اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
توکل، اعمال اور تصوف کی حقیقت
(27) توکل متعارف کا حال عدمِ اہتمامِ غذا ہے کہ اس چیز کی حرص نہ کرے، اللہ پر نظر رکھے، جو وہاں سے عطا ہو جائے لے لے۔
اب ان ساری باتوں پہ عمل ہم کرسکتے ہیں، بس صرف ان کی ایک بات پہ عمل نہیں کرسکتے، اس سے اپنے آپ کو بچائیں، پھر ساری باتوں پہ عمل کرلیں، تو ماشاء اللہ! نورٌ علیٰ نور سب کچھ مل جائے گا۔
(28) فرمایا کہ فانی فی التّوحید ہوجاؤ، مشاہدۂ حق سے توکّل بھی کامل ہوجائے گا۔
(29) اپنے اعمال پر نظر نہ کرو:
فرمایا کہ اپنے اعمال پر نظر نہ کرو، اعمال کو موصل نہ سمجھو، کیونکہ وصول وہبی ہے کسبی نہیں ہے، گو عادتاً کسبی ہی پر مرتّب ہوتا ہے، مگر ترتیب یہ ہے کہ اپنے اعمال کو کامل نہ سمجھے، جب تک اعمال پر نظر رہے گی، وصول میسّر نہیں ہوگا۔
جب تک اعمال پر نظر رہے گی کہ میرے اعمال اس قابل ہیں، بلکہ میں کہتا ہوں جس نے کہا میرے اعمال اس قابل ہیں، اس نے اپنے اعمال کو ناقابل بنا دیا، یہی چیز اس کے ناقابل ہونے کے لئے کافی ہے۔ جس نے کہہ دیا کہ میرے اعمال اس قابل ہیں۔ کیوں وجہ کیا ہے؟ بھئی! بات یہ ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی قبولیت سے ہی ہوتا ہے، ورنہ ہمارے اعمال کے اندر تو اتنے سوراخ ہیں کہ سارا کچھ نکل جاتا ہے، کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ وہ کیا کہتے ہیں؟ چھلنی، چھلنی سے پانی بھرنا، کیسے رہے گا، کوئی چھلنی سے پانی بھرنا شروع کرلے، بھر سکتا ہے؟ بس ہمارے اعمال تو چھلنی ہیں، ہم ایک طرف سے کما رہے ہیں، دوسری طرف سے ضائع کررہے ہوتے ہیں، ایک طرف سے کما رہے ہوتے ہیں، دوسری طرف سے ضائع کررہے ہوتے ہیں، تو ہمارے اعمال کی قیمت کیسے لگے گی؟ کچھ بچے گا ہی نہیں، وہ اس صورت میں کچھ ملے گا، جب اللہ چاہے گا، تو ہوگیا اللہ پاک کے فضل پر ہی ہوگیا ناں، اللہ کے فضل پر ہوگیا۔ اب اگر کوئی کہتا ہے اپنے اعمال کو کامل، تو اس کی ایک تو ہوگئی علمی غلطی کہ وہ اپنے اعمال کے نقص کو نہیں جانتا، اپنے اعمال کے نقص کو نہیں جانتا اور دوسری یہ بات ہے کہ اس کی حالی غلطی ہے کہ اس کا رخ اللہ کی طرف نہیں ہے، ورنہ اللہ کی عظمت کے سامنے اپنے آپ کو شرمندہ پاتا، کہ جس شخص کا رخ اللہ کی طرف ہو، اس کو اپنے اعمال نظر ہی نہیں آسکتے، اپنا آپ نظر نہیں آئے گا تو اعمال کدھر نظر آئیں گے؟ بالکل ظاہر ہے، مطلب اس کو ہر چیز اس کی نظر آئے گی اور حقیقتاً میں ہے بھی اس کی۔ وہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر میرے جتنے بال ہیں، اتنے منہ ہوجائیں اور ہر منہ میں ستر زبانیں ہوجائیں اور ہر زبان پہ میں اللہ پاک کی حمد بیان کروں، تو میں اس کا شکر کیسے ادا کروں گا کہ اللہ پاک نے اتنی زبانیں دی ہیں، اس کا شکر کیسے ادا کروں گا؟ آپ جو بھی کررہے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے کررہے ہیں ناں، اللہ پاک ہی۔۔۔۔ ورنہ اللہ پاک آپ کو نہ کرنے دے، تو تم کرکے دکھاؤ، اس وقت شکر اَلْحَمْدُ للہ! کہ ہم مسلمان ہے، اللہ کا شکر ہے، اَلْحَمْدُ للہ! اللہ کی مدد نہ ہوتی، تو ایمان پہ قائم رہنا مشکل، ممکن نہیں، ایمان بچانا مشکل ہے، اعمال تو بڑے دور کی بات ہے۔ اعمال تو بڑے دور کی بات ہے، ایمان بچانا مشکل ہے۔ تو یہ چیز ہے کہ وہ شیخ عبداللہ اندلسی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ایسا ہوا تھا ناں کہ اس نے کسی کافر کو ظاہر ہے مطلب استہزاءً دیکھا تھا کہ بھئی یہ کیا عجیب حرکت کررہے ہیں؟ تو اندر سے آواز آئی اچھا تو سمجھتا ہے کہ یہ تو کررہا ہے، چلو اب کرکے دکھاؤ کرکے دکھاؤ، تو اس کو محسوس ہوا جیسے اس کے سینے سے منہ کے راستے سے کوئی چیز نکل گئی، بس اس کے بعد تھوڑی دور گیا تھا کہ ایک لڑکی نظر آئی عیسائی، اس پہ عاشق ہوگئے، اب جو ہے ناں باقی حضرات نے کہا کہ حضرت! چلتے ہیں، انہوں نے کہا بس اب میں آپ کے کام کا نہیں رہا، مجھے یہیں چھوڑ دو، انہوں نے کہا کیا کہتے ہو؟ بس مجھے یہیں چھوڑ دو، اب میں تمہارے کام کا نہیں رہا، پھر اس کے بعد اس لڑکی کے گھر پیغام دے دیا، انہوں نے کہا کہ بھئی! اس صورت میں ہے کہ تم عیسائی ہوجاؤ اور دوسری بات ہے کہ دس سال تک سور چراؤ ہمارے، اس کے بعد پھر ہم آپ کی شادی کروا دیں گے، یہ عیسائی ہوگیا اور ان کے سور چرانے لگا، شبلی رحمۃ اللہ علیہ کو جب پتا چل گیا ادھر جا کے، بڑے غصے ہوئے اور انہوں نے جلدی جلدی آئے اور جو ہے ناں مطلب وہاں پہنچ گئے، ان سے ملاقات ہوئی، ان کے ہم عصر تھے، انہوں نے کہا کہ حضرت آپ کو قرآن یاد تھا، اس میں سے کچھ حصہ یاد ہے؟ انہوں نے کہا کہ اتنا یاد ہے کہ جو دین سے نکل جائے تو ﴿فَاقْتُلُوْا﴾ تو اس کو قتل کردو، تو انہوں نے کہا آپ کو حدیث شریف یاد تھیں، انہوں نے کہا کہ ایک حدیث یاد ہے کہ مرتد کو قتل کردو۔ بس صرف یہ مطلب selected یاد رہتا تھا، ہر چیز جو اس کے خلاف ہوتی تھی، تو انہوں نے کہا حضرت! یہ بات کیسے ہوگئی؟ آپ کس طرح یہ حالت کیسے ہوگئی؟ اس سے اس کو ایک جھٹکا سا لگا، تو یہ جھٹکا لگا، انہوں نے کہا کہ بس میری شامت اور پھر آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا یا اللہ! میں تیرے بارے میں ایسا نہیں سوچتا تھا۔ تو ساتھ جو سور تھے وہ بھی رونے لگ گئے، چیخ و پکار شروع ہوگئی، پھر دیکھیں! کہ شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ تو مایوس ہوکے چلے گئے، تو راستے میں نہر آرہی ہے، دیکھا کہ وہ حضرت جو ہے ناں وہ اس نہر سے نہا کے نکل رہے ہیں اور’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُهٗ‘‘ یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ پڑھ رہے ہیں کلمہ، اللہ پاک نے پھر ایمان نصیب فرما دیا، پھر اللہ پاک نے دوبارہ وہ سارا مقام بھی نصیب فرما دیا جو اللہ پاک نے اس کو پہلے دیا تھا، پھر یہ بعد میں شیخ بن گئے، پھر وہ لڑکی جو تھی بڑی بے تاب ہوگئی، اب اللہ پاک کی طرف سے وہ تھا امتحان تھا ناں، تو تھے تو اللہ کے محبوب، وہ لڑکی بڑی بے تاب ہوگئی، وہ جو ہے ناں، وہ اپنے گھر سے بھاگ کے جو ہے ناں وہاں پہنچ گئی، وہاں پہنچ گئی، تو حضرت کے ہاں پہنچ گئی، پھر اس نے مطلب یہ ہے کہ پردہ میں اس سے بات کی، اس کو مسلمان کردیا، اس کو ایک علیحدہ کمرہ دے دیا، علیحدہ کمرہ دے دیا کہ وہاں پر رہو، پھر اللہ پاک نے مطلب وہ بیمار ہوگئی، بہت زیادہ بیمار ہوگئی، کیونکہ مجاہدات اور ریاضتیں بہت کررہی تھی اور پھر تھوڑے دنوں میں فوت ہوگئی، بس یہ فوت ہوگئی، کچھ دنوں کے بعد پھر حضرت فوت ہوگئے، تو پھر کسی نے خواب میں دیکھا کہ ماشاء اللہ! دونوں جنت میں اکٹھے۔۔۔۔ اللہ پاک نے ان کو اکٹھا کردیا۔ تو یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کی بات کرتا ہے، ایمان، کہتے ہیں اپنے ایمان کی خیر مناؤ، اعمال تو دور کی بات ہے۔
(30) عارف ہر وقت مشاہدۂ حق میں رہتا ہے:
فرمایا کہ عارف کی شان یہ ہے کہ عارف ہر وقت مشاہدۂ حق میں رہتا ہے، واردات کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، بلکہ تفویضِ کُلّی کردیتا ہے۔ اگر کسی وارِد کا حق ادا کرنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے، تو کروا دیتا ہے، ورنہ نہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ پہ بھروسہ ہر وقت کرتا رہتا ہے، اسی میں مستغرق رہتا ہے۔
(31) فرمایا کہ محبوب کے عتاب سے بھاگنا محبّت و عشق کے خلاف ہے ؎
نہ شود نصیبِ دشمن کہ شود ہلاکِ تیغت
سرِ دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی
(فرمایا کہ دشمن کو یہ نصیب نہ ہو کہ تیری تلوار سے ہلاک ہوجائے، دوستوں کا سر سلامت رہے کہ تو اس پر خنجر آزماتا رہے)
چنانچہ جس شخص نے حسین بن منصور کے تازیانے مارے تھے، اس نے بیان کیا کہ ہر تازیانے پر غیب سے فصیح اور صاف آواز میں سنتا تھا کہ کوئی کہتا ہے کہ :
’’یَا ابْنَ مَنْصُوْرٍ! لَا تَخَفْ، ھٰذَا مِعْرَاجُ الصَّادِقِیْنَ‘‘۔
(اس پہ مطلب گھبراؤ نہیں، یہ تو صادقین کی معراج ہے)
(32) ابنِ منصور جب سولی پر چڑھا دیئے گئے، تو ان کے مریدوں نے پوچھا ہمارے بارے میں کہ آپ کے ماننے والے ہیں، اور منکرین کے بارے میں، جو آپ پر پتھر پھینکیں گے، آپ کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: ان کو دو ثواب ملیں گے اور تم کو ایک ثواب، کیونکہ تم کو مجھ سے حسنِ ظن ہے اور وہ توحید کی قوّت اور شریعت پر مضبوط رہنے کی وجہ سے یہ حرکت کریں گے، اور شریعت میں توحید اصل ہے اور حسنِ ظن فرع۔
یعنی انہوں نے کہا کہ آپ کو تو ایک ثواب ملے گا، چونکہ آپ میرے ساتھ محبت کرتے ہیں اور جو مطلب یہ ہے کہ وہ چونکہ شریعت کے ساتھ محبت کررہے ہیں، وہ شریعت کی وجہ سے کررہے، تو اس وجہ سے چونکہ وہ توحید کی وجہ سے کررہے، تو اس کی قوت زیادہ ہے۔
ف: سُبْحَانَ اللّٰہِ! یہ جواب ہزار کرامات سے بڑھ کر ہے، جو مخلصِ صادق ہی کی زبان سے نکل سکتا ہے۔ یہاں سے ان صوفیوں کو سبق لینا چاہئے، جو شریعت کی عظمت نہیں کرتے۔
(33) مشہور ہے کہ ابنِ منصور شیر پر سوار ہوجاتے اور سانپ کا تازیانہ بنا لیتے۔
(34) تصوّف کی حقیقت:
تصوّف کی حقیقت کتاب و سنت کی معرفت اور ظاہر و باطن کا ان سے رنگین ہونا ہے اور ورع و تقویٰ میں کمال حاصل کرنا ہے۔ احوال و کیفیات و کشفیات و الہامات نہ تصوّفِ اسلامی کا جزء ہیں، نہ اس طریق میں مطلوب۔ ہر شخص کو اس کی تعداد کے موافق مجاہدات و ریاضات و کثرتِ ذکر و فکر و مراقبات سے حاصل ہوتے ہیں، پھر ان احوال و کیفیات میں بھی جو حالت اور کیفیت موافقِ سنّت ہو، وہ افضل ہے اور جو سنّت کے موافق نہ ہو، وہ مستحسن نہیں، گو صاحبِ حال پر ملامت بھی نہیں کہ اس میں معذور ہے۔ اسی طرح جو کشف و الہام نصوصِ شریعت کے خلاف نہ ہو، مقبول ہے، ورنہ قابل ردّ ہے۔
یہ پورا خلاصہ نکال لیا کہ اصل میں تصوف اصل میں کیا ہے؟ کتاب و سنت کی معرفت ہے۔ یہ کتاب و سنت کی معرفت ہے۔ وہ جو میں نے عرض کیا تھا ناں کہ طریقت سے انسان ریاضت و مجاہدہ کرکے اپنے دل کو صاف کرلیتا ہے، جب دل صاف ہوجاتا ہے، قرآن کے اندر جو حقیقت ہے، اس کے اوپر کھل جاتی ہے، جو حدیث کے اندر حقیقت ہے، وہ اس کے اوپر کھل جاتی ہے، جیسے آئینہ صاف ہوجاتا ہے، تو اصل چیز نظر آنے لگتی ہے اور ورع و تقویٰ میں کمال حاصل کرنا ہے، یعنی انسان تقویٰ کے اندر کمال حاصل کرلے، احوال و کیفیات و کشفیات و الہامات نہ تصوف اسلامی کا جزء ہیں، نہ اس طریق میں مطلوب ہیں۔ مطلب یہ جو احوال مختلف قسم کے انسان کو محسوس ہوتے ہیں، کیفیات ہیں یا کشفیات ہیں، الہامات ہیں، یہ جزء نہیں، یہ تصوف کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، ہاں! آسکتی ہیں کسی کو بھی آسکتی ہیں۔
ہر شخص کو اس کی تعداد کے موافق مجاہدات و ریاضات و کثرتِ ذکر و فکر و مراقبات سے یہ چیزیں حاصل ہوجاتی ہیں۔
یہ side effects ہیں۔ وہ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ جیسے medical treatment ہم کرتے ہیں، جو گولیاں ہوں، ایک اس کا main effect ہوتا ہے اور ایک اس کا side effect ہوتا ہے، تو main effect جو ہے وہ مطلوب ہوتا ہے، side effect سے مجبور ہوتا ہے آدمی، side effect سے انسان مجبور ہوتا ہے۔ اور میں corex کی مثال دیتا ہوں کہ corex جو ہے، وہ medicine رہی ہے، جس میں نشہ تھا، codine اس میں تھا، تو جو نشئی ہوتے تھے، ان کو جب اپنا نشہ نہیں ملتا تھا heroine وغیرہ، تو وہ corex کو چڑھا دیتے، بوتل کی بوتل، تو اب وہ مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے اندر وہ جو side effect تھا، صرف اس کا جو drowzy effect وہ اس کو main effect سمجھ کر جو ہے ناں مطلب اس کو پی جاتے تھے اور اس کے ساتھ جو مسائل اور سارے کے سارے وہ حاصل کرلیتے تھے۔ تو یہ چیزیں جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں جزء اسلامی نہیں ہیں کہ ان کو حاصل کیا جائے، یہ مجاہدات کے side effect ہیں، ریاضتوں کے side effects ہیں یا ذکر کے side effects ہیں، تو ٹھیک ہے، side effects کے طور پر لے لو۔
اور پھر ان احوال و کیفیات میں بھی جو حالت اور کیفیت موافقِ سنّت ہو وہ افضل ہے۔
سنت کے موافق، مثلاً ہر چیز میں اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوجانا، دعا کرنا، یہ کیا ہے، یہ اچھا ہے، مطلب متبع سنت۔ ہاں! انسان جب اللہ پاک کے سامنے اپنے آپ کو مجبور محض سمجھتا ہے اور انسان جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو ہر چیز میں اللہ پاک سے مانگنے لگتا ہے، تو یہ ایک متبع سنت والی بات ہے۔ تو
اور جو سنّت کے موافق نہ ہو، وہ کیا ہے؟ وہ مستحسن نہیں، مگر صاحبِ حال پر ملامت بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں وہ معذور ہے۔ اسی طرح جو کشف و الہام نصوصِ شریعت کے خلاف نہ ہو، وہ مقبول ہے، ورنہ قابلِ ردّ ہے۔
باقاعدہ ہمارے بعض مشائخ نے تو دعائیں کی کہ اے اللہ! ہم سے یہ کشف واپس لے لے۔ یہ باقاعدہ دعائیں کرتے تھے۔ مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب آئے، ان کو لوگوں کا ضمیر منکشف ہوجاتا تھا، بڑی خطرناک بات ہے، تو حضرت نے اس کے لئے دعا کی اے اللہ! میں تحمل نہیں کر پا رہا، اس کو دور فرما دے۔ اس طرح جو ہے ناں مطلب یہ جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ان کو وضو کے پانی میں لوگوں کے گناہ نظر آتے تھے، کیونکہ اس سے گناہ دھلتے ہیں ناں، تو پتا چل جاتا، وضو کا پانی جب ان کے سامنے گزر جاتا، تو پتا چل جائے کہ اس میں تو بدنظری کے گناہ بھی ہیں اور فلاں چیز کے گناہ بھی وہ آرہے ہیں، تو باقاعدہ انہوں نے پھر دعا کی کہ اے اللہ! اس کو روک دے، کیونکہ اس سے دوسرے مسلمانوں کے اوپر بدگمانی آجاتی ہے۔ تو اس کو ہٹا دیا گیا۔ تو باقاعدہ ہمارے بعض حضرات نے تو اس کے لئے باقاعدہ دعائیں کی ہیں کہ ہمیں یہ چیز حاصل نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علیحدہ علیحدہ رہے۔ اور حضرت نے مجھ سے بھی فرمایا تھا دور کرو، دور کرو، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں، راستے کے کھیل تماشوں میں انسان لگ گیا، تو کھیل تماشا میں تو لگ گیا ناں، کھیل تماشا تو ہے، اس میں لگ گیا بیچارہ۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ