خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
احادیث شریفہ میں آتا ہے کہ دجال کی طرف جو بھی دیکھے گا وہ اس کو اپنی طرف کھینچ لے گا اور یہ بھی آتا ہے کہ سب سے بڑا فتنہ دجال کا ہے۔ دجال سے بچنے کے لئے عقل اور نفس کی اصلاح کی ضرورت تو آپ نے کل سمجھا دی لیکن دجالی نظام جو کہ آج کل زوروں پر ہے، اس سے بچنے کے لئے عقل اور نفس کی اصلاح کی ضرورت کس حد تک ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ دجالی نظام بھی وہی جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے اور مسلمانوں میں ہر ایک کے لٸے یہ ممکن نہیں کہ عقلی طور پر ان حربوں کو سمجھ سکیں جو کہ دجالی نظام اس وقت استعمال کر رہا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں میں بہت سادہ مسلمان بھی ہیں۔ ایسی صورت میں ایک سادہ مسلمان کے لئے جو کہ نہ زیادہ دینی علوم رکھتا ہے اور نہ آج کل کی ساٸنسی شعبدہ بازی سے واقف ہے۔ بچنے کا کیا طریقہ ہو گا؟
جواب:
نفس کی اصلاح جس وقت ہو جائے تو عقل کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اگر نفس کی اصلاح نہیں ہوئی پھر بھی عقل کو استعمال کرنا، اس میں انسان کو تکلف ہے، سوچنا ہے۔ مثال کے طور پر مجھے پتا ہے کہ میرا نفس چاہتا ہے کہ میں میٹھا کھاؤں، لیکن خدا نخواستہ اگر شوگر ہے تو میں اپنی عقل کو استعمال کر سکتا ہوں۔ لیکن مجھے تکلف کرنا پڑے گا، سوچنا پڑے گا اور اپنے اوپر جبر کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر میری عقل کے اوپر کوئی نفس کی رکاوٹ نہیں ہو گی، بلکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہو گی تو عقل کے اوپر چونکہ نفس کا غلبہ نہیں ہو گا لہذا میں خود جان لوں گا کہ میرے لئے کیا چیز مفید ہے اور کیا چیز مفید نہیں ہے۔ اگر ہم نفس کی اصلاح پہلے سے کر لیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہے ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا﴾ (الشمس: 9، 10) تو اس وقت ہماری عقل بھی کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یعنی عقل میں ساری چیزیں موجود تو ہوتی ہیں، صرف یہ ہے کہ نفس کی وجہ سے وہ کام نہیں کر رہی ہوتیں۔ گویا کہ نفس کے ذریعہ سے driven ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے نفس کی اصلاح کر لیں گے تو ان لوگوں کو پہچان لیں گے جو ہمارے خیر خواہ ہیں۔ مثلاً کسی پارٹی سے کسی کا تعلق ہے، اب نفس کہتا ہے ہماری پارٹی زبردست ہے۔ اس پارٹی کے مخالف اگر علماء ہوں گے تو ان کی بات نہیں سنیں گے بلکہ ان کے خلاف باتیں کریں گے۔ ایسی صورت میں ان سے کوئی استفادہ نہیں کر سکیں گے۔ لیکن اگر نفس کی اصلاح ہو چکی ہو گی تو اول غلط پارٹی میں جائے گا ہی نہیں اور اگر چلا بھی جائے غلطی سے تو کم از کم اس کو علماء سے خار نہیں ہو گی۔ اور اپنے نفس کی وجہ سے گمراہ نہیں ہو گا بلکہ جو صحیح بات ہو گی وہ مان لے گا۔ چنانچہ اگر کوئی صحیح لوگوں کو پہچان لے اور ان کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لے، تو اس کے بعد کم از کم وہ لوگ اس کو خبر دار کرتے رہیں گے کہ یہ کام غلط ہے اور یہ صحیح ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی کو دھوکا دینا چاہتا ہے، لیکن دوسرا شخص یہ بات جانتا ہے کہ یہ دھوکا ہے اور اس کو خبر دار کر رہا ہے۔ اب اگر اس کو اس شخص پر اعتماد ہو گا تو مان لے گا اور دھوکے سے بچ جائے گا۔ لیکن اگر اس کے اوپر اعتماد نہیں ہو گا تو نہیں مانے گا۔ تو جو دھوکے میں آئے گا اس کا نقصان ہو جائے گا۔ نفس کی بنیادی اصلاح جس کا اللہ پاک نے مطالبہ کیا ہے اس کے اندر دونوں چیزیں شامل ہیں۔ یعنی عقل کی بھی اصلاح اور دل کی بھی اصلاح، دونوں اس کے اوپر dependent ہیں۔ کیونکہ نفس نے دل کو بھی خراب کیا ہوتا ہے اور عقل کے اوپر بھی پردے ڈالے ہوتے ہیں۔ اگر انسان اپنے نفس کی اصلاح کر لے اور اس کا دل اس کی وجہ سے صاف ہو جائے اور اس کی عقل بھی کام کرنا شروع کر دے تو اس کے بعد پھر صحیح لوگوں کو وہ پہچان لے گا۔ اور ان کے پیچھے چلے گا اگر چہ اس کا علم کم ہو گا، جیسے مثال کے طور پر ایک شخص عالم نہیں ہے، لیکن جس وقت مشکل پیش آتی ہے تو وہ کسی عالم سے پوچھ لیتا ہے، پھر اگر اس کے اوپر اعتماد ہے تو اس پر عمل کر لیتا ہے۔ تو اس کو فائدہ ہو گا۔ مثال کے طور پر مختلف قسم کے جو لوگ نوسر بازی کے ناٹک رچاتے ہیں، جیسے وہ cards والا system چلا ہوا تھا کہ کوئی اتنے card خریدے گا، پھر بعد میں واپس دے گا تو اس کا فائدہ ہو گا۔ جب اس بارے میں فتوی آگیا تو جن لوگوں نے بچنا تھا وہ بچ گئے۔ جیسے مضاربت والی بات چلی تھی، اس میں بہت سارے لوگ خراب ہو گئے۔ میرے پاس بھی لوگ آئے بلکہ بعض مفتیوں نے پوچھا کہ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے ان سے کہا کہ اس میں transparency نہیں ہے۔ شفافیت نہیں ہے۔ شفافیت ہر معاملے کے لئے ضروری ہے اور یہ بھی ایک معاملہ ہے۔ لہذا میرا شرح صدر نہیں ہے اس پر۔ ایک صاحب تھے جنہوں نے اس کے ظاہر ہونے سے کچھ ہی عرصہ پہلے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا کہ بھئی ذمہ دار نہ بنو، سب سے کہہ دو کہ اپنا پیسہ واپس لے لو، مجھے اس پر اعتماد نہیں ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور لوگوں سے کہا: میں اس سے مطمئن نہیں ہوں، اگر آپ پیسہ واپس لینا چاہتے ہیں تو لے لیں، میں اس کی ذمہ داری نہیں لیتا۔ لوگ نفس کے چکر میں آ گئے تھے جیسے Double game والی بات یا double شاہ وغیرہ۔ کچھ چیزیں double ہوتی رہتی ہیں، تو وہ double game میں آگئے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں ہم آپ کو ذمہ دار نہیں مانتے۔ پھر جس وقت دھماکہ ہو گیا اور پتا چل گیا تو وہ صاحب بچ گئے۔ ان سے کسی نے کچھ نہیں کہا۔ بہت سارے لوگ پھنسے ہوئے تھے، بیچارے شریف شریف لوگ اس میں پھنسے ہوئے تھے۔ شریعت کا ایک حکم ہے کہ معاملہ شفاف ہونا چاہیے تو اس چیز نے بچا لیا۔ اگر انسان واقعتاً اس مسئلے میں Objective thinking رکھتا ہو اور کہتا ہو کہ مجھے اپنا فائدہ عزیز ہے۔ مجھے اس سے مطلب نہیں کہ کون کہہ رہا ہے، تو میرے خیال میں اہل حق کی بات اگر مان گیا تو بچ جائے گا۔ اس کو کوئی کہہ دے یہاں دجال ہے، اس کے سامنے نہ جاؤ، تو نہیں جائے گا۔ لیکن اگر کہتا ہے: کوئی بات نہیں، میں بھی سمجھ سکتا ہوں۔ اور وہ چلا گیا۔ اور اس نے اس کو کھینچ لیا تو کام خراب ہو گیا۔ مجھے وہ شعر بار بار یاد آتا ہے اس موقع پہ کہ:
جن کو ہو جان و دل عزیز ان کی گلی میں جائے کیوں
یہاں پر بہادری نہیں دکھانی ہوتی بلکہ یہاں انسان کو حقیقت پسند ہونا ہوتا ہے۔ سونامی کے سامنے اگر کوئی چلا جائے، اگر یہ بہت بڑا پہلوان بھی ہو گا تو بھی کیا ہو گا؟ سونامی تو جہازوں کو الٹ دیتی ہے تو تمہاری کیا حیثیت ہے؟ اس وقت اگر تم پہاڑ پر چڑھ سکو تو چڑھ جاؤ، کوئی راستہ تمہارے پاس ہو تو اس راستے کو اختیار کر لو، اس کے سامنے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ بہادری کسی ایسی جگہ دکھاؤ جہاں پر بہادری چلے بھی۔ یعنی عقل استعمال کرنے والی بات ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو اہل حق کے ساتھ کر دے، ایسے مرحلے میں بھی کہ جہاں پر اس قسم کے مسائل ہوں اور اللہ پاک ہماری حفاظت فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن