مسلمانوں کے لئے کونسا طرز اصلاح زیادہ مناسب ہے؟

سوال نمبر 405

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

کل آپ نے ایک سوال کے جواب میں مسلمانوں کے دشمنوں کے مقابلے میں دو قسم کے لوگوں کی بے اعتدالیوں کے بارے میں وضاحت فرمائی، اس سے ایک اور سوال پیدا ہوا کہ اس وقت مسلمانوں کے اندرونی معاملات میں بھی بے اعتدالی نظر آتی ہے اور وہ اس طرح کہ کچھ حضرات جیسے دینی سیاست اور دعوت و تبلیغ کرنے والے حضرات اجتماعی اصلاح پر زور دیتے ہیں، دوسری طرف صوفیائے کرام انفرادی اصلاح کی بات کرتے ہیں اور اس کے ذریعے پھر اجتماعی اصلاح کی طرف گامزن ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ ﷺ کی مکی زندگی کا اگر ہم مطالعہ کریں تو اس میں انفرادی اصلاح کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے جبکہ مدنی زندگی میں اجتماعی اصلاح زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ آج کے دور میں مسلمانوں کے لئے کونسا طرز اصلاح زیادہ مناسب ہے؟

جواب:

صوفیائے کرام صرف انفرادی زندگی کی بات نہیں کرتے اجتماعی زندگی کی بھی بات کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ فرد کے ساتھ ان کا انفرادی تعلق ہوتا ہے اور مسلمانوں کی اجتماعیت کے ساتھ ان کا تعلق اجتماعی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر تبلیغی جماعت میں بھی صوفیاء ہیں، اب اگرچہ وہ صوفیاء ہیں لیکن وہ صرف انفرادی بات نہیں کرتے، بلکہ تبلیغی جماعت کے طریقۂ کار کے مطابق اجتماعی بات بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سارے صوفیائے کرام سیاسی جماعتوں میں بھی ہیں، مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سیاست دان تھے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی سیاست کی ہے، اس طرح مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے خلافت movement میں بہت بڑا سیاسی رول ادا کیا ہے۔ ان کے علاوہ اور بہت سارے سیاسی علمائے کرام ہیں جیسے مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا عبید اللہ انور صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہ سب صوفیاء تھے۔ اور اب بھی ایسے علماء موجود ہیں جو سیاست کرتے ہیں۔ بلکہ صحیح اور صاف ستھری سیاست تو کرتے ہی یہ لوگ ہیں، صحیح طریقے سے تبلیغ کرنے والے بھی یہی لوگ ہیں۔ اگر ایسے صوفیائے کرام نہ ہوں جن کی انفرادی اصلاح ہو چکی ہو تو وہ اجتماعی کام بھی صحیح طرح نہیں کرتے۔ اس وجہ سے صوفیائے کرام کا عملی رول ہے، یعنی جیسے آپ ﷺ نے کیا وہی رول صوفیائے کرام کا ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے بیک وقت ساری چیزوں کو دیکھا۔ اس وقت جو نہ بولنا اور نہ react کرنا تھا وہ اجتماعی بات تھی، اس وقت یہی سب کے لئے ٹھیک تھا یعنی حالات کے مطابق مشورہ تھا۔ جیسے موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اپنے اپنے گھروں کے اندر مسجدیں بناؤ۔ یعنی اس وقت یہی طریقہ ٹھیک تھا کیونکہ اس وقت بولنے سے مسلمانوں کا نقصان تھا۔ اس وقت گویا کہ ایک مخفی طریقے سے کام ہو رہا تھا اجتماعی بھی اور انفرادی بھی، اس وجہ سے کبھی بھی انفرادی کو اجتماعی سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ انفرادیت کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں جو ٹھیک نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ اجتماعیت کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یعنی ہم لوگ اپنے اپنے نظام میں ہر چیز کے مکلف ہیں۔ مثلاً ایک درجہ فرض عین کا ہوتا ہے اور ایک درجہ فرض کفایہ کا ہوتا ہے تو کسی نے اپنے ذمے کسی خاص چیز کے فرض کفایہ کا کام لیا ہوتا ہے اور فرض عین درجے کے کام سب کے کرتا ہے، مثلاً کوئی صوفی بھی ہوتا ہے تو اس کو فرض عین درجے کا کام سب کا کرنا پڑے گا۔ یعنی فرض عین درجے کی تبلیغ، فرض عین درجے کی سیاست، فرض عین درجے کا علم؛ یہ تمام چیزیں کرنی پڑتی ہیں۔ اور فرض کفایہ درجے کا کام صرف خانقاہ میں بیٹھ کے کرتے ہیں۔ اس طریقے سے کچھ حضرات فرض عین درجے کے تمام کام کرتے ہیں اور فرض کفایہ درجے کی تبلیغ کا کام کرتے ہیں۔ اس طرح بعض سیاست کا کام کرتے ہیں۔

یہ ایک تقسیمِ کار ہے۔ ایک میدان میں فرض کفایہ درجے کا کام ہوتا ہے اور دوسرے میدان میں فرض عین درجے کا کام ہوتا ہے لہذا اگر ہم لوگ اس چیز کو ذرا اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو میرے خیال میں ہمیں اپنی غلطی نظر آ جائے گی اور وہ غلطی یہی ہے ان شعبوں میں جدائی کرنا۔ یعنی تمام دین کے شعبوں کو دین کے شعبے نہ ماننا نقصان کی بات ہے۔ تمام دین کے شعبے، دین کے شعبے ہیں ان میں سے کسی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا البتہ کام کسی ایک مخصوص شعبے میں کرنا ہے تو اس شعبے میں تو ڈٹ کر کام کیا جائے البتہ باقی شعبوں کے ساتھ اپنا تعلق استوار رکھا جائے اور ان کے لئے دعائیں کی جائیں ان کے ساتھ رابطہ رکھا جائے۔ یہ مناسب طریقہ ہے، اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

مسلمانوں کے لئے کونسا طرز اصلاح زیادہ مناسب ہے؟ - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال