گزشتہ سے پیوستہ
ریا کی مختلف صورتیں:
تہذیب: اگر عمل میں دنیائے فاسد یعنی معصیت کی نیت ہو تو وہ یقیناً ریا ہے۔ اور دنیائے مباح کی نیت ہو تو اگر عمل دنیوی میں ہے تو وہ ریا نہیں اور اگر عمل دینی میں ہے تو وہ بھی ریا ہے۔ اگر کسی شخص کو اس لیے راضی کیا جائے تاکہ اس کے شر سے محفوظ رہیں تو یہ ریا نہیں اور اگر مخلوق کو اس لیے راضی کیا جائے تاکہ وہ ہمارے معتقد رہیں، ہمارے مرید زیادہ ہوں تو یہ ریا ہے، کیونکہ یہ نیتِ معصیت ہے۔ اس واسطے کہ عین عبادت کے وقت اس کی نظر مخلوق پر رہی اور ان کی نظر میں معظم رہنا چاہا۔
ٹھیک ہے ناں؟ یہ تو ایک side کی بات ہے ناں، ذرا دوسری side کی بات بھی ساتھ ساتھ کرتا جاتا ہوں، مجبوری ہے آج کل one side بات ہو ناں تو پھر اس سے مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت نے بار بار لکھا ہے، اس میں بھی ان شاء اللہ آجائے گا کہ جو مشائخ ہیں، مشائخ کی ریا مرید کے اخلاص سے افضل ہوتی ہے۔ حضرت نے بار بار لکھا ہے، اس میں آئیں گے ان شاء اللہ، وہ اصل میں بات یہ ہے کہ وہ اصل میں ہوتی ریا نہیں ہے بصورتِ ریا ہوتی ہے تاکہ لوگ سیکھ جائیں، وہ صورتِ ریا ہوتی ہے، ریا نہیں ہوتی۔ تو یہ جو بات ہے جو بات حضرت نے کی وہ اصل میں یہ خود کو یا اپنے جو خلفاء تھے ان کے لئے یہ بات تھی، ان کو تو یہ سمجھنا چاہئے، لیکن ہم لوگوں کو کیا سمجھنا چاہئے؟ ہم لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر کوئی شیخ اپنے کوئی احوال بتا رہا ہو تو اصل میں وہ ہماری اصلاح کے لئے ہے، ان کے لئے وہ ریا نہیں ہے، ٹھیک ہے ناں؟ یعنی یہ اسلام کا یہ طریقہ ہے ناں کہ وہ ہر ایک کو اس کے مطابق وہ حکم دیتا ہے، غریب کو حکم دیتا ہے کہ خبردار جو تم نے مالدار کی جیب پہ نظر ڈالی، اشرافِ نفس حرام ہے، سوال کرنا حرام ہے۔ مالدار کو کہا خبردار جو تجھ سے کوئی غریب بغیر کھائے پیئے سویا، ان کو زیادہ دو، یہ کرو وہ کرو، تو مالدار کو کہتا ہے خیرات کرو، غریب کو کہتا ہے مانگو نہیں، یہ طریقہ ہوتا ہے اسلام کا۔ تو مشائخ کو تو یہ کہا جائے گا کہ پروا نہ کرو لوگوں کی، غریبوں کو کہا جائے گا کہ مشائخ کی ریا ریا نہیں ہے، وہ ہماری اصلاح کے لئے ہے۔ تبھی جو ہے ناں فائدہ ہوگا، نقصان سے بچا جائے گا ورنہ اس کتاب کو پڑھ کر اگر کسی پر بد گمان ہم ہوجائیں مثال کے طور پر کسی اللہ والے پر، تو نقصان ہوجائے گا ناں، کیا خیال ہے؟
عبادت کے اخفا کا اہتمام بھی ریا ہے:
تہذیب: محققین کے نزدیک عبادات کے اخفا کا اہتمام کرنا بھی ریا ہے، کیونکہ اخفا عن الخلق کا اہتمام وہی کرے گا جس کی نظر مخلوق پر ہو۔ اور جن کی نظر مخلوق سے اٹھ جائے اور اپنے سے بھی اٹھ جائے کہ عبادت کو اپنا عمل نہ سمجھے بلکہ محض توفیقِ حق سمجھے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کام لے رہے ہیں، میں خود کچھ نہیں کر سکتا تھا، وہ اخفا کا اہتمام نہ کرے گا۔ کیونکہ جب وہ مخلوق کو لا شئ محض سمجھے گا تو اس سے اخفا کیوں کرے گا؟ اور جب اپنے عمل کو اپنا عمل ہی نہیں سمجھتا بلکہ فضلِ حق سمجھتا ہے تو کسی کے دیکھنے سے عجب کا اثر کیوں ہو گا؟
اب سمجھ میں آرہی بات؟ کہ جب کسی کو اس کی پروا ہی نہیں ہوگی تو وہ اس کی ریا کہاں سے ہوگی اور عجب کہاں سے ہوگا، بھئی لوگ مجھے کیا دے سکیں گے اور لوگ مجھ سے کیا لے سکیں گے، لوگ خود محتاج ہیں، مجھے تو وہ دیتا ہے جو سب کو دیتا ہے اور مجھ سے وہ لے سکتا ہے جو سب سے لے سکتا ہے۔ لہٰذا میری نظر تو اس پہ ہونی چاہئے میری نظر کسی اور پر کیوں ہو، تو اگر کسی کا یہ حال ہو تو اس کی کوئی بات ریا نہیں بن سکتی اور نہ اس کو عجب ہوسکتا ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟
ریا سے حفاظت کا علاج فنائے کامل ہے:
تہذیب: ریا و رضاءِ خلق سے بچنا چاہتے ہو تو فنا کا طریق اختیار کرو، بدوں فنائے کامل کے ریا سے حفاظت نہیں ہو سکتی۔
فرمایا: ریا سے یا لوگوں کو راضی کرنے سے بچنا چاہتے ہو کہ لوگوں کی نظروں میں عمل کروں، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو فنا کرو۔ فنا سے مراد یہی ہے کہ انسان صرف اور صرف اللہ کا ہوجائے اور کسی کا نہ ہو اپنے آپ سے بھی گم ہوجائے، اپنی نظر میں پھر وہ کچھ نہیں ہوتا جب یہ صورت ہوجاتی ہے تو پھر ریا سے مکمل حفاظت ہوجاتی ہے، ورنہ بصورت دیگر ریا سے مکمل حفاظت ہونا بڑا مشکل ہے۔
معلم کو اپنے عمل کی اطلاع کرنا ریا نہیں:
تہذیب: ریا وہ ہے جو دنیا کی غرض سے کسی کو عمل دکھلایا جائے، سالک جو اپنے عمل کی اطلاع اپنے معلم کو کرتا ہے وہ ریا نہیں ہے کیونکہ عمل تو اللہ ہی کی رضا کے لیے ہوتا ہے، پھر بعد صدورِ عمل کے، اپنے معلم کو اپنے آئندہ کی مصلحتِ دینیہ کے لیے اس عمل کی اطلاع کرتا ہے۔ ریا میں تو خود عمل سے غرض نمائش ہوتی ہے اور یہاں عمل سے غرض رضائے حق اور اطلاع کا قصد مستقل ہے، وہ بھی دین کے لیے، جیسے قرآن کا حفظ کرنے والا قرآن تو ثواب ہی کی نیت سے یاد کرتا ہے لیکن سبق یاد کر کے استاد کو یاد کی اطلاع اس طرح کرتا ہے کہ اس کو سناتا ہے تاکہ یہ آئندہ خوش ہو کر تعلیم کرے۔
یہ جو بتایا ناں، یہ پیری مریدی جس کو ہم کہتے ہیں، شیخ اور مرید کا جو تعلق ہے، اس میں ریا ختم ہوجاتی ہے آپس میں، کیونکہ شیخ جو مریدوں کو دکھاتا ہے، وہ اس لیے دکھاتا ہے تاکہ وہ سیکھ لیں۔ لہٰذا وہ ریا نہیں ہے اور مرید اگر اپنی کسی چیز کی اطلاع کرتے ہیں شیخ کو تو وہ بھی ریا نہیں ہے کیونکہ وہ تو اپنے علاج کے لیے کرتا ہے۔ اور مرید کی بھی شیخ سے ریا نہیں ہوتی اور شیخ کی بھی مرید سے ریا نہیں ہوتی۔ ایسا عجیب بابرکت یعنی تعلق ہے کہ اس میں آپس میں ریا ختم ہوجاتی ہے۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے کیونکہ یہ تعلق اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، کسی اور مقصد کے لیے ہے نہیں۔ تو مثال حضرت نے دی کہ جیسے ایک شخص ہے حفظ کررہا ہو، لڑکا ہے کوئی حفظ کررہا ہے تو یاد تو اللہ تعالیٰ کے لیے کررہا ہے لیکن یاد کرنے کا ایک تو نظام ہے جس میں استاد کو سنانا ہوتا ہے اور استاد اس کی تصحیح کرتا ہے، لہٰذا اس کے بارے میں اس کو بتاتا ہے کہ تو نے ٹھیک سنایا ہے، تو بہرحال یہ ہے کہ سننا سنانا ہے، یہ ہے تو اللہ کے لیے لیکن جو استاد کو سنانا جو ہے، یہ ریا میں نہیں آئے گا کیونکہ یہ تو تعلیم کا حصہ ہے۔
کسی شخص نے لکھا ہے جو کہ منتہی لوگ ہوتے ہیں:
ریا کے خیال سے عمل کو ترک نہ کرنا چاہیے:
سوال: خلاصہ عریضہ یکے از منتہیاں: (1) بیمار تھا، تہجد آخرِ شب میں ناغہ تھی، اسی زمانے میں دو مہمان آئے اور وہ آخر شب میں اٹھے تو خیال ہوا کہ لاؤ میں بھی پڑھ لوں تہجد۔ (2) پھر خیال ہوا کہ نہ پڑھوں، یہ ریا ہے، چنانچہ نہ پڑھی۔ (3) پھر خیال ہوا کہ صبح کو ان سے ظاہر کر دیا جائے کہ فلاں وجہ سے تہجد سے قاصر رہا اور اس وقت تہجد نہ پڑھوں۔
تہذیب: (خلاصہ) (1) یہ احکم تھا۔
نمبر وار بتایا کہ لاؤں میں بھی پڑھ لوں، تو خیال ہوا کہ لاؤں میں بھی پڑھ لوں۔ تو حضرت نے اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ احکم تھا یعنی اچھی بات تھی۔
اور پھر خیال ہوا کہ نہ پڑھوں، کیونکہ یہ ریا ہے، چنانچہ نہیں پڑھی۔
(2)فرمایا یہ اسلم تھا۔
مطلب اس میں حفاظت ہوئی
اور تیسرے کے بارے میں فرمایا کہ جس میں اس نے اطلاع کردی فرمایا:
(3) یہ خالص ریا تھا۔ باقی ناقص کو یہی حکم کیا جاتا ہے کہ پڑھو اور نیت کو درست کرو، ورنہ پھر اس کو ہر موقع پر ریا کا شبہ و بہانہ ہونے لگے گا۔
یعنی اس میں یہی طریقہ صحیح تھا کہ پڑھ لیتا اور پروا نہ کرتا ٹھیک ہے ناں فرمایا:
رضائے حق کے پیدا کرنے کا طریقہ:
تہذیب: اپنے اختیار سے ہر کام میں رضائے حق کا قصد کریں اور اپنے اختیار سے رضائے خلق کا قصد نہ کریں اور بلا قصد کے اگر رضائے خلق کا وسوسہ یا خیال آئے تو اس کی مطلق پروا نہ کریں، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ یوں ہی اپنے اختیار و قصد سے رضائے حق کا قصد کرتے رہیں۔ تجربہ ہے کہ چند روز میں رذائل کے خلاف کرنے سے اس عمل کی عادت اور مشق ہو جاتی ہے، پھر رذیلہ کے خلاف کرنے میں کچھ دشواری نہیں ہوتی، بلکہ رذیلہ کمزور ہو جاتا ہے۔ غرضیکہ رذائل کا ازالہ ضروری نہیں، اس قدر اضمحلال کافی ہے کہ جس سے مقاومت رذیلہ کی آسان ہو جائے۔
یعنی اختیاری باتوں میں اختیار کو کام میں لانا چاہئے اور غیر اختیاری میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے، تو یہاں پر جو اختیاری ریا ہے اس کو ختم کرنا چاہئے، جو غیر اختیاری ریا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے، کیونکہ غیر اختیاری ریا تو ہوتی ہی نہیں ہے، ٹھیک ہے ناں؟ تو اس میں یہ ہے کہ اختیاری ریا جو ہے اس میں اختیار کو استعمال کرے، مثلاً یہ کہ اپنے اختیار سے کسی شخص کو خوش کرنے کے لئے یا اس کے دل میں وقعت پیدا کرنے کے لئے کوئی عمل نہ کرے، بلاقصد اگر کوئی وسوسہ ریا کا آئے تو اس کی مطلق پروا نہیں کرنی چاہئے، بلکہ ہمیشہ یوں ہی اپنے اختیار و قصد سے رضائے حق کا قصد کرتے رہیں۔ تو فرماتے ہیں کہ یہ تجربہ ہے چند روز میں، یہ جو رذائل ہیں ان کے خلاف کرنے سے عادت اور مشق بن جائے گی۔ یعنی پھر انسان کے لئے آسان ہوجائے گا، تو رذائل جو ہوتے ہیں ان کا ازالہ نہیں ہوا کرتا یہ کمزور ہوجاتے ہیں یعنی ہوتے تو پھر بھی ہیں لیکن ان کے خلاف کرنے میں پھر مشکل نہیں ہوتی، یہ سمجھ گئے؟
سوال:
حضرت یہ آہستہ آہستہ پریکٹس کرنے سے ختم ہوتی ہیں؟
جواب:
ہاں بس آپ جو ہے ناں اس کی مخالفت کرلیا کریں تو آہستہ آہستہ جو ہے ناں وہ ختم ہوتی جائے گی۔
سوال:
یہ جو ریا ہے آدمی کو پتا چل جائے کہ یہ ریا ہورہی ہے تو اس میں اگر وہ فوراً نیت درست کرلے تو ٹھیک ہوجائے گا۔جواب:
ہاں، وہ یہی اوپر فرما رہے ہیں کہ نیت درست کرلے، نیت درست کرتے ہوئے اس عمل کو کرو۔ مطلب یہ ہے کہ جو کام کررہے ہو اس کو چھوڑو نہیں، جو نیک کام کررہے ہو اس کو چھوڑو نہیں، ہاں! ان کے لئے زیادہ بھی نہ کرو، ٹھیک ہے ناں۔
سوال:
حضرت اگر کوئی مسجد میں بیٹھا ہو او روزے سے ہو اور اذان ہوجائے اور چھپا کے کھائے وہ بھی اس میں آئے گا یعنی ریا میں آئے گا؟جواب:
یہ ریا میں نہیں آئے گا، کیونکہ اس میں اخفا مستحب ہے، بذاتِ خود روزہ رکھنا بھی تو مستحب ہے ناں، یہ روزہ جو نفل روزہ ہوتا ہے، تو اس میں اخفا بھی مستحب ہے کہ چھپا لے، یہاں تک فرمایا کہ کچھ اپنے ہونٹوں کے اوپر تری سی لگا لے تاکہ لوگوں کو پتا نہ چلے، بعض لوگ تو یہ کرتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اس موسم میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس میں کوئی Chang نہیں آتی انسان کے اوپر۔ وضو کرنے سے جتنی تری آجاتی ہے، اسی سے کام ہوجاتا ہے، ٹھیک ہے ناں؟ کیونکہ خشکی نہیں ہوتی ناں؟ تو بس اس میں یہ ہے کہ بس آدمی اخفا کرے، آدمی جو ہے وہ نہ بتائے لوگوں کو اپنے روزے کے بارے میں۔
سوال:
یعنی نفلی عمل چھپا کر کرنا چاہئے۔
جواب:
نہیں، روزے کے بارے میں ہے یہ۔ روزے کے بارے میں یہ ہے، باقی نفل تو آپ بے شک پڑھ لیا کریں، تہجد میں بھی اخفا بہتر ہے لیکن اخفا نہ ہوسکے تو عمل ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
سوال:
یعنی اگر کسی کے ساتھ شئیر کرنا ہو تو بندہ اس کی پراو نہ کرے؟ جواب:
ہاں شئیر کرے تو پھر پروا نہ کرے، پھر تو پڑھ ہی نہیں سکے گا ناں، کسی طور پہ ظاہر نہ کرے، بعض لوگ باتوں باتوں میں ظاہر کرلیتے ہیں، وہ ٹھیک نہیں ہے، کسی طریقہ سے ظاہر کر ہی لیتے ہیں، تو وہ ریا ہے، یہاں پر یہی فرما رہے ہیں کہ جو ریا کا دل میں خیال آئے تو وہ ریا نہیں ہے، جو لایا گیا تو وہ ریا ہے، یعنی اپنے اختیار سے کوئی لائے ناں، مثال کے طور پر میں اس لئے کرلوں کہ ابھی آپ بیٹھے ہوئے ہیں اور میں جو ہے ناں اس لئے کہ بھئی دیکھیں کہ بھئی یہ کیسے نمازی پرہیزگار ہے، تو چلیں جی میں نفل جو ہے ناں یہاں دو رکعت پڑھ لوں تاکہ لوگ دیکھیں، میرے دل میں یہ باقاعدہ ارادہ ہو، تو پھر جو ہے ناں یہ ریا ہے۔ لیکن میرا ایک معمول ہے، میں اس وقت معمول پورا کررہا ہوں، میں آپ لوگوں کے لئے نہیں کررہا ہوں، اگر آپ نہ بھی ہوتے تب بھی کرتا اگر ہیں تب بھی کررہا ہوں، لہٰذا پھر یہ ریا نہیں ہے۔
سوال: اب میرا سوال یہ ہے کہ نماز تو آپ پڑھ رہے ہیں، ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، ہماری نظر میں تو یہ کچھ بھی نہیں ہے۔
جواب:
نہیں، آپ کے اوپر اثر نہیں پڑ رہا، آپ کے اوپر اثر نہیں پڑ رہا ناں، کیونکہ آپ ہمارے عمل کے تو ذمہ دار ہی نہیں ہیں، میں تو اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہوں، تو اصل میں یہ ساری باتیں اپنے لئے ہورہی ہیں کہ انسان کا اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ درست ہو باقی لوگ بیچاروں کا تو نہیں، وہ تو جیسے بھی کررہے ہیں ٹھیک کررہے ہیں، ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔