا وضو کرنا واجب نہیں، لیکن اگر وضو ٹوٹ گیا ہو تو۔دونوں موزے اتار کر پورا وضو کرے
          • موزے میں پاؤں کا پانی سے بھیگ جانا، پس اگر ایک موزے میں پانی داخل ہوا اور ٹخنے تک پانی پہنچا اگر سارا پاؤں یا آدھے سے زیادہ پاؤں دھل گیا تو اس پر موزہ اتار کر دوسرے پاؤں کا دھونا واجب ہے
          • موزہ کا تین انگلیوں کے برابر یا زیادہ پھٹنا
          • معذور کے حق میں وقت کا نکل جانا
        • جبیرہ و عصابہ پر مسح کرنا
          • جبیرہ ان کپھچیوں کو کہتے ہیں جو لکڑی یا بانس یا نسرل وغیرہ سے چیر کر ٹوٹی ہوئی ہڈی کو درست کرنے کے لئے بانھتے ہیں اور عصابہ کپڑے کی پٹی(یا مرحم کا پھایہ وغیرہ) جو پھوڑے پھنسی دنبل اور زخم وغیرہ پر باندھتے ہیں
          • جب زخم کو پانی سے دھونے سے نقصان ہو اور زخم پر مسح کرنا بھی نقصان کرے تو اس پٹی یا پھایہ پر مسح کرنا جائز ہے لیکن اگر پانی سے دھونا نقصان نہ کرے تو دھونا ضروری ہے، اور اگر پانی سے دھونا نقصان کرے اور مسح نقصان نہ کرے تو زخم پر مسح کرنا واجب ہے، اگر لکڑی یا پٹی کے کھولنے یا پھایہ کے اکھاڑنے سے نقصان پہنچے یا سخت تکلیف ہوتی ہو تو اس لکڑی یا پٹی یا پھایہ پر مسح کرنا جائز ہے، جس شخص کو پٹی کھولنے میں اس وجہ سے ضرر ہو کہ وہ ایسی جگہ ہے کہ پھر ان کو خود نہیں باندھ سکتا نہ۔ اس کے پاس کوئی اور باندھنے والا ہے وہ شخص بھی اس پر مسح کرے
          • اگر ٹھنڈے پانی سے دھونا نقصان کرتا ہو اور گرم پانی سے دھونا نقصان۔نہ کرتا ہو تو گرم پانی سے دھونا لازمی ہے، اور اس کو مسح جائز نہیں
          • . اگر جبیرہ و عصابہ پر مسح کرنے سے ضرر ہو تو بالاجماع ترک جائز ہے اور اگر ضرر نہ ہو تو ترک ناجائز ہے کیونکہ ان پر مسح فرض ہے اس۔پر فتویٰ ہے
          • جبیرہ و عصابہ کی ساری پٹی پر مسح کریں خواہ اس ساری کے نیچے زخم نہ ہو یعنی جس قدر زخم کے مقابل ہیں اور جس قدر صحیح بدن کے مقابل ہیں سب پر مسح کریں اگر اکثر جبیرہ پر یعنی آدھے سے زیادہ مسح کرلیا تو کافی ہے، اسی پر فتویٰ ہے، پٹی کے دونوں بندشوں کے درمیان ہاتھ یا کونی یا بدن کی کوئی اور جگہ جو کھلی رہ جاتی ہے۔ اس پر بھی مسح کرنا کافی ہے یہی۔ اصح ہے اسی پر فتویٰ ہے
          • مسح اسی طرح کرے جس طرح موزوں پر کیا جاتا ہے یعنی انگلیوں کو۔بھگو کر پٹی پر پھیرے مسح ایک ہی دفعہ کافی ہے ٧. جبیرہ و عصابہ پر مسح کرنا اس کے نیچے کہ بدن کے دھونے کے حکم۔میں ہے، مسحِ موزوں کی طرح خلیفہ اور بدل نہیں ہے
        • جبیرہ و عصابہ کے مسح اور موزے کے مسح میں فرق

            جبیرہ وعصابہ کا مسح موزے کے مسح سے بیس احکام میں مخالف ہے

          • یہ بدل و خلیفہ نہیں، اور مسح موزہ دھونے کا بدل و خلیفہ ہے،
          • اس کے لئے مدت مقرر نہیں
          • اگر پہلے جبیرہ وعصابہ کو بدل ڈالے تو دوسرے پر مسح کو لوٹانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے،
          • اگر اوپر نیچے دو جبیرہ بندھے ہوں اور ایک کو کھول ڈالے تو دوسرے پر۔مسح لوٹانا واجب نہیں مستحب ہے
          • جبیرہ والے پاؤں کو مسح کرے اور دوسرے پاؤں کو دھو لےبخلاف موزہ کہ اگر صرف ایک پاؤں میں موزہ ہو تو دونوں کو دھونا فرض ہے ایک پر مسح جائز نہیں،
          • جبیرہ کا طہارت پر باندھنا شرط نہیں
          • اگر جبیرہ پر مسح ضرر کرے تو ترک جائز ہے
          • جبیرہ کا مسح عذر میں جائز ہے بلا عذر جائز نہیں
          • حدث وجنابت یعنی غسل میں بھی جبیرہ پر مسح جائز ہے
          • اگر جبیرہ زخم اچھا ہو جانے پر گر جائے تو مسح باطل ہو جائے گا ورنہ نہیں
          • جبیرہ کے مسح میں نیت بالاتفاق شرط نہیں، موزہ کی نیت کے بارے میں اختلاف ہے
          • زخم اچھا ہونے پر جبیرہ گر پڑے تو صرف اسی جگہ کا دھونا لازم ہے
          • اگر جبیرہ میں مسح کرنے کے بعد کسی طرح پانی داخل ہو جائے تو مسح۔باطل نہ ہو گا موزہ کا مسح باطل ہو جائے گا
          • ٹوٹے ہوئے عضو پر جبیرہ باندھ کر مسح کرنا جائز ہے اگرچہ وہ عضو تیں انگل سے کم باقی رہا ہو، مسح موزہ میں تین انگل کی مقدار کا باقی رہنا شرط ہے،
          • بعض روایات میں جبیرہ و عصابہ کے مسح کا ترک جائز ہے
          • جبیرہ و عصابہ کا پاؤں میں ہونا شرط نہیں
          • جبیرہ و عصابہ میں اکثر حصہ کا مسح شرط ہے موزہ میں تین انگل کی۔مقدار شرط ہے
          • جب عضو مائوف کو مسح نہ کر سکے تب جبیرہ کا مسح صحیح ہے
          • مسح جبیرہ و عصابہ فرض عملی ہے اور موزہ کا مسح رخصت و جائز ہے
          • مسح جبیرہ کی مدت معین نہیں کیونکہ وہ دھونے کی مثل ہے اور جب تک وہ زخم وغیرہ اچھا نہ ہو مسح کرے گا اور تندرستوں کی امامت کرے گا بخلاف۔صاحب عذر کے اور مسح موزہ کی مدت معین ہے
      • معذور کے احکام

          تعریف معذور وہ شخص ہے جس کو ایسا عذر لاحق ہو جس کا روکنا اس کے قابو سے باہر ہو اور اس کا وہ عذر ایک نماز کے پورے وقت تک برقرار رہے اتنا وقت نہ ملے کہ اس وقت کی نماز فرض و واجب طہارت کے ساتھ پڑھ سکے مثلاً نکثیر یا استحاضہ کا خون جاری ہو یا ریح یا پیشاب یا دست ( اسہال) یا پیپ خارج ہوتی رہے یا بدن کے کسی مقام مثلاً آنکھ کان ناف یا پستان وغیرہ سے درد کے ساتھ پانی نکلتا رہے اور اگر اتنا وقت مل جائے جس میں طہارت۔کے ساتھ فرض و واجب نماز پڑھ سکے تو اس کو معذور نہ کہیں گے شرائط اول مرتبہ ثبوتِ عذر کے لئے یہ شرط ہے کہ ایک نماز کے پورے وقت تک عذر قائم رہے یعنی اس کو اتنا وقت نہ ملے کہ جس میں ایسا وضو کر سکے کہ فقط وضو کے فرائض ادا ہوں۔ فرض و واجب نماز جو بہت لمبی نہ ہو ادا کر سکتا ہو، عذر کے منقطع ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ ایک نماز کے پورے وقت تک عذر منقطع رہے، مثلاً ظہر کا کچھ وقت گزر گیا تب زخم و غیرہ کا خون بہنا شروع ہوا تو اخیر وقت تک انتظار کرے اگر بند ہو جائے تو خیر ورنہ اسی حالت میں وضو کر کے نماز پڑھ لے پھر اگر عصر کو وقت کے اندر ہی اندر بند ہو گیا تو وہ معذور نہیں اور جو نمازیں اتنے وقت میں پڑھی ہیں یعنی ظہر و عصر دونوں وقت کی نمازیں درست نہیں ہوئیں۔ ان کو پھر سے پڑھے مگر اس کے لئے نفل و سنت کی قضا واجب نہیں، عصر کے وقت غیر مکروہ وقت تک انتظار کرے اگر بند نہ ہو جائے تو وضو کرے اور نماز پڑھ لے پھر اگر مکروہ وقت میں خون بند ہو جائے تو وہ معذور نہ ہو گا اور اس کو وہ نماز لوٹانی پڑے گی اور اگر عصر کے پورے وقت میں اسی طرح خون بہتا رہا کہ اس کو طہارت کے ساتھ نماز پڑھنے کی مہلت نہ ملی تو اب عصر کا وقت گزرنے پر معذور ہونے کا حکم لگائیں گے اور اس کی پڑھی ہوئی نماز درست ہو جائے گی۔ عذر کے باقی رہنے کی شرط یہ ہے کہ نماز کا وقت اس پر ایسا نہ گزرے کہ اس میں عذر نہ ہو اگرچہ ایک ہی دفعہ کے لئے ہو پس جب ایک دفعہ معذور ہو گیا تو اس کے بعد کے وقتوں میں اس عذر یعنی خون کے بہنے وغیرہ کا ہر وقت پایا جانا شرط نہیں بلکہ اگر ہر نماز کے پورے وقت میں ایک دفعہ بھی خون آ جایا کرے اور باقی تمام وقت بند رہے تب بھی معذور رہے گا لیکن اگر اس کے بعد ایک پورا وقت ایسا گزر جائے جس میں خون بلکل نہ آئے تو اب معذور نہیں رہے گا

        • ہر نماز کے لئے نیا وضو کرے جب تک وہ وقت رہے گا اس وقت تک اس کا وضو باقی رہے گا بشرطیہ کے وضو کو توڑنے والی اور کوئی چیز واقع نہ ہو اور اس وضو سے اس وقت میں جو فرض و واجب یا سنت و نفل اور قضا نمازیں چاہے پڑھے جب یہ وقت چلا گیا اور دوسری نماز کا وقت آگیا تو اب نئے سرے سے وضو کرنا چاہیے اگر وضو پر قادر نہ ہو تو تیمم کرے۔
        • معذور کے وضو کو اس وقت کا گزر جانا یا کسی دوسرے حدث (وضو توڑنے والے چیز) یا عذر کا لاحق ہونا توڑ دیتا ہےمثلاً نکثیر جاری رہنے کی وجہ سے وضو کیا پھر پاخانہ یا پیشاب کیا تو وضو ٹوٹ جائے گا، معذور کی طہارت دو شرطوں سے وقت کے اندر باقی رہتی ہے اول یہ کہ اس نے اپنے عذر کی وجہ سے وضو کیا ہو دوسرے یہ کہ اس پر کوئی اور حدث یا عذر۔طاری نہ ہوا ہو
        • اگر کسی شخص نے فجر کے وقت وضو کیا تو آفتاب نکلنے کے بعد اس وضو سے نماز نہیں پڑھ سکتا دوسرا وضو کرنا چاہئے اور جب آفتاب نکلنے کے بعد وضو کیا تو اس وضو سے ظہر کی نماز پڑھنا درست ہے ظہر کے وقت نیا وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب عصر کا وقت آئے گا تب نیا وضو کرنا پڑے گا لیکن اگر کسی اور وجہ سے وضو ٹوٹ جائے تو اس کی وجہ سے نیا۔وضو کرنا پڑے گا
        • کسی کو ایسا زخم تھا جو ہر وقت بہتا رہتا تھا اس نے وضو کیا پھر کسی اور جگہ دوسرا زخم ہو گیا اور بہنے لگا تو وضو ٹوٹ جائے گا اور نیا وضو۔کرنا پڑے گا
        • اگر معذور اس بات پر قادر ہے کہ باندھنے سے یا روئی وغیرہ کی راکھ بھرنے سے خون وغیرہ عذر کو روک سکتا ہے یا کم کر سکتا ہے یا بیٹھنے میں خون جاری نہیں ہوتا اور کھڑے ہونے میں جاری ہوتا ہے تو اس کا بند کرنا واجب ہے اور اب وہ صاحب عذر نہیں رہے گا۔ استحاضہ والی عورت کا بھی یہی حکم صحیح ہے۔ یہ حکم حیض والی عورت کے لئے نہیں ہے یعنی حیض و نفاس جاری ہو جانا اور فرج خارج میں آ جانے کے بعد اس کو روکنے۔ سے بھی عورت حائضہ ہی رہے گی
        • جس کی نکثیر جاری ہو یا زخم سے خون بہے تو آخر وقت تک انتظار۔کرے پس اگر خون بند نہ ہو تو وضو کر کے نماز پڑھ لے
        • استحاضہ والی عورت اگر غسل کرے تو ظہر کی نماز آخر وقت میں اور عصر کی نماز وضو کر کے اول وقت میں پڑھے اور اسی طرح مغرب کی نماز غسل کر کے آخر وقت میں اور عشا کی نماز وضو کر کے اول وقت میں پڑھے اور فجر کی نماز بھی غسل کر کے پڑھے تو بہتر ہے اور یہ ادب حدیث شریف میں ارشاد ہوا ہے اور عجیب نہیں کہ اس کی رعایت کی۔برکت سے اس کے مرض کو فائدہ پہنچے
        • معذور کی اقتدا معذور کے لئے جائز ہونے میں دونوں کا اتحاد عذر شرط ہے پس جس شخص کی ریح جاری رہتی ہو اس کی نماز ایسے شخص کے پیچھے جائز ہے جس کو ریح جاری رہتی ہو اور وہ ایسے شخص کے پیچھے نماز نہ پڑھے جس کو سلس البول (پیشاب جاری رہتا ہو) ہو اس کی مزید۔تفصیل امامت کے بیان میں ہے
        • اگر معذور کا خون یا پیشاب وغیرہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو اگر ایسا ہو کہ نماز ختم کرنے سے پہلے پھر لگ جائے تو اس کا دھونا واجب نہیں اگر ایسا نہیں ہے تو دھونا واجب ہے پس اگر ایک روپیہ بھر سے زیادہ۔نجس ہو گا تو نماز نہ ہو گی
      • استنجا کا بیان

          پاخانہ یا پیشاب کرنے کے بعد جو ناپاکی بدن پر لگی رہے اسکے پاک کرنے کو۔ استنجا کہتے ہیں پیشاب کرنے کے بعد مٹی کے پاک ڈھیلے سے پیشاب کے مخرج کے سکھانا چاہئے اس کے بعد پانی سے دھو ڈالنا چاہئے۔ پاخانہ کے بعد مٹی کے تین ڈھیلوں سے پاخانہ کے مقام کو صاف کرے پھر پانی سے دھو ڈالے۔ استنجا ان چیزوں سے جائز ہے جو پتھر کی طرح صاف کرنے والی ہیں، جیسے پاک مٹی کا ڈھیلا، ریت، لکڑی، پھٹا ہوا بےقیمت کپڑا و چمڑا اور اس کے سوا ایسی چیزیں جو پاک ہوں اور نجاست کو دور کر دیں بشرطیکہ قیمت والی اور احترام۔والی نہ ہوں۔ پاک مٹی کو ڈھیلوں سے استنجا کرنا سنت ہے ڈھیلے سے استنجا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بائیں طرف زور دیکر بیٹھے، قبلہ کی طرف منھ نہ ہو، اور ہوا، سورج اور چاند کی طرف سے بھی بچ جائے، تین یا پانچ یا سات مٹی کے ڈھیلے اپنے ساتھ لے جائے صاف کرتے وقت پہلے ڈھیلے کو آگے سے پیچھے کی طرف لے جائے اور دوسرے کو پیچھے سے آگے کی طرف لائے پھر تیسرے کو پیچھے کی طرف لے جائے۔ یہ طریقہ گرمی کے موسم کا ہے لیکن جاڑوں میں اس کے برخلاف، پہلے ڈھیلے کو پیچھے سے آگے کی طرف لائے اور دوسرے کو پیچھے لے جائے اور تیسرے کو آگے لائے اور عورت ہمیشہ وہی طریقہ کرے جو مرد جاڑوں میں کرتا ہے۔ اور طریقہ مقصود نہیں بلکہ صفائی کا مددگار ہے اصل مقصود صفائی اور پاکی ہے خواہ جس طریقہ سے بھی حاصل ہو جائے۔ اگر ایک یا دو ڈھیلے سے صفائی حاصل ہو جاتی ہے تو تین کی گنتی پوری کر لے اور اگر تین سے بھی صفائی حاصل نہ ہو اور چار سے حاصل ہو تو پانچواں ڈھیلا اور لے تاکہ طاق ہو جائیں کیونکہ طاق عدد کا استعمال مستحب ہے۔ مستحب یہ ہے کہ پاک ڈھیلے یا پتھر دائیں طرف رکھے اور استعمال کئے ہوئے بائیں طرف رکھے اور ان کی نجس جانب نیچے کو کر دے، ڈھیلے وغیرہ سے استنحا کرنے کے بعد پانی سے استنجا کرنا سنت ہے۔ افضل یہ ہے کہ پردہ دار جگہ ہو تو دونوں کو جمع کرے پیشاب کرنے کے بعد ڈھیلے سے استنحا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ذکر کو بائیں ہاتھ میں پکڑ کر ڈھیلے یا پتھر پر جو زمین سے اٹھا ہوا ہو یا بائیں ہاتھ میں لیا ہوا ہو حرکت دے یہاں تک کہ رطوبت خشک ہو جائےاور یہ یقین ہو جائے کہ اب پیشاب نہ آئے گا۔ بعض کے نزدیک استبرائ یعنی پیشاب کے بعد چند قدم چلنا یا زمین پر پاؤں مارنا یا کھنکارنا یا دائیں ٹانگ پر بائیں ٹانگ لپیٹنا اور پھر اس کے برعکس کرنا واجب ہے۔ تاکہ رکا ہوا قطر نکل جائے، لوگوں کی طبعیتیں مختلف ہوتی ہیں اور ہر شخص کے لئے اپنا اطمینان ضروری ہے اور یہ استبرائ کا حکم مردوں کے لئے ہے عورت پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی دیر ٹھر کر پہلے ڈھیلے سے مقام پیشاب کو خشک کر لے پھر پانی سے طہارت کر لے یا صرف پانی سے طہارت۔کر لے پانی سے استنجا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہاتھ کے کلائی تک دھو لے پھر اگر روزہ دار نہ ہو پاخانہ کے مقام کو خوب ڈھیلا چھوڑ کر بیٹھے اور بائیں ہاتھ سے خوب استنجا کرے اور اسقدر دھوئے کہ اس کو پاکی کا یقین یا ظن غالب ہو اور چکنائی جاتی رہے اور دہونے میں خوب زیادتی کرے اور اگر روزہ دار ہو تو زیادتی نہ کرے اور نہ زیادہ پھیل کر بیٹھے، دھونے کا کچھ شمار مقرر نہیں اگر وسوسہ والا شخص ہو تو اپنے لئے تین مرتبہ دھونا مقرر کر لے۔ عورت کشادہ ہو کر بیٹھے اور ہتھیلی سے اوپر اوپر دھو لے عورت مرد سے زیادہ کشادہ ہو کر بیٹھے، پیشاب کے مقام کو پہلے دھوئے یہی۔مختار ہے استنجا کے پاک ہونے کے ساتھ ہی ہاتھ بھی پاک ہو جاتا ہے۔ استنجا کے بعد ہاتھ کلائیوں تک دہو لے جیسا کہ اول میں دھوتا ہے تاکہ خوب ستھرا ہو جائے۔ جاڑے میں گرمیوں کی نسبت مبالغہ کرے اور اگر گرم پانی ہو تو جاڑے۔کا حکم بھی گرمیوں کی طرح ہے

        • مکروہاتِ استنجا
          • استنجا کرتے وقت قبلہ کی طرف کو منہ یا پیٹھ کرنا خلافِ ادب و مکروہِ۔تنزیہی ہے
          • ہڈی، خشک گوبر، لید، کھانے کی چیز، شیشہ، چونا، لوہا، چاندی، سونا وغیرہ پکی ٹھیکری، پکی اینٹ، پتے، بال، روئی، کوئلہ، نمک، ریشمی کپڑا۔ اور ہر قیمتی اور محترم چیز سے استنجا کرنا مکروہ ہے
          • بلا عذر دائیں ہاتھ سے استنجا کرنا، لیکن اگر بائیں ہاتھ میں کوئی عذر ہو۔تو کراہت نہیں۔
          • نجس چیزوں سے استنجا کرنا
          • ایسی چیزوں سے استنجا کرنا جو نجاست صاف نہ کرے جیسے سرکہ۔وغیرہ
          • ایسی چیزوں سے استنجا کرنا جس سے انسان اور اس کے جانور نفع حاصل۔کر سکیں
          • جس پتھر یا ڈھیلے وغیرہ سے خود یا کوئی اور شخص استنجا کر چکا ہو، لیکن اگر پتھر کے کئی کونے ہوں اور ہر مرتبہ نئے کونے سے استنجا کرے تو۔کراہت نہیں۔
          • کاغذ سے استنجا کرنا اگرچہ کورا ہو
          • بلا اجازت کسی غیر آدمی کے پانی یا کپڑے یا کسی اور چیز سے استنجا۔کرنا ہے
          • زمزم شریف سے استنجا پاک کرنا
          • ایسی جگہ استنجا کرنا کہ کسی غیر شخص کی نظر اس کے ستر پر پڑتی ہو
          • /li>
        • اقسام استنجا

            پانی سے استنجا پانچ قسم پر ہے، ان میں سے پہلی دو قسم کا استنجا فرض ہے

          • مخرج کا اس وقت دھونا فرض ہے جبکہ جنابت یا حیض و نفاس کی۔وجہ سے غسل کرے
          • جب نجاست مخرج سے زائد ہو خواہ تھوڑی ہو یا بہت اس میں زیادہ احتیاط ہے اور شیخین کے نزدیک جب مخرج کے علاوہ قدر رہم سے زیادہ۔ہو دھونا فرض ہے
          • سنت اور وہ اس وقت جب نجاست مخرج سے بڑھے
          • مستحب، وہ اس وقت ہے جبکہ صرف پیشاب کیا ہو اور پاخانہ نہ کیا ہو اور نجاست مخرج سے نہ بڑھے پس اس وقت پیشاب کی جگہ کو دھونا۔بعض کے نزدیک مستحب ہےاور بعض کے نزدیک سنت ہے
          • بدعت اور وہ ریح نکلنے سے استنجا کرنا ہے۔ فصد لینے اور سونے کے بعد بھی استنجا بدعت ہے۔
      • بیت الخلاکے مسائل
        • مستحبات و آداب بیت الخلا
          • جن کپڑوں سے نماز پڑھتا ہے ان کے سوا اور کپڑے پہن کر بیت الخلا میں جانا اگر ایسا نہ کر سکے تو اپنے کپڑوں کو نجاست اور مستعمل پانی سے۔بچانا
          • سر کو ڈھانپ کر بیت الخلا میں جانا
          • جنگل میں جائے تو لوگوں کی نظروں سے دور نکل جانا
          • انگوٹھی وغیرہ جس میں اللّٰہ کا نام یا قرآن کی آیت یا کسی رسولِ یا کسی بزرگ کا نام یا حدیث وغیرہ کے الفاظ کھدے ہوں تو اسے نکال دے اگر تعویذ۔وغیرہ کپڑے میں لپٹا ہوا ہو تو ساتھ ہونے میں کراہت نہیں
          • پاخانہ میں داخل ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھنا بسم اللہ الرحمن الرحیم ط اللھم انی اعوذبک من الخبث والخبائث۔ ترجمہ: اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے
          • داخل ہوتے وقت پہلے بایاں پاؤں داخل کرنا باہر آتے پہلے دایاں پاؤں نکالنا
          • کھڑے ہونے کی حالت میں ستر نہ کھولے بلکہ بیٹھنے کے قریب ہو کر۔کھولے ضرورت سے زیادہ بدن نہ کھولے
          • دونوں پاؤں کو فاصلہ سے رکھے یعنی کھل کر بیٹھے اور بائیں پاؤں پر۔زور زیادہ دے کر بائیں طرف جھکا رہے
          • بات نہ کرے نہ زبان و حلق وغیرہ سے اللّٰہ کا ذکر کرے، البتہ دل میں اللّٰہ کے ذکر کا خیال کر سکتا ہے اس وقت کا ذکر اپنی نجاستوں کا احساس اور اللّٰہ پاک کی پاکی کا خیال کرنا ہے چھینک اور سلام اور اذان کا جواب نہ۔دے خود کو چھینک آئے تو دل میں الحمد اللّٰہ پڑھ لے زبان سے نہ پڑھے
          • کسی دینی مسئلہ پر غور نہ کرے
          • بلا ضرورت اپنے ستر کو نہ دیکھے۔ نہ اپنے بدن سے کھیل کرے۔ نہ۔آسمان کی طرف نظر اٹھائے بلاوجہ زیادہ دیر تک نہ بیٹھا رہے
          • جب فارغ ہو جائے تو مقام نجاست کو صاف کر کے کھڑا ہو جائے۔ اور سیدھا ہونے سے پہلے بدن کو چھپا لے
          • بیت الخلا سے باہر آ کر یہ دیا پڑھے الحمد اللہ العظیم الذی اخرج ما یو ذینی ما ینفعنی (و بقی فی ما ینفعنی) غفرانک ربنا و الیک المصیر ط
          • پانی سے استنجا کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک دھونا تاکہ۔خوب صاف ستھرا ہو جائے
        • مکروہات بیت الخلا
          • قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے پائخانہ یا پیشاب کرنا مکروہِ تحریمی ہے اگر بھول کر ایسا ہو گیا تو مستحب یہ ہے کہ قبلہ کی طرف سے جس قدر ہو سکے بچ جائے اور رخ پھیر لے، گھر کے پاخانوں اور جنگل سب جگہ یہی حکم ہے، عورت کے لئے چھوٹے بچے کو قبلہ کی طرف بٹھا کرفراغت کرانا مکروہ۔ اورمنع ہے اور اس کا گناہ عورت پر ہے۔
          • پیشاب پائخانے کے وقت سورج اور چاند کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا،۔بظاہر کراہتِ تنزیہی ہے۔
          • بلا عذر کھڑے ہو کر یا لیٹ کر یا بالکل ننگا ہو کر پیشاب کرنا۔
          • جاری پانی یا بند پانی یا نہر یا کنوئیں یا حوض یا چشمہ کے کنارے یا پھل دار درخت کے نیچے یا کھیتی میں یا ایسے سایہ میں جہاں بیٹھنے کا آرام۔ملے پیشاب یا پائخانہ کرنا۔
          • مسجد یا عیدگاہ کی دیوار کے پاس یا قبرستان میں یا چوپائے جانور یا لوگوں کے بیٹھنے یا راستہ چلنے کی جگہ میں پیشاب یا پائخانہ کرنا۔ بند قلیل پانی میں پیشاب یا پائخانہ کرنا حرام ہے، بند کثیر میں مکروہِ تحریمی اور جاری میں مکروہِ تنزیہی ہے البتہ جو لوگ دریا یا سمندر کا سفر کرتے ہیں ان کو بوجہ۔مجبوری جائز ہے۔
          • مسجد میں یا مسجد کی چھت میں بول و براز کرنا حرام ہے۔
          • نیچی جگہ پر بیٹھ کر اونچی جگہ پر پیشاب کرنا۔
          • چوہے اور سانپ اور چیونٹی کے بل بلکہ ہر سوراخ میں پیشاب کرنا۔
          • قافلہ یا خیمہ یا کسی مجمع کے قریب پیشاب کرنا۔
          • سخت زمین پر پیشاب کرنا اگر ایسی جگہ ضرورت پڑے تو پتھر یا عصا۔وغیرہ سے کوٹ کر یا کھود کر نرم کر لے تاکہ چھینٹیں نہ اڑیں۔
          • پیشاب کر کے اس جگہ وضو یا غسل کرنا یا غسل یا وضو کی جگہ میں۔پیشاب پائخانہ کرنا یہ سب باتیں مکروہ ہیں۔
      • پانی کے احکام
        • پانی کی قسمیں
          • مطلق پانی

              اس کو عام محاورے میں بھی پانی کہتےا ور سمجھتے ہیں۔جیسے بارش،چشمے،کنوئیں، تالاب، ندی نالے،دریا و سمندر وغیرہ کا پانی خواہ میٹھا ہو یا کھاری۔
              پگھلی ہوئی برف یا اولے کا پانی
              ان سب سے وضو اور غسل کرنا درست ہے۔
              مطلق (عام پانی) کی دو قسمیں ہیں ١. جاری یعنی بہتا ہوا پانی۔ ٢. راکد یعنی ٹھرا ہوا پانی۔۔راکد پانی کی بھی دو قسمیں ہیں ١. راکد قلیل ٢. راکد کثیر جاری پانی نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہوتا اور کثیر بھی جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی کوئی صفت نہ ۔بدلے۔ ان دو پانیوں کے علاوہ تمام پانی نجاست گرنے سے ناپاک ہو جاتے ہیں

            • جاری پانی
              • جاری پانی کی ادنیٰ پہنچان یہ ہے کہ اس میں تنکا بہہ جائے یا یہ کہ لوگ اس کو جاری کہتے ہوں اور یہی اصح ہے
                جاری پانی میں اگر نجاست گر جائے اور مزہ یا بو نہ بدلے تو نجس نہیں ہوا اور اگر ان میں سے ایک صفت بھی بدل گئی تو نجس ہو گیا۔ اگر نہر وغیرہ کے جاری پانی میں کوئی نجاست گر جائے اور اس کی کوئی صفت نہ بدلے تو اس کے پاس سے پانی لینا جائز ہے۔ یہی حکم زمین دوز نہر کا ہے۔
                اگر بہت سے آدمی جاری نہر کے کنارے پر صفیں باندھ کر بیٹھیں اور وضو کریں تو جائز ہے اور وہ پانی مستعمل نہیں ہو گا۔ جس چھوٹے حوض میں ایک طرف سے پانی آتا ہو اور دوسری طرف سے نکل جاتا ہو وہ جاری ہے اور اس میں ہر طرف سے وضو جائز ہے۔
                اگر حوض چھوٹا ہو اور اس میں نجاست پڑ جائے اس کے بعد اس میں ایک طرف سے پاک پانی آئے اور دوسری طرف سے نکل جائے تو حوض پاک ہو جائے گا دوسری طرف سے پانی نکلتے ہی اس کی پاکی کا حکم ہو گا اگرچہ تھوڑا سا پانی نکلا ہو۔حمام کا بھی یہی حکم ہے۔
            • راکد (بند) پانی
              • بند پانی جب قلیل ہو تو اس میں نجاست گرنے یا بہتے ہوئےخون والا جانور مر جانے سے وہ تمام پانی ناپاک ہو جاتا ہے اگرچہ رنگ یا مزہ یا بو نہ بدلے۔پس اس سے وضو یا غسل درست نہیں
                بند پانی جب کثیر ہو تو وہ جاری کے حکم میں ہے۔پس اس میں ایک طرف نجاست پڑنے سے وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی کوئی صفت رنگ یا مزہ یا بو نہ بدلے پس اگر وہ نجاست نظر نہ آنےوالی ہے جیسے پیشاب،خون وغیرہ تو چاروں طرف سے وضو کرنا درست ہے اور اگر نجاست نظر آنے والی ہو جیسے مردار تو جدھر نجاست پڑی ہو اس طرف وضو نہ کرے اس۔کے سوا جس طرف چاہے وضو کرے
                قلیل اور کثیر میں یہ فرق ہے کہ ایک طرف کا پانی ہل کر دوسری طرف نہ جائے تو کثیر ہے ورنہ قلیل۔فقہائے کرام نے عام لوگوں کی آسانی کے لئے دس گز ضرب دس گز کثیر پانی کی حد قرار کر دی ہے۔
                شرعی گز ایک ہاتھ اور ایک وسطی انگلی کے مجموعے کے برابر ہوتا ہے یعنی چوبیس انگل کا اور آج کل کے رواجی انگریزی گز سے تقریباً نو گرہ بڑاہوتا ہے پس اس رواجی گز سے ساڑھے پانچ گز لمبا اورساڑھے پانچ گز چوڑا ہو تو پانی کثیر ہے ورنہ قلیل اور اس کی گہرائی کم از کم اتنی ہو کہ اگر چلو سے پانی لیا جائے تو پانی اٹھنے سے زمین نظر نہ آئے اگر وہ جگہ لمبائی میں زیادہ اور چوڑائی میں کم ہو تو اس کا رقبہ١۰۰ مربع گز شرعی کے برابر ہو اگر گول ہو تو اس کا گھیرا اڑتالیس گز ہو اور اگر مثلث یعنی تکونا ہو تو ہر ضلع ساڑھے پندرہ گز ہونا معتبر ہے
                جس حوض میں بالکل کائی جمی ہوئی ہو اگر وہ کائی ہلانے سے ہل جائے ۔ اور پانی نظر آجائے تو وضو جائز ہے ورنہ نہیں ناپاک حوض اگر بالکل خشک ہو گیا تو وہ پاک ہو گیا اب اگر اس میں دوبارہ پانی آ جائے تو وہ پاک ہے اور اب اس کی نجاست نہیں لوٹے گی
                اگر بڑے حوض کی کوئی صفت متغیر ہو جائے مثلاً پانی میں بدبو ہو جائے تو اگر اس میں نجاست کا واقع ہونا معلوم نہ ہو تو وہ پاک ہے اور۔ اس سے وضو و غسل جائز ہے
          • مقید

              اس کو عام محاورے میں پانی نہیں کہتے اگرچہ پانی کی طرح بہنے والا ہو جیسے گلاب،کیوڑا،عرق گاوٴزبان،عرق سونف وغیرہ یا کسی دوا کا کشید کیا ہوا عرق۔ گنے کا رس، سرکہ،شربت وغیرہ یا اس کے ساتھ کوئی خصوصیت لگاتے ہوں،جیسے پتوں پھل اور درخت کا نچوڑا ہوا پانی مثلا تربوز کا پانی ناریل کا پانی وغیرہ ان سب سے وضو اور غسل درست نہیں ہے۔

            • مقید پانی کی قسمیں
              • جو پانی درخت یا پھل یا سبزی وغیرہ کو نچوڑ کر نکالا جائے یا خود ٹپک۔کر نکلے جیسے خربوزہ۔کھیرا۔ککڑی۔تربوز اور گلاب وغیرہ کا پانی
              • ہر قسم کا شربت مثلاً شربتِ صندل۔ سونف۔کانسی وغیرہ
              • ہر قسم کی دوائی وغیرہ کا کھینچا ہوا عرق۔
              • سرکہ۔
              • نمک جو پگھل کر پانی بن جائے۔
              • صابن یا اشتان(سجی) کا پانی جبکہ اس کا پتلا پن جاتا رہے اور گھاڑا ہو۔جائے۔
              • زعفران اور کُسم کا پانی جبکہ سرخی غالب ہو اور گاڑھا ہو جائے
              • مازو یا پھٹکڑی پانی میں اس قدر ملی ہوئی ہو کہ اس سے لکھنے سے نقش ظاہر ہوں۔
              • مٹی وغیرہ ملا ہوا پانی جبکہ اس قدر گاڑھا ہو کہ کیچڑ بن جائے
              • جس پانی میں گیہوں یا چنے یا باقلا وغیرہ اُبالے جائیں اور اس میں ان کی بو آ جائے
              • شوربہ
              • سرکہ یا دودھ یا زعفران وغیرہ جس کا رنگ یا ذائقہ پانی کے مخالف ہے پانی میں ملایا جائے اور اب اس کا نام پانی نہ رہے۔ اگر وہ چیز رنگ دار ہو جیسے دودھ وغیرہ تو غلبہ کا اعتبار رنگ سے کیا جائے گا اور اگر رنگ میں مخالف نہیں اور ذائقہ میں مخالف ہے جیسے سرکہ وغیرہ تو ذائقہ کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر رنگ و ذائقہ دونوں میں مخالف نہیں جیسے گلاب وغیرہ تو مقدار کی زیادتی کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر مقدار میں دونوں برابر ہوں گے۔تو احتیاطاً پانی مغلوب سمجھا جائے گا اور وضو جائز نہیں ہو گا
        • مستعمل پانی کے احکام
          • مستعمل پانی خود پاک ہے اگر کسی پاک چیز کو لگ جائے تو اس کے ناپاک نہیں کرتا اسی پر فتویٰ ہے
          • مستعمل پانی پاک کرنے والا نہیں اوراس سے وضو یاغسل وغیرہ جائز نہیں
          • جس پانی سے وضو یا غسل کیا جائے یا وہ پانی کسی عبادت کی نیت سے استعمال کیا جائے تو صحیح یہ ہے کہ جس وقت وہ عضو سے جدا ہو گا۔مستعمل ہو جائے گا
          • اگر اعضائے وضو کے سوا کسی اور وضو مثلاً ران یا پیٹ یا پنڈلی کو دھوئے تو اصح یہ ہے کہ پانی مستعمل نہ ہو گا اور اگر اعضائے وضو کو دھوئے گا تو مستعمل ہو جائے گا
          • اگر کسی شخص نے مٹی یا آٹا یا میل چھڑانے کے لئے وضو کیا یا پاک۔شخص نے ٹھنڈا ہونے کے لئے غسل کیا تو پانی مستعمل نہ ہو گا
          • اگر وضو والا آدمی کھانا کھانے کےواسطہ یا کھانا کھا کر ہاتھ دہوئے تو وہ دھوون کا پانی مستعمل ہو جائے گا کیونکہ قربت کی نیت سےاستعمال ہوا ہے
          • اگر جنبی نے غسل کیا اور اس کے غسل کا کچھ مستعمل پانی اس کے برتن میں ٹپک گیا تو برتن کا پانی خراب نہیں ہو گا جب تک مستعمل پانی غالب نہ آ جائے یعنی غیر مستعمل پانی کے برابر یا اس سے زیادہ نہ ہو جائے۔ اسی طرح اگر وضو کا کچھ مستعمل پانی وضو کے برتن میں ٹپکا تو جب تک مستعمل پانی غالب نہ آ جائے پاک ہے اور جب مستعمل پانی کی مقدار غیر مستعمل پانی کے۔برابر یا زیادہ ہو جائے تو اس سے وضو و غسل ناجائز ہے
          • اگر رومال سے اپنی اعضائے وضو یا غسل پونچھے اور رومال خوب بھیگ گیا یا اس کے اعضا سے قطرے ٹپک کر کسی کپڑے پر بہت زیادہ لگ گئے تو۔بالاتفاق اس کے ساتھ نماز جائز ہے
          • مستعمل پانی اگرچہ ظاہر مذہب میں پاک ہے لیکن اس کو پینا اور اس سے آٹا گوندھنا کراہتِ تنزیہی اور طبعی نفرت کی وجہ سے مکروہ ہے اور جن کے نزدیک مستعمل پانی نجس ہے ان کے نزدیک پینا و آٹا گوندھنا وغیرہ مکروہِ تحریمی ہے
          • مستعمل پانی نجاست حکمی کو پاک کرنے والا نہیں لیکن نجاست حقیقی کو پاک کرنے والا ہے یہی راجح ہے مستعمل پانی میں اگر اچھا پانی اس سے زیادہ ملا لیا جائے یا اسے جاری کر لیا جائے تو نجاستِ حکمی کے پاک کرنے میں (یعنی وضو و غسل) میں کام آسکتا ہے
        • آدمی اور جانوروں کے جھوٹے پانی کا بیان
          • آدمی کا جھوٹا پاک ہے خواہ وہ جنبی ہو یا حیض و نفاس والی عورت ہو خواہ وہ کافر ہو لیکن اگر کسی کا منہ ناپاک ہے تو اس کا جھوٹا نجس ہو جائے گا۔مثلاً شراب پینے وال ا اگر اس وقت پانی پئے تو اس کا جھوٹا نجس ہو گا لیکن اگر کچھ دیر بعد پئے کہ اس عرصہ میں کئی بار تھوک نگل چکا ہو اور جہاں شراب لگی ہو وہ جگہ تھوک سے صاف ہو چکی ہو تو صحیح یہ ہے کہ اب اس کا منہ پاک ہو جائے گا۔ شرابی کے جھوٹے سے ہر حالت میں بچنا ہی چاہئے
          • عورت کا جھوٹا اجنبیی مرد کے لئے اور اجنبی مرد کا جھوٹا عورت کے لئے مکروہ ہے یہ ناپاکی کی وجہ سے نہیں بلکہ لذت پانے کی وجہ سے ہے۔ اس لئے اگر معلوم نہ ہو یا لذت حاصل کرنے کے لئے نہ ہو تو کوئی حرج نہیں
          • حلال چرندوں و پرندوں کا جھوٹا پاک ہے اگرچہ نر ہوں جیسے گائے۔ بکری۔بیل۔ کبوتر۔ فاختہ وغیرہ لیکن ان میں سے جو جانور نجاست بھی کھاتا ہو مثلاً آزاد مرغی اور اونٹ و بیل وغیرہ تو ان کا جھوٹا مکروہ ہے ان کے دودھ اور گوشت کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر مرغی وغیرہ نے نجاست کھائی اور اسی وقت پانی پیا تو پانی نجس ہو جائے گا۔
          • گھوڑے کا جھوٹا بالاجماع پاک ہے۔
          • جن جانوروں میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا خواہ پانی میں رہتے ہوں یا خشکی۔میں ان کا جھوٹا مکروہِ تنزیہی ہے
          • کیڑے جو گھروں میں رہتے ہیں جیسے سانپ۔ نیولا۔چھپکلی وغیرہ دیگر جانور اور چوہا اور بلی ان کا جھوٹا مکروہِ تنزیہی ہے۔ بلی کا جھوٹا کھانا یا پینا مالدار کے لئے مکروہ ہے کیونکہ وہ اس کے بجائے دوسرا کھانا لے سکتا ہے۔ لیکن فقیر کے لئے جو اس کے بجائے دوسرا کھانا نہیں لے سکتا ضرورت کی وجہ سے مکروہ نہیں ہے۔ اگر بلی نے کوئی جانور چاہا وغیرہ کھا کر فوراً پیا تو اس کا جھوٹا ناپاک ہے اور کچھ دیر ٹھہر کر پیا کہ اس عرصہ میں وہ اپنا منہ کئی دفعہ چاٹ کر صاف کر چکی ہے تو اس کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے۔ بلکہ۔مکروہ ہے
          • شکاری پرندوں مثلاً شکرا۔باز۔چیل وغیرہ کا جھوٹا مکروہ ہے۔ اسی طرح ان پرندوں کا جھوٹا بھی مکروہ ہے جن کا گوشت کھایا نہیں جاتا۔کوے کا جھوٹا بھی مکروہ ہے۔ اچھے پانی کے ہوتے ہوئے مکروہ پانی سے وضو کرنا مکروہ۔ہے اور اگر اچھا پانی نہ ملے تو مکروہ نہیں
          • خنزیر کتا شیر چیتا بھیڑیا ہاتھی گیدڑ اور دوسرے درندوں چوپایوں کا جھوٹا نجس ہے۔کتے کے چاٹے برتن کا تین بار دھونا واجب ہے اور سات۔بار دھونا اور پہلی اور آخری مرتبہ مٹی سے بھی ملنا مستحب ہے
          • خچر اور گدھے کا جھوٹا مشکوک ہے یعنی وہ خود پاک ہے لیکن پاک کرنے والے ہونے میں شک ہے۔مشکوک پانی کے سوا اور پاک پانی نہ ملے تو اس سے وضو کرے اور تیمم بھی کرے ان دونوں کو جمع کرنا واجب ہے صرف ایک کو کافی سمجھنا جائز نہیں دونوں میں چاہے جس کے پہلے کرے لیکن وضو کو مقدم۔کرنا افضل ہے ایسے پانی سے وضو کرنے میں احتیاطاً نیت بھی کر لے۔
          • ہر جانور کے پینے اور لعاب میں اس کے جھوٹے کا اعتبار کیا جائے گا

          • جن صورتوں میں پانی نجس نہیں ہوتا
            چمگادڑ کے پیشاب اور بیٹ سے پانی و کپڑا نجس نہیں ہوتا
        • پانی۔ متفرقات
          • وہ کوزہ جو گھر میں زمین پر اس لئے رکھ دیتے ہیں کہ ان سے مٹکوں میں سے پانی نکالیں گے تو ان سے پانی پینا اور وضو کرنا جائز ہے۔ جب تک یہ۔معلوم نہ ہو کہ ان پر نجاست لگی ہے
          • ایسے حوض سے وضو و غسل جائز ہے جس کے متعلق یہ گمان ہو کہ اس میں نجاست پڑی ہو گی مگر یقین نہ ہو اور اس پر یہ واجب نہیں کہ اس کا حال پوچھے اور جب تک اس میں نجاست ہونے کا یقین نہ ہو جائے اس سے۔وضو کرنا ترک نہ کرے
          • اگر جنگل میں تھوڑا پانی مل ا تو جب تک اس کی نجاست کا یقین نہ ہو اس میں سے پانی لے کر وضو کرنا جائز ہے۔ صرف اس وہم پر وضو نہ چوڑے کہ شاید یہ نجس ہو۔ اس کے ہوتے ہوئے تیمم جائز نہیں ہے۔ اور اگر اس کا ہاتھ نجس ہو اور اس کے ساتھ کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس میں سے پانی نکال سکے تو پاک رومال وغیرہ پانی میں ڈال کر تر کرے اور رومال سے پانی ہاتھ پر ہاتھ کو پاک کر لے۔ اگر بچے یا بڑے آدمی جاہل و کافر وغیرہ ڈول یا رسی پر ہاتھ لگاتے ہیں تو جب تک نجاست کا یقین نہ ہو ڈول اور رسی پاک ہے۔ اگر کوئی کافر یا کوئی بچہ اپنا ہاتھ پانی میں ڈال دے تو پانی نجس نہیں ہوتا لیکن اگر معلوم ہو جائے کہ اس کے ہاتھ میں نجاست لگی ہوئی تھی تو ناپاک ہو جائے گا لیکن چھوٹے بچہ کے ہاتھ کا اعتبار نہیں۔ اس لئے جب تک کوئی اور پانی نہ ملے اس کے ۔ہاتھ ڈالے ہوئے پانی سے وضو نہ کرنا بہتر ہے اگر کر لے تو جائز ہے
          • جب پانی نجاست کے پڑنے سے نجس ہو جائے اگر اس کے تینوں اوصاف یعنی رنگ و بو و مزہ بدل جائیں تو اس کو کسی طرح کام میں نہ لائے۔ جانوروں کو پلانا اور مٹی ڈال کر گارا بنانا بھی جائز نہیں اور وہ پیشاب کی طرح نجس ہو گا اور اگر تینوں اوصاف نہیں بدلے تو اس میں سے جانوروں کو پلانا اور مٹی بھگو کر گارا بنانا اور مکان میں چھڑکائو کرنا جائز ہے مگر وہ گارا مٹی مسجد۔کی دیواروں وغیرہ پر نہ لگائی جائے۔
          • جاری یا بند پانی میں پیشاب کرنا مکروہ ہے
          • اگر پانی دھوپ سے گرم ہو جائے تو اس سے وضو کرنا جائز ہے۔ لیکن۔بہتر نہیں مکروہ ہے اور اس سے برص (سفید داغ) ہو جانے کا ڈر ہے
          • کسی کنوئیں وغیرہ میں درخت وغیرہ کے پتے گر پڑے اور پانی میں بدبو آنے لگی اور رنگ و مزہ بھی بدل گیا تو بھی اس سے وضو درست ہے جب تک کہ پانی اسی طرح پتلا رہے(جس کنوئیں کے پانی میں نہ نکلنے کی وجہ سے بدبو ہوجائے اس سے بھی وضو درست ہے)
          • اگر جاری پانی آہستہ آہستہ بہتا ہو تو بہت جلدی جلدی وضو نہ کرے تاکہ جو مستعمل پانی اس میں گرتا ہے وہی ہاتھ میں نہ آ جائے۔دہ دردہ (دس گز) حوض میں جہاں مستعمل پانی گرا ہو اگر وہیں سے پھر پانی اٹھا لے تو بھی جائز ہے
          • جس جانور میں بہتا ہوا خون نہیں ہے جیسے مکھی۔مچھر۔بھڑ۔چیونٹی۔و بچھو وغیرہ پانی میں مر جائے تو پانی نجس نہیں ہو گا
          • جو جانور پانی میں پیدا ہوتے ہیں اور رہتے ہیں ان کے پانی میں مرنے سے بھی پانی ناپاک نہیں ہوتا جیسے مچھلی۔مینڈک اور کیکڑا۔ اس میں فرق نہیں کہ وہ پانی میں مرے یا باہر مرے پھر پانی میں ڈالدیں۔ اگر پھول یا پھٹ جائے تب بھی۔ یہی حکم ہے مگر وہ پانی پینا مکروہ ہے
          • جو جانور پیدائشی پانی کے نہ ہوں مگر وہ پانی میں رہتے ہوں جیسے۔بطخ۔مرغابی وغیرہ ان کے پانی میں مرنے سے پانی ناپاک ہو جاتا ہے
          • خنزیر کے سوا ہر جاندار کے بال ہڈی۔پٹھا۔کھر(سم) چرا ہوا یا بے چرا پاک ہیں۔ جبکہ ان پر چکنائی نہ لگی ہو ورنہ چکنائی کی وجہ سے ناپاک ہوں گے۔آدمی کے بال ہڈی کا بھی یہی حکم ہے جبکہ بال منڈھے ہوئے یا کٹے ہوئے ہوں اگر اکھڑے ہوئی ہوں تو نجس ہوں گے
          • اصح یہ ہے کہ مشکِ نافہ ہر حالت میں پاک ہے اور ذبح کئے ہوئے۔جانور کا مشک نافہ بالاتفاق پاک و حلال ہے
          • خنزیر کے تمام اجزا نجس ہیں
      • کنویں کے مسائل
        • مسئلہ۔ جب کنوئيں ميں کچھ نجاست گر پڑے توکنواں ناپاک ہو جاتا ہے اور پانى کھينچ ڈالنے سے پاک ہو جاتا ہے چاہے تھوڑى نجاست گرے يا بہت۔ سارا پانى نکالنا چاہيے۔ جب سارا پانى نکل جائے گا تو پاک ہو جائے گا۔ کنوئيں کے اندر کنکر ديوار وغيرہ کے دھونے کى ضرورت نہيں۔ وہ سب آپ ہى آپ پاک ہو جائيں گے۔ اسى طرح رسى ڈول جس سے پانى نکالا ہے کنويں کے پاک ہونے سے آپ ہى آپ پاک ہو جائے گا۔ ان دونوں کے بھى دھونے کى ضورت نہيں۔
          فائدہ کنويں ميں کبوتر يا گوريا يعنى چڑيا کى بيٹ گر پڑى تو نجس نہيں ہوا۔ اور مرغى اور بطخ کى بيٹ سے نجس ہو جاتا ہے۔ اور سارا پانى نکالنا واجب ہے۔
        • مسئلہ۔ کنويں ميں کبوتر يا گوريا يعنى چڑيا کى بيٹ گر پڑى تو نجس نہيں ہوا۔ اور مرغى اور بطخ کى بيٹ سے نجس ہو جاتا ہے۔ اور سارا پانى نکالنا واجب ہے۔
        • مسئلہ۔ کتاب بلى گائے بکرى پيشاب کر دے يا کوئى اور نجاست گرے تو سب پانى نکالا جائے۔
        • مسئلہ۔ اگر آدمى يا کتا يا بکرى يا اسى کے برابر کوئى اور جانور گر کر مر جائے تو سارا پانى نکالا جائے اور اگر باہر مرے پھر کنويں ميں گرے تب بھى يہى حکم ہے کہ سب پانى نکالا جائے۔
        • مسئلہ۔ اگر کوئى جاندار چيز کنويں ميں مرجاوے اور پھول جائے يا پھٹ جائے تب بھى سب پانى نکالا جائے چاہے چھوٹا جانور ہو چاہے بڑا۔ تو اگر چوہا يا گوريا مر کر پھول جائے يا پھٹ جائے تو سب پانى نکالنا چاہيے۔
        • مسئلہ۔ اگر چوہا گوريا يا اسى کے برابر کوئي چيز گر کر مر گئى ليکن پھولى پھٹى نہيں تو بيس ڈول نکالنا واجب ہے۔ اور تيس ڈول نکال ڈاليں تو بہتر ہے۔ ليکن پہلے چوہا نکال ليں تب پانى نکالنا شروع کريں۔ اگر چوہا نہ نکالا تو اس پانى نکالنے کا کچھ اعتبار نہيں۔ چوہا نکالنے کے بعد پھر اتنا ہى پانى نکالنا پڑے گا۔
        • مسئلہ۔ بڑى چھپکلى جس ميں بہتا ہوا خون ہوتا ہو اس کا حکم بھى يہى ہے کہ اگر مر جائے اور پھولے پھٹے نہيں تو بيس ڈول نکالنا چاہيے اور تيس ڈول نکالنا بہتر ہے۔ اور جس ميں بہتا ہوا خون نہ ہوتا ہو اس کے مرنے سے پانى ناپاک نہيں ہوتا۔
        • مسئلہ۔ اگر کبوتر يا مرغى يا بلى يا اسى کے برابر کوئى چيز گر کر مر جائے اور پھولے نہيں تو چاليس ڈول نکالنا واجب ہے اور ساٹھ ڈول نکال دينا بہتر ہے۔
        • مسئلہ۔ جس کنويں پر جو ڈول پڑا رہتا ہے اسى کے حساب سے نکالنا چاہيے اور اگر اتنے بڑے ڈول سے نکالا جس ميں بہت پانى سماتا ہے تو اس کا حساب لگا لينا چاہيے۔ اگر اس ميں دو ڈول پانى سماتا ہے تو دو ڈول سمجھيں۔ اور اگر چار ڈول سماتا ہو تو چار ڈول سمجھنا چاہيے۔ خلاصہ يہ ہے کہ جس ڈول سے پانى آتا ہوگا اسى کے حساب سے کھينچا جائے گا۔
        • مسئلہ۔ اگر کنويں ميں اتنا بڑا سوت ہے کہ سب پانى نہيں نکل سکتا جيسے جيسے پانى نکالتے ہيں ويسے ويسے اس ميں سے اور نکلتا آتا ہے تو جتنا پانى اس ميں اس وقت موجود ہے اندازہ کر کے اس قدر نکال ڈاليں۔
          فائدہ پانى کے اندازہ کرنے کى کئى صورتيں ہيں ايک يہ کہ مثلا پانچ ہاتھ پانى ہے تو ايک دم لگاتار سو ڈول پانى نکال کر ديکھو کتنا پانى کم ہوا۔ اگر ايک ہاتھ کم ہوا ہو تو بس اسى سے حساب لگا لو کہ سو ڈول ميں ايک ہاتھ پانى ٹوٹا تو پانچ ہاتھ پانى پانچسو ڈول ميں نکل جائے گا۔ دوسرے يہ کہ جن لوگوں کو پانى کى پہنچان ہو اور اس کا اندازہ آتا ہو ايسے دو ديندار مسلمانوں سے اندازہ کرالو۔ جتنا وہ کہيں نکلوا دو۔ اور جہاں يہ دونوں باتيں مشکل معلوم ہوں تو تين سو ڈول نکلوا ديں۔
        • مسئلہ۔ کنويں ميں مرا ہوا چوہا يا اور کوئى جانور نکلا اور يہ معلوم نہيں کہ کب سے گرا ہے اور وہ ابھى پھولا پھٹا بھى نہيں ہے تو جن لوگوں نے اس کنويں سے وضو کيا ہے ايک دن رات کى نمازيں دہرائيں اور ا س پانى سے جو کپڑے دھوئے ہيں پھر ان کو دھونا چاہيے۔ اور اگر پھول گيا ہے يا پھٹ گيا ہے تو تين دن تين رات کى نمازيں دہرانا چاہيے۔ البتہ جن لوگوں نے اس پانى سے وضو نہيں کيا ہے وہ نہ دہرائيں۔ يہ بات تو احتياط کى ہے اور بعضے عالموں نے يہ کہا ہے کہ جس وقت کنويں کا ناپاک ہونا معلوم ہوا ہے اس وقت سے ناپاک سمجھيں گے۔ اس سے پہلے کى نماز وضو سب درست ہے اگر کوئى اس پر عمل کرے تب بھى درست ہے۔
        • مسئلہ۔ جس کو نہانے کى ضرورت ہے وہ دو ڈول ڈوھونڈنے کے واسطے کنويں ميں اترا اور اس کے بدن اور کپڑا پر آلودگى نجاست نہيں ہے تو کنواں ناپاک نہ ہوگا۔ ايسے ہى اگر کافر اترے اور اس کے کپڑے اور بدن پر نجاست نہ ہو تب بھى کنواں پاک ہے البتہ اگر نجاست لگى ہو تو ناپاک ہو جائے گا اور سب پانى نکالنا پڑے گا اور اگر شک ہو کہ معلوم نہيں کپڑا پاک ہے يا ناپاک ہے تب بھى کنواں پاک سمجھا جائے گا ليکن اگر دل کى تسلى کے ليے بيس يا تيس ڈول نکلوا ديں تب بھى کچھ حرج نہيں۔
        • مسئلہ۔ کنويں ميں بکرى ياچوہا گر گيا اور زندہ نکل آيا تو پانى پاک ہے کچھ نہ نکالا جائے۔
        • مسئلہ۔ چوہے کو بلى نے پکڑا اور اس کے دانت لگنے سے زخمى ہو گيا۔ پھر اس سے چھوٹ کر اسى طرح خون ميں بھرا ہوا کنويں ميں گر پڑا تو سارا پانى نکالا جائے۔
        • مسئلہ۔ چوہا تابدان سے نکل کر بھاگا اور اس کے بدن ميں نجاست بھر گئى پھر کنويں ميں گر پڑا تو سب پانى نکالا جائے چاہے چوہا کنويں ميں مر جائے يا زندہ نکلے۔
        • مسئلہ۔ چوہے کى دم کٹ کر گر پڑى تو سارا پانى نکالا جائے۔ اسى طرح وہ چھپکلى جس ميں بہتا ہوا خون ہوتا ہے اس کى دم گرنے سے بھى سب پانى نکالا جائے۔
        • مسئلہ۔ جس چيز کے گرنے سے کنواں ناپاک ہوا ہے۔ اگر وہ چيز باوجود کوشش کے نہ نکل سکے تو ديکھنا چاہيے کہ وہ چيز کيسى ہے۔ اگر وہ چزک ایسى ہے کہ خود تو پاک ہوتى ہے ليکن ناپاکى کى لگنے سے ناپاک ہوگئی ہے جيسے ناپاک کپڑا ناپاک گيند ناپاک جوتہ تب تو اس کا نکالنا معاف ہے ويسے ہى پانى نکال ڈاليں۔ اور اگر وہ چيز ايسى ہے کہ خود ناپاک ہے جيسے مردہ جانور و چوہا وغيرہ تو جب تک يہ يقين نہ ہو جائے کہ يہ گل سڑ کر مٹى ہو گيا ہے اس وقت تک کنواں پاک نہيں ہو سکتا۔ اور جب يہ يقين ہو جائے اس وقت سارا پانى نکال ديں کنواں پاک ہو جائے گا۔
        • مسئلہ۔ جتنا پانى کنويں ميں سے نکالنا ضرور ہو چاہے ايکدم سے نکاليں چاہے تھوڑا تھوڑا کر کے کئى دفعہ نکاليں ہر طرح پاک ہو جائے
        • جس پرندہ کا گوشت حرام ہے اس کی بیٹ کنوئیں میں گرے تو دفع حرج کے سبب پاک ہے
    • ستر عورت(جسم کا ڈھانکنا)
      • جسم کا ڈھانکنا
        • سترِعورت یعنی جسم کے جس حصہ کو چھپانا فرض ہے اس کا چھپانا جبکہ اس پر قادر ہو نماز صحیح ہونے کے لئے شرط ہے اگرچہ اس چیز سے ہو جس کا پہننا جائز نہیں مثلاً مرد کے لئے ریشم لیکن بلا عذر ایسا کرنے سے گناہگار ہو گا نماز کے علاوہ لوگوں کے سامنے اور تنہائی و تاریکی میں بھی ستر عورت فرض ہے لیکن غرض مثلاً پیشاب، پاخانہ و استنجا و ختنہ و جماعِِ حلال وغیرہ کے لئے اعضاء ستر کا ضرورت کے مطابق کھولنا جائز ہے
        • مرد کے ناف کے نیچے سے گھٹنوں تک ستر عورت ہے ناف ستر میں داخل نہیں، گھٹنے ستر میں داخل ہیں، آزاد عورت (جو لونڈی نہ ہو) کا چہرہ (منھ) اور دونوں ہتھیلیوں اور دونوں قدموں کے سوا تمام بدن ستر عورت ہے، عورت کے بال جو سر پر ہیں اور جو لٹکے ہوئے ہیں سب ستر عورت ہیں، عورت کی کلائی بھی ستر ہے، بعض کے نزدیک عورت کی آواز بھی ستر میں داخل ہے اس لئے احتیاط ضروری ہے اگرچہ عورت کو نماز میں منھ ڈاھپنا فرض نہیں لیکن غیر مردوں کے سامنے کھلے منھ آنا یا نماز پڑھنا بھی جائز نہیں ہے باندی (لونڈی) کا ستر وہی ہے جو مرد کا ہے نیز اس کا پیٹ اور پیٹھ بھی ستر ہے اور پہلو، پیٹ اور پیٹھ کے تابع ہے خنثیٰ مشکل اگر غلام ہے تو اس کا ستر باندی کی طرح ہے اور اگر آزاد ہے تو اس کا ستر آزاد عورت کی مانند ہے، چار برس تک کے بچے کا بدن عورت نہیں اس کا چھپانا ضروری نہیں ہے اور اس کا دیکھنا یا چھونا مباح ہے اس کے بعد دس برس تک پیشاب یا پاخانہ کا مقام اور ان کے گردو نواح کا حصہ عورتِ غلیظہ اور چھپانے کے قابل ہو جاتا ہے، دس برس کے بعد اس کے لئے ستر چھپانے کا حکم بالغ کی مانند ہے اور پندرہ برس کا لڑکا عورتوں میں جانے سے منع کیا جائے، جب علامات کے لحاظ سے پندرہ برس سے پہلے بالغ ہو جائے تو اُسی وقت سے منع کیا جائے
        • جو عضو بدن کے ساتھ ہوتے ہوئے سترِ عورت میں داخل ہیں وہ بدن سے جدا ہونے کے بعد بھی سترہے اور اس کا دیکھنا درست نہیں
        • بےریش لڑکے کے چہرے کی طرف دیکھنا جبکہ شہوت پیدا ہونے کا شک ہو حرام اور منع ہے بغیر شہوت کے نظر کرنا مباح ہے اگرچہ وہ خوبصورت ہو
      • اعضاء ستر کی تفصیل
        • مرد کےاعضاء ستر کی تفصیل

            مرد میں سترِ عورت کے اعضا آٹھ ہیں

          • ذکر مع اپنے اجزا حشفہ قصبہ قلفہ سمیت ایک عضو ہے
          • دونوں خصیے مع اپنے ارد گرد کے ایک عضو ہیں
          • ہر ایک سرین علیحدہ علیحدہ عضو ہیں
          • دبر مع اپنے اردگرد کے یہ سرین سے الگ ایک عضو ہے
          • ہر ایک ران، چڈھے کی جڑ سے گھٹنے تک الگ الگ ایک ایک عضو ہے گھٹنا اس میں شامل ہے
          • ناف کے نیچے سے عانہ کی اُٹھی ہوئی ہڈی تک (یعنی عضو تناسل کی جڑ تک) بمعہ اس حصہ کے جو اس کے محاذ میں پیٹ اور پیٹھ اور دونوں رانوں سے اس کے ساتھ ملا ہوا ہے یہ سب ایک عضو ہے
        • عورت کے اعضاء ستر کی تفصیل

            عورت کے اعضاء ستر کی تفصیل

          • آزاد عورت کے لئے پانچ عضوہیں،
            منھ (چہرہ)
            دونوں ہتھیلیوں
            دونوں قدموں کے علاوہ سارا بدن عورت (ستر) ہے اور وہ تیس اعضاء ہیں
            سر یعنی پیشانی کے اوپر سے شروع گردن تک اور کان سے دوسرے کان تک یعنی جتنی جگہ پر عادتاً بال اگتے ہیں
            سر کے بال جو کانوں سے نیچے لٹکے ہوئے ہوں الگ عضو ہیں
            دونوں کان دو علیحدہ علیحدہ عضو ہیں،
            گردن مع گلا،
            دونوں کندھے،
            دونوں بازو مع کہنیاں،
            دونوں کلائیاں کہنی کے بعد سے پہنچوں کے نیچے تک،
            سینہ، گلے کے جوڑ سے دونوں پستان کے نیچے کی حد تک،
            دونوں پستانیں جبکہ اچھی طرح اٹھ چکی ہو اگر بلکل نہ اٹھی ہوں یا معمولی سی ابھری ہوں کہ الگ عضو نہ بن سکیں تو سینہ کے ساتھ ہیں الگ عضو نہیں، دونوں چھاتیوں کے درمیان کی جگہ ہر حال میں سینہ میں داخل ہیں الگ عضو نہیں ہے،
            پیٹ، سینے کی حد ختم ہونے سے لیکر ناف کے نیچے کے کنارے تک پس ناف بھی پیٹ میں شمار ہوتی ہے،
            پیٹھ یعنی پیچھے کی جانب سینے کے مقابل سے کمر تک،
            دونوں کندھوں کے درمیان کی جگہ بغل کے نیچے سے سینے کے نیچ کی حد تک، دونوں کروٹوں میں جو جگہ ہے اس کا اگلا حصہ سینے میں اور پچھلا حصہ شانوں یا پیٹھ میں شامل ہے، اور اس کے بعد سے دونوں کروٹوں میں کمر تک جو جگہ ہے اس کا اگلا حصہ پیٹ میں اور پچھلا حصہ پیٹھ میں شامل ہے
            ناف کے نیچے پیڑو اور اس کے متصل جو جگہ ہے اور اس کے مقابل پشت کی جانب سب مل کر ایک عضو ہے،
            فرج مع اپنے ارد گرد کے،
            دبر مع اپنے اردگرد کے،
            دونوں سرین،
            دونوں رانیں، چڈھے سے گھٹنے تک، گھٹنے بھی شامل ہیں،
            دونوں پنڈلیاں ٹخنوں سمیت،
            دونوں ہتھلیوں کی پشت
            دونوں پاؤں کے تلوے (بعض کے نزدیک دونوں ہاتھوں کی پشت اور دونوں پاوَں کے تلوے ستر نہیں ہیں)
            عورت کا چہرہ اگرچہ ستر میں شامل نہیں لیکن فتنے کی وجہ سے غیر محرم کے سامنے کھولنا منع ہے، اسی طرح نماز میں بھی عورت کو منھ چھپانا فرض نہیں لیکن غیر مردوں کے سامنے سفر وغیرہ میں منھ ڈھانپ کر نماز پڑھے خصوصاً جوان عورت کو اس پر پابندی زیادہ ضروری ہے اور غیر محرم کو بھی اُس کی طرف نظر کرنا جائز نہیں اور چھونا تو اور زیادہ منع ہے
      • مسائل متعلقہ ستر
        • اگر آزاد بالغ عورت نے ایسا لباس پایا جو اس کے بدن کو اور چوتھائی سر کو ڈھانپ سکتا ہے تو بدن اور چوتھائی سر دونوں کا ڈھانپنا فرض ہے اگر کپڑا اتنا ہے کہ چوتھائی سر کو نہیں ڈھانپ سکتا بلکہ کم ڈھانپتا ہے تو اس کا ڈھانپنا واجب نہیں، افضل و مستحب ہے اگر بلوغ کے قریب لڑکی چوتھائی سر ڈھانپ سکنے کی صورت میں ڈھانپنا چھوڑ دے گی تو اس پر نماز کا اعادہ واجب نہیں اگر وہ ننگی یا بغیر وضو نماز پڑھے تو نماز کو لوٹانے کا حکم کیا جائے اور بغیر اوڑھنی کے پڑھے تو نماز ہو جائے گی لیکن احسن یہ ہے کہ اوڑھنی سے پڑھے
        • نماز میں اپنا ستر دوسروں سے چھپانا بالاجماع فرض ہے اور اپنے آپ سے چھپانا عام مشائخ کے نزدیک فرض نہیں، پس اگر گریبان میں سے اس کو اپنا ستر نظر آئے تو نماز فاصد نہ ہو گی، یہی صحیح ہے لیکن قصداً اپنے ستر کی طرف نظر کرنا مکروہِ تحریمی ہے
        • دوسرے لوگوں سے ستر ڈھانپنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے بدن کو چاروں طرف سے ڈھانپنا ضروری ہے نیچے کی طرف سے نہیں پس تہمد کے نیچے سے ستر کا نظر آنا نماز کا مانع نہیں ہے جبکہ چاروں طرف سے ستر صحیح ہو
        • اگر اندھیرے میں ننگا ہو کر نماز پڑھی اور اس کے پاس کپڑا موجود ہے تو نماز جائز نہیں ہو گی
        • باریک کپڑا جس میں سے بدن نظر آتا ہو ستر کے لئے کافی نہیں اور اس کو پہن کر نماز جائز نہیں جبکہ اعضائے ستر پر ہو، اسی طرح اگر چادر یا دوپٹہ میں سے عورتوں کے بالوں کی سیاہی چمکے تو نماز نہ ہو گی
        • موٹا کپڑا جس سے بدن کا رنگ نظر نہ آتا ہو مگر بدن سے ایسا چپکا ہوا ہو کہ اعضاِ بدن کی شکل معلوم ہوتی ہو ایسے کپڑے سے نماز ہو جائے گی مگر دوسرے لوگوں کو اس کے اعضا کی ہئیت کی طرف نظر کرنا جائز نہیں اور ایسا کپڑا لوگوں کے سامنے پہننا منع ہے خصوصاً عورتوں کے لئے بدرجہ اولیٰ منع ہے
      • نماز میں ستر کھل جانے کے مسائل
        • نماز میں کسی عضو کا چوتھائی سے کم ستر کا کھل جانا معاف ہے خواہ کتنی ہی دیر کھلا رہے چوتھائی یا زیادہ ستر کھل جانے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے جبکہ ایک رکن کی مقدار (تین بار سبحان اللّٰہ کہنے کے مقدار) کھلا رہے، پس جن اعضا کا ڈھاپنا فرض ہے ان میں سے کوئی عضو نماز کے اندر چوتھائی یا زیادہ کھل گیا اور اس نے فوراً رکن کی مقدار سے پہلے پہلے ڈھانپ لیا تو نماز فاسد نہ ہو گی اور اگر ایک رکن کی مقدار کھلا رہا تو نماز فاسد ہو گئی، یہ حکم اس وقت ہے جب کہ بلا ارادہ کھل گیا ہو اور اگر اپنے ارادہ سے یا اپنے فعل سے کھولا تو رکن کی مقدار کی رعایت نہیں بلکہ فوراً یہ نماز جاتی رہے گی، اگرچہ رکن کی مقدار سے پہلے پہلے ڈھانپ لیا ہو، اگر نماز شروع کرتے وقت ستر کے کسی عضو کی چوتھائی کھلی ہوئی ہے اور اسی حالت میں تکبیر تحریمہ کہی تو نماز شروع ہی نہیں ہوئی اگرچہ رکن کی مقدار سے کم وقت گزرے
          اصح یہ ہے کہ سترغلیظ ہو یا خفیف اس کا حساب چوتھائی حصہ سے ہی کیا جاتا ہے ستر کا غلیظ یا خفیف ہونا صرف حرمتِ نظر کے اعتبار سے ہے مرد اور عورت میں پیشاب و پاخانہ کا مقام اور جو جگہ ان دونوں کے آس پاس ہے ستر غلیظ ہے اس کے علاوہ سب ستر خفیف ہے (گھٹنا بہ نسبت ران کے خفیف ستر ہے پس گھٹنا کھولنے والے کو نرمی سے منع کیا جائے اور ران کھولنے والے کو سختی سے منع کیا جائے لیکن اگر نہ مانے تو اس کو مارے نہیں اور اگر عورت غلیظہ کھولے ہوئے ہو اور وہ شخص مارنے پر قادر ہے مثلاً باپ یا حاکم تو اس کو مارے(
          چوتھائی سے مراد اعضائے ستر میں سے ہر عضو کی اپنی چوتھائی ہے اگر ایک عضو میں کئی جگہ تھوڑا تھوڑا کھلا ہو تو جمع کریں گے اگر دو یا زیادہ اعضا میں کھلا ہوا ہو تو اس کو بھی جمع کریں گے لیکن اس کا حساب ان میں سے سب سے چھوٹے عضو کی چوتھائی سے کیا جائے گا
          اگر ایک عضو میں سے کئی جگہ سے کھلا ہو تو اجزائ یعنی پانچواں چھٹا حصہ وغیرہ کے حساب سے جمع کیا جائے گا اور اگر چند اعضا میں کھلا ہو تو چھٹا آٹھواں حصہ وغیرہ معتبر نہیں بلکہ پیمائش سے جمع کیا جائے گا
      • ساتر نجس کے متعلق مسائل
        • اگر ایسی چیز کے سوا جو اصلاً ناپاک ہو اور کوئی چیز ستر ڈھاپنے کے لئے نہ ملے مثلاً مردار کی کھال جس کی دباغت نہیں ہوئی تو یہ شخص اس سے نماز میں ستر نہ ڈھانپے بلکہ ننگا رہ کر نماز پڑھے اور نماز کے علاوہ وقت میں اس کھال سے ستر چھپائے، اور اگر وہ چیز اصلاً ناپاک نہیں بلکہ کسی خارجی نجاست مثلاً پیشاب یا پاخانہ یا خون وغیرہ کے لگنے سے ناپاک ہوئی ہے تو اگر وہ کل ناپاک ہے یا اس میں چوتھائی سے کم پاک ہے تو اس کو اختیار ہے کہ اس کپڑے کے ساتھ کھڑے ہو کر رکوع و سجود سے نماز پڑھے اور یہی مستحب و افضل ہے یا ننگا نماز پڑھے اور اگر اس کا چوتھائی حصہ پاک ہو تو اسی میں نماز پڑھنا ضروری و واجب ہے اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ ایسی چیز نہ پائے جو نجاست کو دور کر دے یا اس کو کم کر دے اگر ایسی چیز مل جائے تو نجاست کو دور کرنا یا کم کرنا واجب ہے
        • اگر کسی کے پاس دو کپڑے ہوں اور ان میں سے ہر ایک قدرِدرہم سے زیادہ نجاست غلیظہ سے نجس ہے تو اگر ان میں کوئی کپڑا چوتھائی کی مقدار نجس نہیں تو اختیار ہے جس سے چاہے نماز پڑھے اور مستحب یہ ہے کہ کم نجاست والے میں پڑھے اور اگر ایک میں نجاست چوتھائی سے کم ہو اور دوسرے میں بقدر چوتھائی سے زیادہ ہو تو جس میں نجاست کم ہو اس سے نماز پڑھے اور اس کے برخلاف جائز نہیں اور اگر دونوں میں سے ہر ایک میں چوتھائی حصہ نجس ہے یا کسی ایک میں چوتھائی سے زیادہ اور تین چوتھائی ٣\٤ سے کم ہو اور دوسرے میں بقدر چوتھائی ہو تو دونوں میں حکم برابر ہیں جس میں چاہے نماز پڑھے اور افضل یہ ہے کہ جس میں نجاست کم ہو اس میں پڑھے اور اگر ایک چوتھائی حصہ پاک ہو اور دوسرا چوتھائی سے کم پاک ہو یا کل ناپاک ہو تو جس کا چوتھائی پاک ہے اس میں نماز پڑھے اس کے برخلاف جائز نہیں
        • اگر کسی کپڑے کے ایک جانب خون وغیرہ کوئی نجاست لگی ہو اور وہ اس قدر پاک ہو کہ اس سے تہبند باندھ سکتا ہے اگر نہ باندھے گا تو نماز جائز نہیں ہو گی خواہ ایک طرف کے ہلانے سے دوسری طرف ہلتی ہو یا نہ ہلتی ہو
        • اگر ننگے آدمی کے پاس ریشمی کپڑا ہے جو پاک ہے اور ٹاٹ کا کپڑا بھی ہے جس میں نجاست قدرِ درہم سے زیادہ لگی ہے تو ریشمی کپڑے میں نماز پڑھے اگر کسی کے سب کپڑے نجس ہیں اور پاک پانی بھی موجود ہے تو دھو کر گیلے کپڑے سے نماز پڑھ لے اور نماز قضا نہ کرے
        • اگر ستر کا کپڑا یا اس کے پاک کرنے والی چیز سے عاجز ہونا بندوں کے فعل سے ہو تو برھنہ یا ناپاک کپڑے کے ساتھ نماز پڑھ لے اور پھر عذر جاتے رہنے پر اُس اعادہ لازمی ہے، اور اگر عذر بندوں کے فعل سے لاحق نہ ہو بلکہ قدرتی ہو تو اس عذر کو ساتھ نماز پڑھ لے اور اس کا اعادہ لازمی نہیں
      • نماز کے لئے مستحب لباس وغیرہ
        • مرد کے لئے مستحب لباس

            مستحب یہ ہے کہ مرد تین کپڑے پہن کر نماز پڑھے

          • ازار (تہبند یا پاجامہ وغیرہ)
            قمیض، کرتہ،
            عمامہ،
            اگر ایک کپڑے میں بدن ڈھانپ کر نماز پڑھے تو بلا کراہت جائز ہے
        • عورت کے لئے مستحب لباس

            عورت کے لئے بھی مستحب ہے کہ تین کپڑے پہن کر نماز پڑھے اور وہ یہ ہیں

          • ازار (تہبند یا پاجامہ وغیرہ)
            قمیض،
            اوڑھنی (دوپٹہ)
            اگر عورت دو کپڑوں یعنی تہبند یا پاجامہ اور اوڑھنی میں نماز پڑھے تو نماز جائز ہو گی اور اگر ایک کپڑے میں پڑھے اور اس سے اُس کا تمام ستر ڈھک جائے تو نماز جائز ہو جائے گی، اگر دو شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھیں اور ہر شخص اس کے ایک کنارے (پلہ) سے ستر ڈھانپ لے تو جائز ہے اور اسی طرح اگر کوئی شخص کپڑے کے ایک کنارے سے اپنا ستر ڈھانپ لے اور دوسرا کنارا کسی سوتے ہوئے پر ڈال دے تو جائز ہے اگر کسی کے پاس ایک ایسا کپڑا ہو کہ یا اس سے جسم کے چھپا لے یا اس کو بچھا کر نماز پڑہ لے اور نماز کے لئے اس کو پاک جگہ میسر نہیں ہے تو اس کو چاہئے کہ اس کپڑے سے اپنے جسم کو چھپا لے اور نماز اسی جگہ پڑھ لے
    • قبلہ رخ ہونا
      • قبلے کی طرف منہ کرنا
        • قبلہ کی طرف منہ کرنا جبکہ اس پر قادر ہو نماز صحیح ہونے کےلئے شرط ہے، مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہے، یہ ایک چوکور مکان ہے جو ملک عرب کے شہر مکہ معظّمہ میں واقع ہے اس کو خانہ کعبہ، کعبتہ اللّٰہ، بیت اللّٰہ اور بیت الحرام کہتے ہیں، نماز خواہ فرض ہو یا نفل اور سجدہ تلاوت ہو یا نماز جنازہ ہر نماز و سجدہ کے لئے ضروری ہے کہ قبلہ کی طرف منہ کرے اس پر قادر ہوتے ہوئے اس کے بغیر کوئی نماز درست نہیں ہے خواہ قبلے کی طرف منہ کرنا حقیقتہً ہو یا حکماً مثلاً بیماری یا دشمن کے خوف سے قبلے کی طرف منہ نہیں کر سکتا تو وہ جس طرف منہ کر سکتا ہو، یا قبلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اٹکل سے وہ جس طرف کو اپنا قبلہ ٹہراتا ہے وہ اس کا قبلہ حکمی ہے قبلہ مسجودالیہ ہے(یعنی اُس کی طرف سجدہ کیا جاتا ہے) مسجودلہ (یعنی جس کو سجدہ کیا جائے) نہیں ہے بلکہ مسجودلہ تو اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ جہت آزمائش و یکجہتی کے لئے مقرر ہوئی ہے
        • جو شخص مکہ مکرمہ میں ہے اس کو عین کعبہ کی طرف منہ کرنا لازمی ہے خواہ درمیان میں کوئی دیوار یا پہاڑ وغیرہ حائل ہو یا نہ ہو، اور یہ اس وقت ہے جبکہ عین کعبہ کی تحقیق ممکن ہو مثلاً چھت پر چڑھ کر دیکھ سکتا ہو اور اگر یہ تحقیق ممکن نہ ہو تو مکہ والوں کے لئے بھی جہت کافی ہے اگر صرف حطیم کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے اور کعبہ معظّمہ کا کوئی جزو اس کے سامنے نہ آئے تو نماز جائز نہیں
        • جو شخص مکہ معظّمہ سے باہر ہو اور خانہ کعبہ کو نہ دیکھتا ہو اُس کا قبلہ کعبہ معظّمہ کی جہت ہے پس اس کے چہرے کی کچھ سطح خانہ کعبہ یا فضائے کعبہ کے مقابل تحقیقتاً یا تقریباً واقع ہو تحقیقی سامنے ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کے چہرے کی سیدھ سے ایک سیدھا خط کھینچا جائے تو وہ کعبہ یا اس کی فضا پر گزرے اور تقریبی یہ ہے کہ خطِ مذکور خانہ کعبہ یا اس کی فضا سے بالکل ہٹا ہوا نہ ہو بلکہ کسی قدر چہرے کی سطح کعبہ یا اُس کی فضا کے مقابل رہے کعبہ کی جہت دلیل یعنی علامت سے معلوم کی جاتی ہے اور وہ دلیل و علامت شہرو قصبوں اور دیہاتوں میں وہ مہرابیں ہیں جو صحابہ و تابعیں نے بنائی ہیں اگر وہ نہ ہوں تو اس بستی کے لوگوں سے پوچھے اور صرف ایک آدمی سے پوچھنا کافی ہے دریائوں، سمندروں، جنگلوں میں قبلہ کی دلیل سورج، چاند اور ستارے ہیں
        • خانہ کعبہ کی عمارت سے گھری ہوئی جگہ کے مطابق تحت الثریٰ یعنی ساتویں زمین کے نیچے سے لے کر عرش معلیٰ تک کے درمیان کی فضا قبلہ ہے پس اگر کوئی شخص زمین کے اندر گہرے کنوئیں میں یا اونچے پہاڑ یا ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز پڑھے گا تو اگر کعبہ کی فضا اس کے سامنے ہو گی تو اس کی نماز درست ہو گی، خانہ کعبہ کے اندر یا کعبہ مکرمہ کی چھت پر نماز پڑھے تو جدھر کو چاہے منہ کر لے
        • قبلہ کی طرف منہ کرنا سے مراد قبلے کی طرف سینہ کرنا ہے منہ کرنا شرط نہیں البتہ سنت ہے
      • استقبال قبلہ سے عاجز ہونے کے مسائل
        • اگر کسی بیمار کا منہ قبلے کی طرف نہیں ہے اور وہ اس پر قادر بھی نہیں اور نہ اُس کے پاس کوئی دوسرا شخص ہے جو اس کا منہ قبلہ کی طرف پھیر دے یا آدمی تو ہے لیکن منہ پھیرنا بیمار کو نقصان دیتا ہے تو جس طرف اس کا منہ ہو اُسی طرف نماز پڑھ لے اور اگر دوسرے کی مدد سے قبلہ کی طرف منہ کر سکتا ہو اور ایسا آدمی موجود ہو اور اُس سے بیمار کو نقصان بھی نہ ہو تو وہ معذور نہیں ہے، اس کو قبلہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے ورنہ نماز درست نہیں ہو گی یہی معتمد ہے
        • جس کو قبلہ کی طرف منہ کرنے میں کچھ خوف ہو خواہ وہ خوف دشمن کا ہو یا درندے کا یا چور کا تو وہ جس طرف قادر ہو اُسی طرف کو منہ کر کے نماز پڑہ لے، اگر اس کا عذر آسمانی ہو کسی مخلوق کی طرف سے نہ ہو مثلاً بیماری بڑھاپا، خوفِ دشمن وغیرہ تو بعد میں اُس نماز کا اعادہ نہ کرے اور اگر عذر مخلوق کی طرف سے ہو مثلاً قید میں ہو اور وہ لوگ اس کو روکیں تو بغیر قبلہ کے نماز پڑھ لے اور عذر دور ہونے پر اُس نماز کا اعادہ کرے
        • کشتی میں فرض یا نفل پڑھے تو اس پر بھی قبلے کی طرف منہ کرنا واجب ہے اور نماز کے اندر کشتی گھومنے پر وہ خود بھی گھوم کر قبلے کی طرف پھرتا جائے ورنہ نماز فاسد ہو جائے گی اسی طرح ریل گاڑی میں بھی قبلے کی طرف منہ کرنا ضروری ہے اور جب نماز پڑھتے ہوئے ریل گھوم جائے اور قبلہ دوسری طرف ہو جائے تو یہ بھی نماز ہی میں گھوم جائے اور قبلہ کی طرف منہ کر لے ورنہ نماز درست نہ ہو گی لیکن اگر ریل گاڑی میں قبلے کی سمت پر قادر نہ ہو تو جس طرف پر قادر ہو اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے اور کھڑا ہونے پر قادر نہ ہونے کی صورت میں بیٹھ کر پڑھ لے، لیکن بلاوجہ قیام اور استقبال قبلہ کو ترک نہ کرے اور بہانہ تراشی نہ کرے، آج کل لوگ اس بات سے غافل ہیں اور اس کی پرواہ نہیں کرتے
      • اٹکل سے قبلہ معلوم کرنے کے مسائل
        • آبادی میں پرانی مہرابوں اور مسجدوں کے ذریعہ قبلہ معلوم کرنا مقدم ہے اگر یہ میسر نہ ہو تو ایسے شخص سے پوچھے جو وہاں کا رہنے والا اور قبلے کا جاننے والا ہو، اس کی گواہی قبول کی جاتی ہو اور وہ اس کی آواز کو سنتا ہو، اگر اس سے بھی عاجز ہو تو اب اپنی اٹکل سے قبلہ کی سمت مقرر کر کے نماز پڑھنا لازمی ہے پرانی محرابوں اور مسجدوں کے ہوتے ہوئے کسی سے پوچھنے کا کوئی اعتبار نہیں اور نماز جائز نہیں، اور پرانی محرابوں و مسجدوں کے نہ ہونے کی صورت میں ایسے شخص کے موجود ہوتے ہوئے جو قبلے کا جاننے والا اور وہاں کا رہنے والا ہو اس کی گواہی قبول کی جاتی ہو اور وہ اُس کی آواز سنتا ہو، پوچھے بغیر اٹکل سے قبلے کی سمت مقرر کرنا جائز نہیں پس مقدم کی موجودگی میں موخر کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے
        • اگر شرائط کے ساتھ اٹکل سے قبلہ مقرر کر کے نماز پڑھی پھر نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا گمان غلط تھا تو نماز کا اعادہ نہ کرے اور اگر نماز کے اندر ہی معلوم ہو گیا یا رائے بدل گئی اور گمان غالب کسی دوسری طرف پر ہو گیا اگرچہ سہو کے سجدوں میں ہو تو قبلے کی طرف کو پھر جائے اور باقی نماز کو اسی طرح پوری کر لے نئے سرے سے پڑھنے کی ضرورت نہیں اگر اس صورت میں فوراً اس طرف کو نہ پھرا اور ایک رکن کی مقدار دیر کی تو نماز فاسد ہو جائے گی
        • قبلہ معلوم کرنے کے جو ذرائع بیان ہوئے ان پر قادر ہوتے ہوئے اٹکل لگانا جائز نہیں، عورت کے لئے بھی پوچھنا ضروری ہے ایسے وقت میں شرم نہ کرے بلکہ پوچھ کر نماز پڑھے ورنہ نماز نہ ہو گی، اگر ایسے جاننے والے شخص کے موجود ہوتے ہوئے اس سے پوچھے بغیر اٹکل سے نماز پڑھ لی، اگر ٹھیک قبلے کی طرف کو نماز پڑھی گئی تو نماز جائز ہو گی اور اگر ٹھیک سمت کو نہیں پڑھی توجائز نہ ہو گی، کسی شخص کے پاس ہونے کی حد یہ ہے کہ اگر اس کو بلند آواز سے پکارے تو وہ سن لے
        • اگر کسی کو جنگل میں قبلے کا شبہ پڑ جائے اور وہ اٹکل سے کسی سمت کو قبلہ سمجھے اور دو معتبر آدمی اُس کو خبر دیں کہ قبلہ اور طرف ہے اگر وہ دونوں بھی مسافر ہیں تو ان کے کہنے پر توجہ نہ کرے اور اگر اسی جگہ کے رہنے والے ہوں یا اکثر آنے جانے کی وجہ سے یا علم کے کسی دوسرے طریقے سے ان کو قبلہ کی معرفت حاصل ہے تو ان کا کہنا مانے ورنہ نماز جائز نہ ہوگی، ہر شخص کے لئے اپنی تحری پر عمل کرنا لازمی ہے دوسرے کی تہری پر نہیں
        • اگر کسی شہر میں داخل ہو جائے اور وہاں محرابیں یا مسجدیں بنی ہوئی دیکھے تو اُنہی کی طرف نماز پڑھے اٹکل سے نہ پڑھے اور اگر جنگل میں ہے اور آسمان صاف ہے اور وہ ستاروں سے قبلے کے سمت پہنچان سکتا ہے تب بھی اٹکل سے نماز نہ پڑھے اگر اُن دونوں صورتوں میں اٹکل سے سمتِ قبلہ مقرر کر کے نماز پڑھے گا اور جہت کے خلاف پڑھی گئی تو نماز نہ ہو گی اور اگر ٹھیک قبلہ کی جانب کو پڑھی گئی تو ہو گئی
        • اگر کسی مسجد میں داخل ہوا اور اُس میں محراب نہیں اور اس کو قبلہ معلوم نہیں اس نے اٹکل سے نماز پڑھ لی پھر ظاہر ہوا کہ غلطی ہوئی تو اس نماز کو لوٹانا واجب ہے اس لئے کہ وہاں کے رہنے والوں سے پوچھنے پر قادر ہے اور اگر ظاہر ہو گیا کہ اس نے ٹھیک قبلے کی طرف پڑھی ہے تو نماز درست ہے اور اگر اس نے وہاں کے رہنے والے اور سمت قبلہ جاننے والے شخص سے پوچھا اور اُس نے نہ بتایا پھر اس نے اٹکل سے نماز پڑھ لی تو جائز ہے اگرچہ بعد میں ظاہر ہو کہ قبلے کی سمت میں غلطی ہوئی ہے پس اگر وہ آدمی نماز کے بعد بتا دے تو اب نماز کو نہ لوٹائے اندھیری رات یا بارش وغیرہ میں نمازی کو پوچھنے کے لئے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانا واجب نہیں ہے لیکن اگر بلانے اور پوچھنے میں حرج نہ ہو تو اٹکل سے پہلے پوچھنا واجب ہے اندھیرے میں محراب قبلہ معلوم کرنے کے لئے جب کہ بآسانی پتہ نہ چل سکے دیواروں کو ٹٹولتے پھرنا بھی واجب نہیں ہے
        • اگر کسی کو قبلے کی سمت میں شک ہوا اور مذکورہ علامتوں سے قبلہ معلوم کرنے سے عاجز ہے اس لئے اٹکل سے کسی سمت کو قبلہ مقرر کئے بغیر ہی کسی سمت کو نماز پڑھ لی پھر اگر نماز ہی میں اس کا شک زائل ہو گیا کہ وہ ٹھیک قبلے کی جانب ہے یا قبلے کی جانب نہیں ہے یا کچھ نہ معلوم ہوا تو ہر حال میں نئے سرے سے نماز پڑھے اور اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد غلطی معلوم ہوئی یا کچھ نہ معلوم ہوا یا گمان غالب ہوا کہ اس نے صحیح قبلے کی طرف نماز پڑھی ہے تو ان تینوں صورتوں میں بھی نماز جائز نہ ہو گی اس لئے نئے سرے سے پڑھے کیونکہ شبہ کی صورت میں اس پر اٹکل لگانا (تہری) فرض تھا جو اس نے چھوڑ دیا اور اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ اس نے صحیح قبلے کی سمت نماز پڑہی ہے تو بالاتفاق اس کی نماز جائز ہو گی اس کا اعادہ نہ کرے
        • اگر اٹکل سے ایک سمت کو قبلہ مقرر کیا لیکن نماز اس کے بجائے دوسری سمت کو پڑھی تو فتویٰ اس پر ہے کہ ہر حال میں دوبارہ نماز پڑھے
        • اگر اٹکل سے کسی طرف کو گمان غالب نہ ہوا بلکہ اس کے نزدیک سب طرفیں قبلہ ہونے میں برابر ہوں تو اس میں تین قول ہیں بعض نے کہا کہ نماز میں تاخیر کریں یہاں تک کہ اس کے گمان میں ایک طرف قبلہ ظاہر ہو جائے، بعض نے کہا چاروں طرف کو ایک ایک دفعہ نماز پڑھ لیں یہی زیادہ صحیح و احوط ہے، بعض نے کہا چاروں اس کے حق میں برابر ہیں کسی ایک طرف کو اختیار کر کے اسی طرف کو نماز پڑہ لےعلامہ شامی نے اسی کو ترجیع دی ہے واللہ عالم
        • اگر اٹکل سے قبلہ مقرر کر کے نماز شروع کی اور ایک رکعت پڑھی پھر اس کی رائے دوسری طرف کو بدل گئی اور دوسری رکعت دوسری طرف کو پڑھی پھر تیسری یا چوتھی رکعت میں اس کی رائے اس طرف کو بدل گئی جس طرف کو پہلی رکعت پڑھی تھی تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے بعضوں نے کہا کہ وہ پہلی رکعت والی طرف کو اپنی نماز پوری کر لے یہی اوجہ ہے اگرچہ بعض نے کہا کہ نئے سرے سے پڑھے، اگر کسی شبہ کی وجہ سے اٹکل سے ایک رکعت ایک طرف کو پڑھی پھر رائے دوسری طرف کو بدل گئی اور اس نے دوسری رکعت دوسری طرف کو پڑھی اسی طرح چاروں رکعتیں چاروں طرف کو پڑھیں تو جائز ہے
        • اٹکل سے قبلہ کو تجویز کرنا جس طرح نماز کے لئے ضروری ہے ویسے ہی سجدہ تلاوت کے لئے بھی ضروری ہے
      • تحرّی والے کے پیچھے نماز پڑھنے کے مسائل
        • اگر کسی شخص نے اٹکل (ترّ ی) سے نماز پڑھی اور ایک شخص نے اس کے پیچھے بغیر تہری کے اقتدا کی، اگر امام نے ٹھیک قبلے کی طرف نماز پڑھی تو امام اور مقتدی دونوں کی نماز درست ہے اور اگر امام کی رائے غلط تھی تو امام کی نماز درست ہے اور مقتدی کی درست نہیں
        • ایک شخص نے اٹکل سے کسی سمت کو نماز شروع کی پھر نماز میں معلوم ہوا کہ قبلہ دوسری طرف ہے اور وہ نماز میں ہی قبلہ کی طرف پھر گیا پھر ایک شخص آیا جس کو اس کی پہلی حالت معلوم تھی اور اس نے نماز میں اسی طرف کو منہ کر کے اس کی اقتدا کی تو امام کی نماز درست ہو گی، مقتدی کی فاسد ہو گی اور اگر اس کو پہلے شخص کی حالت معلوم نہیں تھی یا حالت معلوم ہونے کی صورت میں اس کو بھی تہری سے اسی طرف کے قبلے ہونے کا ظن غالب ہوا تھا جس طرف امام کا تھا اور اب رائے بدلنے پر اس نے بھی تہری کی اور امام کی رائے کے مطابق ظن غالب ہوا تو اس مقتدی کی نماز بھی اس امام کو پیچھے جائز ہو گی
        • کسی اندھے نے قبلے کے سوا کسی اور سمت کو ایک رکعت پڑھ لی پھر ایک شخص نے آ کر اُسے قبلے کی طرف کو پھیر دیا اور اس کی اقتدا کر لی، اگر اس نابینا کو نماز شروع کرتے وقت ایسا آدمی ملا تھا جس سے وہ قبلہ دریافت کر سکتا تھا اور نہ پوچھا تو اس امام اور مقتدی دونوں کی نماز فاسد ہے اور اگر ایسا آدمی نہیں ملا تھا تو نابینا کی نماز درست ہے اور مقتدی کی فاسد ہے اگر نابینا کو ایسا آدمی نہ ملے جس سے پوچھ سکے تو محراب کا ٹٹولنا واجب نہیں ہے اور اگر ایسا آدمی ملے اور بغیر پوچھے نماز پڑھ لے تو اگر صحیح قبلے کی طرف پڑھی گئی تو نماز ہو گی ورنہ نہیں
      • خانہ کعبہ کو اندر نماز پڑھنے کے مسائل
        • خانہ کعبہ کے اندر اور باہر یعنی مسجدالحرام میں ہر نماز فرض و نفل پڑھنا بلاکراہت صحیح ہے خواہ اکیلا پڑھے یا جماعت سے اور خواہ بغیر سترے کے ہو اور وہاں نمازی کے آگے سے گزرنا معاف ہے، خانہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے اگر خانہ کعبہ کے اندر جماعت سے نماز پڑھیں اور امام کے گرد صفیں بنائیں تو کعبے کی طرف منہ کرنے میں جماعت والوں کے منہ جدا جدا طرف کو ہوں گے پس جس مقتدی کی پیٹھ امام کے منہ کی طرف ہو گی اس کی نماز جائز نہیں ہو گی کیونکہ وہ شخص امام سے آگے ہو گا اور جس مقتدی کا منہ امام کو منہ کی طرف ہو اور امام اور مقتدی کے درمیاں کوئی سترہ (آڑ) نہ ہو تو اس کی نماز جائز مگر مکروہ ہو گی اور اگر سترہ (کپڑا وغیرہ لٹکایا) ہو تو مکروہ نہ ہو گی اس کے علاوہ جتنی صورتیں ہیں سب میں نماز بلا کراہت جائز ہو گی
        • اگر امام نے خانہ کعبہ سے باہر مسجد الحرام میں نماز پڑھی اور جماعت کے لوگ خانہ کعبہ کے گرد حلقہ باندھ کر کھڑے ہوں اگر امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوئے تو سب کی نماز درست ہے صرف اس شخص کی نماز درست نہیں ہو گی جو امام کی سمت میں امام سے آگے ہو یعنی امام کی بہ نسبت کعبہ شریف کے قریب ہو اور امام ہی کی سمت میں کھڑا ہو اور اگر وہ شخص جو امام کی بہ نسبت خانہ کعبہ سے زیادہ قریب ہے امام کی سمت میں نہیں ہے بلکہ کسی دوسری سمت میں ہے تو اس کی نماز درست ہو جائے گی کیونکہ وہ حکاماً امام کے پیچھے ہے اور امام سے آگے بڑھنا اس وقت ہوتا ہے جبکہ دونوں کی جہت ایک ہی ہو، اگر مقتدی اس رکن (کونے) کی سیدھ میں ہے جو امام کی جانب میں ہے اور امام سے زیادہ کعبہ شریف کے قریب ہے تو احتیاطاً اس کی نماز فاسد ہو گی
        • اگر امام خانہ کعبہ کے اندر کھڑا ہو اور کوئی مقتدی امام کے ساتھ اندر بھی ہو اور باقی مقتدی کعبہ کے باہر ہوں اور دروازہ کھلا ہوا ہو تاکہ مقتدی امام کے رکوع و سجود وغیرہ کا حال معلوم کر سکیں تو نماز بلاکراہت جائز ہے اور اگر دروازہ بند ہو لیکن کوئی تکبیر کہنے والا آواز پہنچاتا جائے تب بھی اقتدا درست ہے اور اگر امام اکیلا خانہ کعبہ کے اندر ہو اس کے ساتھ مقتدی کوئی نہ ہو تو مکروہ ہے کیونکہ خانہ کعبہ کا اندرونی فرش قد آدم سے زیادہ بلند ہے
        • اگر مقتدی خانہ کعبہ کے اندر اور امام باہر ہو تب بھی نماز درست ہے بشرطیکہ دونوں کی جہت ایک نہ ہو یعنی مقتدی کی پیٹ امام کے منہ کی طرف نہ ہو اسی طرح اگر کچھ مقتدی حطیم میں ہوں اور امام اور دیگر مقتدی خانہ کعبہ و حطیم سے باہر ہوں تب بھی حطیم میں کھڑے ہونے والوں کی اقتدا درست ہے کیونکہ ان کی اور امام کی جہت متحد نہیں ہے جس سے ان کا امام کے آگے ہونا لازم آتا بلکہ وہ امام سے دوسری جہت میں مستقبل قبلہ ہے معہذا حطیم کا خانہ کعبہ کا جزو ہونا قطعی الثبوت نہیں ہے بکہ ظنی الثبوت ہے اور جبکہ خانہ کعبہ میں موجود مقتدی کی نماز اس امام سے جو خانہ کعبہ سے باہر ہو درست ہے بشرطیکہ دونوں کی سمت ایک نہ ہو تو حطیم میں موجود مقتدی کی نماز بدرجہ اولیٰ درست ہو گی جبکہ مقتدی کی سمتِ کعبہ امام کی سمت کعبہ سے دوسری ہو
        • اگر خانہ کعبہ کے اندر کوئی عورت امام کے برابر میں کھڑی ہو گئی اور امام نے اس کی امامت کی نیت کر لی، اگر اس عورت نے بھی اس طرف منہ کر لیا جس طرف امام کا منہ ہے تو امام کی نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر دوسری طرف کو منہ کیا تو امام کی نماز فاسد نہ ہو گی
        • اگر کسی نے خانہ کعبہ کے اندر ایک رکعت ایک سمت کے پڑھی تو اب اس تحریمہ کی نماز کے لئے وہ سمت اس کے لئے متعین ہو گئی اس لئے اب اس کو اسی تحریمہ کی پوری نماز اسی سمت میں پڑھنا واجب ہے پس اگر دوسری رکعت دوسری طرف کو پڑھے گا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی
      • مسائل
        • نماز دین کا ستون ہے اور قبلہ کی پہنچان اس کے لئے شرط ہے عین نماز کے دوران بھی اگر کسی کو پتہ چلا کہ وہ غلط سمت میں کھڑا ہے تو اس کو نماز ہی میں اپنا رخ صحیح سمت میں کرنے کا حکم ہے۔ اور اگر کوئی اور کسی کو غلط سمت میں نماز پڑھتے دیکھے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ نماز پڑھنے والے کا رخ نماز ہی میں صحیح سمت میں کردے۔
        • اجنبی جگہ پر مصلی کو تحرّی ﴿غور و فکر ﴾کے ذریعے قبلہ کی سمت کا یقین کرلینا چاہیئے۔ اس کے لئے اگر کوئی جاننے والا موجود ہو تو اس سے پوچھے ورنہ قبرستان،سورج کی سمت، ستاروں کی سمتیں یا کسی اور مناسب ذریعے سے قبلہ کی سمت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرے۔ اگر کوشش کے باوجود اس کو صحیح سمت کا پتہ نہ چلا اور کسی سمت کے بارے میں اس کا شرح صدر یہ تھا کہ وہی سمت قبلہ ہے اور اس نے نماز اس سمت میں پڑھی اور نماز پڑھ چکنے کے بعد اس کو پتہ چلا کہ اصل سمت یہ نہیں تھی بلکہ دوسری طرف تھی تو نماز دہرانے کا حکم نہیں وہ نماز ہوگئی۔ البتہ نماز میں اگر اسکا شرح صدر کسی ددسری جانب کا ہو ا تو نماز ہی میں رخ اس طرف تبد یل کر لے۔با جماعت نما ز میں اگر کسی کا شرح صدراس سمت کا نہیں جس طرف امام کا ہے۔تواس کونماز علیحدہ پڑھنی چائیے ورنہ اس کی نماز نہیں ہو گی۔
        • ریل گاڑی، جہاز وغیرہ میں سمت قبلہ دوران نماز بدل جائے تو اپنا رخ قبلہ کی سمت پھیرنا فر ض ہے ہاں اگر ساتھ مال ہو اور اسکی چوری کا اندیشہ ہو اور کوئی ساتھی بھی نہ ہو کہ اس کے حوالے کرسکے تو یوں ہی پڑھ لے۔ اگرکسی کو کسی بھی جانب شرح صدر نہیں ہو رہا تو اس کو ہر سمت میں ایک دفعہ احتیاطاً نماز پڑھنی چاہیئے۔ کعبہ میں نماز ی کے لئے اختیار ہے جس طرف بھی نماز پڑھے درست ہے لیکن حطیم گو کہ خانہ کعبہ کا ہی حصہ ہے اس میں نمازی کے لئے خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہے۔
        • فقہ میں قبلہ اس سمت کو کہتے ہیں جس کی طرف نماز میں منہ کیا جائے اورقبلہ کی طرف منہ کرنے کو استقبال قبلہ کہتے ہیں۔ نماز کی ایک لازمی شرط یہ بھی ہے کہ نماز پڑھنے والے کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ اسلام میں قبلہ خانہ کعبہ کی سمت میں ہے یعنی جس طرف خانہ کعبہ واقع ہے اس سمت رخ کرنا نماز میں فرض ہے۔ اگر نمازی اور خانہ کعبہ کو ملانے والا ایک خط کھینچا جائے تو بعض علماء کے نزدیک اس خط کے دائیں بائیں 45 درجے تک کی غلطی معاف ہے یعنی اگر کسی نے ایسی سمت میں نماز پڑھی کہ نماز اور خانہ کعبہ کو ملانے والے خط کے دائیں طرف مثلاً 30 درجے کا زاویہ بناتا تھا تو اس کی نماز ہوگئی کیونکہ یہ 45 درجے کے اندر اندر ہے۔
        • درج ذیل شکل میں ایک چوکور کمرہ دکھایا گیا ہے۔ اگر قبلہ کی سمت خانہ کعبہ کی دیوار ا ب کے بالکل وسط میں یعنی م ق ہو تو م ا کی سمت سے لے کر م ب کی سمت تک کسی بھی خط کی سیدھ میں نماز پڑھی جائے تو نماز درست ہوگی۔ فتویٰ اسی پر ہے _ اہل مکہ کے لئے عین مسجد حرام کی طرف رخ کرنا۔ مسجد حرام میں عین کعبہ کی طرف رخ کرنا اور مکہ سے باہر خانہ کعبہ کی سمت نماز میں رخ کرنا لازمی ہے۔ اہل ہند کا قبلہ مغرب کی جانب ہے۔ سردیوں میں سورج جنوب مغرب میں اوٰرگرمیوںمیں شمال مغرب میں غروب ہوتا ہے۔پس اگر ان دونوں مقامات غروب کے درمیان درمیان قبلہ سمجھا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
        • اگر مسجد کی تعمیر وغیرہ کرنی ہو تو سد باب کے لئے عین خانہ کعبہ کی سمت میں جہاں تک ہوسکے مسجد تعمیر کرنی چاہیئے تاکہ بعد میں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو البتہ پرانی مساجد کے بارے میں اگر کسی کو پتہ چلے کہ مسجد عین خانہ کعبہ کی سمت میں نہیں ہے تو اگر اس کا انحراف 45 درجے سے کم ہو تو اس کا ذکر کسی سے نہ کرے اس رخ پر نماز پڑھنا درست ہے۔
      • قبلہ معلوم کے طریقے
        • اگر شمال کی سمت کا کسی ذریعے سے پتہ چلایا جائے اور قبلہ کی سمت کا شمال کی سمت کے ساتھ زاویہ معلوم ہو تو اس کے ذریعے قبلہ کی سمت معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس کے لئے پہلے شمال کی سمت معلوم کریں اور بعد میں پروٹیکٹر کے ذریعے شمال کے ساتھ مطلوبہ زاویہ بنائیں۔ شکل میں پروٹیکٹر دکھایا گیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہ اس کے ذریعے قبلہ کیسے معلوم کیا جاسکتا ہے؟ مثلاًاسلام آباد میں قبلہ شمال کی سمت کے ساتھ 104 درجے کا زاویہ جانب مغرب بناتا ہے اس لئے شکل نمبر 30 میں دکھایا گیا خط اجشمال کی سمت میں خط اب کے ساتھ 104 درجے کا زاویہ بناتا ہواقبلہ کی سمت کی نشاندہی کررہا ہے۔ DF=LONG-LONGM LONG=جگہ کا طول بلد LONGM=طول بلد مکہ کا LAT=جگہ کا ٰعرض بلد LATM=مکہ کا عرض بلد F= SIN (DF) G1=Cos(LAT)xTan(LATM) G2=Sin(LAT)xCos(DF) G=G1-G2 اس جگہ کی قبلہ کی سمت ہے یعنی وہ زاویہ جو قبلہ کی سمت وہاں شمال کی سمت کے ساتھ بناتا ہے۔ اس مساوات میں Q اگرمنفی علامت کے ساتھ ہے تو زاویہ قبلہ پر 180 کا ااضافہ کریں۔ G اگرمنفی علامتوں کے ساتھ ہوں تو زاویہ قبلہ سے 180درجے تفریق کرلیں۔باقی صورتوں میں کوئی تبدیلی نہ کریں۔قبلہ کا سوفٹ وئر جس کے ذریعے سے قبلہ کا زاویہ اور اس کو آسان طریقہ سے سورج کے سایہ کی مدد سے جن اوقات پر معلوم کیا جاسکتا ہے اس کا حساب کیا جاسکتا ہے۔ کریں۔ تفصیلات مطالعہ کریںDownload
  • نماز کے ارکان

      ارکان نماز ان فرائض کو کہتے ہیں جو نماز کے اندر ہیں یعنی نماز کی ماہیت میں داخل ہیں، اگر ان میں سے ایک رکن بھی نہ پایا گیا تو نماز نہ ہو گی۔ نماز کے ارکان تکبیر تحریمہ سمیت چھ ہیں۔

    • تکبیر تحریمہ

        یہ دراصل نماز کی شرطوں میں سے ہے لیکن ارکان کے ساتھ ملی ہوئی ہونے کی وجہ سے ارکان میں بیان کر دیتے ہیں، البتہ نماز جنازہ میں تکبیرِ تحریمہ رکن ہے شرط نہیں ہے ۔ اس تکبیر کو تکبیر تحریمہ اس لئے کہتے ہیں کہ جو باتیں نماز کے خلاف ہیں وہ اس کے کہنے سے حرام ہو جاتی ہیں، وہ تمام شرطیں جو نماز صحیح ہونے کے لئے ضروری ہیں اور جن کا بیان ہو چکا ہے یعنی نجاست حقیقی و حکمی سے پاکی ، ستر عورت ، استقبال قبلہ ، وقت اور نیت، یہ سب تکبیرِ تحریمہ کے لئے بھی شرطیں ہیں، یعنی تکبیرِ تحریمہ کے ختم ہونے سے پہلے پہلے ان شرطوں کا موجود ہونا شرط ہے، ان کے علاوہ تکبیرِ تحریمہ کے لئے مندرجہ ذیل سترہ شرطیں اور ہیں۔

      • 1۔ تکبیرِ تحریمہ ایسے لفظوں سے ہونا جن سے اللہ تعالٰی کی تعظیم اور بزرگی ثابت ہو مثلاً " سُبحَانَ اللّٰہِ ، لآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ" وغیرہ لیکن اللّٰہُ اَکْبَر کہنا واجب ہے ، جیسا کہ واجباتِ نماز میں درج ہے۔
      • 2۔ تکبیرِ تحریمہ کے لئے پورا جملہ کہنا شرط ہے صرف مبتدا یا صرف خبر سے یہ شرط پوری نہ ہو گی، اس لئے نماز نہ ہو گی، یہی مختار ہے۔
      • 3۔ اس جملہ میں خالص اللہ تعالٰی کا ذکر ہو اور بندے کی حاجت وغیرہ شامل نہ ہو۔
      • 4۔ نماز کو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے شروع نہ کریں (یعنی اس جملے سے تحریمہ ادا نہ کریں کیونکہ یہ طلبِ برکت کے لئے ہے اس لئے خالص ذکر نہ رہا۔
      • 5۔ اللّٰہ اَکْبَر میں دو جگہ ہمزہ ہے اس کو مد نہ کریں۔
      • 6۔ اَکْبَر کی ب کو مد نہ کریں۔
      • 7۔ اللّٰہ اَکْبَر میں لفظ اللّٰہ کی "ھ" کو حذف نہ کریں اور اَکْبَر کی "ر" کو لمبا نہ کریں۔
      • 8۔ لفظ اللّٰہ کے "لام" کا مد (الف مقصورہ) حذف نہ کرے۔
      • 9۔ لفظ اللّٰہ کی ھ اور اَکبَر کی ر کو لمبا نہ کرے۔
      • 10۔ جو شخص عربی میں کہہ سکتا ہو وہ الفاظِ تکبیر عربی میں کہے۔
      • 11۔ تکبیر تحریمہ کو اتنی آواز سے کہے کہ خود سن لے بشرطیکہ بہرہ نہ ہو اور وہاں شور وغل وغیرہ نہ ہو، یعنی اگر وہاں شور وغل نہ ہوتا تو سن لیتا، گونگا اور ایسا بے پڑھا کہ تکبیر کہنا نہیں جانتا اس کی نماز صرف نیت سے شروع ہو جاتی ہے ، اس کو زبان کا ہلانا واجب نہیں۔
      • 12۔ نیت تحریمہ کے ساتھ ملی ہوئی ہو خواہ حقیقہً ہو یا حکماً۔
      • 13۔ تکبیر تحریمہ نیت کے بعد ہو۔
      • 14۔ مقتدی کی تحریمہ امام کی تحریمہ سے پہلے نہ ہو۔
      • 15۔ تحریمہ کو قیام کی حالت میں کہے خواہ قیام حقیقی ہو یا حکمی، جھکے جھکے تکبیرِ تحریمہ کہنا درست نہیں۔
      • 16۔ قبلہ رو ہو کر کہے جب کہ کوئی عذر نہ ہو۔
      • 17۔ نماز کی شرطوں کے پائے جانے کا اعتقاد یا ظن غالب ہو، پس شک کی صورت میں تحریمہ درست نہیں ہو گی۔
    • قیام

        یعنی کھڑے ہو کر نماز پڑھنا۔

      • فرض اور واجب نمازوں میں جب کہ کوئی عذر نہ ہو کھڑے ہو کر نماز پڑھنا فرض ہے ، اگر بیماری ، زخم یا دشمن کا خوف یا کوئی اور ایسا ہی قوی عذر ہو تو فرض و واجب نماز بیٹھ کر ادا کر سکتا ہے۔
      • سیدھا کھڑا ہونے کی کم سے کم حد یہ ہے کہ اگر اپنے دونوں ہاتھ لٹکائے تو گھٹنوں تک نہ پہنچیں ، پس اس قدر جھکنا معاف ہے اور اس وقت تک وہ قیام کی حالت میں ہے، ایسے قیام سے اور اس حد کے اندر تکبیر تحریمہ کہنے سے فرض ادا ہو جائے گا ، لیکن اگر دونوں ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں تو اب قیام کی حد سے نکل گیا اور رکوع کی حد میں داخل ہو گیا، اب تکبیر تحریمہ کہنے یا قرأت کرنے سے نماز جائز نہ ہو گی۔
      • فرض اور واجب نمازوں میں قیام کی ادنیٰ مقدار کی تفصیل یہ ہے کہ اس قدر کھڑا ہونا فرض ہے جس میں بقدرِ فرض قرأت پڑھی جا سکے ، اور پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ بھی کہی جا سکے ، اور بقدر قرأت واجب قیام کرنا واجب ہے اور بقدر قرأت مسنونہ قیام کرنا سنت ہے۔
      • سنتِ فجر کے علاوہ تمام سنت و نفل نمازوں میں قیام فرض نہیں، ان کا بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے لیکن آدھا ثواب ملے گا، اور اگر عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھے تو پورا ثواب ملے گا۔
      • فائدہ

          ان ارکان کے علاوہ نمازکے اندر کچھ اور فرائض بھی ہیں وہ یہ ہیں۔

        • 1۔ نماز کے ارکان میں ترتیب کا ہونا۔
        • 2۔ جو چیزیں نماز میں فرض ہیں ان میں مقتدی کو امام کی متابعت کرنا۔
        • 3۔ مقتدی کا اپنے امام کی نماز کو صحیح جاننا۔
        • 4۔ مقتدی کا اپنے امام سے آگے نہ بڑھنا۔
        • 5۔ مقتدی کا جہت میں اپنے امام کا مخالف نہ ہونا۔
        • 6۔ صاحب ترتیب کو وقت کی گنجائش کے باوجود قضا نماز کا یاد نہ ہونا۔
        • 7۔ عورت کا شرائط محاذات کے ساتھ مرد کے برابر نہ ہونا۔
        • ان سب کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر آتی ہے اب چھ ارکان مذکورا کی مختصر 8۔ ان سب کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر آتی ہے اب چھ ارکان مذکورہ کی مختصر تشریح درج کی جاتی ہے۔

    • قرآت
      • قرآت کا بیان
        • نماز میں قیام کی حالت میں کم از کم ایک آیت پڑھنا فرض ہے ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ایک پوری آیت ہے مگر صرف اس کے پڑھنے سے فرض ادا نہ ہو گا۔
        • فرض نماز کی دو رکعتوں میں خواہ وہ کوئی سی ہو ں اور نمازِ وتر اور سنت و نفل کی تمام رکعتوں میں قرآت فرض ہے۔
        • قرات فرضِ عملی ہے اور اُس شخص پر ہے جو اس فرض پر قادر ہے، پس جس شخص کو ایک آیت بھی یاد نہ ہو وہ قرائت کی جگہ سبحان اللہ یاالحمد اللہ پڑھ لے اور اس شخص پر جلد از جلد قرآن مجید سیکھنا اور قرآتِ فرض کی مقدار یاد کرنا فرض اور قرآت واجب کی مقدار یاد کرنا واجب ہے ، نہ سیکھنے کی صورت میں وہ سخت گناہگار ہو گا۔
        • قرآت کا مطلب یہ ہے کہ قدرت ہوتے ہوئے تمام حروف مخارج سے ادا کئے جائیں ، تاکہ ہر حرف دوسرے سے صحیح طور پر ممتاز ہو جائے ، اورآہستہ پڑھنے کی صورت میں خود سن لے ، جو شخص صرف خیال سے پڑھے گا زبان سے الفاظ ادا نہیں کرے گا یا مخارج سے صحیح ادا نہیں کرے گا یا آہستہ قرآت والی نماز میں ایسا نہیں پڑھے گا کہ خود سن سکے تو اس کی نماز درست نہیں ہو گی۔
        • قرآت جاگنے کی حالت میں کرے، نیند کی حالت میں قرآت کی تو جائز نہیں اسے پھر پڑھے ، اسی طرح رکوع یا سجدہ یا جو رکن بھی نیند کی حالت میں اداکیا اس کو جاگنے پر دوبارہ ادا کرے (لیکن اگر کوئی رکن فرض و واجب کی مقدار بیداری کی حالت میں ادا ہوا اور باقی حصہ نیند میں تو اس رکن کے لوٹانے کی ضرورت نہیں )۔
        • اصل عربی قرآن پاک کی قرآت کرے ، ترجمہ فارسی یا اردو وغیرہ میں قرآت کرنا بلا عذر جائز نہیں۔
        • قرآت شاذہ نہ ہو۔
          • حالتِ اقامت (یعنی حضر) میں جبکہ اطمینان ہو تو سنت یہ ہے کہ نماز فجر کی دونوں رکعتوں میں الحمد کے علاوہ چالیس یا پچاس آیتیں پڑھے، ایک روایت کے مطابق ساٹھ سے سو تک پڑھے۔ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں بھی فجر کے مثل یا اس سے کم پڑھے۔ عصر اور عشا کی پہلی دو رکعت میں الحمد کے سوا پندرہ یا بیس آیتیں اور مغرب میں پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں پانچ آیتیں یا کوئی چھوٹی سورة پڑھے۔ یہ آیتوں کی مقدار کے لحاظ سے قرآت مسنونہ کا ذکر تھا۔ سورتوں کے لحاظ سے قرآت مسنونہ یہ ہے کہ فجر اور ظہر میں طوال مفصل پڑھے، جو سورة حُجرات سے سورة بُرُوج تک ہیں، عصر اور عشا میں اوساط مفصل پڑھے ، جو والطارق سے لَمْ یَکُنْ تک ہیں، اور مغرب میں قصار مفصل پڑھے، جو وَ اِذَا زُلْزِلَتِ الأَرْضُ سے آخر قرآن یعنی وَالنَّاس تک ہے۔ یہ دونوں طریقے سنت ہیں لیکن مفصلات کا اختیار کرنا مستحسن ہے۔
          • اگر حالتِ اقامت میں اطمینان نہ ہو مثلاً وقت کی تنگی ہو یا اپنی جان و مال کا خوف ہو تو سنت یہ ہے کہ اس قدر پڑھ لے جس سے وقت اور امن فوت نہ ہو جائے۔
          • حالت سفر میں اگر اطمینان ہو مثلاً وقت میں وسعت اور امن و قرار ہے تو قرآت مسنونہ میں سے جس کا ذکر حالتِ اقامت میں ہوا ادنیٰ درجہ اختیار کرے ، مثلاً فجر و ظہر میں طوالِ مفصل کی کوئی چھوٹی سورة مثلاً سورة بروج یا انشقاق یا اس مانند کوئی اور سورة دونوں رکعتوں میں پڑھے ، عصر و عشا میں اوساط مفصل میں سے کوئی چھوٹی سورة اور مغرب میں بہت چھوٹی سورتیں پڑھے۔
          • اگر سفر میں اطمینا ن نہ ہو تو حسبِ حال و ضرورت جو بھی سورة چاہے پڑھ لے، خواہ سب سے چھوٹی سورة ہو یا کم سے کم تین آیتیں یا جو قرآت تین آیتوں کی مقدار ہو پڑھ لے۔
          • قرآت مسنونہ کا حکم فرضوں میں منفرد کے لئے بھی وہی ہے جو امام کے لئے ہے۔
          • امام کو چاہیے کہ سنت قرآت پر زیادتی کر کے مقتدیوں پر نماز بھاری نہ کرے۔
          • فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں دوسری رکعت سے طویل قرآت کرے ، باقی نمازوں میں برابر کرے۔ بعض کے نزدیک اس پر فتویٰ ہے اور بعض کے نزدیک فتویٰ اس پر ہے کہ سب نمازوں میں پہلی رکعت دوسری سے طویل کرے۔
          • دوسری رکعت کو پہلی رکعت پر تین آیتوں کی مقدار یا اور زیادہ لمبا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس سے کم کی زیادتی مکروہ نہیں۔
          • شریعت نے نماز میں آسانی کے لئے ہر جگہ سے قرآن مجید پڑھنے کی اجازت دی ہے، اس لئے نمازکے لئے کوئی سورة مقرر کر لینا مکروہ ہے، لیکن اگر آسانی کے لئے ہو افضلیت یا متعین کرنے کا گمان نہ ہو تو مکروہ نہیں، جو سورتیں جن نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنا ثابت ہیں ان کو ان نمازوں میں تبرکاً پڑھا کرے ، مثلاً فجر کی سنتوں کی پہلی رکعت میں قُلْ یَآ اَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ اور دوسری رکعت میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھنا ، اور نماز وتر میں پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ اور دوسری میں قُلْ یَآ اَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ اور تیسری میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھنا حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اور کبھی کبھی ان کے علاوہ بھی پڑھا کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اُن کا ہمیشہ پڑھنا ثابت نہیں ہے، جس شخص کو اپنی مقررہ سورتوں کے سوا دوسری یاد نہ ہوں اس کے لئے بھی مکروہ نہیں، نیز نماز شروع کرنے سے قبل یہ ذہن میں مقرر کر لینا کہ اب میں فلاں فلاں سورة پڑھوں گا مکروہ نہیں خواہ امام ہو یا منفرد، پھر اگر پڑھتے وقت اس کے خلاف کرے تب بھی مضائقہ نہیں۔
          • افضل یہ ہے کہ ہر رکعت میں پوری سورة پڑھے۔
          • دو رکعتوں میں ایک ہی سورة کو آخر سے پڑھنا ، یا دو سورتوں کے آخر کا حصہ پڑھنا ، یا پہلی رکعت میں کسی دوسری سورة کے شروع یا درمیان یا آخر کا پڑھنا ، یا دوسری رکعت میں کوئی چھوٹی سورة پڑھنا مثلاً پہلی رکعت میں اٰمَنَ الرَّسُوْلُ کا رکوع پڑھے اور دوسری میں سورة اِخْلَاصْ پڑھے تو ان سب سورتوں میں کوئی کراہت نہیں ہے، لیکن اولیٰ یہ ہے کہ بلا ضرورت ایسا نہ کرے۔
          • ایک رکعت میں ایسی دو سورتوں کا پڑھنا جن کے درمیان ایک سورت کا فاصلہ ہو مکروہ ہے، اگر فاصلہ نہ ہو تو مکروہ نہیں، لیکن فرضوں میں ایسا نہ کرنا اولیٰ ہے۔
          • اگر دونوں رکعتوں میں دو سورتیں پڑھے یعنی ہر رکعت میں ایک ایک سورة پڑھے اور ان دو سورتوں میں ایک بڑی سورة (یعنی چھ آیتوں سے زیادہ والی) یا دو چھوٹی سورتوں کا فاصلہ ہو تو مکروہ نہیں ، اور اگر ایک چھوٹی سورة کا فاصلہ ہے تو مکروہ ہے ، اور اسی طرح اگر پہلی رکعت میں ایک سورة میں سے ایک جگہ سے پڑھے اور دوسری رکعت میں اُسی سورة کو دوسری جگہ سے پڑھے تو اگر ان دونوں جگہوں کے درمیان میں دو آیتوں یا زیادہ کا فاصلہ ہو تو مکروہ نہیں ، لیکن یہ بھی خلاف اولیٰ ہے، اور اگر ایک آیت کا فاصلہ ہو تو مکروہ ہے، اور اگر ایک ہی رکعت میں ایسا کیا تو خواہ فاصلہ کم ہو یا زیادہ ہر حال میں مکروہ ہے، اگر سہواً ایسا ہو جائے تو قرآت کی حالت میں یاد آنے پر لوٹے اور چھوٹی ہوئی آیتوں کو پڑھ کر ترتیب صحیح کر لے۔
          • قرآن مجید کو الٹا پڑھنا یعنی ایک رکعت میں ایک سورة کا پڑھنا اور دوسری رکعت میں اُس سے پہلے کی کوئی سورت پڑھنا، مثلاً پہلی رکعت میں سورة اخلاص اور دوسری میں تَبَّتْ یَدَا یا اَلنَّصْر یا اَلْکَوْثَر یا النصر یا الکوثر وغیرہ پڑھنا مکروہ ہے، اسی طرح اگر ایک رکعت میں ایک آیت پڑھی اور دوسری رکعت میں یا اسی رکعت میں اس سے اوپر کی آیت پڑھی تب بھی مکروہ ہے، نماز کے باہر بھی اس طرح پڑھنا مکروہ ہے، لیکن اگر بھولے سے ہو جائے تو مکروہ نہیں بلکہ اب نماز میں شروع کر دینے کے بعد اس سورة کا چھوڑ دینا مکروہ ہے، اور خواہ بھول کر ایسا ہوا ہو یا جان بوجھ کر ہو اس پر سجدہ سہو نہیں ہے، کیونکہ یہ تلاوت کے واجبات میں سے ہے نماز کے واجبات میں سے نہیں ، لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنے والے کے لئے سخت وعید آئی ہے۔ (بچوں کو یاد کی آسانی کے لئے آخری سپارہ اخیر کی طرف سے الٹا پڑھاتے ہیں یہ ضرورت کی وجہ سے جائز ہے)۔
          • نماز میں جو سورة شروع کر دی اس کو بلا وجہ چھوڑ کر دوسری شروع کرنا مکروہ ہے۔
          • جو سورة پہلی رکعت میں پڑھی ہے وہی سورة دوسری رکعت میں پڑھ لی تو کچھ حرج نہیں، لیکن بلا ضرورت ایسا کرنا بہتر نہیں ہے، یعنی خلاف اولیٰ و مکروہ تنزیہی ہے۔
          • ایک سورة یا ایک آیت کو ایک رکعت میں بار بار پڑھنا فرض نماز میں مکروہ ہے ، جبکہ اختیار سے ہو حالتِ عذر یا نسیان میں مکروہ نہیں۔ کراہت کی تفصیل فرض نمازوں کے لئے ہے نفلوں اور سنتوں میں ان کراہتوں میں سے کوئی صورت مکروہ نہیں ہے۔
      • قاری کی لغزشوں کا بیان
          قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر قرآت میں ایسی غلطی ہو جس سے تغیر فاحش ہو جائے تو نماز فاسد ہو جائے گی ورنہ نہیں، تغیر قرآت کی چند مشہور اقسام مع احکام یہ ہیں۔ ایک کلمہ کے ایک حرف کو دوسرے کلمہ کے حرف سے ملا دینا ، جیسے اِیَّاکَ نَعبُدُ ُ کو اِیَّاکَ نَعبُدُ پڑھا تو صحیح یہ ہے کہ نماز فاسد نہیں ہو گی۔ ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدل دینا ، اگر معنی نہ بدلے مثلاً اِنَّ المُسلِمِینَ کو اِنَّ المُسلِمُونَ پڑھا تو نماز فاسد نہ ہو گی، اور اگر معنی بدل گیا تو اگر ان میں فرق کرنا آسان ہے اور پھر فرق نہیں کیا جیسے طالحات کی جگہ صالحات پڑھ دیا تو نماز فاسد ہو جائے گی، اور اگر فرق کرنا مشکل ہے تو فتویٰ اس پر ہے کہ نماز فاسد نہیں ہو گی مگر صحت کی کوشش کرتا رہے۔
          کسی حرف کا حذف کر دینا اگر ایجاز و ترخیم کے طور پر ہو تو نماز فاسد نہ ہو گی ، اس کے علاوہ ہو تو معنی بدلنے پر نماز فاسد ہو گی ورنہ نہیں۔ کسی ایک یا زیادہ حرف کی زیادتی سے اگر معنی بدل جائے تو نماز فاسد ہو گی ورنہ نہیں۔
          ایک کلمہ کو چھوڑ کر اس کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھا اگر وہ کلمہ قرآن مجید میں ہے اور معنی میں تغیر نہیں ہوتا تو بالاتفاق نماز فاسد نہ ہو گی، اور اگر معنی میں تغیر ہے تو نماز فاسد ہو گی ، اور اگر وہ کلمہ قرآن مجید میں نہیں ہے لیکن معنی میں اس کے قریب ہے تو احتیاطاً نماز فاسد ہو گی۔
          ایک کلمہ کو چھوڑ گیا اور اس کے بدلے میں بھی کوئی کلمہ نہیں پڑھا تو اگر معنی نہیں بدلا تو نماز فاسد نہ ہو گی اور اگر معنی بدل گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔
          کوئی کلمہ زیادہ کرنا اور وہ کسی کلمے کے عوض میں بھی نہ ہو، پس اگر معنی بدل جائے تو نماز فاسد ہو گی ورنہ نہیں۔ حرف یا کلمے کا تکرار، پس اگر حرف کی زیادتی ہو گی تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر کلمے کی زیادتی ہو گی تو معنی بدل جانے پر نماز فاسد ہو جائے گی ورنہ نہیں ، اگر کلمہ بے ساختہ دوبارہ نکل گیا یا مخرج کو صحیح کرنے کے لئے کلمے کو دوبارہ کہا یا کوئی بھی ارادہ نہ کیا تو نماز فاسد نہ ہو گی۔ کلمہ یا حرف کی تقدیم و تاخیر سے اگر معنی نہ بدلے تو نماز فاسد نہ ہو گی او ر اگر معنی بدل گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔
          ایک آیت کو دوسری کی جگہ پڑھ دینا اگر آیت پر پورا وقف کر کے دوسری آیت پوری یا تھوڑی سی پڑھی تو نماز فاسد نہ ہو گی اور اگر وقف نہ کیا بلکہ ملا دیا تو معنی بدل جانے کی صورت میں نماز فاسد ہو گی ورنہ نہیں۔ بےموقع وقف و وصل و ابتدا کرنا، عموم بلویٰ کی وجہ سے فتویٰ اسی پر ہے کہ کسی صورت میں نماز فاسد نہ ہو گی۔ اعراب و حرکات میں غلطی کرنا، متقدمین کے نزدیک اگر معنی میں بہت تغیر ہوا تو نماز فاسد ہو جائے گی ورنہ نہیں، اس میں احتیاط زیادہ ہے اور ایسی نماز کو لوٹا لینا ہی بہتر ہے، اگرچہ متاخرین کے نزدیک کسی صورت میں بھی نماز فاسد نہ ہو گی اور عموم بلویٰ کی وجہ سے اسی پر فتویٰ ہے۔
          تشدید کی جگہ تخفیف اور تخفیف کی جگہ تشدید کرنا یا مد کی جگہ قصر اور قصر کی جگہ مد کرنا اس میں بھی اعراب کی طرح عموم بلوٰی وجہ سے فتویٰ اس پر ہے کہ نماز فاسد نہیں ہو گی۔ ادغام کو اس کے موقع سے چھوڑ دینا یا جہاں اس کا موقع نہیں ہے وہاں ادغام کرنا اس میں بھی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ بے موقع امالہ یا اخفا یا اظہار یا غنہ وغیرہ کرنا ان سب میں بھی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ کلمے کو پورا نہ پڑھنا خواہ اس سبب سے کہ سانس ٹوٹ گیا یا باقی کلمہ بھول گیا اور پھر یاد آنے پر پڑھ دیا مثلاً الحمد للہ میں ال کہہ کر سانس ٹوٹ گیا باقی کلمہ بھول گیا پھر یاد آیا اور حمدللہ کہہ دیا تو فتویٰ اس پر ہے کہ اس سے بچنا مشکل ہے اس لئے نماز فاسد نہ ہو گی، اسی طرح کلمے میں بعض حروف کو پست پڑھا تو نماز فاسد نہ ہو گی۔
          تلحین (راگنی) سے پڑھنا یعنی نغموں کی رعایت سے حروف کو گھٹا بڑھا کر پڑھا تو اگر معنی بدل جائے تو نماز فاسد ہو جائے گی ورنہ نہیں ، لیکن ایسا پڑھنا مکروہ اور باعث گناہ ہے اور اس کا سننا بھی مکروہ ہے۔ اللہ تعالٰی کے ناموں میں تانیث داخل کرنا، بعض کے نزدیک اس سے نماز فاسد ہو جائے گی بعض کے نزدیک فاسد نہیں ہو گی۔
          فائدہ: اگر کسی نے قرأت میں کھلی ہوئی غلطی کی پھر لوٹا کر صحیح پڑھ لیا تو اس کی نماز جائز و درست ہے۔
    • رکوع
      • رکوع کے معنی جھکنے کے ہیں، اس کی ادنیٰ مقدار یہ ہے کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں، اس سے کم قیام کی حالت ہے ، پورا رکوع یہ ہے کہ پیٹھ سیدھی بچھائے یعنی سر اور پیٹھ اور سرین ایک سیدھ میں ہو جائیں ، اگر بیٹھے ہوئے رکوع کرے تو اس کی ادنیٰ حد یہ ہے کہ سر بمعہ کمر کے کسی قدر جھک جائے اور اس کا پورا رکوع اس طرح ہے کہ اس کی پیشانی دونوں زانوؤں کے سامنےآ جائے۔
        اگر کوئی اتنا کبڑا ہو کہ رکوع کی حد تک جھکا ہو یا بڑھاپے کی وجہ سے اس قدر کمر جھک گئی ہو تو ایسے شخص کے لئے سر سے اشارہ کرنا کافی ہے ، پس اس کے سر کو جھکا دینے سے اس کا رکوع ادا ہو جائے گا ، بلا عذر صرف سر جھکا دینے سے رکوع ادا نہیں ہو گا۔
        ہر رکعت میں صرف ایک مرتبہ رکوع کرنا فرض ہے۔
    • دو سجدے
      • زمین پر پیشانی رکھنے کو سجدہ کہتے ہیں، ہر رکعت میں دو مرتبہ سجدہ کرنا فرض ہے۔
      • بلا عذر صرف پیشانی پر سجدہ کیاتو جائز ہے مگر مکروہ ہے، اور بلاعذر صرف ناک پر سجدہ کیا تو سجدہ ادا نہ ہو گا، عذر کے ساتھ تب جائز ہے جبکہ ناک کا سخت حصہ زمین پر ٹک جائے ورنہ جائز نہیں۔
      • صرف رخسار یا ٹھوری پر سجدہ خواہ عذر سے ہو یا بلا عذر کسی حالت میں بھی جائز نہیں، پس اگر پیشانی اور ناک دونوں پر عذر ہے مثلاً زخم ہےتو سجدے کے لئے سر سے اشارہ کر لینا کافی ہے، کسی اور عضو سے سجدہ نہ کرے۔
      • کسی ایسی نرم چیزپر سجدہ جائز نہیں جس میں سر دھنس جائے اور پیشانی و ناک قرار نہ پکڑے ، مثلاً گھاس ، بھس ، روئی ، قالین ، صوفہ ، تکیہ ، بچھونا یا بلا جمی ہوئی برف وغیر ہ ، اور اگر وہ چیزاس قدر سخت ہو کہ پیشانی و ناک اس پر قرار پکڑ لے اور مزید دبانے سے نہ دبے اور سر نیچےنہ جائےتو جائز ہے ۔ چارپائی اگر تخت کی طرح سخت ہے کہ اس میں سر نہ دھنسےاور پیشانی قرار پکڑ لے تو اس پر جائز ہے ۔ مچان پر جب کہ تخت کی طرح سخت ہو سجدہ جائز ہے، اور اگر گھاس وغیرہ کی وجہ سے اتنی نرم ہو کہ سر دھنس جائے اور قرار نہ پکڑے تو سجدہ جائز نہیں۔ گیہو ں یا جَو کے دانوں پرسجدہ جائز ہے ۔ مکئی یا جوار یا چنے یا چاولوں پر جائز نہیں، کیو نکہ یہ پھسل کرپیشانی کو جمنے نہیں دیتے اور اگر یہ اناج تھیلوں وغیرہ میں کس کر بھرےہوں تو ان پر سجدہ جائز ہے۔
      • بیل گاڑی یا یکہ وغیرہ جانور کے کندھے پر نہ ہوں تو سجدہ جائز ہے، اور اگر اس کا جُوا یا بم بلن اور گھوڑے وغیرہ پر ہے تو سجدہ جائز نہیں۔
      • اگر کسی نے ہجوم وغیرہ میں عذر کی وجہ سے کسی دوسرے آدمی کی پیٹھ پر سجدہ کیا تو اس کا سجدہ جائز و صحیح ہونے کے لئے چھ شرطں ہیں،
        • دونوں نماز میں ہوں
        • دونوں ایک ہی نماز جماعت سے پڑھ رہے ہوں
        • ساجد کے گھٹنے زمین پر ٹکے ہوئے ہوں
        • مسجود علیہ کا سجدہ زین پر واقع ہو
        • ساجد کا سجدہ مسجود علیحد کی پیٹھ پر ہو کسی اور عضوپر نہ ہو
      • صافہ (پگڑی) کے پیچ پر عذر کے بغیر سجدہ کرنا درست ہے جبکہ پیچ پیشانی پر ہو اور زمین پر خوب جم جائے، مگر مکروہِ تنزیہی ہے ، اور اگر پیشا نی زمین پر نہیں جمی یا سر کے کسی حصے پر سجدہ کیاتو جائز نہیں۔
      • اگر قدموں کی جگہ سجدے کی جگہ سے ایک بالشت یعنی بارہ انگل تک اونچی ہو تو سجدہ جائز ہو گا ، اور اگر اس سے زیادہ اونچی ہو تو بلا عذر جائز نہیں ، عذر کی وجہ سے جائز ہے۔
      • سجدے میں کم از کم ایک پاؤں کا زمین پر رکھنا ضروری ہے ،اگر سجدہ کیا اور دونوں پاؤں زمین پر نہ رکھے تو سجدہ جائز نہیں اور اگر ایک پاؤں رکھا تو عذر کے ساتھ بلا کراہت جائز ہے، اور بلاعذر کراہت کے ساتھ جائز ہے، پاؤں کا رکھنا انگلی کے رکھنے سے ہے اگرچہ ایک ہی انگلی ہے۔
      • سوتے ہوئے سجدہ کیا تو جائز نہیں اس کا اعادہ کرے۔
    • آخرقعدہ
      • نمازکی رکعتیں پوری کرنے کے بعد بیٹھنے کو قعدہ اخیرہ کہتے ہیں، تمام نمازوں میں خواہ وہ فرض ہوں یا واجب یا سنت و نفل قعدہ اخیرہ فرض ہے۔
      • قعدہ اخیرہ میں بقدر تشہد یعنی التحیات تا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ صحتِ الفاظ کے ساتھ جلدی جلدی پڑھنے کی مقدار بیٹھنا فرض ہے خواہ تشہد پڑھے یا نہ پڑھے، اور تشہد کا پڑھنا واجب ہے جیسا کہ واجبات میں بیان ہو گا۔
      • نمازِجنازہ میں قعدہ اخیرہ نہیں ہے
      • فائدہ : خُرُوج بِصُنعِہٖ ِ یعنی اپنے اختیار سے نماز سے باہر ہونا اختلافی ہے، بعض نےاس کو رکن اور فرض شمار کیا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ فرض و رکن نہیں ہے۔
  • نماز کے واجبات
    • فرض کی دو رکعتوں اور باقی نمازوں کی ہر رکعت میں سورة فاتحہ پڑھنا
    • سورة فاتحہ صرف ایک بار پڑھنا
    • فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورة ملانا
    • سورت کا سورة فاتحہ کے بعد ملانا
    • باقی نمازوں کی ہر رکعت میں سورة ملانا
    • قومہ
    • جلسہ
    • قعدہ ء اولیٰ
    • دونوں قعدوں میں تشہد پڑھنا
    • قعدہ ء اولیٰ میں تشہد کے بعد کچھ نہ پڑھنا
    • امام کے پیچھے مقتدی کا چپ رہنا
    • سوائے قرآت کے تمام واجبات میں امام کی متابعت کرنا
    • ترتیب قائم رکھنا
    • تمام ارکان سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرنا
    • امام کو فجر، مغرب، عشاء، جمعہ، عیدین، تراویح اور رمضان کے وتروں میں جہری قرآت کرنا
    • ظہر اور عصر میں آہستہ قرآت کرنا
    • عیدین میں 6تکبیریں زائد کہنا
  • نماز کی سُنتیں
    • تکبیر تحریمہ میں دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا
    • ہتھیلیوں کا قبلہ رخ ہونا۔
    • امام کا نماز کی تکبیریں بلند اواز سے کہنا
    • ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا
    • ثنا، تعوذ، تسمیہ آہستہ پڑھنا
    • فاتحہ کے بعد آمین آہستہ کہنا
    • انتقال ارکان میں اللّٰه اکبر کہنا
    • ہر رکعت کی ابتدا بسم اللّٰه سے کرنا
    • صرف فرض کی تیسری اور چوتھی رکعتوں میں فاتحہ پڑھنا
    • رکوع و سجود میں تین بار تسبیح پڑھنا
    • رکوع میں ٹانگیں سیدھی رکھنا اور ہاتھوں کا گھٹنوں سے پکڑنا تاکہ کمر بالکل برابر رہیں
    • رکوع سے اٹھتے وقت امام کا سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَہٗ زور سے کہنا اور مقتدی کا رَبَّنَا لَکَ الحَمْد چپکے سے کہنا اور منفرد کا دونوں چپکے سے کہنا
    • سجدے میں جاتے وقت پہلے گھٹنے، پھر ہاتھ، پھر ناک پھر پیشانی رکھنا اور اٹھتے وقت بالعکس کرنا
    • بازو کروٹوں سے اور پیٹ رانو ں سے جدا رکھنا البتہ جماعت میں صف میں بازو کروٹوں سے جدا نہ ہوں
    • کلائیاں زمین سے اونچی رکھنا اور انگلیوں کا ملی ہوئی قبلہ رو ہونا
    • جلسہ میں دایاں پاؤں کھڑا کرکے اور بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا
    • ہاتھوں کا رانوں پر رکھنا
    • سجدہ میں دونوں پاؤوں کا پیٹ زمیں پر لگانا اور انگلیوں کا قبلہ رو رکھنا
    • تشہد میں شہادت کی انگلی باقی انگلیوں کا حلقہ بنا کر لا پر اٹھانا اور الا اللّٰه پر گرا کر تا سلام یا قیام اس حالت میں رکھنا
    • تشہد کے بعد درود شریف اور کوئی دعا مسنونہ پڑھنا
    • سلام دو بار کہنا پہلے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف
    • امام کا دائیں طرف بلند آواز سے سلام کہنا لیکن بائیں طرف سلام ذرا کم آواز سے کہنا
  • نماز کے مستحبات
    • دو قدموں کے درمیاں چار انگلیوں کے برابر فاصلہ رکھنا
    • رکوع و سجود میں تین سے زیادہ طاق مرتبہ تسبیحات پڑھنا لیکن امام کو مسنون پر اکتفا کرنا چاہیئے
    • قیام کے وقت سجدہ گاہ پر، رکوع میں دونوں پاؤں کے پشت پر، سجدے میں ناک کے سرے پر قعدہ میں اپنی گود پر اور سلام میں اپنی شانوں پر نظر رکھنا
    • جمائی کے وقت منہ بند رکھنا اور کھل جائے تو ہاتھ کے پشت سے اس کو دھکنا
  • نماز کے مفسدات (جن سے نماز ٹوٹ جائے)
    • بھول کر یا قصداً کسی سے بات کرنا
    • کسی کو قصداً یا سہواً سلام کرنا یا اس کا جواب دینا
    • کوئی حرف ایسا ادا کرنا جو نماز میں نہ ہو
    • اللّٰہ تعالیٰ کا نام سن کر جل جلالہ اور آپ ﷺ کا سن کر درود شریف بقصد جواب پڑھنا
    • اپنے امام کے سوا دوسرے کو لقمہ دینا
    • امام کا کسی غیر مقتدی سے لقمہ لینا
    • مصیبت کی وجہ سے آہ یا اف وغیرہ کرنا
    • نماز پوری ہونے سے پہلے بقصد سلام پھیرنا
    • نماز میں قرآن شریف دیکھ کر پڑھنا
    • 10۔ قرآت یا اذکارِ نماز میں ایسی غلطی کرنا کہ معنی بالکل بدل جائے۔
    • 11۔ کچھ کھانا پینا ، ہاں دانتوں میں کوئی چیز ایسی ہو جو چنے سے کم ہو اس کا نگلنا معاف ہے۔
    • سینہ کو قبلہ سے پھیرنا
    • بچہ کا عورت کا چھاتی چوسنا اور دودھ نکل آنا
    • عورت کا نماز کے دوران مرد کا بوسہ لینا یا شہوت سے چھونا
    • جزوی مسائل
  • نماز کے مکروہات
    • کپڑا سمیٹنا
    • کپڑا لٹکانا
    • آستین آدھی کلائی سے زیاد چڑھانا
    • پاخانے اور ریاح کی شدت کے وقت نماز پڑھنا
    • انگلیاں چٹخانا
    • 6انگلیوں کا قینچی باندھنا
    • ادھر ادھرمنہ پھیرنا
    • آسمان کی طرف دیکھنا
    • کسی کے منہ کے سامنے نماز پڑھنا
    • جاندار کی تصویر والے کپڑے پہن کر یا جانماز پر نماز پڑھنا
    • دائیں، بائیں یا سر کی جانب تصویر کا ہونا
    • سورتوں کی ترتیب کو الٹ کرنا
    • امام سے پہلے مقتدی کا رکوع و سجود میں جانا
    • قبر کا بغیر کسی حائل کے سامنے ہونا
    • سجدہ سہو کب کرنا چاہیئے
    • جب نماز کا کوئی واجب بھولے سے چھوٹ جائے
    • کسی فرض کو مکرر کیا جائے
    • نماز کے فرض یا واجب میں زیادتی ہو جائے مثلاً قعدہ اول کے تشہد کے بعد درود شریف کا پڑھنا
    • نماز کب توڑی جا سکتی ہے؟

    • سانپ، بچھو کو مارنے کے لئے جب کسی کے ڈسے جانے کا اندیشہ ہو۔
    • کوئی جانور بھا گ گیا ہو۔
    • نقصان کا خوف ہو۔
    • اجنبی عورت نے چھودیا ہو۔
    • پیشاب کی شدت محسوس ہو
    • کسی مصیبت زدہ کو جس کا فوراً بچانا لازم ہو، بچانے کے لئے۔
  • سجدہ سہو کے مسائل
    • تعریف
      • سہو بھول جانے کو کہتے ہیں، جب کبھی نماز میں بھولے سے ایسی کمی یا زیادتی ہو جائے جس سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی لیکن ایسا نقصان آ جاتا ہے جس کی تلافی نماز میں ہی ہو سکتی ہے۔اس نقصان کی تلافی کے لئے شرع شریف نے یہ طریقہ مقرر کر دیا ہے کہ آخری قعدے کے تشہد کے بعد دائیں طرف سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کئے جاتے ہیں، ان کو سجدۂ سہو کہتے ہیں، مفصل طریقہ آگے آتا ہے۔
    • حکم
      • سجدہ ٔ سہو کی ضرورت کے وقت سجد ہ ٔ سہو کے لئے دو سجدے کرنا واجب ہیں، وقت کی گنجائش ہونے اور مکروہ وقت نہ ہونے کی صورت میں اس کے ترک پر گناہگار ہو گا اور اس نماز کا اعادہ واجب ہو جائے گا، نماز کا اعادہ کرنے سے وہ گناہ بھی دور ہو جائے گا، سجدۂ سہو کا یہ حکم فرض و واجب و سنت و نفل سب نمازوں کے لئے یکساں ہے۔ اگر نماز میں ایک سے زیادہ مرتبہ سہو ہوا ہو یعنی کئی باتیں ایسی ہو گئیں جن سے سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے تب بھی ایک ہی دفعہ سہو کے دو سجدے واجب ہوں گے۔
    • سجدہِ سہو کرنے کا طریقہ مع ضروری احکام
      • سجدۂ سہو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قعدہِ اخیرہ میں تشہد (پوری التحیات) پڑھنے کے بعد صرف ایک طرف سلام پھیر کر اللہ اکبر کہتا ہوا سجدے میں چلا جائے اور نماز کے سجدے کی طرح تین بار سجدہ کی تسبیح پڑھے، پھر تکبیر ’’اللہ اکبر‘‘ کہتا ہوا سجدے سے سر اٹھائے اور اطمینان سے سیدھا بیٹھنے کے بعد پھر تکبیر کہتا ہوا دوسرے سجدے میں جائے اور اسی طرح سجدہ کرے، پھر تکبیر کہتا ہوا سجدے سے سر اٹھائے اور بیٹھ کر پھر سے تشہد (پوری التحیات) پڑھے اور درود شریف و دعا پڑھ کر نماز ختم کرنے کے لئے دونوں طرف کا سلام پھیر دے۔
      • اگر کوئی بھول کر ایک طرف بھی سلام نہ پھیرے اور سجدۂ سہو کر لے تب بھی ادا ہو جائے گا، اگر سامنے ہی سلام کہہ کر سجدۂ سہو کر لے تب بھی جائز ہے، لیکن دانستہ ایسا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے۔ ہی سلام کہہ کر سجدہِ سہو کر لے تب بھی جائز ہے، لیکن دانستہ ایسا کرنا مکروہِ تنزیہی ہے
      • اگر دونوں طرف سلام پھیر کر سجدۂ سہو کیا تو ایک روایت کے مطابق یہ بھی جائز ہے لیکن قوی بات یہ ہے کہ ایک ہی طرف یعنی داہنی طرف سلام پھیر کر سجدۂ سہو کرے، اگر دونوں طرف سلام پھیر دیا اب سجدۂ سہو نہ کرے بلکہ نماز کا اعادہ کرے۔
      • درود و دعا سجدۂ سہو کے بعد کے قعدہ میں پڑھے یہی صحیح و مختار ہے، لیکن بعض علما نے سجدۂ سہو سے پہلے بھی التحیات کے بعد درود شریف و دعا پڑھنا احتیاطاً پسند کیا ہے، اس لئے احتیاط اس میں ہے کہ سجدۂ سہو سے پہلے اور بعد دونوں قعدوں میں یہ تینوں چیزیں پڑھ لے۔
      • سہو کے دونوں سجدوں کے بعد قعدہ کرنا نماز کا رکن نہیں ہے بلکہ نماز کا رکن وہی قعدہ ہے جو سجدۂ سہو سے پہلے کیا گیا ہے، اور وہ قعدہ سجد ہ ٔ سہو سے باطل نہیں ہوتا کیونکہ وہ قوی ہے، لیکن سجدۂ سہو کے بعد قعدہ کرنا اور سلام پھیرنا واجب ہے، اگر اس کو ترک کر دے گا تو نماز کا اعادہ واجب ہو گا۔
    • جن چیزوں سے سجدہ واجب ہوتا ہے
      • جب نماز کے واجبات میں سے کوئی واجب بھولے سے چھوٹ جائے۔
      • جب بھولے سے کسی واجب میں تاخیر ہو جائے۔
      • جب بھولے سے کسی فرض میں تاخیر ہو جائے۔
      • جب بھول کر کسی فرض کو مقدم کر دے۔
      • جب بھول کر کسی فرض کو مکرر (دوبارہ) کر دے مثلاً دو رکوع کر دے۔
      • جب بھول کر کسی واجب کی کیفیت بدل دے، مثلاً آہستہ پڑھنے کی جگہ جہر سے یا جہر کی جگہ آہستہ پڑھے (دراصل ان سب صورتوں میں سجدۂ سہو واجب ہونے کا سبب ترکِ واجب ہی ہے)۔
    • جن صورتوں میں سجدہِ سہو سے تدارک ممکن نہیں ہے بلکہ اعادہ ضروری ہے
      • جن امور کو بھول کر کرنے سے سجدۂ سہو واجب ہوتا ہو اگر قصداً کئے جائیں تو سجدۂ سہو سے اس کا تدارک نہیں ہو سکتا بلکہ لوٹانا واجب ہے، اور اگر نماز کے فرائض میں سے کوئی فرض عمداً چھوٹ جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے، اس کے لئے سجدۂ سہو جائز نہیں بلکہ اس کا لوٹانا فرض ہے۔ اگر سجدۂ سہو واجب ہونے کی صورت میں سجدۂ سہو نہ کیا تب بھی اس نماز کا اعادہ واجب ہے۔
    • جن صورتوں میں نہ سجدہِ سہو واجب ہوتا ہے اور نہ اعادہ ضروری ہوتا ہے
      • سنت و مستحب کے ترک پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا اور نہ ہی نماز کا اعادہ لازم آتا ہے، خواہ ترکِ سنت و مستحب سہواً ہو یا قصداً البتہ اعادہ مستحب ہے۔
      • اگر کوئی ایسا واجب ترک ہوا جو نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے بلکہ اس کا وجوب خارجی امر سے ہے تو سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا، مثلاً خلافِ ترتیب قرآن مجید کا پڑھنا یہ واجباتِ تلاوت میں سے ہے واجباتِ نماز میں سے نہیں اس لئے اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا، لیکن سجدۂ تلاوت کی تاخیر پر سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے، کیونکہ یہ قرآت کے تابع ہو کر واجبا ت نماز میں بھی شمار ہو گا۔
      • وقت تنگ ہونا: پس اگر صبح کی نماز میں پہلا سلام پھیرا اور ابھی سجد ہ ٔ سہو نہیں کیا کہ سورج نکل آیا، یا جمعہ و عیدین کی نماز میں ان کا وقت جاتا رہا تو سجدۂ سہو ساقط ہو جائے گا اور نماز کا اعادہ بھی لازم نہیں ہو گا۔
      • مکروہ و ممنوع وقت ہو جانا: پس اگر کسی شخص کو عصر کی نماز میں سجدہ واجب ہوا اور پہلا سلام پھیرنے کے بعد سجدۂ سہو کرنے سے پہلے سورج متغیر ہو گیا، یا فجر کی نماز میں اس وقت سورج نکل آیا یا نصف النہار کا وقت ہو گیا تو سجدۂ سہو ساقط ہو گیا اور پھر اس نماز کا اعادہ بھی لازم نہیں ہے۔
      • اگر سلام کے بعد کوئی چیز نماز کو توڑنے والی پائی گئی، مثلاً حدث یا کلام کرنا وغیرہ تو اس سے سجدۂ سہو ساقط ہو جائے گا، پھر اگر وہ امر نمازی کے اپنے فعل سے واقع ہوا تو اعادہ واجب ہے ورنہ نہیں۔
      • اگر کسی پر فرض نماز میں سجدۂ سہو واجب ہوا اور سلام سے قبل اس نے عمداً اس پر نفل نماز کی بنا کر لی تو نفل کے آخر میں سجدہ نہ کرے، کیونکہ اب اس سے سجدۂ سہو ساقط ہو گیا، لیکن ان فرضوں کا لوٹانا واجب ہو گا، اور اگر فرضوں پر نفلوں کی بنا بھول کر ہو گئی تو سجدۂ سہو ساقط نہیں ہو گا، نفلوں کے آخر میں سجدۂ سہو کرے اس کے فرض اور دوگانہ نفل صحیح ہو جائیں گے۔
    • سجدہِ سہو واجب ہونے کے مسائل
      • قبل ازیں اصول بیان ہوئے اور اب ان کی جزیات بیان ہوتی ہیں۔
        • اول: الحمد اور سورت کی قرآت کے متعلق جزیات۔
          • اگر فرض کی پہلی یا دوسری یا پہلی دونوں رکعتوں میں یا واجب یعنی وتر یا سنتوں و نفلوں کی کسی رکعت میں سورة الفاتحہ چھوڑ دی تو سجدۂ سہو واجب ہو گا، اور صحیح یہ ہے کہ اگر سورة الفاتحہ کی ایک آیت بھی چھوڑ دی تو سجدۂ سہو لازم ہو گا۔ اگر سورت پڑھنے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے یا رکوع میں یا رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یاد آیا کہ الحمد نہیں پڑھی تو واپس لوٹے اور پہلے الحمد پڑھے اور پھر سورت اور رکوع کا اعادہ کرے تاکہ یہ امور ترتیب وار ہو جائیں، اور آخیر میں سجدۂ سہو کرے، اگر رکوع کا اعادہ نہیں کرے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ اگر فرضوں کی آخیر کی دو رکعتوں یا ایک رکعت میں الحمد چھوڑی تو سجدۂ سہو واجب نہیں ہو گا۔
          • اگر فرض کی پہلی دو رکعتوں میں سے کسی رکعت میں یا وتر و سنتوں و نفلوں کی کسی بھی رکعت میں سورت ملانے سے پہلے الحمد دوبارہ پڑھی یا دوسری دفعہ آدھی سے زیادہ پڑھی تو سجدۂ سہو واجب ہو گا، لیکن اگر سورت ملانے کے بعد الحمد دوبارہ پڑھی یا فرضوں کی آخیر کی رکعتوں میں الحمد دوبارہ پڑھی تو اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہو گا۔
          • اگر فرضوں کی پہلی دو رکعتوں یا ان دونوں میں سے ایک رکعت میں یا وتروں و سنت و نفل کی کسی رکعت میں الحمد پڑھی اور بھول کر سورت چھوڑ دی یا تین آیتوں کی مقدار سے کم قرآت کی تو سجدۂ سہو واجب ہو گا۔ اگر بغیر سورت پڑھے رکوع میں چلا گیا پھر یاد آیا تو رکوع سے واپس لوٹے اور سورت پڑھے پھر دوبارہ رکوع کرے اور اس پر سجدۂ سہو بھی واجب ہو گا۔ اگر صرف الحمد یا صرف سورت چھوٹ جائے اور رکوع میں یاد آنے کی صورت میں اس کو پڑھنے کے لئے رکوع سے واپس نہ لوٹے بلکہ اسی طرح نماز پوری کر لے اور اخیر میں سجدۂ سہو کر لے تب بھی نماز صحیح ہو جائے گی۔
          • اگر فرضوں کی اخیر کی دونوں یا ایک رکعت میں الحمد کے ساتھ سورت ملائی تو سجدۂ سہو واجب نہ ہو گا اگرچہ قصداً ملائی ہو لیکن امام کو اس سے بچنا چاہئے۔
          • اگر الحمد سے پہلے سورت پڑھی تو اگر کم از کم ایک آیت پڑھی ہو تو سجد ہ ٔ سہو واجب ہو گا، اس سے کم پڑھی ہو تو سجدۂ سہو واجب نہیں۔
          • اگر بھول کر رکوع یا سجدہ یا پہلے قعدے میں قرآت کی تو سجدۂ سہو واجب ہو گا، اور اگر آخیر قعدہ میں تشہد سے پہلے قرآت کی تب بھی سجدۂ سہو واجب ہو گا، اور اگر تشہد کے بعد قرآت کی تو سجدۂ سہو واجب نہ ہو گا اور نماز درست ہو گی۔
          • اگر سجدے کی آیت پڑھی اور سجدۂ تلاوت متصل کرنا بھول گیا پھر آگے زیادہ پڑھنے کے بعد یاد آیا اور سجدۂ تلاوت کیا تو سجدۂ سہو واجب ہو گا۔
        • دوم
          • فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں کو قرآت کے لئے معین کرنا واجب ہے، پس اگر فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورت ملانا بھول گیا تو پچھلی دونوں رکعتوں میں سورت ملائے اور سجدۂ سہو کرے، اور اگر پہلی رکعتوں میں سے ایک رکعت میں بھولے سے سورت نہ ملائی تو پچھلی ایک رکعت میں سورت ملا لے اور سجدۂ سہو کرے، اور اگر پچھلی رکعتوں میں سورت ملانا یاد نہ رہا اور بالکل آخیر رکعت میں التحیات پڑھتے وقت یاد آیا تب بھی سجدۂ سہو کرنے سے نماز درست ہو جائے گی۔
        • سوم
          • نماز کی ہر رکعت میں جو فعل مکرر ہے اس میں ترتیب واجب ہے، اس لئے اس کے خلافِ ترتیب واقع ہونے سے سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے، مثلاً اگر کسی سے کسی رکعت میں ایک سجدہ چھوٹ گیا اور آخیر نماز میں یاد آیا تو وہ سجدۂ نماز ادا کرے اور پھر قعدہ کر کے سجدۂ سہو کرے، پھر قعدہ کر کے سلام پھیرے، اس سے پہلے جتنے ارکان کر چکا ہو ان کا اعادہ واجب نہیں ہے۔
        • چہارم
          • تعدیل ارکان، اگر بھولے سے تعدیل ارکان نہ کرے یعنی رکوع و قومہ و دونوں سجدوں میں اور دونوں سجدوں کے درمیان جلسے میں کم از کم ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار نہ ٹھرے تو سجدۂ سہو واجب ہوگا، اور اگر دانستہ ایسا کرے تو اس نماز کو لوٹانا واجب ہے۔
        • پنجم
          • اگر فرض نماز کا پہلا قعدہ بھول کر کھڑا ہونے لگے تو جب تک بیٹھنے کے قریب ہو بیٹھ جائے اور سجدۂ سہو نہ کرے، اور اگر کھڑا ہونے کے قریب ہو جائے تو قعدے کو چھوڑ دے اور کھڑا ہو جائے، پھر آخیر میں سجدہ سہو کر لے نماز ہو جائے گی۔
        • ششم:تشہد (التحیات) پڑھنا
          • پہلے یا دوسرے قعدہ میں تشہد بالکل نہ پڑھی یا کچھ پڑھی اور کچھ نہ پڑھی تو سجدۂ سہو واجب ہے، خواہ وہ نماز فرض ہو یا واجب یا سنت یا نفل ہو۔
          • اگر تشہد کی بجائے الحمد یا کوئی سورت پڑھی تو سجدۂ سہو واجب ہو گا جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔
          • اگر فرض نماز کی پہلی رکعت کے قیام میں الحمد سے پہلے تشہد یا دعائے قنوت پڑھی تو سجدۂ سہو واجب نہ ہو گا، اور اگر فرض نماز کی دوسری رکعت میں الحمد سے پہلے تشہد پڑھی تو اس میں اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ تب بھی سجدۂ سہو واجب نہ ہو گا، اور اگر تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد سے پہلے تشہد پڑھی یا تسبیح وغیرہ کچھ ذکر پڑھا اور الحمد کے ساتھ قرآت کی تب بھی سجدۂ سہو واجب نہیں ہو گا۔ فرضوں کے علاوہ باقی نمازوں کی سب رکعتوں کے لئے وہی حکم ہے جو فرض نماز کے پہلے دوگانے کا بیان ہوا، اور اگر فرض نماز کی پہلی ایک یا دو رکعتوں میں اور وتر یا سنت و نفل کی کسی بھی رکعت میں الحمد کے بعد تشہد پڑھی تو سجدۂ سہو واجب ہو گا۔
          • اگر فرض یا غیر فرض کسی نماز کے پہلے قعدے میں دو بار تشہد پڑھی، یا فرض و واجب یا سنتِ مؤکدہ کے پہلے قعدے میں التحیات کے بعد درود شریف بقدر اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ یا اس سے زیادہ پڑھا تو سجدۂ سہو واجب ہو گا، اس مقدار سے کم پڑھا تو سجدۂ سہو واجب نہیں ہو گا، نفل و سنتِ غیر مؤکدہ کے پہلے قعدہ میں اس قدر یا زیادہ درود شریف پڑھ لینے سے بھی سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا۔
        • ہفتم
          • اگر رکوع کی جگہ سجدہ کیا یا سجدے کی جگہ رکوع کیا یا کسی رکن کو دو بار کر دیا یا کسی رکن کو اس کے موقع سے آگے یا پیچھے کر دیا تو ان سب صورتوں میں سجدۂ سہو واجب ہو گا۔
        • ہشتم: کھڑا ہونے کی جگہ بیٹھنا یا بیٹھنے کی جگہ کھڑا ہونا
          • اگر امام یا منفرد فرض یا وتر نماز کا قعدہ بھول کر کھڑا ہونے لگا تو جب تک بیٹھنے کے قریب ہے بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں، اور اگر سیدھا کھڑا ہو گیا یا کھڑا ہونے کے قریب ہو گیا تو واپس نہ لوٹے قعدہ ترک کر دے، آخیر میں سجدۂ سہو کر لے نماز ہو جائے گی، اور اگر پھر بھی واپس قعدہ کی طرف لوٹ گیا تو صحیح مذہب یہ ہے کہ اس کی نماز ادا ہو جائے گی، لیکن ایسا کرنے سے گناہگار ہو گا اور اس پر سجدۂ سہو واجب ہو گا۔
          • فرضوں اور وتروں کے آخری قعدہ اور سنتوں و نفلوں کے ہر قعدے کو بھولے سے ترک کر کے کھڑا ہونے کے بعد یاد آنے پر لوٹ آنا لازمی ہے، اور اس پر سجدۂ سہو واجب ہو گا۔
          • اگر کسی مقتدی کو یہ صورتیں پیش آئیں تو وہ امام کی متابعت کرے۔
          • اگر کوئی شخص چار رکعت والی فرض نماز میں چوتھی رکعت میں بیٹھنا بھول گیا اگر بیٹھنے کے قریب ہے تو بیٹھ جائے اس پر سجدۂ سہو لازم نہیں، اگر سیدھا کھڑا ہو گیا یا کھڑا ہونے کے قریب ہو گیا تو یاد آنے پر قعدے کی طرف لوٹ جائے، اور سجدۂ سہو کر لے حتیٰ کہ اگر اس رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے پہلے کسی وقت بھی یاد آنے پر لوٹ جائے اور سجدۂ سہو کر لے تو اس کی نماز درست ہو جائے گی، اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر چکا تو اب نہ لوٹے بلکہ اگر چاہے تو ایک رکعت اور ملا کر دوگانہ پورا کر کے سلام پھیر دے اور سجدۂ سہو نہ کرے یہ سب نماز نفل ہو جائے گی، لہذا فرض نماز کا اعادہ کرے اور اگر چاہے تو چھٹی رکعت نہ ملائے بلکہ پانچویں رکعت پر ہی سلام پھیر دے، اس صورت میں یہ چار رکعت نفل ہو جائے گی اور اس پر فرض کا اعادہ لازم ہے، پہلی صورت یعنی چھ رکعت پوری کر لینا مندوب و بہتر ہے، اور قعدہ آخیرہ کو ترک کر کے کھڑا ہونا خواہ عمداً یا سہواً دونوں کا حکم ایک ہی ہے، اور اگر زائد رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے لوٹ جائے تو سجدۂ سہو کرنے سے نماز درست ہو جائے گی، اور زائد رکعت کا سجدہ کر لینے کے بعد فرض نماز نفل کی طرف منتقل ہو جائے گی اور فرض کا اعادہ لازم ہو گا۔
          • اگر فرضوں کی چوتھی رکعت پر بقدر تشہد بیٹھا اور التحیات پڑھ کر کھڑا ہو گیا تو پانچوں رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے جب یاد آ جائے بیٹھ جائے اور التحیات نہ پڑھے بلکہ بیٹھ کر اسی وقت سلام پھیر کر سجدۂ سہو کرے، اور پھر قعدہ کر کے التحیات و درود و دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر چکا تب یاد آیا تو ایک رکعت اور ملا کر چھ رکعت پوری کرلے اور آخر میں سجدۂ سہو کر لے اس کی چار رکعتیں فرض اور دو رکعت نفل ہو جائیں گی، اگر مغرب کی نماز میں ایسا ہو تو بھی یہی حکم ہے، اگر اس صورت میں چار رکعتیں فرض میں پانچویں رکعت ملانے کے بعد اور مغرب میں چوتھی ملا کر سلام پھیر دے اور دوسری رکعت نہ ملائی تب بھی اس کی نماز درست ہو جائے گی، اور وہ ایک رکعت بیکار ہو جائے گی، لیکن ایسا کرنا مسنون طریقہ کے خلاف اور برا فعل ہے۔
          • چار رکعت سنتِ مؤکدہ کے بیچ کا قاعدہ ترک کرنے کا حکم بھی چار رکعت فرضوں کی مانند ہے۔
          • اگر چار رکعت نماز نفل یا سنت غیر مؤکدہ پڑھی اور بیچ کے قعدے میں بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسری رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو تب تک یاد آنے پر بیٹھ جانا چاہئے، آخیر میں سجدۂ سہو کرے، اور اگر تیسری رکعت کا سجدہ کر لیا تو وہ چار رکعت پوری کر کے سجدۂ سہو کر لے تب بھی اس کی نماز ہو جائے گی۔
        • نہم: قنوتِ وتر
          • اگر بھول کر دعائے قنوت چھوٹ گئی اور سورت پڑھ کر رکوع میں چلا گیا تو سجدۂ سہو لازم ہو گا، اور اگر قنوت کی تکبیر چھوٹ گئی تب بھی سجدۂ سہو واجب ہے، بعض کے نزدیک یہ تکبیر واجب نہیں ہے اس لئے اس کے ترک پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہے، علامہ شامی نے واجبات نماز کے بیان میں اسی کو ترجیح دی ہے، اگر بھولے سے وتر کی پہلی یا دوسری رکعت میں دعائے قنوت پڑھ لی تو تیسری رکعت میں پھر پڑھے اور سجدۂ سہو کرے۔ اگر نمازِ وتر میں دعائے قنوت کی جگہ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ الخ پڑھ گیا تو اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہے، اگر اس وقت یاد آ جائے تو دعائے قنوت بھی پڑھ لینا بہتر ہے۔
        • دھم: عیدین کی تکبیریں
          • اگر عیدین کی زائد چھ تکبیریں بھولے سے چھوڑ دیں یا کم یا زیادہ کیں یا ان کو اپنی جگہ کے علاوہ دوسری جگہ ادا کیا تو سجدۂ سہو واجب ہو گا، اگر امام عیدین کی تکبیریں بھول گیا اور رکوع میں چلا گیا تو قیام کی طرف لوٹے اور تکبیریں کہہ کر رکوع کرے اور سجدۂ سہو کرے، لیکن جمعہ و عیدین میں جبکہ جماعتِ کثیرہ ہو تو امام کے لئے بہتر یہ ہے کہ سجدۂ سہو نہ کرے تاکہ لوگ فتنہ (گڑبڑ ) میں نہ پڑیں۔
        • یازدہم: جہر اور آہستہ پڑھنے میں سہو ہونا
          • اگر امام نے آہستہ پڑھنے کی جگہ جہر کیا یا جہر کی جگہ آہستہ پڑھا تو سجدۂ سہو واجب ہو گا، اس کی مقدار امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ایک چھوٹی آیت ہے اور صاحبین کے نزدیک تین چھوٹی آیتیں ہیں یہی اصح ہے، الحمد اور دیگر قرآت کا اس بارے میں یکساں حکم ہے۔
          • اگر منفرد نمازی نے جہر کی جگہ آہستہ پڑھا تو اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں اور آہستہ پڑھنے کی جگہ جہر کرنے پر سجدۂ سہو واجب ہونے میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک اس پر سجدۂ سہو واجب ہے کیونکہ ان کے نزدیک سری نماز میں منفرد پر بھی آہستہ پڑھنا واجب ہے، اور بعض کے نزدیک یہ واجب نہیں ہے اس لئے اس پر سجدۂ سہو بھی واجب نہیں ہے، یہ ظاہر الروایہ ہے اور اکثر فقہا کا اسی پر فتویٰ ہے۔
        • دوازدھم: رکن کی مقدار تفکر کرنا
          • اگر الحمد پڑھ کر سوچنے لگا کہ کون سی سورت پڑھوں اور ایک رکن یعنی تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار سوچتا رہا تو اس پر سجدۂ سہو واجب ہو گا، اسی طرح اگر پڑھتے پڑھتے درمیان میں اتنی دیر رک گیا یا پہلے یا دوسرے قعدے میں فوراً التحیات شروع نہیں کی بلکہ اتنی دیر رکا رہا یا رکوع سے اٹھ کر یا دونوں سجدوں کے درمیان کے جلسہ میں تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار سوچتا رہا تو سجدۂ سہو واجب ہو گا، اسی طرح اگر نماز میں یہ شک ہوا کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار اور ایک رکن کی مقدار خاموش سوچتا رہا یا چوتھی رکعت کے لئے کھڑا ہونے میں تاخیر ہو گئی اس لئے اس پر بھی سجدۂ سہو واجب ہو گا، اگر تفکر سے ادائے فرض یا ادائے واجب میں کوئی تاخیر واقع نہیں ہوئی یعنی وہ ارکان و واجبات نماز ادا کرتا رہا اور سوچتا بھی رہا تو اس پر سجدۂ سہو لازم نہیں ہو گا، تفکر کی مقدار ہر جگہ ایک رکن ادا ہو سکنے یعنی تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکنے کی مقدار ہے، لیکن قرآت میں جس قدر کم از کم قرآت سے نماز جائز ہو جاتی ہے اس کی مقدار اور تشہد کے بعد اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ کی مقدار معتبر ہے کیونکہ یہ بھی اندازاً تین تسبیح کی مقدار ہی ہے۔
        • سیزدھم: تکرار رکن
          • اگر بھولے سے دو رکوع یا تین سجدے کر لے تو سجدۂ سہو واجب ہے۔
    • سجدہِ سہو کے متفرق مسائل
      • امام کے سہو سے امام اور مقتدی سب پر سجدۂ سہو واجب ہے خواہ مقتدی مدرک یعنی امام کے ساتھ شروع سے پوری نماز پانے والا ہو یا لاحق ہو یا مسبوق ہواور خواہ وہ امام کے سہو کے بعد شریک ہوا ہو۔ اگر کوئی شخص ایسے وقت میں جماعت میں شریک ہوا جب کہ امام سہو کا ایک سجدہ کر چکا ہے اور دوسرے سجدہ میں اس کی متابعت کرے اور پہلے سجدے کو قضا نہ کرے، اگر امام کے سہو کے دونوں سجدے کر لینے کے بعد جماعت میں شریک ہوا تو دونوں سجدے اس سے ساقط ہو گئے وہ ان کو قضا نہ کرے۔
      • اگر امام کے پیچھے مقتدی سے کوئی ایسا سہو ہو جائے جس سے سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے تو مقتدی پر اس کے اپنے سہو سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا۔
      • مسبوق سجدۂ سہو میں امام کی متابعت کرے،لیکن امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے۔
      • اگر مسبوق کو امام کے سلام کے بعد اپنی باقی (مسبوقانہ) نماز کے پڑھنے میں سہو ہو گیا تو وہ اس کے لئے آخیر نماز میں سجدۂ سہو کرے۔
      • طلوع کے بعد جب امام ختم نماز کا سلام پھیرے تو مسبوق امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے، اگر وہ قصدا سلام پھیر دے گا تو اس کی نماز جاتی رہے گی، اگر مسئلہ معلوم نہیں تھا اور اس نے یہ سمجھا کہ اس کو بھی امام کے ساتھ سلام پھیرنا چاہئے تو یہ بھی قصداً سلام پھیرنا ہوا اور اگر اس نے سہواً سلام پھیر دیا تو نماز فاسد نہ ہو گی، لیکن اگر اس کا سلام امام کے سلام کے بالکل ساتھ واقع ہوا تو اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے، اور اگر مسبوق نے امام کے سلام کے بعد سلام پھیرا تو اس پر سجدۂ سہو واجب ہو گا اس لئے وہ کھڑا ہو کر مسبوقانہ نماز پوری کر کے آخر میں سجدۂ سہو کرے اور پھر قعدہ کر کے تشہد و درود و دعا پڑھ کر سلام پھیرے۔
      • مسبوق کو چاہئے کہ امام کے سلام کے وقت تھوڑی دیر ٹھہرا رہے، یعنی جب امام دوسری طرف کا سلام پھیر لے تب اپنی بقیہ نماز کے لئے کھڑا ہو تاکہ معلوم ہو جائے کہ امام پر کوئی سجدۂ سہو تو نہیں ہے۔
      • اگر مسبوق نے امام کے ساتھ سجدۂ سہو نہیں کیا اور بقیہ نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اس سے سجدۂ سہو ساقط نہیں ہوگا پس وہ اپنی نماز کے آخیر میں سجدۂ سہو کرے، اور اگر اس کو اپنی بقیہ نماز میں بھی سہو ہو جائے تو دونوں سہووں کے لئے ایک ہی دفعہ سہو کے دو سجدے کر لینا کافی ہے۔
      • امام کے سہو سے لاحق پر بھی سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے لیکن وہ اپنی لاحقانہ نماز پوری کرنے سے پہلے امام کے ساتھ سجدۂ سہو نہ کرے، اگر وہ امام کے ساتھ سجدۂ سہو کرے گا تو اس کا اعتبار نہیں اور اس کی نماز فاسد بھی نہیں ہو گی، پس وہ پہلے اپنی لاحقانہ نماز پوری کرے اور اپنی نماز کے آخر میں سجدۂ سہو کرے۔
      • اگر لاحق کو اپنی لاحقانہ نماز میں سہو ہو جائے تو اس پر سجدۂ سہو لازم نہیں اس لئے کہ وہ حکماً مقتدی ہے۔
      • نمازِ خوف میں پہلا گروہ لاحق کے حکم میں ہے اس لئے اگر امام سجد ہ ٔ سہو کرے تو یہ لوگ امام کے ساتھ سجدۂ سہو نہ کریں بلکہ جب اپنی نماز پوری کر چکیں اس وقت سجدۂ سہو کریں، اور دوسرا گروہ مسبوق کے حکم میں ہے اس لئے یہ لوگ امام کے ساتھ سجدۂ سہو کریں۔
      • مقیم مقتدی مسافر امام کی پیچھے نماز پڑھے تو صرف قرآت کے حق میں وہ لاحق ہے، اس لئے وہ اکیلا ہونے کے بعد باقی نماز میں قرآت نہ کرے، لیکن سجدۂ سہو میں مسبوق کے حکم میں ہے اس لئے امام کے ساتھ سجدۂ سہو کرے، اور اگر اس کو اپنی نماز میں سہو ہو جائے تو آخر میں بھی سجدۂ سہو کرے۔
      • اگر سہو کے سجدے میں یا اس کے بعد سہو ہوا تو دوبارہ سجدۂ سہو واجب نہ ہو گا، کیونکہ اس طرح یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا اور نماز میں ایک ہی دفعہ سجدۂ سہو مشروع ہے۔
      • چار یا تین رکعت والی نماز میں بھولے سے یا اس خیال سے کہ چار یا تین رکعتیں پوری ہو گئیں دو رکعت پر سلام پھیر دیا جب تک کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے کھڑا ہو کر اس نماز کو پورا کر لے اور سجدۂ سہو کر لے، البتہ اگر سلام پھیرنے کے بعد کوئی ایسی بات ہو گئی جس سے نماز جاتی رہتی ہے تو نئے سرے سے نماز پڑھے۔
  • عورتوں کی نماز
    • نماز کے اندر عورتوں کے مخصوص مسائل

        عورتیں بھی مردوں کی طرح نماز پڑھیں صرف چند مقامات پر اُن کو مردوں کے خلاف کرنا چاہئے اور وہ اٹھائیس ہیں اور ایک حکم اعتکاف کے متعلق ہے

      • عورتوں کو قیام میں دونوں پاوً ں ملے ہوئے رکھنے چاہئیں ان میں فاصلہ نہ رکھیں، اسی طرح رکوع و سجود میں بھی ٹخنے ملائیں۔
      • عورتوں کو خواہ سردی وغیرہ کا عذر ہو یا نہ ہو ہر حال میں چادر یا دوپٹہ وغیرہ کے اندر ہی سے ہاتھ اٹھانے چاہئیں باہر نہیں نکالنے چاہئیں، صرف اپنے کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھانے چاہئیں۔
      • 3. تکبیر تحریمہ کے بعد سینہ پر پستان کے نیچے یا اوپر ہاتھ رکھنے چاہئیں۔
      • 4. داہنی ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی کی پشت پر رکھ دینا چاہئے۔
      • 5. رکوع میں زیادہ جھکنا نہیں چاہئے بلکہ اس قدر جھکیں جس میں ان کے ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں۔
      • 6. رکوع میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں گھٹنوں پر بغیر کشادہ کئے ہوئے بلکہ ملا کر رکھنی چاہئیں۔
      • 7. رکوع میں اپنے ہاتھوں پر سہارا نہ دے۔
      • 8. رکوع میں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لے ان سے پکڑے نہیں۔
      • 9. رکوع میں اپنے گھٹنوں کو جھکائے رکھے۔
      • 10. رکوع میں اپنی کہنیاں اپنے پہلوؤں سے ملی ہوئی رکھنی چاہئیں یعنی سمٹی ہوئی رہیں۔
      • 11. سجدے میں کہنیاں زمین پر بچھی ہوئی رکھنی چاہئیں۔
      • 12. سجدے میں دونوں پاؤں انگلیوں کے بل کھڑے نہیں رکھنے چاہئیں بلکہ دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھے اور خوب سمٹ کر اور سکڑ کر سجدہ کرے (یعنی سرین نہ اٹھائے)۔
      • 13. سجدے میں پیٹ رانوں سے ملا ہوا ہونا چاہئے یعنی پیٹ کو رانوں پر بچھا دے۔
      • 14. بازو پہلووً ں سے ملے ہوئے ہوں، غرضیکہ سجدے میں بھی سمٹی ہوئی رہیں۔
      • 15. التحیات میں بیٹھتے وقت مردوں کے برخلاف دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھنا چاہئے، یعنی سرین زمین پر رہے پاؤں پر نہ رکھے۔
      • 16. التحیات میں ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی رکھے۔
      • 17. جب کوئی امر نماز میں پیش آئے مثلاً عورت کی نماز کے آگے سے کوئی گزرے تو تالی بجائے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ داہئیں ہاتھ کی انگلیوں کی پشت بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مارے اور مردوں کی طرح سبحان اللہ نہ کہے۔
      • 18. مردوں کی امامت نہ کرے۔
      • 19. نماز میں صرف عورتوں کی جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے (مردوں کے لئے جماعت واجب ہے)۔
      • 20. عورتیں اگر جماعت کریں تو جو عورت امام ہو وہ بیچ میں کھڑی ہو آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو۔
      • 21. عورتوں کا جماعت میں حاضر ہونا مکروہ ہے۔
      • 22. مردوں کی جماعت میں عورت مردوں سے پیچھے کھڑی ہو۔
      • 23. عورتوں پر جمعہ فرض نہیں لیکن اگر پڑھ لے تو صحیح ہو جائے گا اور ظہر اس کے ذمے سے اتر جائے گی۔
      • 24. عورت پر عیدین کی نمازواجب نہیں۔
      • 25. عورت کے لئے مستحب نہیں کہ نمازِ فجر مردوں کی طرح اجالا ہونے کے بعد پڑھے بلکہ جلدی اندھیرے میں پڑھنا مستحب ہے۔
      • 26. عورتوں کو نماز میں کسی وقت بلند آواز سے قرآت کرنے کا اختیار نہیں بلکہ جہری نماز میں بھی آہستہ قرآت کرنا واجب ہے، جن فقہا کے نزدیک عورت کی آواز داخلِ ستر ہے اُن کے نزدیک جہر کے ساتھ قرآت کرنے سے عورت کی نماز فاسد ہو جائے گی۔
      • 27. عورت اذان نہ دے۔
      • 28. عورت مسجد میں اعتکاف نہ کرے۔ نماز کے افعال مثل قیام و رکوع و سجود و قعدہ وغیرہ میں باندی اور خنثیٰ کا حکم آزاد عورت کی مانند ہے، لیکن باندی تحریمہ کے وقت مردوں کی طرح ہاتھ اٹھائے۔
  • نماز باجماعت کے احکام و مسائل
    • تعریف
      • 1. مل کر نماز پڑھنے کو جماعت کہتے ہیں،جس میں ایک امام اور باقی سب مقتدی ہوتے ہیں۔ جمعہ اور عیدین کے علاوہ جماعت کے لئے کم سے کم دو آدمی ہونے چاہئیں ایک امام دوسرا مقتدی، اگرچہ وہ مقتدی ایک سمجھدار لڑکا ہی ہو، پس وہ مقتدی خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، بالغ ہو یا نابالغ، سمجھ دار ہو اور خواہ فرشتہ ہو یا جن، اور نماز خواہ مسجد میں ہو یا مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ ہو جماعت کہلائے گی اور جماعت کا ثواب ملے گا، لیکن جس قدر جماعت زیادہ ہو گی اسی قدر زیادہ ثواب ہو گا۔
    • جماعت کی بعض حکمتیں اور فائدے
      • 1. ایک نماز پر ستائیس نماز کا ثواب ملنا۔
      • 2. آپس میں محبت اور اتفاق بڑھنا اور دوسروں کو دیکھ کر عبادت کا شوق اور رغبت پیدا ہونا، نیک لوگوں اور کاملوں کے قلبی انوار سے دوسروں کے قلوب اور لطائف کا منور ہونا۔
      • 3. بزرگ و نیک لوگوں کے ساتھ گناہگاروں کی نماز کا بھی قبول ہو جانا۔
      • 4. ناواقفوں کو واقفوں سے مسائل پوچھنے میں آسانی ہونا اور اپنی غلطیوں کی اصلاح اور دوسروں کی اچھائی و عمدگی حاصل کرنا، پس یہ نماز کی صحت و تکمیل کا بہترین ذریعہ ہے۔
      • 5. نماز میں خوب دل لگنا۔
      • 6. ایک دوسرے کے حال کی اطلاع ہونا اور ایک دوسرے کے درد و مصیبت میں شریک ہو سکنا جس سے اخوت و محبت ایمانی میں کمال حاصل ہوتا ہے۔
      • 7. بے نمازیوں کا پتہ چلنا اور ان میں تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا موقع ملنا۔
      • 8. نزول رحمت و قبولیت کے لئے خاص اثر رکھنا۔
      • 9. جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا عبادت اور اسلام کی شان اور کلمتہ اللہ کی بلندی اور کفر کی پستی کا ذریعہ ہے۔
      • 10. جماعت پر شیطا ن کا تسلط نہیں ہوتا۔
      • 11. جماعت کے انتظار کے وقت کا عبادت میں شمار ہونا وغیر ہ۔
    • جماعت کا حکم
      • 1. فرض نمازوں میں جماعت سنتِ مؤکدہ اور واجب کے قریب ہے بلکہ بعض کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک فرض ہے۔
      • 2. نماز تراویح کے لئے جماعت کل اہلِ محلہ پر سنت کفایہ ہے۔
      • 3. رمضان المبارک میں نماز وتر کی جماعت مستحب ہے۔
      • 4. جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں جماعت شرط ہے۔
      • 5. نماز خسوف (چاند گرہن کی نماز) اور تمام نوافل میں بلاوے اور اہتمام کے ساتھ جماعت مکروہِ تحریمی ہے، اگر اذان و اقامت و بلانے وغیرہ کے اہتمام کے بغیر دو تین آدمی جمع ہو کر مسجد کے کسی گوشہ میں نفل نماز جماعت سے پڑھ لیں تو مکروہ نہیں، چار یا اس سے زیادہ کی جماعت نوافل میں ہر حال میں مکروہِ تحریمی ہے، خواہ اہتمام ہو یا نہ ہو۔
      • 6. اگر محلہ کی مسجد میں جماعت سے رہ گیا تو اس کو کسی دوسری مسجد میں جماعت کے لئے جانا واجب نہیں، البتہ مستحب ہے جبکہ اپنی مسجد میں داخل نہ ہوا ہو، اگر اپنی مسجد میں داخل ہو گیا تو وہیں اکیلا پڑھے دوسری جگہ نہ جائے، اگر اپنی مسجد میں داخل ہوا اور اس میں جماعت ہو رہی ہے تو جب تک اس میں کچھ بھی حصہ مل سکے اس میں شامل ہونا چاہئے، اس کو دوسری مسجد میں پوری جماعت ملنے کے خیا ل سے جانا گناہ اور نماز سے منہ پھیرنے کے معنی میں ہے۔
      • 7. جمعہ اور عیدین کے لئے امام کے علاوہ کم از کم ایسے تین آدمی اخیر نماز تک امام کے پیچھے ہوں جو امامت کے اہل ہوں تو جماعت درست ہو گی ورنہ نہیں۔
    • ترک جماعت کے عذرات
      • 1. عورت ہونا۔
      • 2. نابالغ ہونا۔
      • 3. بیماری جس سے چل پھر نہ سکے اور مسجد تک آنے میں مشقت ہو یا مدت کا مریض ہو جو بغیر مشقت نہ چل سکے۔
      • 4. اپاہج یعنی لنگڑا لولا ہو یا دونوں ہاتھ یا دونوں پاؤں کٹے ہوئے ہوں یا شل ہوں یا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں مخالف جانب یا ایک ہی جانب کے کٹے ہوئے ہوں یا شل ہوں۔
      • 5. جس کو فالج کا مرض ہو گیا ہو۔
      • 6. بہت بوڑھا جو چلنے پھرنے سے عاجز ہو اور اس کو مسجد تک جانے میں مشقت ہو۔
      • 7. اندھا ہونا۔
      • 8. بہت بارش ہونا۔
      • 9. مسجد کے راستہ میں کیچڑ ہونا۔
      • 10. سخت سردی ہونا۔
      • 11. بہت اندھیرا ہونا۔
      • 12. رات کے وقت آندھی اور تیز ہوا ہونا، یہ دن میں عذر نہیں ہے۔
      • 13. جو شخص کسی بیمار کی خدمت و تیماداری کرتا ہو۔
      • 14. مسجد میں جانے سے مال و اسباب کے چوری ہو جانے وغیرہ کا خوف ہو یا ہنڈیا وغیرہ کے یا تندور میں روٹی کے ضائع ہونے کا خوف ہو۔
      • 15. قرض خواہ کے ملنے اور اس سے تکلیف پہنچے یا قید کر لینے کا خوف ہو، جب کہ وہ قرض ادا کرنے پر قادر نہ ہو۔
      • 16. کسی دشمن یا ظالم کے مل جانے سے اپنی جان یا مال پر خوف ہو۔
      • 17. جب کہ سفر کا ارادہ ہو اور قافلہ نکل جانے اور تنہا سفر کرنے میں خوف ہو یا ریل گاڑی یا جہاز یا موٹر کی روانگی کا وقت قریب ہو۔
      • 18. پیشاب یا پاخانہ کی غالب حاجت یا ریح کے غلبہ کے وقت۔
      • 19. جب کھانا حاضر ہو اور بھوک سے نفس اس کی طرف زیادہ راغب ہو، خواہ کوئی وقت ہو، یہی حکم پینے کا ہے۔
      • 20. صحت نماز کی کسی شرط مثلاً طہارت یا ستر عورت وغیرہ کا نہ پایا جانا۔
      • 21. امام کا مقتدی کے مذہب کی رعایت نہ کرنا۔
      • 22. ان میں سے جو عذر بالکل مانع ہو جیسے زیادہ بڑھاپا یا فالج وغیرہ تو اگر اس کی نیت تھی کہ عذر نہ ہوتا تو ضرور شامل ہوتا اس کو جماعت کا ثواب مل جائے گا، اور جو عذر بالکل مانع نہیں جیسے بارش و کیچڑ اور سردی و اندھا ہونا وغیرہ تو اس کے ترک سے جماعت میں شامل ہونا بہتر ہے، ورنہ جماعت کی فضیلت سے محروم رہے گا، البتہ ترک جماعت کا گناہ اس پر نہیں ہو گا۔

    • جماعت کے واجب ہونے کی شرطیں
      • مسلمان ہونا
      • مرد ہونا
      • بالغ ہونا
      • عاقل ہونا
      • آزاد ہونا
      • تمام مذکورہ بالا عذروں سے خالی ہونا
    • جماعت کے صحیح ہونے کی شرطیں

        یہ دو قسم پر ہیں ۱-شرائط امامت ۲-شرائط اقتداء

      • شرائط امامت

          یہ چھ ہیں

        • 1. اسلام یعنی مسلمان ہونا، کافر و مشرک کے پیچھےنماز درست نہیں، بدعتی جو کافر نہ ہو اور فاسق کے پیچھےنماز درست ہو جائے گی مگر مکروہِ تحریمی ہے۔
        • 2. عاقل ہونا،ہر وقت مست و مجنون رہنے والے کے پیچھےنماز درست نہیں۔
        • 3. بالغ ہونا، نابالغ لڑکے کے پیچھےبالغ کی نماز درست نہیں خواہ تراویح و نوافل ہی ہوں، عمر کے لحاظ سے پندرہ سال کا لڑکا بالغ ہے اگر علامت کے لحاظ سے کوئی ظاہر نہ ہو۔
        • 4. مذکر(مرد) ہونا، مرد کی اقتدا عورت یا خنثیٰ مشکل کے پیچھےدرست نہیں۔
        • 5. قرآت یعنی بقدر جواز ِنماز قرآن یاد ہونا، اور وہ کم سے کم ایک آیت ہے، ایسے شخص کو حنفی فقہ کے نزدیک قاری کہتے ہیں، اور جس کو اس قدر بھی یاد نہ ہو اس کو اُمی کہتے ہیں، پس قاری کی اقتدا اُمّی کے پیچھےدرست نہیں، اسی طرح قاری کی اقتدا گونگے کے پیچھےدرست نہیں۔
        • 6. صحیح یعنی عذرات سے بچا ہوا ہونا،پس صحیح (غیری معذور) کی اقتدا معذور کے پیچھے درست نہیں۔
        • 7. امامت سے معذور ی کے اسباب:
          • 1. ہر وقت پیشاب جاری رہنا، نکسیر یا زخم سے خون جاری رہنا، ریاح جاری رہنا، استحاضہ کا مرض ہونا۔
          • 2. توتلا یا ہقلا ہونا۔
          • 3. نماز کی شرطوں میں سے کسی شرط کا نہ پایا جانا (معذور اپنے جیسے معذور کی امامت کر سکتا ہے اسی طرح اُمّی اُمّی کی امامت کر سکتا ہے اور نابالغ نابالغوں کی امامت کر سکتا ہے وغیرہ)۔
      • شرائط اقتداء
        • 1. نیت اقتدا یعنی مقتدی کو امام کی متابعت یعنی اس کی پیچھےنماز پڑھنے کی نیت کرنا، اور اس نیت کا تحریمہ کے ساتھ ہونا یا تحریمہ پر اس طرح مقدم ہونا کہ دونوں کے درمیان کوئی نماز کو توڑنے والا فعل نہ ہو، جمعہ و عیدین میں اقتدا کی نیت ضروری نہیں۔
        • 2. مرد امام کو عورتوں کی امامت کی نیت کرنا عورتوں کی نماز صحیح ہونے کے لئے شرط ہے، لیکن جمعہ و عید ین میں یہ شرط نہیں ہے۔
        • 3. مقتدی کا امام سے آگے نہ ہونا، یعنی مقتدی کا قدم امام کے قدم سے آگے نہ ہو اور اس میں ٹخنوں یعنی ایڑیوں کا اعتبار ہے، پس اگر مقتدی کا ٹخنہ و ایڑی امام کے ٹخنے اور ایڑی سے پیچھے ہو لیکن امام کا پاؤں چھوٹا ہو اور مقتدی کا پاؤں بڑا ہونے کی وجہ سے پنجہ امام کے پنجے سے آگے ہو تو اقتدا درست ہے۔
        • 4. اتحادِ نماز، یعنی امام اور مقتدی کی نماز کا متحد ہونا، پس دونوں کی نماز ایک ہی ہو جیسے ظہر کی نماز اسی ظہر کی نماز پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے لیکن ظہر کی نماز عصر کی نماز پڑھنے والے کے پیچھے درست نہیں، یا مقتدی کی نماز امام کی نماز کو متضمن (شامل) ہو جیسا کہ نفل پڑھنے والے کی نماز فرض پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے، کیونکہ فرض نفل کو متضمن ہے لیکن اس کے برعکس درست نہیں کیو نکہ نفل فرض کو متضمن نہیں، اسی طرح ہر قوی نماز والے کی اقتدا ضعیف نماز والے کے پیچھے درست نہیں لیکن ضعیف نماز والے کی اقتدا قوی نماز والے کے پیچھے درست ہے، مثلاً نذر نماز والے کی اقتدا نفل نماز والے کے پیچھے درست نہیں، مسبوق کی اقتدا مسبوق کے پچھے، ادا نماز والے کی اقتدا دوسرے دن کی وہی قضا نماز پڑھنے والے کی پیچھے، مسافر کی اقتدا مقیم کے پیچھے وقت نکلنے کے بعد درست نہیں وغیرہ۔
        • 5. اتحادِ مکان، امام اور مقتدی کے مکان کا ایک ہونا، پس سواری سے اتر کر نماز پڑھنے والی کی اقتدا سوار کے پیچھےیا ایک سواری پر نماز پڑھنے والے کی اقتدا دوسری الگ سواری پر نماز پڑھنے والے کے پیچھے درست نہیں۔
        • 6. امام اور مقتدی کے درمیان عام راستہ (سڑک) نہ ہونا، وہ راستہ جس میں بیل گاڑی یا لدے ہوئے اونٹ و خچر گزر سکیں مانع اقتدا ہے جب کہ صفیں ملی ہوئی نہ ہوں، اگر اس سے کم فاصلہ ہو یا صفیں ملی ہوئی ہوں تو مانع اقتدا نہیں۔ ایک آدمی کے درمیان میں کھڑا ہونے سے صفیں نہیں ملتیں، دو میں اختلاف ہے،تین آدمی کھڑے ہوں تو بالا تفاق صفیں متصل ہو جائیں گی۔
        • 7. بڑی نہر درمیان میں نہ ہونا، جس نہر میں کشتیا ں اور بجرے (چھوٹی کشتیاں) گزر سکیں اور اس پر پل و غیرہ کے بغیر گزر نہ ہو سکے وہ نہر بڑی ہے، اور وہ عام راستہ کے حکم میں ہے، اس میں صفوں کا اتصال پل کے ذریعے ہو سکتا ہے، اور اگر نہر خشک ہو تو راستے کی طرح اس میں صفیں متصل ہو جانے سے اقتدا درست ہے، چھوٹی نہر جس میں کشتیاں اور بجرے نہ گزر سکیں مانع اقتدا نہیں ہے۔
        • 8. کوئی بڑا میدان یعنی خالی جگہ امام اور مقتدی کے درمیان حائل نہ ہونا، پس اگر میدان میں جماعت کھڑی ہو تو اگر امام اور مقتدی کے درمیان اتنی جگہ خالی ہے جس میں دو صفیں یا زیادہ قائم ہو سکیں تو اقتدا درست نہیں ہے، اس سے کم فاصلہ مانع اقتدا نہیں اور نماز درست ہو جائےگی، اسی طرح کوئی سی دو صفوں کا درمیانی فاصلے کے پچھلی صف کے لئے مانع اقتدا ہونے یا نہ ہونے کے حکم کی بھی یہی تفصیل ہے، بہت ہی زیادہ بڑی مسجد میں بھی صفوں میں فاصلہ کے حکم کی تفصیل یہی ہے، یعنی وہ میدان کے حکم میں ہے، عام مسجد اگرچہ بڑی ہو تو وہ مکان واحد کے حکم میں ہے اور ان میں فاصلہ خواہ دو صفوں کے برابر ہو یا زیادہ ہو مانع اقتدا نہیں ہے، لیکن بلا ضرورت مکروہ ہے، فنائے مسجد (صحن) مسجد کے حکم میں ہے، بڑا مکان جو چالیس گز شرعی یا اس سے زیادہ بڑا ہو میدان کے حکم میں ہے، اس سے کم عام مسجد کے حکم میں ہے۔
        • 9. مقتدی پر امام کا حال مشتبہ نہ ہونا، اگر امام کے ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کا حال مقتدی کو معلوم ہو خواہ امام یا مقتدیوں کو دیکھ کر ہو یا امام یا مکبر کی تکبیر کی آواز سن کر ہو تو اقتدا درست ہے اگرچہ دیوار یا منبر وغیرہ درمیان میں حائل ہوں۔
        • 10. امام اور مقتدی کے درمیان عورتوں کی پوری صف کا حائل نہ ہونا، اگر عورتوں کی پوری صف امام کے پیچھے ہو گی تو ان کے پیچھے مردوں کی جتنی صفیں ہوں گی سب کی نماز فاسد ہو جائے گی، اسی طرح اگر مقتدیوں کی صفوں کے درمیان میں عورتوں کی صف ہو گی تو ان کے پیچھے والی مردوں کی سب صفوں کی نماز فاسد ہو جائے گی، چار یا زیادہ عورتیں ہونگی تو پوری صف کا یہی حکم ہو گا، تین عورتیں ہوں گی تو پیچھے والی تمام صفوں کے ان تین تین آدمیوں کی نماز فاسد ہو گی جو ان عورتوں کی سیدھ میں پیچھے ہوں گے، دو عورتیں پیچھے والی صف کے دو آدمیوں کی اور ایک عورت پیچھے والی صرف پہلی صف کے صرف ایک آدمی کی نماز فاسد کرے گی، اور اگر مردوں کی صف کے درمیان میں ایک یا زیادہ عورتیں ہوں گی تو ان کے برابر والے دائیں و بائیں طرف کے ایک ایک آدمی کی نماز بھی فاسد ہو جائے گی۔
        • 11. امام کی نماز کا مقتدی کے مذہب پر صحیح ہونا اور مقتدی کا اپنے گمان میں اس کو صحیح سمجھنا۔
        • 12. مقتدی کا ارکان نماز میں امام کے ساتھ شریک ہونا، یعنی ہر رکن کو امام کے ساتھ یا اس کے بعد متصل ہی ادا کرنا، پس اگر کسی رکن کو چھوڑ دے گا یا امام سے پہلے ادا کرے گا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، اگر اس رکن میں جس کو امام سے پہلے کر لیا ہے اپنے امام کو پا لیا مثلاً امام کے رکوع میں جانے سے پہلے چلا گیا اور رکوع میں یہاں تک رہا کہ امام نے بھی رکوع کر دیا، یا وہ رکوع سے اٹھ گیا تھا لیکن پھر امام کے ساتھ رکوع میں واپس آ گیا تو اب امام کے ساتھ شرکت ہو کر نماز درست ہو جائے گی، اور اگر اس صورت میں امام کے رکوع میں جانے سے پہلے اٹھ گیا اور پھر امام کے ساتھ رکوع میں شریک نہیں ہوا تو اقتدا درست نہ ہو گی اور نماز فاسد ہو جائے گی۔
        • 13. ارکان کی ادائیگی میں مقتدی کا امام کے مثل یا اس سے کم ہونا، پس امام اور مقتدی دونوں رکوع و سجود سے نماز پڑھتے ہوں یا دونوں اشارے سے نماز پڑھتے ہوں یا امام رکوع و سجود سے پڑھتا ہو اور مقتدی اشارہ سے پڑھتا ہو تو اقتدا درست ہے، اور اگر امام اشارے سے نماز پڑھتا ہو اور مقتدی رکوع و سجود سے تو چونکہ مقتدی کا حال امام سے قوی ہے اس لئے اقتدا درست نہیں۔
        • 14. شرائطِ نماز میں مقتدی کا امام سے زیادہ جامع نہ ہونا بلکہ امام کے مثل یا اس سے کم ہونا، مثلاً سب شرائط کا جامع مقتدی سب شرائط کے جامع امام کے پیچھے نماز پڑھے تو درست ہے، یا ننگا آدمی دوسرے ننگے آدمی کے پیچھے پڑھے یا ننگا آدمی سب شرائط کے جامع امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اقتدا درست ہے، لیکن اگر امام ننگا ہو اور مقتدی ستر ڈھانپے ہوئے ہو تو اقتدا درست نہیں۔
    • 7. امام او ر مقتدی کےمسائل:
      • 1. جن لوگوں کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے:
        • 1. بدعتی جب کہ اس کی بدعت کفر کے درجہ کی نہ ہو۔
        • 2. فاسق جو علانیہ فسق کرتا ہو جیسے شرابی، جواری، زناکار، سود خور وغیرہ، داڑھی منڈانے والا یا داڑھی کٹا کر ایک مشت سے کم رکھنے والا بھی علانیہ فاسق ہے۔
      • جن لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے
        • غلام (جو شرع کی رو سے غلام ہو)
        • جاہل گنوار
        • 3. ولدالزنا (حرامی)۔ ان تینوں میں تربیت نہ ہو سکنے کی وجہ سے جہالت کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے مکروہِ تنزیہی ہے لیکن اگر ایسا شخص قوم میں زیادہ علم والا اور نیک ہو تو اسی کو امام بنانا اولیٰ ہے، اور جب اس سے افضل اور کوئی شخص موجود نہ ہو تو اس کی امامت بلا کراہت جائز ہے۔
        • 4. بالغ نوجوان جس کی ابھی داڑھی نہ نکلی ہو باوجود خوفِ شہوت یا غلبہ جہل مکروہ ہے، لیکن اگر زیادہ عالم یہی ہو تو کراہت رفع ہو کر یہی امامت کے لئے اولیٰ ہو گا۔
        • 5. اندھا اور وہ شخص جس کو دن اور رات میں کم نظر آئے اس کی امامت نجاست سے نہ بچ سکنے کی وجہ سے مکروہ ہے،اور اگر وہ بچنے والا اور احتیاط کرنے والا ہو اور اہل علم ہو تو یہی اولیٰ ہے۔
        • کم عقل
        • 7. فالج زدہ اور برص وبہق والا یعنی جس کو سفید یا سیاہ داغ کا مرض پھیل گیا ہو، جزام والا، لنگڑا یعنی جو قدم کا کچھ حصہ لگا کر کھڑا ہوتا ہو پورا پاوَں نہ لگاتا ہو، ایک ہاتھ والا، جس کا پیشاب بند ہو گیا ہو، ان سب کے پیچھے علت تنفر یا پوری طرح طہارت ممکن نہ ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔
      • امامت کا زیادہ حقدار کون ہے؟
        • 1. تمام حاضرین میں سے جس میں امامت کے سب سے زیادہ اوصاف پائے جائیں اس کو امام بنانا چاہیے، لیکن بادشاہ اسلام کے ہوتے ہوئے کسی اور کو اس کی اجازت کے بغیر حق امامت نہیں ہے، اس کے بعد والی، پھر قاضی، پھر مسجد کا امام معین، یا گھر میں صاحب خانہ جب کہ امامت کا اہل ہو ہر حال میں مقدم ہوگا۔ امامت کے لئے سب سے مقدم وہ شخص ہے جو عالم ہو یعنی نماز کے مسائل سب سے زیادہ جانتا ہو اگرچہ دوسرے علوم میں کم ہو، اور یہ بھی شرط ہے کہ اس کے اعمال اچھے ہوں۔ اگر اس میں دو آدمی برابر ہوں تو جوزیادہ قاری ہو اور قرآن مجید قواعد کے مطابق زیادہ صحیح پڑھتا ہو۔ پھر جوزیادہ پرہیز گار ہو یعنی حلال و حرام میں شبہ سے بھی بچتا ہو۔ پھر جو عمر میں زیادہ ہو یعنی اسلام کی حالت میں زیادہ عرصہ سے ہو۔ پھر جو اخلاق میں زیادہ اچھا ہو۔ پھرجو خوبصورتی میں زیادہ ہو، اس سے مراد تہجد زیادہ پڑھنے والا ہے کیو نکہ اس سے چہرے پر خوبصورتی زیادہ آتی ہے،اور یہ جماعت کی کثرت کا سبب ہے۔ پھر جو حسب میں زیادہ ہو۔ پھر جو نسب میں یعنی خاندان کے لحاظ سے زیادہ شریف ہو مثلاً سید باقی لوگوں پر مقدم ہے۔ پھر جس کی آواز زیادہ اچھی ہو۔ پھر جس کے پاس حلال مال زیادہ ہو۔ پھر جو جاہ و وقار میں زیادہ ہو۔ پھر جو عمدہ لباس پہنے۔ پھر جس کا سر تناسب کے ساتھ دوسروں سے بڑا ہو، یہ عقل کی بڑائی کی دلیل ہے، غیر متناسب (بہت ہی زیادہ ) بڑا نہ ہو۔ مقیم مسافر پر مقدم ہے جب باقی نمازی مقیم ہوں یا مقیم و مسافر ملے جلے ہوں۔ پھر آزاد اصلی، آزاد شدہ غلام پر مقدم ہے۔ جب کسی صفت میں دو شخص مقابل و برابر ہوں تو جو زیادہ عرصہ سے اس صفت کا اہل ہو مقدم ہو گا، مثلاً دونوں عالم ہوں تو جس کا علم پہلے سے ہے یا دونوں قاری ہیں تو جس کو فن قرآت دوسرے سے زیادہ عرصہ سے آتا ہے وغیرہ، اگر یہ ساری صفتیں دونوں یا زیادہ شخصوں میں جمع ہو جائیں اور کوئی وجۂ ترجیح نہ ہو تو قرعہ ڈالا جائے، یا جماعت کے اختیا ر پر چھوڑ دیں اور مقتدیوں کے اختیار کی صورت میں اگر اختلاف ہو تو کثرت رائے کا اعتبار ہو گا۔ اگر مسجد کا امام معین ہو اور جماعت کے وقت اس سے افضل کوئی شخص آ جائے تب بھی امام معین اس اجنبی شخص سے زیادہ مستحق ہے۔
      • امام اور مقتدی کے کھڑا ہونے اور صفوں کی ترتیب کا بیان
        • 1. اگر صرف دو آدمی جماعت کریں تو ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی بن کر اس کے برابر میں داہنی طرف کھڑا ہو اگرچہ وہ دوسرا شخص جو مقتدی بنے گا لڑکا ہی ہو، اکیلا مقتدی امام سے آگے نہ کھڑا ہو، ایڑی اور ٹخنے برابر میں ہوں امام سے آگے نہ ہوں، اگر مقتدی کا پاوَں بڑا ہونے کی وجہ سے انگلیاں امام کی انگلیوں سے آگے ہوں تو مضائقہ نہیں، اگر مقتدی اتنا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو کہ اس کے پاؤں کی انگلیاں امام کی ایڑی کے برابر میں ہوں تب بھی مضائقہ نہیں۔ زیادہ پیچھے یا بالکل امام کے پیچھے اکیلے مقتدی کا کھڑا ہونا مکروہِ تنزیہی اور خلاف ِسنت ہے۔ اگر مقتدی اکیلی عورت یا لڑکی ہو تو اس کو امام کے پیچھے ہی کھڑا ہونا چاہیے۔
        • 2. اگر دو یا زیادہ مقتدی ہوں تو امام کو ان کے آگے کھڑا ہونا واجب ہے، ان کے برابر میں بیچ میں کھڑا ہونا مکروہِ تحریمی ہے، اگر مقتدی ایک مرد اور ایک عورت یا لڑکی ہو تو مرد امام کے برابر میں اور عورت یا لڑکی پیچھے کھڑی ہو، اگر دو مرد اور ایک عورت یا لڑکی ہو تو دونوں مرد امام کے پیچھے اور عورت یا لڑکی ان مردوں کے پیچھے کھڑی ہو۔
        • 3. اگر دو مرد یعنی ایک امام اور ایک مقتدی جماعت سے نماز پڑھ رہے ہوں پھر ایک تیسرا شخص آ جائے تو پہلا مقتدی خود ہی پیچھے ہٹ جائے تاکہ دونوں مل کر امام کے پیچھے صف بنا لیں،اگر وہ نہ ہٹے تو وہ تیسرا آدمی اس کو پیچھے کھینچ لے خواہ تحریمہ باندھ کر یا اس سےپہلے کھینچے، یا امام آگے بڑھ جائے تاکہ تیسرا آدمی اس مقتدی کے برابر کھڑا ہو جائے، جیسا موقع ہو کر لے، آج کل لوگ مسائل سے واقف نہیں اس لئے اگر گنجائش ہو تو امام ہی آگے بڑھ جائے۔
        • 4. صرف عورتوں کی جماعت جس میں کوئی مرد نہ ہو مکروہ ہے، لیکن اگر پھر بھی عورتیں جماعت کریں تو جو عورت امام ہے وہ مقتدی عورتوں کے برابر وسط صف میں کھڑی ہو خواہ کتنی ہی عورتیں ہوں۔
      • صفوں کی ترتیب
        • 1. اگر مقتدی مختلف قسم کے افراد ہوں یعنی مرد، نابالغ لڑکے، خنثیٰ، قریب البلوغ لڑکیاں ہوں تو امام کے پیچھے پہلے مرد کھڑے ہوں خواہ جتنی بھی صفیں ہوں،ان کے پیچھے لڑکوں کی صف یا صفیں ہوں، پھر خنثیٰ، پھر عورتیں، پھر لڑکیاں صف بنائیں، بڑے آدمیوں کی صفوں میں بچوں کو کھڑا کرنا مکروہ ہے، صرف ایک لڑکا ہو تو مردوں کی صف میں داخل کیا جائے، یعنی سرے پر بائیں طرف کھڑا کیا جائے، خنثیٰ اکیلا ہو تو لڑکوں کی صف میں شامل ہو، عورت یا لڑکی اکیلی ہو یا زیادہ ہر حال میں مردوں و لڑکوں و خنثی سے الگ صف بنائیں۔
      • جماعت کے متفرق مسایَل
        • 1. عورتوں کو جماعت میں حاضر ہونا فتنے کی وجہ سے مکروہ ہے خواہ بوڑھی ہی ہو اور خواہ کوئی سی نماز ہو، اسی پر فتویٰ ہے۔
        • 2. صفیں سیدھی ہونی چاہئیں، کندھے سے کندھا اور ٹخنے سے ٹخنا ملا کر سیدھی کریں اور بیچ میں فاصلہ نہ چھوڑیں، امام صفیں سیدھی کرائے اور خود صف کے وسط کی سیدھ میں کھڑا ہو، اگر اس کے خلاف کیا یعنی وسط سے داہنی یا بائیں طرف کھڑا ہوا تو اس نے برا کیا کیونکہ یہ سنت کے خلاف ہے۔
        • 3. مقتدی کے لئے افضل یہ ہے کہ امام کے قریب کھڑا ہو، اگر دائیں طرف قریب ہو یا دونوں طرف سے قرب میں برابر ہو تو دائیں طرف کھڑا ہو ورنہ بائیں طرف کھڑا ہو، امام کے بالکل پیچھے پہلی صف میں سب سے افضل شخص کھڑا ہونا چاہئے۔
        • 4. سب سے افضل پہلی صف ہے، پھر دوسری، پھر تیسری وغیرہ علی الترتیب، اگر آگے کی صفوں میں خالی جگہ ہو تو صفوں کو چیر کر آگے سے گزر کر اس کو پر کرنا چاہئے، اس میں وہ گناہگار نہیں ہو گا کیونکہ قصور ان لوگوں کا ہے جنہوں نے خلا چھوڑا ہے، اور انہوں نےخود اپنی عزت ضائع کی لیکن آج کل جہالت کا زمانہ ہے اس لئے فتنے کا ڈر ہو تو ایسا نہ کرے۔
        • نماز جنازہ میں آخری صف کو تمام صفوں پر فضیلت ہے۔
      • عورت کے محاذات سے مرد کی نماز فاسد ہونے کے شرائط و مسائل

          نماز میں عورت کا مرد کے آگے یا مرد کے برابر میں کھڑا ہونا اس طرح پر کہ عورت کا قدم مرد کے کسی عضو کے مقابل نماز کے دوران میں کسی وقت بھی ہو جائے مرد کی نماز کو فاسد کر دے گا، اور قدم کا برابر ہونا پنڈلی یا ٹخنے کے برابر ہونے سے ہے، شرائط محاذات گیارہ ہیں جو یہ ہیں۔

        • 1. وہ عورت ایسی ہو جو شہوت کی حد کو پہنچ گئی ہو اور جماع کے لائق ہو، اگر نابالغ ہو، عمر کا اعتبار نہیں بلکہ جسم کی ساخت کا اعتبار ہےاگرچہ نو سال سے کم عمر کی ہو اور اگر زیادہ عمر کی ہے لیکن ساخت کے اعتبار سے جماع کے قابل نہیں تو نماز فاسد نہ ہو گی، بڑھیا عورت کے محاذات سے بھی نماز فاسد ہو جائے گی خواہ وہ کتنی ہی عمر کی ہو۔
        • 2. دونوں رکوع و سجود والی نماز پڑھ رہے ہوں۔
        • 3. دونوں تحریمہ کی رو سے نماز میں مشترک ہوں، یعنی دونوں ایک ہی امام کے مقتدی ہوں یا عورت نے اپنے محاذی مرد کی تحریمہ پر تحریمہ باندھی ہو اور خواہ عورت ایک یا دو رکعت بعد میں آ کر شامل ہوئی ہو۔
        • 4. دونوں ادا کی رُو سے نماز میں مشترک ہوں، یعنی وہ مرد اس عورت کا امام ہو یا وہ دونوں کسی دوسرے شخص کے مقتدی ہوں، خواہ شرکت حقیقتاً ہو جیسا کہ مدرک اور خواہ حکماً ہو جیسا کہ لاحق جب کہ وہ اپنی لاحقانہ نماز میں ہو۔
        • 5. مرد مکلف ہو یعنی عاقل و بالغ ہو۔
        • 6. عورت عاقلہ ہو یعنی ایسی ہو جس کی نماز صحیح ہوتی ہو، پس مجنونہ یا حیض یا نفاس والی عورت کے محاذات سے مرد کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔
        • 7. امام نے اُس عورت کی یا مطلق عورتوں کی امامت کی نیت کی ہو، نیت کے وقت عورتوں کا حاضر ہونا ضروری نہیں نیت شروع نماز کے وقت معتبر ہے، نماز شروع کرنے کے بعد اگر عورتوں کی امامت کی نیت کی یا عورتوں کی امامت کی نیت کی ہی نہیں تو محاذات سے مرد کی نماز فاسد نہیں ہو گی کیونکہ عورت کی نماز شروع ہی نہیں ہو گی، جمعہ و عیدین میں عورتوں کی امامت کی نیت شرط نہیں ہے یہی صحیح ہے، پس ان نمازوں میں ان کی امامت کی نیت کرے یا نہ کرے مرد کی نماز عورت کے محاذات سے فاسد ہو جائے گی۔
        • 8. پورے رکن میں محاذات برابر رہی ہو اس سے کم میں مفسد نہیں۔
        • 9. دونوں کی نماز پڑھنے کی جہت ایک ہی ہو۔
        • 10. نماز شروع کرنے کے بعد شامل ہونے والی عورت کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ نہ کرنا مرد کی نماز کو فاسد کرتا ہے، پس اگر اس نے عورت کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ کر دیا تو مرد کی نماز فاسد نہیں ہو گی بلکہ عورت کی نماز فاسد ہو گی، کیونکہ مرد نے اپنا فرض ادا کر دیا اور عورت نے اپنا فرض ترک کیا، ان دونوں کے درمیان میں کچھ حائل نہ ہو پس اگر دونوں کے درمیان میں ستون یا دیوار یا کوئی اور پردہ یا سترہ حائل ہو تو مرد کی نماز فاسد نہ ہو گی۔
        • 11. سترے کی کم سے کم مقدار ایک گز شرعی (ایک ہاتھ) بلندی اور ایک انگل کی مقدار موٹائی ہے یا دونوں کے درمیاں میں اتنی جگہ خالی ہو جس میں ایک آدمی کھڑا ہو سکے، عورت کی نماز دو صورتوں کے سوا اور کسی صورت میں مرد کی محاذی کھڑے ہونے سے فاسد نہیں ہوتی اور وہ دو صورتیں یہ ہیں۔
          اول: جب کہ مرد نے اس کو پیچھے ہٹنے کے لئے کہا اور وہ نہ ہٹی۔
          دوم : جب کہ وہ مرد خود امام ہو تو جب امام کی نماز فاسد ہو جائے گی تو اس مقتدی عورت کی نماز خود بخود فاسد ہو جائے گی، صف کے درمیان میں کھڑی ہوئی ایک عورت تین آدمیوں کی نماز فاسد کرتی ہے ایک اس کے دائیں طرف کا، دوسرا بائیں طرف کا اور ایک اس کی پیچھے والی پہلی متصل صف کا عین پیچھے والا آدمی، دو عورتین چار آدمیوں کی نماز فاسد کرتی ہیں، ایک دائیں طرف کا، دوسرا بائیں طرف کا اور دو آدمی پیچھے والی متصل صف کے عین ان کے پیچھے والے، تین عورتیں ایک داہنی طرف کے آدمی کی اور ایک بائیں طرف کے آدمی کی اور پیچھے والی ہر صف کے بالکل ان کے پیچھے والے تین تین آدمیوں کی نماز آخری صف تک فاسد کرتی ہیں، اور تین سے زیادہ عورتیں پوری صف کے حکم میں ہو کر دائیں بائیں کے برابر والے ایک ایک آدمی کے علاوہ پیچھے والی تمام صفوں کے تمام آدمیوں کی نماز فاسد کرتی ہیں۔
      • جن چیزوں میں مقتدی کو امام کی متابعت کرنی چاہئے اور جن میں نہیں
        • متعلقہ مسائل
          • 1. اگر مقتدی قعدہ اولیٰ کے تشہد میں شریک ہوا اور اس مقتدی کے تشہد پورا کرنے سے پہلے امام تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا،یا مقتدی قعدہ اخیرہ میں شریک ہوا اور امام نے اس مقتدی کے تشہد پورا کرنے سے پہلے سلام پھیر دیا، یا مقتدی پہلے سے نماز میں شریک تھا لیکن امام قعدہ اولیٰ میں تشہد پورا کرنے کے بعد تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا، یا قعدہ اخیرہ میں سلام پھیر دیا اور ابھی مقتدی کا تشہد پورا نہیں ہوا تو ان سب صورتوں میں مقتدی امام کی متابعت نہ کرے بلکہ تشہد پورا کرے۔
          • 2. امام قعدے میں تشہد سے فارغ ہو کر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو گیا لیکن مقتدی تشہد پڑھنا بھول گیا اور وہ بھی امام کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو اس کو چاہئے کہ پھر لوٹے اور تشہد پڑھے پھر امام کے ساتھ ہو جائے، اگرچہ اس کو رکعت کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو، یعنی لاحق کی طرح امام کے پیچھے رہتے ہوئے ارکان ادا کرتا جائے اور جہاں امام کو مل سکے مل جائے اور اگر سلام پھیرنے تک امام کے ساتھ شریک نہ ہو سکے تو باقی ماندہ نماز لاحقانہ پوری کر کے سلام پھیرے۔
          • 3. امام نے سلام پھیر دیا لیکن مقتدی ابھی تک درود شریف یا دعا نہیں پڑھ سکا تو اس کو ترک کر کے امام کی متابعت کرے اور اس کے ساتھ سلام پھیر دے، اسی طرح رکوع یا سجدے کی تسبیح پوری تین دفعہ نہیں پڑھ سکا کہ امام نے سر اٹھا دیا تو امام کی متابعت کرے۔
          • 4. اگر مقتدی نے امام سے پہلے رکوع یا سجدے سے سر اٹھا لیا تو پھر رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور یہ دو رکوع یا دو سجدے نہیں ہوں گے۔
          • 5. اگر مقتدی نے دیر تک سجدہ کیا یہاں تک کہ امام نے دوسرا سجدہ بھی کر لیا اس وقت مقتدی نے سجدے سے سر اٹھایا اور یہ گمان کر کے کہ امام پہلے ہی سجدے میں ہے دوبارہ سجدے میں چلا گیا تو یہ دوسرا سجدہ دوسرا ہی سجدہ واقع ہو گا خواہ پہلے سجدے کی نیت ہو۔
          • 6. اگر کسی مقتدی نے سب رکعتوں میں رکوع و سجود امام سے پہلے کیا تو ایک رکعت بلا قرآت قضا کرے۔
        • جن چیزوں میں مقتدی کو امام کی متابعت کرنی چاہئے

            وہ چیزیں جن میں امام کی متابعت کی جائےیعنی اگر امام کرے تو مقتدی بھی کرے اور اگر امام چھوڑ دے تو مقتدی بھی چھوڑ دے یہ پانچ ہیں۔

          • 1. نمازِ عیدین کی تکبیریں۔
          • 2. قعدہ اولیٰ۔
          • 3. سجدہ تلاوت۔
          • 4. سجدہ سہو۔
          • 5. دعائے قنوت۔
        • 3. وہ چیزیں جن میں امام کی متابعت نہ کی جائے یعنی اگر امام کرے تو مقتدی اس کی متابعت نہ کرے:

            یہ چا ر ہیں۔

          • 1. امام جان بوجھ کر نماز جنازہ کی تکبیریں چار سے زیادہ یعنی پانچ کہے۔
          • 2. جان بوجھ کر عیدین کی تکبیریں زیادہ کہے جبکہ مقتدی امام سے سنتا ہو، اور اگر مکبر سے سنے تو ترک نہ کرے کہ شاید اس سے غلطی ہوئی ہو۔
          • 3. کسی رکن کا زیادہ کرنا مثلاً دو بار رکوع کرنا یا تین بار سجدہ کرنا۔
          • 4. جب کہ امام بھول کر پانچویں رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے تو مقتدی کھڑا نہ ہو بلکہ امام کا انتظار کرے،اگر امام پانچویں رکعت کے سجدہ کر لینے سے پہلے لوٹ آیا اور وہ قعدہ اخیرہ کر چکا تھا تو مقتدی بھی اس کا ساتھ دے اور اس کے ساتھ سلام پھیر دے اور اس کے ساتھ سجدہ سہو کرے، اور اگر امام نے پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو مقتدی تنہا سلام پھیرے، اور اگر امام نے قعدہ اخیرہ نہیں کیا تھا اور وہ پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے لوٹ آیا تب بھی مقتدی اس کا ساتھ دے، اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو امام اور مقتدی سب کی نماز فاسد ہو جائے گی سب نئے سرے سے پڑھیں۔
        • 4. وہ چیزیں جن کو خواہ امام کرے یا نہ کرے مقتدی ان کو ادا کرے کیونکہ یہ سنن ہیں اور سنن کے ادا کرنے یا نہ کرنے میں امام کی متابعت واجب نہیں، امام نہ کرے تو مقتدی خود کر لے:
          • 1. تحریمہ کے لئے رفع یدین کرنا۔
          • 2. ثنا پڑھنا (البتہ جہری نماز میں امام کے الحمد شروع کرنے کے بعد نہ پڑھے)۔
          • 3. تکبیرات انتقال یعنی رکوع میں جانے یا سجدے میں جانے یا سجدے سے اٹھنے کے لئے اللّٰہ اکبر کہنا۔
          • 4. رکوع کی تسبیح جب تک امام رکوع میں ہے۔
          • 5. اگر امام سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ چھوڑ دے تو مقتدی رَبَّنَا لَکَ الحَمد کہنا ترک نہ کرے۔
          • 6. سجدے کی تسبیح جب تک امام سجدے میں ہے۔
          • 7. تشہد لیکن اگر امام نے قعدہ اولیٰ ہی ترک کر دیا تو مقتدی بھی ترک کرے۔
          • 8. سلام جبکہ امام نے سلام کے بجائے کلام کر دیا یا مسجد سے نکل گیا تو مقتدی سلام پھیر کر اپنی نماز پوری کرے۔
          • 9. تکبیرات تشریق۔
      • مقتدی کی اقسام

          مقتدی چار قسم کے ہوتے ہیں۔

        • 1. اول : مُدرک۔
          • جس شخص نے پوری نماز یعنی اول رکعت سے امام کے ساتھ شریک ہو کر آخری قعدے کا تشہد پڑھنے تک تمام رکعتیں امام کے ساتھ پڑھی ہوں ایسا شخص مُدرک کہلاتا ہے، پہلی رکعت میں رکوع کے کسی جزو میں یا اس سے پہلے پہلے امام کے ساتھ شریک ہو گیا تو وہ پہلی رکعت کا پانے والا ہے۔
        • 2. دوم: لاحق۔
          • جو شخص پہلی رکعت میں رکوع کے کسی جزو تک یا اس سے پہلے پہلے امام کے پیچھے نماز میں شامل ہوا مگر اقتدا کے بعد اس کی کل یا بعض رکعتیں کسی عذر سے یا بغیر عذر فوت ہو گئیں وہ شخص لاحق کہلاتا ہے، مثلاً اقتدا کے بعد پہلی رکعت میں سو گیا اور آخری نماز تک سوتا رہا اس طرح اس کی کل رکعتیں امام کے ساتھ نہ ہوئیں، یا درمیان میں دوسری یا تیسری وغیرہ رکعت میں سو گیا تو اس طرح بعض رکعتیں امام کے ساتھ نہ ہوئیں، یا کسی اور غفلت یا بھیڑ کی وجہ سے کھڑا رہ گیا اور کل یا بعض رکعتوں کے رکوع یا سجود نہ کئے، یا حدث ہو جانے کی وجہ سے وضو کے لئے گیا اور اس عرصہ میں امام نے کل یا بعض نماز پڑھ لی اور اس نے آکر اس نماز پر بنا کی، یا نمازِ خوف میں وہ پہلا گروہ ہے تو یہ سب لاحق ہیں۔اگر مقیم نے مسافر کے پیچھے قصر نماز میں اقتدا کی تو مسافر امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقیم مقتدی آخیر کی دو رکعتوں میں لاحق ہے۔
        • 3. سوم :مسبوق۔
          • جس شخص کو امام کے ساتھ شروع سے کل یا بعض رکعتیں نہ ملی ہوں لیکن جب سے امام کے ساتھ شامل ہوا پھر آخر تک شامل رہا ہو تو وہ ان رکعتوں میں مسبوق ہے، پس اگر آخری رکعت کے رکوع کے بعد سلام سے پہلے پہلے کسی وقت امام کے ساتھ ملا ہو تو کل رکعتوں میں مسبوق ہے، اور اگر آخری رکعت کے رکوع میں یا اس سے پہلے پہلے کسی وقت مل گیا مثلاً ایک یا دو یا تین رکعتیں ہونے کے بعد ملا تو بعض رکعتوں میں مسبوق ہے۔
        • 4. چہارم : لاحق مسبوق۔

            جس شخص کو شروع کی کچھ رکعتیں امام کے ساتھ نہ ملی ہوں ان میں وہ مسبوق ہے، پھر جماعت میں شامل ہونے کے بعد لاحق ہو گیا تو ایسے شخص کو مسبوق لاحق یا لاحق مسبوق کہتے ہیں۔ ( عملاً ایسی کوئی صورت نہیں بنتی کہ پہلے لاحق ہو اور پھر مسبوق ہو)۔

          • 1. پہلے جو نماز کے عام مسائل بیان ہوئے ہیں وہ سب مُدرک کے مسائل ہیں۔
          • 2. لاحق بھی مُدرک کے حکم میں ہے یعنی وہ اپنی لاحقانہ نماز میں حکماً امام کے پیچھے ہے، پس وہ اپنی فوت شدہ لاحقانہ نماز میں قرآت نہ کرے بلکہ مُدرک مقتدی کی طرح خاموش رہے، اور اگر اس لاحقانہ نماز میں سہو ہو جائے تو سجدہ سہو نہ کرے، اور اقامت کی نیت سے اس کا فرض نہیں بدلے گا۔
          • 3. لاحق مثلاً اگر سو گیا تھا تو جب وہ جاگے اس کے لئے واجب ہے کہ امام کا ساتھ چھوڑ کر پہلے اپنی ان رکعتوں کو ادا کرے جو امام کے ساتھ شامل ہونے کے بعد جاتی رہی ہیں، اور ان میں قرآت نہ کرے جیسا کہ اوپر بیان ہوا، پھر امام کی متابعت کرے جبکہ امام ابھی جماعت کرا رہا ہو، اور اگر امام اس وقت تک سلام پھیر چکا ہو تو اپنی باقی نماز بھی اسی طرح لاحقانہ پوری کرلے کیونکہ وہ اب بھی امام کے پیچھے ہے۔
          • 4. اگر امام سجدہ سہو کرے تو مقتدی جب تک اپنی لاحقانہ نماز پوری نہ کر لے اس کی متابعت نہ کرے بلکہ اپنی نماز پوری کر کے سجدہ سہو کرے۔
          • 5. مسبوق اپنی فوت شدہ نماز میں منفرد ہوتا ہے، پس وہ اس میں ثنا اور تعوذ و تسمیہ و قرآت (الحمد و سورة) اسی طرح پڑھے جس طرح کی رکعتیں اس کی گئی ہیں، چار مسئلوں میں وہ منفرد کے حکم میں نہیں جو آگے آتے ہیں۔
          • 6. مسبوق اپنی فوت شدہ نماز پہلے ادا نہ کرے بلکہ پہلے امام کی متابعت کرے اور جب امام اپنی نماز سے فارغ ہو کر سلام پھیرے تو یہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے، اور امام کے پہلے سلام پر کھڑا نہ ہو بلکہ امام کا دوسرا سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو کر اپنی بقیہ فوت شدہ نماز اکیلا پڑھے، اگر لاحق کی طرح پہلے اپنی فوت شدہ نماز پڑھے گا پھر امام کی متابعت کرے گا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔
          • 7. مسبوق کی مسبوقانہ نماز قرآت کے حق میں پہلی نماز ہے، یعنی جیسی فوت ہوئی ہے ویسی پڑھے، پس وہ چھوٹی ہوئی رکعتوں کو اس طرح ادا کرے گویا اس نے ابھی نماز شروع کی ہے، اور تشہد کے حق میں اس کی آخری نماز ہے، یعنی امام کے ساتھ پڑھی ہوئی رکعتوں کو ملا کر ہر دوگانہ پر قعدہ کرے اور تشہد پڑھے۔ مسبوقانہ نماز پڑھنے کی چند مثالیں یہ ہیں، اگر کسی کی ایک رکعت چھوٹ گئی ہو تو وہ امام کے دوسرے سلام کے بعد کھڑا ہو کر پہلے ثنا و تعوذ و تسمیہ (اعوذ و بسم اللّٰہ) پڑھ کر سورة فاتحہ پڑھے، پھر کوئی سورة کم از کم چھوٹی تین آیتیں یا بڑی ایک آیت پڑھے، پھر قعدے کے مطابق رکوع و سجدے وغیرہ کر کے رکعت پوری کرے اور قعدے میں تشہد و درود و دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، اگر ظہر یا عصر یا عشا یا فجر کی دو رکعتیں گئی ہوں تو پہلی رکعت میں ثنا و تعوذ و تسمیہ کے بعد فاتحہ و سورة پڑھ کر رکوع و سجود کرے اور دوسری رکعت میں ثنا و تعوذ نہ پڑھے بلکہ بسم اللہ و فاتحہ و سورة پڑھ کر رکوع و سجدے کر کے قعدہ کرے اور سلام پھیر دے، اور اگر ان نمازوں کی صرف ایک رکعت امام کے ساتھ ملی ہو تو اپنی چھوٹی ہوئی تین رکعتیں اس طرح ادا کرے کہ پہلی رکعت ثنا و تعوذ و تسمیہ و فاتحہ و سورة کے ساتھ پڑھ کر قعدہ کرے اور قعدے میں صرف تشہد پڑھ کر کھڑا ہو جائے، اور ایک رکعت بسم اللہ و فاتحہ و سورة کے ساتھ پڑھے پھر ایک (تیسری) رکعت میں صرف سورة فاتحہ پڑھ کر رکعت پوری کرے اور قعدہ کر کے سلام پھیرے۔ اگر مغرب کی ایک رکعت امام کے ساتھ ملی ہو تو پہلی ایک رکعت ثنا و تعوذ و تسمیہ و فاتحہ و سورة کے ساتھ پڑھ کر قعدہ کرے اور صرف تشہد پڑھ کر کھڑا ہو جائے، اور ایک (دوسری) رکعت میں بسم اللہ و فاتحہ و سورة پڑھ کر قعدہ کر کے سلام پھیر دے، غرض جب نماز کی صرف ایک رکعت امام کے ساتھ ملی ہو تو اپنی نماز میں ایک رکعت کے بعد قعدہ کرنا چاہیے خواہ کسی وقت کی نماز ہو اور پھر تین رکعت چھوٹنے کی صورت میں دو رکعت کے بعد آخری قعدہ کرنا چاہئے۔
          • 8. مسبوق امام کے آخری قعدے میں تشہد پڑھنے کے بعد درود و دعائیں نہ پڑھے بلکہ’’ اَشْھَدُ اَن لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ‘‘ کو بار بار پڑھتا رہے، یا تشہد آہستہ آہستہ ٹھہر کر پڑھے کہ امام کے سلام پھیرنے تک ختم ہو، اور جب اپنی مسبوقانہ نماز پڑھ کر آخری قعدہ کرے تو اب درود و دعا بھی پڑھے۔
          • 9. مسبوق اگر بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیر دے تو اگر بالکل امام کے سلام کے ساتھ یا پہلے پھیرا تو اس پر سجدہ سہو نہیں (لیکن ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے)، وہ اپنی نماز پوری کرلے اور اگر امام کے سلام کے بعد اس نے سلام پھیرا (اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے) تو اپنی نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرنا چاہیے۔
          • 10. مسبوق سجدہ سہو میں امام کی متابعت کرے لیکن سجدہ سہو کے سلام میں متابعت نہ کرے، اگر سجدہ سہو میں متابعت نہ کی تو اپنی رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلی لوٹنا واجب ہے، اور اگر رکعت کا سجدہ کر لیا تو اب نہ لوٹے ورنہ نماز فاسد ہو جائے گی بلکہ اپنی مسبوقانہ نماز کے آخر میں سجدہ سہو کر لے۔
          • 11. دو مسبوقوں نے اکٹھے ایک ہی رکعت میں امام کی اقتدا کی ان میں سے ایک کو اپنی رکعتیں یاد نہ رہیں اس نے دوسرے کو دیکھ دیکھ کر اپنی مسبوقانہ نماز پڑھی یعنی جتنی رکعتیں اس نے پڑھیں اس نے بھی پڑھ لیں مگر اس کی اقتدا کی نیت نہیں کی تو نماز درست ہے، اور اگر اقتدا کی نیت کرے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔
          • 12. مسبوق چار مسئلوں میں منفرد کے حکم میں نہیں۔
            • اول : نہ کسی کو اس کی اقتدا جائز ہے اور نہ اس کو کسی کی اقتدا جائز ہے، اگر مسبوق نے مسبوق کی اقتدا کی تو امام کی نماز درست ہو گی اور مقتدی کی نماز فاسد ہو جائے گی۔
            • دوم: اگر مسبوق نے نئے سرے سے نماز شروع کرنے کی نیت دل میں کر کے تکبیر کہی تو اس کی نماز نئے سرے سے شروع ہو جائے گی اور پہلی ٹوٹ جائے گی، اور منفرد نئے سرے سے نماز شروع کرنے کی دل میں نیت کر کے تکبیر کہے تو پہلی نماز سے خارج نہیں ہوتا اور نئی شروع نہیں ہوتی۔
            • سوم: مسبوق سجدہ سہو میں امام کی متابعت کرے۔
            • چہارم: مسبوق پر بالاتفاق تکبیراتِ تشریق کہنا واجب ہے اور منفرد کے لئے اختلاف ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک واجب نہیں ہے صاحبین کے نزدیک واجب ہے۔
          • سات چیزوں میں مسبوق اپنی نماز کے ادا کرنے میں لاحق کے خلاف کرے
            • 1. اول: مسبوق اپنی فوت شدہ رکعتوں میں قرآت پڑھے، لاحق نہ پڑھے۔
            • 2. دوم: مسبوق اپنی بقیہ نماز میں سہو ہو جانے سے سجدہ سہو کرے، لاحق کو اپنی فوت شدہ نماز میں سہو ہو جائے تو سجدہ سہو نہ کرے۔
            • 3. سوم: مسبوق مسافر اپنی فوت شدہ رکعتوں میں اقامت کی نیت کرے تو مقیم ہو جائے گا، لاحق مسافر اپنی لاحقانہ نماز میں اقامت کی نیت کر لینے سے مقیم نہیں ہو گا۔
            • 4. چہارم: مسبوق اپنے امام کی متابعت کرے بعد میں اپنی مسبوقانہ پڑھے اور لاحق پہلے اپنی لاحقانہ پڑھے پھر امام کی متابعت کرے۔
            • 5. پنجم: امام قعدہ اولیٰ چھوڑ دے تو لاحق بھی اپنی لاحقانہ نماز میں چھوڑ دے، مسبوق اگر امام کے قعدہ اولیٰ چھوڑ کر کھڑا ہونے کے بعد شامل ہوا تو اپنی بقیہ نماز میں یہ قعدہ کرے۔
            • 6. ششم: لاحق کی بقیہ نماز میں عورت کے محاذات جو اس کی نماز میں شامل ہیں اس کی نماز فاسد کرتی ہے مثلاً پہلے پردہ تھا اب دور ہو گیا تو لاحق کی نماز فاسد ہو جا ئے گی، لیکن مسبوق کی نماز اس صورت میں فاسد نہیں ہو گی۔
            • 7. ہفتم: امام کے ختم ِ نماز کا سلام کہنے کے بجائے ہنس دینے سے مسبوق کی نماز فاسد ہو جائے گی، لاحق کی نماز فاسد نہیں ہوگی کیونکہ امام اور مُدرک کی پوری ہو گئی اس لئے اس کی بھی حکماً پوری ہو گئی۔
          • 14. مسبوق لاحق یا لاحق مسبوق پہلے اپنی لاحقانہ نماز پڑھے اس کے بعد اگر جماعت باقی ہو تو اس میں امام کی متابعت کرے، اور امام کے سلام کے بعد مسبوقانہ نماز پوری کرے، پھر ان رکعتوں کو ادا کرے جن میں وہ مسبوق ہے۔
    • جماعت میں شامل ہونے کے مسائل

        تنہا فرض پڑھنے والے کا اسی فرض کی جماعت میں شامل ہونا

      • 1. اگر کوئی شخص فرض نماز کی پہلی رکعت پڑھ رہا ہے اور ابھی اس کا سجدہ نہیں کیا کہ وہاں اس نماز کی جماعت شروع ہو گئی تو اپنی نماز توڑ کر جماعت میں شریک ہو جائے، خواہ وہ کوئی سے فرض نماز ہوں۔
      • 2. اگر وہ شخص ایک رکعت پڑھ چکا ہو اور دوسری رکعت میں ہو اور ابھی دوسری رکعت کا سجدہ نہیں کیا تو اگر نماز دو رکعت یا تین رکعت والی ہے یعنی فجر و مغرب کی نماز ہے تو اس نماز کو توڑ دے اور جماعت میں شامل ہو جائے، اور اگر ان دونوں نمازوں میں دوسری رکعت کا سجدہ کر چکا ہے تو پھر نہ توڑے بلکہ وہ اپنی فرض کو ہی پورا کر لے اور پھر امام کے ساتھ شریک نہ ہو اس لئے کہ وہ اپنی فرض نماز ادا کر چکا اور اب جماعت کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز نفل ہو گی جو مکروہِ تحریمی ہے، کیونکہ فجر کی فرض نماز کے بعد نفل پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے مغرب میں تین رکعت ہوں گی اور تین رکعت نفل جائز نہیں۔
      • 3. اگر کسی شخص نے چار رکعت فرض یعنی ظہر،عصر یا عشا کی نماز کی ایک رکعت پڑھی اور دوسری رکعت میں تھا کہ جماعت قائم ہو گئی تو اس کو واجب ہے کہ دوسری رکعت پوری کر کے التحیات و درود و دعا پڑھ کر سلام پھیر دے پھر جماعت میں شامل ہو جائے تاکہ یہ دو رکعت نفل ہو جائیں اور فرض جماعت کے ساتھ ادا ہو جائیں، اگر وہ دوسری رکعت کا سجدہ کر چکا ہے تب بھی یہی حکم ہے، اگر وہ تیسری رکعت میں تھا اور اس کا سجدہ نہیں کیا تھا کہ جماعت کھڑی ہو گئی تو نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو جائے اور اگر تیسری رکعت کا سجدہ کر لیا اس کے بعد جماعت کھڑی ہوئی تو اس کو واجب ہے کہ اپنی نماز پوری کر لے توڑے نہیں، اگر وہ نماز توڑ دے گا تو گنہگار ہو گا، اب ظہر اور عشا کی نماز میں اس کو اختیار ہے کہ جماعت میں شامل ہو جائے اور یہ اس کے لئے افضل ہے کیونکہ یہ نفل ہو جائیں گے اور جماعت کے ساتھ نفل پڑھنے کا ثواب پا لے گا، اور اگر چاہے تو جماعت میں شامل نہ ہو، فجر و مغرب و عصر کی نماز پوری کر لینے کی صورت میں وہ جماعت میں شامل نہ ہو۔
      • 4. مذکورہ بالا احکام اس وقت ہیں جبکہ اسی جگہ جماعت قائم ہو جائے، اور اگر کسی دوسری مسجد میں جماعت قائم ہوئی ہو تو نماز کسی حالت میں نہ توڑے اگرچہ پہلی رکعت کا سجدہ بھی نہ کیا ہو۔
      • 5. نماز توڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ حالت قیام میں ہو یا حالت رکوع و سجود میں اسی حالت میں ایک طرف کو سلام پھیر دے پھر امام کی اقتدا کر لے، اور بھی طریقے ہیں مثلاً قعدے کی طرف لوٹے اور بیٹھ کر سلام پھیرے، اور بعض نے کہا کہ سلام نہ پھیرے بلکہ اسی حالت میں امام کے ساتھ شریک ہونے کی نیت کر کے تکبیر تحریمہ کہہ لے، یہ سب صورتیں جائز ہیں لیکن پہلی صورت اولیٰ ہے۔

        نمازِ سنت و نفل وغیرہ پڑھتے ہوئے جماتِ فرض کا قائم ہو جانا

        نمازِ سنت و نفل وغیرہ پڑھتے ہوئے جماعتِ فرض کا قائم ہو جانا

        1. اگر کوئی شخص نفل نماز پڑھ رہا ہو اور وہاں فرض نماز کی جماعت ہونے لگے تو نفل نماز کو نہ توڑے خواہ اس نے پہلی رکعت کا سجدہ کیا ہو یا نہ کیا ہو بلکہ اس کو چاہئے کہ دوگانہ پورا کر کے سلام پھیر دے اگرچہ چار رکعت کی نیت کی ہو، پھر جماعت میں شامل ہو جائے۔

        2. اگر ظہر یا جمعہ کے فرضوں سے پہلے کی چار رکعت سنتِ مؤکدہ پڑھ رہا ہو اور نمازِ ظہر کی جماعت ہونے لگے یا جمعے کا خطبہ شروع ہو جائے تو صحیح و راجح قول یہ ہے کہ چاروں رکعت پوری کر لے خواہ پہلے دوگانے کے وقت جماعت کھڑی ہو جائے یا دوسرے دوگانے کے وقت، اسی پر فتویٰ ہے (لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ جماعت نہ چلی جائے ورنہ دوگانہ پڑھ کر سلام پھیر دے اور جماعت میں شامل ہو جائے)، اگر تیسری رکعت شروع کر دی ہو تو چار رکعت کا پورا کرنا ضروری ہے۔

        3. اگر فجر کی سنتیں پڑھ رہا تھا کہ جماعت کھڑی ہو گئی تو اگر قعدہ ٔاخیرہ کے ملنے کی توقع نہ ہو تو سنتوں کو توڑ کر جماعت میں شامل ہو جائے اور سورج نکلنے کے بعد ان کی قضا کرے۔

        4. اگر کوئی شخص ایسے وقت میں مسجد میں آیا جبکہ وقتی فرضوں کی جماعت ہو رہی ہو اور ابھی اس نےفرضوں سے پہلے کی سنتِ مؤکدہ نہیں پڑھیں تو اگر وہ وقت ظہر یا جمعہ کا ہے اور اس کا یقین یا گمان غالب ہے کہ وہ امام کے رکوع میں جانے سے پہلے پوری کر لے گا اور جماعت کی کوئی رکعت نہیں جائے گی تو جماعت سے الگ جگہ میں پڑھ لے، اور اگر رکعت جاتے رہنے کا گمان غالب ہو تو وہ سنتیں اس وقت نہ پڑھے بلکہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور ان سنتوں کو فرضوں کے بعد پڑھے خواہ بعد کی سنت مؤکدہ سے پہلے پڑھے یا بعد میں دونوں طرح جائز و مفتی بہ ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ بعد والی سنتِ مؤکدہ پڑھ کر ان کے بعد ان سنتوں کو پڑھے، اگر وہ فجر کا وقت ہو تو فجر کی سنتیں چونکہ زیادہ مؤکدہ ہیں اس لئے ان کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر فرض نماز شروع ہو چکی ہو تب بھی پڑھ لے بشرطیکہ کم از کم ایک رکعت ملنے کی امید ہو، اور اگر ایک رکعت ملنے کی بھی امید نہ ہو تو پھر نہ پڑھے بلکہ جماعت میں شامل ہو جائے،ظاہر مذہب یہی ہے اور بدائع و در مختار میں ہے کہ راجح ظاہر مذہب ہے، پھر اگر چاہے تو ان سنتوں کو سورج نکلنے کے بعد پڑھے اور ایک قول یہ ہے کہ اگر ظن غالب یہ ہے کہ اخیر قعدہ مل جائے گا تو یہ سنتیں پڑھ کر جماعت میں شامل ہو جائے ورنہ ترک کر دے، بحر و شامی وغیرہ میں اسی پر اعتماد کیا ہے۔

        5. اگر یہ خوف ہو کہ فجر کی سنتیں، نماز کی سنتیں اور مستحبات کی پابندی کرتے ہوئے ادا کرنے سے جماعت نہ ملے گی اور سنن و مستحبات کی پابندی نہ کرنے سے مل جائے گی تو ایسی حالت میں صرف فرائض و واجباتِ نماز پر اقتصار کرے اور سنن یعنی ثنا،تعوذ و تسمیہ وغیرہ کوچھوڑ دے، یہی حکم ظہر اور جمعہ کی سنتوں کا بھی ہے۔

      • 6. اگر فرض نماز کی جماعت کھڑی ہو اور فجر یا کسی اور وقت کی سنتیں پڑھنا چاہے تو ایسی جگہ پڑھی جائیں جو مسجد سے علیحدہ ہو، اگر ایسی جگہ نہ ملے تو مسجد کے اندر کسی گوشہ میں یا کسی ستون وغیرہ کی آڑ میں پڑھے، یا جماعت اندر ہو رہی ہو تو سنتیں باہر پڑھے اور جماعت باہر ہو رہی ہو اور اندر جا سکتا ہو تو اندر پڑھے، اگر ایسا موقع نہ ہو تو جماعت کی صف سے جس قدر دور ممکن ہو وہاں پڑھے۔
      • 7. اگر کسی شخص کی فجر کی سنت و فرض دونوں قضا ہو گئیں اور سورج نکلنے یعنی ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد دوپہر شرعی سے پہلے پہلے کسی وقت پڑھے تو سنت و فرض دونوں کی قضا کرے، اور اگر زوالِ آفتاب کے بعد قضا کرے تو صرف فرض کی قضا کرے، اور اگر صرف سنتیں قضا ہو جائیں تو آفتاب ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد پڑھ لینا بہتر ہے، اور اگر سنتیں پڑھ لی تھیں اور صرف فرض قضا ہوئے تو صرف فرض قضا کرے سنتوں کا اعادہ نہ کرے، کسی اور وقت کی سنتیں قضا ہو جائیں تو قضا نہ کرے کیونکہ وقت کے بعد کسی سنت کی قضا نہیں ہے۔
    • 9. مقتدی جماعت کا پانے والا کب ہوتا ہے؟
      • 1. جس شخص کو کسی بھی فرض نماز میں ایک رکعت امام کے ساتھ ملی بالاتفاق جماعت سے نماز پڑھنے والا نہیں ہے لیکن اس کو جماعت کا ثواب مل جائے گا اگرچہ اخیر قعدہ میں ہی مل جائے، چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پانے والے کا بھی بالاتفاق یہی حکم ہے۔
      • 2. چار رکعت والی نماز میں تین رکعت امام کے ساتھ پانے والا اور تین رکعتی نماز یعنی مغرب میں دو رکعت امام کے ساتھ پانے والا بعض کے نزدیک جماعت سے نماز پڑھنے والا ہے اور بعض کے نزدیک نہیں البتہ جماعت کا ثواب پانے والا ہے، یہی اظہر ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔
      • 3. جس رکعت کا رکوع امام کے ساتھ مل جائے اس کو وہ رکعت امام کے ساتھ مل گئی اور اگر رکوع امام کے ساتھ نہ ملے تو وہ رکعت ملنے میں شمار نہ ہو گی۔ جب نمازی یعنی امام وغیرہ پہلا سلام پھیرتا ہے تو السلام کی میم کہنے سے نماز سے باہر ہوتا ہے اس سے پہلے نہیں، پس اس سے پہلے تک امام کی اقتدا درست ہے بعد میں نہیں۔
  • نماز کا مسنون طریقہ:
    • 1. نماز کا مسنون طریقہ و نماز کی پوری ترکیب جو سلف سے منقول چلی آرہی ہے جس میں سب فرض و واجب و سنت اور مستحب اپنی اپنی جگہ پر ادا ہوں اس طرح پر ہے : جب نماز پڑھنے کا ارادہ ہو تو تمام شرائطِ نماز کے ساتھ شروع کرے، یعنی پہلے اپنا بدن حدث اکبر و اصغر اور ظاہری ناپاکی سے پاک کر کے پاک کپڑے پہن کر پاک جگہ پر قبلے کی طرف منھ کر کے اس طرح کھڑا ہو کہ دونوں قدموں کے درمیان چار انگل یا اس کے لگ بھگ فاصلہ رہے۔
      پھر جو نماز پڑھنی ہے اس کی نیت دل میں کرے، مثلاً یہ کہ آج کی فجر کی فرض نماز اللہ تعالٰی کے واسطے پڑھتا ہوں، زبان سے بھی کہہ لے تو اچھا ہے، پھر دونوں ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھائے اس طرح کہ ہاتھوں کی ہتھلیاں اور انگلیاں قبلہ رخ رہیں اور انگو ٹھے کانوں کی لو کے مقابل ہوں، انگلیوں کے سرے کانوں کے کناروں کے مقابل ہوں، انگلیاں اعتدال کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا رہیں، یعنی عادت کے مطابق درمیانی حالت میں ہوں، بالکل ملی ہوئی یا زیادہ کھلی ہوئی نہ ہوں،جب کانوں کی لو تک انگھوٹھے پہنچ جائیں تو تکبیر یعنی اللہ اکبر کہے۔
      ہاتھ تکبیر سے پہلے اٹھائے یہی اصح ہے۔ تکبیر تحریمہ کے وقت سر نہ جھکائے بلکہ اعتدال کے ساتھ کھڑا رہے اور تمام نماز میں اسی اعتدال کے ساتھ کھڑا ہو، تکبیر تحریمہ سے فارغ ہوتے ہی دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے، بعض ناواقف لوگ تکبیر تحریمہ سے فارغ ہوتے ہی دونوں ہاتھوں کو نیچے لٹکا دیتے ہیں پھر ان کو ناف کے نیچے باندھتے ہیں، یہ لٹکانا ٹھیک نہیں ہے، ایسا نہیں کرنا چاہئے، ناف کے نیچے اس طرح ہاتھ باندھے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر یعنی کلائی کے جوڑ پر رہے اور انگوٹھے اور چھنگلیا سے حلقہ کے طور پر بائیں ہاتھ کی کلائی کو پکڑ لے، باقی تین انگلیاں کلائی کی پشت پر رہیں اور نظر سجدے کی جگہ پر رہے، پھر آہستہ آواز سے کہ جس کو صرف خود سن سکے ثنا پڑھے، اور وہ یہ ہے۔
      ’’سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَ تَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالٰی جَدُّکَ وَلَآ اِلٰہَ غَیرُک‘‘، امام یا مقتدی یا تنہا نماز پڑھتا ہو سب کے لئے یہی حکم ہے۔ ثنا میں جَلَّ ثَنَاوُکَ سوائے نماز جنازہ کے اور کسی نماز میں نہ پڑھے۔ ’’ اِنَّی وَجَّھتُ وَجْھِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَ الاَرْضَ حَنِیفَا وَّ مَآ اَنَا مِنَ المُشرِکِین اِنَّ صَلٰوتِی وَ نُسُکِی وَ مَحیَایَ وَ مَمَاتِی لِلّٰہِ رَبَّ العٰلَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَ بِذَالِکَ اُمِرتُ وَاَنَا اَوَّلُ المُسلِمِینَ‘‘ یہ کلمات تحریمہ کے بعد نہ پڑھے اور نہ ثنا کے بعد پڑھے، البتہ نفل نماز میں ثنا کے ساتھ ملانا جائز، ہے اور اولیٰ یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ سے پہلے بھی اس سے نیت ملانے کے لئے نہ پڑھے، یہی صحیح ہے، اور متاخرین نے اس کو اختیار کیا ہے کہ تحریمہ سے پہلے اس کو کہہ لے اور صحیح قول یہ ہے کہ اس میں ’’انَا اَوَّلُ المُسْلِمِینَ‘‘ کہنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی کیونکہ نمازی اس کو تلاوت کے قصد سے کہتا ہے نہ کہ اپنے حال کی خبر دیتا ہے، نیز احادیثِ صحیحہ سے اس کا پڑھا جانا ثابت ہے اس لئے مفسدِ نماز نہیں ہو سکتا،البتہ اس کا جواز نفلوں میں پڑھنے پر محمول کیا گیا ہے۔
      پھر تعوذ یعنی ’’اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ ‘‘پڑھے اور سنت یہ ہے کہ اسے آہستہ پڑھے۔ امام ابو حنیفہ و امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک تعوذ قرآت کے تابع ہے ثنا کے تابع نہیں اس پر فتویٰ ہے، اس لئے مسبوق جب اپنی باقی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو تعوذ پڑھے، اور جو مقتدی شروع سے امام کے ساتھ شریک ہو وہ تعوذ نہ پڑھے کیونکہ وہ قرآت نہیں پڑھے گا۔ عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں عید کی تکبیروں کے بعد تعوذ پڑھے اس لئے کہ تکبیروں کے بعد قرآت پڑھے گا اور تعوذ نماز شروع کرتے وقت یعنی پہلی رکعت میں ہے باقی رکعتوں میں نہیں ہے، پس اگر نماز شروع کر دی اور تعوذ بھول گیا یہاں تک کہ الحمد پڑھ لی پھر اس کے بعد یاد آیا تو تعوذ نہ پڑھے، اسی طرح اگر ثنا پڑھنا بھول گیا اور الحمد شروع کر دی درمیان میں یاد آیا تو اب اس کو نہ پڑھے، اس لئے کہ ان کو پڑھنے کا موقع جاتا رہا۔ تعوذ کے بعد ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ‘‘آہستہ پڑھے خواہ وہ نماز جہری ہو یا سری اور خواہ امام ہو یا منفرد، بسم اللہ ہر رکعت کے اول میں پڑھے یعنی الحمد سے پہلے پڑھے، اسی پر فتویٰ ہے، فاتحہ اور سورة کے درمیان میں بسم اللہ پڑھنا سنت نہیں ہے خواہ نماز سری ہو، یہی صحیح ہے لیکن مکروہ بالاتفاق نہیں بلکہ سورة سے پہلے آہستہ پڑھنا مستحب ہے، اگرچہ جہری نماز ہو، البتہ اگر سورة کی جگہ آیات پڑھے تو اس کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا بالاتفاق سنت نہیں ہے۔ بسم اللہ کے بعد الحمد شریف (سورة فاتحہ) پڑھے جبکہ وہ منفرد یا امام ہو، اور مقتدی نہ پڑھے، اور جب سورة فاتحہ ختم کر لے تو آہستہ سے آمین کہے خواہ تنہا نماز پڑھنےوالا ہو یا امام یا مقتدی ہو جبکہ قرآت سنتا ہو، اور اس پر اتفاق ہے کہ یہ نماز کا جزو نہیں، اس کے معنی ہیں " اے اللہ تو ہماری دعائیں قبول کر" آمین میں دو لغت ہیں مدّ بھی ہے اور قصر بھی، یعنی بغیر مدّ کے بھی، اس کے تلفّظ کی نو صورتیں ہیں، ان میں سے ان پانچ صورتوں میں نماز فاسد نہیں ہوتی۔
      1. آمین الف کی مد کے ساتھ، اس طرح کہنا سنت اور افضل ہے۔
      2. قصر کے ساتھ یعنی امین۔
      3. امالے کے ساتھ یعنی ایمین (ان دونوں طرح سے بھی جائز ہے اور سنت ادا ہو جاتی ہے، لیکن یہ افضل نہیں ہے۔
      ( 4. الف کا مدّ اور میم کی تشدید پڑھنا یعنی آمّین۔
      5. الف کا مدّ اور ی کا حذف یعنی آمِن (ان دونوں سورتوں میں سنت ادا نہیں ہوتی لیکن نماز فاسد بھی نہیں ہوتی اس لئے کہ یہ الفاظ قرآن میں موجود ہیں)
      چار سورتیں ایسی ہیں جن سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
      1. الف مقصورہ مع تشدید میم یعنی اَمِیّن۔
      2. الف مقصورہ مع حذف ی یعنی اَمِن۔
      3. تشدید میم و حذف ی یعنی اَمِّن۔
      4. الف مقصورہ و میم مقصورہ مع حذف ی یعنی اَمِن (یہ چاروں الفاظ قرآن میں نہیں ہیں اس لئے مفسدِ نماز ہیں)۔
      اگر مقتدی آہستہ قرآت والی نماز یعنی ظہر و عصر میں امام سے وَلَا الضَّالَّینَ سن لے تو بعض مشائخ نے کہا ہے کہ آمین نہ کہے اس لئے کہ اس جہر کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ آمین کہے۔ جمعہ یا عیدین کی نماز میں یا جس نماز میں جماعت کثیر ہو اگر مقتدی بلاواسطہ امام کی تکبیر نہ سُنے بلکہ بالواسطہ سن لے یعنی دوسرے مقتدیوں کی (جو امام کے قریب ہیں) آمین سن لے تو بعض کے نزدیک آمین کہے۔ پھر کوئی سورة یا بڑی ایک آیت یا تین چھوٹی آیتیں پڑھے تاکہ واجب قرآت ادا ہو جائے بلکہ قرآتِ مسنونہ کے مطابق پڑھے تاکہ کراہتِ تنزیہی دور ہو، قرآتِ مسنونہ کا بیان آگے آتا ہے۔قرآت صاف صاف اور صحیح صحیح پڑھے جلدی نہ کرے،لیکن اگر امام کے پیچھے نماز پڑھے یعنی مقتدی ہو تو صرف ثنا پڑھ کر خاموش کھڑا رہے تعوذ، تسمیہ اور سورة فاتحہ نہ پڑھے۔ قرآت سے فارغ ہو کر رکوع کرے اس طرح پر کہ کھڑا ہوا اللّٰہ اَکْبَر شروع کرے اور کہتے ہوئے جھکتا جائے، یعنی تکبیر کی ابتدا جھکنے کی ابتدا کے ساتھ ہو اور فراغت اس وقت ہو جب پورا رکوع میں چلا جائے، اور اس مسافت کو پورا کرنے کے لئے اللہ کے لام کو بڑھائے، اکبر کی ب وغیرہ کسی حرف کو نہ بڑھائے، معتمد قول یہ ہے کہ سب قرآت پوری کر کے رکوع میں جائے، کوئی حرف یا کلمہ جھکنے کی حالت میں پورا کرنے میں بعض کے نزدیک کچھ مضائقہ نہیں لیکن یہ قول ضعیف اور غیر معتمد ہے، امام رکوع و سجود کی تکبیروں میں جہر کرے اور ہر تکبیر میں اللّٰہ اَکْبَر کی ر کو جزم کرے یعنی ساکن کرے۔
      رکوع میں انگلیوں کو کھلا کر کے ان سے گھٹنوں کو پکڑ لے اور دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں پر سہارا دے، انگلیوں کا کھلا رکھنا سوائے اس وقت کے اور انگلیوں کو ملا ہوا رکھنا سوائے حالت سجدہ کے اور کسی وقت سنت نہیں ہے، یعنی نماز کے اندر ان دو موقعوں کے سوا اور سب موقعوں میں انگلیوں کو اپنی حالت میں رکھے، نہ زیادہ کھلی ہوں نہ زیادہ ملی ہوئی ہوں۔ رکوع میں پیٹھ کو ایسا سیدھا بچھا دے کہ اگر اس پر پانی کا پیالہ رکھ دیا جائے تو ٹھیک رکھا رہے، سر کو نہ اونچا کرے نہ جھکائے بلکہ سر اور پیٹھ اور سرین ایک سیدھ میں رہیں، بازو پہلوؤں سے جدا رہیں، پنڈلیاں سیدھی کھڑی رہیں، اپنے گھٹنوں کو کمان کی طرح جھکانا جیسا کہ اکثر عوام کرتے ہیں مکروہ ہے (بازؤں میں بھی خم نہیں ہونا چاہیے، اکثر عوام رکوع میں گھٹنوں اور بازوؤں میں خم کر دیتے ہیں)۔ رکوع میں نظر دونوں پاؤں کی پیٹھ پر رہے اور سُبْحَانَ رَبَّیَ العَظِیم تین بار پڑھے، یہ کم سے کم تعداد ہے، اگر تسبیح بالکل نہ پڑھے یا ایک بار پڑھے تو بھی جائز ہے مگر مکروہِ تنزیہی ہے، بلکہ صحیح یہ ہے کہ یہ کراہتِ تنزیہی سے زیادہ تحریمی سے کم ہے، (اس میں ائمہ کا اختلاف ہے، امام مالک اور بعض احناف کے نزدیک ایک تسبیح کہنا واجب ہے اس لئے ضروری کہہ لینا چاہیے تاکہ اختلاف ائمہ سے بچا رہے)۔
      رکوع میں انگلیوں کو کھلا کر کے ان سے گھٹنوں کو پکڑ لے اور دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں پر سہارا دے، انگلیوں کا کھلا رکھنا سوائے اس وقت کے اور انگلیوں کو ملا ہوا رکھنا سوائے حالت سجدہ کے اور کسی وقت سنت نہیں ہے، یعنی نماز کے اندر ان دو موقعوں کے سوا اور سب موقعوں میں انگلیوں کو اپنی حالت میں رکھے، نہ زیادہ کھلی ہوں نہ زیادہ ملی ہوئی ہوں۔ رکوع میں پیٹھ کو ایسا سیدھا بچھا دے کہ اگر اس پر پانی کا پیالہ رکھ دیا جائے تو ٹھیک رکھا رہے، سر کو نہ اونچا کرے نہ جھکائے بلکہ سر اور پیٹھ اور سرین ایک سیدھ میں رہیں، بازو پہلوؤں سے جدا رہیں، پنڈلیاں سیدھی کھڑی رہیں، اپنے گھٹنوں کو کمان کی طرح جھکانا جیسا کہ اکثر عوام کرتے ہیں مکروہ ہے (بازؤں میں بھی خم نہیں ہونا چاہیے، اکثر عوام رکوع میں گھٹنوں اور بازوؤں میں خم کر دیتے ہیں)۔ رکوع میں نظر دونوں پاؤں کی پیٹھ پر رہے اور سُبْحَانَ رَبَّیَ العَظِیم تین بار پڑھے، یہ کم سے کم تعداد ہے، اگر تسبیح بالکل نہ پڑھے یا ایک بار پڑھے تو بھی جائز ہے مگر مکروہِ تنزیہی ہے، بلکہ صحیح یہ ہے کہ یہ کراہتِ تنزیہی سے زیادہ تحریمی سے کم ہے، (اس میں ائمہ کا اختلاف ہے، امام مالک اور بعض احناف کے نزدیک ایک تسبیح کہنا واجب ہے اس لئے ضروری کہہ لینا چاہیے تاکہ اختلاف ائمہ سے بچا رہے)۔ جب رکوع طمانیت سے ہو جائے تب سر اٹھائے اور اگر طمانیت نہ ہوئی تو صحیح یہ ہے کہ ترک واجب کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہو گا، اگر امام ہے تو رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے صرف سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ پڑھے، اور اگر مقتدی ہے تو صرف رَبَّنَالَکَ الحَمْدُ پڑھے اور سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ نہ پڑھے، اور اگر تنہا نماز پڑھے تو اصح یہ ہے کہ دونوں پڑھے اور سَمِعَ اللّٰہ لِمَن حَمِدَہ رکوع سے اٹھتے ہوئے کہے یعنی سر اٹھانے کے ساتھ ہی یہ الفاظ شروع کر دے، اور کھڑا ہونے تک پورا کرے، جھکے جھکے یا سیدھا ہو کر نہ کہے اور جب سیدھا ہو جائے تو رَبَّنَالَکَ الحَمد کہے یہی سنت ہے۔ کسی شخص نے رکوع سے اٹھتے وقت سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ نہ کہا اور سیدھا کھڑا ہو گیا تو اب سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ نہ کہے، اسی طرح ہر اُس ذکر کا حال ہے جو حالت انتقال یعنی رکن بدلنے کے لئے ہے، جیسے تکبیر کے قیام سے رکوع کی طرف جھکتے وقت یا رکوع سے سجدے کی طرف جھکتے وقت یا سجدے سے اٹھتے وقت کہتے ہیں، اگر اس کو اس کے مقام پر ادا نہ کرے تو بعد میں ادا نہ کرے، اسی طرح سجدے میں جو تسبیح باقی رہ جائے تو وہ سر اٹھانے کے بعد نہ کہے بلکہ ضروری ہے کہ ہر چیز میں اس کی جگہ کی رعایت کرے، سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کی ہ کو جزم کرے اور حرکت (یعنی پیش) کو ظاہر نہ کرے، یعنی ھُو نہ کہے (ایک قول کے مطابق ضمہ اشباع کے ساتھ یعنی حَمِدَ ھُو کہے)، پھر جب سیدھا کھڑا ہو جائے تو تکبیر کہہ کر سجدے میں جائے، تکبیر (اللّٰہ اکبر) جھکتے ہوئے کہے اور سجدے میں پہنچنے تک ختم کرے، سجدے میں سُبحَاَنَ رَبَّیَ الاَعلٰی تین بار پڑھے اور یہ کم سے کم تعداد ہے، اگر تسبیح بالکل ترک کر دے گا یا تین بار سے کم کہے گا تو یہ فعل مکروہِ تنزیہی ہے، بلکہ صحیح یہ ہے کہ تنزیہی سے زیادہ اور تحریمی سے کم ہے، ائمہ کے اختلاف سے بچنے کے لئے کہہ لینا چاہئے جیسا کہ رکوع میں بیان ہوا، اور رکوع و سجدے کی تسبیح تین بار سے زیادہ کہنا مستحب ہے جبکہ امام نہ ہو، لیکن طاق عدد پر ختم کرے یعنی تسبیح کم سے کم تین بار پڑھے اور اوسط پانچ بار اور اکمل سات بار، اور اس سے بھی زیادہ کرے تو زیادہ ثواب ہے، اگر امام ہو تو تین بار سے زیادہ نہ کرے تاکہ مقتدیوں پر تنگی نہ ہو (لیکن اس قدر اطمینان سے کہے کہ مقتدی بھی تین بار کہہ سکیں)۔
      سجدے میں جاتے وقت پہلے زمین پر وہ اعضا رکھے جو زمین سے قریب ہیں، پھر اس کے بعد والے علی الترتیب رکھے، پس پہلے دونوں گھٹنے رکھے، پھر دونوں ہاتھ، پھر ناک، پھر پیشانی رکھے، اور پیشانی کا اکثر حصہ ضرور لگائے کیونکہ یہ واجب ہے، پیشانی کو اس طرح رکھے کہ اچھی طرح قرار پکڑ لے، اور جب سجدے سے اٹھے تو اس کے برخلاف کرے، یعنی پہلے پیشانی، پھر ناک، پھر دونوں ہاتھ، پھر گھٹنے اٹھائے، یہ اس وقت ہے جبکہ ننگے پاؤں ہو یا اور کوئی عذر نہ ہو، لیکن اگر کوئی عذر ہو مثلاً موزے پہنے ہوئے ہوں یا عمر زیادہ ہو کہ پہلے گھٹنے نہیں رکھ سکے گا تو دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے رکھ لے، اگر عذر کی وجہ سے دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنےعلی الترتیب ایک ساتھ زمین پر نہیں رکھ سکتا تو دائیں ہاتھ اور گھٹنے کو بائیں پر مقدم کرے، لیکن بلا عذر ایک ساتھ نہ رکھنا مکروہ ہے، سجدے میں دونوں ہاتھ کانوں کے مقابل میں رکھے، یعنی چہرہ دونوں ہتھیلیوں کے درمیان اور انگوٹھے کانوں کی لو کے مقابل رہیں، ہاتھوں کی انگلیاں ملی رہیں تاکہ سب کے سرے قبلے کی طرف رہیں اور دونوں پاؤں کی سب انگلیوں کے سرے بھی قبلہ رخ رہیں، ہتھیلیوں پر سہارا دے اپنے بازؤں کو پہلوؤں سے جدا رکھے، لیکن جماعت کے اندر بازؤں کو پہلوؤں سے ملائے رکھے، جدا نہ رکھے،کہنیوں کو زمین پر نہ بچھائے بلکہ زمین سے اٹھا ہوا رکھے اور پیٹ کو رانوں سے جدا رکھے، نگاہ ناک کی نوک (سرےِ) پر رہے، پھر اللہ اکبر کہتا ہوا اپنے سر کو اٹھائے اور اطمینان سے سیدھا بیٹھ جائے، اس کو جلسہ کہتے ہیں، جلسہ میں طمانیت یعنی ایک بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار بیٹھے، یہ طمانیت واجب ہے اور اس کے ترک پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے، اس جلسہ میں کوئی ذکر مسنون نہیں ہے، اسی طرح رکوع سے سر اٹھانے کے بعد تسبیح و تحمید کے علاوہ اور کوئی دعا مسنون نہیں، اور ایسا ہی رکوع و سجود میں تسبیح کے سوا اور کچھ نہ کہے اور جو ذکر یا دعائیں ان موقعوں کے لئے حدیثوں میں آئی ہیں وہ نوافل کے لئے ہیں، لیکن فرضوں کے جلسے میں بھی مستحب یہ ہے کہ دعاء مسنون پڑھے وہ یہ ہے:
      "اَللّٰھُمَّ اغْفِرلِی وَارْحَمنِی وَ عَافِنِی وَ اھْدِنِی وَ ارْزُقْنِی" یا صرف" رَبَّ اغْفِرْلِی"
      ایک یا تین بار پڑھ لیا کرے، اس مستحب کی عادت کی برکت سے جلسے میں طمانیت کا واجب بھی ادا ہو جائے گا ورنہ اکثر لوگ اس کے تارک ہیں، اور اس کی ضرورت سے غافل ہیں، پھر تکبیر کہتا ہوا دوسرے سجدے کے لئے جھکے اور دوسرے سجدے میں بھی پہلے سجدے کی طرح تسبیح پڑھے، پھر جب سجدے سے فارغ ہو تو پنجوں کے بل اٹھے، بلا عذر دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر کھڑا نہ ہو بلکہ دونوں ہاتھوں سے دونوں گھٹنوں پر سہارا دے کر کھڑا ہو، دوسرے سجدے کے بعد بیٹھنا جس کو جلسہ استراحت کہتے ہیں حنفی مذہب میں بلا عذر کے نہیں ہے، لیکن اگر کسی کو عذر ہو تو اس کو زمین پر سہارا دے کر کھڑا ہونا یا قلیل جلسہ استراحت کرنا مستحب ہے، اور اگر بلا عذر دوسرے سجدے کے بعد بیٹھا (یعنی جلسہ استراحت کیا) یا دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر کھڑا ہوا تو مضائقہ نہیں لیکن خلاف اولیٰ اور مکروہِ تنزیہی ہے۔ دوسری رکعت بھی اسی طرح ادا کرے جس طرح پہلی رکعت ادا کی ہے مگر ثنا اور تعوذ نہ پڑھے، یعنی ہاتھ باندہ کر بسم اللہ، الحمد اور سورة پڑھ کر رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ اور دوسرا سجدہ کرے، اور جب دوسری رکعت کے دوسرے سجدے سے سر اٹھائے تو قعدہ کرے اس طرح کہ بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے (یعنی اس کو اپنی دونوں سرین کے نیچے رکھے) اور دایاں پاؤں کھڑا کرے اور اپنے کھڑے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف کرے، بچھے ہوئے پاؤں کی انگلیوں کو بھی قبلہ رخ رکھے اور دونوں ہاتھ دونوں رانوں پر رکھ کر قدرتی حالت میں انگلیاں پھیلا دے، ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے گھٹنوں کے قریب ہوں اور قبلہ کی طرف رہیں، انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑنا نہیں چاہئے یہی اصح ہے اگرچہ پکڑنا بھی جائز ہے مگر نہ پکڑنا افضل ہے اس لئے کہ پکڑنے سے انگلیوں کے سرے قبلہ رخ نہیں رہیں گے بلکہ زمین کی طرف ہو جائیں گے جلسے اور قعدے میں نظر اپنی گود پر رہے۔
      قعدے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول تشہد پڑھے اور وہ یہ ہے۔
      ’’اَلتَّحَّیاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَ الطَّیَّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَیکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَ رَحمَۃُ اللّٰہ وَ بَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلَامُ عَلَینَا وَعَلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِینَ، اَشْھَدُ اَن لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُہٗ وَ رَسُولُہٗ‘‘
      اور جب" اَشْھَدُ اَن لَّا ٓاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ" پر پہنچے تو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے اور بیچ کی انگلی سے حلقہ باندھ لے اور چھنگلیا اور اس کے پاس کی انگلی کو (مٹھی کی طرح) بند کرے، اور کلمہ کی انگلی اٹھا کر اشارہ کرے لَا اِلٰہَ پر انگلی اٹھائے اور اِلَّا اللّٰہ پر جھکا دے، اور پھر قعدے کے آخر تک اسی طرح حلقہ باندھے رکھے، تشہد کے بعد درود شریف پڑھے اور وہ یہ ہے:
      ’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّد کَمَا صَلَّیتَ عَلٰی اِبرَاھِیمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِیدٌمَّجِیدٌ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکتَ عَلٰی اِبرَاھِیمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ‘‘
      نماز میں بھی درود شریف میں حضور انور علیہ الصلوة والسلام کے نام مبارک اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام مبارک کے ساتھ لفظ سیدنا ملانا افضل و بہتر ہے، اور بعض کے نزدیک نہ ملانا بہتر ہے، اور تشہد میں اشھدان محمدًا کے ساتھ سیدنا کا لفظ نہ ملائیں جب درود سے فارغ ہو جائیں تو اپنے لئے اور اپنے ماں باپ اور سب مسلمان مردوں اور عورتوں کے واسطے مغفرت کی دعا مانگیں، دعا میں صرف اپنی تخصیص نہ کریں یہی صحیح ہے۔ ( کافر ماں باپ و اساتذہ کے لئے جب مر گئے ہوں دعا مغفرت حرام ہے اور بعض فقہ نے کفر تک لکھا ہے، ہاں اگر زندہ ہوں تو ان کے لئے ہدایت و توفیق کی دعا کریں، گناہگار مومنوں کے لئے دعاِمغفرت مانگنا جائز ہے کیونکہ اس میں اپنے مومن بھائیوں پر فرط محبت کا اظہار ہے اور اس میں نص کی مخالفت نہیں ہے کیونکہ ارشاد باری تعالٰی ہے:
      ِانَّ اللّٰہَ لَا یَغفِرُ اَن یُّشرَکَ بِہٖ وَ یَغفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَّشَآء۔(سورۃ نساء آیت نمبر 48)
      یعنی مشرک کے علاوہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا بخش دے گا، اس طرح دعا نہ مانگے جس طرح آدمیوں سے باتیں کرتا ہے یا جس کا بندوں سے مانگنا ممکن ہے مثلاً اللّٰھُمَّ زَوَّجنِی نہ کہے، محلات عادّیہ مہلات شرعیہ کی دعا مانگنا حرام ہے، ماثورہ دعاؤں میں سے پڑھے یعنی جو دعائیں قرآن پاک یا احادیث میں آئی ہیں پڑھے، مثلاً:
      ’’رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَۃً وَّ فِیَ الآخِرَةِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ‘‘
      یا یہ دعا پڑھے:
      ’’اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِجَمِیعِ المُؤمِنِینَ وَالمُؤمِنَاتِ وَ المُسلِمِینَ وَ المُسلِمَاتِ الاَحْیَآء ِمِنھُم وَالاَ موَاتِ ‘‘
      دیگر:
      رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ, رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ
      دیگر
      ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّی ظَلَمتُ نَفسِی ظُلمًا کَثِیرًاوَّ لَا یَغفِرَ الذُّنُوبَ اِلَّا اَنتَ فَاغفِرلِی مَغفِرَةً مِن عِندِکَ وَ ارحَمنِی اِنَّکَ اَنتَ الغَفُورُ الرَّحِیمُ ‘‘
      (یہ دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں پڑھنے کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کو تعلیم فرمائی) یا کوئی اور دعا جو قرآن یا حدیث میں آئی ہو پڑھے، اگر قرآن کی دعا پڑھے تو قرآت یعنی قرآن پڑھنے کی نیت نہ کرے اس لئے کہ قرآت قیام کے سوا دوسرے ارکان رکوع و سجود و قعدہ میں مکروہ ہے بلکہ دعا کی نیت سے پڑھے، دعا عربی زبان میں پڑھے، نماز کے اندر غیر عربی میں دعا پڑھنا مکروہ ہے، پھر دونوں طرف یعنی دائیں اور بائیں سلام پھیرے، پہلے سلام میں اس قدر داہنی طرف کو پھرے کہ اس کے داہنے رخسارے کی سفیدی اس طرف کے پیچھے والے نمازی کو نظر آ جائے اور اسی قدر بائیں طرف کو پھیرے، یہی اصح ہے اور لفظ! اَلسَّلَامُ عَلَیکُم وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ کہے، اگر صرف السلام علیکم یا صرف السلام یا علیکم السلام کہے گا تو کافی ہو گا مگر سنت کا تارک ہو گا اس لئے مکروہ ہو گا، دائیں اور بائیں کو منہ پھیرنا بھی سنت ہے، اس وقت نظر دائیں اور بائیں کندھے پر رہے یہ مستحب ہے، مختار یہ ہے کہ سلام الف لام کے ساتھ کہے اور اسی طرح تشھد میں ال کے ساتھ سلام کہے اور ختم نماز کے سلام میں وبرکاتہ نہ کہے بلکہ تشھد کے سلام میں کہے۔ سنت یہ ہے کہ امام دوسرا سلام پہلے سلام کی بہ نسبت نیچی آواز سے کہے اور یہی بہتر ہے، اگر صرف دائیں طرف سلام پھیر کر کھڑا ہو گیااور بائیں طرف سلام پھیرنا بھول گیا تو صحیح یہ ہے کہ اگر ابھی تک باتیں نہیں کیں اور قبلے کی طرف پیٹھ نہیں کی تو بیٹھ کر دوسرا سلام پھیر دے، اور اگر قبلے کی طرف کو پیٹھ پھیر چکا یا کلام کیا تو دوسرا سلام نہ پھیرے، اگر اس کا الٹ کیا یعنی پہلے بائیں طرف کو سلام پھیر دیا تو جب تک کلام نہیں کیا اور قبلے سے نہ پھرا تب تک دائیں طرف کا سلام پھیر دے اور بائیں طرف کے سلام کا اعادہ نہ کرے، اور اگر منہ کے سامنے کو (قبلے کی طرف) سلام پھیرا ہے تو دوسرا سلام بائیں طرف کو پھیر دے یعنی سامنے کا سلام دائیں طرف کے قائم مقام ہو جائے گا۔ مقتدی کے سلام پھیرنے کے وقت میں اختلاف ہے مختار یہ ہے کہ مقتدی منتظر رہے اور جب امام داہنی طرف کو سلام پھیر چکے تب مقتدی داہنی طرف کو سلام پھیرے اور جب امام بائیں طرف کے سلام سے فارغ ہو تب مقتدی بائیں طرف کو سلام پھیرے۔ جو محافظ فرشتے اور انسان اور صالح جن امام کے دونوں طرف ہیں سلام میں ان کی نیت دل میں کرے، ہمارے زمانے میں عورتوں کی اور ان لوگوں کی جو نماز میں شریک نہیں نیت نہ کرے یہی صحیح ہے۔ مقتدی دائیں بائیں طرف کے مقتدی لوگوں اور جنوں اور فرشتوں کے ساتھ امام کی نیت بھی کرے، پس اگر امام داہنی طرف ہو تو اس طرف کے لوگوں میں اور بائیں طرف ہو تو اس طرف کے لوگوں میں امام کی بھی نیت کرے، اور اگر امام سامنے ہو تو امام ابو یوسف کے نزدیک دائیں جانب کے لوگوں میں اس کی نیت کرے اور امام محمد کے نزدیک دونوں طرف امام کی بھی نیت کرے، امام ابو حنیفہ سے بھی یہی روایت ہے اور یہی صحیح ہے۔ تنہا نماز پڑھتا ہو تو صرف فرشتوں کی نیت کرے اور کسی کی نیت نہ کرے، فرشتوں کی نیت میں کوئی تعداد معین نہ کرے یہی صحیح ہے۔ (سلام میں اس نیت سے اکثر لوگ غافل ہیں)۔
      یہ دو رکعت والی نماز کی ترکیب ہے اگر تین یا چار رکعت پڑھنا ہوں تو پہلے قعدے میں جب تشھد سے فارغ ہو تو اس سے زیادہ کچھ نہ پڑھے بلکہ فوراًاللہ اکبر کہہ کر تیسری رکعت کے لئے اٹھ کھڑا ہو، قعدے سے بھی اسی طرح گھٹنوں پر سہارا دے کر پنجوں کے بل کھڑا ہو جس طرح پہلی رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہوا تھا، پھر دوسرا دوگانہ اسی طرح ادا کر ے جس طرح پہلے دوگانے میں قیام و رکوع و سجود کر چکا ہے، اور فرضوں کے اس دوسرے دوگانے کی ہر رکعت کے قیام میں صرف بسم اللہ اور الحمد شریف پڑھے، اس پر زیادتی کرنے یعنی صورت ملانے کا کچھ مضائقہ نہیں لیکن مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ ہے، اس سے سجدہ سہو لازم نہیں آتا۔ اور اگر ان پچھلی رکعتوں میں الحمد پڑھنا بھول جائے تب بھی سجدہ سہو لازم نہیں آتا کیونکہ فرضوں کی آخری دو رکعتوں میں نمازی کو اختیار ہے چاہے الحمد پڑھے یا تین بار تسبیح (سبحان اللہ) کہے یا بقدرِ تین بار تسبیح کہنے کے چپ رہے، لیکن سورة الحمد پڑھنا تسبیح پڑھنے سے افضل ہے یہی اصح ہے، اور چپ رہنا مکروہ ہےاور ترک سنت کی وجہ سے موجب اسائت ہے، کیونکہ ان میں قرآت سنت ہے اور سکوت اس کے خلاف ہے، اگر نماز نفل یا سنت یا واجب ہو تو ہر رکعت میں سورة الحمد کے بعد کوئی چھوٹی سورة یا کم از کم تین چھوٹی آیتیں یا ایک بڑی آیت پڑھے کہ اس قدر پڑھنا واجب ہے۔ تین رکعت والی نماز میں تیسری رکعت کے بعد اور چار رکعت والی نماز میں چوتھی رکعت کے بعد قعدہ اخیرہ کرے اور اس قعدے میں تشھد، درود اور دعا اسی طرح پڑھے جس طرح دو رکعت والی نماز کے قعدے میں پڑھنا بیان ہوا ہے کیونکہ اس کا وہی آخری قعدہ ہوتا ہےاور اسی طرح سلام پھیرے۔ جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں یعنی ظہر، مغرب و عشا کی نماز جب امام ان کا سلام پھیر چکے تو وہاں بیٹھ کر توقف کرنا مکروہ ہے، مختصر دعا مثلاً:
      ’’اَللّٰھُم اَنتَ السَّلامُ وَ مِنکَ السَّلَامُ تَبَارَکتَ یَا ذَا الجَلَالِ وَ الاِکْرَامِ ‘‘پڑھے۔
      یہ دعا بھی مسنون ہے:
      ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَئٍ قَدِیرٌ، اَللّٰھُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعطَیتَ وَلَامُعطِی لِمَا مَنَعتَ وَلَا یَنفَعُ ذَا الجَدِّ مِنکَ الجَدُّ ‘‘ بڑی بڑی دعاؤں میں مشغول نہ ہو، تھوڑی تاخیر جائز بلکہ مستحب ہے، زیادہ دیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے اور اس سے سنتوں کا ثواب کم ہو جائے گا۔ مختصر دعا کے بعد امام فوراً سنتوں کے واسطے کھڑا ہو جائے اور جہاں فرض پڑھے وہاں سنتیں نہ پڑھے کہ یہ مکروہِ تنزیہی ہے، دائیں یا بائیں یا پیچھے کو ہٹ جائے اور اگر چاہے تو اپنے گھر جا کر سنتیں پڑھے یہی بہتر ہے جب کہ کسی مانع کا خوف نہ ہو، اور اگر مقتدی یا اکیلا نماز پڑھتا ہو اور وہ اپنی جگہ بیٹھ کر دعا مانگتا رہے تو جائز ہے، اسی طرح سنتوں کے لئے اسی جگہ کھڑا ہو گیا یا پیچھے یا اِدھر اُدھر کو ہٹ گیا تو اس کے لئے یہ سب صورتیں برابر ہیں، یعنی اس کے لئے کوئی کراہت نہیں، ایک قول کے مطابق مستحب ہے کہ مقتدی صفیں توڑ کر آگے پیچھے ہو جائیں اور جن نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہیں یعنی فجر اور عصر ان میں امام کو اسی جگہ قبلے کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھ کر توقف کرنا مکروہ ہے، نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے اس کا نام بدعت رکھا ہے لیکن یہ کراہتِ تنزیہی ہے، پس امام کو اختیار ہے چاہے گھر چلا جائے یا پیچھے مڑ کر بیٹھا رہے، لیکن افضل یہ ہے کہ محراب میں بیٹھا رہے اور جماعت کی طرف منہ کر لے جبکہ اس کے سامنے کوئی مسبوق نماز نہ پڑھتا ہو، اور اگر کوئی نماز پڑھتا ہو تو دائیں یا بائیں طرف کو پھر جائے، اگر امام اور اس نمازی کے بیچ میں کوئی تیسرا شخص ہو جس کی پیٹھ نمازی کی طرف ہو تو امام کے اس طرف منہ کرنے میں کوئی کراہت نہیں کیونکہ تیسرا شخص قائم مقام سترے کے ہو جائے گا، سردی اور گرمی کے موسم کا ایک سا حکم ہے، اور یہی صحیح ہے۔ صبح کی نماز کے بعد امام کو طلوع آفتاب تک محراب میں بیٹھے رہنا افضل ہے، فرض نمازوں کے بعد جب کہ ان کے بعد سنتیں نہ ہوں یعنی فجر و عصر میں فرضوں کے بعد اور جن فرضوں کے بعد سنتیں ہوں یعنی ظہر و مغرب وعشا میں سنتوں کے بعد یہ اذکار مستحب ہے۔
      ’’ اَستَغفِرُ اللّٰہَ العَظِیمَ الَّذِی لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الحَیُّ القَیُّومُ وَ اَتُوبَ اِلَیْہ ِ‘‘
      تین مرتبہ آیت کرسی
      سورة اخلاص قُل ھُوَ اللّٰہُ اَحَدُ ایک مرتبہ۔
      سورة الفلق قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَق ایک مرتبہ۔
      سورة الناس قُل اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ایک مرتبہ۔
      سُبحَانَ اللّٰہ تینتیس(٣٣) بار۔
      اَلحَمدُ لِلّٰہ تینتیس(٣٣) بار۔
      اللّٰہ اَکْبَر تینتیس(٣٣) بار۔
      یہ تینوں مل کر ننانوے بار ہوئے اور سو پورا کرنے کے لئے ایک بار
      ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ، لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَئٍ قَدِیرٌ‘‘
      (بعض روایتوں میں اللّٰہ اَکْبَر چونتیس (٣٤) بار آیا ہے، ان چاروں کلمات کا مذکورہ طریقے پر ملا کر سو بار پڑھنا تسبیح فاطمی کہلاتا ہے۔ اس کے بعد دعا مانگے، دعا کے وقت دونوں ہاتھ سینے تک اٹھا کر پھیلائے اور اللہ تعالٰی سے دعا مانگے، امام ہو تو تمام مقتدیوں کے لئے بھی دعا مانگے، مقتدی خواہ اپنی اپنی دعا مانگیں یا اگر امام کی دعا سنائی دے تو سب آمین کہتے رہیں، دعا ختم کرنے کے بعد دونوں ہاتھ منہ پر پھیرے۔ نماز کے بعد کی دعا غیر عربی زبان میں مانگنا بلا کراہت جائز ہے۔
      فائدہ: احادیث میں کسی دعا و ذکر کی بابت جو تعداد وارد ہے اس سے کم زیادہ نہ کرے، کیونکہ جو فضائل ان اذکار کے لئے وارد ہیں وہ اسی تعداد کے ساتھ مخصوص ہیں ان میں کم زیادہ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی قفل کسی خاص قسم کی کنجی سے کھلتا ہے اب اگر اس کنجی میں دندانے اس سے کم یا زیادہ کر دیں تو پھر اس سے وہ قفل نہ کھلے گا، البتہ اگر شمار میں شک واقع ہو تو زیادہ کر سکتا ہے، اور یہ زیادتی نہیں بلکہ اتمام ہے۔