اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
فرماتے ہیں:
متن:
مشائخ کا نا اہل کو مجاز بنانے کا راز:
تعلیم: مشائخ بعض دفعہ کسی نا اہل میں شرم و حیا کا مادہ دیکھ کر اس امید پر اسے مجاز کردیتے ہیں کہ جب وہ دوسروں کی تربیت کرے گا تو اس کی لاج اور شرم سے اپنی بھی اصلاح کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک دن کامل ہو جائے گا۔
تشریح:
یہ طریقہ ہے بزرگوں کا، ذمہ دار بناتے ہیں، یہ طریقہ اسی طریقے سے چلتا ہے۔ تو اس مسئلہ میں دونوں حل موجود ہیں۔ ایک تو یہ بات ہے کہ جس کو خلافت دی جائے تو شیطان اس کے دل میں یہ وسوسہ نہ ڈالے کہ تو کامل ہوگیا ہے۔ بہت سارے لوگوں کو یہ خبط ہوسکتا ہے کہ وہ سمجھیں کہ بھائی ہم تو کامل ہوگئے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ ضروری نہیں کہ کامل سمجھ کے سب لوگوں کو دے دیا گیا ہو، بلکہ عین اس وجہ سے ہوسکتا ہے کہ واقعتاً جب انسان کسی اور کو بتاتا ہے اور اس کو اس بتانے سے جب وہ عمل کرتا ہے فائدہ ہوتا ہے تو اپنی نظروں میں خجل ہوتا ہے کہ دیکھو میرے بتانے سے اس کو اتنا فائدہ ہوا، اگر میں خود اس کو حاصل کروں تو مجھے کتنا فائدہ ہوگا، اس کو شرم آجاتی ہے اور وہ بھی اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو اس طریقہ سے چلتے چلتے وہ کامل بن سکتا ہے۔ بعض لوگوں کو واقعتاً اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مولانا غلام اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ پیری مریدی ایسی عجیب چیز ہے کہ اس میں پیر، مرید کی اصلاح کرتا ہے اور مرید، پیر کی اصلاح کرتے ہیں۔ پیر مرید کی اصلاح اس لئے کرتے ہیں کہ تلقین کرتے ہیں ان کو، اور ان کو فائدہ ہوتا ہے من جانب اللہ، اللہ پاک ان کی مدد فرماتے ہیں، لیکن مرید جب عمل کرتا ہے، اس سے جو نتائج اور ثمرات مرتب ہوتے ہیں پیر اس کو دیکھتا ہے تو اس سے اس کو فائدہ ہوتا ہے اور ما شاء اللہ وہ بھی ترقی کرتا رہتا ہے۔ تو اس طریقہ سے بعض حضرات کو اللہ تعالیٰ اس طریقہ سے نوازتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
متن:
سالکین کی لغزش پر جلد تنبیہ ہوتی ہے:
ارشاد: سالکین کو حق تعالیٰ ان کی لغزش پر جلدی سزا دے کر متنبہ فرما دیتے ہیں تاکہ غلطی کی اصلاح کرے۔ اور دوسروں کے واسطے یہ قاعدہ ہے ﴿وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ﴾ (الأعراف: 183، القلم: 45) یعنی حق تعالیٰ ڈھیل دیتے رہتے ہیں تاکہ دفعتاً پکڑ لیں، چنانچہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید نے ایک حسین نصرانی لڑکے کو دیکھ کر سوال کیا تھا کہ کیا خدا تعالیٰ ایسی ایسی صورتوں کو بھی جہنم میں ڈالیں گے؟ چنانچہ اس بد نظری کی سزا میں قرآن بھول گئے تھے۔
تشریح:
یہ حضرت نے فرمایا کہ جن لوگوں پہ اللہ کے کرم کی نظر ہوتی ہے ان کو اس دنیا میں ہی پکڑتے ہیں اور اس لئے پکڑتے ہیں کہ ان کو فائدہ ہو۔ یعنی اس کو گویا کہ تکوینی طور پہ بتایا جاتا ہے کہ تیرا یہ کام ٹھیک نہیں ہے، یہ مجھے پسند نہیں آیا۔ نتیجتاً اس کی اصلاح ہو جاتی ہے اور وہ توبہ کرلیتا ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ! میں آپ حضرات سے بارہا کہہ چکا ہوں کہ ہمارا جو سلسلہ ہے اَلْحَمْدُ للہ زندہ سلسلہ ہے، اللہ کا شکر ہے، بارہا تجربے ہوئے کہ ایک زندہ سلسلہ ہے۔ تو زندہ سلسلہ ہونے کی وجہ سے اگر کوئی شخص گڑبڑ کرتا ہے تو بعض دفعہ اس کو stretcher پر بھی لایا جاتا ہے، واپس stretcher پر بھی لایا جاتا ہے، جو گڑبڑ کرتا ہے تو اس کو ایسے حالات میں ڈال لیتا ہے کہ وہ مجبوراً پھر آتا ہے۔ یہ خاص کرم ہے، اللہ پاک کا کرم ہے کہ جس کو قبول فرما دے، پھر اس کو چھوڑتے نہیں، پھر اس کا باقاعدہ خیال رکھتے ہیں کہ یہ کہیں ادھر ادھر تو نہیں ہورہا، کہیں کوئی مسئلہ تو نہیں کررہا ہے، یہ اللہ پاک کا کرم ہے۔ اس دنیا کے اندر اگر کسی کے اوپر کوئی نگران بن جائے، اس سے بڑی بات اور کیا ہے اگر یہاں صحیح نگرانی ہو جائے۔ کیونکہ بعد میں قیامت میں اگر پتا چل جائے تو یہاں تک کہ جنتی بھی افسوس کریں گے کہ ہم جو ذکر کر سکتے تھے اور ہم نے وہ ذکر نہیں کیا، کاش! ہم اس وقت میں ذکر کرلیتے، تو پھر افسوس ہی ہوتا ہے۔ تو یہاں پر اگر کسی کو اللہ پاک توفیق دے دے اور یہاں سمجھ آجائے اور ان کو بتا دیا جائے کہ تو کیا کررہا ہے، تو غفلت میں ہے، تو اس سے فائدہ بہت ہوتا ہے۔ تو حضرت نے بھی یہ فرما دیا کہ جن کو اللہ پاک نوازنا چاہتے ہیں ان کو چھوڑتے نہیں، جب بھی کبھی ان سے غلطی ہوگی اس قسم کی تو ان کو فوراً پکڑتے ہیں۔
ہمارے سامنے یہ واقعہ ہوچکا ہے، ہمارے ساتھی تھے بہت کھلی ڈلی زندگی گزار رہے تھے، ایک دن ہم پروف ریڈنگ کررہے تھے حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مضمون کی، وہ مضمون حضرت نے کچھ ایسے انداز سے لکھا تھا اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پہ لکھا تھا اور حضرت کا دل جلا ہوا تھا، اس دل جلے میں اور قلم بھی حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمولی قلم تو نہیں تھا۔ وہ اس انداز میں لکھا تھا کہ بس وہ جذب ہی جذب تھا۔ تو وہ مضمون ہم پروف ریڈنگ کررہے تھے اور دونوں ہواؤں میں اچھل رہے تھے، یعنی ایسے الفاظ تھے۔ تو جس وقت یہ مضمون ختم ہوگیا تو اس میرے ساتھی نے ہاتھ اٹھائے اور کہہ دیا اے اللہ مجھے ہدایت دے دے اور اسی وقت میرے دل نے کہہ دیا کہ اس کو ہدایت مل گئی ہے، اس کو قبول کرلیا گیا۔ اب وقت گزر رہا ہے نتیجہ سامنے نہیں آرہا، مطلب وہی زندگی گزار رہا ہے، یہ کیا بات ہے، قبولیت کی علامات تو ہیں لیکن ابھی نتیجہ سامنے نہیں آرہا کہ کیا بات ہے۔ تو بعض دفعہ اللہ پاک زبان سے نکال لیتے ہیں، تو میں نے اس کے کسی دوست سے کہا، میں نے کہا یار! اس کو بتاؤ کہ یہ خود آجائے کیونکہ اس کی قبولیت ہوگئی ہے اور اگر یہ خود نہیں آئے گا تو پھر اس کو stretcher پہ لایا جائے گا، تو یہ والا طریقہ مشکل ہے، اس طریقہ سے نہ آئے تو اچھا ہے، خود اپنی مرضی سے آجائے تو آسانی سے آجائے گا، اس کی ہوگئی قبولیت۔ یہ بات میں نے کی، اس دوست نے اس کو پہنچائی نہیں پہنچائی واللہ اعلم میں نے ابھی تک تحقیق نہیں کی۔ تقریباً ایک مہینے کے بعد اس کا accident ہوگیا اور چھ مہینے کے لئے چارپائی پہ وہ پہنچ گیا۔ اس چھ مہینے میں اس نے داڑھی بھی رکھ لی، اس نے تسبیح بھی شروع کرلی، درود شریف بھی پڑھنا شروع کرلیا، نمازیں اس کی شروع ہوگئیں، ساری چیزیں اَلْحَمْدُ للہ چل پڑیں۔ اس کے بعد وہ smoking کرتا تھا، یہ ایک چیز رہ گئی تھی تو میں نے کہا اب میں اس بات کے انتظار میں ہوں کہ یہ smoking کب چھوڑتا ہے۔ ایک دن اس نے smoking بھی چھوڑ دی، میں نے ایک دن بھی اس کو نہیں کہا تھا کہ تم کپڑے تبدیل کرلو، ایسے کپڑے نہ پہنو، یا ایسا کام نہ کرو، ایک دن بھی نہیں کہا تھا۔ جب اس نے smoking چھوڑ دی تو پھر ان سے میں نے پوچھا، میں نے کہا smoking کیوں چھوڑی ہے؟ مجھے کہتے ہیں کہ میں درود شریف پڑھتا تھا تو دل میں آیا کہ گندے منہ سے میں درود شریف پڑھتا ہوں جس سے میں smoking کرتا ہوں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ اب درود شریف کی برکت دیکھ لیں، smoking اللہ تعالیٰ نے چھڑوا دی۔ اب ما شاء اللہ وہ بزرگ ہے، اللہ والا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر بڑا فضل کیا۔ تو یہ چیز ہے، یہ چیز ہے کہ جس کو اللہ قبول فرما دیں تو اس کو پھر وہ رکھتے ہیں، اس کا ہاتھ fracture ہوگیا تھا وہ ما شاء اللہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوگیا، لیکن بہرحال اس وقت دھچکا تو بہت لگ گیا تھا۔ تو اللہ جل شانہٗ جس پہ بھی فضل فرمانا چاہیں تو ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔
متن:
بعض دفعہ غیر کامل کو مجاز کرنے کا سبب:
ارشاد: بعض دفعہ غیر کامل مشائخ اجازت دے دیتے ہیں کہ شاید کسی طالب مخلص کی برکت سے اس کی بھی اصلاح ہو جائے، کیونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی پیر نا اہل ہے اور اس کا مرید کوئی مخلص ہے تو طالب صادق کو تو حق تعالیٰ اس کے صدق و خلوص کی برکت سے نواز ہی لیتے ہیں جب وہ کامل ہو جاتا ہے تو پھر حق تعالیٰ پیر کو بھی کامل کردیتے ہیں، کیونکہ یہ اس کی تکمیل کا ذریعہ بنا تھا۔
تشریح:
یعنی یہ بات بعض دفعہ ایسی ہو جاتی ہے کہ کوئی پیر نا اہل ہو لیکن نیت تو اس کی ہے، اب کام تو کررہا ہے، جس کو کہتے ہیں گرتے پڑتے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے، اب اللہ پاک فضل فرماتے ہیں۔ خود میں بارہا کہتا ہوں کہ شیخ نہیں کرتا، اللہ ہی کرتے ہیں۔ کوئی اللہ کا مخلص طالب آگیا اور اس کی طلب کی برکت سے اُس کا کام بن گیا، جب بن گیا تو ظاہر ہے جس طرح اللہ پاک کی سنت عادیہ ہے کہ جس کے ذریعہ اس کو کامل کردیا، اس کو کیوں خالی چھوڑے گا۔ تو اس کو بھی ساتھ کامل کردیتا ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک ڈاکو پیر تھے، تو ان کے کوئی مرید تھے عبدالرحمٰن، وہ مخلص تھے تو بن گئے۔ بن گئے تو اب ان کو بڑے ہی مقامات منکشف ہوتے تھے سب لوگوں گے۔ ایک دن سوچا کہ مرید اپنے پیر کا مقام دیکھے، اس کے تو بہت اونچے مقامات ہوں گے، اب بار بار غور کررہے ہیں کہیں پر نظر نہیں آرہا، سوچا بہت ہی زیادہ ہے اس وجہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا، چلو میں اپنے پیر سے ہی پوچھتا ہوں کہ آپ کا مقام کیا ہے؟ تو پیر کے پاس پہنچ گئے، ڈرتے ڈرتے پوچھا: حضرت مجھے سمجھ نہیں آرہی آپ کا مقام کیا ہے؟ میں نے بہت غور کیا، کہاں پر ہیں آپ؟ تو اس کو سنتے ہی وہ پیر رو پڑا، ان کے قدموں میں گر گیا اور کہا میں تو ایسا ہوں، میں نے تو اس وجہ سے یہ کام شروع کیا تھا، اب چونکہ آپ آگئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نواز دیا ہے اور میرے لئے بھی دعا کرلو کہ اللہ پاک میرے اوپر پر بھی رحم کردے۔ اب اس مخلص مرید نے دعا کرلی اللہ پاک نے اس کو بھی مقام دے دیا، تو یہ اس کی طرف سے تو نہیں ہے۔ وہ جو توبہ اس نے کرلی وہ توبہ ہی اس کا بہت کچھ ہے، جو اس نے توبہ کرلی بعد میں، وہ ذریعہ تو بن گیا۔ اس وجہ سے بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے۔
متن:
تربیت میں کیا مقصود ہے اور معرفت مقصودہ کیا ہے؟
ارشاد: مقصود تربیت میں محض حالات کی اطلاع اور معالجہ کا استفسار ہے۔ معلّم جس طریق سے چاہے معالجہ کرے، اور معرفتِ مقصودہ وہی ہے جس کا شارع نے حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ کمال کا عقیدہ رکھو اور ان کی تصرفات کا استحضار رکھو۔ یہ تصرّفات تمام عالم میں ہیں جن میں انسان کے اندر تصرفات زیادہ عجیب ہیں۔
تشریح:
فرمایا کہ تربیت کا جو طریقہ ہے وہ یہ ہے کہ جو مرید ہے وہ اپنے شیخ کو اپنے حالات سے آگاہ کرتا رہے، پھر اللہ جل شانہٗ اس کے شیخ کے دل پر جو جیسے القاء فرما دے اس کی تربیت کا نظام، اس کے مطابق اس کی وہ تلقین کرے، تو اللہ جل شانہٗ پھر اس کا علاج فرما دیتے ہیں۔ آگے جاکے فرمایا کہ معرفتِ مقصودہ یہی ہے کہ اللہ جل شانہ نے جو شریعت آپ ﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچائی ہے اس کے ذریعہ ہم لوگ اللہ جل شانہ کی معرفت حاصل کرلیں کہ اللہ پاک کی صفات کا ہم کمال کا عقیدہ رکھیں کہ اللہ پاک کی صفات کامل ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ تصوف کے اندر جو ہم سلوک طے کرتے ہیں یہ اصل میں صفاتِ الہٰی کا مشاہدہ ہی ہوتا ہے۔ یعنی ہم صفاتِ الہٰی کا مشاہدہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جیسے ہم کہتے ہیں: ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“۔ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ سے ہم شروع کرتے ہیں، ”اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“۔ تو ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ میں جو مبتدی ہوتا ہے وہ کہتا ہے: ”لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللہ“۔ اور پھر اس کے بعد جو متوسط ہوتا ہے وہ کہتا ہے: ”لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللہ“ میرا کوئی اور مقصود ہے ہی نہیں اللہ کے علاوہ۔ اور اس کے بعد جن کو اللہ پاک آگے نواز دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں (سب کے سامنے تو نہیں کہتے لیکن کہتے ہیں) ”لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللہ“ ان کو اللہ کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا، ہر چیز کے اندر اللہ۔ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔ ان کی پھر یہ حالت ہوتی ہے۔ اب دیکھیں اللہ پاک کی صفات کا مشاہدہ ہے۔ یعنی جو ابتدا میں شروع کرتے ہیں ”لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللہ“ سے، پھر اس کے بعد ”لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللہ“ ہے، پھر اس کے بعد ”لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللہ“ ہے۔ تو جس کے دل میں اللہ ہی اللہ ہو اس کی کبھی غیر پہ نظر ہوگی؟ اور جس کی غیر پہ نظر ہے اس کے دل میں اللہ ہے؟ دونوں باتیں آپ دیکھ لیں۔ جس کو غیر پہ نظر ہے اس کو اللہ پہ نظر نہیں اور جس کو اللہ پہ نظر ہے اس کو غیر پہ نظر نہیں۔ جس دل میں اللہ آجائے اس دل میں پھر مخلوق کا گزر نہیں ہوتا، مخلوق کو محض آلہ سمجھتے ہیں، یہ آلے ہیں، اللہ پاک ان کو چلا رہے ہیں۔ کسی سے کیا کام لے رہے ہیں، کسی سے کیا کام لے رہے ہیں، کسی سے کیا کام لے رہے ہیں؛ لیکن چلانے والے ہاتھ اس کو نظر آتے ہیں۔ ان کو دونوں ہاتھ نظر آتے ہیں، جو اللہ کا حقیقی ہاتھ ہے وہ بھی نظر آتا ہے اور اس کو انسان جو کاسب ہے اس کا بھی ہاتھ نظر آتا ہے۔ اس کے ہاتھ کی وجہ سے وہ شریعت کے اوپر چلتا ہے اور اس دوسرے ہاتھ کے وجہ سے معرفتِ الہٰی حاصل کرتا ہے۔ تو معرفت وہ ہے۔ یعنی شریعت پر چلنا ہے، تو ظاہر ہے انسان اپنے عمل کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھے گا تو شریعت پہ چلے گا۔ اگر اپنے عمل کا ذمہ دار نہیں سمجھے گا تو شریعت پر کیسے چلے گا۔ تو شریعت پہ چلتا ہے اس ہاتھ کی وجہ سے جو اپنا ہاتھ نظر آتا ہے اور طریقت اور معرفت کے اونچے مقامات کو حاصل کرتا ہے اس اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کو دیکھ کے۔ تو یہیں سے پھر وہ آگے بڑھتا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ