اعمال کی پیشی کا تصور اور اخلاص کی حقیقت

یہ بیان 19 مارچ 2014 کو ہوا جسے ری براڈکاسٹ کیا گیا - حصہ دوم

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

مراقبہ برائے دفعِ وساوس:


اپنی تمام طاعات صلوٰۃ و تلاوت و اذکار بلکہ افعالِ مباحہ میں بھی اس کا تصور رکھے کہ یہ سب عنقریب حق تعالیٰ کے اجلاس میں پیش ہوں گے تو ان میں کوئی ایسا اختیاری خلل نہ ہو جس سے پیشی کے قابل نہ ہوں۔

یہ وہ چیز ہے کہ دیکھیں ایک بات مراقبہ میں ایک چیز یاد رکھنا چاہئے کہ یہ conceptual چیزیں ہوتی ہیں یہ Narrative چیزیں نہیں ہوتیں مثلاً میں یہ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ اللہ کے سامنے پیش ہونے کے قابل ہوجائے، اللہ کے سامنے پیش ہونے کے قابل ہوجائے، بے شک تصور، تو یہ طریقہ نہیں ہے، یہ مراقبہ نہیں ہے۔ مثلاً میں دیکھتا ہوں کہ یہ کتاب بہت خوبصورت ہونی چاہئے، لکھتے وقت میں کوشش کروں تو یہ میں جتنا بھی لکھوں گا یہ مراقبہ جاری رہے گا کہ یہ خوبصورت ہونی چاہئے، یہ مجھے کوئی اس میں ایسا خط نہیں لکھنا چاہئے جو بدصورت ہو۔ اب یہ کیا میں اس کو اپنے ساتھ دہراؤں گا تو نہیں کہ یہ خوبصورت ہونا چاہئے، خوبصورت ہونا چاہئے، خوبصورت ہونا چاہئے؟ یہ تو نہیں ہوتا نا، لیکن یہ بات ہے میرے ذہن کے اندر ایک چیز ہے کہ یہ کتاب خوبصورت چھپنی چاہئے۔ کیا خیال ہے؟ جو کپڑے استری کرلیتا ہے اور باہر جاتا ہے اور اس کو ہر قسم کے اس سے شکنوں سے بچاتا ہوں، تو کیا خیال ہے اس کے لئے بار بار اپنے آپ کو کہتا ہے کہ شکنیں نہیں ہونی چاہئے، شکنیں نہیں ہونی چاہئے، شکنیں نہیں؟ کیا یہ کہتا ہے؟ بس alert رہتا ہے، alert رہتا ہے، بیٹھے گا بھی تو ذرا احتیاط سے بیٹھے گا، اور اٹھے گا بھی تو، چلے گا بھی تو، اچھا خاصا مطلب ایک ہوتا ہے۔ وہ کسی نے کہا نا کہ یہ neck-tie کا فائدہ کیا ہے؟ یہ اصل میں ایسی چیز ہے واقعی اس کا فائدہ کون بتا سکتا ہے؟ آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے neck-tie کا کون سا فائدہ ہے؟ آخر آپ لوگوں نے ٹائیاں تو استعمال کی ہوں گی تو اس کا کیا فائدہ ہے اگر میں پوچھوں تو؟ تو ایک من چلے سے پوچھا گیا کہ neck-tie کا کیا فائدہ ہے؟ کہا: اس کو اتارتے وقت بڑی فرحت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے مطلب یہ ہے کہ آدمی بڑا alert رہتا ہے نا، خواہ مخواہ جو ہے نا ادھر ادھر، اور پینٹ بھی اور دوسری چیزیں، ایک پورا ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ تو جب گھر آتا ہے اور جب کپڑے تبدیل کرتا ہے تو بڑا relax feel کرتا ہے کہ بھئی یہ تو کام آسان ہوگیا ہے ٹھیک ہے نا؟ تو اسی طریقے سے مطلب یہ جو ہم لوگ یہ جب اعمال کریں تو اعمال میں ہم یہ خیال رکھیں کہ ان میں کوئی ایسی اختیاری کمی نہ ہو، اختیاری کمی نہ ہو جو ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرلیں تو اس میں کوئی نقصان نکل آئے، اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجائے۔ بس! اتنی سی بات ہے، کیونکہ ہر عمل کا ایک درجہ اختیاری ہوتا ہے، ایک درجہ غیر اختیاری ہوتا ہے، جو غیر اختیاری ہے وہ معاف ہے، وہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا، لہٰذا وہ ایک مجاہدہ تو بن سکتا ہے لیکن یہ ہے کہ وہ معاف ہے، مطلب اس پہ گرفت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر دیکھو میں کتاب دیکھ رہا ہوں، سٹوڈنٹ ہوں، میں کتاب دیکھ رہا ہوں، پڑھ رہا ہوں، اب کتاب پڑھتے وقت مجھے تکلیف ہورہی ہے، مطلب دل نہیں چاہتا پڑھنے کو، تو کیا خیال ہے میرا ٹیسٹ جو لیا جارہا ہے اس میں یہ condition ہوگی کہ تمہیں تکلیف نہیں ہونی چاہئے پڑھنے میں؟ یہ کوئی مجھ سے پوچھے گا؟ اب بے شک مجھے تکلیف ہو، تکلیف تو ہو لیکن مجھے پڑھنا چاہئے اور پاس کرنا چاہئے، اتنی بات مجھ سے مطلب ہے کہ ان کو یعنی مانگی جاتی ہے، اس سے زیادہ تو مجھ سے نہیں مانگی جاتی۔ اب بے شک مجھے۔۔۔۔ پھر میں پڑھوں، کس طریقے سے پڑھوں؟ یہ بھی مجھ سے نہیں کہا جائے گا۔ ظاہر ہے بعض دفعہ کسی کو نیند جلدی آتی ہے، کسی کو دیر سے آتی ہے، اب جس کو دیر سے آتی ہے وہ دیر تک پڑھتا ہے۔ جس کو جلدی آتی ہے وہ جلدی پڑھتا ہے۔ میں جب ایف ایس سی میں تھا تو میرا طریقہ تھا کہ میں رات کو بالکل نہیں پڑھتا تھا، اور سب لوگوں کا رات کو پڑھنے کا معمول تھا، تو میں رات کو نہیں پڑھتا تھا۔ تو ایک دن میں عشاء کی نماز کے بعد، گرمی کے دن تھے، چارپائی میں نے اپنے کمرے کے دروازے کے سامنے ڈالی ہوئی تھی اور سو گیا۔ میرے سونے کا معمول ہوتا تھا، میں سو جاتا تھا۔ اچھا میرے جو ایک side roommate تھے اس کو بڑی فکر ہوگئی کہ یہ بیچارہ تو بالکل ہی پڑھتا نہیں ہے تو یہ تو فیل ہوجائے گا، تو اپنے طور پہ مجھ پہ ترس کھا کے آکر اس نے مجھے انگوٹھے سے ہلایا۔ میں نے کہا کہ بھئی کون؟ کہتے ہیں کیوں پڑھنا نہیں ہے؟ تو میں نے کہا دن کو پڑھا ہوا نا اور کتنا پڑھوں، بتاؤ کیا پوچھنا ہے؟ کہتا ہے اچھا اچھا اچھا، سات سو نمبر لے لو گے، سو جاؤ سو جاؤ۔ اب ہر ایک کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ میرا طریقہ یہ تھا کہ میں دن کو پڑھتا تھا، رات کو میں نہیں پڑھتا تھا۔ اچھا اس طریقے سے ایک دفعہ میں نے یہ کیا، میری عادت تھی نا بس جلدی مجھے نیند آجاتی تھی، تو ہمارے جو تھے سیکنڈ ایئر میں، یہ جو ہمارے roomate تھے وہ pre-medical سٹوڈنٹ تھے۔ اب یہ pre-medical کا طریقہ کار ذرا different ہے، طریقہ کار پڑھنے کا۔ یہ اکثر group discussions وغیرہ کرتے ہیں، اس میں ان کو ذرا آسانی ہوتی ہے کیونکہ ظاہر ہے تقریباً تقریباً رٹے کی طرح چیزیں ہیں نا، تو اس کے لئے وہ جو آسانیاں ہوتی ہیں وہ تلاش کرتے ہیں، تو group discussion کرتے دو تین لڑکے جمع ہوکے وہ ہمارے کمرے میں بیٹھتے۔ اچھا میں جاکر جو ہے نا سردیوں کے دن تھے تو میں نے جاکر کہا روم میٹا میں سو رہا ہوں اور جس وقت تم سو رہے ہو تو مجھے جگا دینا دو بجے رات کو۔ اچھا دو بجے وہ سو رہے ہوتے تھے، تو مجھے انہوں نے جگا دیا، مجھے جگا دیا تو میں اٹھا اور میں نے تیاری ویاری کرلی، وضو کرلیا، نماز پڑھ لی، چائے بنا لی اپنے لئے، چائے پی لی۔ اب تقریباً تین، سوا تین میں بالکل سیٹ ہوگیا، تو اب میں بیٹھ گیا پڑھنے کے لئے۔ تو ابھی پندرہ بیس منٹ ہی پڑھا ہوگا غالباً میں نے، ساڑھے تین یا پونے چار ہوگئے تو knocking ہوگئی۔ میں نے کہا یا اللہ خیر! اس وقت کون آگیا؟ اس وقت تو باقی سب لوگ سوئے ہوئے تھے، تو یہ knocking کا مطلب کیا ہے؟ میں نے کہا yes، اندر آئے تو ہمارے ایک section fellow تھے، اب فوت ہوگئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، تو وہ آگئے۔ مجھے کہتے ہیں کہ آپ لوگوں نے سونا نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ خدمت؟ کہتے ہیں ہم نے آج تہیہ کیا ہوا ہے کہ جب تک یہ نہیں سوئیں گے ہم نہیں سوئیں گے۔ میں نے کہا اچھا، میں نے کہا کہ میں نے تو ابھی پڑھنا شروع کیا ہے، تو کہتے ہیں پہلے کیا تھا؟ میں نے کہا وہ تو میرے roomate تھا۔ اس نے ماتھے کو مارا، کہتے ہیں اوہ مارے گئے، اس نے پورے کالج میں مشہور کرلیا ان سے مقابلہ نہ کرو، یہ مل کے مارتے ہیں۔ تو ہر ایک کا اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ بہرحال یہ ہے کہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی کس طرح پڑھے، لیکن پڑھے اور ظاہر ہے پاس ہوجائے۔ اسی طریقے سے اللہ تعالیٰ کو بھی اس سے کوئی مطالبہ نہیں ہے کہ جو غیر اختیاری ہے وہ بھی تم کرو، غیر اختیاری چونکہ اُس کے کنٹرول میں ہے، لہٰذا اس پر کسی کو مجبور ہی نہیں کرتے۔ اب ایک شخص ہے اس کا نماز میں دل لگتا ہے، یہ اس کے لئے ایک added advantage تو ہے لیکن مطالبہ نہیں ہے، ایک added advantage ہے لیکن مطالبہ نہیں ہے۔ اب چونکہ advantage جس کو نہیں ملتا اس کو پھر compensation دیتے ہیں، اور وہ compensation یہ ہے کہ اس کو اجر دیتے ہیں، double اجر دیتے ہیں۔ تو کافی ما شاء اللہ سہولت ہے۔ ٹھیک ہے مشکل تو ہوجاتا ہے لیکن اس مشکل کا compensation اجر مل جاتا ہے۔ لہٰذا یہ بالکل نہ دیکھو۔ اب دیکھیں کسی کے اندر شہوت کا مادہ زیادہ ہو مثلاً، اب یہ کیوں زیادہ ہے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے، یہ تو ہمارا کام نہیں ہے۔ لہٰذا اللہ پاک اس پر نہیں پوچھے گا اگر کسی میں زیادہ ہے، لیکن جس میں زیادہ ہے اس کو کنٹرول کرنے میں difficulty تو ہوگی، اس difficulty کا اس کو compensation ملے گا، اس کو اجر ملے گا، مزید اجر ملے گا کیونکہ اس کے لئے یہ چیز مشکل ہے۔ تو اب ٹھیک ہے کسی کے لئے آسان، کسی کے لئے مشکل، لیکن اسی کے لحاظ سے اجر بھی ہے۔ اس لئے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے بہت تاریخی شعر کے بارے میں کہا ہے کہ:

شہواتِ دنیا مثل گلخن است

حمامِ تقویٰ از وے روشن است

یہ جو دنیا کی شہوتیں ہیں یہ خس و خاشاک کی طرح ہیں اور تقویٰ کا جو حمام ہے انہی سے روشن ہے۔ جس کو جتنا زیادہ مشکل پڑ رہی ہے اس پہ عمل کرنے میں، اتنا اس کو اجر زیادہ مل رہا ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہی یہی ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیں میں ایک بات بتاؤں، میں اپنے سٹودنٹس کو پڑھا رہا تھا stress analysis، میں نے کہا ہاتھ ملاؤ، سٹوڈنٹس سے کہا، تو اس نے ہاتھ ملایا تو میں نے اس کو کھینچ لیا۔ کھینچا نا تو وہ میرے ساتھ آنے لگا۔ میں نے کہا نہیں تم اپنی جگہ پہ رکو۔ تو میں نے جب کھینچا، میں نے کہا ہاتھ میں کچھ کیفیت محسوس کرتے ہو؟ کہتا ہے ہاں tension اس میں آگئی۔ میں نے کہا یہ stress ہے، یہ stress آگیا۔ میں نے کہا اگر آپ میرے ساتھ آجائیں تو اس میں stress نہیں ہوگا، مطلب یہ ہے کہ اگر میں آپ کو لے جارہا ہوں اور آپ میرے ساتھ ساتھ آنے لگیں تو stress نہیں ہوگا۔ stress اس وقت ہوگا جب آپ نہیں آنا چاہیں گے اور میں آپ کو لاؤں گا، تو یہ۔ تو اسی طریقے سے تقویٰ اس وقت ہے جب آپ نہیں چاہیں گے اور پھر آپ کریں گے تو تقویٰ ہے۔ جب آپ نہیں چاہیں گے، آپ کی طبیعت نہیں چاہے گی، آپ کا نفس نہیں چاہے گا، لیکن یہ ہے کہ آپ نے کرنا ہے اس کو۔ تو وہ جو stress اس میں create ہوگی یہ تقویٰ ہے اور اس پر اجر ہے، اس پر اجر ہے۔ تو لہٰذا اس سے بالکل نہیں گھبرانا چاہئے کہ اگر میرا دل نہیں چاہتا، بھئی دل چاہے تو وہ تو اللہ تعالیٰ اگر کافر کو بھی دے دے اس کا دل چاہے تو کافر کیوں رہے گا؟ وہ تو امتحان ہی ختم ہوگیا۔ امتحان تو اسی کو، اسی کو۔۔۔۔ ایک دفعہ ایسا ہوا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے خط لکھا، اور خط میں لکھا کہ حضرت بالکل اعمال ایسے مشکل بن گئے ہیں، ایک ایک چیز جو ہے نا پتھر اٹھانے کے مترادف ہے، دل بالکل نہیں چاہ رہا، دل پر پتھر پڑا ہوا ہے، حالت بہت خراب ہے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ دیکھو جب سو فیصد نمبر لینے کا وقت آگیا تو اب پیچھے جارہے ہو؟ اِس وقت اگر عمل کرو گے تو سو فیصد نمبر ملیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے اگر تمہیں رکاوٹ نہیں تھی اور آپ آسانی کے ساتھ کررہے تھے تو ابھی آپ کو جو مزہ آرہا تھا تو عین ممکن تھا ممکن تھا کہ آپ مزے کے لئے عمل کررہے ہیں، مزے کے لئے عمل کررہے ہیں۔ اب اس کا بھی تو ٹیسٹ ہوگا نا کہ تم مزے کے لئے کررہے ہو یا خدا کے لئے کررہے ہو۔

اگر مزہ واپس لے لیا جائے اور پھر بھی تمہارا عمل جاری رہے تو پس ثابت ہوا کہ تم مزے کے لئے نہیں کررہے ہو، اب پھر دوبارہ بے شک مزہ ملنے لگے، تو اب وہ چیز تو ختم ہوگئی نا، یعنی qualification تو ہوگئی نا کہ بھئی مزے کے لئے نہیں پڑھتا یہ تو اللہ کے لئے پڑھتا ہے۔ تو کبھی کبھی اللہ پاک اس لئے قبض کی کیفیت بھیج دیتے ہیں کہ دل بالکل نہیں چاہتا کسی کام کرنے کو، لیکن کام کرنا ہوتا ہے اُس دوران جو کام کرے گا تو جب بسط کی حالت میں پھر کام کرے گا تو اس کو ایسے ہی اجر ملے گا جیسے قبض کا ہے، کیونکہ وہ qualify ہوگیا ہے، اس نے ثابت کرلیا کہ میں خدا کے لئے کام کررہا ہوں، لیکن اگر اس وقت نہیں کیا تو فیل ہوگیا۔ کیونکہ اس نے ثابت کردیا کہ میں مزے کے لئے کام کررہا ہوں۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے۔ تو یہ قبض اور بسط جو ہے یہ اللہ پاک کی طرف سے آتا ہے اور یہ اس میں حکمت یہی ہے، بسط میں support ہے، تسلی ہے۔ اور قبض میں تربیت ہے، مجاہدہ ہے، اجر ہے اور آپ کی بسط والی کیفیت کی حفاظت ہے۔ اس لئے حضرات جو محققین ہیں وہ بسط سے قبض کو زیادہ مفید سمجھتے ہیں یعنی ترقی کے لحاظ قبض کو بسط سے زیادہ مفید سمجھتے ہیں۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت کسی شیخِ کامل کے ہاتھ میں ہونا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے شیطان بھی تو ہمارے ساتھ ہے نا، تو شیطان کے نرغے میں آکر کہیں ہم سب کچھ چھوڑ نہ دیں۔ آدمی کہتا ہے بس یہ کیا، بس یہ تو نہیں ہوسکتا۔ یہ جو نہیں ہوسکتا کا نعرہ ہے یہ شیطان لگواتا ہے، حالانکہ دنیا میں بھی اس قسم کی مشکلات آتی ہیں، یہ نہیں کہ دنیا میں ساری چیزیں آسانی سے ہوجاتی ہیں۔ میں تو کہتا ہوں ایک دفعہ میں بچوں کو دیکھ رہا تھا میں نے کہا یار یہ اتنا پڑھے گا، یہ پہلے دیکھیں پرائمری پڑھے گا پھر جو ہے نا سکینڈری سکول پڑھے گا، پھر اس کے بعد میٹرک کرے گا، پھر اس کے بعد کالج جائے گا، پھر اس کے بعد یونیورسٹی جائے گا، یار یہ تو اس بیچارے کے لئے بہت بڑا چکر پڑا ہوا ہے، تو مجھے ساتھی کہنے لگے تم بھی تو اس سے گزرے ہو نا۔ میں نے کہا اسی لئے تو کہہ رہا ہوں، تجربہ ہے، یہ سارا کچھ ہی کرے گا۔ تو اب یہ واقعتاً ایسا ہی ہے، لیکن اس چیز کو لوگ نہیں دیکھتے کہ دیکھیں ہم کتنا کرتے ہیں، یعنی 16، 18 سال پڑھنا اور اس کا فائدہ ہمیں کتنا ملتا ہے؟ اب اگر ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر ہوجاتا ہے نا کم از کم، اب ساٹھ سال میں یعنی یہ 18 سال اگر یہ پڑھے اور 5 سال تو 23 سال، 23 سال کی عمر میں qualify کرلے اور 60 سال کی عمر تک پھر اس سے فائدہ اٹھائے، تو کتنے سال فائدہ ہوا؟ 37، 23 اور 37 تقریباً ڈبل ہی بات ہے اندازاً، تو یعنی تین گنا سمجھ لو یا دو گنا سمجھ لو اس کے لئے انسان اتنی محنت کرتا ہے، جبکہ یہاں اگر 100 سال اتنی محنت کرلے کہ اس کی کوئی حد نہ ہو لیکن اس کا اجر کتنا مل رہا ہے؟ نہ ختم ہونے والی زندگی کے لئے۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں دیکھو! نماز کو درست کرنے پہ کتنا ٹائم لگے گا مرتضیٰ صاحب آپ بتائیں؟ بالکل صحیح طور پر پڑھنے کے لئے اگر ہم آج سے شروع کرلیں تو کتنے دنوں میں سیکھ سکتے ہیں، اگر کوئی بالکل نہ جانتا ہو؟ یہ تو آپ نے کچھ زیادہ ہی شفقت فرما دی، میں جو ہے نا 10 دن کا بتاتا ہوں for example، دس دن میں آدمی بالکل نماز practically سیکھ سکتا ہے۔ کوئی درمیان میں اس کو مسئلہ نہیں ہوگا۔ اب یہ جو دس دن یہ محنت کرے گا اس کا فائدہ کتنا اٹھائے گا؟ ساری زندگی اٹھائے گا، ساری زندگی اس کی نمازیں درست رہیں گی۔ ساری زندگی اس کی نمازیں درست رہیں گی۔ اور پھر اس کا فائدہ نہ ختم ہونے والی زندگی کے لئے اٹھائے گا، وہ اس نے نمازیں جو صحیح نمازیں پڑھی ہوں گی، اس دس دن کی محنت کی وجہ سے وہ اس کی عمر بھر کے لئے آئندہ جو ہے نا وہ نہ ختم ہونے والی زندگی کے لئے وہ کتنا فائدہ ہوجائے گا۔ بہت بہت فرق ہے۔ اس طرح ہمارے جو تربیت کا سلسلہ ہے یعنی کسی سے بیعت ہو کے باقاعدہ تربیت لینا، تو ٹھیک ہے کم و بیش ہوتا رہتا ہے کسی کا کتنے سال لگتے ہیں کسی کے کتنے سال، لیکن اگر پوری کی پوری عمر بھی لگ جائے مثال کے طور پر، تو پھر بھی دیکھو! نہ ختم ہونے والی زندگی کے لئے اس کا جو ہے نا وہ فائدہ، اور کہتے ہیں: عارف کی نماز جو ہے دو رکعت، وہ غیر عارف کی لاکھوں نمازوں سے افضل ہے۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اب اندازہ کرلیں کہ جس شخص نے یہ محنت کرلی اور وہ عارف بن گیا، اب اس کے بعد وہ بھی نماز پڑھ رہا ہے پانچ وقت روزانہ اور غیر عارف بھی پڑھ رہا ہے، لیکن عارف کی نماز کہاں تک پہنچ گئی ہے اور غیر عارف کی نماز کہاں پر ہے۔ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا نا، کسی برابر کی عمر والے نے کہ حضرت آپ بھی وہی اعمال کر رہے ہیں جو ہم کر رہے ہیں لیکن آپ آپ ہیں اور ہم ہم ہیں، ایسا کیوں ہے؟ یعنی نظر آ رہا ہے کہ آپ آپ ہیں اور ہم ہم ہیں، ہم آپ جیسے نہیں ہیں، لیکن آخر وہ بھی تو دیندار لوگ تھے نا، نماز تو پڑھتے ہوں گے، روزے رکھتے ہوں گے، زکوٰۃ دیتے ہوں گے، حج کرتے ہوں گے، یہ ساری چیزیں تو کرتے ہوں گے۔ کہتے ہیں پھر ہم بھی یہی کر رہے ہیں جو آپ کر رہے ہیں، پھر آپ ہم سے مختلف کیوں ہیں؟ سوال بڑا technical تھا۔ حضرت نے جواب دیا، فرمایا: ’’اس لئے کہ آپ لوگ جو کرتے ہیں وہ آپ لوگوں کا نفس کھا جاتا ہے‘‘۔ آپ اعمال کرتے جاتے ہیں آپ کا نفس کھا جاتا ہے۔ اب نفس کیسے کھاتا ہے؟ وہ ذرا، اس پر ذرا سوچو، ہمارا جو نفس ہے black hole بن جاتا ہے اس کے اندر یہ ساری چیزیں solve ہوتی رہتی ہیں اعمال ہمارے، وہ کیسے؟ دیکھئے تھوڑی سی بات ہے تھوڑا سا فرق ہے لیکن وہ تھوڑا سا فرق ایک دن میں نہیں آتا، یہ بہت محنت ہے۔ یہ دیکھیں میں نے نماز پڑھی، اب میں نے نماز پڑھی اور میں یہ کہوں: ’’میں نے بڑی اچھی نماز پڑھی۔‘‘ یہ ایک thinking ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ: اے اللہ! تیری شان کے مطابق تو نماز نہیں پڑھی، اس کو میں نے ضائع کر دیا ہے، تو قبول فرما دے۔ دل سے آدمی کہے کہ میں نے تیری شان کے مطابق تو نماز نہیں پڑھی۔ اب یہ عارف کی نماز ہے نماز یہ بھی پڑھتا ہے اور اس سے اچھا پڑھتا ہوگا یقیناً، لیکن اللہ کی عظمت کا اس کے اوپر اتنا اثر ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی نماز کو اس کے قابل نہیں سمجھے گا، وہ کہے گا یا اللہ! میں نے کیا کردیا! میں نے تو اپنی نماز۔ اب مجھے بتائیں جو دعا نماز کے اندر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت ہے وہ کون سی دعا ہے ذرا بتائیں مولانا؟

’’اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ ظُلْماً كَثِيْراً‘‘۔

نماز پڑھ کر دعا کررہے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ اے میرے اللہ! میں نے اپنے اوپر ظلم کر دیا، بہت بڑا ظلم کر دیا۔

اب بتاؤ یہ کیا چیز ہے؟ تو یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ اب عارف جو ہوتا ہے وہ ایسے نماز پڑھتا ہے، اس طرح وہ جو روزہ بھی رکھے گا، بہت اچھا روزہ رکھے گا دوسروں کے مقابلہ میں، لیکن کہے گا یا اللہ! تیری شان کے مطابق کہاں ہے، کیسے میں نے کر لیا، اس میں تو یہ بھی نہیں ہوا ہے، یہ بھی نہیں ہوا، یہ بھی نہیں ہوا، یہ بھی نہیں ہوا۔ ذرا تھوڑا سا عورتوں سے یہ بات سیکھیں، عورتوں سے، گھر میں مہمان آجائے، وہ بیچاریاں پوری محنت کرلیں گی چیزوں کو پکانے میں، اور اچھی طرح محنت کرکے نا وہ چیزیں سامنے لائیں گی، پھر بھی ڈر رہی ہوں گی اس میں فلاں چیز ٹھیک نہیں ہے، فلاں چیز ٹھیک نہیں ہے، فلاں چیز ٹھیک نہیں، بڑی خجلت ان کو ہو رہی ہوگی، ہم ان کو تسلیاں دے رہے ہوں گے بھئی کچھ بھی نہیں ہے، سب ٹھیک ہے، تو وہ کہیں گی نہیں نہیں یہ ٹھیک نہیں ہوا۔

ایک دفعہ ایسا ہوا حضرت شیخ عبداللہ عزام رحمۃ اللہ علیہ، یہ بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، مجاہدین میں تھے، تو یہ Karlsruheتشریف لائے ہمارے جرمنی میں ہمارے ساتھ۔ تو ہم چونکہ اسلامی یونیورسٹی میں تھے، تو میرا بھائی بھی اُدھر تھا، تو میری ان سے شناسائی تھی، تو وہ جب آئے تو بڑے خوش ہوئے کہ مجھے اُدھر دیکھا، تو ہمارے جو ساتھی تھے پڑوسی، اس نے ان کے لئے دعوت کی، اور خدا کے بندے نے مجھے بتایا اس وقت کہ جب دسترخوان لگنے والا تھا کہ آپ بھی آجائیں۔ میں نے کہا خدا کے بندے! مجھے کچھ پہلے کہہ دیتے تو میں بھی کچھ ساتھ شامل ہو جاتا، کچھ help کرلیتا کچھ، بڑے مہمان ہیں۔ کہتے ہیں بس آپ آجائیں۔ میں نے کہا اچھا میں آتا ہوں۔ میں گھر چلا گیا، میں نے کہا اچھا کچھ گھر میں پکا ہوگا تو وہ بھی ساتھ لے جاؤں گا۔ گھر والوں کو میں نے کہا کہ کیا پکا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مٹر اور پتا نہیں اس کے ساتھ کیا چیز؟ یہ چیز پکی ہے۔ روٹی تیار ہے؟ کہتے ہیں ہاں روٹی بھی۔ میں نے کہا بس یہ دے دو۔ کہتے ہیں کیا؟ میں نے کہا مہمان آئے ہیں، سمیر عمودی کے ساتھ۔ تو انہوں نے کہا کھانا کھاؤ تو میں بھی، کہتے ہیں تھوڑا ٹائم مجھے دو، بیس پچیس منٹ میں بھنڈیاں، بھنڈیاں عربوں کو بہت پسند ہوتی ہیں، میں یہ تیار کرلیتی ہوں۔ میں نے کہا ٹائم ہوتا تو آپ کو دیتا نا، وہ تو اُدھر دسترخوان لگ رہا ہے، اب اگر تو نے بھنڈیاں تیار کرنی ہیں تو وہ تو کھانا کھا چکے ہوں گے، پھر کس کو کھلائیں گے؟ تو کہتی ہیں کہ یہ تو لے جانے کے قابل نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ اس طرح تو ان سے لڑائی ہوگی خواہ مخواہ بلاوجہ۔ تو ان کی نظر بچا کے میں نے ایک ہاتھ میں پتیلا لے لیا اور دوسرے میں روٹی بغل میں، اور باہر آگیا۔ وہ بیچاری جو ہے نا چیختی رہ گئی کہ یہ کیا کیا؟ میں نے کہا بس ہوگیا جی۔ آکر میں نے سیدھا جو ہے نا سمیر عمودی کو دے دیں دونوں۔ میں نے کہا بھئی اس وقت تو یہ ہے اور خدا کے بندے آپ نے زیادتی کی۔ کہتے ہیں کوئی بات نہیں۔ بہرحال یہ ہے کہ اس نے جو مٹر ہے وہ ڈونگے میں ڈالا اور روٹیاں جو ہیں نا ساتھ پڑی ہوئی تھیں درمیان میں۔ اب شیخ نے جب ایسے دیکھا، ’’أَیْنَ الْخُبْزُ‘‘ روٹی کدھر ہے؟ وہ روٹی کا عادی ہوگیا تھا پاکستان میں رہ رہا تھا نا۔ تو میں نے کہا ’’نَعَمْ ھُنَا مَوْجُوْدٌ‘‘ تو بس وہ جو ہے نا فوراً انہوں نے لے لی روٹی، تو حضرت کے پاس پہنچ گئی، چلو، اب مٹر کا یہ حال ہوگیا کہ ایک دانہ بھی نہیں بچا، سب نے ما شاء اللہ بڑے شوق سے کھایا۔ میں نے گھر والوں کو کہا، میں نے کہا یہ چیز ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے ہماری چیز کسی قابل نہیں تھی، لیکن قبولیت اگر ہو جائے اللہ کی طرف سے تو پھر تو ظاہر ہے اس کے لئے کوئی وہ نہیں ہے نا۔ تو یہ میں اس لئے عرض کررہا ہوں کہ دیکھیں انسان کے پاس کچھ بھی نہ ہو، لیکن اگر اللہ قبول فرما دے تو بڑی بات ہے، اور ہوتا یہی ہے کہ ہمارا کوئی عمل اس قابل نہیں ہوتا کہ قبول ہو جائے، لیکن اللہ قبول فرما دیتے ہیں، اللہ قبول فرما دیتے ہیں۔ لیکن اپنے عمل کو قبولیت کے قابل سمجھنا، یہ صحیح بات ہے کہ میں کہتا ہوں کہ بڑی جرات ہے، بڑی جرات ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک نہیں ہوتا۔ تو بس یہی ہے، بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو ایسا جواب دیا، فرمایا کہ تم جو عمل کرتے ہو وہ تمہارا نفس کھا جاتا ہے۔

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ


اعمال کی پیشی کا تصور اور اخلاص کی حقیقت - انفاسِ عیسیٰ - دوسرا دور