اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
فرماتے ہیں:
متن:
چھوٹوں کو بڑوں کی تعظیم اور بڑوں کو چھوٹوں کے ساتھ شفقت چاہئے:
ارشاد: اگر چھوٹے اپنے کو بڑوں کے برابر سمجھنے لگیں تو وہ اسی دن سے گھٹنا شروع ہو جائیں گے۔ اور بڑے اگر شفقت کا برتاؤ نہ کریں بلکہ بڑائی کے غرور میں تکبر کرنے لگیں تو وہ بھی گھٹ جائیں گے۔ ایسے ہی بے اثر بڑوں کے تابعین کے متعلق کسی نے کہا ہے: ’’سگ باش برادر خورد مباش‘‘ اور جو چھوٹے چھوٹے بن کر نہ رہیں، ان کے متبوعین کے متعلق کسی نے کہا ہے ’’خرد باش، برادر بزرگ مباش‘‘ واقعی اگر چھوٹے بڑوں کا مقابلہ کرنے لگیں تو بڑا آدمی گدھے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے کہ سارا بوجھ اسی پر لادا جاتا ہے۔
تشریح:
یہ حضرت نے ایک اصول دیا ہے استفادہ کا، استفادہ جانبین سے ہوتا ہے۔ یعنی چھوٹے جو ہیں وہ اپنی ڈیوٹی پوری کرلیں اور بڑے اپنی ڈیوٹی پوری کرلیں۔ چھوٹے، چھوٹے بن کررہیں اور بڑے شفقت اختیار کرلیں۔ چھوٹے جو ہیں جب تک اپنے آپ کو چھوٹا نہیں سمجھیں گے اس وقت تک ان کو فیض مل نہیں سکتا کیونکہ فیض ملنے کے لئے چھوٹا سمجھنا اپنے آپ کو لازم ہے۔ جیسے پانی ڈھلوان کی طرف بہتا ہے، تو اگر ڈھلوان موجود نہیں تو پانی کیسے آئے گا اس میں؟ جو آدمی اپنے آپ کو چھوٹا نہیں سمجھ رہا اُس کی طرف بڑے کا فیض کیسے آسکتا ہے، نہیں آسکتا۔ اسی طریقہ سے جو بڑا ہے وہ بھی شفقت کرے، تکبر نہ کرے کیونکہ تکبر سے تو انسان اپنے مقام سے گر جاتا ہے۔ شفقت: ”مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا“ جو لوگ ہمارے چھوٹوں پہ رحم نہ کریں اور ہمارے بڑوں کا اکرام نہ کریں ”فَلَيْسَ مِنَّا“ (مسند احمد، حدیث نمبر: 6937) وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اس وجہ سے چھوٹوں پہ شفقت کرنی چاہئے اور بڑوں کی قدر کرنی چاہئے، بڑوں کا ادب کرنا چاہئے، یہ ادب اور شفقت دونوں موجود ہونی چاہئیں۔ تو ادب اگر نہ ہو تو اس کے لئے پھر فرمایا کہ جو ان کے بزرگ ہوں گے ان کے لئے کسی نے کہا ہے کہ: خرد باش، برادر بزرگ مباش یعنی گدھا بن جاؤ لیکن بڑا بھائی نہ بنو۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض گھرانوں میں بڑے بھائی کی بڑی مشکل آجاتی ہے ساری ذمہ داریاں بڑے بھائی کے اوپر، ہر ایک کو اس سے گلہ، ہر ایک کو اس سے شکوہ، ہر ایک اس پہ اپنا بوجھ ڈالے جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بس اسی کو ساری قربانیاں کرنی ہیں۔ تو ایسی صورت میں بالکل وہی بات کہ وہ گدھا تو بن جائے لیکن بڑا بھائی نہ بنے۔ تو ظاہر ہے ان کے لئے بڑا مشکل کام ہے۔ اور اگر ظلم ہو بڑوں سے چھوٹوں پر تو پھر ایسے لوگوں کے لئے فرماتے ہیں: سگ باش برادر خورد مباش کتا بن جا لیکن چھوٹا بھائی نہ بن۔ تو بعض دفعہ چھوٹے بھائیوں کو دوڑایا جاتا ہے، چھوٹا ہر وقت دوڑ میں رہتا ہے، یہ کام کرلو، یہ کام کرلو، یہ کام کرلو؛ شفقت نہیں ہوتی، اس کے کوئی حقوق نہیں ہوتے، صرف فرائض ہوتے ہیں، تو ظاہر ہے ایسی صورت میں تو اس کی شامت آجائے گی۔ تو دونوں کو اپنے اپنے کام کرنے چاہئیں، بڑوں کو بڑائی کے لحاظ سے کام کرنا چاہئے، چھوٹوں کو چھوٹے ہونے کے لحاظ سے کام کرنا چاہئے۔ یہ تو Crest and trough والا اصول ہے، جیسے یہ انگلیاں ہیں، میں اگر یہ انگلیاں اس طرح نہیں ڈالوں گا تو کیسے یہ بنے گا۔ اس طریقہ سے کچھ کو بڑا بننا ہوتا ہے، کچھ کو چھوٹا بننا ہوتا ہے پھر اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ ورنہ ایسا نہ ہو تو پھر ٹھیک ہے اس طرح کرلو، اس سے کچھ بنتا ہے؟ اس سے پھر نہیں بن سکتا۔ تو ہم لوگوں کو یہ کرنا ہے کہ جو بڑے ہیں وہ بڑے بن جائیں شفقت کے لحاظ سے، اور چھوٹے، چھوٹے بنیں خدمت اور ادب کے لحاظ سے، تو پھر دونوں کو فائدہ ہوگا، چھوٹوں کو بھی فائدہ ہوگا اور بڑوں کو بھی فائدہ ہوگا۔
متن:
عوام پر توجہ کا اثر ہونے کی وجہ:
ارشاد: توجہ کا اثر اس پر ہوتا ہے جو اپنے آپ کو محتاجِ اثر سمجھتا ہو، اور اپنے کمال کا مُدَّعِی نہ ہو، عوام پر توجّہ کا اثر ہوتا ہے اور خواص پر نہیں، کیونکہ ان میں احتیاج و طلب ہی نہیں، وہ خود اس کے مدعی ہیں کہ دوسرے ہمارے محتاج ہیں۔
تشریح:
حضرت نے experience کی بات کی ہے، تجربہ کی بات کی ہے۔ فرمایا کہ توجہ کسے کہتے ہیں، توجہ اس کو کہتے ہیں کہ بڑے جب توجہ کی نظر سے چھوٹوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے اندر اس توجہ کی برکت سے ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک دعائیہ کیفیت ہوتی ہے جب بڑے توجہ سے چھوٹوں کو دیکھتے ہیں تو اس سے ان کے اندر ایک دعائیہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے اللہ پاک وہ کردیتے ہیں۔ یہ اس کو ہم توجہ کہتے ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ اپنے خلفاء سے کہا تھا: کبھی کبھی چپکے چپکے اپنے مریدوں پہ نظر ڈال دیا کرو، اس سے آپ کے مریدوں کو فائدہ ہوگا۔ مطلب یہ توجہ، محبت کی نظر ڈال دیں، اس سے فائدہ ہوگا۔ تو یہی چیز ہے کہ انسان چپکے چپکے اگر اپنے مریدوں پہ وہ توجہ ڈالتا رہتا ہے، محبت کی نظر ڈالتا رہتا ہے تو اس سے ان کو فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ توجہ کا فائدہ اس کو ہوتا ہے جو اپنے آپ کو چھوٹا سمجھے، جو اپنے آپ کو اس کا محتاج ہی نہ سمجھے، چھوٹا نہ سمجھے تو اس کو توجہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، رکاوٹ آجاتی ہے۔ اس رکاوٹ سے بچنے کے لئے انسان کو اپنے آپ کو محتاج سمجھنا ہوتا ہے۔ جتنے بھی ہمارے اللہ والے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو اپنے بڑوں کا محتاج سمجھا ہے۔ حالانکہ بعد میں ان سے بڑے ہوگئے ہیں، لیکن اُس وقت نہیں۔ آخر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرچکے تھے اور مرید تھے کسی کے۔ اس طرح خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، ان کی بھی یہ صورتحال ہے۔ ان کو اللہ پاک نے کس طرح نوازا، لیکن اپنے وقت میں کوئی چھوٹے تھے؟ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پہ فرمایا کہ بھائی بڑا بننے کے لئے ایک وقت تک چھوٹا بننا پڑے گا، جو چھوٹا نہیں بن سکتا وہ بڑا نہیں بن سکتا۔ جس میں چھوٹا بننے کی استعداد نہیں اس میں بڑا بننے کی استعداد نہیں ہے۔ کیونکہ استعداد پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے مدد سے، اور اس کے لئے ذریعہ بنتی ہے بڑوں کی محبت کی نظر۔ بڑوں کی محبت کی نظر اس کے لئے ذریعہ بنتی ہے۔
حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ بڑے بزرگ ہیں، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ تھے، ایک دفعہ ان کے مہمان آئے ان کی خانقاہ میں، بے وقت مہمان آئے جیسے چار بجے آج کل مہمان آجائیں، اب چار بجے سارا کھانا وانا ختم ہو، ہوٹل تو ہوتے نہیں، تو سارا کھانے وانے کا انتظام ختم ہوچکا ہوتا ہے اور مہمان بھی زیادہ تھے، سامنے بھٹیارے کی دکان تھی، اس نے دیکھا کہ حضرت کے بے وقت مہمان آئے، اس نے اسی وقت روٹیاں لگانی شروع کردیں بغیر پوچھے، محبت تھی حضرت کے ساتھ، تو جیسے وہ روٹیاں پوری ہوگئیں، مہمانوں کی تعداد تو دیکھ لی تھی، تو روٹیاں لے کے دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضرت سے کہا کہ حضرت میں روٹیاں لے کے آیا ہوں، آپ کے مہمان بے وقت آئے تھے میں نے دیکھ لیے تھے تو میں نے روٹیاں پکائیں، میں نے کہا کہ مہمانوں کو روٹیوں کی ضرورت ہوگی تو میں لے آیا، قبول فرما لیں۔ حضرت نے بڑی خوشی کے ساتھ قبول فرمائیں لیکن دل میں اس کے لئے عجیب مقام بن گیا۔ ظاہر ہے ایسے وقت میں بات تو تھی کہ ایسے وقت میں جب ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ اس شخص کے دل میں آجائے تو وہ تو بڑی بات ہے۔ تو حضرت نے اس وقت روٹیاں لے لیں اور مہمانوں کا اکرام کردیا، مہمان رخصت ہوگئے۔ بعد میں اس بھٹیارے کو بلا لیا، اور اس سے کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو؟ یہ کلمہ ہر ایک کی زبان سے بھی نہیں نکلتا اور ہر وقت نکلتا بھی نہیں، یہ من جانب اللہ ہوتا ہے جس کے لئے بھی ہوتا ہے، تو جب بھی نکلتا ہے تو نکلتا ہے۔ انہوں نے کہا مانگو کیا مانگتے ہو؟ اب بھٹیارے نے ڈرتے ڈرتے کہہ دیا حضرت مجھے اپنے جیسا بنا لیں۔ اب خواجہ صاحب نے کہا: اوہو! یہ کیا کہہ دیا، یہ کیا کہہ دیا؟ کوئی اور چیز مانگ لو، کام کی چیز مانگو، یہ آپ نے کیا سوچا ہے؟ چھوڑ دو اس بات کو، مجھ جیسا بن کے کیا کرو گے، کچھ اور مانگو۔ انہوں نے کہا حضرت! میں تو یہی مانگ رہا ہوں، اگر آپ یہ کرسکتے ہیں تو دے دیں ورنہ مجھے کوئی اور ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا نہیں نہیں، موقع ضائع کیوں کرتے ہو؟ مانگو جو کچھ مانگنا ہے لیکن یہ چیز نہ مانگو۔ انہوں نے کہا حضرت میں تو صرف یہی چیز مانگتا ہوں، اگر کرسکتے ہو مجھے اپنے جیسا بنا دو۔ فرمایا اچھا چلو، آپ کی مرضی، اب میں کیا کہہ سکتا ہوں، چلیں آجاؤ، اندر لے گئے، کواڑ بند کردیا، کیا کردیا یہ تو اللہ کو پتا ہے کیونکہ وہاں تو صرف اللہ کے علاوہ اور کوئی تھا ہی نہیں، یہ دو ہی تھے۔ لیکن کچھ دیر کے بعد کواڑ کھلے تو وہاں ایک باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کی بجائے دو باقی باللہ تھے، ایک تو خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ خود تھے اور دوسرے وہ بھٹیارا، وہ بھی خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کی شکل میں آگئے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ اصل باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ تو ہوش میں تھے لیکن جو دوسرے باقی باللہ تھے وہ ہوش میں نہیں تھے وہ مدہوش تھے۔ ظاہر ہے اس فیض کو اٹھا کیسے سکتے تھے؟ یہ تو بتدریج ہوتا ہے کہ جگہ بنتی ہے، پھر جگہ بنتی ہے، پھر اس طرح بتدریج سب کچھ ہوتا ہے۔ اب یہ تدریج والی بات تو نہیں تھی، آن کے آن والی بات تھی، لہٰذا اس کو برداشت کب کرسکتے تھے اس فیض کو، بیہوش ہوگئے، تین دن تک وہ بیہوش رہے اور اس کے بعد فوت ہوگئے۔ تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے فرمایا: بھٹیارا مر گیا، بھٹیارا مر گیا لیکن خوش قسمت تھا باقی باللہ بن کر مر گیا۔ مطلب آن کی آن میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اس کو کہتے ہیں نسبتِ اتحادی۔ ایک ہوتی ہے نسبتِ انعکاسی، ایک ہوتی ہے نسبتِ اصلاحی اور ایک ہوتی ہے نسبتِ اتحادی، تو نسبتِ اتحادی یہی ہوتی ہے۔ تو وہ بھٹیارے کو حاصل ہوگئی لیکن کیسے حاصل ہوئی، یہ ایک چیز تھی جو کہ بس۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کے وقت نکلے تھے، آپ ﷺ پہ حملے کی خبر سن کر نیزہ لے کے نکلے کہ دیکھتا ہوں کہ کون ہے۔ حالانکہ وہ ایک افواہ تھی لیکن بہرحال نکلے، آپ ﷺ نے ان کو آتے ہوئے دیکھا، پوچھا: زبیر کدھر گئے تھے؟ کہا: میں نے اس طرح افواہ سنی تھی۔ تو فرمایا پھر آپ کیا کرتے؟ انہوں نے کہا: بس میں نیزے سے اس کو مار دیتا۔ فرمایا: آپ میرے حواری ہیں۔ حواریٔ رسول کا لقب ہے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا۔
ایک صحابی رسول ﷺ تھے، آپ ﷺ کے ساتھ ایک یہودی کا قرض کا معاملہ تھا، تو وہ کہتا کہ آپ نے مجھے نہیں دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دیا ہے، تو وہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُدھر آگئے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ دیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا آپ اس وقت تھے نہیں، آپ نے گواہی کیسے دے دی؟ کہا یا رسول اللہ! میں جب آپ کی اِس بات کو مانتا ہوں کہ اللہ ہے اور قرآن ہے، تو میں یہ گواہی نہیں دے سکتا؟ ظاہر ہے جب میں آپ کو ہر چیز میں سچا سمجھتا ہوں تو اس میں بھی تو آپ سچے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: آئندہ اس شخص کی گواہی دو گواہیوں کے برابر ہوگی۔ تو ایسے ہوتے ہیں، مطلب ایسے اوقات آتے ہیں انسان کی زندگی میں کہ جب بے ساختہ انسان کے دل میں جذبہ ابھرتا ہے شیخ کے لئے یا جو بھی ہے، اور پھر انسان کا کام بن جاتا ہے۔ شیخ نہیں بناتا، شیخ تو کچھ بھی نہیں، وہ تو اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتا دوسروں کو کیا سنبھالے گا، لیکن اللہ کرتا ہے، اللہ جل شانہٗ اُس نسبت کی وجہ سے کرتا ہے جو نسبت اس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاصل ہوتی ہے، اس نسبت کی وجہ سے وہ اس طرح کرتا ہے۔ تو یہاں پر بھی اس قسم کی بات ہے کہ عوام کو تو اس کا فائدہ ہوتا ہے کیونکہ عوام اپنے آپ کو محتاج سمجھتے ہیں، لیکن جو خواص ہوتے ہیں، وہ خواص جو اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے ان کو تو بہت کچھ مل جاتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ استعداد بھی ہوتی ہے اور احتیاج بھی ہوتی ہے دونوں چیزیں ہوتی ہیں، عوام میں استعداد نہیں ہوتی، تو اس میں بھی ان کو تھوڑا مل جاتا ہے، جیسے ملتا ہے۔ اور خواص کے اندر طلب نہیں ہوتی، تو خواص کے اندر اگر طلب آجائے تو استعداد تو ان کے اندر پہلے سے ہے تو پھر تو بہت کچھ مل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ ایسے ہے جیسے اللہ والوں کی اولاد۔ اللہ والوں کی اولاد یا تو آوارہ ہوگی یا پھر بہت بڑی ولی اللہ ہوگی، کیوںکہ اگر ان میں استعداد ہے اور ان میں طلب ہے، پھر تو سمندر موجود ہے، بس فوراً ان کو سب کچھ مل جاتا ہے، لیکن اگر ان میں طلب نہیں ہے تو اتنے قریب ہونے کی وجہ سے اگر وہ بے قدری کرتے ہیں تو آوارہ ہو جائیں گے۔ تو ظاہر ہے محروم ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ان کے اندر استعداد ہے تو پھر بن جائیں گے۔ جیسے مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ، اب ان کی اولاد کو اللہ پاک نے استعداد دی تھی طلب بھی دی تھی، تو کیا بن گئے۔ آج کل دنیا میں ان کا ڈنکا ہے، مولانا تقی عثمانی صاحب کا اور مفتی رفیع عثمانی صاحب کا، یا مولانا اسعد مدنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا، اس طرح مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے جو بیٹے تھے مولانا یوسف کاندھلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا۔ تو ایسے لوگوں کا تو ڈنکا بجتا ہے جو اللہ والوں کی اولاد بھی ہو اور ان میں طلب بھی ہو اور احتیاج بھی ہو تو پھر ان کو بہت نوازا جاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو بس میدان خالی ہوتا ہے ان کے لئے، وہ سارے دور دور والے لے جاتے ہیں اور قریب والے محروم ہو جاتے ہیں۔ دور دور والے لے جاتے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ انسان کو اپنے رشتہ داری کی زعم میں آکر محروم نہیں ہونا چاہئے، رشتہ داری انسان کو محروم بنا دیتی ہے بعض دفعہ۔ انسان کا جو رشتہ داری کا زعم ہوتا ہے تو کہتے ہیں میں تو رشتہ دار ہوں مجھے تو مفت میں مل جائے گا۔ ایک دفعہ ہمارے دفتر کے ایک ساتھی تھے اس نے خواب دیکھا، عجیب خواب دیکھا اس نے، اس نے کہا کہ آپ آئے ہیں مدینہ منورہ میں، آپ کے پاس زم زم بھی ہے اور کھجور بھی ہے اور آپ تقسیم کررہے ہیں، تو کہتے ہیں میں دل میں کہتا ہوں کہ ہمیں تو مفت میں مل جائے گا کیونکہ ہم تو ساتھ ہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ نے ہمیں نہیں دیا، کہتے ہیں جب جاگ گیا تو میں نے کہا یہ کیا ہوگیا سب کو مل گیا ہمیں نہیں ملا، میں نے کہا یہ آپ کو اشارہ مل گیا، اشارہ مل گیا کہ طلب چاہئے، یہ نہیں کہ مفت میں مل جائے گا، ساتھ ہیں تو مفت میں ملے گا، ایسے نہیں ہوتا، ساتھ ہوتا ہے لیکن مفت میں نہیں ملتا، اس کے لئے بھی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ جو کوشش کرلے تو ان کو واقعی زیادہ مل جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساتھ جو ہوتے ہیں، ساتھ ہونے کی وجہ سے چونکہ ہر وقت کا ساتھ ہوتا ہے ہر وقت موقع ہوتا ہے تو زیادہ مل جاتا ہے۔ لیکن اب جس میں طلب ہی نہ ہو، دیکھیں! تیز بارش برس رہی ہو اور گھڑے کو آپ الٹا رکھ دیں، اس میں کتنے قطرے آئیں گے؟ ایک قطرہ بھی نہیں آئے گا اور اگر آپ کٹورا رکھ لیں اور بوندا باندی ہورہی ہو تو کچھ نہ کچھ تو آجائے گی، کچھ نہ کچھ تو اس میں آجائے گی۔ تو اسی وجہ سے یہ ہے کہ طلب اور احتیاج یہ بہت ضروری ہے، بغیر اس کے کچھ بھی نہیں ملتا۔ فرمایا:
متن:
منہتی کے اس کہنے کی توجیہ کہ میں کچھ نہیں ہوں:
ارشاد: مُنتَہِی کا یہ کہنا کہ میں کچھ نہیں ہوں۔ آئندہ کے مراتبِ معرفت پر نظر کرکے کہنا صحیح ہے۔ کیونکہ منتہی جو ہے وہ تو کمالات موجودہ کے اعتبار سے ہے جس پر اس کی نظر نہیں اور سرِ مراتب غیر متناہی ہیں۔ چنانچہ حضور ﷺ کو باوجود اَعْلَمُ النَّاسِ وَاَعْرَفُ الْخَلْقِ ہونے کے حکم ہے کہ آپ ترقی کی برابر درخواست کرتے رہئے۔ بقولہ تعالیٰ: ﴿وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾ (طه: 114)
تشریح:
یہ حضرت نے فرمایا کہ جو منتہی ہوتا ہے، منتہی سے مراد یہ کہ جو سلوک کے منازل طے کرچکا ہو۔ وہ جب کہتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں، تو لوگ confuse ہو جاتے ہیں کہ اگر یہ کچھ نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ ہمارے ایک استاد تھے اردو کے، بھٹو کا دور تھا، بھٹو صاحب نے ان دنوں کہا تھا کہ ہم غریب لوگ ہیں، کسی وقت تقریر وغیرہ میں کہا ہوگا، تقریر تو کیا کرتے تھے۔ تو کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں۔ تو اس نے کہا کہ اگر بھٹو صاحب غریب ہیں تو ہم تو غاروں میں رہتے ہیں۔ ظاہر ہے جن کی زمینوں میں کئی کلومیٹر گاڑیاں چلتی ہیں اگر وہ غریب ہیں تو پھر ہم تو غاروں میں رہتے ہیں۔ تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ جو منتہی ہوتے ہیں اگر وہ کہہ دیں کہ ہم کچھ بھی نہیں، تو وہ کہتے ہیں اگر یہ کچھ بھی نہیں تو پھر ہم کیا ہیں۔ لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے، تو کیا وہ کچھ بھی نہیں تھے؟ ان کا کچھ بھی نہیں ایک اور reference سے تھا، reference مختلف تھا، وہ reference یہ تھا کہ ان کی طلب اتنی زیادہ تھی کہ ان کے سامنے اپنی حیثیت کچھ بھی نہیں تھی اس طلب کے بقدر۔ ایک آدمی کا ہاضمہ بہت اچھا ہو اور وہ چار روٹیاں کھا سکتا ہو اس کو آپ دو روٹیاں دے دیں اور کہہ دیں انہوں نے تو کچھ بھی نہیں کھایا، تو وہ ٹھیک ہی تو کہتا ہے۔ ظاہر ہے اس نے تو کچھ بھی نہیں کھایا، ابھی تو آدھا بھی نہیں کھایا۔ اور ایک آدمی Hepatitis کا مریض ہے اور اس کا دل کھانے کو نہیں چاہتا، وہ چار نوالے کھاتا ہے اور کہتا ہے اَلْحَمْدُ للہ بہت کھایا۔ تو ٹھیک ہے، وہ ٹھیک ہی تو کہتا ہے، اس نے تو بہت کھایا ہے، چار نوالے اس کے لحاظ سے تو بہت ہیں۔ تو یہ بات ہے کہ جو لوگ صحتمند ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، سلیم الاستعداد جو ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، ان کی اپنی موجودہ حالت پہ نظر ہوتی ہے اور طلب ان کی آگے کی ہوتی ہے، لہٰذا اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے، اور اپنے بڑوں پہ نظر ہوتی ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہماری دستار بندی کا جب فیصلہ ہوگیا کہ دستار بندی کرنی ہے، کہتے ہیں ہم طلباء جمع ہوگئے اور آپس میں مشورہ کیا کہ ہم لوگوں کو تو علم کی ہوا بھی نہیں لگی، تو یہ اگر ہماری دستار بندی ہوگئی تو ہم کو تو لوگ علماء کہیں گے، اس سے بدنام ہوگا مدرسہ، تو یہ تو مناسب نہیں، چلو چلتے ہیں اور اپنے استادوں کو کہتے ہیں دستار بندی رکوا دو۔ چلے گئے مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ جو ان کے خاص تھے، ان کے پاس گئے کہ حضرت مدرسہ کو بہت نقصان ہوگا، اگر آپ لوگ ہماری دستار بندی کرلیں گے تو لوگ ہمیں عالم سمجھیں گے اور ہمیں تو علم کی ہوا بھی نہیں لگی تو ایسا ہو جائے گا کہ پھر مدرسہ کی بدنامی ہوگی لہٰذا آپ دستار بندی رکوا دیں۔ کہتے ہیں ہماری بات سن کر استاد کو وجد آگیا، فرمایا ہاں! اصل میں یہی کہنا چاہئے، تم ٹھیک ہی کہتے ہو اپنے استادوں کے درمیان میں انسان جب ہو تو ایسا ہی کہنا چاہئے۔ لیکن یاد رکھو! ذرا باہر جاؤ گے تو تم ہی تم ہوگے، آگے میدان صاف ہے۔ اگر باہر جاؤ گے پھر پتا چلے گا، تم ہی تم ہوگے آگے میدان صاف ہے۔ اور یہ بات بالکل صحیح تھی حضرت کی، اب اس دور میں یہی حضرات تھے کہ بس جن کا نام لیا جاتا ہے علم کے لحاظ سے۔ تو کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ ہے کہ ان کو باوجود اتنی علمی استعداد ہونے کے اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اپنے استادوں، جن کی نظر مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ پہ ہو، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ پہ ہو، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ پر ہو، ایسے ایسے رئیس الاساتذہ پر جن کی نظر ہو وہ اپنے آپ کو کیا سمجھیں گے؟ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھیں گے، لیکن کیا حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہوں گے؟ حقیقت میں تو بہت کچھ ہوں گے۔ تو یہاں پر یہی بات ہے کہ جو منتہی حضرات ہیں وہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں کہتے اور کہتے ہیں ہم کچھ بھی نہیں، لیکن وہ اصل میں موجودہ حالت کے اعتبار سے کہتے ہیں۔ آگے جاکر تو ما شاء اللہ، اللہ پاک ان کو بہت کچھ دیتے ہیں۔