اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
فرماتے ہیں:
شیخ موافق سنت کا اتباع کرے:
ارشاد:
جس کے اعمالِ ظاہرہ و باطنہ منہاجِ شریعت پر ہوں، اس کی صحبت سے استفادہ کرے، اصل چیز اعمال ہی ہیں اور حدود و سنت کے اندر رہ کر جو کیفیت پیدا ہوتی ہے تو وہ بعض مرتبہ اتنی لطیف ہوتی ہے کہ خود صاحب کیفیت کو بھی اس کا ادراک نہیں ہوتا۔
تشریح:
حضرت اس میں یہ ارشاد فرمانا چاہتے ہیں کہ وہ شخص جس کے اعمال جو ظاہری اور باطنی ہیں شریعت پر ثابت ہوں، شریعت کے اصولوں پر منطبق ہوں تو اس کی صحبت سے استفادہ کرنا چاہئے اور اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ استفادہ یعنی فائدہ حاصل کرنے کے لئے اصل چیز اعمال ہی ہیں۔ یعنی کیفیات جو ہیں وہ بھی اعمال کے لئے ہوتی ہیں۔ مثلاً کیفیتِ احسان ہے جو سب سے بڑی کیفیت ہے، جس کے لئے انسان کو بہت کچھ کوشش کرنی پڑتی ہے اور حدیث شریف میں اسی کا مطالبہ ہے، ”مَا الْإِحْسَانُ؟“ احسان کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ“ تو ایسے عبادت کر جیسے کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے، ”فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ“ (بخاری، حدیث نمبر: 50) اور اگر تو اس کو دیکھ نہیں سکتا تو یہ تو تمھیں سمجھ میں ہو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ تو یہ بھی ایک کیفیت ہے اور اس کیفیت کو حاصل کرنے کا مطالبہ ہے حدیث شریف میں۔ لیکن یہ بھی اصل میں اعمال کے لئے ہے، کیونکہ جس کو کیفیت احسان ہوگی تو اس کے اعمال کے اندر جان ہوگی۔ کیونکہ جو شخص جس کے ساتھ انسان کو واسطے ہیں سارے یعنی سارا فائدہ اور نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے، اگر اس کو دیکھ رہا ہوگا تو وہ عمل کیسے کررہا ہوگا؟ اور اگر یہ حالت اس کو حاصل نہیں ہوسکتی تو اگر اس کو کم از کم اتنا پتا ہو کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے تو پھر وہ اعمال کیسے ہوں گے؟
ایک دفعہ میرے ایک ساتھی تھے اس کی فیکٹری تھی، میں اس کے پاس گیا تھا تو میں نے دیکھا کہ چھوٹا سا ٹی وی اس کے سامنے دیوار پر لگا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ بھائی آپ ٹی وی دیکھتے ہیں؟ کہتے ہیں یہ ٹی وی نہیں ہے، میں نے کہا یہ کیا ہے؟ کہتے ہیں کیمرہ ہے، میں نے فیکٹری کی مختلف جگہوں پہ کیمرے نصب کیے ہوئے ہیں، اور یہ ٹی وی مجھے وہ دکھا رہے ہوتے ہیں کہ کیمرے کے اندر کیا آرہا ہے۔ مجھے پوری فیکٹری کا پتا چلتا ہے کہ کون کام کررہا ہے اور کون نہیں کررہا اور ان کو بھی پتا ہے کہ مجھے اس کا پتا چل رہا ہے، لہٰذا وہ لوگ بے شک میں یہاں نہ بھی بیٹھا ہوں تو وہ کام ٹھیک کررہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہوتا ہے ہر وقت ہمیں نوٹ کیا جارہا ہے۔ تو اب دیکھ لیں ایک فیکٹری کے اندر اگر اس کا انتظام کیا جائے تو اس سے نتائج بڑے اچھے سامنے آجاتے ہیں تو اگر کسی کے دل میں خیال ہو کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، علمی لحاظ سے تو ہم سب کو معلوم ہے، علمی لحاظ سے کس کو پتا نہیں ہے کہ اللہ پاک ہمیں دیکھ رہا ہے؟ لیکن یہ حال کے درجہ میں آجائے، انسان کے محسوسات میں آجائے اور انسان باقاعدہ اس کے مطابق فکر پیدا کرلے اور پھر اس کے اعمال کے اندر جان آجاتی ہے۔ تو اصل چیز اعمال ہیں اور اعمال دو قسم کے ہیں: ظاہری اعمال ہیں اور باطنی اعمال ہیں۔ جو ظاہری اعمال ہیں اس کا حکم ظاہر کے درست کرنے کے متعلق ہے اور جو باطنی اعمال ہیں وہ باطن کے درست کرنے کے متعلق ہیں۔ مثلاً ظاہری اعمال نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ، معاملات، معاشرت، اور جو باطنی اعمال ہیں وہ تکبر، ریا، بغض، کینہ، حسد وغیرہ کو دل سے نکالنا، اخلاص پیدا کرنا، تواضع پیدا کرنا، اللہ پاک سے راضی رہنا، اللہ کی محبت کا ہونا؛ یہ سارے باطنی اعمال ہیں۔ تو جن کے باطنی اعمال اور ظاہری اعمال دونوں شریعت کے مطابق ہوں، جیسے کہ اللہ پاک نے چاہا تو اس کے مطابق ہوں، تو پھر ظاہر ہے اصل مقصود یہی ہے۔ اور اگر کوئی شیخ ان دو چیزوں کو حاصل کرچکا ہو تو ان کی مجلس میں بیٹھنے سے، ان کی صحبت میں رہنے سے یہ اعمال اس کی صحبت کی وجہ سے جو اس کے ساتھ بیٹھنے والے مصاحبین ہیں، ان کے اندر بھی آجائیں گے، ان سے فائدہ ہوگا، یہی استفادہ ہے۔
تو جہاں تک کیفیتوں کے محسوس کرنے کی بات ہے تو یہ ہر وقت محسوس نہیں ہوتیں، بعض کیفیات تو محسوس ہوتی ہیں مثلاً کسی کو رونا آرہا ہو اور کسی کے اوپر ہنسی طاری ہے، کسی کو جوش ہے اور کوئی مست ہے، یہ ساری کیفیات، یہ محسوس چیزیں ہیں، یہ محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن وہ کیفیت کہ چپکے چپکے اندر ہی اندر اللہ کے ساتھ تعلق ہو جس کا اور کسی کو پتا نہ ہو، تو شاید اس شخص کو بھی پتا نہ چل رہا ہو جس کو یہ حاصل ہوں۔ یہ لطیف چیزیں ہوتی ہیں، یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص ان کو جان لے۔ ہاں! جو صاحبِ ادراک ہوتا ہے وہ ان کو جانتا ہے کہ یہ کیفیات ہیں، ہر ایک آدمی ان کو نہیں جان سکتا۔ تو اس لئے حضرت نے فرمایا کہ جو شیخ ان چیزوں کا حامل ہے اور مطابقِ سنت زندگی گزار رہا ہے ظاہر اور باطن کا، تو اس کی صحبت میں بیٹھنے سے فائدہ ہوتا ہے اور اس سے استفادہ کرنا چاہئے۔
سب کاملین کو اپنے نقص نظر آتے ہیں اور یہی مقتضا ہے عبدیت کا:
ارشاد:
پورا کامل بجز انبیاء کے کوئی نہیں اور وہ کاملین بھی اپنے کو کامل نہیں سمجھتے، سب کو اپنے نقص نظر آتے ہیں، خواہ وہ نقص حقیقی ہوں یا اضافی۔ اور نقص نظر آنے سے مغموم بھی ہیں اور مغموم بھی ایسے اگر ہم جیسوں پر وہ غم پڑ جائے تو کسی طرح جانبر نہیں ہو سکتے۔ کمال کی تو توقع ہی چھوڑنا واجب ہے۔ ہاں! سعی کمال کی توقع بلکہ عزم واجب ہے، اس کی مثال وہ مریض ہے جس کی تندرستی سے تو مایوسی ہے مگر فکر صحت اور اس کی تدبیر کا ترک جائز نہیں سمجھا جاتا اور نجات بلکہ قرب بھی کمال پر موقوف نہیں فکر تعمیل پر موعود ہے۔
﴿إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ﴾ (آل عمران: 9)۔ بس اسی طرح عمر ختم ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے وَھٰذَا ھُوَ مَعْنٰی مَا قَالَ الرُّوْمِیُّ رحمۃ اللہ علیہ:
اندریں رہ می تراش و می خراش
تا دم آخر دمے فارغ مباش
تا دم آخر دمے آخر بود
کہ عنایت با تو صاحب سر بود
سب سے آخر میں خواہ اس کو اظہار حال کہیے یا آپ کی ہمدردی یا رفعِ التباس جو چاہے نام رکھیے، یہ کہتا ہوں کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں۔ مگر اس کو مبارک سمجھتا ہوں، جس سے یہ اثر ہے کہ یہ سمجھ نہیں سکتا کہ خوف کو غالب کہوں یا رجا کو، مگر مُضطرّ ہو کر اس دعا کی پناہ لیتا ہوں جس سے کچھ ڈھارس بندھتی ہے: ’’اللّٰھُمَّ کُنْ لِیْ وَاجْعَلْنِیْ لَکَ‘‘۔
تشریح:
حضرت نے اس میں ایک بڑی ہی اہم لیکن مشکل سے سمجھ میں آنے والی بات بتائی ہے۔ مشکل سے سمجھ میں آنے والی بات یہ ہے کہ عملی طور پر مشکل ہے نظریاتی طور پر مشکل نہیں ہے عملی طور پر مشکل ہے۔ اور وہ یہ بات کہ حضرت نے فرمایا کہ انبیاء کے بغیر کوئی بھی نقص سے خالی نہیں ہے، ہر شخص کے اندر نقص ہے لیکن کام سب کو کرنا ہے، منزل تک سب کو پہنچنا ہے، منزل تک سب کو پہنچنا ہے۔ فرمایا کہ جو کاملین ہیں وہ بھی اپنے آپ کو کامل نہیں سمجھتے۔ آپ ﷺ کی ایک حدیث شریف کی دعا ہے: ”اے اللہ! میں نے تیری ثناء کا حق ادا نہیں کیا“۔ یہ کیا ہے؟
فرمایا کہ سب کو اپنے نقص نظر آتے ہیں، خواہ وہ نقص حقیقی ہوں یا اضافی۔ اضافی سے مراد یہ ہے کہ اس کی طلب اتنی زیادہ ہو جائے کہ اس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کے اندر نقص لازم سمجھ لے حالانکہ وہ نقص موجود نہ ہو۔ اور حقیقی بھی ہوسکتے ہیں ہم جیسے لوگوں میں ہے۔ پھر فرمایا کہ جو نقص ہیں جو ان کو نظر آتے ہیں اس سے وہ مغموم بھی ہوتے ہیں، غم بھی ان کو ہوتا ہے اور غم بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، اتنا کہ ہم لوگ اس کو برداشت ہی نہ کرسکیں۔ اس لئے حضرت نے نصیحت فرمائی ہے کہ یہ تو سوچو ہی نہیں کہ میں کامل ہو جاؤں گا، فرمایا کہ جو کمال کا مدعی ہے وہ ابھی مبتدی بھی نہیں، کیوں؟ اس کو تو اس کی ہوا بھی نہیں لگی، اس کو تو یہ بھی پتا نہیں کہ میں کامل نہیں ہوں، اس کو تو اس بات کا بھی پتا نہیں ہے، اس کو تو اپنے نقص کا بھی پتا نہیں چلا ابھی، اور مبتدی کو کم از کم نقص کا تو پتا چلنا چاہئے۔ تو جو کمال کا دعویٰ رکھتا ہے اس کو تو اپنے نقص ہی نظر نہیں آرہے اس کو تو یہ بھی پتا نہیں چل رہا، اس وجہ سے وہ ابھی مبتدی بھی نہیں، ابھی تو اس کو بہت کوشش کرنی پڑے گی
صوفی نشود صافی تا در نکشد جامے
بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے
صوفی اس وقت تک صافی نہیں ہوسکتا جب تک وہ عشق کا جام نہ کھینچے۔ بہت زیادہ سفر طے کرنا پڑے گا اس وقت تک کہ یہ خام پختہ بن جائے۔ فرمایا کہ کمال کی تو توقع ہی چھوڑ دی جائے، کمال تو ہم حاصل نہیں کرسکتے، ہاں یہ کرسکتے ہیں کہ ہم راستہ وہی اپنائیں جس طرف کمال حاصل ہو۔ راستہ وہی اپنانا پڑے گا جس طرف کمال حاصل ہو لیکن کمال کی تو توقع ہی ہمیں نہیں ہوسکتی، ہم کمال حاصل کر نہیں سکتے۔ پھر فرمایا کہ اس بات کی سعی کہ میں اس راہ پہ گامزن رہوں، یہ عزم اس کا واجب ہے۔ توقع کیا، اس کا عزم واجب ہے۔ یعنی کمال کے اوپر اپنے آپ کو فائز نہیں سمجھنا چاہئے اور نہ اس بات کا وہ سمجھ سکتا ہے کہ ہم لوگ بھی باکمال ہوسکتے ہیں، ہاں یہ بات ہے کہ اس راستے پہ گامزن رہنا چاہئے کیونکہ اس کا حکم ہے۔ ہمیں اس راستہ پہ چلنا ہے۔ مثال کے طور پر آسان بات بتاتا ہوں، کیا ہم نبی بن سکتے ہیں؟ کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ نبی بنے؟ نہیں، نبی نہیں بن سکتے، لیکن انبیاء کے راستے پہ چلنا ہے یا نہیں چلنا؟ انبیاء کے راستے پہ تو چلنا ہے لیکن نبی کوئی بن نہیں سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمال تو ہم حاصل نہیں کرسکتے لیکن اہل کمال کے پیچھے چلنا ہے، ان کے راستے پہ چلنا ہے، منزل وہی بنانی ہے، اپنے لئے منزل target وہی بنانی ہے۔ دور ایک روشنی کا مینار نظر آرہا ہے ہماری منزل وہی کہ ہم اس پر جائیں گے لیکن ہر وقت ہمیں اس بات کا احساس ہو کہ اس منزل پہ ہم پہنچے نہیں، ہم لوگ مسلسل اُس طرف جارہے ہیں۔ target ہمارا وہی ہو لیکن ہم اسی کو کبھی بھی یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں وہ target achieve ہوگیا ہے۔ جس شخص نے سمجھا وہ target achieve ہوگیا اس کی ترقی وہیں رک گئی، وہ آگے نہیں جاسکتا۔ لہٰذا اپنی منزل کی طرف بڑھنا چاہئے، عزم رکھنا چاہئے، اپنے سفر کو روکنا نہیں چاہئے، وہ جاری رہنا چاہئے۔ فرمایا: اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک مریض ہو اور اس کی صحت پہ مایوسی ہو جائے کہ یہ اب ٹھیک نہیں ہوسکتا، لیکن پھر بھی ہم لوگ یہ نہیں کرسکتے کہ اس کا علاج چھوڑ دیں۔ آپ کو تو بڑا تجربہ ہوگا، بہت سارے مریض آپ کے پاس ایسے آئے ہوں گے اس کے بعد آپ کو پتا ہوگا کہ یہ reversible نہیں ہے۔ کیا خیال ہے ختم کردیتے ہیں؟ اب اس کے گلے پہ چھری پھیر دو، یہ ٹھیک تو نہیں ہوسکتا۔ تو یہی بات ہے کہ فرمایا کہ اس کی مثال اس مریض کی ہے جس کی تندرستی سے تو مایوسی ہو لیکن اس کی صحت کی فکر مسلسل جاری ہو کیونکہ اس کی صحت کی فکر کو چھوڑنا یہ گناہ ہے، وہ ہم نہیں کرسکتے، وہ ہمیں جاری رکھنا ہوتا ہے، فیصلہ اللہ کا وہ اپنی جگہ پر، ہم لوگ کیا کررہے ہیں ہم سے وہ پوچھا جائے گا۔ ہم لوگ کس بات کے محافظ ہیں وہ ہمیں سوچنا چاہئے۔ جو اللہ کا فیصلہ ہے وہ تو وقت پر ہو جائے گا۔ تو فرمایا کہ اسی طریقہ سے یعنی مسلسل عمل جاری رکھنا چاہئے۔
اندریں رہ می تراش و می خراش
تا دم آخر دمے فارغ مباش
اندر ہی اندر ادھیڑ بُن میں لگے رہو، پتا نہیں میری کیا حالت ہے، میری کیا حالت ہے، مجھے آگے نہیں جانا چاہئے، مجھے آگے نہیں جانا چاہئے۔ فرمایا آخر دم تک فارغ نہیں بیٹھو۔
تا دم آخر دمے فارغ مباش
تا دم آخر دمے آخر بود
یعنی آخر وقت تک بھی جو آخری لمحہ ہے ممکن ہے اسی وقت آپ کے اوپر فضل ہو جائے، ممکن ہے آخری وقت ہی آپ کے اوپر فضل ہو جائے، اس لئے مایوس نہیں ہونا چاہئے، اپنی ہمت جاری رکھنی چاہئے، کوشش جاری رکھنی چاہئے لیکن کبھی بھی اپنے آپ کو باکمال نہیں سمجھنا چاہئے، اسی ادھیڑ بن میں لگے رہنا چاہئے کہ پتا نہیں میری کیا حالت ہے، پتا نہیں میری کیا حالت ہے۔
یہ دیکھیں! یہ ایک صوفی کی کتاب ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صوفی تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں صوفیانہ باتیں کہاں سے نکالی ہیں، یہ کیا مسئلہ ہے؟ تو چلیں صوفیوں کی باتیں بند کرکے صحابہ کی باتیں کرتے ہیں، صحابہ کی باتیں تو صوفیوں کی باتیں نہیں ہیں ناں؟ وہ تو صحیح بات ہے اس میں تو کوئی ادھر ادھر کی بات نہیں کرسکتا۔ مجھے آپ بتا دیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے عقیدے کے مطابق افضل البشر بعد الانبیاء ہیں یا نہیں ہیں؟ افضل البشر بعد الانبیاء ہمارا عقیدہ یہی ہے اہل سنت و الجماعت کا۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل کیا ہے؟ وہ اپنے آپ کو باکمال سمجھتے تھے؟ باکمال تو کیا وہ فرماتے تھے کاش میں ایک تنکا ہوتا جو کوئی کھا لیتا، کاش میری ماں نے مجھے جنا نہ ہوتا، کاش ایسا ہوتا، کاش ایسا ہوتا۔ میرے ساتھ حساب ہوگا اور ان کے ساتھ حساب نہیں ہوگا۔ اب دیکھیں! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کو آپ ﷺ نے کئی طرح بشارتیں دیں، کئی طرح بشارتیں دیں، ان بشارتوں کو حق سمجھتے ہوئے بھی آپ ﷺ کی بات پر ان سے زیادہ کون اعتبار کرسکتا ہوگا؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اتنا زیادہ آپ ﷺ پر اعتماد اور یہ کیفیت اتنی زیادہ strong کہ اس کے ہوتے بھی اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھنا۔ اب یہ صوفیوں کی باتیں تو نہیں ہیں، یہ صحابہ کی باتیں ہیں۔
پھر دوسرے نمبر پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چپکے سے کہتے ہیں حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ مجھے آپ حضور ﷺ کے راز نہ بتائیں میں یہ نہیں پوچھ رہا، اتنا بتا دیں کہ کیا میرا نام منافقوں میں تو نہیں؟ آپ اندازہ کریں کہاں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کہاں منافق، جن کے بارے میں آپ ﷺ فرما رہے ہیں: ”عمر جس راستہ پہ چلتا ہے اس راستہ پہ شیطان نہیں آسکتا“ شیطان اس راستہ پہ نہیں آسکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان کی زبان پہ حق بولتا ہے“۔ اس کے باوجود اتنی زبردست کیفیت، اتنی strong کہ وہ ساری چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی۔ اور دیکھیں! آخر وقت جو انسان کا ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ clear ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ انسان آخر میں تو bluff نہیں کرتا کم از کم، جو انسان اس دنیا سے جارہا ہو اُس وقت تو bluff کم از کم نہیں کرتا، وہ تو صحیح بات کررہا ہوتا ہے اُس وقت۔ اُس وقت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل ہے، حالانکہ شہید ہورہے ہیں، شہید ہورہے ہیں لیکن اپنے ساتھی سے کہتے ہیں میرا سر مٹی پہ رکھ دو۔ پھر اللہ پاک سے مخاطب ہوکے کہتے ہیں: یا اللہ! اگر تو نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں تباہ ہو جاؤں گا، میں تو کہیں کا بھی نہیں رہوں گا، اور رونا شروع کردیا۔ روتے رہے، روتے رہے، روتے رہے، اس حالت میں جان دے دی، یہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھیں، قبر کو دیکھ کے رو پڑتے ہیں، روتے رہتے، روتے رہتے۔ علی کرم اللہ وجہہ، زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو عشرہ مبشرہ ہیں، جن کو بشارتیں ملی ہیں، ان سب کا یہ حال ہے۔ یہ صوفیوں کی باتیں نہیں ہیں، یہ باتیں صحابہ کرام کی ہیں۔ یہ جو حضرت نے فرمایا آخر ان کے پاس یہی تو دلائل ہیں کہ باکمال بھی ہیں لیکن اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ اور واقعتاً یہ عملاً سمجھنا بڑا مشکل ہے کیونکہ ان دو چیزوں کو جمع کرنا آسان نہیں ہے۔ جس کے دل میں اللہ پاک اتنی وسعت پیدا فرما دے کہ دو چیزیں جمع ہوسکیں تو پھر ان کو یہ چیز ملتی ہے۔
در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق
هر هوسناکے نداند جام وسندان باختن
ایک ہاتھ میں عشق کا جام ہو اور دوسرے میں سندان عشق کا ہو، یہ شریعت کا جام اور دوسرے میں عشق کا سندان ہو، ہر دعویٰ کرنے والے کو یہ دونوں چیزیں نہیں ملا کرتیں۔ حضرت نے بھی فرمایا ہے کہ میں بھی اپنا حال بتاتا ہوں کہ میں بھی اس کشمکش میں ہوں، اُدھیڑ بُن میں ہوں کہ میری کیا حالت ہے۔ فرمایا اس کو میں اپنے لئے مبارک سمجھتا ہوں اور میں نہیں کہہ سکتا ہوں کہ مجھ پر خوف غالب ہے یا رجاء، ہاں! اِسی وجہ سے مضطر ہوکر اللہ پاک کے سامنے کہتا ہوں’’اَللّٰھُمَّ کُن لِّیْ وَاجْعَلْنِیْ لَکَ“ یعنی اے اللہ میرے لئے خود ہی اختیار فرما دے، مجھے خود ہی توفیقات سے نواز دے۔ بلکہ ایک دفعہ حضرت نے فرمایا کہ جنت کا تو تصور کرنا بڑے لوگوں کا کام ہے، ہمیں تو اگر جنتیوں کی جوتیوں میں بھی جگہ مل جائے تو یہ بڑی بات ہے۔ اور یہ بھی اپنے استحقاق کی بنیاد پر نہیں کہتے، اس لئے کہ جہنم کے نام سے خوف آتا ہے، اس طرف ہمارا ذہن نہیں جاتا، اس کا تو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ تو یہ ہے بڑوں کی بات۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرما دے۔