ریا: حقیقت، وسوسے اور علاج

(یہ بیان 5 اپریل 2003 کے انفاسِ عیسیٰ کے بیان سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اس بیان میں ریا کے مختلف پہلوؤں اور اس کے علاج پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ابتدا میں، وسوسۂ ریا اور اصل ریا کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ اگر ابتداءً ریا کا خیال نہ ہو اور عمل کے وقت وسوسے پیدا ہوں تو عمل کو ترک نہیں کرنا چاہیے بلکہ دل سے ریا کو برا سمجھ کر اسے دفع کرنا کافی ہے۔ ریا کے خوف سے اعمال کو چھوڑنا بھی ایک قسم کی ریا ہے، کیونکہ اس میں لوگوں پر نظر ہوتی ہے۔ بیان میں ریا سے بچنے کے لیے ایک مؤثر طریقہ بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو چٹائیوں کی مانند سمجھا جائے، کیونکہ وہ نہ فائدہ دے سکتے ہیں اور نہ نقصان، لہٰذا ان کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ اصل معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ صاف رکھنا چاہیے، کیونکہ وہی اچھا سمجھنے یا برا سمجھنے کا حقدار ہے۔ کمالات کے اظہار کو ریا قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ وہ دنیاوی غرض کے لیے ہو، جبکہ اپنے عیوب کو چھپانا ریا نہیں ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ محض کسی کے دیکھنے سے ریا نہیں ہوتی جب تک کہ عامل دکھلانے کا قصد نہ کرے۔ ریا کی حقیقت کو "اِرَادَۃُ الْخَلْقِ لِغَرَضٍ دُنْیَوِیٍّ" یعنی دنیاوی مقصد کے لیے مخلوق کو راضی کرنا قرار دیا گیا ہے۔ عبادت میں کسی کے مطلع ہونے پر طبیعت میں فرحت کا ہونا ریا کی علامت تو ہے لیکن خود ریا نہیں، جب تک کہ اس میں ارادہ شامل نہ ہو۔ آخر میں، اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق اور ذکر کی کثرت ہی ریا سے مکمل چھٹکارے کا آسان اور مؤثر ذریعہ ہے۔

ریا:

عمل کے وقت وسوسات ریا کا علاج:

تہذیب: اگر ابتداءً ریا کا خیال نہ ہو اور عمل کے وقت اس قسم کے وساوس پیدا ہو جائیں تو اپنے معمول کو ترک نہ کریں بلکہ ثبات اولیٰ ہے۔ ریا کو دل سے برا سمجھ کر حتی الامکان ان کو دفع کرنا کافی ہے۔

ہمیں اپنے حضرت نے فرمایا تھا کہ ریا جو ہے ناں، یہ اختیاری چیز ہے۔ ریا کیا ہے؟ اختیاری چیز ہے۔ اور وسوسۂ ریا، ریا نہیں ہے۔ لہٰذا اگر تمہیں ریا کا وسوسہ ہوگیا تو یہ اس کو سمجھو وسوسہ۔ اور جتنا آپ اس کو اختیار میں سمجھتے ہو اس کو دور، کیونکہ ارادے سے ہوگا۔ اگر ارادہ سے ہوگا تو ارادے سے ختم بھی ہوگا۔ تو جو ختم نہیں ہو رہا تو وہ وسوسہ ہے۔ پھر فرمایا کہ ریا کی وجہ سے اعمال بھی نہ چھوڑو۔ فرمایا ریا کی وجہ سے اعمال کو چھوڑنا بھی ریا ہے، کیونکہ لوگوں پر نظر ہے۔ پھر مجھے فرمایا کہ کبھی آپ نے چٹائیوں کے بارے میں سوچا ہے کہ یہ مجھے دیکھ رہی ہیں نماز پڑھتے ہوئے؟ میں نے کہا نہیں حضرت کبھی بھی نہیں سوچا۔ فرمایا بس لوگوں کے بارے میں یہی خیال کرو کہ یہ چٹائیوں سے زیادہ نہیں ہیں، کیوں؟ جیسے چٹائیاں مجھے نہ نقصان دے سکتی ہیں نہ فائدہ۔ اس طریقے سے لوگ بھی مجھے حقیقت میں نہ فائدہ دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ تو میں ان کی کیوں پروا کروں؟ مثال کے طور پر ساری دنیا کے لوگ متفق ہو جائیں کہ شبیر سے بڑا بزرگ کوئی نہیں ہے۔ تو بتا دیں کیا میری حالت پر کوئی فرق پڑے گا اصل میں؟ جو مقام میرا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوگا اس کو کوئی فرق پڑے گا؟ خدانخواستہ اگر ایسی بات نہیں ہے تو کیا ان کے سمجھنے سے ہو جائے گا؟ اور اگر سارے دنیا کے لوگ جمع ہو جائیں اور مجھے زندیق سمجھیں، تو کیا میرے اس یعنی مقام میں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ میرا کوئی فرق پڑے گا؟ تو اصل بات تو یہی ہے کہ نہ لوگوں کا اچھا سمجھنے سے کوئی اچھا ہو سکتا ہے نہ لوگوں کا برا سمجھنے سے کوئی برا ہو سکتا ہے۔ اصل چیز تو اللہ تعالیٰ کا اچھا سمجھنا اور برا سمجھنا ہے۔ معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ صاف رکھنا چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ درست ہوگا تو پھر وہ خود ہی لوگوں کے دلوں میں بھی ڈال لے گا۔ اور اس طرف سے بھی مسئلہ ٹھیک ہو جائے گا۔ اور نہ بھی ہو تو آپ اس کے لیے تھوڑا کر رہے ہیں، اب اس کے لیے تو کرنا بھی نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارا معاملہ اللہ کے ساتھ، جس کا معاملہ، جس کی اس پہ نظر ہو کہ میرا معاملہ اللہ کے ساتھ درست ہو، وہ کبھی ریاکار نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک اعمال کی بات ہے تو اعمال میں ایک ذکر ایسی چیز ہے جس کے بارے میں باقاعدہ ارشاد موجود ہے، جس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ تم اتنا ذکر کرو، اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں ریاکار کہیں۔ اتنا ذکر کرو، اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں ریاکار کہیں۔ تو اگر ریاکار کہیں گے تو اس سے نہ رکنے کا حکم ہے ناں۔ مطلب ظاہر ہے کوئی ریاکار کہے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ بلکہ یہ اس کا علاج بھی ہوا ہے کہ جو آدمی ریاکار کہلائے جانے کے لیے تیار ہوگیا تو ریاکار کہاں ہو سکتا ہے؟ کیونکہ ریاکار کو کوئی اچھا تو نہیں ناں سمجھتا۔ تو جو اس بات کے لیے تیار ہوگیا کہ لوگ مجھے ریاکار کہہ دیں، کوئی بات نہیں۔ تو اس کا مطلب وہ ریاکار نہیں ہے۔ دیکھیں ناں کس طریقہ سے علاج فرما دیا کہ وہی کام کروا دیا جس سے لوگ ریاکار سمجھتے ہیں۔ لیکن چونکہ نیت بدلوا دی لہٰذا وہ اس کا علاج بھی ہوگیا۔ تو اس وجہ سے اکثر میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ بھئی تسبیح ہاتھ میں لے کر باقاعدہ وہ تسبیح کر لیا کرو۔ لوگوں کو بھول جاؤ کہ لوگ ہمیں دیکھتے ہیں، کیا، کیا لوگ کر لیں گے؟ ہاں یہ الگ بات ہے کہ دفتر میں یا ادھر ادھر وہ نہ کرو، کیونکہ دفتر میں ہم لوگ اس مقصد کے لیے تو نہیں جاتے، وہ تو ہماری ڈیوٹی ہوتی ہے، تو وہاں جو ہمارا کام ذمے ہوتا ہے وہ ہم کریں۔ وہ ایک یہ وجہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کو خواہ مخواہ بات کرنے کا موقع مل جائے کہ مخالفت کا کہ بھئی یہ تو دفتر اس لیے آتا ہے یا اس طرح کرتا ہے۔ وہ الگ بات ہے، لیکن یہ بات ہے کہ عام حالت میں لوگ اس سے جو ہے ناں وہ نہ رکیں کہ لوگ جو ہے ناں وہ کیا کہیں گے، لوگ بالکل کہتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لوگ اگر کہتے ہیں کہ ریاکار ہے، تو اچھی بات ہے، یہ تو آپ ﷺ کے حکم پر عمل ہو جائے گا۔ پروا اس کی نہیں کرنی چاہیے۔

وسوسہ تو کفر کا بھی آنا مضر نہیں:

تہذیب: ریا تو قصد سے پیدا ہوتا ہے اور جو بلا قصد ہو وہ ریا نہیں، صرف وسوسۂ ریا ہے اور وسوسہ تو کفر کا بھی مضر نہیں، چہ جائیکہ ریا کا وسوسہ۔

آج کل جوانوں پہ بالخصوص، شیطان کا سب سے بڑا attack یہی ہوتا ہے وسوسے کا، سب سے بڑا attack یہی ہوتا ہے۔ اتنے میرے پاس آتے ہیں ناں اس کے بارے میں کہ میں آپ کو کیا بتاؤں، بیچارے تو بعض دفعہ بالکل جیسے پاگل ہونے کو ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بس یہ تو اس طرح، یہ تو اس طرح، اس طرح۔ وجہ کیا ہے؟ شیطان کے لئے یہی ہتھیار سب سے آسان ہے اور لوگ اس کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ بھئی، بالخصوص جو ذرا اعمال کی طرف مائل ہوجاتا ہے تو ان کو پھر وسوسے زیادہ ڈالتا ہے۔ تو جب اعمال نہیں کرتا تو پھر وسوسے نہیں ڈالتا، تو اس کا مطلب یہ کہ اعمال چھڑوانے کا پروگرام ہے تاکہ وہ اعمال چھوڑ دے۔ اور یہ جو ناسمجھ لوگ ہوتے ہیں وہ بھی یہی کرتے ہیں کہ جس وقت کوئی اس قسم کے لوگوں کو وسوسے آتے ہیں تو عام لوگ جو ظاہر ہے مشائخ تو نہیں ہوتے، تو ان کو بتاتے ہیں چھوڑ دو، چھوڑ دو، کوئی بات نہیں۔ حتیٰ کہ مجھے ایک واقعے کا کم از کم پتا ہے۔ ہمارے class fellow تھے، ان کو بھائی نے کہا کہ نماز نہ پڑھو پھر تم مصیبت بن جاتے ہو۔ اس کو جو ہے ناں وہ نیت کا اس کی جو ہے ناں وہ نہیں ہوتی۔ وہ نیت میں اتنے زیادہ وسوسے کرتا کہ بس اس کی رکعت ہوجاتی اور اس کی نیت ہی ابھی نہیں پوری ہوئی ہوتی۔ بس اس طرح ہوتا ہے ناں بالکل۔ تو وہ یہ ہے کہ اس کو بھائی نے کہا کہ بس تم نماز نہیں پڑھو گے۔ حالانکہ یہ اس کا علاج تھوڑا تھا۔ اس کا علاج یہ تو نہیں تھا، اس کو کہتا کہ پروا نہ کرو بس آپ جو ہے ناں اللّٰہ اکبر کہتے جاؤ باقی ٹھیک ہے۔ اس کو سمجھانے کی بات اور اگر بالکل سمجھنے سے معذور تھا تو پھر اس کا میڈیکل علاج کرنا چاہئے۔ باقاعدہ میڈیکل اس کا علاج ہوتا ہے، اس کی میڈیسن ہوتی ہے۔ کیونکہ neuron جس وقت جو ہے ناں وہ transmission میں کوئی مسئلہ ہوجائے تو پھر اس کو اس قسم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے جو senses وہ abnormal set ہوجاتی ہیں تو ان کو پھر دوبارہ نارمل بنانے کے لئے کسی Chemistry کی ضرورت پڑتی ہے، یعنی physical change کی۔ تو اس کے لئے پھر میڈیسن ہے۔ اس کے لئے ڈاکٹری علاج کروانا پڑے گا۔ لیکن ڈاکٹر بھی مسلمان ڈاکٹر ہو، آج کل psychatry میں ملحد زیادہ ہیں اور یہ مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔ وہ پہلے ذرا دیکھنا چاہئے کہ بھئی کوئی اچھا ڈاکٹر ہو جو کم از کم اسلام کو وہ کرتا ہو، acknowledge کرتا ہو۔ فرمایا کہ:

کمالات کے اظہار کا اہتمام ریا ہے:

تہذیب: بجز مربِّی کے اپنے عیوب کسی دوسرے پر ظاہر ہونے کو پسند نہ کرنا یہ ریا نہیں ہے، بلکہ یہ تو مطابق سنت کے ہے۔ استتارِ عیوب کا خود حکم ہے، ہاں! کمالات کے اظہار کا اہتمام یہ ریا ہے۔ اگر وہ کمالات غیر واقع ہوں تو خداع اور تلبیس ہے۔

یعنی یہ بات حضرت نے یہ بات فرمائی کہ اپنے عیوب کو ظاہر نہ کرنا یہ ریا نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی تو حکم دیا ہے اپنے عیوب کو نہ ظاہر کرو۔ تو باقی یہ ہے کہ اپنے کمالات کا جو اظہار ہے اگر وہ اس پر عمل ہو ﴿وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾1 پھر تو ظاہر ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اگر اس کا وہ ہو کہ جو ہے ناں مطلب لوگ مجھے اچھا سمجھیں، تو پھر ریا ہے۔ اور یہ ہے کہ اگر غیر واقع ہوں یعنی وہ کمالات اس میں ہوں ہی نہیں اور پھر بھی یہ کرتا ہو تو پھر یہ تو دھوکہ ہے اور تلبیس ہے، لوگوں کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔

محض دکھلانے کا خیال بلا اختیار آ جانا ریا نہیں جب تک کہ عامل اس کا قصد نہ کرے:

حال: ہر کارِ خیر میں، خصوصاً نماز میں یہ خیال ہوتا ہے (یہ حال ہے کسی کا) کہ تجھے فلاں فلاں دیکھ رہا ہے، اس لیے یہ فعل تیرا ریا اور سُمعہ میں داخل ہے۔ جو اکثر فرض نماز کے سوا باقی افعالِ حسنہ کے ترک پر مجبور کرتا ہے۔

وہی والی بات آگئی ناں۔ فرمایا۔

تہذیب: محض کسی کے دیکھنے سے تو ریا ہوتی نہیں جب تک کہ عامل دکھلانے کا قصد نہ کرے، اور یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ قصد فعلِ اختیاری ہے، محض دکھلانے کا خیال بلا اختیار آجانا یہ قصد نہیں۔ اس علم کی تصحیح بھی اس خیال کا علاج ہے اور اس خیال کے مقتضا پر عمل نہ کرنا، یعنی طاعت کو ترک نہ کرنا اس کا مکمل علاج ہے۔

طاعت سے نہ رکنا یہ اس کا مکمل علاج ہے۔

عمل اور خُلُق کی اصلاح کا طریقہ:

تہذیب: عبادات میں جو ریا ہو عقلاً اس کو دبانا اور روکنا یہ عمل کی اصلاح ہے۔ اور اس عادت سے اس خُلُق (ریا) کا تقاضا نہ ہونا یہ خُلُق کی اصلاح ہے۔

یعنی عقلاً انسان اس کو دیکھے ناں کہ بھئی لوگوں کے دیکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ چلیں دیکھ لیں۔ مجھے کیا، میں کیوں اس کے بارے میں سوچوں؟ کیونکہ نہ اس کا کچھ فائدہ ہوتا ہے نہ دیکھنے سے نقصان ہوتا ہے، لہٰذا میرا اس میں کوئی وہ نہیں ہے۔ جو کچھ ہوتا رہے ہوتا رہے، اس کا مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تو یہ پھر اس کا عقلاً علاج ہے۔

ریا کی حقیقت:

تہذیب: (1) ریا کی حقیقت ہے "اِرَادَۃُ الْخَلْقِ لِغَرَضٍ دُنْیَوِیٍّ"، "اِرْضَاءُ خَلْقٍ لِلْحَقِّ" ریا نہیں۔

فرمایا کہ ریا کی حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کے لئے عمل کرنا کسی دنیاوی مقصد کے لئے۔ بڑی جامع تعریف فرما دی۔ لوگوں کے لئے دکھلانے کی نیت کرنا کسی دنیاوی غرض کے لئے۔ صرف لوگوں کی رضامندی کرنا جو ہے ناں یہ ریا نہیں ہے، کیونکہ یہ تو بعض دفعہ دین میں بھی ضروری ہوتا ہے۔ دین میں بھی یہ چاہیے ہوتا ہے۔ کسی دنیاوی غرض کے لئے۔ دنیاوی غرض سے مراد یہ ہے کہ مجھے بزرگ سمجھے تو بزرگی تو دنیا کی ساری چیزیں ہیں، یہ دنیا کا شعبہ ہے۔ ٹھیک ہے ناں۔ تو اس میں یہ بات ہے کہ یا کوئی مجھے بڑا سمجھے، حبِ جاہ جس کو ہم کہتے ہیں کہ یہ بھی دنیا کا شعبہ ہے۔ دنیا کس کو کہتے ہیں؟ ذرا تھوڑا سا اس کو سمجھنا چاہیے۔ دنیا ہر وہ چیز ہے جو موت سے پہلے ہے۔ موت دنیا کی سرحد ہے۔ موت کے اُس طرف آخرت ہے، اِس طرف ساری دنیا ہے۔ تو جس کا عمل اُس چیز سے وابستہ ہے یعنی اس فائدے کے ساتھ وابستہ ہے جو موت سے پہلے ہے، تو یہ دنیا کے لئے ہوا، غرض دنیاوی ہوئی۔ اور جو اس غرض سے وابستہ ہے جو موت کے بعد ہے تو یہ آخرت کے لئے ہے۔ سمجھ میں آگئی؟ ٹھیک ہے ناں؟ یہ ہے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آگئی تو پھر اب بتا دو کہ کیا اس میں اشکال رہتا ہے؟

سوال: وہ رضامندی والی بات سمجھ نہیں آئی۔

جواب: وہ کر لیا ناں کہ محض۔۔۔۔ دیکھیں ناں، ایک استاد ہے وہ اس لئے ایک عمل کرتا ہے کہ میرے شاگرد کو اچھی طرح یہ بات سمجھ میں آ جائے۔ وہ ریا تو نہیں ہے ناں؟ شیخ اگر اس لئے بات کرتا ہے، اپنے اعمال کی، کچھ طریقے بتاتا ہے کہ میرے مریدوں کو اس کا اچھی طرح پتا چل جائے۔ یہ تو ریا نہیں ہے۔ بلکہ آپ نے میرے خیال میں حضرت کے ملفوظات میں پڑھا ہوگا، سنا ہوگا، فرمایا کہ شیخ کی ریا مرید کے اخلاص سے بہتر ہے۔ شیخ کی ریا جو ہے وہ مرید کی اخلاص سے بہتر ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ شیخ کی ریا کے ساتھ مرید کی اصلاح وابستہ ہے۔ اگر شیخ اپنے سارے اعمال چھپ چھپا کے کرے تو پھر مرید کی اصلاح کیسے ہو؟ ٹھیک ہے ناں۔ تو مطلب ضابطے ہر ایک کے لئے مختلف ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے؟ تو اس وجہ سے فرمایا کہ جس شیخ کا یہ ارادہ کہ مرید کی اصلاح ہو جائے یہ تو دنیا کے لئے نہیں ہوا ناں، یہ تو دین کے لئے ہوا، آخرت کے لئے ہوا۔ لہٰذا غرض دنیاوی نہیں ہے، لہٰذا وہ ریا نہیں ہے۔ اور جس کی نیت دنیاوی غرض کے لئے ہو وہ ریا ہے، اس سے بچنا چاہیے۔

تہذیب: (2) ریا کی حقیقت یہ ہے کہ عبادت کا اظہار کسی دنیاوی غرض سے کیا جائے، یا کسی فعلِ مباح کا اظہار کسی معصیت کی غرض سے کیا جائے۔

کسی مباح۔ مباح وہ ہوتے ہیں جو جائز ہوتے ہیں، اُس سے اگر آپ نے کوئی گناہ کا ارادہ کرلیا، گناہ کا ذریعہ اس کو بنایا، تو یہ بھی مطلب اس میں ریا آجائے گا۔

ریا میں صرف تصحیحِ نیت کافی نہیں بلکہ عمل میں تغیُّر بھی نہ کرے:

حال: بعض مرتبہ کسی اچھے کام میں مصروف ہوتا ہوں اچانک کسی شخص پر نظر پڑ جاتی ہے تو اکثر و بیشتر یہ خیال ہوتا ہے کہ اس کام کو اور اچھی طرح پر کرو۔ مجھے اتنا تو یہ یقیناً معلوم ہے کہ یہ ریا ہے اور ایسے وقت میں یہ سمجھ کر کہ انسان کیا چیز ہے جو اس کو دکھلا کر کام کریں، اس کام کو کیے جاتا ہوں اور نیت حق تعالیٰ کی طرف پھیر لیتا ہوں، نیت پھیر لینے سے ریا جاتی رہے گی یا نہیں؟

تہذیب: میرا مذاق اس میں یہ ہے کہ صرف تصحیحِ نیت اس میں کافی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ خطرہ کے بعد عمل میں تغیُّر بھی نہ کرے، کیونکہ تصحیحِ نیت اس کا مقصود بالذات نہیں، بلکہ مقصود بالذات (اس کا) تحسینِ عمل للحق ہے اور تصحیحِ نیت اس تحسین کا آلہ، تاکہ غائلۂ ریا سے بھی بچا رہے اور مقصودِ نفس بھی حاصل ہو جائے۔ تو جس اخلاق سے تحصیلِ ریا مقصود ہو وہ مقدمۂ ریا ہونے کے سببِ ریا ہی ہے۔ اگر دوسرے اطباء کی تحقیق اس کے خلاف بھی ہو تب بھی اپنی رائے پر قائم ہوں، ذوقیات میں ایک کا اجتہاد دوسرے پر حجت نہیں۔

یہ بالکل ذرا مشکل مضمون ہے، یہ اصل میں حال تو آپ کو سمجھ میں آگیا ناں کہ جو انہوں نے کہا تھا، ان کی بات تو سمجھ میں آگئی ہوگی۔ حضرت کی جو تحقیق ہے وہ سمجھ میں نہیں آئی ہوگی۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ جو آپ کہتے ہیں کہ میں نیت حق تعالیٰ کی طرف پھیر لیتا ہوں کہ میں اللہ کے لئے کرتا ہوں، تو فرمایا کہ ٹھیک ہے، نیت پھیر لینے سے آپ کی وہ چیز تو نہیں، لیکن فرمایا کہ میں اس کو کافی نہیں سمجھتا، کیونکہ نیت پھیر لینے کے باوجود آپ اگر اس کی وجہ سے تغیر کریں گے عمل میں یعنی اس کو آپ زیادہ بہتر کریں گے تو یہ مقدمۂ ریا ہو سکتا ہے۔ مقدمۂ ریا ہو سکتا ہے، کیونکہ اس سے ریا آگے بڑھ سکتا ہے۔ آپ عمل میں change ہی نہ کرو، یعنی existing یعنی جو اس کی ہے وہ اس شخص کی، اس کو زیرو سے ضرب دے دو، جیسے وہ ہے ہی نہیں، جیسے کہ وہ ہے ہی نہیں، اس صورت میں جو کچھ ہوتا اتنا کرو بس ویسے ہی کرو۔ لہٰذا کوئی پروا نہ کرو پھر، لیکن اگر آپ نے اس کے لئے کوئی تبدیلی کر لی اور آپ نے کہا چلیں جی میں اس کو اللہ کے لئے اب کرتا ہوں، تو یہ اگرچہ اس وقت تو نہیں لیکن مقدمۂ ریا ہے۔ آئندہ آگے ریا بن جائے گا، یعنی راستہ مل جائے گا اس کو، آپ اس طریقہ سے ریا کر لیا کریں گے۔ اس طریقہ سے، چونکہ وہ اصل نیت تو اس کی مغلوب ہوجائے گی۔ ظاہر میں بظاہر ہم سمجھتے رہیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے لئے کرنا ہے۔ ٹھیک ہے ناں۔ اس وجہ سے حضرت نے اس کے بارے میں فرمایا کہ میں اس کو کافی نہیں سمجھتا اور فرمایا چونکہ مسئلہ اختلافی لگتا ہے تو اگر کسی نے اختلاف بھی کر لیا تو میں اپنی بات پہ قائم ہوں، کیونکہ مجھے اس میں ریا نظر آ رہا ہے۔ ذوقیات میں کسی اور کے اجتہاد کا انسان مکلف نہیں ہے۔ سبحان اللّٰہ، سبحان اللّٰہ، سبحان اللّٰہ۔

عبادت کو کسی کے دیکھنے پر طبیعت میں فرحت کا ہونا علامت وجود مادہ ریا کی ہے:

حال: اثناءِ عبادت یا عبادت سے فراغ کے بعد اگر کوئی شخص اس عبادت پر مطلع ہو جائے تو اس عابد کے دل میں ایک قسم کی فرحت و خوشی پیدا ہو جاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ دل کے اندر ریا اس طرح چھپا ہوا ہے، جس طرح راکھ کے اندر آگ کہ دوسروں کے مطلع ہونے پر اسی لیے تو سرور ہوتا ہے۔

یہ کیا ہے؟ یہ حال ہے۔ فرمایا:

تہذیب: اس عبارت میں اس فرحت کو ریا نہیں کہا، اس کو علامتِ ریا کہا اور علامت بھی مادۂ ریا کی کہا، جس پر مؤاخذہ نہیں۔

یعنی یہ جو ہے ناں حضرت نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی عمل کو کر رہا ہو جیسے مثال کے طور پر تہجد پڑھ رہا ہے اور کوئی اٹھ گیا ہے اس وقت اور اس نے دیکھ لیا اور میرا دل خوش ہو جائے ما شاء اللہ اس نے مجھے اس حالت میں دیکھ لیا، چلیں جی۔ تو اب یہ جو اس کو خوشی حاصل ہوئی ہے، یہ خوشی بھی تو simultaneous ہے۔ اس نے ارادہ تو اس کا نہیں کیا۔ خوشی کا کوئی ارادہ کرتا ہے؟ خوشی کا کوئی ارادہ تو نہیں کرتا، خوش ہو جاتا ہے، خوشی ارادہ سے تو نہیں ہوتی۔ اب میں خوش ہونا چاہتا ہوں اور اب میں خفا ہونا چاہتا ہوں، کوئی اس طرح تو نہیں کرتا۔ بس خوش ہو جاتا ہے اور خفا بھی ہو جاتا ہے۔ تو اس کا اس عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اس کی پروا نہ کریں۔ مطلب ظاہر ہے اس کو وہ نہیں ہے ناں، یعنی اس کا اس کے عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، بھئی خوشی تو ٹھیک ہے جی بس آپ کو ہوگئی کہ جو ہے ناں اچھا عمل کرتے ہوئے اس نے آپ کو دیکھ لیا، ما شاء اللہ ٹھیک ہے۔ باقی یہ بات یہ ہے کہ جہاں تک بزرگی کی بات ہے وہ آپ کے ریا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، وہ آپ کا دوسرا فعل ہے، عجب، اس کو پہلے سے روک دیا۔ ٹھیک ہے ناں؟ لہٰذا اس کو ہم ریا تو نہیں کہیں گے ناں، کیونکہ اس نے وہ عمل اس کے لئے تھوڑا کیا ہے؟ ٹھیک ہے ناں۔ تو یہ بات ہے کہ اس context سے اس کا علاج کر لو، باقی یہ ہے کہ یہ ریا نہیں ہے۔ سمجھ میں آگئی بات؟ صحیح ہے۔ حدیث شریف میں اس کے بارے میں آیا ہے ناں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی نے ان سے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ جب میں نیکی کرتا ہوں اتنا خوش ہوتا ہوں وہ جو ہے ناں وہ۔ فرمایا کہ یہ عمل کا فوری اثر ہے، تو اس پر خوش ہونا ہے تو اگر اس کو اللہ کی طرف سے آپ سمجھتے ہیں تو پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟ باقی یہ بات ہے کہ وسوسہ کے طور پر کوئی چیز jump کر کے آ جائے ذہن میں تو اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور اس وسوسے سے اگر آپ کو خوشی ہوگئی تو ٹھیک ہے وہ خوش ہوگئے ہیں، اس سے کیا ہوگا۔ اس کا آپ کے عمل کے ساتھ تو کوئی تعلق نہیں ہے۔ ٹھیک ہے؟ ہاں! یہ بات ہے کہ اس میں عجب نہیں آنا چاہیے اور عجب کا علاج بھی وہی ہے کہ اس کو من جانب اللہ سمجھیں، اس کو اپنی طرف سے نہ سمجھو۔ ٹھیک ہے ناں؟ فرمایا

ریا مع اللہ کی صورت:

تہذیب: خلوت میں نماز اس خیال و نیت سے پڑھنا کہ مخلوق کے سامنے بھی طویل نماز پڑھ سکے، اور حق تعالیٰ کا یہ اعتراض لازم نہ آئے کہ مخلوق کے سامنے تو لمبی نماز پڑھتا ہے اور میرے سامنے مختصر پڑھتا ہے، تو یہ لمبی نماز خلوت کی، خدا کے لیے نہیں ہے، بلکہ مخلوق کے سامنے ریا باقی رکھنے کے لیے ہے۔ یہ ریا مع اللہ ہے۔

یعنی اللہ کے ساتھ ریا، اللہ کے ساتھ جو ریا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی خلوت میں اس لئے نماز لمبی پڑھے تاکہ مخلوق کے سامنے بھی اس طرح لمبی نماز پڑھ سکے اور اللہ تعالیٰ کہیں یہ نہ کہہ دے کہ دیکھیں میرے لئے تو اتنا مختصر نماز پڑھتے ہو اور مخلوق کے لئے جو ہے ناں اتنی لمبی نماز پڑھتے ہو، تو یہ چونکہ اس میں وجہ اصل میں تو مخلوق کے لئے ہے، لہٰذا یہ تو اگرچہ اللہ کے لئے پڑھ رہا ہے لیکن ہے ریا، کیونکہ اس میں انہوں نے نیت اس کا یعنی مطلب ہے کہ وہ جو ہے ناں اثر لیا ہے اور مخلوق کا اثر لیا ہے۔ یہ بات آپ سمجھ گئے ہیں۔ باریک بات ہے، سمجھ گئے ہیں آپ بھی؟ سمجھ گئے ہیں آپ بھی؟ اچھا ٹھیک ہے، ما شاء اللہ۔

ترکِ عبادت میں تکبر اور ریا کی صورت:

تہذیب: مخلوق کے لیے عملِ عبادت کو ترک کرنا جس طرح تکبر ہے اسی طرح ریا بھی ہے۔

یعنی آپ ایک کام کر رہے ہیں دین کا اور کہتے ہیں کوئی مخلوق مجھے دیکھ نہ لے تو اس کو چھوڑ دیں، تو یہ پھر ریا ہے، کیونکہ ہم نے اس کا اثر لیا ہے۔ بھئی جب آپ کر رہے تھے اللہ کے لیے تو اس کو کیوں چھوڑ دیا؟ اللہ کے لیے کر رہے تھے ناں؟ تو مخلوق کے آنے سے کیا ہوگیا؟ کرتے رہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، مطلب مخلوق کا اثر نہ لو۔ ریا سے بچنے کا طریقہ کیا ہے کہ مخلوق کا اثر نہ لو۔ مخلوق کو زیرو سے ضرب دے دو۔ ٹھیک ہے ناں؟ مخلوق کو زیرو سے ضرب دو، فلاں صاحب نہ کچھ دے سکتے ہیں نہ فلاں آپ کو دے سکتے ہیں۔ نہ آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اگر اللہ نے نہیں چاہا اور نہ آپ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ لہٰذا جب مخلوق آپ کو کچھ دے نہیں سکتی، کچھ آپ سے لے نہیں سکتی تو پروا کیوں کرتے ہو؟ بس اللہ کے ساتھ اپنا معاملہ درست رکھو۔ اب یہ ساری باتیں علمی ہیں، یہ ساری باتیں علمی ہیں۔ عمل میں تب آئیں گی جب اللہ کے ساتھ ایسا تعلق لگ جائے گا کہ مخلوق کا تعلق زیرو ہو جائے اس کے سامنے۔ ٹھیک ہے ناں۔ ہمارے ایک numerical method ہے، numerical۔ اس میں یوں کرتے ہیں کہ equations ہے ناں اس میں coefficients ہوتے ہیں۔ تو ان میں باقی coefficients کو زیرو کرنے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ ان میں سے ایک کو بہت بڑی تعداد کے ساتھ ضرب دے دیں مطلب 10 کی پاور 14 سے ضرب دے دیں۔ باقی اس کے مقابلے میں زیرو ہوجائیں گے، وہ خود بخود اس کے سامنے negligible ہوجائیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہو جائے گا تو مخلوق، مخلوق کا asset negligible ہو جائے گا، زیرو ہو جائے گا، اس کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی، تو اللہ کے ساتھ تعلق ہوگا تو پھر یہ ریا نکل سکے گا۔ یہ ریا ویسے نہیں نکلتا۔ یہ ساری باتیں علمی ہیں۔ یہ حالی تب بنیں گی جب وہ چیز حاصل ہو جائے گی۔ کیونکہ وہ تو بھی حال ہے ناں۔ جب وہ کیفیت حاصل ہو جائے گی پھر یہ ساری باتیں ہو جائیں گی۔ تو علمی لحاظ سے تو یہ تو مفید ہیں، لیکن عملی لحاظ سے جو ہے وہ، مطلب یہ علمی باتیں اس لئے مفید ہوتی ہیں کہ دیکھو کنفیوژ ہو جائے تو کنفیوژن ختم ہو جائے یا کسی اور کو مطمئن کر سکتے ہیں، اس لئے۔ ورنہ اصل چیز تو وہی ہے بس کہ اللہ کے ساتھ اتنا تعلق ہو جائے، اس کے لیے ذکر کی کثرت ہے اور ذکر کے ساتھ تعلق ہے۔ تو وہی چیز جو مشائخ کرواتے ہیں ناں، وہ اصل میں حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پہ فرمایا: بیٹا ذکر کرتے رہو، ذکر سے سب کچھ ہوتا ہے۔ ذکر سے سب کچھ ہوتا ہے۔

تو یہ بات ہے کہ اگر ذکر کے ساتھ تعلق ہو تو پھر جو ہے ناں وہ چیز آہستہ آہستہ وہ تجلی اللہ جل شانہٗ کی جو ہے ناں وہ جو اس پہ پڑے گی اس سے پھر یہ سارے مسئلے حل ہوں گے، ورنہ ٹھیک ہے علمی باتیں ہیں اس میں کوئی شک نہیں، علمی لحاظ سے بڑی مفید باتیں ہیں۔ اکثر لوگ ان علمی باتوں کو کافی سمجھ لیتے ہیں، سمجھتے ہیں بس ٹھیک ہے جی ہمیں علمی باتیں معلوم ہوگئیں تو بس یہ کافی ہوگیا، مطلب ہماری اصلاح ہوگئی۔

سوال:

حضرت یہ جو ذکر کرتے ہیں ہم اس میں یہ تجلی آتی جاتی ہے یا کسی خاص موقع پہ؟

جواب:

تجلی کے لیے آپ کو تیار کیا جاتا ہے تاکہ آپ جیسے جیسے تیاری کرتے جاتے ہیں تو تجلی کے لیے آپ کو تیار کیا جاتا ہے، نورانیت دل میں آ رہی ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔

سوال:

حضرت یہ جو علمی باتیں ہیں، عقلی طور پر بچا جا سکتا ہے؟

جواب:

ٹھیک ہے ناں، عقلی طور پر بچا جاسکتا ہے، میں نے کہا کہ یہ بالکل ایسا ہے جیسے کہ آپ ریل گاڑی کو، ٹرین کے اوپر دھکا دے دے کر چلائیں۔ ٹھیک ہے ناں؟ ٹرین کے اوپر دھکا دے دے کر چلائیں گے، چل تو جائے گی لیکن کتنا چلائیں گے؟ مطلب ہر چیز میں آپ کو خیال ہوگا کہ میں اب یہ کر لوں، یہ اب کر لوں گا یہ اب کر لوں، پھر وہی نفس کا چکر، کیونکہ نفس تو حال ہے، اس کے ساتھ مقابلہ کرنا وہ تو ہر وقت active ہے۔ ٹھیک ہے ناں، تو وہ تو اپنا کام کرے گا، تو اس کے لیے پھر وہ تجلی چاہیے ناں کہ اس کو رکوا دے۔ یہی حضرت نے فرمایا کہ دو طریقوں میں سے ایک طریقہ بتاتا ہوں۔ دو طریقوں میں سے ایک طریقہ چن لو۔ ایک مشکل طریقہ ہے ایک آسان طریقہ ہے۔ پڑھا ہے کبھی آپ نے؟ مشکل طریقہ یہ ہے کہ خود سیکھ سیکھ کر۔ آپ کی نظر سے گئی ہے یہ بات کبھی نہیں؟ مواعظ میں ہے۔ مطلب فرمایا کہ ہاں مجاہدہ کر کر کے جو ہے ناں آپ کام کرتے رہو، جو کام اس میں سوچو کہ کون سے ٹھیک ہیں کون سا غلط ہے بس اچھے سے کام کرو غلط کو چھوڑو، یہ آپ کرتے رہو، فرمایا یہ مشکل کام ہے۔ اور آسان یہ ہے کہ کسی اللہ والے کے ساتھ اپنا تعلق کو جوڑ کر اس کی مان کے چلو اور دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو پیدا کرو، بس وہ پھر ایسا ہے جیسا کہ اسٹیم۔ بالکل وہ جو ہے ناں وہ جو گاڑی چلتی ہے پھر جو ہے ناں رکتی نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ناں۔ اس کا روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تو یہ اصل میں یہ بات ہے۔ واقعتاً اس کا احساس ہو جاتا ہے آدمی کو۔ اللہ تعالیٰ اپنا ہم سب کو نصیب فرمائے، یہ تجلی اس کا علاج ہے، لیکن اس کے لیے وہی تیاری کرنی پڑتی ہے۔ ذکر کرنا روزانہ لگا رہنا۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، یہ رائیگاں نہیں جاتی۔

سوال:

کیا اس ذکر کے لیے کوئی خاص خاص وقت ہوتا ہے؟

جواب:

دوام کا اس کے اوپر اثر پڑتا ہے۔ جو بھی وقت آپ نے طے کیا ہے ناں اس کے اوپر ہی آپ اگر رہیں ناں تو زیادہ مفید ہوتا ہے۔ جو بھی وقت آپ چن لیں، اگرچہ باقی اوقات میں تہجد افضل ہے لیکن اگر کسی کو دوام تہجد پہ نہیں ہوتا، اس کو مغرب کے وقت پہ ہوتا ہے مثال کے طور پر، تو پھر اس کے لیے مغرب افضل ہے۔ مغرب اس کے لیے زیادہ مفید ہے اگر اس کو دوام مغرب پہ ہے۔ اگر کسی کو عشاء کے بعد دوام حاصل ہو سکتا ہے تو پھر اس کے لیے عشاء اچھی ہے۔ یعنی جس وقت پھر دوام ہو وہ زیادہ بہتر ہے، کیونکہ یہ جو ہے ناں یہ دل کی جو حالت ہے اس کی جو تبدیلی ہے اس میں period کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ جو time period ہوتا ہے ناں، پورا cycle ہوتا ہے ناں، تو خاص وقت پہ وہ دھکا لگنا اس کو۔ ٹھیک ہے ناں؟ تو وہ چیز جو ہے ناں وہ اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے اس کے حساب سے۔ تو آپ نے اگر جس وقت کو بھی لیا ہے اس وقت اگر آپ کرتے ہیں تو زیادہ مفید ہے۔ حدیث شریف میں بھی کہتے ہیں ناں کہ دوام ہونا چاہیے چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔






  1. ۔ (الضحیٰ: 11) ترجمہ: ’’اور جو تمہارے پروردگار کی نعمت ہے اس کا تذکرہ کرتے رہنا۔‘‘

ریا: حقیقت، وسوسے اور علاج - انفاسِ عیسیٰ - دوسرا دور