دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لئے سنت الہی کیا ہے؟

سوال نمبر 411

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم کے مقدمہ ”منصب نبوت“ میں صفحہ نمبر 31 پر بعثت کا زمانہ کے تحت فرماتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ کوئی نئی حکومت اس لئے قائم کی جائے تاکہ اس کے ذریعے سے دوسری حکومتوں کو جو دنیا میں فساد اور شر کا موجب بنی ہوئی ہیں، انہیں مٹا دیا جائے۔ ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ اُس شخص کو بھیجتا ہے جو پہلے اس قائم ہونے والی سلطنت کی قوم کی اصلاح کرے اور اُس کے دین کو درست کرے تاکہ اس کے ذریعے سے دوسری قوموں کی اصلاح ہو۔ یہاں حضرت نے جو بات فرمائی ہے کہ پہلے قوم کی اصلاح ہو پھر اُس کے ذریعے سے نئی حکومت قائم کی جائے اور اُس کے ذریعے سے شر و فساد والی حکومتوں کو مٹا دیا جائے، کیا اس سے یہ مطلب ہے کہ دنیا ميں امن و امان قائم کرنے کے لئے سُنت الہی یہی ہے کہ اصلاح کا کام نیچے سے یعنی عوام سے شروع کیا جائے اور پھر اس کو آگے بڑھا کر حکومتی سطح تک پہنچا دیا جائے یا حضرت سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت کا کوئی اور مفہوم ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

بنیادی بات قوم کی اصلاح ہے۔ قوم کی اصلاح اگر اوپر سے ہو جائے تو بھی ٹھیک ہے، نیچے سے ہو جائے پھر بھی ٹھیک ہے، کیونکہ مقصد یہاں پر اصلاح ہے۔ نیچے کی اصلاح کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلے لوگوں کی اصلاح ہو جائے اور پھر وہ اپنی حکومت قائم کر لیں۔ آپ ﷺ کے وقت میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام کی ایک جماعت تیار کی۔ 13 سال مشقت کا دور مکہ مکرمہ کا میں گزارا۔ اس وقت صبر اور استقامت ہی سب سے بڑا ہتھیار تھا، کیونکہ حالات کا کچھ پتا نہیں ہوتا اور جذباتیت انسان کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ جذباتیت کی بجائے حکمت اور دانائی کے ساتھ اور صبر و استقامت کے ساتھ جو کام کیا جاتا ہے تو وہ کامیاب ہوتا ہے۔

مکی دور حکمت اور دانائی کے ساتھ صبر کا تھا اور مدینہ منورہ میں جب تشریف لائے اور وہاں حکومت قائم ہو گئی تو پھر عدل کے ساتھ اس کا انتظام کر کے شرعی قوانین کو نافذ کرنا اور حکومتی سطح پر دوسروں تک پہنچانا، یہ کام ہو گیا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اخیر میں مختلف بادشاہوں کو خطوط بھیجے اور ان بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دی۔

آپ ﷺ نے اپنی قوم کو ابتدا سے تیار کیا، لیکن جب دوسری قوموں کو دعوت دی تو کیا ان کے اوپر ابتدا سے کام کیا یا ان کے بادشاہوں کو دعوت دی؟ دوسروں قوموں کے بادشاہوں کو دعوت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہوں کے ذریعے سے ان کی قوم کے حالات درست ہو جائیں اور وہ اسلام پر آ جائیں، تو دونوں طریقے ثابت ہو گئے۔ یعنی ابتدا سے کام کرنے کا طریقہ بھی ثابت ہو گیا اور اوپر سے چیزوں کو لانے کا طریقہ بھی ثابت ہو گیا، چنانچہ دونوں راستے کھلے ہیں۔

ایک دفعہ ایک صاحب نے کسی عالم پہ اعتراض کیا کہ آپ نے نماز مسنون طریقے سے نہیں پڑھی۔ تو عالم، عالم ہوتا ہے۔ اس نے آرام سے پوچھا کہ کون سی سنت کے مطابق، جوانی کی یا بڑھاپے کی؟ کیونکہ جوانی میں آپ ﷺ کی طاقت کچھ اور تھی، اس وقت جس طریقے سے نماز میں کھڑے ہوتے تھے، جس طریقے سے پوری نماز پڑتے تھے تو وہ جوانی کی وجہ سے تھا اور جس وقت آپ ﷺ پہ بڑھاپا آ گیا تو اس کے بعد اس کے حساب سے نماز پڑھی۔ تو سنتیں دونوں موجود ہیں، بوڑھے لوگ بڑھاپے کی سنتیں لے لیں اور جوان لوگ جوانی کی سنتیں لے لیں۔ تو جس وقت حالات بالکل ٹھیک نہ ہوں تو پہلے والی بات ہے اور جب اوپر سے حالات درست ہو سکتے ہوں، جب اوپر سے حالات بگاڑے گئے ہوں تو اوپر سے درست بھی ہو سکتے ہیں۔ اکبر بادشاہ نے حالات بگاڑے تھے، حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے top پر محنت کی اور اس کے رؤساء تھے، علماء تھے، مشائخ تھے، مقتدر لوگ تھے ان کو خطوط بھیجے۔ آپ مکتوبات شریف دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ جن کے نام بھیجے گئے وہ ایسے ہی لوگ تھے۔ خطوط کے ذریعے سے ان کی تربیت فرمائی اور بعد میں ان سے کام لے کے جہانگیر کو جانشین کروایا۔ یہ پہلی کامیابی تھی ورنہ فرخ بادشاہ بن جاتا۔ پھر جہانگیر پر محنت جاری رکھی اور شاہ جہاں با قاعدہ بیعت ہو گیا اور شاہ جہاں کا بیٹا اورنگزیب تو با قاعده حضرت خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ کا دست راست تھا۔ یعنی چار پشتوں پہ اتنا کام ہوا کہ جس بادشاہ نے فقہاء کو سفہاء کہا تھا، چوتھی پشت میں اسی کے پڑ پوتے نے فقہاء کو اپنے تخت پہ بٹھا کر ”فتاویٰ عالمگیری“ لکھوائی، اتنی بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ دونوں طریقے اچھے ضرور ہیں، لیکن حکمت اور دانائی کے ساتھ، جو مناسب ہو۔ جیسے مکی دور میں مکی طریقہ اور مدنی دور میں مدنی طریقہ۔ بعض لوگوں پہ ذرا غلبہ ہوتا ہے تو وہ صرف ایک طریقے میں چل رہے ہوتے ہیں، دوسرے طریقے کو نہیں دیکھتے، ان کو نظر نہیں آ رہا ہوتا اور وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے۔ یہ خوارج والی سوچ ہے کہ صرف اپنے آپ کو درست سمجھنا اور دوسرے لوگوں کی اچھائیوں کو نہ دیکھنا، یہ غلط طریقہ ہے۔ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسلمان ہو رہے تھے تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے پہلے آگے آ گے جا رہے تھے اور ان فرمایا کہ اگر کوئی مجھے آپ کے ساتھ دیکھ لے گا تو آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، تو اس وقت میں پیشاب کے بہانے بیٹھ جاؤں گا اور آپ آگے چلے جانا، بعد میں، میں آپ سے مل لوں گا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ ان کے ساتھ جا رہا ہے۔ یعنی اس وقت یہ حالات تھے۔ نماز دارِ ارقم میں پڑھتے تھے اسی طریقے سے بہت ساری چیزوں میں اخفاء تھا۔ جیسے اگر کوئی امریکہ میں کام کر رہا ہو تو اس طریقے سے کر سکتا ہے یا Russia میں کام کر رہا ہو تو اس طریقے سے کر سکتا ہے۔ بعض صورتوں میں ہندوستان میں کام کر رہا ہو تو اس طریقے سے کر سکتا ہے، یعنی حالات کو دیکھ کر کام کرنا چاہیے۔ مجھے حاجی عبد الرحمان صاحب بتا رہے تھے کہ ہم برما گئے وہاں حالات اور تھے، وہاں ہم نے اخفاء کے ساتھ کام کیا۔ لیکن جس وقت ہم برما کے border کو cross کر کے بنگلہ دیش آگئے تو چادر کندھے پہ ڈالی اور دبنگ طریقے کام کیا۔ تو ہر جگہ اپنے حالات ہوتے ہیں، سب جگہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ موقع شناسی، محل شناسی، مردم شناسی یہ تین شناسائیاں یہ کام کرنے والے کے لئے ضروری ہوتی ہیں ورنہ پھر انسان کام نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح فہم نصیب فرمائے اور ہم سے اللہ پاک وہ کام لے جس سے اللہ پاک راضی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے ایسا راضی کہ پھر ناراض نہ ہو۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن

دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لئے سنت الہی کیا ہے؟ - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال