علماء کی ذمہ داریاں اور عوام کے لئے انفرادی اقدامات

سوال نمبر 404

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

کل سیرت النبی ﷺ کے درس ميں یہ بات آئی تھی کہ پچھلی اُمتوں میں جب بے اعتدالی آ جاتی تو اللہ تعالیٰ ایک پیغمبر کو بھیج دیتے تھے جو کہ اُس بے اعتدالی کو دور فرما دیتے تھے۔ اب جب کہ آپ ﷺ پہ نبوت ختم ہو گئی ہے تو یہ کام اب علماء کرام کے ذمہ ہو گیا ہے جیسے آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ میرے اُمت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے مانند ہیں۔ اس وقت اُمت میں دو قسم کی بے اعتدالی پائی جا رہی ہے، ایک طرف کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہ کم ہمت ہیں اور مایوسی کی باتیں کر رہے ہیں کہ ہم غیروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے پاس اُن سے مقابلے کے لئے وسائل نہیں ہیں، جب کہ دوسری طرف کچھ لوگ جذباتی انداز میں اُن کے مقابلے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں دونوں قسم کے لوگوں کو اعتدال پر لانے کے لئے علماء کو جیسے کہ آپ ﷺ نے "اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَاءِ" (ابو داؤد، حدیث نمبر: 3641) فرمایا ہے، اُن کو کس نہج پر کام کرنا چاہیے؟ اور عوام کو اس بے اعتدالی سے بچنے کے لئے انفرادی طور پر کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

در اصل اگر دیکھا جائے تو ہمیں اعتدال کا مفہوم معلوم نہیں ہے کہ اعتدال کس کو کہتے ہیں۔ دیکھیں! ایک ہے علم، دوسرا عمل، اور تیسرا ہے عمل کی تیاری۔ علم کے اپنے ذرائع ہیں اور عمل کے اپنے ذرائع ہوتے ہیں۔ عمل کے ذرائع سے مراد یہ ہے کہ مثلًا میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں تو یہ ایک عمل ہے، اب اس ڈاکٹر بننے کے لئے مجھے کیا کرنا ہو گا؟ یہ اس کی تیاری ہے۔ اگر میں کہہ دوں کہ میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں لیکن اس کی تیاری نہ کروں تو اس کو خام خیالی اور بے وقوفی کہا جائے گا اور خوا مخواہ وقت کا ضیاع ہو گا۔ تو ایسے لوگوں کو اعتدال پر لانے کے لئے کہا جائے گا کہ پہلے تیاری کرو۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو کہ مقابلہ کرنا ہی نہیں چاہتے تو ان کو تیار کرنا پڑے گا کہ آپ کو ایسا کرنا چاہیے۔

حاصل یہ کہ جو پہلی قسم کے لوگ ہیں، جو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں تو ان کو یہ کہنا پڑے گا کہ وسائل بناؤ۔ ﴿وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (الأنفال: 60) قرآن کا حکم ہے کہ اس کے لئے وسائل تیار کر لو۔ اور جو لوگ جذباتی انداز میں بات کریں کہ ہم ان کے ساتھ موجودہ حالت میں مقابلہ کریں گے تو ان کو کہا جائے گا کہ تمہارے پاس جتنے وسائل ہیں، ان وسائل کو استعمال کر کے وہی کام کرو جو تم کر سکتے ہو۔ اور جو نہیں کر سکتے ہو اس کے لئے تیاری کرو۔ اب مثلًا Social boycott کے لئے آپ کو کسی تیاری کی ضرورت نہیں ہے، آج سے ان کی چیزیں لینا بند کر لیں تو کام شروع ہو گیا، اس میں آپ کو کون سا مسئلہ ہے؟ آپ کو کون سی فیکٹری لگانی ہے؟ آپ کو کتنے پیسے جمع کرنے ہیں؟ کتنے لوگ اس کے لئے تیار کرنے ہیں؟ اپنے ہاتھ میں یہ کام ہے کہ آج سے ان کی چیزیں لینا چھوڑ دیں تو آپ جہاد میں شامل ہو گئے۔ اس کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب یہ مزاج بن گیا ہے کہ جس کام کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ کام تو کرتے نہیں اور جس کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے آوازیں لگا رہے ہیں اور یہ بے اعتدالی ہے۔ اس بے اعتدالی کو دور کرنے کے لئے ان کو یہ کہنا ہو گا کہ جو کچھ کر سکتے ہو، وہ کرو۔

حضرت موسی علیہ السلام کے قوم کو کہا گیا تھا کہ تم اس شہر میں داخل ہو جاؤ، تم غالب ہو گے۔ اب جب وعدہ تھا کہ تم غالب ہو گے تو اس وقت صرف داخل ہونا ہی غالب آنے کا ذریعہ تھا، اگر وہ اس پر عمل کر لیتے تو غالب ہو جاتے۔ جیسے گائے والی بات تھی کہ جب ان کو گائے ذبح کرنے کا کہا گیا تو وہ بار بار پوچھتے رہے کہ کیسی ہو؟ تو ان کو کہا جاتا رہا کہ ان ان صفات کی حامل ہو۔ اگر وہ پہلے حکم پر ہی کسی گائے کو پکڑ کر ذبح کر لیتے تو ان کا کام بن جاتا لیکن انہوں نے کج بحثی شروع کر دی کہ وہ گائے کیسی ہو؟ تو ایک شرط بتا دی گئی، لیکن انہوں نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا، پوچھا کہ اس کا رنگ کیسا ہو تو رنگ کی شرط بھی بتا دی گئی یعنی جتنی وہ کج بحثی کرتے رہے اتنی شرائط بڑھتی رہیں کیونکہ وہ پیغمبر کی بات تھی لہذا اس وقت احکامات آتے رہے۔

اب اس وقت تو پیغمبر نہیں ہیں لیکن جو کج بحثی کرتے ہیں ان کے لئے مشکلات بن رہی ہیں اور حالات مشکل سے مشکل تر بن رہے ہیں۔ اور جو لوگ جتنا کر سکتے ہیں، اگر وہی کرنا شروع کر لیں تو ان کے لئے حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے کیونکہ اللہ پاک اپنے وعدوں کا پکا ہے، اللہ پاک نے جو وعدے کئے ہیں ان میں کوئی کمزوری نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو وہی کرنا چاہیے جو ہم کر سکتے ہیں، بڑے بڑے دعوے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس وقت سب سے اہم ضرورت ٹھنڈے دماغ کی ہے۔ ہمارے پاس سوچنے والا ٹھنڈا دماغ نہیں ہے، گرم دماغ ہے۔ ٹھنڈے دماغ والا شخص لوگوں کے سامنے چیختے چلاتے کام نہیں کرتا، اس کو جو کام کرنا ہوتا ہے خاموشی اور آرام سے کر لیتا ہے، وہ اس کا اعلان بھی نہیں کرتا۔ جب کہ گرم دماغ والا شخص چیختا چلاتا بہت ہے لیکن کرتا کچھ بھی نہیں ہے۔

اس وقت فقاہت اور ہمت دونوں چیزوں کی ضرورت ہے، فقاہت علمی لحاظ سے ہے اور ہمت عملی لحاظ سے۔ یہ چیز پھر coordination اور planning میں convert ہو جاتی ہے۔ آپ عمل کو دیکھتے ہوئے علمی لحاظ سے planning کرتے ہیں لیکن پھر عملی طور پر coordination کی ضرورت ہوتی ہے، آپس میں رابطے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ساری باتیں ہمیں سیکھنی پڑیں گی اور اس کے بعد ہم کام کریں گے۔

جن لوگوں نے ہمارے خلاف کام کیا انہوں نے اسی اصول پہ کیا۔ خاموشی کے ساتھ لگے رہے، کوئی اعلان نہیں کیا۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو بھی عملی میدان میں آنا چاہیے اور عملی میدان یہی ہے کہ ہم جو کر سکتے ہیں وہ کریں اور جو نہیں کر سکتے اس کے لئے تیاری کریں۔ فضول باتیں نہ کریں، کج بحثی نہ کریں، بلاوجہ بحثوں میں نہ پڑیں بلکہ جو کرنا چاہیے اس کی فکر کریں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


علماء کی ذمہ داریاں اور عوام کے لئے انفرادی اقدامات - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال