اختیاری اور غیر اختیاری اعمال

یہ بیان 19 مارچ 2014 کو ہوا جسے ری براڈکاسٹ کیا گیا - حصہ اول

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اتفاقی استماعِ غنا کا اختیاری و غیر اختیاری درجہ:

غنا جس کو ہم میوزک کہتے ہیں، اس کا سننا۔ چونکہ میوزک کا سننا حرام ہے، اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں مزامیر کو توڑنے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ اور غنا جو میوزک ہے، وہ انسان کے دل کے اندر نفاق کو ایسا develop کرتا ہے جیسا کہ پانی کے ذریعہ سے پودے کی نشوونما ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اختیاری طور پر اس کا سننا بہت ممنوع ہے، اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ البتہ کچھ حالات میں ایسی بات ہوجاتی ہے کہ انسان کا ارادہ سننے کا نہیں ہوتا لیکن ظاہر ہے باہر سے جو بھی آوازیں ہوں ان پہ تو کنٹرول نہیں ہوتا، مثلاً کسی بس میں جارہے ہیں اور وہاں پر میوزک لگا ہوا ہے، کوئی راستہ پہ جارہا ہے، میوزک لگا ہوا ہے، تو ایسی صورت میں فرماتے ہیں:

عبد جتنے کا مکلّف ہے وہ چنداں دشوار نہیں، یعنی اس وقت بہ تکلف قلب کو دوسری طرف متوجہ کر دیا جائے۔ اس توجہ کے ساتھ جو التفات إلی الغنا ہوگا وہ غیر اختیاری ہوگا۔

یعنی بندہ اتنے کا ذمہ دار ہے کہ وہ زبردستی اپنے دل کو کسی اور طرف متوجہ کرلے جو مباح ہوتا ہے، جائز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی غیر اختیاری طور پر اس کی توجہ اس طرف ہورہی ہے تو پھر اس پر اللہ تعالیٰ اس پہ گرفت نہیں فرمائیں گے کیونکہ ظاہر ہے اس کے بس میں نہیں ہے، لیکن جتنا اس کے اختیار میں ہے اس کو کرلے۔ ہمیں اپنے شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نسخہ دیا تھا کہ جب کبھی شیطانی ماحولوں پہ گزرنا پڑ جائے، شیطانی ماحول ہوتے ہیں مثلاً میوزک جہاں لگی ہوئی ہے یا جہاں پر مندر وغیرہ ہندوؤں کے پرانے ہوں، سینما گھر، یہ شیطانی ماحول بناتے ہیں۔ فرمایا کہ جب کبھی ادھر سے گزرنا ہو بلا یعنی ارادہ، مطلب یہ ہے کہ ہمارا ارادہ نہ ہو لیکن راستہ وہی ہو، مقصود ہمارا اس طرف جانا نہ ہو، تو ایسی صورت میں یہ پڑھنا چاہئے:

’’یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ۔‘‘

اَلْحَمْدُ للہ حضرت کی برکت سے ہمارا اس پر عمل ہے، اور اللہ کا شکر ہے کہ جب ہم یہ پڑھتے ہیں تو ذہن دوسری طرف ہوجاتا ہے، پھر اس سے وہ اثر اَلْحَمْدُ للہ دل نہیں لیتا۔ اس طریقہ سے ما شاء اللہ حضرت کی برکت سے یہ اس کی عادت ہے:

’’یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ۔‘‘ پڑھنے کا۔

اگر ہماری توجہ ’’یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ۔‘‘ کی طرف قصداً ہورہی ہے تو خود بخود اس پر بھی عمل ہوجائے گا، جو حضرت نے بات فرمائی ہے کہ دونوں چیزیں جمع ہوجائیں گی۔ یعنی ہم بجائے اس کی طرف توجہ کرنے کے اس وظیفے کی طرف توجہ کرلیں تو پھر کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی ان شاء اللہ۔

شیخ کی نظر میں محمود و ممدوح ہونے کی کوشش:

یہ بھی ملحق بالإصلاح ہے کہ وہ خوش ہو کر اصلاح کی طرف توجہ زیادہ کرے گا۔

اب دیکھیں شیخ کے ساتھ تعلق کس لئے رکھا جاتا ہے، بنیادی بات ہے کہ اس کا مقصد اپنی اصلاح کرنا ہے۔ تو اگر کوئی اپنے شیخ کی نظر میں اچھا بننا چاہتا ہو تو ظاہر ہے وہ وہی کام کرے گا جو شیخ اچھا سمجھے گا، اور شیخ اچھا وہ سمجھے گا جو صحیح کام ہوں گے، تو لہٰذا یہ صحیح کام کرے گا۔ اور شیخ چونکہ ذریعہ ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماننے کا، لہٰذا یہ شیخ کی ماننے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی بات مانے گا، جو مقصود ہے وہ پورا ہوجائے گا۔ لہٰذا شیخ کی نظر میں محمود و ممدوح بننے کی کوئی ممانعت نہیں ہے کیونکہ یہ اصلاح کا شعبہ ہے۔ جیسے مثال کے طور پر ایک آدمی سکول میں داخل ہوگیا اور وہ اچھی طرح پڑھتا ہے تاکہ میرے استاد مجھ سے خوش ہوں، تو اس کا مقصد اس سے پورا ہورہا ہے۔ ظاہر ہے وہ استاد اس سے اس پہ خوش ہوگا جو اس کا کام ہے، مثلاً وہ خطاطی سیکھ رہا ہے تو جتنا وہ اچھا لکھے گا تو اتنا زیادہ استاد اس پہ خوش ہوگا۔ اس طریقے سے یعنی استاد کو خوش کرنا گویا کہ اس چیز کو حاصل کرنے کے مترادف ہے، تو شیخ کو خوش کرنا جو ہے یہ بھی اپنی اصلاح کے مترادف ہے، لہٰذا اس کے اوپر کوئی پابندی نہیں ہے۔

علامتِ رسوخ:

یعنی کوئی چیز راسخ کیسے ہوجاتی ہے، اس کی کیا علامت ہے۔ فرمایا:

صدور میں کشا کشی بھی نہ ہو تو یہ علامت ہے رسوخ کی۔

مثلاً ایک کام ہے، میں کررہا ہوں شیخ نے میری کوئی ڈیوٹی لگائی اور میرے دل میں اس طرف کوئی کشا کشی نہیں ہے بس مطمئن ہے میرا دل کہ بھئی مجھے یہ کرنا چاہئے، تو یہ رسوخ کی علامت ہے یعنی یہ چیز اس کے اندر راسخ ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کام کرنے کا حکم دیا ہے اور دل اس پر مطمئن ہے، شرحِ صدر اس کا ہوچکا ہے تو یہ رسوخ ہے، وہ راسخ ہے

نسبت و مقام کی تعریف:

ایک غلبۂ ذکر کہ غفلت میں وقت کم گزرے، دوسری دوامِ طاعت کہ نافرمانی بالکل نہ ہو۔ اصل مامور بالتحصیل یہی چیزیں ہیں اور اسی کے لیے سب مجاہدات اور معالجات اختیار کیے جاتے ہیں جن پر حسبِ سنتِ اللہ وہ مقصود مترتب ہو جاتا ہے۔ اولاً قدرے تکلف ہوتا ہے، بعد چندے (جس کی مدت معین نہیں، استعداد پر ہے) مثل امرِ طبعی کے ہو جاتا ہے۔ گو احیاناً ضد کا تقاضا بھی ہوتا ہے مگر ادنیٰ توجہ سے وہ ضد مغلوب ہو جاتی ہے، اس رسوخ و ثبات کو مقام کہتے ہیں۔ پس یہ فی نفسہٖ غیر اختیاری ہے لیکن باعتبار اسباب کے اختیاری ہے۔ اور یہی رسوخ و ثبات اس حیثیت سے کہ غلبۂ ذکر و دوامِ طاعت کا ملزوم ہے، نسبت کہلاتا ہے (یعنی حضرتِ حق سے ایسا تعلق قوی جس پر غلبۂ ذکر اور دوامِ طاعت کا ترتب لازم ہو) اور اس نسبت من العبد پر ایک دوسری نسبت من الحق موعود ہے، یعنی رضا و قرب۔ پس اہل طریق جب لفظِ نسبت کا اطلاق کرتے ہیں، مراد ان ہی دو نسبتوں کا مجموعہ ہوتا ہے، نہ صرف ملکۂ یاد داشت جس میں بہت سے غیر محقق دھوکہ میں ہیں۔

دیکھیں ایک چیز ہوتی ہے مثبت اور ایک منفی سے بچنا، مثبت کو حاصل کرنا، منفی سے بچنا، مثلاً آپ کما رہے ہیں اور فضول خرچی سے بچ رہے ہیں، تو ظاہر ہے آپ فائدے میں ہیں۔ تو اسی طریقے سے مثبت یہ چیز ہے کہ انسان ذکر مستقل کرلے، ہر وقت ذکر کرے کیونکہ یہ بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والی چیز ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿اُذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا ۝ وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا﴾1 ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر کرنے کا حکم ہے۔ اور فرماتے ہیں کہ ذکر کرنے والا اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے، اور ظاہر ہے کوئی بھی شخص کسی وقت بھی مردہ نہیں ہونا چاہتا، تو اس وجہ سے ہر وقت وہ ذکر میں رہنا چاہتا ہے۔ لہٰذا ہر وقت انسان ذاکر رہے، غافل نہ ہو۔ دوسری طرف یہ ہے کہ انسان سے کوئی نافرمانی نہ ہو، جو کام بھی کرے وہ شریعت کے مطابق کرلے، اللہ پاک کی مرضی کے مطابق کرلے۔ فرمایا اصل تو یہی ہے، اصل تو یہی ہے انسان کی طرف سے، اللہ کی طرف سے اس پر پھر دوسری چیز بھی ہے اور وہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجاتے ہیں اور اس کو قرب عطا فرما دیتے ہیں، اپنے قریب فرما دیتے ہیں۔ تو اللہ کی طرف سے بھی چیزیں ہیں دو اور بندہ کی طرف سے بھی یہ دو چیزیں ہیں، تو اسی کو کہتے ہیں نسبت۔ باقی یہ ہے کہ جتنے بھی معالجات ہیں یا مجاہدات ہیں، یہ سب اسی کے لئے کیے جاتے ہیں، مثلاً مجاہدہ اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ نفس ماننا سیکھے۔ مثلاً ایک شخص ہے وہ نماز نہیں پڑھتا، تو اس کے لئے ظاہر ہے کوئی مجاہدہ اگر کوئی تجویز کرلے جس سے وہ نماز پڑھنے پہ آجائے، مال کو اللہ کے راستہ میں خرچ نہیں کرنا چاہتا تو اس کے لئے کوئی ایسا مجاہدہ تجویز کیا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرکے زکوٰۃ وغیرہ دے سکے، انفاق فی سبیل اللہ کرسکے۔ اس طرح جو بھی ہے اللہ تعالیٰ کا حکم، اس میں اگر رکاوٹ ہے تو اس کا علاج کرکے، مجاہدہ کرکے اس رکاوٹ کو دور کیا جائے۔ یہ جس وقت انسان شروع کرتا ہے تو رکاوٹ آہستہ آہستہ کم ہوتی ہے، آہستہ آہستہ کم ہوتی ہے۔ مثلاً میں ایک مثال دیتا ہوں، ایک شخص ہے بالکل نماز نہیں پڑھتا، بالکل نہیں پڑھتا، اس کو اگر کوئی کہتا ہے نماز پڑھو۔ کہتا ہے مجھ سے نہیں پڑھی جاتی، میں کیا کروں؟ وہ عذر کرتا ہے جی مجھ سے نہیں پڑھی جاتی۔ اب اس کا کوئی جگری دوست آجاتا ہے جس سے وہ کوئی انکار نہیں کرسکتا، کہتا ہے یار آجاؤ نماز پڑھو، اب اس کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے چلا جاتا ہے اور بڑی مشکل سے ایک نماز پڑھ لیتا ہے کیونکہ پڑھنے کی عادت نہیں ہے، بڑی مشکل سے۔ اب وہ جو ایک نماز اس نے پڑھ لی تو اس میں کافی مشکل ہے اس کے لئے، لیکن اب اگر اس کو دوسری نماز پڑھنی ہو تو کیا اتنی ہی مشکل اس کے لئے ہوگی یا کچھ فرق آچکا ہوگا؟ خود بتائیں، فرق آچکا ہوگا۔ اور جب دو پڑھ چکا ہوگا تو پھر تیسری نماز؟ کچھ اور فرق آچکا ہوگا اور تین پڑھ چکا ہوگا تو چوتھی نماز، اور بھی فرق آچکا ہوگا۔ اب اس کو جاری رکھے، اگر چالیس دن تک یہ مسلسل نماز پڑھے، کوئی نماز اس میں قضا نہ کرے تو ما شاء اللہ پھر ایسے ہوجائے گا کہ نماز قضا نہیں کرسکے گا، وہ ایسا عادی ہوجائے گا۔ اب دیکھ لیں پہلے پڑھ نہیں سکتا تھا، اب قضا نہیں کرسکتا اور درمیان میں صرف چالیس دن ہیں، تو کیا چالیس دن میں انسان ٹریننگ نہیں کرسکتا؟ کاکول والے کتنی ٹریننگ کرتے ہیں؟ ہاں؟ دو سال۔ اپنے گھر سے باہر اور پتا نہیں کیسی tough conditions میں اور کبھی کیا کبھی کیا، عجیب عجیب چیزیں ہوتی ہیں اس میں۔ تو اب دیکھیں دنیا کے فائدے کے لئے دو سال کی ٹریننگ اگر کرسکتا ہے کوئی، تو نمازی ہونے کے لئے چالیس دن کی ٹریننگ کیوں نہیں کرسکتا؟ اچھا بہت سارا مسئلہ آج کل بتایا جاتا ہے کہ بھئی ہماری نگاہ محفوظ نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ نہ دیکھیں لیکن پھر بھی دیکھ لیتے ہیں، یہ ہوتا ہے۔ نوجوان تو مجھے اکثر یہ بتاتے ہیں، میں زیادہ تر نوجوانوں کا پیر ہوں نا، لہٰذا میرے ساتھ نوجوانوں کی اس قسم کی بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ تو میں ان سے کہتا ہوں کہ دیکھو کسی ایک کمرے میں آپ بیٹھ جائیں، بند کمرے میں پانچ منٹ کے لئے آپ نیچے دیکھیں اوپر نہ دیکھیں، اب چونکہ کمرے میں اور کوئی نہیں ہے، لہٰذا ممکن ہے، پانچ منٹ سے ہم شروع کرسکتے ہیں۔ پانچ منٹ ہم نیچے دیکھیں اوپر نہ دیکھیں تو یہ ممکن ہے۔ اب یہ ہے کہ اگلے دن آپ چھ منٹ کرلیں، اس سے اگلے دن سات منٹ کرلیں۔ اب جتنا جتنا آسان ہوتا جاتا ہے اتنا اتنا آپ بوجھ بڑھاتے جائیں، یہی طریقہ ہے نا technique؟ تو سات منٹ کرلیں، پھر اگلے دن آٹھ منٹ کرلیں، اگلے دن نو منٹ کرلیں، اس طرح پندرہ دن میں بیس منٹ تک پہنچا دیں۔ اب آپ qualified ہوگئے ہیں، آپ بیس منٹ تک کمرے کے اندر نیچے دیکھ سکتے ہیں۔ اب باہر تشریف لایئے اور لوگوں کے سامنے باتیں کرتے ہوئے پانچ منٹ نیچے دیکھنا ہے، چونکہ بیس منٹ وہاں اندر practice ہوچکی ہے لہٰذا یہ پانچ منٹ آسان ہوں گے ان کے لئے۔ یہ پانچ منٹ نیچے لوگوں کے سامنے بیٹھ کر وہ پانچ منٹ نیچے دیکھ سکتا ہوگا۔ اگلے دن چھ منٹ کرلیں، اگلے دن سات منٹ کرلیں، اگلے دن آٹھ منٹ کرلیں اور اس طرح پندرہ دن میں بیس منٹ تک پہنچا دیں۔ بس ما شاء اللہ علاج ہوگیا۔ اب یہ بیس منٹ تک ما شاء اللہ یہ نیچے دیکھ سکتا ہے، لوگوں کے درمیان میں ہوتے ہوئے نیچے دیکھ سکتا ہے۔ تو critical condition بیس منٹ سے زیادہ تو نہیں ہوتی، چند منٹ ہی ہوتی ہے، اگر اس میں انسان بچ جائے تو بچ جائے پھر۔ تو جب یہ صورتحال ہے تو آدمی کیوں نہ اس کو استعمال کرے؟ ایک مہینہ کتنی مدت ہے؟ یہ کوئی مشکل تو نہیں ہے۔ بھئی چالیس دن کا مجاہدہ کرلے نماز کے لئے اور ایک مہینے کا مجاہدہ کرلے، اس کام کے لئے ٹریننگ کرلے، تو ایک منفی سے بچنا نصیب ہوگیا اور ایک مثبت آسان ہوگیا، تو کتنا فائدہ ہوگیا۔ تو اس طریقے سے اگر مشائخ کے ساتھ کوئی رہتا ہے تو وہ اسی طریقے سے طریقے ان کو سکھاتا ہے اور آہستہ آہستہ آہستہ آہستہ جو چیزیں انسان کے لئے ناممکن ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد ساتھ ہوتی ہے تو وہ چیزیں ممکن ہونے لگتی ہیں اور انسان ما شاء اللہ اس کو حاصل کرسکتا ہے۔ بلکہ میں یہاں تک عرض کرتا ہوں کہ اَلْحَمْدُ للہ اَلْحَمْدُ للہ اللہ نے ہمیں دکھایا ہے شکر ہے اللہ کا، کہ اگر کوئی یہ مجاہدہ کرلے یہ آنکھوں کی نظریں نیچے رکھنے والا، تو اس وقت پھر ایسی حالت اللہ تعالیٰ نصیب فرما دیتے ہیں کہ اس کے لئے آنکھ اوپر اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ جیسے کنواری لڑکی پہلی دفعہ شہر آجائے گاؤں سے، جس نے کبھی بے پردگی کا ماحول نہیں دیکھا ہو، اس کے لئے گھر سے باہر قدم نکالنا من من بھاری ہوتا ہے قدم، وہ باہر نہیں جاسکتی، بات ہی نہیں کرسکتی، اور اگر وہ ظاہر ہے اس کی پروا نہ کرے تو آہستہ آہستہ وہ چیز سلب ہوجاتی ہے، ختم ہوجاتی ہے۔ تو اسی طریقہ سے جو حضرات اس پر مجاہدہ کرلیں تو دو تین ہفتوں میں ان کی ایسی حالت ہوجائے گی ان شاء اللہ کہ پھر وہ آنکھ اٹھانا چاہیں گے اور آنکھ اٹھ نہیں سکے گی، مشکل ہوجائے گا، مشکل ہوجائے گا۔

ایک دفعہ ایسا ہوا میرے ساتھ، مجھے عجیب واقعہ ہوا۔ کراچی میں ایک جگہ ہے ہماری خواتین کی خانقاہ ہے۔ اب ظاہر ہے وہاں پر پردے میں بیان ہوتا ہے۔ تو ہمارے ایک کزن ہیں، تو میں چونکہ اپنے لڑکپن میں کافی سخت واقع ہوا تھا اس مسئلہ میں کہ عورتوں سے بات نہیں کرتا تھا اور اس مسئلہ میں کافی strict مشہور تھا۔ اس کو کسی نے کہا کہ وہ عورتوں کے لئے بیان کرتا ہے، اس نے کہا کہ یہ ناممکن ہے، کیسے ہوسکتا ہے، شبیر صاحب اور عورتوں کے لئے بیان کرنا، یہ ناممکن ہے، ہم ان کو جانتے ہیں تم جانتے ہو؟ خیر بہرحال یہ ہے کہ اس نے کہا اچھا آجاؤ دیکھ لو۔ اس کو لے آئے، اب جب دیکھ لیا کہ میں بیان، اگرچہ میرے سامنے عورتیں تو نہیں تھیں لیکن بیان تو عورتوں کے لئے تھا، تو وہ جب اس نے دیکھا تو وہ کہتا ہے حیران تو میں ہوا ہوں لیکن ناخوش نہیں ہوا، خوش ہوگیا ہوں، یہ تو پھر آپ ہمارے ہاں بھی آجائیں، ہم بھی آپ سے بیان کروائیں گے۔ میں نے کہا چلو ٹھیک ہے جی اچھی بات ہے۔ ان کا گھر تھا کلفٹن میں، کلفٹن آپ کو پتا ہے کیسا ہے، تو خیر بہرحال یہ ہے کہ کلفٹن میں مجھے لے گئے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ مجھ سے بھی غلطی ہوئی کہ میں نے ان کو یہ نہیں بتایا کہ بھئی ہماری شرائط یہ ہیں، اور اس خدا کے بندے نے بھی کچھ زیادہ ہی میرے خیال میں smartness دکھائی کہ وہ مجھے لے گئے اور وہاں نشست جو انہوں نے رکھی تھی وہ لاؤنج میں اور میری نشست ان کے سامنے رکھ دی۔ تو جب میں نے یہ صورتحال دیکھی، میں نے کہا یا اللہ خیر! یہ تو مصیبت ہوگئی، یہ تو اس نے خدا کے بندے نے عجیب چکر چلایا۔ خیر ایسا ہوا کہ میں نے کہا کہ اب تو نہیں ہوسکتا، اب اگر میں جاتا ہوں تو ان کے لئے بھی بڑا مسئلہ ہے، میرے لئے بھی بڑا مسئلہ ہے، تو میں نے کہا بھئی کمرے والا مجاہدہ وہ آن ہوجائے تو بہرحال ٹھیک ہے جی۔ میں ان کے سامنے بیٹھ گیا اور آنکھیں میں نے ایسے کرلیں۔ اب میں بیان کررہا ہوں، بیان کررہا ہوں، بیان میں نے کافی لمبا کرلیا تاکہ مغرب کی اذانیں ہوجائیں۔ جب اذانیں ہوجائیں گی تو میں بس آنکھیں نیچے کیے ہوئے، کیونکہ اگر اس سے پہلے بیان ختم ہوجاتا تو ضرور وہ سوال کرتیں، تو جب وہ سوال کرتیں تو اس میں انسان بے اختیار آنکھ اٹھ جاتی ہے جواب دینے میں، بعض دفعہ خیال نہیں ہوتا۔ تو میں نے کہا کہ پھر یہ مسئلہ ہوسکتا ہے، تو میں نے یوں طریقہ کیا کہ وہ بیان میں نے کافی لمبا کیا، ادھر سے جب اذانیں شروع ہوگئیں تو میں نے کہا اب تو اذان شروع ہوگئی ہے اور میں اب نماز کے لئے جاتا ہوں اور میں جب نماز سے واپس آؤں گا تو میں اس بیٹھک میں بیٹھوں گا، ادھر نہیں بیٹھوں گا۔ تو جو کھڑکی ہے نا، اس کھڑکی سے آپ لوگ مجھ سے سوال پوچھ سکتی ہیں، اگر کسی نے مجھ سے کوئی بات کرنی ہے تو کھڑکی کے through کریں گے، بس اب رات کا وقت ہوگیا، اب میں نماز کے لئے جاتا ہوں اور پھر واپس آکر میں ادھر بیٹھوں گا۔ اچھا ظاہر ہے ان کو ما شاء اللہ feel نہیں ہوا اور میں چلا گیا نماز کے لئے، مسجد بھی نسبتاً دور تھی، بہرحال پہنچ گئے، نماز پڑھی۔ جب واپس آگئے تو بیٹھک میں بیٹھ گئے۔ بیٹھک میں بیٹھ گئے اور ان میں خواتین بیعت بھی ہوئی ہیں اور پھر ما شاء اللہ انہوں نے ذکر اذکار بھی لیے ہیں، کچھ مسئلے مسائل بھی پوچھے۔ بعد میں ہماری رشتہ دار خواتین سے خواتین پوچھتی ہیں کہ شاہ صاحب کو نظر آتا تھا؟ ان کا خیال تھا کہ شاہ صاحب کی آنکھیں ٹھیک نہیں ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ شاہ صاحب کو نظر آتا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں جی بالکل نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو اوپر نہیں دیکھتے، تو انہوں نے کہا وہ اوپر نہیں دیکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ جو ہے نا اس طرح کام چل جاتا ہے۔ تو مجاہدہ تو تھوڑا سا ہوتا ہے لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ نظام بنا لیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص تھوڑا سا ہی مجاہدہ کرلے ایک دو ہفتے جو اس کے ہیں، لوگوں کے سامنے بیٹھ کر آنکھیں نیچے کرنا، تو ان شاء اللہ العزیز اللہ تعالیٰ یہ نصیب فرما دیں گے، تو اس طریقہ سے ان شاء اللہ آگے انسان بڑھ سکتا ہے۔



  1. ۔ (الأحزاب: 41-42) ترجمہ: ’’اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔‘‘

اختیاری اور غیر اختیاری اعمال - انفاسِ عیسیٰ - دوسرا دور