اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بچوں کے اچھے نام رکھا کرو۔ اس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ نام کا انسان کی شخصیت پر اثر ہوتا ہے۔ مسلمان عموماً انبیاء کرام کے ناموں پر یا صحابہ کرام اور صحابیات کے ناموں پر اپنے بچوں، بچیوں کے نام رکھتے ہیں۔ اس بارے میں سوال ہے کہ ایک تو یہ کہ کسی کو صرف اتنا پتا ہو کہ یہ صحابی کا نام ہے اور اس وجہ سے اس نے اپنے بچے کا وہ نام رکھ لیا اور دوسرا یہ کہ اس صحابی کی وہ صفات بھی کسی کو پتا ہوں اور اس نیت سے، اس نے اپنے بچے کا نام رکھ لیا کہ میرے بچے کے اندر بھی وہ صفات آ جائیں۔ تو ان دونوں طریقوں کے ذریعے نام رکھنے میں بہتر کون سا ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ اگر کسی کا نام ایسا رکھا گیا ہے جو کہ تاریخ میں بُرا شخص گزرا ہے تو کیا اس کو اپنا نام تبدیل کرنا چاہیے؟
جواب:
آپ ایک چیز بھول گئے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ عبد لگا کے بھی نام رکھا کرتے ہیں۔ اور بہترین ناموں میں سے عبد اللہ نام سب سے بہترین ہے۔ کیونکہ اللہ پاک کا اسم ذات ہے۔ عبد اللہ یعنی اللہ کا بندہ۔ پھر آپ ﷺ کے نام پر رکھتے ہیں یا آپ ﷺ کے کسی صفاتی نام پر رکھتے ہیں۔ اگر بات ذات پر آ گئی تو اس میں ساری صفات شامل ہوتی ہیں۔ اور کسی خاص صفت کو دیکھتے ہوئے اگر نام رکھتے ہیں تو اس صفت کی طرف توجہ ہو گی۔ لہذا ذات والی بات آگے ہے۔ جیسے عبد الکریم، عبد الرحیم، عبد الخالق یہ صفاتی نام ہیں۔ لیکن عبد اللہ چونکہ اسم ذات ہے تو بہترین نام قرار دیا گیا ہے۔
کسی صحابی کی صحابیت اعلی ہے اس کی کسی صفت سے، کیونکہ وہ صفت دوسروں میں بھی ہو سکتی ہے۔ اور صحابی ہونے میں اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر ایک صحابی سخی ہے تو سخاوت اس کی ایک صفت ہے لیکن صحابی ہونا، وہ بہت بڑی بات ہے۔ چنانچہ اگر پتا چل جائے کہ صحابی کا نام ہے تو بس کافی ہے۔ باقی اگر کسی کو کسی خاص صفت کے ساتھ تعلق ہو، مناسبت ہو تو اس حساب سے بھی نام رکھ سکتا ہے۔ یعنی اس صحابی کا نام رکھ لیا جائے جو اس صفت والا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی ہم اس مسئلے میں پابند نہیں ہیں بلکہ یہ ذوقیات کی باتیں ہیں۔ جو ذوق جس کا ہو اس کی مناسبت سے رکھ سکتے ہیں۔ محمد (ﷺ) نام اللہ پاک نے مخفی رکھا تھا، کسی کے اوپر کھولا نہیں تھا۔ اس وجہ سے آپ ﷺ کے علاوہ کسی کو یہ نصیب نہیں ہوا۔ یہ آپ ﷺ کا اپنا ذاتی اسم ہے۔ اس دنیا میں بعض حضرات اس کو رکھتے آ رہے ہیں۔
بخارا شریف میں ایک قبرستان ہے، جس میں چھ سو ایسے محدثین دفن ہیں جن کا نام محمد تھا۔ اس قبرستان میں دفن ہونے کی شرط یہ تھی کہ محدث ہو اور نام محمد ہو۔
میں نے جب اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا تھا تو لوگوں نے کہا: اس کے ساتھ کچھ اور بھی ملا لیں۔ جیسے محمد قاسم۔ جس طرح ہمارے ہاں رواج ہے۔ تو میں عرض کرتا تھا کہ محدثین دین کے لحاظ سے بڑے اونچے مرتبے پہ ہوتے ہیں، اگر اس میں کچھ مسئلہ ہوتا تو وہ اپنا نام change کرتے۔ بلکہ اکثر محدثین کے نام رکھنے والے بھی محدثین ہی ہوا کرتے تھے۔ لہذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم تو اس لئے کر رہے ہیں تاکہ یہ رواج پڑ جائے۔ اللہ پاک معاف فرمائے آج کل تو بہت برا رواج چلا ہے کہ فلمی ایکٹروں کے نام پر نام رکھے جاتے ہیں۔ جن کا جو standard ہوتا ہے، جو معیار ہوتا ہے اس کے مطابق وہ کام کرتے ہیں۔ آج کل پہلے نام رکھتے ہیں اپنے ذوق کے مطابق، یعنی ان کو sound کے لحاظ سے جو نام اچھا لگتا ہے۔ پھر مولویوں سے پوچھتے ہیں کہ اس کا کیا معنی ہے؟ اگر set ہو گیا تو ٹھیک ہے ورنہ کہتے ہیں کہ چلو کوئی بات نہیں، صحیح ہے۔ عجیب و غریب نام جن کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ کوئی پیر، لیکن یہ ذوقیات کی خرابی کی بات ہے۔ جب انسان کا ذوق بگڑ جاتا ہے تو کیا کہا جا سکتا ہے؟ بہر حال اچھا ذوق یہی ہے کہ اللہ جل شانہ کے ناموں کے ساتھ عبد کا لفظ لگا کر رکھا جائے۔ پھر آپ ﷺ کے نام ہیں۔ پھر صحابہ کرام کے نام ہیں۔ پھر بزرگوں کے نام ہیں۔ اسی طرح اولیاء اللہ کے نام ہیں۔
میرا نام شبیر میرے چچا نے رکھا تھا جو فاضل دیوبند تھے۔ انہوں نے اس لئے رکھا تھا کہ ان کے استاد مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے، جو شیخ الحدیث تھے اور بہت بڑے عالم تھے۔ بعد میں ایسا ہوا جس پر مجھے حیرت بھی ہوتی تھی کہ کالج میں اور لوگوں کے نام بھی شبیر احمد ہوا کرتے تھے، ظاہر ہے رکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن میرا نام چونکہ اس نیت سے رکھا گیا تھا تو اکثر ہمارے استاد جب مجھے پکارتے تو کہتے: شبیر احمد عثمانی۔ حالانکہ میرے نام کے ساتھ عثمانی نہیں کاکا خیل ہی ہے، لیکن بہر حال ان کی زبان سے شبیر احمد عثمانی نکلتا تھا۔ تو نام کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ بلکہ مجھے چچا نے کہا ہے، و اللہ اعلم کیونکہ میں نے حضرت کو دیکھا نہیں ہے، آخری عرصہ میں جب حضرت کافی بوڑھے ہو گئے تھے۔ فرمایا کہ میں نے آپ کا نام جو رکھا تھا تو مجھے یہ علم نہیں تھا کہ آپ کا چہرہ بھی ان کی طرح ہو جائے گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نام کے رکھنے کے میں جو نیت ہوتی ہے وہ اثر کر جاتی ہے "اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ" (البخاری، حدیث نمبر: 1) تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی اچھی نیت سے کوئی نام رکھتا ہے تو اس کا اثر ہوا کرتا ہے۔ کم از کم ہم نے اس کو محسوس کیا ہے۔ باقی ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اچھا ذوق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن