اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
تصوف کے بارے میں جو امور زیر بحث ہوتے ہیں، اس کے بارے میں بات چل رہی تھی۔تعجیل:
جلدی مچانا، جلدی مچانا۔ آدمی کہتا ہے بس جی میں تو بس ایک مہینے میں میرا تمام ہوجائے، میرے چودہ طبق روشن ہوں۔ ہاں جی! یہ جو جلدی مچانا ہے، اس میں سب سے پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ شیخ کے اوپر بد اعتماد ہوجاتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ شاید شیخ میرے ساتھ کچھ امتیازی سلوک کررہا ہے، دیکھو فلاں کے اوپر کیا توجہ ہے فلاں کے اوپر میرے اوپر توجہ نہیں ہے، مجھے جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ نظر انداز کررہا ہے، تو یہ شیخ کے اوپر وہ شروع ہوجاتا ہے بدگمانی۔۔۔۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی بدگمانی تک پہنچ جاتا ہے، ہاں جی! تو ظاہر ہے انسان بعض دفعہ یہ بالکل ہی لائن سے ہٹ جاتا ہے۔ تو یہ تعجیل، تعجیل جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ اس سے اپنے آپ کو بچانا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس کے بارے میں ایک شعر فرمایا کرتے تھے اکثر، ہاں! وہ فرمایا کرتے،
ان کے الطاف شہیدی تو ہیں مائل سب پر
تجھ سے کیا بیر تھا اگر تو کسی قابل ہوتا
مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک تو سب کو دینا چاہتا ہے، کچھ گڑبڑ تجھ میں ہوگی ناں کہ درمیان میں آئی ہے۔ تو اپنے اوپر کیوں غور نہیں کرتے، شیخ کے بارے میں کیوں سوچتے ہو کہ مطلب وہ مجھے کم وہ کررہا ہے، تو دوسری چیزوں کے بارے میں کیوں۔۔۔۔ آخر کچھ گڑبڑ ہوگی، اس گڑبڑ کو تلاش کرو۔ ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ کسی بزرگ کے پاس ایک آئے مرید، بظاہر بڑے مخلص مرید لگتے تھے، لیکن اس کو فائدہ نہیں ہورہا تھا، تو جو حضرت صاحب تھے، وہ پریشان ہوگئے کہ یا اللہ! یہ کیا مسئلہ ہے، میں پوری کوشش کررہا ہوں، لیکن اس کو کچھ نہیں ہورہا، کوئی درمیان میں چکر ہے، لیکن وہ کیا ہے؟ تو دعا کی اللہ تعالیٰ سے کہ یا اللہ! ان کی حالت میرے اوپر کھول دے، اس کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ تو حضرت کو پتا چل گیا، الہام ہوگیا کہ اس کے اندر بڑا بننے کا شوق ہے، روحانی بڑا، بزرگ بننے کا شوق ہے، ہاں جی! تو اس کو بلا لیا، اس کو بلا لیا ان سے کہا بھئی! یہ بتاؤ آپ آخر میرے پاس جو آئیں ہیں، تو نیت کیا ہے آپ کی؟ کس لئے آئے ہیں آپ؟ مقصود کیا ہے؟ اس نے کہا کہ حضرت! جو آپ سے لوگ فیض پاتے ہیں، تو اگر مجھے کچھ مل گیا، تو لوگوں کو میں بھی اس طرح فیض دے دیا کروں۔ انہوں نے کہا اچھا! تو تو پیر بننا چاہتا ہے، مطلب کتا پڑا ہوا ہے درمیان میں، پانی سے ڈول نکال رہے ہیں ہم، اور کتا درمیان میں پڑا ہو، پانی تو پاک نہیں ہوگا، انہوں نے کہا پہلے اس سے توبہ کرو کہ میں نے کسی کو فیض نہیں دینا، مجھے کیا، ہاں جی! بھئی کوئی جو میرے ذمہ اگر کوئی کام نہیں لگایا گیا، تو میں اس کو کیوں کروں؟
احمد تو عاشقے بمشیخت ترا چہ کار
دیوانہ باش، سلسلہ شد شد نشد نشد
(اے احمد! تو تو عاشق ہے، تجھے شیخ بننے سے کیا کام ہے؟ دیوانہ بن جاؤ اللہ تعالیٰ کا، سلسلہ بنے یا نہ بنے، ہمیں اس سے کیا غرض؟)
جس کا کام ہے، اس کو ساجھے، ہاں جی! تو یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ اس کو یہ بتا دیا کہ اس سے توبہ کرو، جب اس سے توبہ کروائی، بس راستہ کھل گیا اور ماشاء اللہ! چل پڑا، وہ رکاوٹ دور ہوگئی، بنیادی مسئلہ یہاں تھا، clotting یہاں تھی، آگے blood pass نہیں ہورہا تھا، ہاں جی! تو اس سے جو ہے ناں پھر نقصان مطلب ہونا شروع ہوگیا۔ تو یہ جو ہے ناں مطلب دیکھیں ناں بزرگوں کے کیا کیا مطلب ہوتے ہیں انسان کے اوپر احسانات کہ انہوں نے اس کے لئے کتنا یعنی pain لے لیا، کتنا سوچا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ! ان کی حالت میرے اوپر کھول دے۔ تو اس طرح یہ ہوتا ہے کہ
ان کے الطاف شہیدی تو ہیں مائل سب پر
تجھ سے کیا بیر تھا اگر تو کسی قابل ہوتا
تو یہ اصل میں اپنے اوپر اگر کبھی کسی کو خیال آجائے، تو اپنے اوپر آنا چاہئے کہ میرے اندر کوئی گڑبڑ ہے۔ ٹھیک ہے، جس طرح اس پیر صاحب نے دعا کی تھی، تم بھی دعا کرو یا اللہ! میرے اندر جو عیب ہے، تو اس کو دور فرما دے، کوئی اگر رکاوٹ ہے، تو اس کو دور فرما دے۔ ہاں! جس طرح دعا اس نے کی اس کے لئے، تم اپنے لئے دعا کرو، ہاں جی! بجائے اس کے کہ آپ دوسروں کے اوپر بدگمان ہوجائیں۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس دو جوان بچے تھے، تو وہ جو ہے ناں مطلب کسی وقت ان دونوں نے دعا کے لئے کہا اپنے اپنے کام کے لئے، اول تو یہ بات ہے کہ دنیاوی کاموں کے لئے کہنا اپنے شیخ کو بذات۔۔۔۔ یہ ایک موانع میں آسکتا ہے، اس سے انسان کو نقصان ہوسکتا ہے، ہاں جی! لیکن چلو آج کل دور ایسا ہے تو اب بغیر اس کے کوئی ٹھہرتا نہیں ہے، تو لہٰذا لوگ کہہ دیتے ہیں، تو حضرت سے کہہ دیا اپنے دنیاوی کام تھے دونوں کے، حضرت نے دونوں کے لئے دعا فرمائی۔ اب اللہ پاک کی مشیت ایک کے لئے دعا قبول فرمائی، ایک کے لئے نہیں ہوئی، ایک کا کام ہوگیا، دوسرے کا نہیں ہوا۔ جس کا نہیں ہوا وہ آیا اور اس نے کہا حضرت! آپ نے میرے لئے دعا نہیں کی، بیٹا! میں نے تو آپ کے سامنے آپ کے لئے دعا کی تھی، نہیں، حضرت! آپ نے میرے لئے دل سے دعا نہیں کی، دیکھیں ناں ان کے لئے دل سے دعا کی تھی، ان کا کام ہوگیا، میرے لئے دعا نہیں کی، میرا کام نہیں ہوا۔ بھئی! کام تو اللہ کرتا ہے، کام تو میں نہیں کرتا، ہم تو دعا کرتے ہیں، اس کی مرضی ہے جس کی درخواست قبول فرمائے، جس کی درخواست نہ قبول فرمائے، اس کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بہرحال تین چار دفعہ جب اس نے پھر زور دیا کہ حضرت! آپ نے میرے لئے دعا نہیں فرمائی، حضرت نے بات کا جواب دینا بند کردیا، مطلب یہ ہے کہ اب یہ جواب نہیں دے رہا تھا، تھوڑی دیر کے بعد اس لڑکے کو احساس ہوا کہ میں نے کچھ غلطی کرلی، اس نے کہا حضرت! مجھے معاف فرمائیں، میں نے غلطی کی، میں نے آپ کو بار بار تنگ کردیا، حضرت نے اس پر بھی کچھ نہیں کہا، اچھا ٹھیک ہے اس طرح نہیں، خاموش، اس طرح خاموش، پھر اس لڑکے۔۔۔ بار بار کہنے، حضرت اس پر خاموش، اب اس کا ماتھا کھٹکا، او ہو یہ تو کوئی مسئلہ ہوگیا، مطلب فکر ہوگئی، تو انہوں نے رونا شروع کردیا کہ حضرت! مجھے معاف کردیں، مجھ سے غلطی ہوگئی، حضرت اس پر بھی خاموش، جب بہت زیادہ رویا، تو حضرت نے فرمایا، بیٹا! اب کچھ نہیں ہوسکتا، جو ہونا تھا ہوچکا، اب کچھ نہیں ہوسکتا۔
اب دیکھ لیں، کتنا پتا ہی کٹ گیا، کتنا نقصان ہوگیا، کس چیز کی وجہ سے؟ ایک دنیاوی کام کے لئے کہنے کی وجہ سے اور تعجیل کی وجہ سے، جلدی بازی مچانے کی وجہ سے نقصان ہوگیا، اللہ پاک نے ایک channel دیا تھا، وہ channel اپنے اوپر بند کردیا۔ اب بظاہر لگتا ہے کہ حضرت مولانا نے سختی کی، لیکن غور فرمائیں کہ دیکھو! یہ مرید ہے اور اپنے پیر پر بدگمانی کررہا ہے، ابتدا ہی سے کہ آپ نے میرے لئے دعا نہیں کی، ابتدا ہی بدگمانی سے کی ہے، حضرت نے چار پانچ دفعہ اس کو چھوڑا ہے، معاف کیا ہے، اب جب چار پانچ دفعہ جب اس نے بدگمانی بار بار کی، تو اللہ تو بڑا غیرتی ہے، ایک انسان چاہے کتنا ہی نرم مزاج ہو، اللہ پاک اس کا دل سخت کرسکتا ہے، اللہ کے لئے کون سا مشکل ہے؟ اللہ تعالیٰ تو غیرتی ہے، جب اس نے دیکھا کہ میرے ایک بندے کے اوپر بار بار بدگمانی کررہا ہے، تو بس اللہ تعالیٰ تو مقلب القلوب ہے، دل ہی کو بدل دیا مولانا کا، حالانکہ مولانا تو بہت نرم تھے۔ مطلب میرا یہ ہے کہ اس میں اس بات کو یاد رکھنا چاہئے، بزرگوں کے ساتھ تعلق میں اس بات کو اچھی طرح یاد رکھنا کہ بزرگ خود کچھ بھی نہیں، لیکن وہ اللہ کے ساتھ چونکہ ان کا رابطہ ہے اور ہمارا رابطہ ان کے ساتھ اللہ کے لئے ہے، تو اللہ براہ راست watch کررہے ہوتے کہ ان کے ساتھ کیسے dealing کررہا ہے یہ؟ وہ براہ راست watch ہورہا ہوتا ہے، تو اللہ جل شانہٗ کے فیصلے اس پہ آجاتے ہیں اور بعض دفعہ وہ فیصلے بڑے ہی critical ہوتے ہیں، لہٰذا جو ہے ناں مطلب انسان کو اس مسئلہ میں۔۔۔ تعجیل کا میں نے آپ کو بتایا کہ بہت خطرناک چیز ہے، اس میں پہلا وار شیخ پہ ہوتا ہے، آخری جو ہے ناں وہ خطرناک ترین حد تک جا سکتا ہے۔
تصنع:
تصنع یہ چیز ہے کہ انسان کو ایک چیز حاصل نہ ہو، ایک حال، ایک کیفیت اور وہ خود سے pose کرلے، مثلاً ایسے بیٹھے ہوئے دھیان دھیان جیسے پورا جو ہے ناں مستغرق ہے اور ہو ویسے ایسا نہیں، تو یہ تصنع ہے ناں۔ ذکر ایسے کررہا ہے کہ جیسے بس وہ تو بڑا ہی مست ہے، لیکن اندر کچھ بھی نہیں، تو یہ تصنع ہے۔ یہ بھی گویا کہ ریا۔۔۔۔ کم بزرگی کا ایک شعبہ ہے، ریا کے ساتھ بزرگی مطلب اس کا ایک شعبہ ہے۔ ایک انسان اپنے آپ کو بزرگ show کررہا ہے، ہے نہیں، show کررہا ہے۔ ہاں جی! تو تصنع، تصنع۔۔۔۔ اب یہ کام ہے بے تکلفی کا، خلوص نیت کا، آزادی کا، آپ اس کو ایک تکلف کا پابند کررہے ہیں، ایک مصنوعی چیز اس کو بنا رہے ہیں، مطلب تصوف کس چیز کے لئے ہے؟ تصوف تو اس لئے کہ آپ دنیا کی محبت سے کٹ جائیں، تو اگر تصوف ہی کے ذریعہ سے آپ دنیا حاصل کرنا چاہیں، کتنا برا ہے؟ ہاں جی! تو یہ بات ہے، مطلب یہ تصنع، یہ بھی موانع ہے، مطلب اس میں بھی ایسا پھنس سکتا ہے آدمی۔
اور چوتھا ہے مخالفت سنت:
سنت کی مخالفت۔ مخلوق کے اوپر سارے راستے بند ہیں اب، جو مکلف مخلوق ہے، صرف ایک آپ ﷺ کا راستہ کھلا ہے۔ ہاں جی! اب اگر کوئی سنت کی مخالفت کرتا ہے، تو یہ بھی بدپرہیزی ہے، طریق سے دوری ہے۔ ہاں! لہٰذا اس کا بھی نقصان ہوسکتا ہے، مطلب مسنون راستہ کو چھوڑ کر غیر مسنون راستہ کو لینا، یہ خطرناک ہے۔
پانچواں جو ہے ناں وہ مخالفت شیخ، شیخ کی مخالفت۔ اب شیخ کی مخالفت اس لئے بدپرہیزی ہے کہ آپ جیسے ڈاکٹر کی کوئی مخالفت کرے، بیماری۔۔۔۔ بیمار ہے اور علاج کررہا ہے ڈاکٹر سے، تو ڈاکٹر کی مخالفت کرے گا تو کیا فائدہ؟ کیا ہوگا؟ نقصان اپنے ہی کو ہوگا ناں، ڈاکٹر کو تو نقصان نہیں ہوگا۔ تو مخالفت شیخ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری پشتو میں بڑے اچھے اچھے ضرب الامثال ہیں، پتا نہیں اس کے لئے آپ کے پاس equivalent ہیں یا نہیں ہیں۔ ہاں جی! لیکن وہ ایک یہ ہے کہ ’’خپل بد دَ ولو مينځ وي‘‘ کیا کہتے ہیں اس کو؟ ہاں جی! جو اپنا عیب ہوتا ہے ناں، وہ یہ پیچھے دو ہڈیاں نہیں ہیں، اس کے درمیان ہوتے ہیں یعنی وہ نظر نہیں آتے، آپ try بھی کریں، نظر نہیں آتے، اپنی برائی نظر نہیں آتی۔ تو شیخ کے پاس اس لئے تو آدمی جاتا ہے ناں کہ بھئی! چونکہ ایک میرا خیرخواہ ہے third person ہے، ہاں! تو اس کے اوپر میری حقیقت کھلے گی، تو مجھے فائدہ ہوگا۔ اب اگر آپ اس کی مخالفت کرلیں کہ ایک تو وہ third person ہیں، دوسرا خیرخواہ ہے، تیسرا صاحب تجربہ ہے، experience ہے، باعث برکت۔۔۔۔ اب اتنی چیزیں جمع ہوکر آپ اس کی مخالفت کررہے ہیں، تو پھر کدھر جاؤ گے؟ ہاں جی! پھر کدھر جاؤ گے، ظاہر ہے نقصان اپنے ہی کو ہوگا ناں۔ ہاں جی! تو اس میں بعض دفعہ یہ ہوتا ہے، بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ شاید شیخ نے مجھے سمجھا نہیں، اب مجھے کچھ حاصل ہوا ہے، لیکن شیخ کو پتا نہیں چلا، ہاں جی! تو یہ اس طرح ظاہر ہے، اس کے بارے میں پھر تھوڑی تھوڑی بہت اجتہاد انسان شروع کرلیتا ہے کہ چلو یہ تو میں خود کرلیتا ہوں، اتنا تو میں خود کرسکتا ہوں، اتنا تو میں خود کرسکتا ہوں۔ شیطان جو انتہائی درجہ بظاہر ایک غیر مضر قسم کا وسوسہ جو ڈالتا ہے، جس کا بہت بڑا نقصان ہے، وہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ انسان کو یہ بتاتا ہے کہ تم شیخ کو بتاؤ گے، تو شیخ کے کہنے سے کام کرو، خود اپنی مرضی سے کیوں نہیں کرتے ہو، اگر تجھے یہ پتا ہے کہ یہ غلط ہے، تو اس کو کیوں کہنا؟ کتنا غیر مضر ہے، بظاہر غیر مضر ہے، کوئی اس میں ضرر نہیں، کہتا ہے بھئی میں خود ٹھیک کرلوں گا ناں اس کو۔ ہاں جی! اس میں چال کیا ہے شیطان کی؟ اس میں چال شیطان کی یہ ہے کہ اگر یہ شیخ کو بتاتا رہا، تو شیخ اس کے لئے کچھ planning کرلے گا، اس کو ٹھیک کرنے کے لئے کچھ planning کرلے گا، جیسے وہی والی بات دعائیں شروع کیں، ہاں! تو اس سے کاٹنا چاہتا ہے۔ اب یہ بظاہر مخالفت شیخ نہیں ہے، لیکن حقیقت میں یہ بھی مخالفت شیخ ہے۔ ہاں جی! اپنے آپ کو شیخ سے مستغنی سمجھنا، یہ بھی مخالفت شیخ ہی ہے، کیونکہ آپ جیسے ڈاکٹر سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھ لیتے ہیں، تو جس طرح آپ کو بیماری میں نقصان ہوسکتا ہے، اس طرح روحانیات میں آپ شیخ سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھے گیں تو اس کا ادھر اس طرح نقصان ہوگا۔ تو یہ جو چیزیں ہیں، یہ مطلب یہ ہے کہ انسان کو خیال رکھنا چاہئے کہ اب اگر کسی کو یہ چیزیں clear ہوں، یہ conceptual چیزیں ہیں، تو ٹھیک ہے، پھر اپنی اپنی ہمت ہے، اپنی اپنی کوشش ہے، جتنا انسان حاصل کرسکتا ہے، لیکن concept تو صحیح ہوں گے ناں، لیکن اگر concept ہی غلط ہوں، تو پھر تو بڑا نقصان ہوسکتا ہے، ٹھیک ہے ناں؟ تو اس وجہ سے یہ چیزیں حضرت نے بہت مختصر انداز میں یہ بیان فرمائی ہیں۔ ہماری کتاب جو ’’ذبدۃ التصوف‘‘ ہے، یہ اصل میں اسی کی تشریح ہے، اس صفحے کی تشریح ہے۔ ہاں جی!
(15) ’’اَلصُّوْفِيُّ لَامَذْھَبَ لَہٗ‘‘ کا مطلب:
چونکہ صوفیائے کرام اخلاقِ الٰہیہ سے متخلّق ہوتے ہیں، ان میں رحم و کرم زیادہ ہوتا ہے، وہ مسلمانوں کے تمام مختلف فرقوں سے ہمدردی کا معاملہ کرتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا چاہتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر فرقہ ان کو اپنی جماعت میں داخل سمجھتا ہے اور اپنے سے الگ بھی۔ اپنے ساتھ ان کی ہمدردی و بے تعصّبی دیکھتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم سے گویا الگ ہیں۔ اس لئے بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا، ’’اَلصُّوْفِيُّ لَا مَذْھَبَ لَہٗ‘‘ یعنی صوفی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ مگر تصوّف میں ایسا نہیں ہے۔ صوفیائے کرام کامل متّبعِ کتاب و سنّت ہوتے ہیں، مگر ان کی دعوت و تبلیغ کا وہ طریقہ نہیں ہوتا جو دوسروں کا ہوتا ہے۔ اس لئے صوفیاء کا فیض مسلمانوں تک محدود نہیں رہتا، کفّار بھی ان کے معتقد ہوجاتے ہیں، ان سے محبّت کرتے ہیں، جس سے بعض دفعہ ان کو اسلام کی طرف ہدایت ہوجاتی ہے۔ صوفیاء اطبّاءِ روحانی ہیں، پس جس طرح اطبّائے جسمانی کی طرف ہر فرقے اور جماعت کو میلان ہوتا ہے، اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا، اسی طرح صوفیاء سے ہر فرقہ اور ہر جماعت کو میلان ہوتا ہے، اس پر بھی کسی کو اعتراض کا حق نہیں، بشرطیکہ وہ کتاب و سنّت پر پوری طرح عامل ہوں۔ اگر میلان کا منشا مداہنت فی الدین ہو تو ایسا شخص صوفیاء میں شمار نہیں ہوسکتا۔ مدارات اور شئ ہے، مداہنت اور۔ ان دونوں میں فرق نہ کرنا جہلِ عظیم ہے۔
سبحان اللہ! بہت بڑا علم ہے اس ملفوظ میں حضرت کے۔ ایک ملفوظ میں بہت بڑا علم ہے اور یہ conceptual چیز ہے، اس کو بھی سمجھنا چاہئے۔ صوفیاء کرام جو ہوتے ہیں، یہ اللہ جل شانہٗ کے اخلاق کو حاصل کرتے ہیں، تخلق باخلاق اللہ پر مطلب ان کا عمل ہوتا ہے۔ اب اللہ جل شانہٗ بھی سب کو یکساں طریقے سے دیکھتا ہے، ہاں! سب کو یکساں طریقے سے دیکھتا ہے، لہٰذا ان کے اندر بھی وسعت نظر آجاتی ہے، وسعت نظر آجاتی ہے، ان کی انانیت نہیں ہوتی، مطلب اس میں نفسانیت نہیں ہوتی، انانیت نہیں ہوتی، لہٰذا ہر شخص کے لئے خیر ہی کا سوچتے ہیں۔ اب اگر کوئی اس کے مخالف بھی ہے، تو اس کی مخالفت میں بھی وہ سمجھتا ہے کہ اچھا، یہ تو کوئی اچھی وجہ سے میرا مخالف ہوگا، کوئی اچھی بات کی وجہ سے میرا مخالف ہوگا، تو یہاں تک مطلب وہ وسعت دے دیتے ہیں۔ تو اب یہ جو بات ہوتی ہے کہ جب یہ ہر ایک کی رعایت کرنے لگتے ہیں، تو یہ رعایت گو کہ اللہ کے لئے ہوتی ہے، لیکن ہر ایک کو اپنے اپنے لئے نظر آتی ہے۔ تو اس وجہ سے ہر ایک۔۔۔۔ اس پہ یہ دھوکہ ہوجاتا ہے، سمجھتے ہیں کہ شاید یہ میرے ساتھ ہے۔ یہی بات مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے کی تھی، تو میں بہتر کے بہتر فرقوں کے ساتھ ہوں۔ تو اس پر لوگوں نے کہا کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ یہ کسی بھی جو ہے ناں مطلب مذہب پہ یقین نہیں رکھتا۔ حضرت کا جواب یہی تھا، جو حضرت نے ادھر دیا کہ اصل میں ہر فرقے کے ساتھ کوئی نہ کوئی سچ ہوتا ہے، وہ فرقہ exist ہی نہیں کرسکتا، جس کے پاس بالکل سچ نہ ہو، مثلاً دیکھو! وہ شیعوں کے ساتھ اہل بیت کی محبت، یہ بالکل ایک سچی چیز ہے۔ ہاں جی! اچھا، جو خوارج ہیں، ان کے ساتھ قرآن کی بات بالکل سچی ہے، مطلب ظاہر ہے اگر وہ کہتے ہیں، قرآن ہی ہدایت کی کتاب ہے، تو قرآن تو ہدایت کی کتاب ہے، یہ بات ان کی سچی ہے۔ ہاں جی! اس طریقے سے جو ناصبی ہیں، وہ اگر عام صحابہ کی کہتے ہیں، صحابہ کی محبت تو وہ صحابہ کی محبت تو ان کی سچی ہے۔ ہاں! اس طریقے سے وہ جو ہے ناں وہ جو دوسرے حضرات ہیں، کچھ اپنے اپنے رخ کے، وہ جو باتیں بتاتے ہیں، تو اصل میں ہر ایک کے ساتھ کچھ نہ کچھ سچ تو ہوتا ہے۔ اہلحدیث حضرات کے ساتھ بھی حدیث شریف کی بات کرتے ہیں، تو یہ بات تو سچی ہے، ان سے تو کوئی اختلاف نہیں کرسکتا۔ اب یہ والی بات ہے کہ اگر ہر آدمی ان کی اس چیز کو دیکھے کہ بھئی! یہ ان میں ٹھیک ہے، یہ ان میں ٹھیک ہے، اور اس کی قدر کرے، تو وہ سب کی اچھائیوں کو جمع کرلے گا اپنے اندر، کیونکہ جس چیز کو آپ اچھا سمجھتے ہیں، وہ آپ کے اندر آجاتا ہے، ٹھیک ہے ناں، تو وہ سب کی اچھائیوں کو جمع کردے گا۔ دوسری طرف سارے لوگ کہیں گے کہ یہ ہمارے ساتھ ہے۔ ہاں جی! تو حقیقت میں جامع ہے سب کا، لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ہمارے ساتھ ہے، ہر ایک سمجھتا ہے کہ ہمارے ساتھ ہے، تو اس سے پھر بعض لوگوں نے کہا کہ صوفی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، یہ بس آزاد لوگ۔۔۔۔ نہیں آزاد۔۔۔۔ سب سے زیادہ پابند یہی لوگ ہوتے ہیں، یہ آزاد ہوتے ہیں اپنے نفس سے، اللہ سے آزاد نہیں ہوتے۔ ایک ہوتا ہے اللہ سے آزاد ہونا اور ایک ہوتا ہے اپنے نفس سے آزاد ہونا، ان میں انانیت نہیں ہوتی، اپنے نفس سے آزاد ہوتے ہیں، اپنے نفس کی ان کے اوپر کوئی وہ نہیں ہوتا، لہٰذا ہم لوگ جو نفسانی طور پہ لوگوں کی مخالفت کرتے ہیں، اوہ اس نے یہ کہا، اس نے میرے بارے میں یہ کہا۔ یہ جو ہمارے درمیان میں عناد اور کینہ آجاتا ہے، یہ اپنے نفس کے لئے آرہا ہے، اب اگر یہ ختم ہوگیا، تو مجھے، پھر میں ان کی کیوں مخالفت کروں؟ پھر تو اگر میں مخالفت کروں گا تو صرف اللہ کے لئے کروں گا۔ ہاں جی! تو یہی والی بات ہے، ورنہ صوفیاء کرام نے تو ماشاء اللہ! بڑے بڑے جہاد جو کیے ہیں، صوفیاء کرام نے کیے ہیں۔ اس وقت جہاد جو کررہے تھے اس کا مطلب کیا تھا؟ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔۔۔ ایک دفعہ ایسا ہوا تھا، میں کسی جگہ بیان کررہا تھا، ایک صاحب صوفیاء کا بڑا مخالف تھا، بیٹھا ہوا تھا، مجھے کہتا ہے کہ دیکھو! تاتاری جب مسلمانوں کے سروں کو کاٹ رہے تھے، اس وقت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کیا کررہے تھے! اعتراض کردیا، ہاں جی! میرا جب بیان پورا ہوگیا، میں نے کہا تجھے history کے ساتھ کچھ مناسبت بھی ہے آپ کو؟ آپ نے کچھ history پڑھی بھی ہے یا ویسے ہی کسی کے کہنے سننے سے آپ نے بات کردی؟ میں نے کہا چلو مجھے بتاؤ کہ تاتاری کس دور میں آئے تھے اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کس دور میں تھا؟ اب آپ کو یہ بھی پتا نہیں، درمیان میں اتنی بڑی موٹی بات کردی آپ نے، میں نے کہا چلو پھر میں ذرا آپ کو بتاتا ہوں، میں نے کہا آپ کے ہندوستان کو جو فتح کیا ہے، جن صوفیاء نے، مجھے بتاؤ تمہیں کیسے پتا چلا؟ میں نے کہا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء ان کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ کتنے خلفاء مغربی پاکستان میں مختلف جگہوں پہ شہید مدفون ہیں، تو آپ ویسے ہی شہید ہوگئے؟ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں ناں۔ ہاں جی! تو میں تو آپ کو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ خود شاہ رحمۃ اللہ علیہ یہ بھی ظاہر ہے اس علاقے میں آئے تھے، وہ بھی جہاد کرتے ہوئے، جہاد کرتے تھے۔ تو اب یہ جو بات ہے، یہ جو لوگ بغیر کسی چیز کے جانے لوگوں کے پروپیگنڈے میں آکر ان کی مخالفت شروع کرلیتا ہے، صوفیاء کرام ہی نے آکر جہاد کیا ہے، کیونکہ انہوں نے صرف اللہ کے لئے کیا ہے، کسی اور کے لئے نہیں کیا، انہوں نے جب بھی جہاد کیا تو صرف اللہ کے لئے کیا، سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ صوفی نہیں تھے، تو دوسری دفعہ جہاد کو زندہ ہی انہوں نے کیا، شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ صوفی نہیں تھے، ہاں! تو ظاہر ہے مطلب انہوں نے تو اپنی جان بھی کٹوا دی۔ اس طریقے سے آپ اگر دیکھیں، تو یہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، اب دیکھیں کیسے مرنجاں مرنج صوفی، وہ بھی انگریزوں کے خلاف لڑا ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ یہ تینوں انگریزوں کے خلاف جہاد میں شریک ہوئے، پہلا گولہ جو چلا تو چونکہ ان چیزوں کے عادی نہیں تھے، تو حاجی صاحب بیہوش ہوگئے، ہاں جی! پھر اس کے بعد ماشاء اللہ! عادی ہوگئے اس کے ساتھ، پھر جس وقت حافظ ضامن شہید رحمۃ اللہ علیہ شہید ہوگئے اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جو ہے ناں وہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ کسی اور جگہ چلے گئے، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ تین دن تک قلعہ روپوش ہوئے تھے، پھر اس کے بعد باہر آئے، حالانکہ ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری تھا، ہاں جی! تو کسی نے کہا حضرت! وارنٹ گرفتاری واپس تو نہیں لیا گیا، انہوں نے کہا وہ تو میں صرف آپ ﷺ کی سنت پوری کرنے کے لئے تین دن روپوش تھا، غار ثور کی سنت پوری کرنے کے لئے، باقی مجھے وہ گرفتار نہیں کرسکتے۔ تو وہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ مسجد میں ایک دفعہ بیٹھے ہوئے تھے، تو انگریزوں کا آدمی آیا اور انہی سے پوچھا کہ مولانا قاسم (کیونکہ ہوتے عام لباس میں تھے، کوئی ان کو لباس سے نہیں پہچان سکتا کہ یہ مولوی ہے تو انہی سے پوچھا کہ مولانا قاسم) کدھر ہے؟ تو دو قدم پیچھے ہوگئے اور اپنی جگہ کی طرف اشارہ کیا ابھی تو ادھر ہی تھے، وہ سمجھے کہ چلے گئے، ایک دروازے سے وہ گئے، دوسرے دروازے سے حضرت چلے گئے۔ ہاں جی! حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہے کہ حاجی صاحب بھی روپوش تھے، تو ایک نواب صاحب تھے، وہ ان کے مرید تھے، ان کے ہاں چلے گئے، وہ نواب صاحب کے انگریزوں کے ساتھ تعلقات بھی تھے، مطلب وہ لوگ تعلقات رکھتے تھے ناں نوابوں کے ساتھ، تو وہ جو ہے ناں وہ ادھر وہ آگئے، پہنچ گئے، ان کو CID ہوگئی تھی کہ وہ اصطبل میں ہیں، حضرت کو ٹھہرایا ہوا ہے، تاکہ اور لوگ نہ دیکھ سکیں ان کو، تو انہوں نے کہا کہ حضرت! سنا ہے آپ کے پاس بڑے اچھے گھوڑے ہیں اور ہم گھوڑوں کی تلاش میں ہیں اور بڑی زیادہ قیمت آپ کو دے دیں گے، اگر وہ گھوڑے ہمیں پسند آگئے، تو آپ ہمیں اپنے اصطبل کی جو ہے ناں وہ visit کرائیں، مقصود یہ تھا کہ کوئی درمیان میں۔۔۔۔ تو حضرت کی تو جان پہ ہوگئی، وہ نواب صاحب کی سوچ یہ تو میرے شیخ میرے گھر سے گرفتار ہوجائے گا، تو بہت مسئلہ ہوجائے گا، لیکن اب مرتا کیا نہ کرتا، انہوں نے کہا اگر میں کچھ کہتا ہوں تو پھر تو فوراً ہی مسئلہ ہوجانا تھا، بالکل ٹھیک ہے آپ visit کرلیں، حضرت کا مصلیٰ بچھا ہوا تھا، پانی وضو کا پڑا ہوا تھا، حضرت نہیں تھے، اصطبل کا پورا visit کیا، لیکن وہ نہیں، مطلب وہ نہیں تھے، تو انہوں نے پوچھا انگریز نے کہ یہ پانی کیوں پڑا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وضو کا پانی۔ تو انہوں نے کہا اصطبل میں لوگ نماز پڑھتے ہیں؟ انہوں نے کہا بھئی! بات یہ ہے کہ نفل کے لئے بہتر جگہ تنہائی والی ہوتی ہے، آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے اگر کوئی یہاں نماز پڑھے؟ اتنی جگہ تو پاک ہے ناں، ہاں جی! تو انگریز لاجواب ہوگیا۔ ہاں جی! بہرحال اس نے شکریہ ادا کیا کہ آپ کو ہم نے تکلیف دی، لیکن آپ نے ہمارے ساتھ بڑی مہربانی کی ہے، ہمیں افسوس ہے کہ آپ کے گھوڑے ہمیں پسند نہیں آئے، بہرحال پھر کبھی visit کریں گے اور پھر معذرت کرتے ہوئے چلے گئے۔ جیسے وہ چلے گئے، تو دیکھا حاجی صاحب اپنے مصلیٰ پہ بیٹھے ہوئے ہیں، وہ ان کو نظر ہی نہیں آئے، اللہ پاک نے ان کی آنکھوں پہ پردہ ڈال لیا، وہ اس کو نظر ہی نہیں آئے۔ تو ایسی باتیں تو ان حضرات کے ساتھ ہوتی رہتی تھی، کوئی مشکل بات نہیں تھی، لیکن ان پر یہ الزام لگانا کہ۔۔۔۔ وہ باقاعدہ ماشاء اللہ! وہ جہاد وہ جو ہے ناں وہ کرتے رہے ہیں۔ تو یہ میں آپ سے اس لئے عرض کرتا ہوں کہ یہ صوفیاء کرام جو ہوتے ہیں، یہ اپنے نفس سے آزاد ہوتے ہیں، اللہ سے آزاد نہیں ہوتے، اللہ پاک کے تو سب سے زیادہ پابند ہوتے ہیں، لہٰذ زیادہ متبع سنت ہوتے ہیں اور متبع کتاب ہوتے ہیں، لیکن یہ بات ہوتی ہے کہ ان کے اندر نفسانیت نہیں ہوتی، لہٰذا خواہ مخواہ بلاوجہ تعصب نہیں رکھتے، صرف اللہ تعالیٰ کے لئے رکھتے ہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ