عقائد کی فلسفیانہ تشریح کی ضرورت

سوال نمبر 390

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں عقائد کے باب میں صفحہ نمبر 248 پر مختلف مذاہب اور یونانی فلاسفروں میں عقائد کے فلسفے بیان کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے علم و عمل، تصور و فعل، عقلیت اور عملیت میں لزوم ثابت کیا مگر اصلی زور انسان کی عملیت پر صرف کیا اور عقائد کے اتنے ہی حصہ کا یقین و اقرار ضروری قرار دیا جو دل کی اصلاح کرے اور عمل کی بنیاد اور اخلاق و عبادات کی اساس قرار پا سکے۔ عقائد کے فلسفیانہ الجھاؤ اور تصورات اور نظریات کی تشریح و تفصیل کر کے عملیت کو برباد نہیں کیا۔ پہلے ادوار میں عقائد کی اتنی زیادہ تشریح و تفصیل کی ضرورت نہیں تھی لیکن آج کل مسلمانوں کے دلوں میں مسلمانوں کے دشمن مختلف طریقوں سے شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں اور اُن سے متاثر ہو کر بعض لوگوں کا ایمان تک چلا جاتا ہے کیا ایسے حالات میں عقائد کی فلسفیانہ تشریح کی ضرورت ہے یا صرف عقائد کو بیان کرنے پر ہی اکتفاء کرنا چاہیے؟

جواب:

سب سے پہلے ہمیں فلسفہ کو سمجھنا چاہیے کہ یہ کیا ہوتا ہے، پھر فلسفیانہ تشریح کی بات سمجھ آئے گی۔ ایک انسان کسی چیز کے عقلی اصولوں کی بنیاد پر ایک نظریہ قائم کرتا ہے یا ثابت کرتا ہے تو یہ فلسفے کا بیان ہے۔ اس کے لئے پھر ہونا یہ چاہیے کہ ہر آدمی کو وہ تمام بنیادیں معلوم ہوں تو پھر اس کو بات سمجھائی جا سکتی ہے ورنہ جس کو یہ معلوم نہیں ہوں گی وہ اس کو جان ہی نہیں سکے گا، چنانچہ مذہب کے اندر اس طریقے سے چیزیں نہیں پائی جاتیں۔ چونکہ مذہب سارے لوگوں کے لئے آتا ہے، سادہ لوگوں کے لئے بھی، ذہین لوگوں کے لئے بھی، سائنسدانوں کے لئے بھی، عوام کے لئے بھی، جو بیل گاڑی چلاتے ہیں ان کے لئے بھی، دکانداروں کے لئے بھی، ہر ایک سے آپ فلسفے کا مطالبہ نہیں کر سکتے کہ وہ فلسفہ جانتے ہوں گے۔ تو جس مذہب کی بنیاد فلسفہ پر ہو گی وہ کچھ لوگ سمجھ سکیں گے، کچھ لوگ نہیں سمجھ سکیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فلسفے کی بنیاد پر confuse بھی کیا جا سکے گا اس وجہ سے اس کا جواب فلسفیانہ طریقے سے سمجھانا نہیں ہے بلکہ اس کو عام انداز میں، عام الفاظ میں جتنا بیان کیا گیا ہے اتنا بیان کرنا ہے۔ کیونکہ جتنا آپ اس میں فلسفیانہ الجھاؤ پیدا کریں گے اتنا ہی شیطان کامیاب ہو گا، الجھاؤ میں لوگ پھنستے جائیں گے۔

قادیانیوں کا لوگوں کو گمراہ کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ باریک بات چھیڑتے ہیں موٹی باتوں کی طرف نہیں آتے کیونکہ موٹی باتوں میں وہ پھنستے ہیں اور باریک باتوں میں وہ سادہ لوگوں کو پھانستے ہیں۔ مثلاً کہیں گے کہ عیسی علیہ السلام دوبارہ آ سکتے ہیں یا نہیں؟ اس میں بڑے اشکالات وغیرہ پیدا کریں گے اور لوگوں کے گھیرنے کے لئے مختلف قسم کے راستے بنائیں گے جو بالکل واضح بات ہوتی ہے وہ نہیں کریں گے۔

ہمارا ایک قادیانی مبلغ Class fellow تھا وہ ہمارے دیگر Class fellows کو مختلف قسم کی باتیں بتاتا تھا، مجھے اس طرح اندازہ ہوا کہ وہ قادیانی ہے کیونکہ کہ وہ میری بہت زیادہ respect کرتا تھا اور یہی شک کی بات ہوتی ہے کہ میری اتنی زیادہ respect کوئی کیوں کرتا ہے؟ جبکہ مجھے جانتا بھی نہیں۔ تو میں اس کی ٹوہ میں لگ گیا تو معلوم ہوا کہ وہ قادیانی ہے اور لوگوں سے قادیانیت کی باتیں بھی کرتا ہے۔ میں نے سوچا اگر میں اس کو چھیڑتا ہوں تو یہ مظلوم بن جائے گا اور اپنی مظلومیت کو میرے خلاف کیش کرے گا، میں اس کو موقع دیتا ہوں کہ یہ مجھے خود چھیڑے، جب چھیڑے تو پھر نہ چھوڑا جائے، پھر اسی بات کو لے کر اس پر وار کیا جائے۔ چنانچہ میں نے بالکل چپ سادھ لی کہ دیکھتے ہیں کیا کرتا ہے۔ وہ خود بھی مجھ سے کسی وقت بات کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں تھا، دوستی اس لئے بنائی ہوئی تھی۔

خیر ایسا ہوا کہ Flash Man's Hotel سے ہماری بسیں چلتی تھیں۔ میں بس میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک وہ آ گیا اور السلام علیکم کہہ کر بیٹھ گیا۔ پھر کہا: شبیر صاحب آپ نے مجھ سے پوچھا نہیں کہ میں یہاں کیوں آیا تھا؟ میں نے کہا: میں کیوں پوچھتا آپ کا اپنا کام ہو گا۔ بولا: میرا بہت Favorite speaker آیا تھا۔ میں نے کہا: بھئی آپ کا Favorite speaker آیا تھا تو آپ نے تو پھر آنا ہی تھا۔ اس میں میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ میں بالکل گویا کہ indifferent بات کر رہا تھا۔ کہتا ہے: مرزا طاہر احمد صاحب آئے تھے (اس وقت ان کا وہ خلیفہ تھا) کیا زبردست بولتا ہے، کیا بات ہے اس کی، کیا logic ہے اس کی، اس طرح وہ بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگا۔ میں نے کہا: یہ آج مجھے چھیڑنے کی position میں ہے، اس نے آج گویا کہ تہیہ کیا ہوا ہے، چلو پھر میں بھی کچھ کرتا ہوں۔ میں نے کہا: یار کمال کرتے ہو، خواہ مخواہ اس پہ اتنا زیادہ اتراتے ہو، تمہارا مذہب تو بے بنیاد ہے، اس میں تقریروں کے سوا اور کیا ہو گا؟ تقریریں سنتے رہو اپنے آپ کو خوش کرتے رہو۔ قیامت کے دن پتا چل جائے گا کہ تمہارے ساتھ کیا ہو گا۔ اس پہ وہ بہت چڑ گیا اور کہا: ہمارے والدین نے میری تربیت کی اور میں نے بھی بہت کتابیں پڑھیں اور یہ کیا، وہ کیا۔ میں نے کہا: یار دعوے مت کرو بلکہ میرا ایک سادہ سا سوال ہے پہلے اس کا جواب دو، اگر اس کا جواب تم نے دے دیا تو پھر تم میرے ساتھ discussion کے قابل ہو، میں آپ کے ساتھ بات کروں گا چاہے آپ میرے کمرے میں آؤ، چاہے میں آپ کے کمرے میں آؤں۔ لیکن اگر آپ نے مجھے اس کا جواب نہیں دیا تو پھر میرے ساتھ discussion کے قابل ہی نہیں ہو۔ پھر نہ آپ نے مجھ سے بات کرنی ہے نہ میں آپ سے کچھ بات کروں گا۔ آپ اس کے اہل ہی نہیں ہیں تو میں اپنا وقت آپ پر ضائع کیوں کروں؟ اس پر مزید برہم ہو کر کہتا ہے: کیا سوال ہے؟ میں نے کہا: میں نے کہا مرزا غلام احمد قادیانی نے جامع مسجد دہلی میں کہا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ میں ختم نبوت کا انکار کرتا ہوں حالانکہ میں نے ختم نبوت کا انکار نہیں کیا، میں تو آپ ﷺ کو خاتم النبیین مانتا ہوں، آخری نبی مانتا ہوں، میں اس کا انکار کر کے کافر کیوں بنوں؟ یہ موٹی سی بات میں نے پکڑ لی، باریک باتیں نہیں کیں۔ میں نے کہا: ہم نے ابھی فتوی نہیں لگایا تھا بلکہ وہ خود کہہ رہا تھا۔ تم پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ یہ بات اس نے کی ہے یا نہیں کی؟ یہ بات اس نے کی تو تھی کیونکہ ان کی کتابوں میں موجود ہے۔ وہ پھنس گیا اور خاموش ہو گیا۔ میں نے کہا: دو باتیں اس سے سامنے آئیں کہ یا وہ سچا تھا یا جھوٹا تھا، ان دو باتوں کے علاوہ کوئی تیسری بات نہیں ہو سکتی۔ تو اگر وہ سچا تھا تو خود اپنے الفاظ کے مطابق کافر ہو گیا کیونکہ اس نے بعد میں نبوت کا دعویٰ کیا اور تم بھی اس کو نبی مانتے ہو لہذا اپنے الفاظ پہ خود ہی کافر ہو گیا، ہمیں کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اور اگر وہ جھوٹا تھا تو جھوٹا نبی نہیں ہو سکتا۔ اب وہ سمجھ تو گیا کہ بھئی معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ تو ذرا logic کے ساتھ وہی باریک باتیں شروع کیں کہ نہیں جی وہ الہامات ہو گئے تھے، پھر یہ ہو گیا وغیرہ۔ میں نے کہا: باریک باتیں مت کرو، میں نے موٹی بات کی ہے تم بھی موٹی بات کرو۔ باریک باتیں کسی اور کے ساتھ کرنا مجھے صاف صاف بتانا ہے کہ ایسی بات کی ہے یا نہیں کی؟ یا اس سے انکار کر دو اور اگر اقرار کرتے ہو کہ ایسا کیا ہے تو پھر مجھے اس بات کا جواب دو۔ میں تم سے ابھی جواب کی توقع نہیں کر رہا بلکہ تمہیں 3 دن دیتا ہوں، 3 دن اپنے مولویوں سے پوچھو، اگر اس کے بعد تم نے مجھے اس بات کا جواب دے دیا تو میں تمہارے ساتھ بات کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ظاہر ہے وہ اس وقت کیا جواب دیتا؟ تو خاموش بیٹھ گیا۔ مجھے موقع مل گیا چونکہ مجھے چھیڑا جو تھا، بس چل رہی تھی اور میں کھڑا ہو گیا اور قادیانیوں کے خلاف پوری تقریر شروع کر دی کہ یہ ایسے ہیں ویسے ہیں اور مرزا قادیانی نے یہ کہا تھا وہ کہا تھا۔ اب لوگ سن رہے ہیں اور اس کی چھاتی پہ مونگ دل رہے ہیں، کچھ کہہ تو نہیں سکتا تھا کیونکہ کچھ کہے گا تو پھنسے گا۔ تو میں نے خوب قادیانیت کے خلاف تقریر کی اور اس کے بعد ہم اپنی منزل پہ پہنچ گئے۔ وہ غائب ہو گیا، 5 دن کے بعد غالباً نظر آیا۔ میں نے پوچھا: بھئی رفیق بتایا نہیں آپ نے کیا ہوا؟ کوئی جواب لائے ہو؟ کہا: نہیں یار تم جذباتی آدمی ہو اور میں جذباتی آدمی سے بات نہیں کرتا۔ میں نے کہا: اس بات پہ آپ نہیں چھوٹیں گے، میں جذباتی ہوں، میں اپنے جذبات کا اقرار کرتا ہوں، تم نے ایسے جذباتی آدمی کو چھیڑا ہی کیوں تھا؟ تم نے غلطی خود کی ہے اب میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ اب یا تو مجھے جواب دو یا پھر اگر تم نے دوبارہ اپنے عقیدے کے بارے میں بات کی تو پھر میرا ہاتھ چلے گا زبان نہیں چلے گی کیونکہ زبان والی بات ختم ہو گئی ہے، بہر حال وہ چپ ہو گیا۔ کچھ دن خاموش رہا لیکن بعد میں شاید وہ سمجھا میں بھول گیا تو ایک دن ہم Dining Hall میں ناشتہ کر رہے تھے۔ اور قائد اعظم اسلام آباد یونیورسٹی میں آپس میں liberal اور اسلامی جمعیت طلبہ کی لڑائی ہوئی تھی، اس پہ ہمارے students بھی discuss کر رہے تھے کہ کیا ہوا، کیا نہیں ہوا؟ تو اپنی اپنی رائے ہر ایک دے رہا تھا، کوئی liberal کے ساتھ تھا تو کوئی اسلامی جمیعت طلبہ کے ساتھ تھا۔ آپس میں بات چل رہی تھی تو یہ بھی بول پڑا۔ میں نے کہا: یہ مسلمانوں کا معاملہ ہے کافر درمیان میں کیوں بولے گا؟ خبر دار اگر تم نے بات کی۔ اس پر وہ غصہ ہو گیا اور کہا: داڑھی رکھی ہے اور ایسی باتیں کرتے ہو۔ میں نے کہا: اچھا داڑھی کے بارے میں تم نے بات کی، میں اٹھا میں نے شڑائی پہنی ہوئی تھی، اس کو اتار کر میں نے صرف اس پر حملہ کرنا چاہا اور میں حیران ہوں کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں ہے، شڑائی کا پلو اس کو لگا اور وہ دور جا کر گرا۔ شاید بد حواس ہو کے پیچھے ہو گیا تھا یا گر گیا تھا یا کچھ اور، جو بھی تھا واللہ اعلم لیکن بہر حال گر گیا۔ اور پھر عورتوں کی طرح کہنے لگا کہ میں ڈاکٹر انعام سے یہ کہوں گا اور یہ کروں گا وہ کروں گا۔ میں نے کہا: جاؤ جتنا کہنا چاہتے ہو کہہ لو، اب تم نے داڑھی کے خلاف بات کی ہے اب میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ بہر حال اس کے بعد خاموش ہو گیا، پھر اس کے بعد کچھ نہیں کہا۔ ان لوگوں کے ساتھ ایسا ہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے، یعنی موٹی بات جیسے داڑھی کے خلاف بات کی تو یہ موٹی بات ہے بس پکڑ لو۔ کافر اور مسلمان کی بات یہ موٹی بات ہے اسی طرح اور باتیں۔ ان کو باریک باتوں پہ نہیں لانا۔ فلسفیانہ باتیں ہی وہ لوگ کرتے ہیں جیسے قادیانی ظلی اور بروزی کی بات کرتے ہیں۔ بھئی ہم ظلی بروزی کو نہیں جانتے، خاتم النبیین کو ہم جانتے ہیں۔ شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے عبقات میں کیا باتیں فرمائی ہیں؟ فرمایا: قرآن اور سنت کے طریقے پہ رہو کیونکہ لوگوں نے جو اپنی اصطلاحات بنائی ہیں اور ان میں اپنے آپ کو الجھایا ہوا ہے وہ درست نہیں، سادہ باتیں کرو اور انہیں سادہ باتوں کی مفہوم کو لو، کیونکہ اس میں پریشانی کی بات آ جاتی ہے۔ ہمارے عقائد واضح ہیں جیسے اللہ ایک ہے۔ اس میں دوسری بات کون سی ہے؟ اگر آپ سائنسی دلائل دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے بھی دیئے ہیں کہ اگر خدا دو ہوتے تو لڑائی ہوتی وغیرہ، وہ ایک علیحدہ چیز ہے لیکن اس کی تشریح یہی ہے کہ اللہ ایک ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی قدرت ساری چیزوں پر ہے، یہ بالکل سادہ اور واضح بات ہے۔ اللہ تعالیٰ سنتا ہے، اللہ پاک ہر چیز دیکھتا ہے۔ یہ سب ہمارے عقائد ہیں جو بالکل واضح ہیں، اس کے اندر الجھنے کی ضرورت نہیں ہے، اس کو ہر ایک سمجھ سکتا ہے۔ فرق صرف ایمان لانے کا اور نہ لانے کا ہے۔ کفار نے بھی جو انکار کیا تو فلسفیانہ بنیاد پہ نہیں کیا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم کیسے ریزہ ریزہ ہو جائیں گے؟ پھر دوبارہ کیسے اٹھیں گے؟ یہ ایمان کا مسئلہ ہے اور ہمارا ایمان یہ ہے ﴿یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْب﴾ (البقرۃ: 3)۔ آپ ﷺ نے جب ایمان کی دعوت دی تو باریک باتیں نہیں کیں بلکہ سادہ سی بات کی اور فرمایا کہ اگر میں کہوں اس پہاڑ کے پیچھے سے دشمن حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مان لو گے؟ کتنی سادہ بات ہے اس میں کوئی الجھاؤ ہے؟ انہوں نے کہا: جی بالکل مانیں گے۔ ہم نے آپ کو صادق اور امین پایا ہے۔ تو پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا پھر میری یہ بات مانو، کیونکہ پہاڑ کے اوپر اگر کوئی کھڑا ہے تو اس طرف بھی دیکھتا ہے اس طرف بھی دیکھتا ہے جو اس طرف دیکھتا ہے اگر اس کو اس آدمی پر اعتماد ہو کہ یہ صحیح آدمی ہے تو وہ جو کہے گا کہ اس طرف یہ ہے تو یہ مانے گا۔ اگر اعتماد نہ ہو تو نہیں مانے گا، خود جانے کی ضرورت تو نہیں سمجھے گا۔ تو آپ ﷺ نے پہلے ان سے اعتماد کا اقرار کروایا، جب اقرار کر لیا پھر دعوت دی۔ اس کے بعد وہ اپنے کفر پہ اڑ گئے۔ سب سے پہلے ان کے چچا ابو لہب نے نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذٰالِک کہہ دیا کہ تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں، تو نے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا؟ اللہ پاک نے اس کا جواب دیا ﴿تَبَّتۡ يَدَاۤ اَبِىۡ لَهَبٍ وَّتَبَّؕ﴾ (الہب: 1) مقصد میرا یہ ہے کہ سادہ بات کرو اور جو حضرات ایمان لائے تھے، کوئی فلسفیانہ discussions نہیں ہوئیں بلکہ اس وقت بالکل سادہ سادہ باتیں تھیں اور سادہ باتوں پہ ایمان لائے تھے۔ آپ ﷺ سامنے تھے، آپ ﷺ کی پوری زندگی سامنے تھی۔

طفیل دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بڑے شاعر تھے اور معاشرے کے لحاظ سے اپنی قوم میں بڑی اہم personality کے مالک تھے۔ وہ آئے تو اس وقت قریش مکہ نے مشہور کیا ہوا تھا کہ آپ ﷺ جادوگر ہیں، ان کے الفاظ میں جادو ہے، اس وجہ سے اپنے کانوں کے اندر روئی ٹھونس لو اور ان کی بات ہی نہ سنو۔ انہوں نے بھی روئی رکھ لی۔ پھر بعد میں خیال آیا کہ میں خود شاعر ہوں اور سمجھ دار ہوں، میں دوسروں کی باتوں پہ کیوں یقین کروں؟ میں خود کیوں نہ test کروں کہ یہ کیا بات کرتے ہیں؟ روئی نکالی اور آپ ﷺ سے ملنے کے لئے آ گئے۔ آپ ﷺ اس وقت قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے، انہوں نے جب تلاوت سنی تو کہا یہ شعر نہیں ہو سکتا، یہ کوئی اور کلام ہے۔ بڑے متاثر ہوئے اور ایمان لے آئے۔ اس کے بعد جا کر اپنے قبیلے کو بھی دعوت دی۔ اس میں آپ ﷺ نے تو اور کچھ بتایا ہی نہیں بلکہ قرآن سنایا، عتبہ کو بھی تو قرآن سنایا تھا وہ قرآن سے متاثر ہوا تھا، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی قرآن سے متاثر ہوئے تھے۔ تو صحابہ قرآن سے متاثر ہوئے یا آپ ﷺ سے متاثر ہوئے اور پھر ایمان لائے ہیں۔ حضور ﷺ کی زندگی اور قرآن یہ ہمارا اسلام ہے، باقی اگر کوئی نہیں مانتا تو نہ زبردستی کی جا سکتی ہے اور نہ زبردستی کرنے کا حکم ہے۔ اس کے بعد ہم کہیں گے "وَ مَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ"۔ اللہ تعالیٰ بھی آپ ﷺ کو بار بار قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ ان کو ان کے حال پہ چھوڑ دو، یہ ماننے والے نہیں ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ آپ ان کو فلسفیانہ دلائل دیں بلکہ جو نہیں مانتے ان کے لئے فرمایا کہ ان کو چھوڑ دو۔ البتہ موعظۃ الحسنہ یعنی صحیح بات سمجھانا، صحیح طریقے سے، یعنی فلسفیانہ دلائل کے ساتھ نہیں۔ اور صحیح بات سمجھانے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے نفس کا حصہ اس میں نہ لاؤ۔ مثلاً حقارت سے نہ ہو، غصے سے نہ ہو، طریقے سے ہو، اس کا مقام سمجھ کے ہو، حفظ مراتب یعنی محل شناسی، مردم شناسی، موقع شناسی ان تمام چیزوں کے ساتھ ہو۔ جہاں تک دلائل کی بات ہے تو ہمارے بھی دلائل اس طرح نہیں ہوتے بلکہ سادہ ہوتے ہیں جو ہر ایک کی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ ہمارے جتنے بھی دلائل ہیں وہ کوئی فلسفیانہ دلائل نہیں ہوتے بلکہ جو لوگ ان کو فلسفیانہ بناتے ہیں ان کا ہمیں رد کرنا ہوتا ہے یا صاف کرنا ہوتا ہے کہ اس بات کا مطلب یہ نہیں بلکہ یہ ہے۔

ہمارے بنیادی عقائد کے اندر کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسی چیز جو کچھ خاص لوگوں کے لئے ہو جیسے معارف ہیں، تو ان کی بات الگ ہے۔ جیسے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے معارف کی بات کی۔ وہ عقائد کی بات تو ہے نہیں، نہ اس کے اوپر مدار ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے جو آخری chapter لطائفِ خفیہ پہ لکھا ہے اس میں بالکل صاف فرمایا ہے کہ اگر کسی کو سمجھ نہ آ رہا ہو تو وہ اس کو نہ پڑھے۔ یعنی الجھانا مقصود نہیں ہے، اگر وہ خود اس مقام تک پہنچا ہے کہ اس کو سمجھ سکتا ہے تو پھر آگے جائے، اگر وہ اس تک نہیں پہنچا تو خواہ مخواہ اپنے آپ کو پریشان کرے گا۔ ہمارے جتنے بھی علم کلام والے حضرات ہیں وہ اس میں نہیں جاتے، البتہ اگر کسی نے الجھاؤ پیدا کیا تو اس کو دور کریں اور بالکل سادہ level پہ بات لے آئیں۔ مثال کے طور پر ایک چیز سامنے سیدھی کھڑی ہے، کسی نے اس کو الٹا کیا تو آپ نے اس کو سیدھا کرنا ہے، آپ سیدھی چیز کو الٹا نہیں کریں گے۔ تو علم کلام والے حضرات یہی کرتے ہیں کہ قرآن سے یا پھر سنت سے دلیل لاتے ہیں یا پھر کسی صحابی کے قول سے دلیل لاتے ہیں اور اس طریقے سے آگے بات سمجھاتے ہیں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن

عقائد کی فلسفیانہ تشریح کی ضرورت - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال