تصوف کی حقیقت اور اصلاحِ نفس کا عملی خاکہ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
انفاس عیسیٰ کی تعلیم پچھلی دفعہ بھی ہوئی تھی۔ اصل میں بزرگوں کے جو تجربات ہیں، یہ ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ
بلوغ کے وقت عقل کامل ہوجاتی ہے، پھر تجربہ بڑھتا ہے:
ارشاد: بلوغ کے وقت عقل تو کامل ہوجاتی ہے، لیکن تجربہ کم ہوتا ہے، اور تیس و چالیس سال کی عمر میں تجربہ بھی کافی ہوجاتا ہے۔ اس عمر میں کچھ عقل نہیں بڑھتی، بلکہ تجربہ بڑھ جاتا ہے، لیکن تجربہ کی وجہ سے اس کی باتوں میں اور اعمال میں پختگی اور استواری پیدا ہوجاتی ہے۔ اس سبب سے لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ تیس و چالیس سال کی عمر میں عقل زیادہ ہوجاتی ہے۔
عقل جو ہے، یہ جتنی بھی کسی کو ملتی ہے، اس میں اضافہ نہیں ہوتا، لیکن تجربہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور لوگ تجربہ اور عقل کو آپس میں ملا دیتے ہیں، ان کا جو مجموعہ ہوتا ہے، وہ نظر آتا ہے، تو بڑی عمر کے لوگ زیادہ اچھی باتیں کرتے ہیں۔ تو عقل جس کی جتنی ہے، وہ عقل تو اس کی وہی ہوگی، اس میں وہ بڑھتا نہیں ہے، لیکن تجربہ جو ہے ناں وہ بڑھتا ہے۔ اب یہ اللہ والے جیسے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اب ان کی جیسی عقل تھی، تو حضرت نے اس کو استعمال کرلیا دین کے کام کے لئے، تو اللہ پاک نے ان سے فقہ کا کام لے لیا فقہ کی تدوین کا۔ فقہاء اصل سمجھدار لوگ ہیں۔ تو اسی طریقہ سے صوفیاء کرام میں اللہ پاک نے جن سے کام لیا، تو وہ اس کے ظاہر ہے شارح بن گئے۔ تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس صدی کے مجدد تھے، مجدد کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہٗ اس صدی کے احوال اس پر کھول لیتے ہیں، اس صدی کے اندر جو گڑبڑ آچکی ہوتی ہے، دین کی جو تشریحات ہیں، وہ اس میں گڑبڑ آچکی ہوتی ہے، تو مجدد اور کچھ بھی نہیں کرتا، صرف اس کو صاف کرکے جو گرد و غبار ہوتا ہے، وہ دین کو اصلی صورت میں لوگوں کے سامنے کردیتے ہیں اور یہ بہت بڑا کام ہوتا ہے، کیونکہ دین سے جو لوگ برگشتہ ہوتے ہیں، ان میں لوگوں کی غلطیاں ہوتی ہیں، لیکن جب اصل سامنے آتا ہے، تو پھر لوگ کہتے ہیں اوہو! یہ تو بالکل ٹھیک چیز ہے۔ اسی طریقہ سے حضرت نے تصوف کے بارے میں جو تشریحات فرمائی ہیں، اس سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرسکتا، اگر حضرت کا نام درمیان میں نہ لیا جائے، کیونکہ اگر نام لیا جائے تو ممکن ہے تعصب کی وجہ سے انکار کرلے، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو تعصب سے بچائے۔ تو اس وقت تو بات ہوسکتی ہے، لیکن اگر یہ والی بات نہ ہو، نام نہ بتایا جائے، تو سب اتفاق کریں گے، سب کہیں گے بالکل ٹھیک ہے، کیونکہ وہ دل کو لگنے والی بات ہوتی ہے، پتا چلتا ہے کہ واقعی یہ بات ہے۔ اب دیکھ لیں، حضرت نے تصوف کا ایک نقشہ یہاں پر بنایا ہے، آپ اس وقت ان شاء اللہ! جب میں اس کو پڑھ لوں گا، تو آپ خود اپنے دل سے گواہی دیں گے کہ دین کی اتنی مختصر اور جامع تشریح شاید ہی کوئی کرسکے۔ ایک صفحہ میں سارا آیا ہوا ہے، سارا ایک صفحہ میں آیا ہوا ہے اور یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ دین کی انتہائی جامع تشریح جس میں تمام چیزوں کے بارے میں اَلْحَمْدُ للہ! اشارے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’اُمُوْر مَبْحُوْث عَنْھَا فِی التَّصَوُّفِ‘‘
یعنی وہ کام تصوف میں اس پر بحث کی جاتی ہے، تصوف میں ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ فرمایا:
اس کی دو شاخیں ہیں، ایک مقصود ہے اور دوسرا غیر مقصود ہے
مقصود وہ ہوتا ہے جو کہ اصل مطلوب ہوتا ہے جس کا قصد کیا جاسکتا ہے اور اس کو حاصل کرنا ہوتا ہے، کیونکہ اللہ جل شانہٗ اس پر فیصلہ فرماتے ہیں۔ تو وہ مقصود ہے اور دوسرا غیر مقصود ہے، اس میں اصل مطلب وہ اصلیت نہیں ہوتی، تابعیت ہوتی ہے، وہ اس مقصود کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہوسکتا ہے یا کوئی اور چیز ہوسکتی ہے، لیکن وہ مقصود تو نہیں ہوگی، لیکن کام کی چیز ہوتی ہے۔ تو فرمایا کہ دو چیزیں ہیں، ایک مقصود ہے اور دوسرا غیر مقصود۔ پھر فرمایا کہ
مقصود میں پھر دو چیزیں ہیں، ایک ہے عمل ’’وَھُوَ الطَّرِیْقَۃ‘‘
یعنی انسان کو عمل کرنا پڑتا ہے اور وہ کسی طریقے سے کرنا پڑتا ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ ایک طریقہ ہوتا ہے، جو مقصود ہوتا ہے ۔
اور دوسرا ثمرہ ’’وَھُوَ الْمَعِیَّۃ‘‘
مطلب یہ ہے کہ وہ جو ہم چاہتے ہیں کوئی چیز اس سے، وہ ثمرہ ہوتا ہے، مطلب ثمرہ بذات خود مقصود ہوتا ہے۔ اب دیکھ لیں! اللہ جل شانہٗ کا تعلق حاصل کرنا یہ ثمرہ ہے، مقصود ہے، لیکن اس کے لئے اللہ جل شانہٗ نے جو اعمال ہمیں دیئے ہیں، ان اعمال کو کرنا پڑے گا، ان اعمال کو کرنا پڑے گا۔ تو فرمایا کہ دو قسم کی چیزیں ہیں، ایک عمل ہے اور دوسرا ثمرہ ہے۔ فرمایا کہ
پھر عمل جو ہے، اس کی دو قسمیں ہیں، ایک اخلاقِ حمیدہ کا حصول اور دوسرا اخلاقِ رذیلہ کا دور کرنا
اخلاقِ حمیدہ کیا ہیں؟ اس کے بارے میں مثال دیتے ہیں
جیسے شکر، صبر، اخلاص، تواضع، وغیرہ
یہ وہ چیزیں ہیں جو قرآن اور حدیث میں مطلوب بتائی گئی ہیں۔ ’’وَاللہُ یُحِبُّ الشَّاکِرِیْنَ‘‘ اللہ پاک شکر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾ (ابراھیم: 7)
ترجمہ: ’’اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘۔
﴿وَمَنْ یَّشْكُرْ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ﴾
ترجمہ: ’’اور جو کوئی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لئے شکر کرتا ہے‘‘۔
مطلب جو شکر کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا تو اپنے لئے کرتا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ شکر کے بارے میں احکامات آئے ہیں قرآن و حدیث میں اور اسی طریقہ سے صبر کے بارے میں بھی آئے ہیں۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرہ: 153)
ترجمہ: ’’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
﴿اِصْبِرُوْا﴾ (آل عمران: 200)
ترجمہ: ’’صبر اختیار کرو‘‘۔
اس طریقہ سے اس کے بارے میں احکامات آئے ہیں، حکم آئے ہیں۔ اس طرح اخلاص ہے، اس پہ ساری چیزوں کا دار و مدار ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے
سارے لوگ ہلاک ہوگئے مگر وہ جو علماء ہیں، پھر فرمایا سارے علماء ہلاک ہوگئے مگر وہ جو عمل کرنے والے ہیں، پھر فرمایا سارے عمل کرنے والے ہلاک ہوگئے مگر وہ جو اخلاص کے ساتھ عمل کرنے والے ہیں اور پھر فرمایا کہ اخلاص والے بھی خطرہ میں ہیں
اخلاص والے بھی خطرہ میں ہیں۔ اب دیکھ لیں! اخلاص کتنا مطلوب ہے، انسان عمل بے شک کتنا ہی اچھا کیوں نہ کرے، لیکن اگر اس کے اندر اخلاص نہیں ہوگا، سارا عمل ضائع ہوجائے گا۔ ایک شخص ہے نماز سے اس کا مطلوب یہ ہے کہ لوگ مجھے نمازی کہہ دیں، میری عزت کریں، مجھے اچھا آدمی سمجھیں، یہ اس کی نماز کے ساتھ اچھا معاملہ نہیں ہوا، اس کو اسے دور کرنا پڑے گا۔ اس طریقہ سے حج کے ساتھ کوئی اس قسم کا معاملہ ہے، دین کے کاموں کے ساتھ اس کا کوئی ایسے معاملہ ہے، تو یہ ساری چیزیں خطرناک ہیں۔ تو شکر، صبر اور اخلاص، اس طریقہ سے تواضع۔ تواضع کے بارے میں آتا ہے کہ جو تواضع کرتا ہے اللہ پاک اس کے مقام کو بڑھاتا ہے۔ جس کے دل میں رائی بھر تکبر ہوگا، تو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ تکبر کی ضد کیا ہے؟ تواضع ہے، تواضع کا حاصل کرنا ضروری ہوا۔ تو اس طرح کچھ اعمال ہیں کہ وہ حاصل کرنے ہیں، (قلبی اعمال) کچھ تو ظاہری اعمال ہیں ناں جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج یہ ظاہری اعمال ہیں، کچھ قلبی اعمال ہیں، قلبی اعمال جیسے صبر ہے، شکر ہے، تواضع ہے، اخلاص ہے، اس طرح اور بہت سارے اعمال ہیں، جن کا کتابوں میں ذکر ہے اور ہم بتاتے رہتے ہیں مختلف مواقع پہ۔
اور کچھ اخلاق رذیلہ ہیں جن کا دور کرنا مقصود ہے
، وہ کیا ہیں؟ مثلاً ریا کو دور کرنا چاہئے، کبر کو دور کرنا چاہئے، حسد کو دور کرنا چاہئے، دنیا کی محبت کو دور کرنا چاہئے، یہ زہریلی چیزیں ہیں، اتنی زہریلی ہیں کہ ساری محنت اکارت ہوسکتی ہے اس کی وجہ سے۔ مثلاً تکبر اگر کسی کے اندر ہے، میں نے ابھی بتا دیا کہ وہ جنت میں نہیں جائے گا یعنی رائی بھر تکبر کسی میں ہوگا۔ اس طریقہ سے حسد ہے، یہ نیکیوں کو ایسے کھاتا ہے مطلب جیسے لکڑی آگ کو کھاتی ہے۔ اس طریقہ سے جو دنیا کی محبت ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔ تو یہ ساری باتیں جو ہیں ناں آپ ﷺ نے بھی فرمائی ہیں، قرآن پاک میں بھی ہے۔ جیسے شیطان کے بارے میں ہے:
﴿وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ﴾ (البقرۃ: 34)
ترجمہ: ’’اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور کافروں میں شامل ہوگیا‘‘۔
اس کو سزا اسی وجہ سے ملی تکبر کرلیا ناں۔ اس طریقہ سے جو ہے ناں مطلب جو تکبر ہے، وہ تو بہت خطرناک بات ہے، مختلف مواقع پہ اس کو روکا گیا ہے۔ اچھا!
پھر اس کے بعد ثمرہ ہے
ثمرہ سے مراد کیا ہے؟ ثمرہ جو ہے، وہ کیا ہے کہ جو ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں حاصل ہو، روحانیت میں جو ثمرہ ہے، وہ ہمیں حاصل ہوجائے، وہ کیا چیز ہے؟
یہ دو قسموں پر ہے، ایک وہ جو بندہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ایک وہ جو اللہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، بندہ کے ساتھ جو تعلق رکھتا ہے ثمرہ، وہ حضور اور عبدیت ہے یعنی کیفیتِ حضوری حاصل ہوجائے، انسان ہر وقت یہ جانے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور ہر وقت یہ جانے کہ میں اللہ کے پاس ہوں۔
ٹھیک ہے ناں؟ اور واقعتاً ہم اللہ کے پاس ہوتے ہیں، مسئلہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ اللہ پاک فرماتے ہیں ناں کہ اگر ایک ہوگا تو دوسرا وہ ہوگا، اگر دو ہوں گے تو تیسرا وہ، تین ہوں گے تو چوتھا وہ۔ اس طریقہ سے مطلب یہ ہے کہ انسان کو اللہ پاک کے سامنے جو اپنی حضوری وہ مستحضر رکھنی ہوتی ہے، تو کیفیت حضوری اس کو کہتے ہیں۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ جب سوتے تھے، تو اپنے پیروں کو اس طرح نہیں پھیلاتے تھے، تو کسی نے کہا حضرت! آپ پیر پھیلاتے کیوں نہیں ہیں؟ فرمایا کہ اللہ پاک سے حیا آتی ہے، اللہ کے سامنے پیر کیسے پھیلاؤں۔ جیسے بڑے کے سامنے انسان نہیں پھیلا سکتا۔ تو اللہ پاک کے سامنے پھر کیسے پھیلاؤں۔ اور اس طریقہ سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کے پاس گئے اور کہا یارسول اللہ! ہم حمام میں کیسے ننگے ہوجائیں، اللہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یہ اصل میں اللہ جل شانہٗ کے سامنے اپنے آپ کو حاضر سمجھنا، یہ بہت بڑی بات ہے، کیفیتِ احسان اسی کو کہتے ہیں۔ تو عبادت ایسے کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ کیفیت تمھیں حاصل نہیں، تو یہ تو سمجھ لو کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے۔
تو یہ حضوری اور عبدیت یہ ثمرہ ہے عبد کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزوں کا۔ اور دوسرا کیا ہے، وہ جو حق یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق رکھتا ہے، وہ کیا ہے، کہ اللہ پاک راضی ہوجائے اور اپنے قربِ خاص میں جگہ عطا فرمائے۔
اب دیکھ لیں! ہم سب چاہتے ہیں ناں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے قریب فرمائیں، ہمیں اپنا قرب نصیب فرمائیں، اس سے ہم لوگ مستغنی نہیں ہیں۔ میں آپ کو اس کا چھوٹا سا لطیفہ سنا دوں، لطیفہ باریک بات کو کہتے ہیں، ہنسنے کے لئے نہیں ہوتا، اکثر لوگ جو ہیں ناں وہ لطیفہ اس کو کہتے ہیں جس پہ لوگ ہنسیں۔ تو وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ میں نے کسی کو کہہ دیا کہ جزاک اللہ! تو جیسے لوگ شکریہ ادا کرتے ہیں ناں شکریہ، تو کہتے ہیں کوئی بات نہیں، تو میں نے کہا جزاک اللہ! تو کہتے کوئی بات نہیں، (میں نے کہا) خدا کے بندے! کیا کہہ رہے ہو؟ جزاک اللہ کو اس طرح نہیں کہنا چاہئے، وہ تو دعا دے رہا ہے آپ کو کہ اللہ پاک آپ کو جزا دے، آپ کہتے ہیں کوئی بات نہیں۔ تو انسان اپنے (انداز میں) ذرا بات کرلیتا ہے، سمجھ نہیں ہوتی اس کو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ اسی طریقہ سے اللہ جل شانہٗ کو راضی کرنا یہ ہمارا مقصد ہے، مقصدِ اصلی ہے، بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ تمام چیزوں کا نچوڑ اگر ایک لاسکتے ہیں آپ، تو وہ کیا ہے؟ اللہ راضی ہوجائے، اللہ راضی ہوجائے، یہ چیز اگر ذہن میں آجائے کہ اللہ کا راضی ہونا کتنا ضروری ہے، تو انسان کے دماغ میں ہر وقت یہی گھومنے لگے کہ اللہ پاک مجھ سے راضی ہوجائے۔ ہاں! تو یہ جو ہے ناں ما شاء اللہ طریق کا جس کو ہم کہہ سکتے ہیں highway ہے، مطلب یہ highway ہے، مطلب اس کے اوپر جو ہے ناں سب کو دوڑنا ہے اور وہ کیا ہے کہ اللہ پاک راضی ہوجائے، اللہ پاک راضی ہوجائے، تو ثمرہ جو ہے وہ کیا ہے؟ کہ اللہ پاک ہم سے راضی ہوجائے اور ہمیں اپنے قرب خاص میں جگہ عطا فرما دے۔ اور دوسری بات یہ کہ بندے سے یہ حاصل ہونا چاہئے کہ اللہ پاک کے سامنے اپنے آپ کو ہر وقت حاضر پائے اور اللہ پاک کی بندگی میں ہر وقت مطلب مشغول رہے، بندگی اصل میں صرف یہ جو عبادت ہم کرتے ہیں، یہ نہیں ہے، بلکہ اس میں ساری چیزیں آجاتی ہیں یعنی اللہ پاک کی منشا کو اپنی منشا پر فوقیت دینا، یہ عبدیت ہے کہ جو منشاءِ الہٰی ہے اس کے سامنے اپنی منشا کو فنا کردینا۔
جدھر مولا ادھر شاہ دولا
ہے ناں! مطلب حضرت شاہ دولا رحمۃ اللہ علیہ بڑے بزرگ تھے، تو ان کے گاؤں کی طرف دریا کا رخ بدلنے لگا، وہ کٹائی ہوتی رہی، تو لوگ گئے حضرت کے پاس کہ حضرت! دعا فرمائیں دریا کا رخ ہمارے گاؤں کی طرف ہورہا ہے۔ تو حضرت نے فرمایا کوئی پھاوڑا وغیرہ لے آؤ، تو لوگ سمجھے کہ شاید کوئی ٹونا ٹوٹکا کررہے ہوں گے، مطلب کوئی دعا کا طریقہ ہوتا ہے ناں بعض لوگوں کا، بھائی! یہ چیز لے آؤ، یہ چیز لے آؤ، یہ چیز لے آؤ، تو اس طرح وہ کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ شاید کوئی ٹونا ٹوٹکا کررہے ہوں گے، تو حضرت نے جو پھاوڑا ہے، وہ اپنے کندھے پہ رکھ کر آگے آگے جارہے ہیں، اب لوگ پیچھے پیچھے جارہے ہیں کہ حضرت کچھ کریں گے ابھی، وہاں گئے تو دریا کے لئے رخ گاؤں کی طرف بنانے لگے، کٹائی کرکے ناں وہ دریا کے لئے راستہ بنانے لگے، لوگوں نے کہا حضرت! یہ کیا کررہے ہیں؟ فرمایا جدھر مولا ادھر شاہ دولا، اگر اللہ پاک میرے گاؤں کو غرق کرنا چاہتا ہے، میں سب سے پہلے غرق کرنے والا ہوں۔
﴿اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (الانعام: 163)
ترجمہ : ’’اور میں اس کے آگے سب سے پہلے سرجھکانے والا ہوں‘‘۔
تو وہ یہی بات ہے۔ اصل میں یہ والی بات ہے کہ اصل میں کہ حضرت نے گویا لوگوں کو بتایا بھئی! تم جو ہے ناں اللہ پاک کی رضا کو اپنا لو، پھر اللہ جل شانہٗ تمھارے سارے کام اپنی طرف سے کردے گا۔ میں آپ سے عرض کروں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے، بہت اچھی اچھی باتیں ہمارے گاؤں وغیرہ میں ہوتی ہیں، گاؤں وغیرہ میں ہوتی ہیں، لیکن وہ کیا ہوتا ہے؟ ہم اس کا اصل مفہوم نہیں جانتے، کررہے ہوتے ہیں ہم، تو ہم لوگ مطلب جب گاؤں وغیرہ میں پریشان ہوجاتے ہیں تو گاؤں کا جو بڑا وڈیرہ ہوتا ہے یا چوہدری ہے یا خان ہے یا جو بھی ہیں اچھے لوگ، جن کے سامنے لوگ فیصلے کرتے تھے، تو وہ جاکے سب کہتے ہیں آپ ہمارے مائی باپ جو فیصلہ آپ کریں ہمارا فیصلہ وہی ہے۔ یہ کرتے تھے ناں لوگ؟ اگر یہ اللہ پاک کے ساتھ ہم کرلیں اے اللہ! جو فیصلہ تیرا ہے، وہ ہمارا ہے، اس سے بڑی بات اور کیا ہے؟ اچھا! ان کے تو اپنے مفادات ہوتے ہیں، یہ خوانین کے، چوہدریوں کے، ان تمام لوگوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، سیاسی لوگ ہوتے ہیں زیادہ تر، تو اب ان کو سیاست میں جو فائدہ ہوتا ہے، اسی طرف وہ جاتے ہیں، ان بیچاروں کی کمزوری ہے، کیونکہ آخر محتاج لوگ ہیں، لیکن اللہ پاک تو محتاج نہیں ہے، تو اگر ہم نے اللہ پاک پر اپنا فیصلہ چھوڑ دیا، تو مجھے بتائیں ہمارے فیصلے کی اللہ پاک کے فیصلے کے سامنے کیا حیثیت ہوگی؟ اللہ پاک کا فیصلہ تو ہمیشہ ہی اچھا ہوگا، تو ہم لوگ بھی ظاہر ہے راحت میں ہوں گے اور اللہ پاک بھی خوش ہوجائیں گے، تو یہ بہت اچھا فیصلہ ہے، اسی کو کہتے ہیں:
﴿وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (المؤمن: 44)
ترجمہ: ’’اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔
یہی اصل میں اس کا مفہوم یہی ہے کہ ہم اپنی بات کو اللہ پر چھوڑتے ہیں۔ بہرحال یہ ہے عمل اور پھر ثمرہ، اس میں پھر ہر ایک کے اپنے اپنے حصے ہوگئے، دو دو حصے ہوگئے ہیں، اب جو مقصود والا باب ہے، یہ ہمارا ختم ہوگیا، مقصود یہاں تک ہے۔
اس کے بعد
جو غیر مقصود ہیں، اس میں پھر تین قسمیں ہیں، ایک ہے ذرائع، دوسرے ہیں توابع اور تیسرے ہیں موانع۔
عربی کے نام ہیں، یاد رکھنا ضروری نہیں ہیں، سمجھ میں آجائیں تو اچھی بات ہے، کبھی کتاب میں دیکھ لینا، پھر آپ کو معلوم ہو کہ مقصود مطلب اس کا یہی ہے۔ ٹھیک ہے ناں! تو ذرائع کیا چیز ہیں، ہم لوگ جانتے ہیں، انگریزی میں اس کو means کہتے ہیں۔ ٹھیک ہے ناں! تو ذرائع کیا ہیں، یہ ہے کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کا جو ذریعہ ہوتا ہے وہی ذرائع ہیں اس کا جمع ۔
مثال کے طور پر میں یہاں آنا چاہتا ہوں، میں کئی طریقوں سے آسکتا ہوں، کئی طریقوں سے آسکتا ہوں، میں گاڑی پہ بھی بیٹھ کے آسکتا ہوں، میں پیدل بھی آسکتا ہوں، میں پبلک ٹرانسپورٹ پہ بھی آسکتا ہوں، ہاں! یہ سب ذرائع ہیں۔ تو ذرائع کے اوپر زور نہیں اتنا دیا جاتا کہ مقصد فوت ہوجائے، مقصد کو ذریعہ کے تابع نہیں کیا جاتا ہے، ذریعہ کو مقصد کے تابع کیا جاتا ہے، ذریعہ کو اگر ذریعہ سمجھا جائے، تو یہ ظاہر ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کا یہی تو طریقہ ہے، اسی ذریعہ سے تو وہ حاصل ہوگا مقصد، لیکن اگر ذریعہ کو مقصد بنایا جائے، تو پھر کیا ہے، یہ ہماری علمی کمزوری ہوگی یا جس کو ہم کہہ سکتے ہیں سمجھ کی کمزوری ہوگی، جس کے پھر اثرات بڑے دور رس ہوتے ہیں، بڑے مسائل اس کے ساتھ بنتے ہیں، عموماً لوگ اسی میں پریشان ہوتے ہیں کہ وہ جو ذرائع ہوتے ہیں ان کو مقصود سمجھ لیتے ہیں، جو ذرائع ہوتے ہیں اس کو مقصود سمجھ لیتے ہیں۔ ہمارے جتنے بھی کام ہیں ناں، مثال کے طور پر بزرگوں سے اچھے اچھے کام منقول ہیں، ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ کرتے تھے، لیکن بعد میں اگر اس کی ضرورت نہ رہے اور کسی اور طریقہ سے وہ کام ہوسکتا ہو، تو کیا اس سے چمٹیں گے؟ بھئی! مقصود کو حاصل کرنا ہے، ذریعہ کو تو حاصل کرنا نہیں ہے، ذریعہ تو اس کا صرف حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے، تو اگر کسی اور طریقہ سے وہ حاصل ہوسکتا ہو، تو ہم اس کے ساتھ نہیں چمٹیں گے۔ ڈاکٹر لوگ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ دوائیاں جو ہوتی ہیں، صحت کو حاصل کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ اب ایک وقت میں ایک دوائی سے علاج ہوتا ہے، کسی وقت میں augmentin 375 mg اس سے کام ہوتا تھا، کیا خیال ہے ڈاکٹر صاحب ایسے ہی ہوتا تھا ناں؟ اب ہوسکتا ہے 375mg؟ اب ہزار سے کم نہیں دیتے، بلکہ بعض لوگوں ںے augmentin چھوڑ دیا، کہتے ہیں اب یہ کام کی نہیں رہی۔ اب اور چیزیں مطلب ان کی ہیں، جس سے وہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ تو اب یہ ہے کہ ایک آدمی کو augmentin کے ساتھ محبت ہوگئی کہ مجھے augmentin کے ساتھ محبت ہے، اب وہ بیماری اس کی ٹھیک ہو یا نہ ہو، لیکن augmentin کھانا چاہئے، تو یہ ٹھیک نہیں ہے، یہ غلط بات ہے، یہ ذریعہ کو مقصود بنانے والی بات ہے، عموماً لوگ یہی غلطی کرتے ہیں، جس سے جو ہے ناں پھر بڑی مشکلات پیدا ہوتی ہیں، سمجھ کے اندر قصور آجاتا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ بلاوجہ اختلافات ہوجاتے ہیں بلاوجہ۔ اب چشتیہ طریقہ ہے، نقشبندی طریقہ ہے، سہروردی طریقہ ہے اور اس طرح جو ہے ناں قادری طریقہ ہے۔ اب یہ سارے طریقے ہمارے بزرگوں کے ہیں، لیکن یہ سارے ذریعے ہیں، طریقہ جو کہہ دیا، یہ سارے ذریعے ہیں، اچھا! اب دیکھ لیں کہ اب اگر کسی کو چشتی طریقہ سے اپنا مقصود حاصل ہوگیا، تو کیا خیال ہے؟ اب اس کو کسی اور طریقہ کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے، بس کام ہوگیا اور کام چاہئے۔ وہ کہتے ہیں آم چاہئے یا پیڑ گننے چاہئیں؟ مقصود حاصل ہوگیا۔ کہتے ہیں، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا، انہوں نے اپنا نقشبندی سلوک کو طے کیا تھا اور اپنی کارگزاری سنائی کہ حضرت! میرے لطائف جو ہیں ناں، اس طرح ہوجاتے ہیں اور کبھی یہ کرتا ہوں، یہ ہوجاتا ہے، کبھی اس طرح، تو اب مجھے کیا کرنا چاہئے؟ شیخ تو ان کے فوت ہوگئے تھے، حضرت نے فرمایا بھئی کیفیت احسان حاصل ہے یا نہیں؟ فرمایا حاصل ہے، فرمایا اور کیا کرنا چاہتے ہو؟ یہ ساری چیزیں کیفیتِ احسان کو حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں، بس کیفیتِ احسان حاصل ہوگئی بس اب کام کرو، خواہ مخواہ جو ہے ناں ان کے پیچھے پھرتے رہو گے نہیں جی اب میرا نقشبندی طریقے سے تو ہوگیا ہے اب میں چشتی طریقہ سے بھی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ کیا خیال ہے آپ لاہور پہنچ گئے by train اور آپ دوبارہ واپس آجاؤ راولپنڈی، پھر جو ہے ناں by road چلے جاؤ، کیا خیال ہے ہوشیاری ہوگی؟ لوگ کہیں گے بھئی! کیا بیوقوف آدمی ہے، بھئی لاہور تو پہنچ گیا ناں، اب اس کے بعد اور کیا کرنا چاہئے، تو اصل میں یہی والی بات ہے کہ چیزوں کو سمجھنا چاہئے، ورنہ پھر کیا ہوتا ہے؟ ورنہ پھر بڑی مشکلات ہوتی ہیں، اشکالات ہوتے ہیں، ٹھیک ہے ناں! ان کو دور کرنا پڑتا ہے۔ تو
ذرائع میں پھر دو قسم کے ہیں، ایک ہے مجاہدہ اور دوسرا ہے فاعلہ
یہ ذرائع کیا ہیں؟ یہ نفس کی اصلاح کے ذرائع ہیں، ایک کیا ہے؟ مجاہدہ اور دوسرا کیا ہے؟ فاعلہ، مجاہدہ کیا چیز ہے، مجاہدہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ اپنے نفس کی خواہشات کو control کرنے کے لئے نفس کی خواہشات کی پروا نہ کی جائے۔ کیا کہا میں نے؟ نفس کی خواہشات کو control کرنے کے لئے نفس کی خواہشات کی پروا نہ کیا جائے، نفس چاہتا ہے سو جاؤ، یہ کہتے ہیں نہیں بھئی میں نے کام کرنا ہے، میں نے سونا نہیں ہے، میں نے ذکر کرنا ہے، اب نفس کو بڑی تکلیف ہوگی، لیکن یہ تکلیف اس کو دینا ہے، کیونکہ یہ آرام پسند نفس، ہاں! یہ دین پر آنے کے لئے تیار نہیں ہے، جب اس کی بات اس طرح روکی جائے گی، نہیں مانی جائے گی، یہ خود تیار ہوجائے گا کام کرنے کے لئے، یہ جو کمینے لوگ جو ہوتے ہیں کمینے، کہتے ہیں اچھے لوگ جو ہوتے ہیں، ان سے اس وقت ڈرو جب وہ مظلوم ہوں، اس وقت ڈرو، شریف لوگ جو ہوتے ہیں، (ان سے) ۔ اور جو کمینے لوگ ہیں، ان سے اس وقت ڈرو جب وہ in power ہوں، ان کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ جب یہ in power ہوتے ہیں، انتہائی درجے کا ظلم، فساد، ساری چیزوں کو تہس نہس کرنا، اپنی باتوں کو من مانی کے لئے، فضول فضول حرکتیں کرنا، کسی کی پروا نہ کرنا کہ اس کو نقصان ہوجائے گا، کمینے لوگ ایسے ہوتے ہیں اور جس وقت اس پہ کوئی آجائے حکمران، پھر خوشامدی، خوشامدی بن جاتے ہیں اوہ جی صاحب! آپ ہمارے مائی باپ، یہ جی بالکل yes man بن جاتے ہیں، یہ کمینے لوگوں کی خصلت ہوتی ہے، ہے ناں یہ بات؟ ہمارا نفس بھی بالکل یہی ہے، اگر اس کو دبا دیا تو دب جائے گا، اگر اس کو دبا دیا تو دب جائے گا اور اگر اس کو سر پہ چڑھا دیا، تو سر چڑھ جائے گا، اچھی طرح چڑھ جائے گا، ایسا چڑھ جائے گا کہ پتا چل جائے گا کہ تمھارے ساتھ کیا کرتا ہے، اس وجہ سے اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے، اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نفس کی بات نہ مانی جائے۔ اب یہ دو قسم کا نہ ماننا ہے، ایک تو وہ ہے جو حکم ہے شریعت کا، مثلاً نماز پڑھنے کا حکم ہے، روزہ رکھنے کا حکم ہے، زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے، حج کرنے کا حکم ہے، اب اس میں نفس کے ساتھ مناقشہ ہوتا ہے، نفس کے ساتھ جو ہے ناں وہ مقابلہ ہوتا ہے، ایسی صورت میں نفس کی بات نہ مانی جائے، یہ ہے شرعی مجاہدہ، مثلاً نماز پڑھ لی جائے، نفس کے نہ ماننے سے رکا نہ جائے، فجر کی نماز میں بڑا مشکل ہے اٹھنا، لیکن پروا نہ کی جائے، اٹھا جائے، یہ بذات خود ایک مجاہدہ ہے، لیکن یہ مجاہدہ شرعی مجاہدہ ہے، مطلوب مجاہدہ ہے، مقصود مجاہدہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کام اس کے بغیر نہیں ہوسکتا، یہ تو ضروری ہے، وہ عمل تو کرنا پڑے گا۔ یہ جو مجاہدہ ہوتا ہے، یہ اس وقت کرنا ہوتا ہے یعنی instant ہوتا ہے، instant ہوتا ہے، فوراً کرنا ہوتا ہے، کیونکہ اس کے ساتھ (فوراً عمل کرنا ہوتا ہے) یعنی نماز تو اپنے وقت پہ پڑھنی ہوتی ہے ناں، اب اگر بعد میں آپ پڑھ بھی لیں، تو وہ وقت پہ تو نہیں رہے گی، وہ قضا ہوجائے گی، لہٰذا اس نماز کی وہ value تو نہیں رہے گی۔ اب اُس وقت اپنے نفس کو ٹھیک کرنا، سیدھا کرنا اور اسی وقت پڑھ لینا۔ اب حج سال میں ایک دفعہ ہی اس کا موقع آتا ہے، اسی وقت اپنے آپ کو control کرنا اور اپنے آپ کو حج کروانا یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح زکوٰۃ کے ساتھ بھی مسئلہ ہے، روزہ کے ساتھ بھی یہ بات ہے، تو اس میں یہ ہوتا ہے کہ اُس وقت کرنا پڑتا ہے، چاہے نفس مانے، نہ مانے، کرنا پڑتا ہے، یہ مجاہدہ کیا ہے؟ شرعی مجاہدہ ہے۔ دوسرا مجاہدہ یہ ہے کہ شرعی مجاہدہ کے اندر اگر مسائل ہوں، شرعی مجاہدہ کے لئے اگر نفس تیار نہ ہو اور اس کی وجہ سے اعمال فوت ہورہے ہوں مسلسل، اعمال اگر مسلسل فوت ہورہے ہوں تو سمجھ لو کہ بیماری کچھ زیادہ ہے، اب کیا کرنا پڑے گا؟ اب اس کو سیدھا کرنا پڑے گا، یہ نفس ٹیڑھا ہے اس کو سیدھا کرنا پڑے گا، اس کو سیدھا کرنے کے لئے تربیتی مجاہدہ سے اس کو گزارنا ہوگا۔ تربیتی مجاہدہ یہ ہوتا ہے کہ اس پر بوجھ شرعی مجاہدہ سے زیادہ ڈالو، تو ہماری پشتو میں ضرب المثل ہے کہ جب موت آجاتی ہے، تو بخار کے لئے آدمی تیار ہوجاتا ہے۔
’’چې مرګ راشی نو تبې ته غاړه کیږدی‘‘
اسی طریقہ سے جب موت آجائے تو بخار کے لئے انسان تیار ہوجاتا ہے۔ اب جب اس کو تربیتی مجاہدہ سے گزار لیں گے ناں، شرعی مجاہدہ پہ بڑے خوشی سے کام کرے گا، کہتا ہے بھئی یہ تو ٹھیک ہے، یہ تو ٹھیک ہے، مانتے ہیں جی مانتے ہیں بالکل ٹھیک ہے۔ ہاں! بس یہی اصل میں اس میں بڑی بات ہوتی ہے کہ انسان جو ہے ناں اس کو شرعی مجاہدہ پہ لانے کے لئے تربیتی مجاہدہ سے گزار لے، کیا خیال ہے! اب شرعی مجاہدہ تو یہ ہے کہ زبان کو control کرلو، جھوٹ نہ بولو، غیبت نہ کرو، کوئی بکواس نہ کرو، کوئی غلط بات نہ کرو، یہ کیا ہے؟ یہ ہماری زبان کا مجاہدہ ہے شرعی، یہ کرنا پڑے گا، چاہے آپ صوفی ہیں یا نہیں ہیں، اس کا تصوف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ تو آپ کو کرنا پڑے گا، لیکن اگر یہ بار بار ہونے لگے، کہتے ہیں جی میں کیا کروں، زبان سے اب جھوٹ نکل ہی جاتا ہے، کیا کروں میں کیا کروں جی غیبت ہو ہی جاتی ہے، میں کیا کروں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ یہ سمجھ لو کے درمیان میں بیماری کچھ زیادہ ہوچکی ہے، تو اس صورت کو دور کرنے کے لئے پھر ہمیں کیا کرنا پڑتا ہے؟ تربیتی مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ اب تربیتی مجاہدہ کیا ہے؟ کہ شیخ اس کو کہے کہ ایک گھنٹہ خاموش رہنا ہے اور مجلس کے اندر بیٹھنا ہے، لوگوں کے درمیان اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھ کے ایک گھنٹہ خاموش رہنا ہے۔ سبحان اللہ! خاموش رہنا بڑا مشکل ہے اور وہ بھی دوستوں کے درمیان، کافی مشکل کام ہے ناں! اب آپ نے دوستوں کے درمیان اس کو ایک گھنٹہ خاموش رہنے کی عادت ڈلوا دی اگر، تو کیا خیال ہے، جھوٹ سے رکنا اس کے لئے مشکل ہوگا پھر؟ غیبت سے رکنا اس کے لئے مشکل ہوگا؟ جیسے جھوٹ کو بولنا چاہے گا، خاموشی کا مجاہدہ، بس ختم، اس کے لئے اس وقت آسان ہوگا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلسل خاموشی تو نہیں رہے گی، ضرورت کی بات تو کرسکے گا، تو شرعی مجاہدہ اس کے لئے بہت آسان ہوجائے گا، اس کو کہتے ہیں قلتِ کلام۔ قلتِ کلام تھوڑا بولنا، زیادہ نہ بولنا، تھوڑا بولنا۔ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ سبحان اللہ! کسی وقت اس مجاہدہ سے کمال پر تھے، صحیح بات ہے لوگ پڑھتے نہیں ہیں ناں اپنے بزرگوں کے واقعات، ورنہ ساری باتیں سمجھ میں آجائیں گی۔ حضرت کا یہ مجاہدہ اس حد تک تھا کہ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں آپ بیتی میں کہ ہم جب حضرت سے سبق پڑھتے تھے تو حضرت بات نہیں کرتے تھے، سبق سنتے تھے، اگر سبق ٹھیک ہوا تو کتاب بند کرکے بس، اس کا مطلب سبق آپ لوگوں نے ٹھیک سنایا ہے، اگلا سبق یاد کرو، ٹھیک ہے ناں! اور اگر درمیان میں کوئی مسئلہ آگیا ہے تو کتاب کے اندر انگلی رکھ کر ناں، جس جگہ پہ ہورہا ہے، اس کے اندر انگلی رکھ کر، اس طرح بند کرکے انگلی درمیان میں، مطلب یہ ہے کہ ابھی آپ لوگوں کا سبق صحیح نہیں ہوا ہے، اس کو مزید تیار کرنا ہے۔ کیا خیال ہے استاد اور وہ خاموش رہے، کیسی مشکل بات ہے؟ لیکن بہرحال حضرت نے یہ کر دکھایا۔ تو مطلب یہ ہوا کہ قلتِ کلام یہ ایک مجاہدہ ہے بضرورت، دائمی نہیں، بضرورت۔ پھر مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ ایسا بولنا شروع ہوگئے کہ بولتے ہی رہے، موت تک بولتے رہے، لیکن وہ بولنا ضروری بولنا تھا، اس بولنے کا پھر فائدہ تھا، کیونکہ جو نہیں بولنا تھا، اس سے رکنا آگیا تھا، ٹھیک ہے ناں، تو قلتِ کلام کیا ہے، یہ کیا ہے؟ ذریعہ ہے، کس چیز کا؟ اپنی زبان کے گناہوں سے بچنے کا، اپنی زبان کے گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے، اللہ تعالیٰ مجھے بھی نصیب فرما دے۔