خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ نے پڑوسی کے حقوق کے بارے میں کافی تاکید فرمائی ہے۔ آج کل ہم اپنے پڑوسیوں سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔ خصوصاً شہری علاقوں میں پڑوسی ایک دوسرے سے بالکل نا واقف ہوتے ہیں، یہاں تک کہ بعض دفعہ پڑوسی کا نام بھی معلوم نہیں ہوتا۔ پڑوسیوں کی ایک دوسرے سے واقفیت، آپس میں میل جول رکھنے اور ایک دوسرے کی ضروریات سے واقف رہنے کے لئے ہمیں کیا عملی اقدامات کرنے چاہئیں؟
جواب:
شریعت کا حکم ہے کہ اپنے پڑوسی کا خیال رکھو، یہاں تک کہ بار بار جبرائیل علیہ السلام پڑوسی کے حقوق کے بارے میں آپ ﷺ کو بتاتے رہے کہ آپ ﷺ سمجھنے لگے کہ کہیں پڑوسی کو وراثت میں بھی شامل نہ کیا جائے۔ رشتہ داروں کا حق، پڑوسیوں کا حق، بڑے کا، چھوٹے کا، یہ تمام حقوق اللہ پاک نے مقرر کئے ہیں۔ شریعت تو آپ کو یہ بتائے گی۔ تاہم اس پر عمل کیسے کیا جائے؟ تو اس پر عمل کے لحاظ سے ہر جگہ کا اپنا اپنا طریقہ ہو گا، مختلف حالات ہوں گے، مختلف حالات میں مختلف طریقے ہوں گے۔ گویا کہ یہ معاملے کی بات ہے، سمجھ کی بات ہے، اس وقت کے حالات کے مطابق بات ہو گی۔ اس کے بارے میں مذہب آپ کو ایک اصول بتا دے گا، باقی حالات تو ہر جگہ مختلف ہیں۔ اس میں کم از کم یہ بات میں کہہ سکتا ہوں کہ جو Key point ہے وہ ہر جگہ کام آ سکتا ہے۔ یعنی جو چیز آپ کو کسی کا حق رکھنے سے روک رہی ہے، اس کی بات نہ مانو، اس تقاضے کو دباؤ، وہ چیز نفس ہے۔ ہر جگہ اسی کا مسئلہ نکل آتا ہے۔ کیونکہ یہ صرف خود غرض ہے، نفس سے زیادہ خود غرض کوئی چیز نہیں ہے۔ نفس صرف اپنا ہی بھلا چاہتا ہے کسی اور کا نہیں۔ در اصل اپنا بھی نہیں چاہتا کیونکہ اس کو اتنی سمجھ ہی نہیں ہے، لیکن یہ اپنے خیال کے مطابق اپنا فائدہ چاہتا ہے۔ اب اگر اس کا علم اس کو نہ ہو، سمجھ نہ ہو۔ جیسے بچے کو سمجھ نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ Power plug کے بارے میں دو بچے لڑ سکتے ہیں، ایک کہتا ہے: میں اس میں انگلی دوں اور دوسرا کہتا ہے: میں اس میں انگلی دیتا ہوں۔ لیکن سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے وہ غلط چاہتے ہیں، اپنی موت کو چاہ رہے ہیں۔ اسی طریقے سے نفس کو سمجھ نہیں ہوتی، اور وہ وہی چاہتا ہے جو اس کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔ تو نفس کی مخالفت سے ضروری نہیں ہے کہ دنیا میں آپ کو تکلیف ہو، نقصان ہو، بلکہ عین ممکن ہے کہ نفس کے نہ چاہنے کی وجہ سے آپ کو دنیا کا بھی فائدہ ہو۔ مثلاً ڈاکٹر پرہیز بتاتے ہیں، لیکن نفس چاہتا ہے کہ پرہیز مت کرو۔ اس وقت آپ نفس کی نہیں مانیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ ٹھیک ہو جائیں گے، بہتر ہو جائیں گے۔ بعض دفعہ ڈاکٹر بھی بد پرہیزی کرتے ہیں، تو وہ کس کی مان رہے ہیں؟ اپنے علم کی مان رہے ہیں؟ نہیں بلکہ وہ اپنے نفس کی مان رہے ہیں اور اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اسی طریقے سے نفس جہالت اور نا سمجھی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔ اب ذرا link سمجھنے کی کوشش کریں، انسان کے اندر تین چیزیں ہیں۔ نفس، عقل اور دل۔ نفس کی خواہشات ہوتی ہیں، دل کے جذبات ہوتے ہیں۔ لیکن جذبات پہ خواہشات کا اثر غالب ہوتا ہے۔ اور عقل جذبات اور نفس کی خواہشات دونوں کو control کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ لیکن یہ تب ہو گا جب عقل کے اوپر نفس یا جذبات کا اثر نہیں ہو گا۔ بعض دفعہ انتہائی خوشی کے اندر انسان بھول جاتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے؟ یہ جذبات کی وجہ سے ہے۔ محبت کی وجہ سے بھول جاتا ہے۔ کہتا ہیں محبت اندھی ہوتی ہے۔ یعنی اس کو عقل نہیں ہوتی۔ وہ اپنی عقل کے مطابق کام نہیں کر رہی ہوتی یا عقل اس کو signal دے رہی ہوتی ہے لیکن وہ مان نہیں رہی ہوتی۔ اسی طریقے سے ان تمام چیزوں کو control کرنے کے لئے کچھ system بنانا پڑتا ہے اور وہی system تصوف ہے۔ اب پڑوسی کے حقوق کو پورا کرنے کے لئے اور اس کو حق دینے کے لئے، ہمیں اپنے نفس کو control کرنا پڑے گا اور اس کا حق اس کو دینا پڑے گا۔ پڑوسی کے بارے میں خود غرضی کی مثال ایسے ہے جیسے یہ راستہ ہے، ہر آدمی اپنے گھر سے گند کو اٹھا کر دوسرے کی گلی میں یا دوسرے کی نالی میں یا دوسرے کے گھر کے سامنے ڈال دیتا ہے۔ کوئی دوسرا اس کے گھر کے سامنے اسی طرح کچرا ڈال دے تو کیا وہ آرام سے مان لے گا؟ کہ میں بھی یہی کرتا ہوں، دوسرا بھی کرتا ہے تو کوئی بات نہیں۔ بلکہ سب سے زیادہ وہی لڑے گا۔ یہ خود غرضی ہے یا نہیں؟ مثلاً میں رات کو دو بجے اٹھ کر دیوار میں کیل ٹھونک رہا ہوں اور پڑوسی بیچارہ سو رہا ہے، وہ نیند سے اٹھ جاتا ہے۔ پھر اس کو دوبارہ نیند نہیں آتی۔ اب شاید مجھے علم بھی نہ ہو، لیکن میں نے پڑوسی کو تکلیف دی۔ اگر پڑوسی مجھے اگلے دن نہ بتائے تو شاید مجھے کبھی بھی علم نہ ہو۔ لیکن اگر میں اپنی عقل کو نفس سے فارغ رکھوں، تو عقل مجھے کہہ سکتی ہے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ یہ وقت اس کام کا نہیں ہے، بعد میں بھی ہو سکتا۔
دو پڑوسی ایک عمارت میں اوپر نیچے رہتے تھے۔ اوپر والا پڑوسی جب رات کو گھر آتا تو جوتے پٹخ پٹخ کے اتارتا۔ جس کی وجہ سے نیچے رہنے والا اگر سو رہا ہوتا تو جاگ جاتا۔ ایک دن اس نے ایک جوتا پھینکا تو اس کو خیال آ گیا اور اس کی عقل نے کام کیا، اور دوسرا جوتا آرام سے رکھ دیا۔ کافی دیر بعد اس کے دروازے کی knocking ہوئی۔ دیکھا تو نیچے والا پڑوسی تھا۔ پوچھا: جی کیا بات ہے؟ اس نے کہا: مہربانی کر کے دوسرا جوتا بھی پٹخ دیں، میں انتظار میں ہوں، مجھے نیند نہیں آ رہی کہ کب آپ دوسرا جوتا پھینکیں گے۔ تو اس نے بتایا کہ دوسرا جوتا میں نے آرام سے رکھ دیا ہے۔ یعنی وہ اتنا پریشان تھا کہ یہی سوچ رہا تھا کہ ابھی دوسرا پھینکے گا۔ شریعت نے اس کا بہت آسان اصول بتایا ہے، حدیث شریف میں آیا ہے۔ یعنی تمام چیزوں کو cover کرنے والا rule ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہو، وہی دوسرے کے لئے بھی پسند کرو۔ اگر آپ سمجھیں کہ میرے پڑوسیوں میں سے کوئی میری گلی کے سامنے گند ڈال دے جس سے مجھے پریشانی ہو تو میں کسی اور کی گلی کے سامنے نہ ڈالوں۔ کوئی میری گلی کے سامنے کار کھڑی کر دے تو مجھے تکلیف ہو، لڑنے کے لئے آمادہ ہو جاؤں، تو میں کسی اور کی گلی کے سامنے کار کھڑی نہ کروں۔ اسی طریقے سے اگر کوئی رات کو کیل میری دیوار میں ٹھونکے جس سے مجھے تکلیف ہو تو یہ بات مجھے بھی سمجھ میں آنی چاہیے۔ گویا کہ یہ رہنما اصول ہیں کہ جو کام میں اپنے لئے پسند نہیں کرتا، وہ کسی اور کے لئے بھی پسند نہ کروں۔ جو کام میں اپنے لئے چاہوں، اگر دوسرے کے لئے بھی مفید ہو تو میں دوسرے کے لئے بھی چاہوں۔ مثال کے طور پر پہلے وقتوں میں بڑی اچھی عادت ہوتی تھی، چونکہ لوگ سادہ دل تھے، مخلص تھے۔ بازار میں کوئی گیا اور کوئی چیز آئی ہے جو سب کو مطلوب ہے یا پسند ہے یا اس کی تلاش میں ہیں، تو آ کر اپنے پڑوسی کو بھی اطلاع کر دیتے کہ بازار میں فلاں چیز آئی ہوئی ہے۔ اگر اس کو نہیں چاہیے تو ٹھیک ہے اس کو information مل گئی۔ لیکن اگر اس کو چاہیے تو وہ اس کو لے لیتا تھا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی آپس میں یہ عادت تھی کہ اگر کسی کی بچی کے لئے اچھا رشتہ نظر آتا کہ یہ اس کے لئے suit کرتا ہے، تو آ کر لڑکے کے والد سے یا لڑکی کے والد سے چپکے سے کہہ دیتے کہ فلاں جگہ میرے خیال میں اچھا رشتہ ہے، آپ تھوڑا سا check کر لیں۔ ایک شیعہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا پڑوسی تھا۔ وہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہودی کہتا تھا۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے کہا کہ میں نے آپ کی بیٹی کے لئے بڑا اچھا رشتہ ڈھونڈا ہے۔ وہ اتنے مالدار ہیں، ایسے خلیق ہیں، لوگوں کے کام آتے ہیں وغیرہ۔ ساری اچھائیاں اس میں ہیں۔ لیکن صرف ایک عیب ہے۔ پوچھا: کون سا عیب ہے؟ فرمایا: بس وہ صرف یہودی ہے۔ اس نے کہا: اچھا! میں یہودی کو بیٹی دوں گا؟ آپ نے مجھے ایسا سمجھا ہے؟ انہوں نے کہا: خدا کے بندے آپ کو اپنی بیٹی یہودی کو دینے کے لئے اتنا غصہ آ رہا ہے، تو آپ ﷺ یہودی کو اپنی بیٹی دیتے؟ گویا کہ اس کو عقلی طور پہ سمجھا دیا کہ اگر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ نے ایک نہیں، دو بیٹیاں دی تھیں اور یہ بھی فرمایا کہ اگر میری اس کے بعد بھی بیٹی ہوتی تو میں ان کو دیتا۔ تو وہ یہودی ہو سکتے ہیں؟ کہتا ہے: یہ بات بالکل صحیح ہے، بس اس نے توبہ کر لی۔ تو اس طرح کے حالات اب بھی لائے جا سکتے ہیں، اگر ہم ان چیزوں کو سمجھیں اور اپنی اصلاح کریں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن