اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ کی ویب سائٹ پر اسلامی شمسی ہجری کلینڈر بھی دیا گیا ہے اور مہینوں کے نام آپ ﷺ کی سیرت کے خاص واقعات کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ اس کلینڈر کی افادیت اور اہمیت پر روشنی ڈالیں۔
جواب:
یہ شمسی calendar ہے، شمسی calendar سے مراد یہ ہے کہ یہ سورج کے مطابق ہے۔ در اصل ہماری جو عبادات ہیں ان کی ابتدا و انتہا قمری calendar کے مطابق ہوتی ہے۔ مثلاً حج بھی قمری calendar کے مطابق ہے اور روزہ یعنی رمضان شریف بھی قمری calendar کے مطابق ہے، محرم بھی قمری calendar کے مطابق ہے اور عیدین بھی قمری calendar کے مطابق ہیں۔ گویا کہ قمری calendar کا محفوظ رکھنا با قاعدہ فرض کفایہ ہے، اس کو یاد رکھنا لازمی ہے کیونکہ اگر ہم اسے یاد نہیں رکھیں گے تو ہماری عبادات کی تاریخیں ہم سے گم ہو جائیں گی۔ لیکن دنیا میں انتظامی لحاظ سے جو calendar زیادہ نافذ ہے، وہ شمسی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قمری calendar موسم کے ساتھ tally نہیں کرتا۔ قمری calendar موسم میں پھرتا رہتا ہے، یعنی کبھی رمضان گرمی میں آئے گا، کبھی سردی میں آئے گا، کبھی خزاں میں آئے گا اور کبھی بہار میں آئے گا تو اس کا عبادت کے لحاظ سے تو فائدہ ہے کہ سارے لوگوں اور موسموں کے ساتھ ایک سا معاملہ ہو لیکن اس پر آپ چونکہ جو موسمی چیزیں ہیں، آپ ان پہ depend نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں تو اس وجہ سے اس کو زیادہ لاگو نہیں کیا گیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس کی تاریخوں میں پہلے سے معلومات confirm نہیں ہوتیں کیونکہ چاند دیکھ کر مہینے کی ابتدا کی جاتی ہے تو چاند کا پہلے سے پتہ نہیں چلتا۔ اس سے ایک دن کا فرق پڑ سکتا ہے تو اس وجہ سے اس کی تاریخیں پہلے سے متعین نہیں کی جا سکتیں۔ اس وجہ سے جو انتظامی چیزیں ہیں جیسے تنخواہیں دینا اور سروس اور مختلف قسم کے کام جو مہینے کے حساب سے ہوتے ہیں وہ نہیں اس کے ساتھ ہو سکتے کیونکہ تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں۔ اگر آپ 12 تاریخ کو meeting کال کر لیں کہ 12 تاریخ کو meeting ہو گی تو پتہ نہیں چلے گا کہ 12 تاریخ کون سے دن ہو گی۔ اس طرح چونکہ یہ ذرا مشکل ہو جاتا ہے تو انتظامی لحاظ سے شمسی calendar ایک مجبوری بن جاتی ہے۔
بعض مسلمان سمجھتے ہیں کہ شاید شمسی calendar کوئی خلاف اسلام چیز ہے جیسے کہ عیسوی calendar جو چل رہا ہے وہ اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن شمسی calendar ضروری نہیں ہے کہ اسلام کے خلاف ہو، وہ آپ اسلام کے مطابق بھی بنا سکتے ہیں۔ قرآن پاک میں بھی اس کا ثبوت موجود ہے قرآن پاک میں فرماتے ہیں: ﴿وَ لَبِثُوْا فِیْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَ ازْدَادُوْا تِسْعًا﴾ (الکہف: 25) ”اور وہ لوگ غار میں رہے تین سو سال اور اس پر مزید نو سال“۔ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا گیا کہ یہ 309 سال کیوں نہیں کہا گیا؟ تو فرمایا کہ تین سو سال شمسی ہیں اور 309 سال قمری ہیں۔ اس کا جب حساب کیا گیا تو بالکل وہی بات سامنے آئی۔ گویا کہ اس میں شمسی اور ہجری دونوں کی بات کی گئی ہے۔ تو پتہ چلا کہ یہ کیلنڈر قرآن اور اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ چونکہ دونوں کا بتایا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اجازت مل گئی کہ ہم شمسی calendar بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
لیکن یہ جو موجودہ عیسوی calendar ہے، اس میں کئی قباحتیں ہیں۔ ایک قباحت تو یہ ہے کہ یہ uniform نہیں ہے، پہلے اکتیس تاریخ پھر اٹھائیس تاریخ، پھر اکتیس، پھر تیس، پھر اکتیس، پھر تیس، پھر اکتیس، پھر اکتیس؛ یعنی مہینوں کے لحاظ سے یا نمبر کے لحاظ سے کوئی uniformity نہیں ہے۔
دوسری قباحت یہ ہے کہ اس کا جو Starting point ہے وہ سورج کا Zero point نہیں ہے۔ یہ بات آپ لوگ نہیں سمجھیں گے اس لئے بعد میں بتاؤں گا۔
تیسری قباحت اس میں یہ ہے کہ اس میں مہینوں کے نام مشرکانہ ہیں۔ January, February, March یہ ان کے اپنے اپنے دیوتا تھے، تو ظاہر ہے یہ شرک والی بات ہے۔ نیز اس میں changes بھی کافی آئے ہیں، یعنی نام کے لحاظ نومبر نواں مہینہ تھا اور دسمبر دسواں مہینہ تھا لیکن کیلنڈر میں یہ بارہواں مہینہ ہے۔ اس کا start مارچ سے ہوا تھا لیکن بعد میں جنوری سے start کر لیا، تو اس میں بے ترتیبی ہے۔ دنیا کے ممالک کئی بار اس بارے میں meeting کر چکے ہیں لیکن وہ کوئی ایک مرتب calendar نہیں بنا سکے، اس وجہ سے یہ بے ترتیب calendar چل رہا ہے۔
ہم نے پوری کوشش کی کہ ایسا شمسی calendar بنایا جائے جس میں ایک ترتیب پائی جائے، تو جو ہمارا شمسی calendar ہے وہ آپ ﷺ کے قُبا میں پہنچنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے۔ جب آپ ﷺ قبا تشریف لے گئے وہ دن سورج کا Zero point تھا۔ یعنی declaration zero تھا، یعنی اس وقت سورج بالکل خط استوا پہ تھا۔ یعنی ہمیں reference مل گیا، یہ Reference zero point ہے، آگے جا کر باقی calculation میں اس کا بڑا فائدہ ہوتا ہے۔
بہر حال! اس کے جو مہینے ہیں ان میں uniformity ہے، یعنی پہلے چھ مہینے تیس تیس دن کے ہیں، اس کے بعد پانچ مہینے اکتیس دن کے ہیں اور آخری بارواں مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے لیکن لیپ سال میں اکتیس کا ہوتا ہے۔ پھر Leap year میں جو Leap day ہوتا ہے، جو correction والا day ہے وہ اس کے دو سالوں کے درمیان میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر 1399 اور 1400 سو کے درمیان میں ہو گا لہذا کسی کو بھی متاثر نہیں کرے گا، نہ اس سال کو متاثر کرے گا نہ اس سال کو متاثر کرے گا، ان دونوں کو بالکل separate کر لیتا ہے جب کہ جو عیسوی calendar ہے اس میں چونکہ فروری دوسرا مہینہ ہے لہذا اس نے اگلے دس مہینوں کو ایک ایک دن shift کر لیا، اب یہ انتیس ہو گئے تو سارے دس مہینے ایک دن shift ہو گئے اور اس کی ساری calculation پہ اثر پڑ گیا۔ جب کہ ہمارے کیلنڈر میں کسی کے اوپر بھی اثر نہیں پڑا تو ہم نے ان تمام باتوں کو مد نظر رکھ کر اس کے نام بھی وہی رکھے ہیں۔ جیسے حرا ہے جو غار حرا کے واقعے سے منسوب ہے، اسی طرح معراج شریف سے منسوب مہینہ ہے اور اسی طرح تبوک کے نام سے مہینہ ہے یعنی اس کے مہینوں کے نام اس قسم کے ہیں جو سیرت سے متعلق ہیں۔ تو اس وجہ سے اس میں ایک uniformity ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں calculations کے لحاظ سے فائدہ ہے۔ مثال کے طور پہ اگر ہم نمازوں کے اوقات اپنے شمسی calendar کے حساب سے calculate کر لیں تو اس میں error کم آئے گا، اس کے مقابلے میں جو عیسوی calendar ہے اس میں زیادہ error آئے گا تو یہ نفع کی چیز ہے۔ اگرچہ یہ باقی تمام چیزوں میں فائدہ دے گا لیکن ہمیں تو اس میں ہی سورج کے وقت کا پتہ چلا۔
اگر ہم اس calendar کو استعمال کر لیں تو اس میں انتظامی لحاظ سے ایک regularity ہے۔ پہلے چھے ماہ تیس دن کے ہیں، اس کے بعد پانچ ماہ اکتیس دن کے ہیں تو اس طرح انسان آسانی سے اس کا حساب کر سکتا ہے کہ میرا یہ بجٹ ہے، یہ دن ہے اور یہ تاریخ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس میں بہت خوبیاں ہیں اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم مسلمانوں کی کوئی نمائندہ حکومت ہو جو اس چیز کو نافذ کر سکے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ