اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں توحید اور اس کے ایجابی اصول و ارکان کے باب میں صفحہ نمبر 294 پر اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے تحت فرماتے ہیں کہ ہم خدا کو بھی اس کے ناموں، اُس کے کاموں اور اُس کی صفتوں سے ہی جان سکتے ہيں۔ یہاں حضرت نے اسماء الہی، اللہ تعالیٰ کے افعال اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے ذریعے اللہ کی پہچان کی بات فرمائی ہے اور یہی بات حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ مراقبات کے تحت بھی فرماتے ہيں۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء، افعال اور صفات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت کیسے حاصل کی جا سکتی ہے، اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب:
در اصل جاننا علم کے زمرے میں آتا ہے اور ماننا عمل کے زمرے میں آتا ہے۔ جاننا معرفت ہے اور ماننا اللہ تعالیٰ کی عبدیت ہے۔ سارا تصوف انہی دو چیزوں کے ارد گرد گھوم رہا ہے، targets یہ ہیں۔ targets کا مطلب یہ ہے کہ ان کو achieve کیا جاتا ہے۔ البتہ طریقے مختلف ہیں، سب کے طریقے اپنے اپنے ہیں لیکن target یہی ہے یعنی جاننا اور ماننا۔ صحابہ کرام کے نعرے سنو، صحابہ کرام فرماتے تھے: "آمَنَّا وَ صَدَّقْنَا" یہاں پر ایمان بالغیب ہے۔ اسی طرح فرماتے تھے "سَمِعْنَا وَ أَطَعْنَا" چونکہ وہ آپ ﷺ سے براہ راست سنتے تھے لہذا کہتے تھے کہ ہم نے سنا اور مان لیا اور اس کی اطاعت کر لی۔ اسی طرح کہتے تھے "بِاَبِیْ وَ اُمِّیْ یَا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ" کہ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ یہ سب صحابہ کرام کے نعرے تھے۔ ان کو تو چونکہ آپ ﷺ کے ذریعہ سے براہ راست مل رہا تھا تو وہاں "سَمِعْنَا" تھا اور یہاں ہمیں کتابوں کے ذریعہ سے ملتا ہے تو ہم جانتے ہیں، "سَمِعْنَا" والی بات نہیں ہے۔ یعنی جو بھی ہم نے کتاب میں پڑھا تو اس طرح ہم نے وہ جان لیا۔ یہ دو چیزیں ہوتی ہیں جو کہ جاننے اور ماننے کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔
یہاں سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو یہ فرمایا کہ ہم خدا کو بھی اس کے ناموں، اس کے کاموں اور اس کی صفات سے جان سکتے ہیں تو یہ جاننے والی بات ہے۔ اور حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو مراقبات بتائے ہیں وہ توحید افعالی کا مراقبہ، پھر اس کے بعد صفات ثبوتیہ کا مراقبہ، پھر شیونات ذاتیہ کا مراقبہ، پھر صفات سلبیہ کا مراقبہ اور پھر شان جامع کا مراقبہ؛ یہ پانچ مراقبات اصل میں علم کو حال کے درجے میں لانے کے لئے ہیں۔ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق ہم ان کے ذریعہ سے جان سکتے ہیں لیکن پھر اسی حاصل ہونے والے علم کو حال کے درجے میں لانے کے لئے ہم مراقبات کرتے ہیں۔ یہ مراقبے کی حقیقت ہے۔
جب ہم مراقبات کرتے ہیں تو مراقبے سے پہلے اس کے لئے جگہ بناتے ہیں۔ یہ جو گھڑی ہے اس کو charge کرنے کے لئے اس کے charger کو جب میں اس کے points کے ساتھ ملاتا ہوں تو بعض اوقات اس میں کہیں dust وغیرہ آ چکا ہوتا ہے تو وہ پھر نہیں charge ہوتی، پھر میں دونوں طرف کو صاف کرتا ہوں، اِس کو بھی صاف کرتا ہوں اور اُس کو بھی صاف کرتا ہوں۔ پھر صفائی کے بعد جب charger ان points سے ملتا ہے تو charging ہوتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ صفائی نہیں ہو چکی ہوتی، جب تک وہ مقامات جہاں سے انسان sense کر سکتا ہے، ان کی activation نہیں ہو چکی ہوتی، اس وقت تک ہمارا علم حال کے درجے میں نہیں آتا اور وہ مراقبہ صحیح نہیں ہوتا۔
مراقبہ ہم قلب کے اوپر کرتے ہیں وہ بھی ایک لطیفہ ہے، پھر لطیفۂ روح پہ کرتے ہیں وہ بھی ایک لطیفہ ہے، پھر لطیفۂ سر پہ کرتے ہیں وہ بھی ایک لطیفہ ہے، پھر لطیفۂ خفی پہ کرتے ہیں وہ بھی ایک لطیفہ ہے، پھر لطیفۂ اخفیٰ پہ کرتے ہیں وہ بھی ایک لطیفہ ہے؛ ان پانچ کے پانچ لطائف کو پہلے activate کرنا ہوتا ہے۔ یہ لطائف جب activate ہو جاتے ہیں تو ان کے اوپر ہم فیض کو receive کر سکتے ہیں۔ مختلف علوم کو حال کے درجے میں لانے کے ہم اللہ تعالیٰ سے فیض لیتے ہیں، یقیناً اللہ پاک ہی دیتے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو ہم جان چکے ہیں تو اپنے اس علم کو تصور میں لاتے ہیں، یعنی علم باہر سے آتا ہے اور تصور ہمارے اندر سے آتا ہے، اور تصور میں تکلف پایا جاتا ہے، یہ خود بخود نہیں ہوتا۔ ہم اس پر سوچتے ہیں، اپنے آپ کو یاد دلاتے ہیں جب یہ تصور ہم کرتے ہیں تو اس تصور کے ذریعہ سے وہ فیض آتا ہے۔ جیسے فرمایا کہ میرے ساتھ جو جیسا گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں۔ "أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِيْ" (البخاری، حدیث نمبر: 7405) جب فیض آنا شروع ہو جاتا ہے تو جس کی یہ چیز پکی ہوتی ہے یا انتشار کے عوامل کم ہوں تو اتنی جلدی اس کو یہ وصول ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
بعض لوگوں کے انتشار کے عوامل زیادہ ہوتے ہیں، انہوں نے اپنے آپ کو اتنی زیادہ چیزوں میں مشغول کر رکھا ہوتا ہے کہ وہ اس سے یکسوئی نہیں حاصل کر سکتے، درمیان میں بہت ساری گرد آ چکی ہوتی ہے، جس کی صفائی وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا ان کو دیر لگتی ہے۔ جب کہ بعض لوگ اس میں بالکل ready ہوتے ہیں لہذا جیسے ہی ان کو switch کر لیں فوراً سے فیض آنا شروع ہو جاتا ہے۔ charger دونوں طرح کے لوگوں کے چلتے ہیں۔ ہم لوگ فیض آنے کا تصور کرتے ہیں اور فیض آنے کا ذریعہ آپ ﷺ ہیں۔ جیسے صحابہ کرام کا راستہ تھا، آپ ﷺ سے صحابہ کرام direct لیتے تھے لہذا ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اب ہم direct نہیں لے سکتے ہیں لہٰذا ہم یہ تصور کرتے کہ آپ ﷺ تک فیض پہنچا، پھر آپ ﷺ سے پورے سلسلے سے ہوتا ہوا شیخ تک پہنچا۔ بعض لوگوں کو اس میں ذراکمزوری ہوتی ہے، شیخ کے ساتھ ان کا اعتقاد کمزور ہوتا ہے لہذا پھر وہی صفائی کی ضرورت پڑتی ہے، میل کچیل کو دور کرنا ہوتا ہے۔ جب تک وہ دور نہیں ہوتا تب تک کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پھر شیخ سے اخذ کرنے کا مرحلہ ہوتا ہے کہ اس سے وہ فیض ہمارے دل تک آتا ہے یا پھر دوسرے لطیفۂ روح پر آتا ہے یا تیسرے لطیفۂ سر پہ آتا ہے یا چوتھے لطیفۂ خفی پہ آتا ہے یا پھر پانچویں لطیفۂ اخفیٰ پہ آتا ہے۔ اس طریقہ سے ہم لوگ اس فیض کا اجرا کرتے ہیں۔ اس کو اجرا کہتے ہیں، ہمارے علمی حلقوں میں بھی اجرا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ہم نے صَرف سیکھی تو پھر صَرف کا اجرا کرتے ہیں، نحو سیکھی تو پھر نحو کا اجرا کرتے ہیں، اس طریقہ سے منطق کے قوانین سیکھے تو پھر ان کا اجرا کرتے ہیں۔ وہ علمی طور پہ اجرا ہوتا ہے اور یہ عملی طور پر اجرا ہوتا ہے۔
جس وقت فیض کا اجراء ہو جاتا ہے پھر وہ خود بخود ہوتا رہتا ہے، پھر اس کے لئے سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر درمیان میں کوئی تار وغیرہ ڈھیلی ہو جائے تو دوبارہ اس کو ٹھیک کرتے ہیں۔ یہی ہمارا جو تصوف کا سلسلہ ہے، یہ عملی سلسلہ ہے اور علمی سلسلے کے بغیر یہ نہیں ہو سکتا۔ پہلے علم ہو گا پھر عمل ہو گا لہذا انسان نہ علم سے مستغنی ہو سکتا ہے اور نہ عمل سے مستغنی ہو سکتا ہے۔ ہمیں تین چیزوں کی ضرورت ہے: محدثین کرام نے صحابہ کرام سے آپ ﷺ کے بارے میں جو اخبار تھے وہ لے لئے، یہ محدثین کا کام تھا۔ فقہا کرام نے ان سے اصول و ضوابط مستنبط کر لئے اور فقہ مرتب کر لیا، صوفیا کرام نے اس پر عمل کروایا۔ تو جو لوگ صرف فقہا کرام پر رک گئے اور بس ان سے وہ چیز لے لی جو ان کے پاس تھی تو آگے جا کر ان کا معاملہ خراب ہو گیا، عمل تک بات نہیں پہنچی۔ اور دوسری طرف اگر کسی نے صوفیا سے لینا شروع کیا لیکن فقہا کے ساتھ رابطہ نہیں تو اگرچہ انہوں نے استعداد لے لی لیکن آپ کے پاس material ہی نہیں ہے آپ استعداد کا کیا کریں گے۔ عمل کس چیز پر کریں گے جب آپ کے پاس علم ہی نہیں ہو گا۔ تو معلوم ہوا کہ عمل کے لئے علم کی ضرورت ہے اور اس طریقے سے یہ باہم مربوط ہیں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ان تمام کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے اور ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ مَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ