اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آج کل کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ قرآن اور احادیث خود سیکھو کسی عالم کے پاس نہ جاؤ۔ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن سکھایا پھر صحابہ کرام نے آپ ﷺ سے سیکھا اور اسی طرح یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ ﷺ کے علاوہ اسلامی تاریخ میں کیا کوئی ایک فرد بھی ایسا گزرا ہے جس نے خود مطالعہ سے سارے علوم حاصل کئے ہوں؟
جواب:
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سارے علوم حاصل کرنا ہر شخص کے لئے ممکن نہیں۔ کیونکہ علم سمندر ہے۔ کسی سے سیکھ بھی نہیں سکتا مثلاً ایک شخص بیک وقت doctor ،engineer، سائنسدان، geologist، ادیب اور شاعر سب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس وجہ سے سارے علوم حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ آج کل تو عجیب و غریب باتیں ہیں کہ Physical chemistry اور Chemical Physics یہ بھی دو الگ subjects ہیں۔ اس طرح دینی علوم میں بھی بہت سے subjects ہیں۔ فتوی کی الگ مہارت ہے، حدیث شریف کی الگ مہارت ہے، فقہ کی الگ مہارت ہے اور اصول کی الگ مہارت ہے اور فنون کی الگ مہارت ہے۔ یہ بہت سارے علوم بنتے ہیں۔ بعض علوم واقعی کافی مشکل ہیں جیسے منطق کی کتابیں ہیں اور سُلَّمُ العُلُوم ہے، طالب علموں کو پتا لگتا ہے کہ کس حد تک اس میں محنت کرنی پڑتی ہے۔ چنانچہ سارے علوم کا سیکھنا مشکل ہے۔ موجودہ دور تو ہے ہی specialization کا، اس وجہ سے specialization کرنی پڑتی ہے۔ البتہ سوال اگر اس سے متعلق ہے کہ خود سے علوم کا کوئی حصہ حاصل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب دیا جا سکتا ہے اور وہ جواب یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے علم کسبی، یعنی کسبی طور پہ جو حاصل کیا جاتا ہے۔ ایک ہوتا ہے علم لدنی، یہ اللہ جل شانہ عموماً کسبی علوم والوں کو اس کے اندر شامل کر کے دے دیتے ہیں۔ یعنی وہ کسبی طور پر کوشش کرتے ہیں اور اس کے اندر اللہ پاک بڑا وافر حصہ علم لدنی کا بھی عطا فرما دیتے ہیں۔ جیسے مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو قاسم العلوم و الخیرات کہتے تھے۔ مولانا یعقوب رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت مولانا قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے کہاں سے سیکھا تھا؟ کیونکہ علوم کا بحر تھے۔ فرمایا: سیکھا تو ادھر ہی سے ہے جہاں سے ہم نے سیکھا ہے لیکن کسی کے لئے اللہ جل شانہٗ سمندر کے برابر کھولتے ہیں اور کسی کے لئے سوئی کے ناکے کے برابر کھولتے ہیں۔ چنانچہ واسطہ ایک ہے لیکن اس میں جو اصول ہوتا ہے وہ ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ اللہ پاک بعض دفعہ علم لدنی، علم کسبی والے کو عطا فرما دیتے ہیں۔ البتہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے پاس علم کسبی نہیں ہوتا لیکن علم لدنی اللہ پاک بہت وافر عطا فرما دیتے ہیں، یہ واقعتاً ایک عجیب بات ہوتی ہے لیکن ایسے لوگوں کو اللہ پاک اتنا تواضع عطا فرما دیتے ہیں کہ وہ خود اپنے آپ کو عالم نہیں سمجھتے۔ چونکہ علم لدنی اللہ تعالیٰ کے تعلق سے حاصل ہوتا ہے اور جس میں تواضع نہ ہو تو اللہ کا تعلق ممکن نہیں۔ چنانچہ ایسے لوگ اپنے آپ کو عالم ہی نہیں سمجھتے، لیکن علماء ان کو عالم سمجھتے ہیں۔
زیارت کاکا صاحب میں ایک صاحب تھے، دستار استاد ان کا نام تھا۔ دکان دار تھے۔ وہ جب قرآن پاک کی تشریح کرتے تو علماء حیران ہو کر کھڑے ہو جاتے کہ یہ کہاں سے بول رہا ہے؟ یعنی وہ ایک Special case تھا، ظاہر ہے وہ اپنے آپ کو عالم نہیں سمجھتے تھے، لیکن بس جب شروع ہو جاتے تو پھر آدمی حیران ہو جاتا تھا۔ ایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں۔
درس نظامی، حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے شروع ہوا ہے۔ ان کے شیخ ان پڑھ تھے۔ حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق علماء کرام بڑے حیران ہوتے تھے کہ اتنے بڑے عالم نے اپنا شیخ ایک ان پڑھ کو بنا رکھا ہے۔ وہ اس بات کا تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ سے کہا کہ اس قسم کی بات ہے، اگر آپ کوئی بیان فرما دیں تو اس سے ذرا ان لوگوں کو تھوڑی سی تسلی ہو جائے گی۔ شیخ نے پہلے نماز پڑھی اور اللہ کے سامنے گڑگڑائے کہ یا اللہ اتنے بڑے عالم کی عزت کا سوال ہے، تو ان پر کرم فرما دے۔ پھر فرمایا: ٹھیک ہے میں بیان کروں گا۔ جب بیان کے لئے آئے تو لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ عمومی سا واعظ کریں گے، لیکن جب انہوں نے قرآن اور حدیث کی تشریحات شروع کیں تو لوگ حیران ہو گئے۔ حضرت نے درمیان میں فرمایا: اے علمائے کرام! تمہیں چھوٹے چھوٹے حروف کے ذریعے سے علم عطا کیا گیا ہے، مجھے اللہ پاک نے بڑے بڑے حروف سے سکھایا ہے۔ یہ بھی ایک special کیس تھا جو عام طور پر نہیں ہوتا۔ یہ لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور یہ اپنے آپ کو عالم نہیں سمجھتے۔ عمومی قاعدہ یہ نہیں ہے بلکہ عمومی قاعدہ اخذِ علم کا ہے۔ یعنی استاد اور شاگرد والا۔ لہذا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ میں بغیر استاذ کے سیکھنا چاہتا ہوں وہ دعویٰ ہی غلط ہے ایسے شخص کو دیا ہی نہیں جاتا کیونکہ وہ علم کی نا قدری کر رہا ہے، استاذ کی نا قدری کر رہا ہے، اس نظام کی نا قدری کر رہا ہے۔ اور پھر قرآن کے بارے میں اتنی اہم بات ہے، فرمایا کہ جس نے اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کی، چاہے اس نے صحیح بھی کی پھر بھی غلط کیا۔ کیونکہ مستند طور پہ حوالہ دینا پڑتا ہے کہ یہ کہاں سے ہے؟ اپنے طرف سے کوئی نہیں دے سکتا کہ میں یہ کہتا ہوں۔ یہ والی بات نہیں چلتی کہ میرا خیال ہے۔ کس نے کہا ہے اور کیسے کہا ہے اور اس کی کیا بنیاد ہے، با قاعدہ reference کے ساتھ سارا کچھ بتانا پڑتا ہے۔ چنانچہ قرآن کی تفسیر کوئی اپنی رائے سے نہیں کر سکتا۔ حدیث شریف میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مجھ پر جھوٹ بولے تو وہ جہنم کے گڑھوں میں سے اپنے لئے ٹھکانا بنا لے۔ تو حدیث شریف کے بارے میں بھی کوئی اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتا، قرآن تو پھر اس سے پہلے ہے۔ قرآن و حدیث با قاعدہ علماء سے سیکھنا ہوتا ہے۔ ایک ہے قرآن کی تلاوت جو آپ سن سن کے بھی سیکھ سکتے ہیں، لیکن قرآنی علوم کے لئے با قاعده کسی عالم کے پاس جاکر سیکھنا پڑتا ہے۔ جیسے عام صحابہ کرام، علماء صحابہ کرام کے پاس جاتے تھے جیسے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاتے تھے۔ اسی طرح دیگر بڑے بڑے صحابہ کے پاس جاتے تھے تو ہماری کیا حیثیت ہے؟ یعنی بڑے بڑے علماء کرام جو گزرے ہیں یہ سب کسی کے شاگرد ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ پیدائشی طور پر عالم تھے بلکہ وہ با قاعدہ ان علماء کے پاس جا کر سیکھتے تھے کیونکہ پہلے مدرسے نہیں ہوا کرتے تھے وہ علماء کرام اپنی اپنی جگہوں پہ ہوتے اور ان کے پاس لوگ آ کر ٹھہرتے تھے اور ان سے علم حاصل کرتے تھے۔ اس کے بعد مدرسے بن گئے اور ان میں علوم حاصل کئے جانے لگے۔ استاذ اور شاگرد کا رشتہ اتنا قیمتی ہے کہ جو اپنے استاد کی قدر نہیں کرتا، ادب نہیں کرتا اس کے علم سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔ بے شک اس کے پاس الفاظ ہوں لیکن اس کے علم کی برکت نہیں ہو گی۔ جو اپنے والدین کی قدر نہیں کرتا اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے اور جو مشائخ کا ادب نہیں کرتا تو عاقبت خراب ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے ہمیں ان باتوں میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے اور کسبی طور پر علم کے ذرائع کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ علم لدنی غیر اختیاری ہے اور جب اللہ تعالیٰ وہ دینا چاہیں گے تو کہیں سے دے دیں گے، لیکن اپنی طرف سے علم کسبی کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو علوم نصیب فرمائے اور علوم نافع پر عمل کی توفیق بھی عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن