کسبِ دنیا ممنوع نہیں، حبِ دنیا ممنوع ہے

اشاعت اول: اتوار، 29 اکتوبر 2023

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

کسبِ دنیا ممنوع نہیں، حبِ دنیا ممنوع ہے:

تہذیب: کسبِ دنیا ممنوع نہیں، البتہ اس کی محبت اور دل میں اس کی وقعت کرنا ممنوع ہے، خواہ پیرایۂ مذمت ہی میں ہو۔ کیونکہ جس چیز کی دل میں کچھ وقعت نہ ہو اس کا ذکر مذمت سے بھی نہیں کیا جاتا۔

کیا خیال ہے پاخانے کی کوئی مذمت کرتا ہے؟ بری چیز ہے نا، تو اس کی کوئی مذمت کرتا ہے؟ کون کہے گا جی اس کی بڑی بُو ہوتی ہے، یہ ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ چیزیں facts ہیں، اس میں ہیں۔ لیکن کوئی بھی نہیں کرتا، کیونکہ بے وقعت چیزیں ہیں۔ تو جس چیز کی دل کے اندر وقعت ہو تو اسی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ لہذا اس کا صرف مفید ذکر کیا جائے تاکہ لوگ اس سے بچ جائیں۔ اس کے علاوہ بلاوجہ اس کا ذکر بھی نہ کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بلاوجہ اگر اس کا ذکر کیا جائے گا تو خوامخواہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں گے۔ خوامخواہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں گے۔ تو اس وجہ سے اس کو اتنا بلاوجہ ذکر بھی نہیں۔ فرمایا کسبِ دنیا ممنوع نہیں ہے، البتہ اس کی محبت اور دل میں اس کی وقعت رکھنا ممنوع ہے۔ دنیا کو کمانا ممنوع نہیں ہے، یہ شرائط کے ساتھ ہے۔ اگر صحیح چیز کے لیے کمایا جائے تو ٹھیک ہے۔ اگر غلط نیت سے کمایا جائے تو غلط ہے۔ البتہ یہ ہے کہ چاہے وہ مباح دنیا ہی کیوں نہ ہو، دل میں اس کی وقعت رکھنا اور دل میں اس کے ساتھ محبت کرنا وہ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ ٹھیک نہیں ہے۔

دنیا کے اندر فکرِ مذموم اور فکرِ محمود کی حد:

تہذیب: دنیا کے اندر جو فکر مذموم ہے وہ وہ ہے جو تحصیلِ دنیا کے لیے ہو اس کو مقصود بالذات سمجھ کر۔ اور اگر مقصود بالذات نہ سمجھے تو وہ فکر بھی جائز ہے، کیونکہ حدیث میں ہے: "طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِیْضَةٌ" (إحیاء العلوم، کتاب: قواعد العقائد، الفصل الرابع، جلد: 1، صفحۃ: 119، دار المعرفۃ بیروت)۔

نیز جو دنیا میں فکر ترکِ دنیا کے لیے ہو وہ مطلوب ہے۔ یعنی دنیا اور آخرت میں موازنہ کے لیے تفکر کرنا، ان میں کونسا قابل اختیار کرنے کے ہے اور کون قابل ترک ہے، یہ فکر مطلوب ہے۔

کسی نے کہا کہ حضرت! مجھے دنیا کے خیالات زیادہ آتے ہیں، مطلب دنیا کے بارے میں۔ تو حضرت نے فرمایا پھر اس کو اچھی طرح سوچو۔ اتنا سوچو کہ اس کی ساری برائیاں سامنے آ جائیں۔ اور پھر اپنے آپ کو اس سے بچاؤ۔ تو واقعتاً اگر انسان سوچے تو جتنا جتنا اس کے اوپر سوچے گا تو اس کی برائیاں کھلیں گی کہ کس حد تک انسان کو مختلف اعمال سے غافل کر دیتا ہے۔ کبھی کسی عمل سے غافل کر دے، کبھی کسی عمل سے غافل کردے، کبھی کسی عمل سے غافل کرتا ہے۔

یعنی سب سے بڑی بات یہ ہے میں اکثر مثال دیتا ہوں کہ آج اگر میں اعلان کر دوں کہ جو اس مجلس میں بیٹھے گا اس کو ہزار روپے مجلس ختم ہونے کے بعد ملیں گے، تو آپ کا کیا خیال ہے یہاں پر کوئی جگہ باقی بچے گی؟ جگہ کیا، یہ رستوں میں ٹَھٹ کے ٹَھٹ لگ جائیں گے۔ لیکن یہ جو چیز یہاں پر ہو رہی ہے، کیا دس ہزار روپے سے کم ہے؟ تو اس کی طرف کتنے لوگ آتے ہیں؟ تو دنیا کی محبت کا تو پتہ چل ہی جاتا ہے نا کہ دنیا کی محبت کیا چیز ہے۔ حالانکہ اللہ پاک فرماتے ہیں: بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿16﴾ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿17﴾ (سورۃ الاعلیٰ: ۱۶-۱۷)۔ بلکہ تم دنیا کی زندگانی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت اچھی بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی ہے۔ تو آخرت تو بہت زیادہ مطلوب ہونا چاہیے۔ لیکن آخرت کے لیے انسان کو بڑی کوشش کرنی پڑتی ہے سوچنے کی۔ سوچ سوچ کے چلتا ہے کہ بھئی میں اسی دنیا میں ہوں، اور برائی کی طرف ویسے ہی دل مائل ہوتا ہے مطلب وہ جو ہے نا دنیا کی چیزوں کی طرف دل مائل ہوتا ہے۔ اس سے بچانے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ تو ظاہر ہے مطلب یہ ہے کہ یہ تو ہے۔

تو اس وجہ سے اس کو مقصود بالذات نہ سمجھا جائے۔ اس کو شر سے بچنے کے لیے، جیسے سوال ہے اور اشرافِ نفس ہے، اس سے بچنے کے لیے وہ کرے اور باقی یہ ہے کہ پھر اس کی مذمت، پھر اس کی مذمت کے لیے جو طریقہ ہے کہ اس کا موازنہ کیا جائے آخرت کی چیزوں سے اور اس کی پھر اپنے ذہن میں مذمت رکھے کہ میں نے اس کے اندر مشغول نہیں ہونا ہے۔

آخرت کے مقابلے میں طلبِ دنیا محض حماقت اور جہالت ہے:

تہذیب: امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ آخرت کا وجود نہ ہوتا یا تحصیل دنیا آخرت سے مانع نہ ہوتی تب بھی دنیا کی حقیقت ایسی ہے کہ اس کو معلوم کر کے عاقل ہرگز اس کی طرف رغبت نہ کرتا۔ اور آخرت کے مقابلے میں تو اس کا طلب کرنا محض حماقت ہے اور جہالت ہے۔

مطلب یہ ہے کہ یہ ناپائیدار ہے نا۔ ناپائیدار ہے۔ تو ایک ناپائیدار چیز کے پیچھے پڑنا وہ کہاں کی عقلمندی ہے؟ اس کے مقابلے میں پائیدار چیز کے پیچھے جو ہے نا، مثال کے طور پر میں عرض کروں کہ جس محنت سے انسان کو ایسی چیز حاصل ہوتی ہے جو ایک دن کے لیے مفید ہے۔ اور اتنی محنت سے اگر ایسی چیز حاصل ہو جو ایک سال کے لیے مفید ہے تو آپ کس کو لیں گے؟ سال والے کو لیں گے۔ اور اگر وہ ہزار سال کے لیے مفید ہو، پھر کس کو لیں گے؟ ہاں اور اگر وہ کروڑ سال کے لیے مفید ہو؟ یقیناً اس کو لیں گے اور اگر وہ ہمیشہ کے لیے مفید ہو؟ پھر کس کو لیں گے؟ ظاہر ہے اسی کو لیں گے۔ لیکن ہے آج کل کون سا طریقہ؟ مفید تو چھوڑو، نقصان دہ چیز کو لے لیتے ہیں دنیا کا۔ جو نقصان دیتا ہے۔ وہ ایک دن کے لیے بھی مفید نہیں ہوتا۔ بلکہ نقصان دیتا ہے۔ اس کو لینے کے لیے تلے ہوئے ہیں۔ اور اس کے لیے سو بہانے، سو دلائل۔ بس یہ وجہ ہے اور یہ وجہ ہے، یہ وجہ ہے حالانکہ یہ جو آخرت والی چیز ہے وہ تو اتنی واضح چیز ہے کہ اس کے لیے تو کچھ سوچنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ کیا ہے؟ جہالت ہے۔



مال کا جمع کرنا مطلقاً خلافِ زہد نہیں:

تہذیب: مال کا جمع کرنا مطلقاً خلافِ زہد نہیں البتہ اس کو ذریعہ معاصی بنانا خلافِ زہد ہے۔ بعضوں کے لیے مالدار ہونا ہی مفید ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ کس کو مال سے قرب ہو گا اور کس کو افلاس سے، اس لیے کسی کو مال دیتے ہیں اور کسی کو مفلس رکھتے ہیں۔

میں آپ کو ایک تھوڑا سا موازنہ کراتا ہوں چیزوں کا۔ حدیث شریف میں آتا ہے، اللہ اکبر! جو تکلیفیں انسان پہ آتی ہیں ان تکلیفوں کا اجر آخرت میں دیا جاتا ہے۔ اب آخرت میں جب ان تکلیفوں کا اجر ملے گا تو پوچھے گا کہ یا اللہ یہ اجر کہاں سے آ گیا؟ میں نے تو یہ عمل اتنے نہیں کیے تھے۔ اللہ پاک فرمائے گا فلاں فلاں تکلیف جو تجھے آئی تھی اس کا میں نے اجر دیا ہے۔ تو اس وقت افسوس کرے کاش! مجھے اور بھی تکلیفیں دی جاتیں، مجھے جو ہے نا وہ اجر مل جاتا۔ اس طرح ذکر کے بارے میں بھی ہے۔ دوسرے لوگ بھی کہیں گے ہماری جلد قینچیوں سے کاٹے جاتے لیکن آج ہمیں اجر مل جاتا۔ لیکن ہم لوگ خود تکلیف نہیں مانگ سکتے۔ کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے اندر کتنی طاقت ہے۔ عین ممکن ہے ہم مانگ لیں اور جب واقع پڑ جائے، پھر انکار کر کے، پھر غلط باتیں ذہن میں رکھ کر، عین ممکن ہے کہ ایمان ہی چلا جائے۔ ایمان ہی چلا جائے۔ یا انسان بہت سارے گناہوں میں مبتلا ہو جائے۔

تو اب تکلیف ہر ایک نہیں برداشت کر سکتا۔ اس لیے مانگو تو نہیں۔ لیکن اگر اللہ تشکیل کر دے کسی تکلیف کا تو اس پہ بھی جز بز نہ ہو۔ پھر صبر کرنا چاہیے، پھر اس چیز کو یاد رکھنا چاہیے کہ دیکھو اللہ جل شانہٗ نے میرے لیے یہی پسند کیا ہوگا، تو مجھے اسی پر نوازے گا۔ یہ جو لوگ فوت ہو جاتے ہیں تو بعض لوگ بڑی تکلیفیں اٹھا لیتے ہیں اس کے بعد فوت ہو جاتے ہیں۔ تو ان کو بتایا جاتا ہے کہ دیکھو! اس پہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنا اجر دیا ہوگا۔ اور واقعتاً اجر تو اللہ تعالیٰ اس پہ دیتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ کوئی مقابلہ یا رِیس نہیں کر سکتا کیونکہ اپنے بارے میں کوئی پتہ نہیں ہے کہ میں اتنا برداشت کر سکوں گا یا نہیں۔ لہذا خود تو مانگنا نہیں چاہیے۔ لیکن اگر اللہ پاک ایسی تکلیفیں دے اور اس پر اجر دے تو ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ جانتے ہیں۔

اسی طریقے سے بیماری، افلاس، یہ ظلم، یہ سب مشکلات ہیں اور اس پر اجر ہے۔ تو اگر کسی میں اللہ تعالیٰ نے وہ رکھا ہوا ہے، مطلب وہ صلاحیت رکھی ہوئی ہے اور اس کو اس طریقے سے دیتے ہیں تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اور اگر کسی میں نہیں رکھی ہوئی اور ان کو تکلیفوں سے بچاتے ہیں، ان کو شکر کے ذریعے سے دیتے ہیں تو بس ٹھیک ہے، یہ بھی اللہ پاک کی مرضی ہے۔ باقی ایک آدمی کہہ دے کہ اوہو شکر کے ذریعے سے مجھے کیوں نہیں دیتے؟ تو اللہ کو پتہ ہوتا ہے نا کہ کون شکر کر سکتا ہے، کون نہیں کر سکتا۔ عین ممکن ہے کہ جو شکر نہیں کر سکتا اس کو اگر وہ چیزیں دے دوتو وہ حد سے ہی گزر جائے۔ یہ بھی تو پتہ نہیں ہے نا۔ تو اس وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی تشکیل پر قانع رہنا چاہیے کہ اللہ جل شانہٗ نے ہمیں جس حال میں رکھا ہوا ہے وہی اچھا ہے اور اس میں جو اللہ کے احکامات ہیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔


مدارات اور مداہنت کا فرق:

تہذیب: جو نرمی کسی مصلحت یا ضرورت سے ہو وہ مدارات ہے اور جو غیر ضروری مال، یا جاہ کے تحصیل، یا بقا کے لیے ہو وہ مداہنت ہے۔

مثلاً میں تبلیغ کر رہا ہوں اور تبلیغ میں میں نرمی اختیار کرتا ہوں، مثلاً۔ تاکہ لوگ میرے قریب ہو جائیں اور اس کو، ان کو فائدہ ہو جائے تو یہ مدارات ہے۔ کیونکہ اس میں میرا اپنا نفس مثلاً نہیں ہے شامل۔ میں اپنے نفس کے لیے نہیں کر رہا ہوں، دین کے لیے کر رہا ہوں تو یہ تو مدارات ہے، اس کو تو کرنے پڑتے ہیں۔ ضروری بھی ہے۔ اب دیکھیں حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ، اس کے ساتھ ایک پنڈت کی دوستی تھی۔ عمر بھر دوستی نبھائی۔ پنڈت کے ساتھ۔ اخیر میں اس پنڈت سے کہا کہ ہماری تو دوستی ہے نا؟ اس نے کہا جی بالکل۔ کہا کہ پھر ایک ہی ساتھ رہیں تو اچھا ہے۔ کہا بالکل۔ انہوں نے کہا یا تم مجھے اپنے جیسا بناؤ یا میری طرح ہو جاؤ۔ چلو میں آپ کی طرح ہو جاتا ہوں، مجھے بتا دو کیا کروں میں اب۔ تو اس نے کہا نہیں نہیں مولوی جی آپ ٹھیک ہیں، آپ ٹھیک ہیں، میں آپ کی طرح ہو جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا پھر کلمہ پڑھ لو۔ کلمہ پڑھ لیا اور بس کپڑے ان کو صاف دلوا دیا، نماز پڑھ لی، غالباً ایک ہفتے کے بعد فوت ہو گیا۔ چلو۔ زبردست۔ وہ دوستی کام آ گئی۔ اب یہ مدارات ہے۔ اب دیکھیں پہلے یعنی کتنا عمر اُن کے ساتھ وہ رہا ہے اور کیا کیا ان کی چیزیں برداشت کی ہوں گی، بھئی یہ مدارات نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ مدارات ہے۔ ڈاکٹر فدا صاحب کے مہمان خانے میں ایک صاحب تھے بہت دین سے آگے بس نکلے ہوئے تھے۔ حضرت کی جگہ پہ آئے تو حضرت نے اپنے سارے ساتھیوں کو سخت instruction دی کہ اس کو نماز کے لیے نہیں کہنا۔ کہ کہیں یہ بھاگ نہ جائے۔ اب دیکھو لوگ کہیں گے بھئی یہ مولوی کیا کرتے ہیں۔ لیکن بھئی وہ آدمی کفر کے منڈیر پر کھڑا ہوا ہے۔ تو اس کے اگر گناہ برداشت کیے جائیں اور کفر سے بچایا جائے تو اچھی بات نہیں ہے؟ تو یہ چیزیں ہوتی ہیں، اس کو مدارات کہتے ہیں۔

لیکن میرا boss ہے اور میں boss سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے یا اس کے شر سے بچنے کے لیے میں yes sir، yes sir، yes sir کرتا ہوں اور وہ غلط باتیں کر رہا ہے اور میں yes sir، yes sir، یہ مداہنت ہے۔ بات سمجھ میں آ رہی ہے نا؟ یہ مداہنت ہے۔ کیونکہ وہ میں اپنی ذات کے لیے کر رہا ہوں۔ وہ دین کے لیے نہیں کر رہا۔ ہاں اگر دین کے لیے ہو جائے وہاں پر بھی، پھر بھی ٹھیک ہے۔ لیکن پھر اس کے لیے کافی کڑی شرائط ہیں۔ تو یہ چیزیں جو ہیں نا مطلب یہ ہے کہ مدارات میں اور مداہنت میں یہی فرق ہے کہ اگر نفس کے لیے ہے تو مداہنت ہے۔ اور اگر اللہ کے لیے ہے تو مدارات ہے۔ چیز ایک ہی ہو۔ یہ لوگ بڑے ہی ذہین ہوتے ہیں جو اس قسم کے کرتے ہیں مدارات۔ وہ ایسے خوبصورت طریقے سے بات کو ٹال لیتے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ وہ ہمارے مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کو اللہ تعالیٰ نے بڑی صلاحیت دی تھی اس چیز کی۔ مدارات کی۔ تو عرب حضرات ان کے ساتھ بڑی محبت کرتے تھے، وہ عرب یہ جو foreigners۔ foreigner کے ہاسٹل میں جاتے تھے ان کے ساتھ گپ شپ لگاتے۔ تو ان میں سے ایک عرب تھے نا تو اس نے ذرا بات اس طرح کی جس کو عام طور پر اس پہ کفر کا فتویٰ لگا دیا جائے گا۔ اس نے ایسی بات کی۔ تو مسرت شاہ صاحب ہنس کے کہنے لگے، دیکھو اللہ پاک سے کیسے پیارا شکوہ فرمایا ہے۔ اب دیکھیں اس کی ایسی تاویل کر دی۔ دیکھو اللہ تعالیٰ سے کیسے پیارا شکوہ فرمایا ہے۔

لیکن ان لوگوں کو ساتھ ساتھ چلا لیتے تھے، ماشاءاللہ۔ کمیونسٹوں کو، سوشلسٹوں کو، اپنے ساتھ لگا لیتے۔ اور پھر الحمدللہ اخیر میں وہ ٹھیک ہو جاتے۔ وہ مجھے ان کے ایک ساتھی نے بتایا جو Russia میں اس نے تعلیم حاصل کی۔ جس دن وہ آ رہا تھا افغانستان کی سائیڈ سے آ رہا تھا، کہتے کپڑے میرے بڑے میلے تھے، اس نے مجھے وہ واقعہ خود سنایا ہے۔ کپڑے میرے میلے تھے، اس سے بو آ رہی تھی، سامان میرے ساتھ وہ کندھے میں میں نے ڈالا ہوا تھا۔ مسرت شاہ صاحب نے مجھے ریسیو کر لیا۔ کہتے کوئی تین چار بجے کا ٹائم تھا دن کا، مجھے اپنے، کہتے میں مالدار آدمیوں سے مجھے بڑی چڑ تھی اور بہت سخت ان سے نفرت کرتا تھا۔ تو میں نے جب دیکھا کہ میرے ایسے آدمی نے میرا استقبال کیا تو میرے دل پہ بڑا بوجھ ہوا کہ میں نے کہا یہ پتہ نہیں کون ہے۔ تو بہرحال یہ کہ وہ مجھے لے گئے اور مولوی بھی تھے مسرت شاہ صاحب، مطلب داڑھی بھی تھی وہ سب۔ تو ساری ان کی طبیعت کے خلاف باتیں تھیں۔ کہتے مجھے مسرت شاہ صاحب لے گئے، اپنے کپڑے نکال کے، اس میں ناڑا ڈالا، کہا بس آپ پہلے bath لے لیں، میں اتنے میں آپ کے لیے کھانا تیار کرتا ہوں کیونکہ کھانا تو ختم ہو چکا تھا، وہ ہوٹل بھی بند تھے۔ تو کہتے ہیں کہ وہ فوراً جلدی روٹی تو کہیں سے arrange کر لی اور جلدی میرے لیے انڈا تل دیا۔ اور اتنے میں مجھے کہا کہ آپ bath لے لیں۔ تو کہتے وہ میں نے باتھ لے لیا اور باہر آیا تو اور وہ جو ہے نا کپڑے صاف پہنے اور انہوں نے میرے لیے کھانا تیار کر لیا تھا۔ کہتے میری ساری وہ نفرت دور ہو گئی۔ جو مالداروں سے نفرت تھی۔ پھر ماشاءاللہ اس کے لیے جاب کی بھی تلاش کیا، انجینئر تھے۔ پھر ان کے ساتھ ساتھ تھے ماشاءاللہ، بالکل ٹھیک ٹھاک۔ پھر وہ مسجد کے اوپر جو چاند تارا لگا یا ہوا تھا، اس پہ بڑا فخر کرتا تھا دیکھو یہ میں نے لگایا ہوا ہے۔ مطلب ظاہر ہے جیسے مسلمان ہوگئے اسی طرح ہونے لگے۔ اسی طریقے سے بہت سارے foreigners کے ساتھ اس نے یہ معاملہ کیا تھا۔ اور بہت سارے foreigners کو ظاہر ہے صحیح ڈگر پہ چلایا۔

تو ایک عرب تھے، وہ ظاہر ہے یہاں سے گریجویٹ کر کے چلے گئے تھے اپنے ملکوں میں، پھر تبلیغی جماعت میں وہ وقت لگا رہے تھے تو اسی میں ہی وہ تشریف لائے تھے پھر پاکستان۔ تو وہاں بیان ہو گیا، اس بیان میں میں بھی بیٹھا ہوا تھا، مسرت شاہ صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے، ڈاکٹر فدا صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے اور حضرات بھی تھے۔ بیان کر رہے تھے۔ بیان میں کہا کہ میری والدہ صاحبہ فوت ہو گئی تھی، فوت ہو گئی ہے۔ اس نے خواب دیکھا، وہ بیان میں اس نے کہا، اس نے خواب دیکھا اور خواب میں اس نے مجھے کہا کہ اگر تو نے دین کا کام کرنا ہے نا تو مسرت شاہ صاحب کی طرح کرو۔ تو میں نے کہا کہ دیکھو یہ تو بالکل ٹھیک بات ہے کیونکہ وہاں سے جو بولتا ہے نا وہ تو سچ بولتا ہے۔ یہ ویسے حدیث شریف میں بھی ہے نا کہ جو میت کہہ دے تو وہ تو سچ بولتا ہے کیونکہ سچ کی جگہ پر ہے یعنی مطلب خوابوں کی تعبیر میں ہے۔ تو وہ تو سچ کی جگہ پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ جو ہے نا وہ کہتے ہیں کہ میں نے جب سنا تو میں بڑا خوش ہو گیا۔ تو انہوں نے بیان میں بھی کہہ دیا۔ تو پتہ چلا کہ دیکھو یہ مدارات کتنا اہم ہے۔ مدارات ہی کر رہے تھے نا؟ یہ مدارات کتنا اہم ہے۔ یہی تو آپ ﷺ کرتے تھے نا۔ آپ ﷺ کا کیا کرتا تھا؟ آخر حدیث شریف میں وہ جو آتے تھے اور پھر ان کو ٹھہراتے تھے اور پھر ایک صاحب نے جو ہے نا پاخانہ نکل گیا تھا پھر اس کو دھو رہے تھے وہ جو پیچھے آ گئے تھے۔ یہ ساری چیزیں حدیث شریف میں ہیں نا؟ تو کس حد تک مطلب ان کو وہ کرتے تھے۔ تو یہ ساری چیزیں جو ہیں نا اگر دیکھا جائے تو یہ اصل چیز ہے، اگر یہ مدارات کسی کو آ جائے واقعی صحیح معنوں میں تو یہ بہت بڑی تبلیغ ہے۔ آسان بات نہیں ہے۔

اور مداہنت بہت خبیث چیز ہے۔ اپنے نفس کے لیے کسی کی غلط بات برداشت کرنا۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ چلو خاموش ہی ہو جاؤ۔ اگر نہیں بات کر سکتے ہو صحیح تو خاموش ہی ہو جاؤ۔ خاموشی کی تو گنجائش کہیں سے نکل آئے گی۔ لیکن اس کے حق میں بولنے کی گنجائش تو نہیں نکلے گی نا تو یہ مداہنت اور مدارات یہ آپس میں مختلف ہیں لیکن بظاہر ایک جیسے نظر آتے ہیں۔



کسبِ دنیا ممنوع نہیں، حبِ دنیا ممنوع ہے - انفاسِ عیسیٰ - دوسرا دور