اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ وہ عید الاضحٰی کے دن حضور ﷺ کے ساتھ حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے جب خطبہ مکمل کیا تو ایک مینڈھا لایا گیا آپ ﷺ نے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ’’بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرْ‘‘ پڑھا اور فرمایا کہ یہ میری طرف سے اور میری اُمت کے ہر اس شخص کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔ (ابو داؤد، اسوۂ رسول اکرم ﷺ)۔ اس میں امت کے غرباء کے لئے جو خوشخبری ہے اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب:
ما شاء اللہ! بڑا اچھا سوال ہے اور عین موقع کا سوال ہے الحمد للہ۔ آپ ﷺ اپنی امت پر بہت شفیق تھے۔ جیسے معراج شریف کے واقعے میں ہے کہ اللہ پاک نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میرے لئے کیا لائے ہو دنیا سے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’التَّحِيَّاتُ لِلہ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّيِّبَاتُ‘‘۔ اللہ پاک کی طرف سے جواب آیا: ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَةُ ﷲِ وَبَرَکَاتُهٗ‘‘ تو آپ ﷺ نے عرض کیا: ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِ ﷲِ الصّٰلِحِيْنَ‘‘ فرشتوں نے کہا: ’’أَشْهَدُ أَنْ لَّآ اِلٰهَ إِلَّا ﷲُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ‘‘۔ اب یہ پورا ایک مکالمہ ہے۔ اس میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جو فرمایا تھا کہ: ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ ﷲِ الصّٰلِحِيْنَ‘‘ تو اس میں اپنی گنہگار امت کو اپنے ساتھ شامل کیا کیونکہ ’’وَ عَلیٰ عِبَادِ ﷲِ الصّٰلِحِيْنَ‘‘ کا علیحدہ ذکر ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کو اس بات کی فکر تھی کہ کوئی محروم نہ رہ جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ پاک کا اپنا ایک قانون ہے اس قانون کے مطابق سارا کچھ کرتے ہیں۔ لیکن آپ ﷺ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تو بہت چاہا کہ سب کو پکی پکائی کھلائیں، لیکن اللہ پاک کی حکمت یہ تھی کہ عمل کرنا پڑے گا۔ اس وجہ سے یہاں پر اس بات کی یہ تشریح ہو سکتی ہے کہ جو مینڈھا آپ ﷺ نے ذبح فرمایا تھا، اس میں آپ ﷺ نے بالکل اسی طریقے سے ان لوگوں کو بھی شامل کیا جو اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔ جو استطاعت رکھتے ہیں ان کے لئے وجوب کا حکم موجود ہے، لہذا وہ تو کریں گے۔ لہذا اس کو دلیل بنا کر قربانی سے نہیں بچ نہیں سکتے۔ جیسا کہ آج کل لوگ کر رہے ہیں، اس امت کو اٹھا رہے ہیں۔ لیکن اصل میں ایک مسئلہ ہے جس کو بیان کرنا بہت زیادہ ضروری ہے۔ چنانچہ ایک بات یہ ہے کہ دین تواتر سے ثابت ہے اور مجموعی طور پر ثابت ہے انفرادی طور علیحدہ علیحدہ نہیں ہے۔ یعنی آپ قرآن کی محض کسی ایک آیت سے استدلال نہیں کر سکتے بلکہ باقی آیات قرآنیہ کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پہ Boundary conditions ہیں، جیسے ہم لوگ سائنس کے اندر کوئی Governing equation کرتے ہیں تو اس پہ ہم Boundary conditions لگاتے ہیں۔ ہاں کہیں کہیں صرف ایک condition بھی ہو سکتی ہے، لیکن کئی conditions بھی ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک condition کا اس کے اوپر %80 effect ہو، دوسری کا اس کے اوپر %3 effect ہو، کسی اور کا اس پہ % 1 effect ہو۔ لیکن ان سب کا مجموعہ اس کے اوپر آئے گا اور اس سے پورا ایک spectrum بنے گا، ایک solution آئے گا۔ اسی طرح قرآن پاک کی ایک آیت دوسری آیت کی تشریح کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک آیت میں ہو کہ یہ کرو اور دوسری جگہ بتایا گیا ہو کہ اگر یہ condition ہو تو ایسا نہ کرو۔ تو اس دوسری آیت نے پہلی آیت کو specific یعنی خاص کر دیا۔ لہذا علمائے کرام اور فقہاء کرام ان سب چیزوں کو دیکھتے ہیں، وہ صرف ایک چیز کو نہیں دیکھتے، یعنی قرآن کی صرف کسی ایک آیت کو یا کسی ایک حدیث شریف کو نہیں دیکھتے۔ جبکہ دوسرے لوگ جن کے دل میں زیغ ہوتا ہے، کجی ہوتی ہے وہ کسی ایک کو بنیاد بنا کر اپنے دل کے اندر کے الحاد کو ظاہر کرتے ہیں اور اس پر بڑے متشدد ہوتے ہیں۔ اور ایسے لوگ اکثر شاذ روایات کو لیتے ہیں، اس کو فقہاء کی عبارت میں شذوذ پسندی کہتے ہیں، اور یہ شذوذ پسندی فتنے کا دروازہ ہے۔ یعنی اس میں انسان شاذ روایتوں کو لے کر ان کی بنیاد پر solutions detect کر لیں تو یہ فتنے کا باعث ہے۔ کیونکہ اس سے انسان اصل بات تک نہیں جاتا بلکہ deviations کی طرف جاتا ہے۔ لہذا اگر اس تناظر میں غور کریں کہ چونکہ قرآن پاک کی اور آیتیں بھی موجود ہیں اور دوسری صحیح احادیث شریفہ بھی موجود ہیں، جیسے ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ جس میں استطاعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہوں میں نہ آئے۔ تو اب اس حدیث شریف کا کیا کریں گے؟ لہذا ان دونوں احادیث شریفہ کو اگر آپ ایک ہی تناظر میں دیکھتے ہیں تو پھر پتا چلتا ہے کہ وہ قربانی غریبوں کے لئے تھی جن میں استطاعت نہیں ہے، کیونکہ ورنہ پھر اس حدیث شریف کی مخالفت ہو جائے گی، تو اس مخالفت سے بچنے کے لئے آپ اس کو صرف غریبوں تک محدود کر لیں گے کیونکہ اس کے اوپر وہ حکم نہیں apply ہوتا، کیونکہ ان میں استطاعت نہیں ہے۔ لہذا وہ اس کا advantage لے سکتا ہے۔ جبکہ جو شخص استطاعت رکھتا ہے وہ اس حدیث شریف کے کی رُو سے جوابدہ ہے۔ لہذا وہ قربانی غریب لوگوں کے لئے ہے اور گویا ان لوگوں کی اس حسرت کو کم کرنے کے لئے ہے جو دوسروں کو قربانی کرتے ہوئے حسرت کرتے ہوں کہ کاش ہمارے پاس بھی پیسے ہوتے تو ہم بھی قربانی کر لیتے۔ ایک تو ان کو اس حسرت کا اجر ملے گا اور دوسری بات یہ ہے کہ اس سے ان کو تسلی ملے گی کہ آپ ﷺ نے ہمارے لئے قربانی کی ہے، اور اس تسلی سے ان کو فائدہ ہو گا۔ بس یہی بنیادی بات ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے ہمارے لئے بہت آسانیاں رکھی ہیں، لیکن ہم ان آسانیوں کو ذرا تھوڑا سا سمجھیں۔ تاہم ان آسانیوں کی بنیاد پر ہم اللہ پاک کے صریح احکامات کی کم از کم مخالفت نہ کریں ورنہ یہ نا شکری ہو گی۔ اور نا شکری کی سزا بعض دفعہ بڑی سخت ہوتی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾ (ابراہیم: 7) ترجمہ: ’’اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر تم نے نا شکری کی تو یقین جانو، میرا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘
لہذا ہمیں نا شکری سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح بات سمجھنے کی توفیق عطا فرما دیں۔
وَمَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ