تصوف کی حقیقت اور اصلاحِ نفس کا عملی خاکہ - حصہ سوم

( یہ بیان 27 جون 2009 کے انفاسِ عیسیٰ کے بیان سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اس بیان میں "توابع" کا تصور واضح کیا گیا ہے، یعنی وہ چیزیں جو اصل مقصد (مقصود) نہیں ہوتیں لیکن اس کے ساتھ خود بخود جڑی ہوتی ہیں۔  لاہور کے سفر اور دوا کے سائیڈ ایفیکٹس کی مثالوں سے سمجھایا گیا ہے کہ اگر ان ضمنی چیزوں کو اصل مقصد سمجھ لیا جائے تو انسان اپنی منزل سے بھٹک سکتا ہے۔ اس کے بعد "فاعلہ" یعنی انسان کی اندرونی قوتوں کا ذکر ہے، جنہیں ذکر، شغل اور مراقبے جیسی روحانی مشقوں کے ذریعے بیدار کیا جا سکتا ہے۔ یہ روحانی اوزار انسان کی طبیعت کو نکھار کر اسے روحانی ترقی کے مختلف مراحل سے گزارتے ہیں۔ بیان میں کچھ پرخطر طریقوں جیسے تصورِ شیخ اور عشقِ مجازی کا بھی ذکر ہے، جنہیں صرف ایک ماہر رہنما (شیخ) کی نگرانی میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ روحانی سفر میں اصل مقصد اور ذرائع میں فرق کرنا اور ہر عمل کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا کامیابی کے لیے لازمی ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


توابع کیا چیز ہوتی ہیں؟


یہ وہ ہوتی ہیں کہ مقصود تو نہیں ہیں، لیکن یہ ہوتی ہیں، جب ایک کام آپ کرتے ہیں تو اس کے ساتھ خود بخود by default attach ہوتی ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ اس سے مطلب گزرنا ہوتا ہے۔ لاہور آپ جائیں گے، آپ کا لاہور جانا مقصود ہے، گوجرانوالہ دیکھنا مقصود نہیں ہے، گجرات دیکھنا مقصود نہیں ہے، لیکن اب گجرات بھی راستے میں آئے گا، گوجرانوالہ بھی راستہ میں آئے گا، لالہ موسیٰ بھی آئے گا، کامونکے بھی آئے گا، یہ توابع ہیں، مطلب یہ چیزیں ہوں گی۔ ٹھیک ہے ناں! اب اگر کسی نے گجرات جانا ہی لازم سمجھا کہ یہ بھی ہے، یہاں پر بھی اترنا چاہئے، تو اپنی منزل پر لیٹ پہنچے گا اور ممکن ہے کہ نہ ہی پہنچے، تو توابع کو توابع سمجھنے سے انسان کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اس کو آج کل کے عرف عام میں side effects کہتے ہیں، دوائی کے کچھ ہوتے ہیں main effects، جس کے لئے دوائی کھائی جاتی ہے اور کچھ اس کے side effects ہوتے ہیں۔ اب corex کا شربت تھا، وہ کھانسی کا شربت تھا، اس کے اندر codeine یہ medicine شامل تھی، codeine کا یہ side effects ہے کہ انسان جو ہے ناں، وہ آدمی کو سکون محسوس ہوتا ہے یعنی نشہ کی کیفیت، وہ سکون محسوس ہوتا ہے۔ اب یار لوگوں نے (جو نشئی تھے) ان کو اگر اپنا نشہ نہیں ملتا تھا، تو وہ corex لے لیتے اور پورے کا پورا پی جاتے۔ اب corex کے نشے کی وجہ سے تو ان کو نشہ والی کیفیت تو حاصل ہوگئی، لیکن corex میں صرف وہ codeine تو نہیں تھا، اس کے اندر تو کچھ اور چیزیں بھی تھیں ناں، وہ anti-allergic جو چیزیں تھیں، وہ اس کی ایک بوتل ڈاکٹر صاحب! چڑھائیں تو کیا ہوگا؟ یعنی جتنی anti-allergic ایک چمچ میں انسان کے لئے ضروری ہے اور وہ بھی بیمار کے لئے جس کو الرجی ہو، ہاں! وہ اگر بیمار نہیں ہے اور اس کو آپ نے ایک چمچ نہیں، پوری بوتل پلا دی، تو اس کے ساتھ کیا ہوگا؟ تو یہی والی بات ہے کہ وہ جو side effect تھا، وہ side effect کو انہوں نے main effect سمجھا، نتیجتاً نقصان ہوگیا۔

یہ جو diazepamکی گولیاں ہیں، اس کا main effect سکونِ دماغ ہے، سکونِ دماغ ہے، نیند اس کا side effect ہے، جیسے الرجی کی گولی کوئی کھاتا ہے، تو side effects میں انسان کی drowsiness ہوتی ہے ناں، ذرا تھوڑی سی نیند آتی ہے، اب الرجی کی گولی کوئی نیند کے لئے تو نہیں کھا سکتا، تو اس وجہ سے جو diazepam ہے، اس کو لوگوں نے عام طور پر نیند کی گولی سمجھ لیا، ٹھیک ہے ناں! تو یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ تو یہ توابع ہیں، توابع کیا چیزیں ہیں، مثلاً کچھ ان میں مفید ہیں،

میرے خیال میں وہ چیز آدھی چھوڑی ہے، ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ فاعلہ کا تو بتایا نہیں میں نے، صرف مجاہدہ کا بتایا تھا ناں، فاعلہ کا نہیں بتایا، ہاں! پہلے فاعلہ کا بتا دوں، side effects بتا رہا ہوں، جو ذرائع ہیں، وہ میں نے چھوڑ دیئے ہیں، تو خود ہی مجھ سے وہ غلطی ہوئی، جس سے میں منع کررہا ہوں، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔

فاعلہ

تو بہرحال یہ ہے کہ فاعلہ جو ہے، یہ اصل میں انسان کے اندر کچھ قوتیں موجود ہیں، ان قوتوں کو انگیخت کرنے سے ان قوتوں کے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور ان کو انگیخت کرنے کے لئے مختلف طریقے ہوتے ہی۔

میں آپ کو مثال دوں ذرا دنیا کی مثال ہے، یہ hypnotism جو ہے، hypnotism کیا چیز ہے؟ یہ ہر انسان کے اندر ایک مقناطیسی قوت ہوتی ہے، بلکہ یہ سمجھ لیجئے مقناطیس کو ہی ہم دیکھ لیں، مقناطیس کیسے بنتا ہے، بھئی! جو لوہا ہوتا ہے، اس کے اندر جو poles ہوتے ہیں، وہ disorder میں ہوتے ہیں، تو وہ کھینچتا نہیں کسی اور لوہے کو، لیکن اگر اس کو مقناطیس کے ساتھ رگڑا جائے بار بار ایک طریقہ سے، تو کیا ہوتا ہے، اس کے جو poles ہوتے ہیں، وہ سارے کے سارے align ہوجاتے ہیں یعنی جو north pole ہے، وہ north pole کی طرف ہوجاتا ہے اور جو south pole ہے، وہ سارے south pole کی طرف ہوجاتے ہیں، ٹھیک ہے ناں! نتیجتاً اب دیکھیں! اگر کسی کا north pole، اور ایک ذرہ کا north pole اس طرف ہے اور دوسرے کا اس طرف ہے، تو نتیجہ کیا ہوگا؟ صفر ہوگا ناں، حالانکہ ایک مثبت ہے اور دوسرا منفی ہے، تو نتیجہ صفر ہوگا، اس طرح probability کے قاعدہ کے مطابق عالم امکان کی صورت میں وہ کیا ہوگا، یہ سارے کے سارے fifty fifty ہوں گے یعنی پچاس فیصد اس طرف، پچاس فیصد اس طرف، نتیجتاً نتیجہ صفر ہوگا، وہ مقناطیس نہیں بنے گا، لیکن اگر ان کو ہم align کردیں، north کو سارے north کی طرف کرلیں اور سارے south کو south کی طرف کردیں، تو پھر کیا ہوگا، سارے north کی طاقت مل جائے گی آپس میں اور south کی طاقت آپس میں مل جائے گی، لہٰذا اب کیا ہوگا؟ اب یہ لوہے کو کھینچے گا، قوت اس میں آجائے گی، ٹھیک ہے ناں! تو اب یہ جو مقناطیس ہے، وہ اسی طریقہ سے بنتا ہے، تو ہمارے اندر بھی مقناطیسی قوت ہے، ہمارے جسم کے اندر بھی مقناطیسی قوت ہے، وہ concentration کے قاعدہ سے align کردیا جاتا ہے، جو مقناطیس جیسے ہم بناتے ہیں، اس طریقہ سے اس کے اپنے طریقے ہوتے ہیں کہ concentration کے طریقے سے جیسے شمع کو بھی دیکھتے ہیں اور پتا نہیں کیا کیا کرتے ہیں، کچھ اس میں طریقۂ کار ہیں، اب اس کا یہ ہوتا ہے کہ وہ جب align ہوجاتا ہے، تو اب وہ شخص کیا ہے، وہ شخص اگر کسی کو گھور کے دیکھے اور اس کے ساتھ کچھ message بھی پاس کرلے، مثلاً اس کے دل میں یہ ہو کہ آدمی بیٹھ جائے اور اس کو گھور کے دیکھے، اس کو بیٹھنا پڑے گا، اس کو بیٹھنا پڑے گا، ہاں! وہ معمول بن جاتا ہے۔ تو یہ خان عبدالغفار خان جو ہے ناں، یہ اس کی اپنی وہ بات ہے کہ جلسوں میں ساتھ ہوتے تھے، تو یہ جارہے تھے ایک ہندو کی طرف، تو جو شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ غالباً تھے، ان کو پتا چل گیا کہ اس کو کھینچ رہا ہے، تو اس نے فوراً آواز دی، تم کدھر جارہے ہو؟ اس سے وہ ٹوٹ گیا، وہ جو ان کا زور تھا، وہ ٹوٹ گیا۔ مطلب دیکھ لیں! یہ چیزیں ہیں، کیونکہ وہ چیزیں وہ جانتے تھے، لہٰذا اب یہ دنیاوی چیزیں ہیں۔ لیکن ہم مانتے ہیں یہ اس حد تک powerful ہے کہ لوگ اس کے ذریعہ سے چمچوں کو موڑ لیتے ہیں، metallic چیزوں کو موڑ لیتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں یہ کیا ہے، یہ تو بڑی عجیب چیزیں ہیں، یہ تو بزرگ ہوگیا، یہ ہوگیا، حالانکہ یہ دنیاوی چیزیں ہیں۔ اب اگر دنیاوی چیزوں میں ہم اس طرح کرسکتے ہیں، تو دین کے لئے اگر ہم اس کو کریں، تو یہی چیزیں ہماری tools بن جائیں گی، یہ چیزیں ہماری tools بن جائیں گی، کیونکہ کوئی بھی اوزار نہ کافر ہوتا ہے، نہ مسلمان، یہ سیکولر ہوتا ہے، کوئی اوزار نہ کافر ہوتا ہے، نہ مسلمان، مسلمان اس کو استعمال کرے گا تو مسلمان بن جائے گا اور کافر اس کو استعمال کردے گا تو کافر بن جائے گا، ٹھیک ہے ناں۔ تو اسی طریقہ سے جو طریقے جوگیوں کے تھے مثلاً، جوگیوں کے طریقے تھے وہ اس سے اپنے مقاصد حل کرتے تھے دنیاوی، بعض صوفیاء نے ان کے ان طریقوں کو لے کر ان کو ان چیزوں کے لئے استعمال کیا، مثلاً یہ حبس دم جو ہے یہ اسی قبیل سے ہے، یہ جوگیوں سے لیا گیا ہے، لیکن اس سے فائدہ ہوتا ہے، مثلاً ایک شخص ہے، قلب اس کا نہیں چلتا، ہاں! مراقبہ اس کا نہیں ہورہا، تو حضرات فرماتے ہیں اچھا! ٹھیک ہے جی وہ گیارہ مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اس طرح کرو، جلدی جلدی کہہ دو، پھر اس کے بعد مطلب جو ہے ناں آپ وہ ایک سانس میں گیارہ مرتبہ کہو، پھر اس کے بعد اگلی دفعہ تیرہ کرلو، پھر اگلی پندرہ کرلو، پھر اگلی دفعہ سترہ کرلو، اس طرح بڑھاتے جاؤ جتنا بڑھا سکتے ہو، اس سے ما شاء اللہ! وہ چل پڑتا ہے۔ یہ حبس دم جو ہے، یہ ہماری مقصودی چیز نہیں ہے، لیکن ان سے ہم نے لیا ہے اور ہم نے اپنے مقصد کے لئے استعمال کردیا۔ تو یہ میں آپ سے عرض کررہا ہوں کہ یہ جو فاعلہ ہے، یہ اصل میں انسان کے اندر خود یہ چیزیں موجود ہوتی ہیں، ہم لوگ صرف ان کو حرکت دے دیتے ہیں کسی خاص طریقہ سے کہ اس سے وہ فوائد حاصل ہوجائیں۔ پھر یہ کیا ہے؟ ذکر ہے، شغل ہے اور مراقبہ ہے۔ یہاں ذکر سے مراد اصلاحی ذکر ہے، یہاں ذکر سے مراد کیا ہے؟ اصلاحی ذکر، یہ جو ہم بارہ تسبیح کا ذکر کرتے ہیں، دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ خاص طریقہ سے اور پھر چار سو مرتبہ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ کرتے ہیں، چھ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرتے ہیں اور سو دفعہ جو ہے ناں ساتھ ’’اَللّٰہ‘‘ کرتے ہیں۔ یہ خدا کی شان ہے کوئی observe کرنا سیکھ لے، باقاعدہ انسان کے اندر change آتی ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے ساتھ ایک change آتی ہے، ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے ساتھ ایک change آتی ہے اور ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ کے ساتھ ایک change آتی ہے، پھر ’’اَللّٰہ‘‘ کے ساتھ ایک change آتی ہے۔ ایک دفعہ میں نے کچھ اس قسم کی بات کی تو حضرت نے مجھے ڈانٹا، حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے، فرمایا یہاں آپ کا اجتہاد نہیں چلے گا، یہاں آپ کا اجتہاد نہیں چلے گا، یہ بزرگوں کے برسوں کے تجربات ہیں، یہاں پر آپ کو ماننا پڑے گا۔ تو اصل بات یہ ہے کہ یہ کیا ہیں، یہ بزرگوں نے تجربے سے معلوم کردیا کہ ’’لا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے اندر کیا ہے؟ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے اندر کیا ہے؟ اصل میں بات یہ ہے تفصیل کا موقع ہے نہیں، وقت بہت کم رہ گیا ہے، لیکن ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ یہ ناسوتی ذکر ہے، جس میں انسان کو نفس سے کاٹ کر اللہ کی طرف لایا جاتا ہے، چونکہ نفس اس میں involve ہے، لہٰذا اس کو ناسوتی ذکر کہا جاتا ہے۔ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ ملکوتی ذکر ہے، چونکہ ملائکہ کے ساتھ نفس نہیں ہے، لہٰذا ان کو ’’لَا اِلٰہَ‘‘ کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے، اس کا ان کی طرف دھیان ہی نہیں ہوسکتا، وہ کیوں دوسرے ’’اِلٰہَ‘‘ کی طرف جائیں گے، ہاں! تو ان کا صرف ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ ہے، مطلب یہ ہے کہ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ والا concept ہے کہ صرف اللہ کے لئے، تو یہ ملکوتی ذکر کہلاتا ہے اور ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ کا جو ذکر ہے، یہ جبروتی ذکر ہے، انسان کے اوپر تسلط کرلیتا ہے، تسلط کرلیتا ہے، انسان کو بالکل جیسے مطلب اپنے control میں کرتا ہے، یہ جبروتی ذکر ہے۔ اور پھر جو ہے ناں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا جو ذکر ہے، یہ لاہوتی ذکر ہے، یعنی اس میں انسان کسی بھی دوسرے واسطے سے غیر سے منقطع ہوجاتا ہے اور صرف اَللّٰہ کے ساتھ۔ تو اب یہ چیز دیکھیں ناں! یہ stages ہیں تصوف کے کہ پہلے ناسوتی، پھر ملکوتی، پھر اس کے بعد جبروتی، پھر اس کے بعد لاہوتی میں جانا پڑتا ہے۔ یہ روزانہ اَلْحَمْدُ للہ! اس ذکر کی برکت سے یہ چاروں stages سے انسان گزرتا ہے، جتنا جتنا کسی کا ذکر پکا ہوتا جائے گا، ان کو ان سٹیجوں کے ساتھ مناسبت بڑھتی جائے گی، نتیجتاً اس کے جو ثمرات ہیں، وہ سامنے آتے جائیں گے اور ہم لوگ دیکھتے ہیں کہ یہی ذکر کرتے کرتے کچھ عرصہ کے بعد ان کی سوچ ہی بدل جاتی ہے، سوچ ہی بدل جاتی ہے۔ راجا اشرف صاحب ہمارے ساتھی ہیں بہت پرانے، ابھی ان کی عمر تو میرے خیال میں پچاسی چھیاسی سال تو ہوگی، تو انہوں نے مجھے یہی کہا تھا، جب ذکر میں نے ان کو دیا تھا، تو تین مہینے کے بعد انہوں نے کہا شاہ صاحب! میرا تو خیال ہے کہ ذکر سے انسان کی طبیعت ہی بدل جاتی ہے، میں نے کہا نہیں حضرت! طبیعت نہیں بدلتی، طبیعت نکھر آتی ہے، طبیعت نکھر آتی ہے، جو جیسی طبیعت ہونی چاہئے، اس طرح ہوجاتا ہے، کیونکہ اللہ پاک نے سب کے لئے ایسا بنایا ہوا ہے، ہم لوگ اپنی نفسانی خواہشات کی بنیاد پر ان کو change کرلیتے ہیں، تو ان چیزوں کو وہ دور کرلیتا ہے، تو اصل طبیعت نکھر کے آجاتی ہے۔ میں نے کہا کیونکہ اس حدیث شریف کے ساتھ ٹکراؤ ہوجائے گا ناں کہ اگر کوئی کہہ دے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا تو مان لو، لیکن کوئی کہہ دے کہ کسی کی جبلت بدل گئی، تو یہ نہیں ہوسکتا۔ تو طبیعت تبدیل نہیں ہوتی۔ ہاں! یہ بات ہے کہ طبیعت نکھر کے آجاتی ہے۔ تو اس کے اثرات راجا اشرف صاحب نے اتنے محسوس کیے کہ تین مہینے اور مجھے فرمایا شاہ صاحب! میں دوسروں کو تو سمجھانے کے قابل نہیں ہوں، خود سمجھ گیا ہوں کہ ذکر میں کتنی طاقت ہے، خود سمجھ گیا ہوں کہ ذکر میں کتنی طاقت ہے۔ یہ دیکھیں! اللہ پاک نے ان کو مشاہدہ کروایا، پھر مجھ سے فرمایا شاہ صاحب! میرا مطالعہ ہی نہیں چھوٹتا تھا، اب میں کہتا ہوں کہ تنہائی ہو اور یادِ الہٰی ہو، اب پرنسپل ریٹائرڈ اور عمر ساری مطالعہ میں گزاری ہے، اس کی یہ کیفیت ہوجائے، تو یہ کمال ہے یا نہیں ہے؟ اور تین مہینے میں، اور پھر اس کے بعد آخری بات اس نے اور بھی عجیب کردی، فرمایا شاہ صاحب! میں پہلے اِدھر تھا، اب میں اِدھر آگیا ہوں، سبحان اللہ! کیسی زبردست بات ہے۔ تو یہ میں عرض کرتا ہوں ذکر کے اثرات بڑے زبردست ہوتے ہیں، لیکن ذکر طریقہ سے کیا جائے، پوچھ پوچھ کے کیا جائے، اپنے اجتہادات کو دور کیا جائے اور شیخ کی بات مانتا جائے، تو پھر ما شاء اللہ! ذکر کے جو اثرات ہیں، کیا ہیں؟ وہ بہت زیادہ ہوتے ہیں اور دیرپا اثرات ہوتے ہیں۔ تو یہ میں آپ سے عرض کررہا تھا کہ یہ تین چیزیں ہیں، ذکر ہے، شغل ہے، مراقبہ ہے، ٹھیک ہے ناں! شغل میں کیا کہتا ہوں، یہ ڈاکٹروں کی زبان آج کل بہت استعمال کررہا ہوں، یہ steroid ،steroid جو ہوتا ہے، یہ بھی ایک چیز ہے، جب عام دوائیاں ناکام ہوجاتی ہیں، تو پھر کیا دیتے ہیں، پھر steroid دیتے ہیں، steroid ایک جھٹکا ہوتا ہے، جیسے گاڑی پھنس جائے اور کسی طریقہ سے نہیں نکلے، تو اس کو جو ہے ناں اس طریقہ سے۔ تو وہ شغل جو ہوتا ہے، وہ یہی ہوتا ہے کہ اگر عام ذکر سے اور مراقبہ سے کسی کا کام نہ چلے، تو پھر ان کو شغل کراتے ہیں اور شغل اتنا کرا دیتے ہیں جتنا کہ مفید ہوتا ہے، جتنا کہ مفید ہوتا ہے، اس کے بعد روک دیتے ہیں۔ تو یہ جو ہمارا شغل ہے، ذکر ہے اور مراقبہ یہ مفید بلاخطر ہیں اور

مفید مع الخطر

مع الخطر یعنی خطرہ بھی اس میں ہے، لیکن کبھی کبھی کرنا پڑتا ہے اور وہ کیا ہے؟

تصورِ شیخ، red zone medicine، کیا کہیں گے ڈاکٹر صاحب اس کو؟ یہ medicine لینی تو ہے، لیکن وہ کیا ہوتے ہیں، اس کو کیا کہتے ہیں؟ life saving drugs life saving drugs یہ ہوتے ہیں، تو یہ کبھی کبھی استعمال کرنے کی نوبت آتی ہے، یہ ہر وقت نہیں، جہاں اس کے استعمال کی ضرورت ہو، تو وہ شیخ کے اجتہاد پر ہوتا ہے، وہ اس کو بتا دیتے ہیں۔ تو اس میں ہے تصور شیخ۔ ٹھیک ہے ناں!

دوسرا ہے عشق مجازی، لوگ خوش ہوجائیں گے، سبحان اللہ! کیا بات ہے! نہیں، عشق مجازی سے مراد یہ نہیں ہے کہ ناجائز عشق مجازی، جائز عشق مجازی بھی ہوتا ہے ناں کہ نہیں ہوتا؟ ایک بزرگ کے پاس کوئی آیا، اس سے حضرت نے کہا تمھیں کس چیز سے محبت ہے زیادہ؟ اس نے کہا کہ مجھے بھینس کے ساتھ محبت ہے، انہوں نے کہا جاؤ چالیس دن کے لئے گھر میں بیٹھنا ہے، صرف فرض نماز پڑھنی ہے، کھانا کھانا ہے، سونا ہے اور تصور کرنا ہے بھینس کا، بھینس کا تصور کرنا ہے۔ اب بتاؤ! یہ کیا چیز ہے؟ یہ عشق مجازی ہے، تو بھینس کا تصور ان کو چالیس دن کرایا اور اس کے بعد حضرت اس کے کمرے میں گئے، ان سے کہا باہر آجاؤ، انہوں نے کہا کیسے آجاؤں؟ میرے سینگ ہیں، اٹک جاتے ہیں، وہ مراقبہ اتنا طاری ہوگیا تھا کہ وہ اپنا خود بخود فنا فی البھینس ہوگیا تھا، تو اب دیکھیں! حضرت نے کہا اب کام ہوگیا، تو حضرت نے اس کے اوپر توجہ کی، تصرف یہ بھی ایک طریقہ ہے، ابھی آگے آئے گا کہ تصرف کرکے اس کا بھینس کے تصور کو ہٹا کے اللہ پاک کے تصور پہ لایا، گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ جو بھینس کی طرف متوجہ تھا، اب دیکھیں! وہ کہتے ہیں وہ ’’دِل ہَمَہ داغ داغ شُد پُن٘بَہ کُجا کُجا نِہُم‘‘ کہ مطلب میرا دل جو ہے، داغ داغ ہوگیا ہے، میں پنبہ کہاں کہاں پر رکھوں؟ اتنے سارے زخموں کو آدمی کیا کرسکتا ہے، پریشان ہوجاتا ہے ناں، لیکن اگر آپ سارے گند کو ایک جگہ جمع کردیں اور پھر اس کو ہٹا کے اصل چیزیں ادھر رکھ لیں تو سارا کام ہوجاتا ہے ناں۔ تو یہاں پر بھی وہی والی چیزیں ہیں کہ عشق مجازی جو ہے مطلب وہ ایک ایسی جائز محبت جو طبعی محبت ہے، جس میں انسان کو کسی چیز کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے، وہ اس حد تک انگیخت کی جائے کہ وہ باقی تمام محبتوں کو ختم کردے، باقی تمام محبتوں کو ختم کرلے، تو پھر کیا ہوگا، پھر یہ ہے کہ اسی ایک محبت کو ہٹا کر اصل محبت اُدھر ڈال لو۔ لیکن کسی کے اندر یہ طاقت ہو ناں، تو یہ ہم لوگ نہیں کرسکتے، مطلب جو لوگ اس کو کرسکتے تھے وہ پھر کرسکتے تھے، اب ایسا نہ ہو کہ ہم لوگ بھی شروع کرلیں کہ لوگوں کو عشق مجازی شروع کروا دیں، نہیں بھئی! یہ بہت مشکل کام ہے، وہ جو لوگ اس کے اہل ہوتے ہیں، وہی کرسکتے ہیں۔ تیسری چیز کیا ہے؟ سماع ہے سماع، اس پر بھی لوگ بڑے خوش ہوجائیں گے، بھئی! یہ تو بڑی مزیدار ہے، یقیناً مزیدار چیز ہے، لیکن مزے کے لئے نہیں ہے، سبحان اللہ! کیا بات ہے، مزیدار چیز ہے، لیکن مزے کے لئے نہیں ہے، ٹھیک ہے ناں! مقصود یہ ہے کہ سماع جو ہے، یہ کیا چیز ہے؟ آپ کہہ سکتے ہیں دل کے اندر اللہ کی محبت کو پہنچانا ہے، کیا کرنا ہے؟ دل کے اندر اللہ کی محبت کو پہنچانا ہے۔ اب اللہ کی محبت کو پہنچانے کے لئے آپ کوئی carrier لیتے ہیں جس کے اوپر رکھ کر آپ اس کو پہنچاتے ہیں، ٹھیک ہے ناں! اب عام طور پر نہیں پہنچا سکتے ہیں، اب carrier ایسی چیز ہو کہ جو خود بخود دل کے اندر آنے کو تیار ہو، جس کے لئے دل کے اندر کوئی رکاوٹ نہ ہو، تو اب دیکھ لیں! اچھی آواز کے ساتھ شعر و شاعری جو ہے، اس کے لئے دل کے دروازے کھلے ہوتے ہیں ناں، سب کے تو نہیں لیکن کچھ لوگوں کے کھلے ہوتے ہیں، جن میں ہم بھی شامل ہیں، مطلب ان کے دروازے کھلے ہوتے ہیں، اب جب دروازے کھلے ہوتے ہیں، اب اس پہ یوں کرلیں کہ وہ جو شعر و شاعری ہے، جس کے لئے دل میں جذب ہے، اب اس کے اوپر اللہ کی محبت طاری کردو، اور وہ اس ذریعہ سے آپ اس کو دل میں پہنچا دیں، مقصود شاعری پہنچانا نہیں ہے، مقصود اللہ کی محبت پہنچانا ہے، اس وجہ سے سماع سے مقصود مزہ نہیں ہے، لیکن اس مزیدار چیز کو اس مقصود چیز تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ ٹھیک ہے ناں۔ تو سماع جو ہے، یہ بھی ایسا ہوتا ہے، پھر اس کے بعد میرے خیال میں شاید۔ دیکھیں! حضرت کا ایک صفحہ بھی پورا نہیں کرسکے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو یہ تمام فیوض و برکات بزرگوں کی نصیب فرما دے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ



تصوف کی حقیقت اور اصلاحِ نفس کا عملی خاکہ - حصہ سوم - انفاسِ عیسیٰ - دوسرا دور