تصوف کے مقصودی اور غیر مقصودی امور

(یہ بیان 4 جولائی 2009 کے انفاسِ عیسیٰ کے بیان سے لیا گیا ہے)

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اس بیان میں تصوف کے بنیادی ڈھانچے کو چار حصوں میں تقسیم کر کے پیش کیا گیا ہے: مقاصد، ذرائع، توابع (ضمنی اثرات) اور موانع (رکاوٹیں)۔ مقاصد میں شریعت کے لازمی اعمال (نماز، روزہ) اور اخلاقِ حسنہ (صبر، شکر) کا حصول شامل ہے، جس کا حتمی پھل اللہ کی رضا اور قرب ہے۔ ذرائع میں تربیتی مجاہدے (کم کھانا، کم سونا)، ذکر، شغل اور مراقبہ شامل ہیں، جو مقصود تک پہنچنے میں مددگار ہیں۔ توابع وہ ضمنی کیفیات ہیں جو خود بخود حاصل ہوتی ہیں، جیسے وحدت الوجود، کشف اور وجد، لیکن انہیں مقصود سمجھنا گمراہی ہے۔ آخر میں، موانع وہ رکاوٹیں ہیں جو روحانی ترقی کو روک دیتی ہیں، جیسے حسن پرستی۔ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سالک کو ہمیشہ مقاصد پر نظر رکھنی چاہیے اور ذرائع یا ضمنی کیفیات میں الجھ کر نہیں رہ جانا چاہیے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

تصوف کے بارے میں جو امور زیر بحث ہوتے ہیں۔ تو اس میں سب سے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ اس میں کچھ امور ہیں، جو فی ذاتہٖ مقصود ہیں یعنی ان کو کرنا پڑتا ہے اور وہ ہمارا target ہوتا ہے۔ یعنی یوں سمجھ لیں کہ ہم باقاعدہ اس کی نیت کرتے ہیں اور مقصود جو چیز ہوتی ہے، اس کے اندر تبدیلی بھی نہیں ہوسکتی۔ جیسے اللہ پاک نے مقرر کیا ہے، اسی طریقے سے ان کو کرنا پڑتا ہے، مثلاً نماز کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، روزہ کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، جو مقصودی اعمال ہیں، ان کے اندر کوئی فرق نہیں ہوسکتا قیامت تک۔ لیکن اس کے علاوہ کچھ ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں، جو مقصود تو نہیں، لیکن تصوف کے اندر وہ زیر بحث ہوتی ہیں۔ پھر جو مقصود چیزیں ہیں، ان میں دو قسم ہیں۔ فرمایا تھا کہ کچھ تو اعمال ہیں، جو کرنے پڑتے ہیں، جیسے میں نے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، معاملات وغیرہ کا بتا دیا۔ اور اس طریقے سے اور جیسے مطلب یہ ہے کہ کچھ اچھے اخلاق حاصل کرنا، مثلاً شکر، صبر، اخلاص، تواضع وغیرہ کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اور کچھ ایسی چیزوں کو چھوڑنا پڑتا ہے جو کہ ٹھیک نہیں ہیں، مثلاً ریا، کبر، حسد اور دنیا کی محبت وغیرہ اس کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ تو یہ چیزیں جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ یہ مقصودی اعمال ہیں۔

دوسری طرف مقصود میں ثمرہ بھی آتا ہے، آخر اعمال انسان کسی چیز کے لئے کرتا ہے۔ تو وہ کیا ہیں؟ مطلب انسان اس سے کیا حاصل کرتا ہے؟ ثمرہ۔ ثمرہ کہتے ہیں سود کو، پھل کو۔ تو وہ فرماتے ہیں کہ دو قسم کا ہوتا ہے، ایک وہ جو انسان خود اپنی طرف سے اس کا یعنی کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ حضوری کی کیفیت حاصل ہوجائے اور بندگی اللہ تعالیٰ کی حاصل ہوجائے۔ یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ بندہ کی طرف سے یہ چیز ہوتی ہے۔ اور ایک اللہ پاک کی طرف سے جو یعنی وہ ثمرہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ پاک اس سے راضی ہوجاتے ہیں اور اس کو قرب خاص عطا فرما دیتے ہیں۔ تو یہ ثمرہ ہے یعنی اس کے لئے ہم یہ سارا کچھ کرتے ہیں۔ پھر جو غیر مقصود چیزیں ہیں یعنی جو مقصود تو نہیں، لیکن تصوف میں اس پر بحث کی جاتی ہے، وہ تین قسموں پہ ہیں۔ کچھ تو ذرائع ہیں، کچھ توابع ہیں یعنی جو ان کے ساتھ relevant effects ہیں یعنی جو یعنی متعلق اثرات ہیں، اس کو توابع کہتے ہیں، اور کچھ موانع ہیں یعنی جس سے بچنا ضروری ہوتا ہے۔ پھر جو ذرائع ہیں، اس میں فرماتے ہیں کہ دو قسموں پہ ہیں، ایک تو یہ بات ہے کہ وہ مجاہدہ ہوتا ہے، مجاہدہ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو سیدھا کرنے کے لئے اس کی مخالفت کرتا ہے، اس کو مجاہدہ کہتے ہیں۔ بغیر اس کے نفس ٹھیک نہیں ہوتا، جب تک انسان مجاہدہ نہ کرے، تو انسان کا نفس ٹھیک نہیں ہوتا، سیدھا نہیں ہوتا۔ تو اس میں کچھ مجاہدہ تو اللہ پاک کی طرف سے پہلے سے مقرر۔۔۔۔ اس کو شرعی مجاہدہ کہتے ہیں، اور جیسے روزہ ہے، نماز ہے، یہ شرعی مجاہدہ۔۔۔۔ اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کہ شرعی مجاہدہ تو نہیں ہیں، لیکن شرعی مجاہدہ میں اگر کمی ہو، اس کمی کو دور کرنے کے لئے تربیتی مجاہدہ ہوتا ہے۔ شرعی مجاہدہ میں کمی سے مراد یہ ہے کہ اگر وہ صحیح طور پہ ہم نہیں کر پا رہے، مثلاً نماز ہم صحیح طور پہ نہیں پڑھ رہے، اس میں خشوع نہیں ہے، اس میں اخلاص نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شرعی مجاہدہ میں کمی آگئی، اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے پھر ہم لوگ جو ہیں ناں تربیتی مجاہدہ کرتے ہیں۔ تربیتی مجاہدہ سے مراد یہ ہے ہم نفس کے اوپر کچھ مزید زور ڈالتے ہیں، تاکہ ان چیزوں کے لئے تیار ہوجائے۔ ان مجاہدات میں، جو تربیتی مجاہدے ہیں، ان میں چار قسموں پر ہیں، ایک تو یہ ہے کہ کھانا کم کرلیا جائے، کیونکہ انسان کھانے کا شوقین ہے، تو اس کو اس طریقے سے control کیا جائے، اس کی خوراک کم کردی جائے۔ دوسرا یہ ہے کہ بات چیت کو کم کروا لیا جائے، قلت کلام کہتے ہیں اس کو۔ اور قلت منام یعنی نیند اس کی کم کروا دی جائے۔ اور قلت اختلاط مع الانام یعنی انسان کا لوگوں سے کھلا ملنا جلنا بند کردیا جائے، اس کے اوپر پابندیاں لگا دی جائیں، تو اس سے نفس کی سرزنش ہوجاتی ہے، نفس جو ہے ناں وہ ماننا شروع کرلیتا ہے۔ تو یہ چیزیں تربیت کے طور پہ ہوتی ہیں، مقصودی نہیں ہیں، لیکن تربیتاً ہوتی ہیں۔ اور پھر جو ہے ناں، وہ یہ بات ہے کہ ذرائع میں وہ چیزیں بھی آتی ہیں کہ انسان کے اندر کچھ مخفی قوتیں ہیں، جن کو اجاگر کرنے کے لئے کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ان میں جو ہے ناں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کہ مفید ہیں اور اس کے اندر خطرہ نہیں ہے۔ اور کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ وہ مفید تو ہیں، لیکن اس میں خطرہ بھی ہے۔ تو میں نے آپ کو مثال دی ہے کہ جو مفید ہوتی ہیں، اس میں خطرہ نہ ہو، تو اس کی مثال عام دوائی کی ہے۔ عام دوائی جیسے ہم دیتے ہیں ناں بس اس کے کھانے سے خطرہ نہیں ہے، لیکن مفید بھی ہیں۔ اور کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جو دوائی تو ہوتی ہے، مفید تو ہوتی ہے، لیکن اس کے اندر کچھ خطرات بھی ہوتے، جیسے steroid وغیرہ ہیں، steroid وغیرہ میں ظاہر ہے مطلب خطرات بھی ہوتے ہیں، لیکن بوقت ضرورت کھانا بھی پڑتا ہے۔ تو جو مفید ہیں، لیکن اس کے اندر خطرہ نہیں ہے، وہ تین قسموں پر ہے، ایک اس میں ذکر آتا ہے، یہ جو ہم ذکر کرتے ہیں، جو ذکر بتایا جاتا ہے اصلاحی ذکر، اس میں ذکر آجاتا ہے، شغل آجاتا ہے۔ شغل ایسی چیز ہوتی ہے کہ ذکر سے اگر انسان کی alignment نہیں ہو پارہی، اس کے لئے جسم compatible نہیں ہے، تو پھر اس کو align کرنے کے لئے، compatible بنانے کے لئے شغل کرنا پڑتا ہے، مثلاً شغل ایسی مثال دے دیتا ہوں کہ جیسے آپ کوئی کاغذ کے اوپر ایک تصویر بنا دیں دل کی، خوبصورت نورانی دل بنا دیں، اس کے اوپر اللہ لکھ دیں، پھر آپ کہہ دیں کہ اس کو دیکھتے رہیں، یہ شغل ہے۔ مطلب اس سے جو ہے ناں آہستہ آہستہ آپ کا جو دل ہے، وہ اس کا رخ اللہ پاک کی طرف ہونے لگتا ہے، تو یہ شغل کہلاتا ہے۔ اور اس طریقے سے مراقبہ۔۔۔۔ مراقبہ یہی چیز ہے کہ انسان کی سوچ اللہ کی طرف ہوجائے، یعنی پہلے ذکر کی طرف سوچ ہوتی ہے، پھر ذاکر کی طرف یعنی دل کی طرف سوچ ہوجاتی ہے، پھر مذکور کی طرف سوچ ہوجاتی ہے یعنی اللہ کی طرف، تو یہ مراقبہ کہلاتا ہے۔ ہاں جی! تو یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ جو یہ تین قسمیں ہیں، یہ مفید ہیں اور اس میں خطرہ کوئی نہیں ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جو مفید تو ہیں، لیکن اس میں خطرات بھی ہیں، ان میں سے ایک تصور شیخ ہے: تصور شیخ اصل میں وساوس کو دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے، وسوسے جب کثرت کے ساتھ آنے لگیں، تو اس کی تصور شیخ کے ساتھ بیخ کنی کی جاتی ہے۔ تو یہ پہلے ہمارے بزرگوں کے ہاں چلتا تھا، اب بھی خال خال ہے، اکثر لوگوں نے اس کو روک لیا ہے، کیونکہ اس کے اندر خطرہ یہ ہے کہ جب انسان زیادہ شیخ کا تصور کرنے لگتا ہے، تو شیخ کا تصور اس کے اوپر اتنا چھا جاتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ شیخ میرے ساتھ ہر وقت ہے اور پھر ذرا عقیدے میں بھی بعض دفعہ گڑبڑ ہونے لگتی ہے، وہ حاضر ناظر والی باتیں انسان شروع کرلیتا ہے، اس سے پھر مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، تو اس وجہ سے قصداً نہیں کروایا جاتا، ہاں جی! لیکن اگر خود بخود ہوجائے، اس کو روکا نہیں جاتا۔ ہاں جی! عشق مجازی:

عشق مجازی وہ جائز عشق جس کے اندر گم ہوکر انسان باقی تمام چیزوں سے کٹ جائے، باقی جیسے تمام چیزوں سے کٹ جائے، تو اس کو پھر اللہ پاک کی محبت کی طرف بدل لیا جاتا ہے، راستہ بنا لیا جاتا ہے۔ تو وہ عشق مجازی ہے۔ مثلاً ایک دفعہ ایک شیخ، کسی شیخ کے ساتھ کوئی شخص مرید ہوگیا، تو حضرت نے ان سے پوچھا کہ تمھیں دنیا میں کس چیز کے ساتھ محبت ہے زیادی؟ اس نے کہا کہ مجھے اپنی بھینس کے ساتھ زیادہ محبت ہے، انہوں نے کہا اچھا تو پھر تم بیٹھ جاؤ کمرے میں اور صرف کھانا کھانا ہے اور نماز پڑھنی ہے اور سونا ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا، بس یہ تصور کرنا ہے، بھینس کا تصور کرنا ہے، ہاں جی! تو یہ کرتے رہیں۔ بظاہر یہ ایک عجیب چیز لگتی ہے، لیکن بہرحال بزرگوں کو طریقے آتے ہیں، تو وہ یہ ہے کہ وہ بھینس کا تصور کرنے لگا، تو جب کچھ دنوں کے بعد ان کے پاس وہ آیا، تو انہوں نے کہا کہ اب باہر آجاؤ، انہوں نے کہا کیسے باہر آؤں؟ میرے تو سینگ ہیں، میں کیسے باہر آجاؤں؟ تو حضرت نے فرمایا بس کام ہوگیا، اس کے بعد اس کے اوپر ایسا تصرف کرلیا کہ وہ جو اس کا۔۔۔۔ وہ بھینس کا تصور ہے، اللہ کی طرف بدل دیا، تو بس بھینس ختم ہوگئی، اللہ کا تصور ہوگیا، تو کام ہوگیا۔ یہ بالکل اس کی مثال ایسی ہے، جیسے مختلف جگہوں پہ گند پڑا ہوا ہے، اب سارا گند تو اکٹھا نہیں اٹھا سکتے ناں، تو آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ سارے گند کو ایک جگہ جمع کرلیتے ہیں، پھر اس کو پلیٹ میں ڈال کے لے جاتے۔۔۔۔ تو یہ جو ہے ناں مطلب سارا گند کو آپ نے ایک جگہ تصور کرلیا، پھر اس کو اٹھا دیا، ٹھیک ہے؟ اور راستہ clear ہوگیا۔ تو یہ عشق مجازی ہوتا ہے۔

سماع:

سماع جو ہے یہ ایسی چیز ہے، خوبصورت آواز، اچھی آواز کے اندر کچھ ایسی چیز کو دل میں پہنچانا، جو مقصود چیز ہے، جو اچھی چیز ہے، مثلاً اللہ کی محبت، اللہ کی محبت کو پہنچانا سماع کہلاتا ہے۔ اس میں یہ بات ہے کہ چونکہ انسان کا دل اچھی آواز، اچھی صورت سے اثر لیتا ہے، اثر چاہے مثبت لے، چاہے منفی لے، لیکن اثر تو لیتا ہے۔ اب اگر اچھی آواز کے اوپر آپ کوئی اچھی چیز بیٹھا دیں، ہاں جی! تو وہ اگر دل میں جائے گی، تو ساتھ وہ چیز بھی دل میں جائے گی۔ ہاں جی! تو اچھی آواز پر اگر آپ اچھا کلام ڈال لیں، ہاں! وہ جب دل میں وہ اچھا کلام اثر کرے گا، تو ساتھ ساتھ وہ یعنی وہ concept بھی چلا جائے گا۔ ہاں جی! تو یہ سماع ہے، ہمارے بزرگوں کا طریقہ ہے، لیکن اس کے اندر بھی وہی والی بات ہے کہ انسان اگر اس میں بہت زیادہ involve ہوجائے، تو اس میں مسئلہ یہ ہے کہ باقی چیزوں سے انسان کو کاٹ۔۔۔۔ تو اس کے اندر بھی کچھ مسائل ہوتے ہیں، لہٰذا اس کو بھی بغیر خطرات والی چیز نہیں کہا جاسکتا۔ خطرے والے چیز تو ہے، مثلاً ایک آدمی کو اتنا شوق ہوجائے سماع کا کہ نماز ہورہی ہو اور یہ سماع سنتا رہے، تو پھر تو ظاہر ہے کام تو غلط ہوگیا ناں۔ مطلب دیکھیں! تفریح ایسی چیز ہے، بعض دفعہ تفریح بھی کرنی پڑتی ہے، لیکن تفریح کو اگر کام بنا دیا جائے، تو وہ تو پھر تفریح نہیں رہی ناں، ہاں جی! وہ تو نقصان ہوگیا۔ جیسے آج کل کرکٹ کو لوگوں نے کام بنایا ہوا ہے، تو وہ تفریح تو نہیں ہوئی ناں، وہ تو صرف ایک کام ہے۔ ٹھیک ہے؟ تو ہر چیز کی اپنی ایک limit ہوتی ہے۔ تو یہ میں عرض کررہا تھا کہ غیر مقصود میں سب سے پہلے میں نے آپ کو کیا بتایا آپ کو؟ ذرائع بتائے، ذرائع کے بارے میں۔ ذرائع کی دو قسمیں بتا دیں، ہاں جی! اور ان کی تھوڑی بہت تفصیل۔

اب آجاتی ہے باری توابع کی، توابع:

توابع اصل میں ایسی چیز ہے کہ یہ مقصود بھی نہیں ہے اور آپ اس کا ارادہ بھی نہیں کرتے، یہ خود بخود ہوتی ہے۔ ہماری پشتو میں اس کے بارے میں جو اچھا لفظ ہے، ہاں جی! وہ یہ ہے ’’ما مه شمیره ددګډ یم‘‘ کہتے مجھے گنو مت، میں تمھارے ساتھ ہوں، یعنی تم مجھے کچھ نہ سمجھو، پھر بھی میں تیرے ساتھ ہوں، تو یہ توابع ایسی چیز ہوتی ہے، مطلب یہ اس کے ساتھ خود بخود آتی ہیں۔ ہاں جی! تو یہ چیزیں جو ہیں ناں مطلب یہ ہے کہ اس سے آپ چھوٹ نہیں سکتے، یہ ہیں، بس ٹھیک ہے۔ تو اس کو اگر اتنا ہی سمجھیں کہ بس یہ by default ہے، خود بخود آتی ہیں، تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر آپ لوگ اس کو مقصود سمجھنے لگیں، پھر تو کام ہی خراب ہوگیا۔ ہاں جی! اب میں آپ کو بتاتا ہوں، اس میں بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں، جس کا ضرر نہیں ہوتا، ہیں، لیکن ضرر نہیں ہوتا، side effect ہیں، لیکن بغیر مضر ہیں اور کچھ side effects ایسے ہیں، جو مضر ہیں یعنی ان کو ضرر بھی ہوسکتا ہے، اس سے نقصان بھی ہوسکتا ہے، تو جو جن کا ضرر نہیں ہے، ان میں سے ہے وحدت الوجود ہے۔ وحدت الوجود کیا ہے؟ جب آپ اللہ پاک کا ذکر کریں، کریں، کریں اللہ پاک کی یاد آپ کے دل پر ایسی چھا جائے گی کہ آپ سمجھیں گے کہ کچھ بھی نہیں سوائے اللہ کے۔ ہاں جی! تو اس کو وحدت الوجود کہتے ہیں۔ یہ سورج جب چمک رہا ہو، تو ستارے نظر نہیں آتے، تو اس کی مثال بالکل وحدت الوجود کی ہے۔ تو یہ جو ہے ناں مطلب ہم لوگ اس کی نیت نہیں کرتے، لیکن آجاتی ہے۔ ہاں جی! اور فنا اور بقا، فنا اور بقا مطلب انسان فانی ہوجائے اپنے آپ سے یعنی خود اس کو اپنا کچھ بھی نظر نہ آئے، اور اللہ کے ساتھ باقی ہوجائے، ہاں! یعنی مطلب یہ ہے کہ اس کو بس صرف اللہ پاک۔۔۔۔ یہ بھی وحدت الوجود کی ایک قسم ہے۔

اجابت دعا:

دعا کی قبولیت، لیکن تصوف اگر کوئی اس لئے کرلے کہ میری دعائیں قبول ہوں، تو وہ تو مقصود تو نہیں ہے ناں، تصوف تو اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہے ناں جو ہمیں کام دیا ہے، وہ کام ہم کریں۔ ٹھیک ہے ناں! تو اجابت دعا۔

فراست و صادق:

فراست صادقہ، مطلب یہ ہے کہ انسان ہوشیار ہوجائے دینی طور پر، مطلب اچھی اچھی باتیں، حکمت کی باتیں کرنے لگے، ہاں! لوگوں کے مسائل اس کے ساتھ حل ہوں، تو یہ فراست صادقہ ہے، لیکن یہ بھی مقصود نہیں ہے۔ ہاں جی! اگر کوئی کسی کو یہ حاصل نہیں ہوتی، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو مقصود حاصل نہیں ہوا، اگر اللہ اس سے راضی ہے بغیر اس کے، تو آپ کو کیا چاہئے؟ ہاں جی! فراست صادقہ۔

رؤیاء صالحہ:

اچھی اچھی خوابیں۔ اس میں تو ایک دنیا پریشان ہے بیچاری، مطلب سمجھتے ہیں کہ بس اگر اچھی اچھی خوابیں ہمیں آرہی ہیں، تو بس پھر ٹھیک ہے، پھر تو ہم صوفی ہیں، اگر وہ نہیں آرہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ہماری لائن بدل گئی ہے، جو مطلب یہ ہے کہ ہم صوفی نہیں ہیں۔ رؤیاء صالحہ ہاں۔

وجد:

وجد یہ بات ہوتی ہے کہ آپ نے کوئی شعر سن لیا اور مزے میں آگئے، کیف میں آگئے، مستی میں آگئے، ہاں! تو یہ وجد یہ بھی مقصودی نہیں ہے۔

کچھ لوگ باقاعدہ اس کو حاصل کرنے کے لئے، باقاعدہ posture بناتے ہیں، ہاں! تو وہ تو گمراہی ہے۔ کچھ لوگ جیسے رقص میں کرلیتے ہیں، رومی رقص اور پتا نہیں کیا کیا رقص، ہاں! تو یہ کیا ہے؟ یہ سارے کا سارا مطلب یوں سمجھ لیجئے کہ وہ یہ چیزیں کرنا چاہتے تھے، تصوف کو اصل میں ایک وہ ذریعہ بنا رہے ہیں کہ چلو جی! مستی تو کرنی ہے، تو مطلب وہ گناہگار بھی نہیں ہوں گے اور یہ چیزیں حاصل ہوجائیں گی، تو اس کو مقصود بنا لیتے ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ وجد اور چیز ہے صحیح اور یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے تواجد جس کو کہتے ہیں، خواہ مخواہ اپنے اوپر چیز کو طاری کرنا، وہ اور چیز ہے۔

اس طرح تصرف:

تصرف یہ مطلب جو توجہ کرتے ہیں ہم کسی کے اوپر، یہ جو توجہ ہے، یہ بھی مقصود نہیں ہے اور اس میں ضرر بھی ہوسکتا ہے، ضرر جسمانی بھی ہوسکتا ہے، روحانی بھی ہوسکتا ہے۔ ہاں جی! جسمانی ضرر تو یہ ہے کہ انسان جب توجہ کرتا ہے، تو اگر اس میں غلطی کرے تو اس کا اپنا میٹر بھی گھوم سکتا ہے، دماغ پہ اثر پڑ سکتا ہے، دل پہ اثر پڑ سکتا ہے، ہاں جی! تو جو بھی کرے، تو اس کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے کرے، مطلب کوئی آسان بات نہیں ہے یہ، اس میں نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ یہ تو جسمانی ضرر ہے۔ روحانی ضرر یہ ہے کہ اگر انسان سمجھے کہ او ہو میں نے فلاں کے اوپر توجہ کی، اس کے ساتھ ایسا ہوگیا، تو اس کی اپنے اوپر جو نظر پڑنے لگی، تو اللہ سے نظر ہٹ گئی، تو یہ جو ہے ناں مطلب اس کو نقصان ہوگیا، یہ روحانی نقصان ہے۔ تو اس طرح مطلب روحانی نقصان بھی ہوسکتا ہے۔

کشف کونی:

مختلف چیزیں نظر آجانا یہ کشف کونی ہے۔ ہاں! یہ بھی، اس میں بھی ضرر ہوسکتا ہے۔ اور اس میں ضرر اس طرح ہوسکتا ہے کہ جیسے ایک انسان ہے، جارہا ہو لاہور اور گاڑی میں بیٹھ جائے اور اس کی ساری کھڑکیاں بند ہوں، آرام سے وہ لاہور پہنچ جائے، تو اس کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی کو کشف نہ ہوتا ہو اور منزل مقصود پہ پہنچ جائے اور دوسرا یہ ہے کہ جس کی ساری کھڑکیاں کھلی ہوں، کبھی اس کھڑکی میں نظارہ کررہا ہے، گجرات کو دیکھ رہا ہے، گوجر خان کو دیکھ رہا ہے، جہلم کی پہاڑیوں کو دیکھ رہا ہے، خوبصورت خوبصورت scene کو دیکھ رہا ہے، تو اس میں کیا ہے؟ اس میں عین ممکن ہے کسی جگہ train کھڑی ہوجائے اور یہ کہتا ہے کہ یہ تو بڑا اچھا منظر ہے، نیچے اتر جائے اور train چلی جائے، تو بس کرلے گا۔ تو اس طرح کشفوں میں انسان بعض دفعہ پیچھے رہ جاتا ہے، وہ کشفوں کی طرف اتنا دھیان ہوتا ہے کہ وہ اصل چیز کی طرف دھیان سے رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا وہ جو ہے ناں وہ منزل مقصود سے پیچھے رہ جاتا ہے اور یہ کشف کونی جو ہے، یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے، اگر کسی کو ہونا شروع ہوجائے۔

کشف الہٰی سے مراد یہ ہے کہ انسان کو مطلب چھپی باتیں جو حقیقی مطلب وہ چیزیں جو اس کو معلوم ہونے لگیں، ہاں! اسرار اور یہ تمام چیزیں۔۔۔۔ ہاں! تو یہ کشف الہٰی کہلاتے ہیں۔

وحدت مع السکر:

ایک ہوتا ہے وحدت الوجود بدون السکر، مطلب بغیر سکر کے یعنی مدہوشی کے بغیر۔ اور وحدت مع السکر سے مراد یہ ہے کہ انسان اتنا مدہوش ہوجائے کہ اس سے ایسے الفاظ زبان سے نکلنے لگیں، جیسے ’’اَنَا الْحَقْ‘‘ اور اس طرح۔۔۔۔ ہاں! تو یہ وحدت مع السکر تو اس میں بھی ضرر تو ہے۔ جسمانی ضرر بھی ہے کہ لوگ اس کو مار دیں، ہاں جی! تو یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ توابع ہیں۔

اس کے بعد آتا ہے موانع:

موانع جو ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں، جو جس کو کہتے ہیں، ہم لوگ کہہ سکتے ہیں کہ جو کہ medication کو ختم کرتا ہے، مطلب ایک آدمی دوائی کھا رہا ہے، اس میں بدپرہیزی ایسے کرلے، جس سے اس کی ساری medication ختم ہوجائے، خراب ہوجائے، نقصان ہوجائے اس کو، تو یہ وہ ہے بدپرہیزی، علاج کے ساتھ بدپرہیزی۔ ان میں پہلے نمبر پہ آتا ہے حسن پرست۔

اصل میں تصوف میں جذبات ذرا نازک ہوجاتے ہیں ناں، مطلب چیزوں سے اثر لینا زیادہ شروع ہوجاتا ہے، تو اب اگر خدانخواستہ اس کا اس طرف رخ چلا گیا، تو بس گیا، خراب ہوگیا۔ ہاں جی! تو یہ حسن پرستی جو ہے، مطلب اگر کسی میں شروع ہوجائے۔۔۔۔۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

تصوف کے مقصودی اور غیر مقصودی امور - انفاسِ عیسیٰ - دوسرا دور