حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اپنے سوچ کو فنا کرنے کی مثال

سوال نمبر 409

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ کے ساتھ محبت میں اپنی سوچ کو بھی فنا کر دیا تھا، جس کا عملی مظاہرہ بہت سے مواقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دیکھا۔ جس میں غزوہ تبوک کے موقع پر اپنا سارا مال دینا، صلح حدیبیہ کا موقع اور آپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ ﷺ کے کئے ہوئے فیصلوں کو برقرار رکھنا زیادہ واضح مواقع ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل البشر بعد الانبیاء تو اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس طرح اپنی سوچ کو بھی آپ ﷺ کے لئے فنا کیا تھا، اس سے ہمیں اپنی عملی زندگی کے لحاظ سے کیا پیغام مل رہا ہے اور اس کو ہم کس طریقے پر حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَ أَصْحَابِي" (ترمذی، حدیث نمبر: 2641) کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔

جواب:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح تو کوئی بن سکتا نہیں ہے کیونکہ افضل البشر بعد الانبیاء فرمایا گیا ہے۔ انبیاء اب نہیں آئیں گے تو ان کا مقام fix ہو گیا ہے۔ یعنی بعد کی امت میں جو بھی آئیں گے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سب سے افضل ہوں گے۔ لہٰذا ان کے مقام تک کوئی پہنچ نہیں سکتا۔ البتہ ان کا اتباع کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ آپ ﷺ کے مقام تک پہنچنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن آپ ﷺ کے اتباع کا حکم ہے۔ یقیناً پورے دین پر چلنا تو سب مسلمانوں کے لئے ہے، جن میں سارے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ آتا ہے۔ گویا کہ مجموعی طور پر جو پورا دین ہے، فقہ ہے، وہ ان تمام قرآنی آیات اور احادیث شریفہ اور صحابہ کرام کے عمل سے جو وجود میں آیا ہے، اس پر عمل کرنا، اس کے لئے تو سارے مسلمان مکلف ہیں۔ البتہ جیسے سارے صحابہ میں بنیادی چیزیں مشترک تھیں، لیکن کچھ خصوصیات تھیں، جن کی وجہ سے وہ دوسروں سے ممتاز تھے۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشق و محبت و سوز اور آپ ﷺ میں فنا ہونے کا ایک مکمل عملی نمونہ تھے۔ اس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیروی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً اس وقت دین آ رہا تھا، جمع ہو رہا تھا، تدوین ہو رہی تھی۔ اس وقت حالات کا پتا نہیں ہوتا تھا کہ اس کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ یعنی کیا چیز آنے والی ہے؟ کیا چیز منسوخ ہونے والی ہے؟ اس وقت ہر عمل کے لئے گویا کہ ایک منفرد نمونہ سامنے آیا کرتا تھا۔ لیکن اب چونکہ دین مکمل ہو گیا ہے، لہذا دین کی جو مجموعی صورت ہے اس پر انتہائی اخلاص کے ساتھ اور خود سپردگی کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے کہ جو اللہ چاہتا ہے، بس میں وہی چاہتا ہوں۔ اس جذبے کے تحت دین پر عمل کرنا بہت اچھی بات ہو سکتی ہے اور اس کے اندر محبت کا جذبہ کار فرما ہو۔ بعض دفعہ انسان دین پر مختلف مصلحتوں سے بھی عمل کر سکتا ہے۔ مثلاً جس سے کوئی دنیاوی نفع حاصل ہوتا ہے یا اس سے کوئی بزرگی یا دینی منصب مقصود ہوتا ہے تو یہ ساری چیزیں اس سے ہٹ جاتی ہیں، کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اوپر نظر نہیں ڈالا کرتے تھے بلکہ آپ ﷺ کی منشا پہ نظر ڈالا کرتے تھے کہ آپ ﷺ کی منشا کیا ہے؟ وہ اس کو نہیں دیکھتے تھے کہ میرے لئے کیا مسئلہ ہے؟ مثلاً آپ ﷺ ہجرت فرما رہے تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور مدینہ منورہ قریب آ گیا۔ لوگ استقبال کے لئے آئے ہوئے ہیں، ایسی صورت میں اگر ہم جیسے لوگ ہوتے تو ظاہر ہے آپ ﷺ سے پیچھے پیچھے چلتے۔ اس وقت آپ ﷺ کے منشا یہ تھی اور چونکہ آپ ﷺ کا فائدہ اسی میں تھا کہ آپ ﷺ کو تکلیف نہ دی جائے۔ تو لوگ آ آ کر آپ ﷺ سے مصافحہ کرتے، ممکن ہے بغل گیر بھی ہوتے، جس سے آپ ﷺ کو تکلیف ہوتی۔ اس وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے ہوئے اور لوگ ان سے مل رہے ہیں کیونکہ ان کی عمر ذرا زیادہ لگتی تھی تو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ شاید یہ اللہ کے نبی ہیں۔ تو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کر رہے ہیں اور معانقے کر رہے ہیں اور آپ ﷺ پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔ جب ایک جگہ بیٹھنے کا وقت آ گیا تو دھوپ کی وجہ سے فوراً ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے اور آپ ﷺ کے اوپر سایہ کیا، اس وقت پتا چلا کہ خادم کون ہے مخدوم کون ہے۔

آپ ﷺ کا پہاڑ میں سفر ہے، غار ثور تک پہنچنا ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پنجوں کے بل چل رہے ہیں، اس ڈر سے کہ کہیں یہاں نشانات نہ پڑ جائیں۔ اور آپ ﷺ کو تکلیف سے بچانے کے لئے اپنے کندھوں پہ سوار کر کے چڑھ رہے ہیں۔ اندازہ کر لیں، دعویٰ تو بہت آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، لیکن یہاں عملی چیزیں ہیں۔ پھر غار کے اندر آپ ﷺ آرام فرما رہے ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلا کام یہ کیا کہ پتھر وغیرہ کے ذریعے سوراخ بند کر دیئے، لیکن جتنے نہیں ہو سکے تو اپنا کرتا پھاڑ کر ان جگہوں پر رکھ دیا، پھر بھی ایک جگہ تھوڑی سی خالی رہی، وہاں پر اپنا انگوٹھا رکھ دیا۔ وہاں ایک سانپ تھا جس نے ڈس لیا۔ تکلیف ہوئی، زور سے رونا نہیں چاہتے تھے کیونکہ آپ ﷺ آرام فرما رہے تھے۔ آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر آنسو گرے تو آپ ﷺ کی آنکھ کھل گئی۔ پوچھا: کیا بات ہے؟ عرض کیا: سانپ نے ڈس لیا ہے۔ آپ ﷺ نے اپنا لعاب دہن لگا دیا اور وہ ٹھیک ہو گیا۔ مثال کے طور پر میں اگر کہہ دوں کہ میں یہ کام کر لوں تو میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔ پھر تو ہمارے لئے وہ بات ایک پہاڑ جیسے ہو گی، لیکن جب صورتحال کا پتا نہ ہو کہ میرے ساتھ آئندہ کیا ہو گا؟ تو اس وقت انسان کو پتا چلتا ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے؟ بہر حال معاملہ تو بڑا مشکل ہے، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح کرنا، لیکن اگر کوئی ان کے طریقے پہ جانا چاہے، تو راستہ یہی ہے کہ جس میں آپ ﷺ کی محبت موجزن ہو، اِس حد تک کہ انسان اپنے آپ کو بھول جائے، اپنے فائدہ نقصان کو بھول جائے بلکہ آپ ﷺ کے طریقے کو سامنے رکھے، اسی میں کامیابی سمجھے، اسی میں سب کچھ سمجھے، یہی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اپنے سوچ کو فنا کرنے کی مثال - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال