اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
تصوف کے بارے میں جو امور زیر بحث ہوتے ہیں، اس کے بارے میں بات چل رہی تھی۔
(16) ابنِ منصور کی تواضع:
یہ ابن منصور وہی حلاج رحمۃ اللہ علیہ جو، جس نے ’’اَنَا الْحَقْ‘‘ کہا تھا، اس کے بارے میں بات ہورہی ہے۔
ابنِ منصور کا قول ہے کہ میں جو بڑے بڑے شدائد کا تحمّل کر لیتا ہوں، اس میں میرا کوئی کمال نہیں، کیونکہ طبیعتِ انسانیہ ہر حالت میں عادی ہوجاتی ہے اور عادت کے بعد تحمّل آسان ہوجاتا ہے۔ مقصود تواضع ہے کہ میرا کوئی کمال نہیں، یہ تحمّلِ شدائد ہے۔
یعنی اپنے آپ کو گویا کہ پھر اس میں بھی چھپانے کی کوشش کی کہ اس میں میرا کمال نہیں ہے۔
(17) اللہ تعالیٰ کی محبّت کا طریقہ:
ابنِ منصور نے فرمایا کہ واجبات اور فرائض کو ادا کرتے رہو، اسی سے اللہ تعالیٰ کی محبّت تم کو حاصل ہوجائے گی۔
واجبات اور فرائض مطلب ان کو نہ چھوڑو۔
(18) نفس کی نگہداشت کا طریقہ:
ابنِ منصور نے فرمایا کہ اپنے نفس کی نگہداشت رکھو۔ اگر تم اسے حق کی یاد اور اطاعت میں نہ لگاؤ تو وہ اپنے شغل میں لگا دے گا یعنی شہوت میں پھنسا دے گا۔
یعنی اس کو busy رکھو۔ وہ جیسے کوئی بڑا ہی شریر بچہ ہوتا ہے ناں، تو اس کا ایک ہی حل ہوتا ہے کہ اس کو busy رکھا جائے، ذرا بھر میں آپ نے اس کو relax کردیا، تو اس نے کوئی نہ کوئی شرارت کردی، ہاں جی! تو اسی طریقے سے جو ہمارا نفس ہے، یہ بھی بہت شرارتی ہے، تو اس کو busy رکھو گے، تو یہ چھوٹیں گی، ورنہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ کسی نہ کسی مصیبت میں پھنسا دے گا۔
(19) حسین ابنِ منصور نے فرمایا کہ اولین و آخرین کے علوم کا خلاصہ چار باتیں ہیں:
(1) ربِّ جلیل کی محبّت۔ سبحان اللہ! ربِّ جلیل کی محبّت۔ (2) متاعِ قلیل، یعنی دنیا سے نفرت۔ نمبر (3) کتابِ منزّل کا اتّباع، یعنی قرآن پاک کا اتباع، (4) تغیّراتِ حال کا خوف، یعنی کہیں میری حالت negative side پہ نہ چلنے لگے، مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی محبت، دنیا سے نفرت، کتاب اللہ کا اتباع اور اپنی جو اچھی حالت ہے، اس کے زائل ہونے کا اندیشہ، ہاں جی! اس کا جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ اس سے انسان کو ساری چیزیں حاصل ہوسکتی ہیں۔
(20) حضرت مولانا رشید احمد صاحب قدّس سرّہٗ کا منصور کے بارے میں فتوٰی:
منصور معذور تھے، بے ہوش ہوگئے تھے، اس پر کفر کا فتوٰی دینا بے جا ہے، ان کے بارے میں سکوت افضل ہے، اس وقت رفعِ فتنہ کی غرض سے اس کا قتل کرنا ضروری تھا۔
کیونکہ لوگ ان تمام details کو نہیں جانتے۔ یہ جو ہوتا ہے ناں، یہ ایک سرمد رحمۃ اللہ علیہ گزرے ہیں اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں، تو اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو سمجھایا، لیکن وہ اب مدہوش تھے، وہ سمجھ نہیں سکے ان کی بات، تو اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو قتل کروا دیا، تو اس کے بعد ان کے وزیراعظم نے کہا کہ حضرت قتل کے لائق تو نہیں تھے، چلو فہمائش کرلیتے، لیکن قتل کے لائق تو نہیں تھے، فرمایا: خفتہ بِہ، سویا ہوا اچھا ہے یعنی ان کا جاگنا مناسب نہیں تھا، اس سے جو ہے ناں مسئلہ پڑ رہا تھا شریعت کے متعلق۔ مطلب وہ اصل میں بات یہ ہے کہ بہت ساری باتیں شریعت کی عام لوگوں کو معلوم نہیں ہوتی، لہٰذا وہ confuse ہوجاتے ہیں، تو اب اتنے سارے لوگوں کو بچانے کے لئے اگر ایک شخص چلا جائے، تو ٹھیک ہے وہ شہید ہوجائے گا، باقی بچ جائیں گے، ہاں جی! تو ایسی صورت میں پھر یہ کرنا پڑتا ہے اور یہ وقت کے علماء کرام کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ تھے حضرت سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ جو ہمارے خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ، ان کو سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ کہتے، یہ سماع سنتے تھے اور قاضی صاحب سلام الدین رحمۃ اللہ علیہ وہ اس کے سخت مخالف تھے، تو وہ حضرت سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی بدعتی کہتے تھے، یہ بدعتی ہے، تو ہوا یہ کہ ایک دفعہ جو تھے سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ یہ سماع سن رہے تھے اور جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ خیمے کی جو طنابیں تھیں، وہ آکر جو ہے ناں، چونکہ یہ محتسب تھے، محتسب اعلیٰ تھے، تو اپنے ساتھ وہ فورس کو لے آئے تھے اور ان سے کہا کہ خیمے کی طنابیں کاٹو، مطلب یہ ہے کہ کاٹو تو شامیانے ان کے گر جائیں گے، تو انہوں نے خیمے کی طنابیں کاٹیں، خیمہ ہوا میں معلق ہوگیا، وہ نہیں گرا، تو جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ یہ حضرت قاضی صاحب نے فرمایا یہ بدعتی کا استدراج ہے، چلو اب چلتے ہیں بعد میں دیکھیں گے، یعنی اس بات کے لئے کہ کہیں لوگوں کا غلط concept۔۔۔۔ تو کہا کہ یہ بدعتی کا استدراج ہے، چلو چلتے ہیں بعد میں دیکھیں گے، وہ چلے گئے۔ ایک دفعہ وہاں مجلس میں بیٹھے ہوئے، حضرت سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ کو وجد آیا کسی بات سے، تو اس پر جو ہے ناں وہ حضرت قاضی صاحب اٹھے اور ان کو بٹھا دیا، پھر دوبارہ ان کو وجد آیا، پھر دوبارہ ان کو بٹھایا، بیٹھیں، تیسری دفعہ جب حضرت اٹھے، تو ان کے سامنے دو زانو کھڑے ہوگئے بہت ادب کے ساتھ، بعد میں جو ہے ناں مطلب ساتھیوں نے ان سے پوچھا یہ کیا بات ہے؟ پہلی دفعہ بھی آپ نے بٹھایا، دوسری دفعہ بھی آپ نے بٹھایا، تیسری دفعہ آپ ان کے سامنے باادب کھڑے ہوگئے، یہ کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا اصل میں پہلے وجد میں جب آیا تھا، تو سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ وہ تو چلے گئے آسمان پہ، اتنی پرواز میری بھی تھی تو وہاں سے واپس لے آیا، ٹھیک ہے، کہتے ہیں کہ اس کے بعد جو ہے ناں وہ دوسری دفعہ جو گئے، تو عرش کے نیچے پہنچے، تو اتنی پرواز میری بھی تھی، تو میں اس کو واپس لے آیا، تیسری دفعہ عرش کے اوپر چلے گئے، یہاں میری پرواز نہیں تھی، مجھے فرشتوں نے روک دیا، تو جب روک دیا، تو میں نے ان کے سامنے عرش کے انوارات مجھے نظر آگئے، تو میں ان کے سامنے باادب کھڑا ہوگیا۔ میں ان کے سامنے باادب تو نہیں کھڑا تھا، میں تو عرش کے انوارات کے سامنے۔۔۔۔ اب دیکھیں! اپنی بات پھر بھی نہیں چھوڑ رہا۔ آخر وقت ایسا ہوا کہ ان کا جو ہے حضرت سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے، یہ قاضی صاحب کا آخری وقت قریب تھا، مطلب بیمار تھے، آخری وقت گویا کہ نزع شروع ہونے والا تھا، سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے، دروازہ کھٹکھٹایا، خادم سے کہلوایا کون؟ انہوں نے کہا جی وہ سلطان جی، ان سے کہو بھئی! اس وقت میں نہیں ملنا چاہتا، کسی بدعتی کا چہرہ میں نہیں دیکھنا چاہتا، میرا آخری وقت ہے، میں کسی بدعتی کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا، تو سلطان جی نے کہا کہ ان سے کہہ دو کہ توبہ کرکے آیا ہے، ہاں جی! تو انہوں نے کہا کہ اچھا، پھر ٹھیک ہے، پھر تو ضرور آجائے، پھر ضرور آجائے، تو پھر اپنی پگڑی جو ہے، وہ کھلوا کر اس طرح راستے میں رکھ دی کہ ان کے اوپر پیر رکھتے ہوئے آجائے۔ ہاں جی! تو وہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ انہوں نے وہ پگڑی ساری اٹھا کے اپنے سر پہ رکھ دی، یہ تو دستار شریعت ہے، میں اس پہ پیر کیسے رکھ سکتا ہوں، ہاں جی! پھر جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس چلے گئے، تو انہوں نے کہا کہ میرا آخری وقت ہے، کچھ توجہ فرمائیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کا تعلق مجھے نصیب ہوجائے، اس وقت حضرت نے ان پہ توجہ فرمائی اور ماشاء اللہ! ہشاش بشاش دنیا سے چلے گئے۔
اب ان کی محبت کیسی، مخالفت کیسی اللہ کے لئے تھی، نظر آتا ہے ناں کہ اس میں نفسانیت تو نہیں تھی، دونوں طرف للّٰہیت تھی، ان کی طرف احتساب کے لئے للّٰہیت تھی، ان کی طرف محبت کی للّٰہیت تھی، دونوں طرف للّٰہیت تھی۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ان کی باتیں سمجھنا بڑا مشکل ہوتا ہے، اگر کوئی ان کو سمجھنا چاہے، تو آسان نہیں ہوتا، اس وجہ سے بعض دفعہ resection جو ہے ناں وہ کرنا پڑتا ہے، ہاں! یہ نہیں کہ مطلب یہ ہے کہ ان کو غلط سمجھا جاتا ہے۔
(21) حضرت اقدس حکیم الامّت رحمۃ اللہ علیہ کا فتوٰی:
میری رائے ابنِ منصور کے متعلّق یہ ہے کہ وہ اہلِ باطل میں تو نہیں اور ایسے اقوال، احوال جن سے ان کے صاحب باطل ہونے کا وہم ہوتا ہے، وہ میرے نزدیک مؤوَّل ہیں یا قبلِ دخول فی الطریق حالات ہوں، مگر اس کے ساتھ ہی کاملین میں سے نہیں تھے، مغلوب الحال تھے، اس لئے معذور ہیں۔
مطلب کمال تو یہ ہے کہ حال کے اوپر غالب ہوجائے، لیکن چونکہ حال کے اوپر غالب نہیں ہوسکے، لہٰذا معذور تو تھے، لیکن کامل بھی نہیں تھے۔
(22) وحدةُ الوجود کی اجمالی حقیقت کیا ہے:
یہ کہ ممکنات کا وجود نظر سے غائب ہوجائے، یہ نہیں کہ ممکنات کو خدا مان لیا جائے۔
ہاں جی! یہ بعض لوگ کہتے ہیں ناں کہ وحدت الوجود میں سے تو لوگ ہر ایک چیز کو خدا مانتے ہیں، مطلب ہر چیز کو گویا کہ خدا سمجھ لیتے ہیں، نہیں، کثرت الوجود وہ چیز تو نہیں، وحدت الوجود ہے۔ علامہ اقبال نے جو ہے ناں ایک شعر میں اس کو بہت آسانی کے ساتھ بیان کیا ہے، اور وہ ہے کہ؎
اک آن میں مٹ جائیں گی کثرت نمایاں
جب آئینے کے سامنے ہم آکے ھو کریں
جب آئینے کے سامنے ہم آکے ھو کریں
اک آن میں مٹ جائیں گی کثرت نمایاں
جب آئینے کے سامنے ہم آکے ھو کریں
اس میں حضرت نے بہت مشکل مضمون کو انتہائی آسان لفظوں میں وہ بیان کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہر چیز سے ہمیں ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ناں، تو یہ چیز ختم ہوجائے گی اور سب کچھ ایک سے ہوتا ہوا نظر آنے لگے گا، جس وقت ہم کسی شیخ کے سامنے آکر اللہ کی طرف توجہ کریں ’’ھو‘‘ کریں، ’’ھو‘‘ کا مطلب کیا، اللہ کی طرف اشارہ ہے، جب آئینے، آئینے سے مراد شیخ ہے، جب شیخ کے سامنے آکر ہم اللہ کی طرف توجہ کریں گے تو ساری چیزیں جو ہیں ناں، مطلب ہماری بدل جائیں گی، ہمیں مختلف چیزوں سے ہوتا ہوا جو نظر آرہا ہے، یہ ایک سے ہوتا ہوا نظر آنا شروع ہوجائے، یہ وحدت الوجود ہے۔ ہاں جی!
(23) احوال و کیفیات کے آثار:
ابنِ منصور نے فرمایا کہ انبیاء علیہم السّلام احوال و کیفیات پر غالب ہوتے ہیں اور ان کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ احوال و کیفیات کو پلٹ دیتے ہیں، احوال ان کو پلٹ نہیں سکتے۔ انبیاء کے سوا دوسروں کی شان ہے کہ ان پر احوال و کیفیات کی سلطنت ہوتی ہے، احوال ان کو پلٹ دیتے ہیں اور وہ احوال کو نہیں پلٹ سکتے۔ اسی طرح اولیاء میں جو کامل متّبعِ سنّت ہوتے ہیں، وہ بھی انبیاء علیہم السّلام کی طرح احوال پر غالب ہوتے ہیں، مگر درجۂ کمال تک پہنچنے سے پہلے احوال و کیفیات ہی غالب رہتی ہیں۔
یہ اختلاف تھا حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو ابن منصور کے ساتھ۔ حضرت فرماتے تم یہ کرسکتے ہو اور یہ اپنے آپ کو معذور سمجھتے، یہ میں نہیں کرسکتا، وہ ان کو کہتے کہ نہیں، تم یہ احوال کے اوپر غالب ہوسکتے ہو، لیکن وہ اپنے آپ کو معذور سمجھتے۔۔۔۔ ہاں جی! تو بس یہی جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، پھر تمھیں سولی پہ چڑھنا ہوگا، اگر تم غالب نہیں ہوسکتے، تو تمھیں سولی پہ چڑھنا ہوگا۔
(24) ابنِ منصور سے غلبۂ حال کے وقت یہ کلمہ ’’أَنَا الْحَقُّ‘‘ بے ساختہ نکل جاتا تھا، انہوں نے تو معنٰی بھی بتا دیا کہ اپنی ہستی کا دعوٰی نہیں، بلکہ فنا کا اظہار ہے کہ ایک کے سوا میری نظر میں کچھ نہیں، خود اپنی ہستی بھی کچھ نہیں۔
ہاں جی! یعنی میں بھی حق کا مظہر ہوں، میں بھی کچھ نہیں، ’’اَنَا الْحَقْ‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ میں خدا ہوں۔ ٹھیک ہے ناں۔
دل ہو وہ جس میں کچھ نہ ہو جلوۂ یار کے سوا
میری نظر میں خار بھی جامِ جہاں سے کم نہیں
(25) فرمایا کہ اولیاء فانی صفت ہوتے ہیں یعنی ان میں نہ رنج اثر کرتا ہے، نہ راحت، مطلب یہ کہ وصول کے بعد مجاہدہ مجاہدہ نہیں رہتا، بلکہ غذا بن جاتا ہے۔ تمہارے نزدیک ہزار رکعت پڑھنا مجاہدہ ہے اور میرے نزدیک یہ نہیں ہے، کیونکہ یادِ محبوب میری غذا بن گئی ہے، میرے نزدیک جیل خانے اور خَس خانہ برابر ہے، کیونکہ اپنی صفات کا فنا اور صفاتِ محبوب کا مشاہدہ مجھے ہر جگہ حاصل ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جس کو ہم مجاہدہ کہتے ہیں، یہ اس وقت تک ہے، جب تک نفس مزاحمت کرتا ہے، جب نفس مزاحمت کرنا چھوڑ دے اور اس کے ساتھ ہوجائے، تو پھر تو مجاہدہ نہیں رہا ناں، پھر تو مجاہدہ نہیں رہا، ہاں! پھر تو مشاہدہ بن گیا، ہاں جی! تو یہی چیز ہوتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں جو یہ کرتا ہوں، تو میری تو یہ غذا بن گئی ہے، لہٰذا اس پر جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد پھر اثر نہیں کرتا انسان۔
(26) ترکِ تقلید:
حسین ابن منصور کی عمر جب پچاس برس کی ہوئی، فرمایا کہ اب تک میں نے مذاہبِ مجتہدین میں سے کوئی مذہب اختیار نہیں کیا، بلکہ جملہ مذاہب میں سے دشوار تر کو اختیار کیا ہے کہ ’’خُرُوْج مِنَ الْاخِتلَافِ‘‘ احوط ہے، اور ایسی ترکِ تقلید بالاتّفاق مذموم نہیں۔ ترکِ تقلید وہ مذموم ہے، جس کا منشا اتّباعِ رُخص ہے۔ اور اب کہ میری عمر پچاس سال کی ہے، ایک ہزار سال کی نمازیں پڑھ چکا ہوں اور ہر نماز غسل کرکے پڑھی ہے، وضو پر اکتفاء نہیں کیا۔
اب تھوڑا سا آپ غور فرمائیں، اس کے اندر جو سب سے بڑا باریک نقطہ ہے، وہ یہ ہے، ان کے بارے میں آپ حضرات نے یہ باتیں سنی، اس سے پتا چلا کہ ان کے احوال بڑے اونچے تھے، بڑا مجاہدہ کیا، بہت اعمال کیے، لیکن کامل نہیں تھے، سب یہی کہہ رہے ہیں ناں کامل نہیں تھے، معذور تھے۔ تو اب یہ بتائیں کہ کامل نہ ہوسکے، اس کی وجہ کیا تھی؟ مطلب یہ یعنی بظاہر اتنے تمام مجاہدات کے ساتھ بھی کامل نہ ہوسکے، تو آخر کیا وجہ تھی؟ تو اس کے اندر ایک ہی نقطہ سامنے آتا۔۔۔۔ اور وہ یہ ہے کہ اپنے شیخ میں فنا نہیں ہوسکے، ہاں جی! اگر اپنے شیخ میں فنا ہوجاتے، انہوں نے ایک step cross کرلیا، جلدی اللہ میں فانی ہونا شروع کیا، اس step کو چھوڑ دیا تھا، بات سمجھ میں آرہی ہے یا نہیں آرہی؟ تو جب اپنی مرضی سے ایک step bypass کرلیا، تو نقصان کتنا ہوا، بہت بڑا نقصان ہوا ناں۔ یہ جو چیز ہے، اس کو سمجھنا چاہئے کہ شیخ کو bypass کرنا یہ آسان بات نہیں ہوتی، اس سے انسان کو بہت زیادہ نقصان ہوجاتا ہے۔ اب دیکھیں باوجود تمام مجاہدات کے، تمام جتنے یعنی آپ دیکھیں کہ پچاس برس کے بعد وہ بتا رہا ہے کہ میں نے ہزار سال کی نمازیں پڑھی ہیں، اب کتنی نمازیں پڑھی ہیں، پھر ہر نماز کے لئے وضو نہیں، بلکہ غسل کیا ہے، تو مجاہدہ تو بہت کیا ہے، لیکن شیخ کا اتباع نہیں کرسکے، شیخ کا اتباع نہیں کرسکے، اس کا نقصان یہ ہوگیا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بہت گُر کی بات ہے، اس کو پلے باندھنا چاہئے، ہاں! کہ شیخ اگر کہہ دے کہ بالکل سارے نوافل چھوڑ دو، تو اسی میں فائدہ ہوگا، وہ کچھ دیکھ کے کہہ رہا ہوگا، ہاں! وہ کچھ دیکھ کے کہہ رہا۔ اب اس وقت ایک آدمی کہتا ہے شیخ مجھے سارے نوافل چھڑوانے کے لئے کہہ رہا ہے، یہ کیا بات ہوگئی، یہ تو مجھے degrade کررہا ہے، بس یہ جو خیال آگیا، یہ شیطانی خیال ہے، اب مسئلہ دوبارہ نئے سرے کے اوپر ہوجائے گا۔ ہاں جی! یہ جو چیز ہے، آپ نے شیخ کے اوپر جب اتنا اعتماد کرلیا کہ یہ میرا شیخ ہے، اب جو ہے ناں اپنے آپ کو ان کے حوالے کرلو، فرائض، واجبات میں ان کی بات نہ مانو، کیونکہ وہ اللہ کا براہ راست حکم ہے، فرائض و واجبات تو نہ آپ سے وہ چھڑا سکتے ہیں، نہ جو ہے ناں مطلب آپ چھوڑ سکتے ہیں، لیکن نوافل سارے کے سارے چھڑا سکتے ہیں۔ آخر بیوی جو ہے یہ اس کے لئے یہ حکم نہیں ہے کہ اگر میاں اس کو نفلی روزے سے منع کردے، تو نہ رکھے، تو آخر شوہر بھی تو ایک انسان ہی ہے ناں، تو اس کے لئے اگر شرعی اجازت ہے، ہاں! تو ظاہر ہے مطلب شیخ کے لئے بھی یہ بات ہے کہ وہ جو ہے ناں دیکھتا ہے کہ اس سے، اس کو کہیں بزرگی نہ چڑھے، اب بزرگی سے بچانے کے لئے جس سے اس کا روحانی نقصان بہت ہورہا ہے، اب اس کی چند نفلوں کا ثواب ان سے رہ جائے اور ثواب اس کو مل بھی جائے، کیونکہ پڑھنا تو چاہتے ہیں، شیخ نے رکوا دیا ہے، تو ثواب تو اس کو نیت سے مل جائے گا، لیکن یہ والی بات ہے کہ شیخ کو بھی نقصان نہیں، بلکہ اس کو فائدہ ہے، کیونکہ اس کا علاج کررہا ہے۔ ہاں! تو یہ بنیادی بات ہوگئی کہ بعض دفعہ شیخ کہتا ہے کہ بھئی! یہ کام نہ کرو، وہ سمجھتا ہے کہ بھئی یہ تو بہت اونچا کام ہے۔ میں اکثر ایک بات کرتا ہوں کہ دیکھو! مشائخ کے پاس لوگ جاتے ہیں، تو جیسے ٹینک، ٹینک کے ساتھ نل ہے، نل کے ساتھ ٹب ہے، اب ٹینک میں پانی نہیں ہوگا، تو نل میں کہاں سے آئے گا اور نل سے پانی نہیں آئے گا، تو ٹب میں کہاں سے آئے گا، لیکن آپ کو ملے گا تو بے شک ٹینک میں سارا full ہے، ملے گا تو ٹب سے ہی، ملے گا تو ٹب سے ہی ناں، آپ تو ٹب ہی ساتھ attach ہیں ناں، اب یہ جو ٹب ہے، جتنا زیادہ کھولیں گے، اتنا زیادہ پانی ملے گا، جتنا کم کھولیں گے، آپ کو کم ملے گا، یہی بات ہے ناں۔ تو اب یہ جو بات ہے یہ جو نل ہے، یہ سلسلہ ہے اور ٹینک اللہ پاک کی معرفت کا خزانہ ہے اور ٹب جو ہے ناں یہ کیا ہے؟ یہ شیخ ہے۔ اب بے شک زیادہ کھولو، کم کھولو۔ اگر شیخ کے اوپر انسان کا زیادہ اعتقاد ہو، اس کو زیادہ ملے گا، کم اعتقاد ہوگا، تو کم ملے گا۔ اس لئے مشائخ فرماتے ہیں، علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے شیخ کو قطب وقت سمجھتا ہو اور وہ ہو نہیں، اس شخص کو جو اس کو قطب وقت سمجھ رہا ہے، اس کو قطب وقت کا فیض ملے گا، کیونکہ دینے والا خدا ہے، وہ نہیں ہے، اس کے لئے تو فقط ایک ذریعہ ہے۔ بات سمجھ میں آرہی ہے ناں۔ یہ بات جتنا آپ اپنا imagination ان کے بارے میں بڑھائیں گے، اتنا آپ کو زیادہ مل جائے گا۔ تو یہ والی بات جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ شیخ کے اندر فانی ہونے سے انسان کی بڑی بچت ہوجاتی ہے، ورنہ میں کہتا ہوں ابن منصور رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہمارے لئے بہت بڑی جو ہے ناں عبرت موجود ہے، بہت بڑی عبرت موجود ہے۔ ہاں جی! فرماتے ہیں
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ