شیخ طریق کی تقلید کی وجہ:
ارشاد: امام ابو حنیفه رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید تو احکام میں کی جاتی ہے اور شیخِ طریق کی تقلید معالجات اور امورِ انتظامیہ میں کی جاتی ہے، اس لئے غیر مقلد شیخ حنفی کی تقلید سے مقلد نہ بن جائے گا۔
مطلب یہ ہے کہ تقلید تو فقہ میں ہے۔ اور شیخ جو ہوتا ہے، اس کی بات اپنے روحانی علاج کے لئے ہے کہ انسان اپنی روحانی بیماریاں دور کرنے کے لئے اس کے پاس جاتا ہے، تو یہ میدان ہی الگ ہے، اس وجہ سے اگر کوئی شخص کسی مقلد شیخ کا مرید ہوجائے تو ضروری نہیں کہ وہ تقلید شروع کرلے، کیونکہ وہ چیز ہی الگ ہے۔ جیسے یہاں پر مجھ سے ایک اہلحدیث بیعت ہوئے تھے، تو میں نے ان سے کہا کہ میں تم سے صرف دو باتوں کا پوچھوں گا، باقی نہیں (نہ آپ سے آمین بالجہر کا پوچھوں گا، نہ آپ سے کسی اور مسئلہ کے بارے میں پوچھوں گا۔ میں نے کہا یہ تو ہمارے اماموں میں بھی مسائل ہیں، تو اس میں آپ سے کچھ نہیں کہوں گا) کہ ایک تو آپ اماموں کے اوپر بدگمانی نہ کریں اور دوسرا ان کے خلاف بدزبانی نہ کریں، بس یہ دو کام آپ کریں، اس کے بعد میں آپ سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ آپ آمین بالجہر کرتے ہیں یا نہیں، آپ رفع الیدین کرتے ہیں یا نہیں یا آپ نماز میں اٹھتے کیسے ہیں، بیٹھتے کیسے ہیں، یہ بات میں آپ سے نہیں پوچھوں گا، کیوںکہ یہ میرا domain ہی نہیں ہے، یہ میرا کام ہی نہیں، تو میں زبردستی آپ کے اوپر کیوں یہ نافذ کروں؟ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسا کیا تھا جب ایک اہلحدیث بیعت ہوئے تو انہوں نے رفع الیدین چھوڑ دیا اور آمین بالجہر بھی چھوڑ دی، اور حضرت کو پتا چل گیا تو حضرت نے فرمایا بھائی! بات یہ ہے اگر آپ لوگوں کی تحقیق بدل گئی ہو تو وہ تو ٹھیک ہے، وہ تو اچھی بات ہے، لیکن اگر آپ میری وجہ سے کررہے ہیں، تو میں حدیث کو چھڑوانے کی ذمہ داری نہیں لے سکتا، میں آپ کو نہیں کہوں گا کہ یہ کریں۔ اصل میں یہ بہت بڑے ظرف کی بات ہے۔ تو اس وجہ سے تقلید کا معاملہ اور ہوتا ہے۔ اس لئے مجھ سے بہت سارے اہلحدیث بیعت ہیں اور میں نے کسی سے بھی نہیں پوچھا، بلکہ خواتین تو بہت زیادہ ہیں اہلحدیث گھرانوں سے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ خود ہی اپنا ان کا ذہن بن جائے اور آجائیں تو اس میں میں کیا کرسکتا ہوں، میں نے تو ان کو یہ نہیں کہا کہ تم یہ کرو اور تم یہ کرو، لیکن جو خود بخود آئے تو ٹھیک ہے۔ چناچنہ بہاولپور کا ایک غیر مقلد مشہور خاندان ہے، سادات خاندان ہے تو ان کے گھرانہ کی ایک خاتون تھی جو پیروں کی سخت مخالف تھی اور یہ عثمان صاحب جو یہاں آتے ہیں، ان کے خاندان میں بیاہی ہوئی ہے۔ اور بہاولپور میں تو ان کا ملنا جلنا ان کے ساتھ ہوتا تھا تو وہ بحث مباحثہ کرتی، اب اتفاق سے ان کے جو میاں تھے، وہ میزبان بن گئے بہاولپور میں، تو ایک دو دفعہ وہاں پر خواتین کے لئے بیان ہوا اور پھر بعد میں سوالات پوچھے، تو وہ بھی پوچھتی، چونکہ گھر میں بات ہو رہی ہے، تو ان کا شرح صدر ہوگیا، پھر وہ بیعت ہوگئی، پھر اللہ پاک نے اس پر کیا عجیب عجیب برکات کھولیں، واللہ اعلم بالصواب، لیکن اب وہ پورے خاندان میں پھیلا رہی ہے، کوئی فون کرتا ہے جی میں نے بیعت کرنی ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ سلسلہ چلا ہوا ہے۔ تو بہاولپور جو میں جاتا ہوں اس کی وجہ یہی ہے۔ اسی طرح یہ ہمارے اخلاق صاحب ہیں، ان کا جو سسرال ہے، وہ بھی اہلحدیث ہے، اب وہ اپنے خاندان میں پھیلا رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں میں ہم لوگ بات نہیں کرتے جو باادب ہوتے ہیں، جو بے ادب ہوں تو ان سے بات کرتے ہیں، ان سے کہتے ہیں بے ادبی نہ کرو۔ کیونکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف ہم کیسے بات کریں؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف کیسے بات کریں؟ یہ تو ہمارے بڑے ہیں۔ لہٰذا ایسی چیزوں کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھائی! اس طرح نہ کرو، یعنی کبھی کسی کو تو کبھی کسی کو، لیکن یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ نہ کرو، کیونکہ یہ تو حدیث کا مقابلہ ہے جو بہت مشکل کام ہے۔ فرمایا
نفس پر جرمانہ کی سند:
ارشاد: وطیِ حائض اور ترکِ جمعہ پر حضور ﷺ نے تصدق دینار و نصف دینار کا امر فرمایا ہے، جس سے جرمانۂ مال کا بطور معالجہ کے ثبوت ہوتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ حیض کی حالت میں اگر اپنی بیوی سے ملتا ہے اور جمعہ کی نماز چھوڑ دیتا ہے تو اس پر آپ ﷺ نے جرمانہ مقرر فرمایا کہ ایک دینار خیرات کرلو یا آدھا دینار۔ اس سے پتا چل گیا کہ گناہوں پہ جرمانۂ مالی ہوسکتا ہے۔ فرمایا کہ
توَسُّل کی حقیقت:
ارشاد: تَوَسُّل کی حقیقت یہ ہے کہ اے اللہ! فلاں شخص میرے نزدیک آپ کا مقبول ہے اور مقبولین سے محبت رکھنے پر آپ کا وعدہ رحمت ہے ’’اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ‘‘ (سنن ترمذي، رقم الحديث: 2385) میں۔ پس میں آپ سے اس رحمت کو مانگتا ہوں، پس توَسُّل میں یہ شخص اپنی محبت کو اولیاءَ اللہ کے ساتھ ظاہر کرکے اس محبت پر رحمت و ثواب مانگتا ہے اور اولیاءَ اللہ کا مُوجَبِ رحمت و ثواب ہونا نصوص سے ثابت ہے۔ چنانچہ ’’مُتَحَابِّیْنَ فِی اللہِ‘‘ کے فضائل سے احادیث بھری ہوئی ہیں۔ اب یہ اشکال جاتا رہا کہ بزرگی اور برکت کو رحمتِ حق میں کیا دخل؟ دخل یہ ہوا کہ اس بزرگ سے محبت رکھنا حُبّ فِی اللہ کا فرد ہے اور حُبّ فِی اللہ پر ثواب کا وعدہ ہے۔
یہاں حضرت نے ایک عجیب بات فرمائی ہے، آخر حکیم الامت ہیں، بہت سارے لوگ جو توسل کے خلاف ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ توسل بالاعمال تو ثابت ہے، جیسے حدیث شریف میں آتا ہے کہ غار میں تین شخص پھنس گئے تھے۔ اور توسل بالذوات ثابت نہیں ہے، حالانکہ توسل بالذوات بھی حدیث شریف سے ثابت ہے، جیسے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارش مانگی ہے۔ لیکن بہرحال ان کے ساتھ اس وقت حضرت نہیں الجھے، حضرت نے اس کا ایک بہت عجیب علاج فرمایا۔ فرمایا کہ آپ کو اگر کسی اہل اللہ کے ساتھ محبت ہے تو یہ عمل ہے یا نہیں ہے؟ عمل ہے، بہت بڑا عمل ہے، تو اب اگر آپ اس عمل کے ذریعہ سے اللہ پاک سے مانگیں تو یہ توسل بالاعمال ہوا یا نہیں؟ جس کا ثبوت ہے۔ لہٰذا اگر آپ کسی بھی شیخ کے ساتھ یا بزرگ کے ساتھ یا ولی کے ساتھ محبت کرتے ہیں، تو یہ خود من جانب اللہ ایک اچھا عمل ہے اور اس کے ذریعہ سے آپ اللہ سے مانگ سکتے ہیں۔ لہٰذا توسل بالذوات بھی توسل بالاعمال ہی ہے یعنی حضرت نے اس انداز میں فرمایا کہ توسل بالذوات توسل بالاعمال ہی ہے، یہ حضرت نے بحث و جدل سے بچنے کے لئے یہ فرمایا۔ ورنہ اس کا direct جواب بھی ہے، لیکن اس پہ لوگ کہیں گے کہ یہ فلاں ہے، یہ فلاں ہے، تو حضرت نے ایسی آسان بات کی جس کو خود ہی مانتے ہیں تو اسی کے ذریعہ سے ان کو بات سمجھا دی، ورنہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے توسل عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ثابت ہے، جس میں حضرت کہتے ہیں کہ آپ ﷺ حیات ہوتے تھے تو ہم آپ ﷺ کے ذریعہ سے بارش مانگتے تھے، اب جب آپ ﷺ نہیں ہیں، تو ہم آپ ﷺ کے چچا کے ذریعہ سے یہ کرتے ہیں۔ تو اس سے حیات کے توسل کا ثبوت ہوگیا، حیّ شخص کا وسیلہ ثابت ہوگیا۔ اور جو وفات شدہ شخص ہے، اس کی دلیل حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا ہے (یہ دوسرے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں) ان کا عمل ہے کہ انہوں نے دعا سکھائی تھی ایک صاحب کو جس میں ’’بِمُحَمَّدِ النَّبِیِّ‘‘ کے الفاظ آتے ہیں۔ تو اس میں جو دنیا میں نہ ہو اس کے ذریعہ توسل ثابت ہوگیا۔
حقیقت تَوَسُّل پر ایک شبہ کا جواب:
ارشاد: تَوَسُّل کی حقیقت جو اوپر بیان کی گئی ہے، وہ تو کسی کو معلوم نہیں، پھر اس حقیقت کا قصد کرکے کون تَوَسُّل کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو بات جائز ہے، وہ اس وقت تک جائز رہے گی، جب تک ناجائز کا قصد نہ کیا جائے اور ظاہر ہے کہ اہلِ حق جو تَوَسُّل کرتے ہیں، وہ ناجائز معنیٰ کا قصد نہیں کرتے، گو جائز معنی کا بھی قصد نہ ہو۔
مثلاً مجھے آپ بتا دیں کہ اگر کسی کو نماز کا جو مسئلہ ہے، اس کی دلیل نہیں معلوم، لیکن اس مسئلہ پہ عمل کرے تو اس کی نماز ہوجائے گی یا نہیں؟ حالانکہ اس کو دلیل تو نہیں معلوم۔ اگر یہ ہو تو پھر تو سارے مقلدین مارے گئے، کیونکہ تقلید میں دلیل پہ بات ہی نہیں کرتے، تقلید کہتے ہی اس کو ہیں کہ جن پہ اعتماد ہے، بس آپ ان کی بات مانتے ہیں۔ تو یہاں حضرت نے فرمایا کہ اصل چیز یہ ہے کہ وہ بات جائز ہو، اگر جائز ہے تو جو بھی کرے گا ٹھیک ہے، جب تک وہ اس کے ناجائز معنی کا قصد نہیں کرتا۔ ایک مرتبہ ایک مجذوب راستے میں بیٹھے ہوئے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے کہ نہ تو میرا خدا نہ میں تیرا بندہ، پھر میں تیری بات کیوں مانوں؟ نہ تو میرا خدا نہ میں تیرا بندہ، پھر میں تیری بات کیوں مانوں؟ بار بار یہ کہہ رہے ہیں۔ اب کوئی اس کو پتھر مار رہے ہیں، کوئی ٹماٹر مار رہے ہیں، کوئی تھوک رہے ہیں کہ یہ زندیق ہے۔ تو ایک شاہ صاحب آئے جو بزرگ تھے، وہ تھوڑی دیر کے لئے کھڑے ہوکر سنتے رہے اور غور کرتے رہے، پھر انہوں نے کہا کہ آپ یہ کس سے کہہ رہے ہیں؟ تو اس نے آنکھ کھولی اور کہا کہ اَلْحَمْدُ للہ! ایک ہوشیار آدمی سے ملاقات ہوگئی، میں یہ اپنے نفس سے کہہ رہا ہوں کہ نہ تو میرا خدا، نہ میں تیرا بندہ، پھر میں تیری بات کیوں مانوں؟ تو شاہ صاحب نے کہا کہ حضرت! یہ تو بات ٹھیک ہے، لیکن یہ بات یہاں کرنے کی نہیں ہے، آپ گھر میں بیٹھ جائیں اور گھر میں کرتے جائیں، پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، تو وہ اٹھے اور چادر کو کندھے پہ ڈالا اور کہتے ہاں ایسے ہوشیار لوگوں کی بات ماننی چاہئے، اس میں خیر ہے اور چل پڑے۔ تو چونکہ دل میں تو وہی دیکھ رہا تھا، اس لئے اس نے یہ کہا۔ فرمایا:
ہدیہ کو اصل بنانا اور زیارت کو تابع، دلیل قلت محبت کی ہے:
ارشاد: آج کل کا مذاق یہ ہے کہ تحفہ کا اہتمام پہلے کرتے ہیں، زیارت کا قصد بعد میں کرتے ہیں، گویا زیارت تابع ہے اور تحفہ اصل ہے، یہ قلتِ محبت کی دلیل ہے۔
بالکل بعض لوگ جو تحفہ پہلے لے آتے ہیں، ملاقات بعد میں کرتے ہیں۔ تو بھائی! محبت ہونی چاہئے، محبت کے ذریعہ سے اگر آپ کا ہدیہ ہوگا تو وہی قیمتی بنے گا، کیونکہ ہدیہ کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے اور وہ محبت ہے، اگر محبت ہے تو اتنی دیر رکے کیوں؟ اور اگر محبت نہیں ہے تو پھر ہدیہ کیسے؟ یہ معاملہ پھر ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔ تو فرمایا
خالی جائے بھرا آئے کی توجیہ:
ارشاد: خالی جائے خالی آئے یعنی جو عقیدت و محبت سے خالی جائے وہ فیض سے خالی آئے۔ اس کے مقابلہ میں میں نے یہ تصحیح کی ہے کہ خالی جائے بھرا آئے یعنی جو شخص دعویٰ، تصَنُّع و ریا سے خالی جائے وہ نفع سے بھرا آئے گا۔
اصل میں خالی جائے، خالی آئے، کسی بزرگ نے کہا ہوگا، مگر لوگوں نے اس کو یہ سمجھ لیا کہ جو پیسے لے کے نہیں جائے گا، تو اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا، کیونکہ ظاہر ہے جو ڈبہ پیر ہوتے ہیں، وہ تو یہی باتیں لوگوں کو سکھاتے ہیں۔ تو حضرت نے فرمایا کہ اس کے مقابلہ میں میں یہ بات کرتا ہوں کہ خالی جائے اور بھرا ہوا آئے، کیونکہ اگر برتن آپ کا پہلے سے بھرا ہوا ہے تو آپ مزید اس میں کیا ڈالیں گے؟ یہ تو بھرا ہوا ہے، البتہ آپ اس کو خالی لے جائیں گے تو بھرا ہوا آئے گا۔ لہٰذا کہتے ہیں جن کے پاس جاؤ تو دعویٰ اور تصنع سے بچو، اس کو چھوڑو، اس کو پھینک دو، اور جب آپ کا برتن خالی رہ جائے گا تو پھر جب آپ جائیں گے تو ان شاء اللہ! بھرا ہوا آئے گا۔
بڑا ادب ہدیہ کا خلوص و محبت ہے:
ارشاد: حضور ﷺنے فرمایا ہے’’اپنے ھمسایہ کو ھدیہ دیتے رہو، چاہے جلی ہوئی کھری ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ ہدیہ میں خلوص محبت کی ضرورت ہے اور قیمتی و نفیس کی ضرورت نہیں۔
ایک دفعہ ہمارے بزرگ ہیں مولانا شریف ہزاروی صاحب، ان سے دوستی ہے، تو میں بیٹھا ہوا باتیں کررہا تھا کہ میں نے اچانک کہہ دیا کہ مولوی صاحب! دل میں ایک بات آگئی کرلوں۔ ناراض تو نہیں ہوں گے؟ کہتے بتایئے، میں نے کہا دل میں یہ بات آرہی ہے کہ آپ کو پانچ روپے ہدیہ کروں، تو اس نے دونوں ہاتھ اس طرح کرلئے تو میں نے جیسے ہی پانچ روپے نکالے تو انہوں نے بڑی محبت سے لئے اور کہتے ان شاء اللہ! میں عمرہ پہ جاؤں گا تو یہ پیسہ لگا لوں گا۔ اب پانچ روپے کی کیا حیثیت ہے؟ لیکن وہ محبت کی بات تھی، اب اگر میں یہ کہتا مولانا تو بڑے آدمی ہیں، اس کو تو پانچ روپے دینا ٹھیک نہیں، تو اب یہ پانچ روپے تو ہوتے محبت اور مزید جو ہوتے، وہ اچھا نہ ہوتا، اس کی وہ value نہ ہوتی، کیونکہ دل کی آواز تو پانچ روپے کی تھی اور دل کی آواز سے جو زیادہ ہے، وہ تصنع ہے۔ ایسے ہی ایک دفعہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تحصیلدار آئے تھے، تو پچیس روپے دے دیئے، اس وقت پچیس روپے بڑے تھے، تو حضرت نے اس کے دس روپے لے لئے اور پندرہ روپے واپس کرلئے، تو جب وہ صاحب جانے لگے تو ساتھی سے کہنے لگے کمال ہوگیا، دل میں میرے دس روپے ہی آئے تھے، لیکن میں نے کہا کہ اتنے بڑے بزرگ ہیں، ان کو میں دس روپے کیسے دوں؟ تو میں نے پچیس روپے دیئے، تو حضرت نے دس ہی لے لئے اور پندرہ واپس کرلئے یعنی وہ دس ہی قبول ہوگئے، جو دل میں آئے تھے اور پندرہ قبول نہیں ہوئے تھے، کیونکہ وہ تصنع سے آئے ہوئے تھے۔
نجات اصل مقصود ہے:
ارشاد: بڑی بات یہ ہے کہ آخرت میں جوتیوں سے نجات رہے۔ کیسی دوسروں کی تربیت اور کیسی دوسروں کی اصلاح۔۔؟
یہ بات حضرت کی تواضع ہے۔ تو فرمایا بھائی! ہمارا مقصد تو یہ ہونا چاہئے کہ بس آخرت میں عذاب سے بچ جائیں، یہ دوسروں کی تربیت اور دوسروں کی اصلاح کے خیالات ہمارے ہاں نہیں ہوتے، اگر اللہ پاک کسی کا کام کررہا ہے تو مرضی ہے، لیکن بہرحال ہم لوگ اس قابل نہیں ہیں۔ اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ہر انسان کو اپنے آپ کو بچانا چاہئے، سب سے پہلے تو یہی ہے کہ انسان خود بچ جائے اور یہی بات ہے کہ بس نجات حاصل ہوجائے، باقی یہ جو لمبی چوڑی باتیں ہیں، یہ ساری کی ساری دھری کی دھری رہ جائیں گی، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تو فرمایا
آج کل مجاہدہ کی کمی مضر نہیں:
ارشاد: ریاضت و مجاہدہ سے تو بس یہ مقصود ہے کہ نفس کی سرکشی کم ہوجائے اور اطاعت میں آسانی سے لگ سکے۔ چونکہ اب نفوس میں پہلی سی قوت اور سرکشی نہیں رہی۔ نہ اب پہلے سے قویٰ رہے، اس لئے مجاہدہ کی کمی مضر نہیں۔
یعنی فرمایا ریاضت سے اور مجاہدہ سے تو اتنی ضرورت ہے کہ بس انسان کا جو نفس ہے، وہ سرکش نہ رہے، وہ tame ہوجائے، تاکہ وہ شریعت پہ اچھی طرح عمل کرسکے، اس میں مزاحمت نہ کرے، چونکہ اب نفسوں کے اندر وہ قوت نہیں رہی، (یعنی جتنا پرزور گھوڑا ہوگا، تربیت اس کی زیادہ مشکل ہوگی) اب جب گھوڑے ہی کمزور مریل سا ہوگا تو چابک لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، وہ تو کان کھینچنے سے بھی ٹھیک ہوجائے گا۔ اسی طریقہ سے ہمارا بھی آج کل یہی حال ہے کہ کمزوری ہے، تو اتنے سخت مجاہدات کی ہمیں اس وجہ سے ضرورت نہیں ہے کہ پہلے سے ہی مریل سے ہیں، مزید کیا ماریں گے؟ فرمایا
حضرت والا کے معمولات مبنی بر عقل و شریعت ہیں:
ارشاد: حضرت والا حکیم الامت مدظلہ العالی کے پاس رہ کر دو شخص بدظن نہیں ہوسکتے: ایک تو وہ جو پورا عاقل ہو کہ میرے ہر فعل کی حکمت اس کی سمجھ میں آجائے یا وہ جو پورا عاشق ہو کہ میرا جو فعل بھی ہو اس کی نظرِ محبت میں بالکل مناسب اور بجا ہو۔
مطلب یہ ہے کہ عقل سے بھی حکمت سمجھ میں آجاتی ہے اور جو اس کو سوچے ہی نہ، کہتے ہیں بس یہ ٹھیک ہے۔
دراز کردم طرف کچکلا ہے خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنے شیخ یعنی امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھے اور مختلف طریقوں سے باتیں کررہے تھے، تو کسی نے کہا کہ ہر ایک کے لئے اپنا طریقہ ہوتا ہے، اپنا قبلہ ہوتا ہے، تو حضرت نے فوراً فرمایا من قبلہ راست کردم برطرف کج کلا ہے۔ یعنی اس وقت حضرت کی ٹوپی اتفاق سے اس طرح ٹیڑھی ہوگئی، تو فرمایا میرا قبلہ تو اس ٹیڑھی ٹوپی والے کی طرف ہے یعنی جس طرف اس کا قبلہ ہے، میرا قبلہ بھی اس طرف ہے۔ من قبلہ راست کردم برطرف کج کلا ہے تو بس محبت کے آگے آدمی کیا کرسکتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیری
تو یہ چیز اگر نہ ہو تو پھر ساری چیزیں کچھ بھی نہیں ہیں۔
تعلیم استغنائے قلب:
ارشاد: قلب کا تعلّق نہ دوستوں سے رکھے، نہ دشمنوں سے، مگر حقوق سب کے ادا کریں۔
یعنی دل کسی کو نہ دے، دل تو اللہ کا ہے، اللہ کے لئے آپ کسی کا خیال رکھیں، بس دل اللہ کا ہے، باقی حقوق سب کے ادا کریں، یہ آخر اللہ پاک نے ہی مقرر کیے ہیں۔ فرماتے ہیں
مقامات کی تعریف نیز یہ کہ اصلاح میں اس کی کوئی ترتیب نہیں:
ارشاد: مقام کہتے ہیں اخلاقِ باطنہ، حمیدہ، مکتسبہ کے اندر رسوخ و پختگی کو، جیسے: توکل، انس، محبت، تفویض۔ اگر کسی کو ان اخلاقِ باطنہ کے اندر پورے طور پر رسوخ اور پختگی حاصل نہ ہو تو گویا اس کو مقامات حاصل نہیں۔ تو بس اس کا طریقۂ اصلاح یہی ہے کہ طالب کی حالت میں غور کرے اور دیکھے کہ فلاں خصلت اس شخص کے اندر کیسی ہے آیا پختہ ہے یا خام؟ پس اگر کسی خُلق کے اندر خامی دیکھے، تو اس کی اصلاح کردے۔ اور ظاہر ہے کہ اس میں ہر شخص کی حالت جدا ہے، تو پھر ایک ترتیب کیسے ہوسکتی ہے؟ اور اصلی بات تو یہ ہے کہ اس کی فکر ہی میں نہ پڑے کہ کتنا راستہ قطع ہو چکا، اب کتنا باقی ہے۔ اس لئے کہ اس طریق کا تو یہ حال ہے۔
نہ ہر گز قطع گرد و جاۂ عشق از دویدنہا
کہ می بالد بخود ایں راہ چوں تاک از بریدنہا
حضرت تمام عمر کی دوڑ دھوپ کے بعد یہ سمجھ میں آئے گا کہ ہم کچھ نہیں سمجھے۔
مطلب یہ ہے کہ مقامات کس کو کہتے ہیں؟ پہلے اس کی تشریح ہوجائے کہ جو اخلاق حمیدہ ہیں، جن کی اللہ پاک نے تعریف فرمائی ہے، ان اخلاق کو مقامات کہتے ہیں، مثلاً صبر ہے، شکر ہے، توکل ہے، رضا ہے تو یہ مقامات ہیں، یہ سارے کے سارے حاصل ہونے چاہئیں اور اب ان کو حاصل کرنے کے لئے انسان کی شخصیت میں جو variation آتی ہے، وہ حال ہوتا ہے، جیسے آپ کی ہر چیزیں مقام ہیں، لیکن درمیان کی جگہ حال ہے، تو احوال کے ذریعے انسان مقامات حاصل کرتا ہے، لیکن احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں، مقامات تبدیل نہیں ہوتے، وہ اپنی جگہ پہ رہتے ہیں۔ تو اسی طریقہ سے فرمایا کہ بس یہی بات دیکھو، غور کرو کہ کس کے اندر کون سا مقام موجود ہے، کون سا مقام موجود نہیں ہے۔ جو موجود نہ ہو اس کی اصلاح کرلو۔
انکسار و افتقار کا حظ حصولِ مقامات کے حظ سے بڑھ کر ہے:
حضرت مولانا گنگوہی کا ارشاد مبارک ہے کہ اگر کسی کو ساری عمر کی محنت و کوشش کے بعد یہ معلوم ہوجائے کہ مجھ کو کچھ حاصل نہیں ہوا تو اس کو سب حاصل ہوگیا۔ اگر مقامات طے بھی ہوگئے تو ان کے طے ہونے میں وہ حظ نہیں، جو اس سمجھنے میں ہے کہ ہم نے ابھی کچھ بھی راستہ قطع نہیں کیا۔ گویا تیلی کے بیل کی طرح ہیں اور یہ حظ ہے انکسار اور افتقار اور عجز و عبدیت کا۔
کیونکہ عجز ہی سب کچھ ہے، جس کو یہ حاصل ہوگیا تو سب کچھ حاصل ہوگیا۔ اب ہمارے بعض ساتھی ہیں، جب بھی مجھ سے ملتے ہیں تو مجھے اپنی بزرگیاں بتاتے رہتے ہیں کہ میں یہ بھی کرلیتا ہوں، میں یہ بھی کرلیتا ہوں، تو میں کہتا ہوں کہ ابھی راستے میں ہیں، ابھی اس کی بزرگی گئی نہیں ہے، ابھی بزرگی موجود ہے، کیونکہ جس کی بزرگی چلی جائے تو وہ ان چیزوں میں نہیں پڑتا، وہ بس کام خوب کرتا ہے، پورا مکمل کرتا ہے، لیکن سمجھتا اس کو کچھ بھی نہیں ہے، کہتا ہے مجھ سے غلطی ہوگئی، میں نے پورا نہیں کیا۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ کے پاس بہت ہی کوئی عظیم شخص آجائے، جس کے لئے آپ کے دل میں بڑا احترام ہو کہ آپ اپنے آپ کو ذبح بھی کردیں تو آپ کہیں گے کہ کچھ بھی نہیں کیا، تو جو کچھ آپ کے پاس ہے، وہ سب کچھ آپ کردیں، لیکن پھر بھی آپ کہیں گے، کچھ نہیں ہوا۔ جیسے مرزا غالب نے بھی بڑا اچھا شعر کہا ہے اس موقع پر
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
جب یہ والی بات ہے تو انسان اللہ پاک کا حق کیسے ادا کرسکتا ہے؟ اس لئے انسان سمجھے کہ یہ جو عبادت میں کررہا ہوں، یہ تو اس لئے کررہا ہوں کہ اللہ اللہ ہے، اس کا حق ہے۔ باقی مانگوں گا اللہ تعالیٰ سے، لیکن اس کا حق ہے کہ وہ مجھے جہنم میں بھی ڈال لے، یہ اس کا حق ہے، مجھے کوئی درمیان میں بولنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ مانگوں گا اس سے، کیونکہ اس نے کہا ہے کہ مجھ سے مانگو، اس لئے میں مانگتا ہوں، لیکن اگر میں ساری عمر تہجد اور عبادت میں گزار لوں اور وہ پھر بھی مجھے جہنم میں ڈال لے تو اس کا حق ہے میرا کوئی حق نہیں۔ لہٰذا اگر کسی کا یہ دل بن جائے تو پھر مجھے بتاؤ کہاں بزرگی آئے گی؟ پھر بزرگی نہیں آئے گی، لیکن یہ بزرگی نکلنا بڑا ہی مشکل کام ہے، یہ اتنا بڑا جن ہے کہ اس جن سے پیچھا چھڑوانا بڑا مشکل کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نکال لے بہت خطرناک بات ہے۔
بشاشت شیخ شرط تربیت ہے:
ارشاد: باطن کا علاج اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ معالج کے قلب میں مریض کی طرف سے بشاشت ہو، بلکہ طبیب ظاہری بھی بغیر بشاشت کے علاج نہیں کرسکتا۔
یعنی باطن کا علاج تبھی ہوسکتا ہے، جب کہ شیخ کے دل میں مرید کے لئے کوئی کدورت نہ ہو۔ اور فرمایا یہ جو ڈاکٹر ہے، وہ بھی بشاشت کے بغیر علاج نہیں کرسکتا، اگر کوئی درمیان میں ایسی چیز آگئی تو اس سے بھی گڑبڑ ہوجائے گی۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔