دجال کے فتنے سے محفوظ رہنے کی تیاری

سوال نمبر 407

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم کے صفحہ نمبر 313 پر فرماتے ہيں۔ وہ قومیں جو توحید سے آشنا نہ تھیں، اُنہوں نے انسانیت کا مرتبہ بھی نہیں پہچانا تھا، وہ انسان کو فطرت کے ہر مظہر کا غلام سمجھتی تھیں۔ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمِ توحید ہی تھی، جس نے خدا کے سوا ہر شے کا خوف انسان کے دل سے نکال دیا۔

جواب:

اس دور میں جنات کا خوف بھی بہت تھا۔ با قاعدہ سورۂ جن میں آتا ہے کہ لوگ جنات سے پناہ مانگتے تھے۔ جس سے ان کا نخرہ اور بھی بڑھ گیا ﴿فَزَادُوهُمْ رَهَقًا﴾ (الجن: 6) جنات اپنی باتوں کا اور اپنی طاقت کا اظہار کرتے تھے، جن کے پاس کوئی طاقت ہوتی ہے وہ اظہار کسی نہ کسی طریقے سے کرتے ہیں۔ تو کبھی کبھی کفار پر بھی اس کا اظہار ہوا کرتا تھا۔ اور کفار بھی ان چیزوں کو جانتے ہیں، مانتے ہیں۔ وہ پھر ان سے مدد مانگتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ہمارے دوست ہو جائیں گے۔ جیسے انڈیا میں کرونا مائی بنائی ہوئی ہے۔ یعنی وہ جس چیز سے ڈرتے ہیں اس کو اپنا بڑا مان لیتے ہیں اور پھر اس سے مدد مانگتے ہیں۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں، جب کوئی چیز بچپن میں گم ہو جاتی تھی تو ہم نے سیکھا تھا کہ اس طرح کہو: "ماماګانو تاسوخپل مال واخلۍ مونږ ته خپل مال راکړۍ" یعنی جنات کو ماموں بنا لیتے تھے کہ آپ اپنا مال لے لو، ہمیں اپنا مال دے دو۔ اس طریقے سے ان کے نخرے بڑھ جاتے تھے۔ حالانکہ اللہ پاک نے انسان کو بہت بڑی طاقت دی ہے۔ لیکن اس صورت میں جب اللہ کا ساتھ اس کا تعلق ہو، اس چیز کو سمجھنا چاہیے۔

سوال:

اس وقت جتنے بھی قدرتی مظاہر ہیں ان کی طرف انسان خود بخود مائل ہوتا ہے اور اگر اُن میں کوئی ایسی چیز نظر آ جائے جو کہ انسان کے لئے انوکھی ہو تو بعض لوگ اُن مظاہر کو خدائی کا مرتبہ دے دیتے ہیں۔ جیسے ہندوؤں کو جو بھی انوکھی چیز نظر آ جائے تو اُس کو اپنا دیوتا مان لیتے ہیں۔ اسی طرح اگر حسین مناظر کی طرف انسان جائے تو وہاں بھی انسان ان مناظر میں گُم ہو کر انہی کا رہ جاتا ہے۔ دجال کے پاس اس قسم کے مظاہر بہت زیادہ ہوں گے جن کے ذریعے سے وہ انسانوں کو گمراہ کرے گا۔ ایسی صورت میں ہمیں پہلے سے کیا تیاری کرنی چاہیے کہ دجال کے فریب سے محفوظ رہ سکیں؟

جواب:

اس میں دو باتیں ہمیں ذہن میں رکھنی چاہئیں۔ ایک یہ کہ چاہے کتنی ہی اچھی چیز ہو، ہمارے دلوں کو لبھاتی ہو، لیکن اگر شریعت میں منع ہو تو وہ ہمارے لئے مفید نہیں ہے نہ دین میں نہ دنیا میں، بلکہ نقصان دہ ہے۔ صرف نفس کا ایک وقتی چسکا ہو گا، اس کے بعد اس کے اثرات دنیا میں بھی نقصان دہ ہوتے ہیں اور آخرت میں تو ہیں ہی۔ مثلاً شراب یا زنا جو لذات کی چیزیں ہیں، اسی طرح حرام کھانے پینے ہیں۔ تو اگر اللہ نے ان کو حرام کیا ہوا ہے تو اس میں بڑی حکمت ہے۔ اس میں دنیا کے بھی نقصان ہوتے ہیں اور آخرت کے تو ہوتے ہی ہیں۔ وہ صرف ایک وقتی چسکا ہوتا ہے، جس کے لئے انسان بعد میں آنے والی تمام تکالیف برداشت کر لیتے ہیں۔ جیسے اللہ پاک نے فرمایا ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾ (القیامہ: 19، 20) تو جو چیزیں اللہ نے منع کی ہیں، شریعت میں ممنوع ہیں، ان میں چاہے کتنی ہی لذت ہو، چاہے آنکھوں کی لذت ہو، چاہے کانوں کی لذت ہو، چاہے زبان کی لذت ہو، چاہے دماغ کی لذت ہو، ذہن کی لذت ہو، چاہے دل کی ہو، جس کی بھی ہو لیکن اگر وہ ممنوع ہے تو اس میں شر ہے۔ تو ہمیں اس مقصد کے لئے نفس کو قابو میں رکھنا ہو گا کیونکہ جب تک ہمارا نفس قابو نہیں ہے اس وقت تک ہم پھسلتے رہیں گے۔ اور یہی اس کا tool ہو گا۔ بڑے بڑے لوگ پھسل جائیں گے۔ چنانچہ اپنے نفسوں کے اوپر محنت کرنی ہو گی تاکہ اس سے بچ جائیں۔ اور دوسری بات اپنی عقل کا صحیح استعمال کرنا ہے کیونکہ اس کا جو دجل ہے اس کو عقل کے ذریعہ سے بھی توڑا جا سکتا ہے۔ جیسے اس کے ماتھے کے اوپر کافر لکھا ہے، تو اگر وہ سب کچھ کر سکتا تھا تو اپنے ماتھے سے یہ کیوں نہیں ہٹایا؟ اور اس کی ایک آنکھ بند ہو گی جس کو نہیں کھول سکے گا، تو اگر اور کچھ سب کچھ کر سکتا ہے تو آنکھ کو کیوں ٹھیک نہیں کر سکتا؟ کیونکہ اللہ نہیں چاہتا۔ تو ہمارا کون سا فائدہ کرے گا؟ یہاں پر عقل کا استعمال ہے کہ عقل کے ذریعے سے ہم جان لیں کہ جو کام اللہ کر سکتا ہے وہ یہ نہیں کر سکتا۔ البتہ شعبدہ بازی کر سکتا ہے، شعبدہ بازی ہماری بہت ساری چیزوں میں بھی ہے۔ یعنی کوئی Scientific technique یا کوئی اور اس قسم کی چیزیں وہ کر سکتا ہو گا جو لوگوں کو معلوم نہیں ہوں گی۔ ان کی research میں ہوں گی، ہماری research میں نہیں ہوں گی، چنانچہ لوگ اس سے impress ہوں گے۔ جیسے computer جب ہمارے دور میں نیا نیا آیا تو لوگ اس سے اتنے مرعوب تھے کہ computer کی غلطی کو بھی صحیح مانتے تھے۔ مثلاً واپڈا کے بجلی کے بل آتے تھے جس میں کبھی غلطی ہوتی تھی تو جب ہم ان کے پاس جاتے تو وہ کہتے: یہ تو computer کے ذریعے بنا ہے، اس میں غلطی نہیں ہو سکتی۔ بھئی computer کو input کسی نے دیا ہے تو output اس نے دیا ہے۔ وہ تو ایک formula ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی نے بجائے سو کے ہزار units دیئے ہیں، صرف ایک صفر بڑھ گیا، تو اس نے اسی کے حساب سے خرچ بتانا ہے۔

ہم جب computer سیکھ رہے تھے تو بہت ساری باتیں چل رہی تھیں۔ عوام میں بھی، خواص میں بھی، بلکہ ہمارے teacher نے ہمیں کہا تھا: If you want to rule your bosses, learn computer you will rule them۔ یعنی اگر آپ اپنے bosses کے اوپر حکمرانی کرنا چاہتے ہو تو computer سیکھ لو۔ ان کی یہ بات بالکل صحیح تھی، کیونکہ اس وقت ایسے ہی تھا، جو bosses تھے وہ computer سے اتنے impress تھے کہ جو computer جانتے تھے، بس ایک قسم کا ان پہ dependent ہو جاتے تھے۔ یہ اس وقت عجیب بات تھی۔ speed اس کی زیادہ ہے لیکن learning اس کے پاس نہیں ہے۔ وہ learning آپ کی ہی استعمال کرتا ہے۔ لوگ اس کی speed سے اتنے مرعوب ہو جاتے ہیں کہ سمجھتے ہیں شاید یہ ہم سے زیادہ جانتا ہے۔ بھئی یہ ایک بچے سے بھی زیادہ نہیں جانتا۔ بہر حال لوگوں کا اس پہ بہت اعتماد بنا ہوا تھا۔ اسی طریقے سے جو اس وقت نئی چیزیں آئیں گی، جن کا کسی نے سنا ہی نہیں ہو گا، وہ impress کریں گی۔ لیکن ہم نے یہ سوچنا ہے کہ یہ چیزیں جتنی عجیب ہیں، اس سے زیادہ عجیب تو یہ آسمان ہے، اس سے زیادہ عجیب دوسری قدرتی چیزیں ہیں۔ انسان کے جسم کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے یہ actual systems ہے۔ جو اللہ پاک نے بنایا ہے۔ قدرتی systems ہے۔ اس کو آپ ذرا computer سے replace کروائیں پھر پتا چلے گا کہ آپ کو کتنے بڑے computer کی ضرورت ہے! کتنا وہ کر سکتا ہے اور کتنا وہ نہیں کر سکتا! مثال کے طور پر آپ گردوں کو computer کے گردوں سے اگر replace کریں تو کیسا ہو گا؟ یعنی چھوٹی سی جگہ پر تمام چیزیں accommodate ہو چکی ہوتی ہیں اور آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ دل کا کام کرنے والا اور کوئی computer ہو، پھر پھیپھڑوں کے کام کرنے والا کوئی computer ہو اور kidneys کے کام کرنے والا computer ہو، تو انسان کتنا پھیلا ہوا ہو گا؟ موجودہ latest ٹیکنالوجی کے ساتھ بھی اگر آپ replace کرنا چاہیں تو بھی نہیں ہو گا۔ کیونکہ ٹیکنالوجی بھی جسم کے کسی ایک عضو کے کسی ایک جز کے ساتھ atech ہو گی۔ مثال کے طور پر دل میں اگر کوئی مسئلہ ہو تو pacemaker لگاتے ہیں جو signal دیتا ہے باقی کام دل کرتا ہے۔ مصنوعی دل تو نہیں ہوتا وہ صرف اس میں ایک signal دیتا ہے، باقی کام دل نے کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ چیزیں ختم ہو جائیں تو پھر کیا کر سکتا ہے؟ pacemaker والے بھی مرتے ہیں۔ دماغ کو دیکھو ایک عجیب کارخانۂ قدرت ہے۔ آپ اس کو replace کر سکتے ہیں computer کے ذریعے سے؟ قدرتی نظام بڑے strong ہیں، لیکن ہم لوگ جانتے نہیں ہیں کہ کیسے؟ computer fast ہے لیکن اس کی اپنا learning نہیں ہے۔ یہ بات جیسے مجھ جیسے آدمی کو بعد میں پتا چلی تو بہت سارے لوگوں کو ہم سے بھی زیادہ بعد میں پتا چلے گی اور اس وقت نئی نئی چیزیں فوراً فوراً آئیں گی، چنانچہ لوگ impress ہوں گے۔ یہاں پر عقل کو استعمال کرنا پڑے گا، گویا کہ اس سے متاثر ہونا دو وجوہات سے ہے۔ عجیب ہونے کے لحاظ سے اور مزیدار ہونے کے لحاظ سے۔ عجیب ہونے کے لحاظ سے جو متاثر ہونا ہے اس کا مقابلہ عقل کرے گی۔ اور نفس کی وجہ سے متاثر ہونے کی جو بات ہے اس میں نفس کی اصلاح ہو گی۔ چونکہ نفس کی اصلاح آناً فاناً نہیں ہو سکتی، لہذا اگر ایسی کوئی صورت نہیں ہے تو پھر عقل سے کام لو اور وہاں سے بھاگو۔ ملو ہی نہیں اس سے۔ اس کی مثال ایک magnet کی طرح بن جائے گی، یعنی وہ نفس کی سفلی خواہشات کو impress کرے گا اور ان سے لوگوں کو متحرک کرے گا، اور وہ اتنی زیادہ ہوں گی کہ ان کے سامنے انسان ٹھہر نہیں سکے گا۔ سونامی کی طرح ہوں گی۔ سونامی جب آتا ہے اور انسان بچ نہیں سکتا تو بھاگتا ہے۔ جتنی کوشش کر سکتے ادھر سے ہیں بھاگیں گے۔ اگر نہیں بھاگیں گے تو آپ اس کے سامنے پہلوان کی طرح کھڑے ہو گئے۔ تو کیا فائدہ؟ "خر غيرت اوکړو نو ګاډی اووخلو" گدھے نے غیرت کی تو گاڑی نے اس کو مار دی۔ یعنی یہاں غیرت کی بات نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اپنی جان کو بچانا، اس کی بات اور ہے۔ لیکن ایمان کو بچانا تو زیادہ ضروری ہے۔ ایمان کو بچانے کے لئے آپ کو اگر بھاگنا پڑے تو بھاگیں، کیونکہ جان بچانے کے لئے نہیں بھاگ رہے بلکہ اپنا ایمان بچانے کے لئے بھاگ رہے ہیں۔ ایسا وقت قریب آ جائے گا جس میں فرماتے ہیں مومن کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی بکری ہو گی۔ اس کو لے کر ایک غار سے دوسرے غار میں جائے گا اور اپنے ایمان کو بچائے گا۔ تو پھر دجال سے بچنے کے لئے ایسا کیوں نہیں کرے گا؟ تو اس وقت وہاں سے بھاگو اور اس کے سامنے نہ آؤ کیوں کہ اس کی اتنی زبردست سفلی خواہشات کا ایک attraction والا نظام ہو گا کہ اس سے بچنا بڑا مشکل ہو گا۔

جن کو ہو جان و دل عزیز ان کی گلی میں جائے کیوں

یعنی اگر کسی نے بچنا ہے تو پھر اس کے سامنے کیوں جائیں؟ میں نے دو باتوں کے بارے میں بتایا۔ نفس کی اصلاح اور دوسرا عقل کا استعمال۔ عقل کے استعمال کا آخری فتوی یہی ہے کہ مقابلہ نہیں کر سکتے تو بھاگو، اپنے ایمان کو بچاؤ۔ ہم سے ہمارے Reactor analysis کے teacher نے پوچھا کہ If there is hundred Curie source what you will do؟ ہم نے ان دنوں shielding سیکھی تھی۔ ہم نے سوچا shielding کریں گے، یہ کریں گے، وہ کریں گے۔ وہ ہنس رہے تھے۔ ہم نے کہا پتا نہیں کیوں ہنس رہے ہیں؟ خیر جس وقت ہم سب نے بات پوچھی تو انہوں نے کہا .Gentleman you will run away from there Hundred Curie source یعنی آپ نہیں کر سکتے shielding وغیرہ۔ جب آپ کرو گے تو اس میں آپ کا کام تمام ہو چکا ہو گا۔ جب آپ کو پتا چل گیا تو بس بھاگو وہاں سے۔ ہر چیز کا اپنا اپنا وقتِ استعمال ہوتا ہے۔ ٹانگوں کا استعمال، ہاتھوں کا استعمال، آنکھوں کا استعمال، کانوں کا استعمال، عقل کے مطابق سارا کچھ کرنا ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے اور ہماری حفاظت فرمائے، ہمارے ایمان کی، جانوں کی، مالوں کی اور آبروؤں کی حفاظت فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن


دجال کے فتنے سے محفوظ رہنے کی تیاری - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال