خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ نے کل ایک سوال کے جواب میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے تعلیم کردہ مراقبات کا تذکرہ فرمایا کہ ان مراقبات کے ذریعے شرک سے بچا جا سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ سارے سائنسدان تصوف کے ساتھ وابستہ تو نہيں ہوتے، دوسری طرف سائنسدان دوسرے لوگوں کے مقابلے میں مظاہر قدرت کا زیادہ مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے، اور جیسے انسان کی فطرت ہے کہ قریبی چیز سے زیادہ اثر لیتا ہے۔ اس وجہ سے ایک سائنسدان کو اس بات کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے کہ مظاہر قدرت میں اتنا منہمک ہو جائے کہ خالق کو بھول جائے۔ اس بات کو حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تصنیف میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اعتقاد کے پہلے مرحلے میں انسان غور رسی کے دعوی سے اس قدر امتیاز اور تفریق کرتا ہے کہ یہ چیزیں خود خدا یا معبود نہيں ہیں لیکن یہ تمیز آخر تک قائم نہیں رہتی، بلکہ رفتہ رفتہ خوش اعتقادی کا اثر غالب آتا جاتا ہے اور یہ چیزیں خدا کی شریک بنتی جاتی ہیں یہاں تک کہ اصلی مسبب الاسباب نظر سے بالکل اوجھل ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک مسلمان سائنسدان کے لئے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی سائنسی تحقیق بھی جاری رکھ سکے اور اپنے ایمان کی حفاظت بھی کر سکے۔
جواب:
میرے خیال میں آپ کے سوال میں جواب موجود ہے۔ جیسے پہلا سوال کا حصہ ہے کہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تعلیم کردہ مراقبات، تو اس کے اندر اس کے بارے میں موجود ہے۔ دوسری طرف وہ سائنسدان جو مسلمان نہیں ہیں، وہ دہریت کی طرف جاتے ہیں یا شرک کی طرف جاتے ہیں، اس چیز کو محسوس نہ کرنے کی وجہ سے۔ حالانکہ سائنس تو انسان کو زیادہ مذہب کے قریب کرتی ہے کیونکہ سائنس اس کو خالق کی مخلوقات کی معرفت کراتی ہے اور مخلوقات سے انسان خالق تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمان سائنسدان کیا کریں؟ تو مسلمان سائنسدان وہی کریں جو مجدد صاحب نے بتایا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اوپر ایمان لانا فرض ہے۔ ایمان تو پیغمبر پہ ہوتا ہے البتہ ان مصلحین نے جو tools دریافت کئے ہیں، جیسے سائنسدان بھی tool دریافت کرتے ہیں، اب ہم استعمال کرتے ہیں۔ جیسے موبائل پہلے نہیں تھا، اب ہے۔ اس کی Full utilities ہم استعمال کرتے ہیں۔ اسی طریقے سے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ tools دریافت کر لئے، کچھ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت کر لئے، کچھ حضرت سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائے، کچھ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے۔ اس طرح جو مشاہیر اسلام ہیں انہوں نے مظاہرِ حق کو ظاہر کرنے کے لئے اور سمجھانے کے لئے علمی، عقلی، نقلی دلائل دیئے ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا ہی ہمارے لئے ایک ذریعہ ہے۔ اب جو فرمایا گیا کہ تین طریقے ہیں جن کے ذریعے آسانی کے ساتھ انسان دین پر چل سکتا ہے۔ ایک اخیار کا طریقہ ہے، اگر کوئی کہتا ہے کہ میں تصوف کو نہیں مانتا تو اخیار کے طریقے پہ چلے۔ اخیار کا طریقہ یہ ہو گا کہ قرآن اور سنت پر تو اس کو یقین کرنا ہی چاہیے یعنی جو مسلمان ہیں ان کو پہلے قرآن کا علم حاصل کرنا چاہیے کہ قرآن کیا کہتا ہے؟ جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے سورہ احقاف شروع ہوئی تھی۔ وہاں بھی یہی بات کی گئی تھی کہ سائنسدان کیا کرے اور لوگ کیا کریں۔ تو قرآن کا مطالعہ کر لیں، آپ ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کر لیں، پھر اپنی Will power سے اس پر عمل کر لیں، شریعت پر عمل کر لیں۔ اور شریعت نے جو طریقے بتائے ہیں ان پر ہمت کے ساتھ چلیں۔ اس میں سب سے پہلے اعتقاد کی بات ہے۔ تو جو عقیدہ ہمارا قرآن و سنت سے ثابت ہے، کم از کم مسلمان سائنسدان اس مسئلہ میں کہے: بھئی اس پر مجھے سوچنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ یہ ایمان کی بات ہے۔ ایمان میں analysis نہیں ہوتا ﴿یُوْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ﴾ (البقرۃ: 2) اب میں جنت کو calculate کر سکتا ہوں، فرشتوں کو میں Magnifying glass کے ساتھ دیکھ سکتا ہوں۔ یعنی سائنس کے tools ان چیزوں کے لئے ہیں جو مشاہدے کی ہیں، جو غیب کی چیزیں ہیں ان کے لئے سائنس کا کوئی tool نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لئے خبر ہے نبی یا قرآن کی۔ اللہ پاک نے سورہ احقاف میں فرمایا ہے کہ میرے پاس کوئی کتاب یا عقلی دلیل لاؤ۔ عقلی و نقلی دلائل سے کسی چیز کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ تو مسلمان سائنسدان جو ﴿یُوْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ﴾ (البقرۃ: 2) پر عمل پیرا ہے، اس کے لئے ان چیزوں پہ discuss کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو پہلے سے defined ہیں۔
Allah is one مسلمان یہ کہتا ہے۔ لہذا اس پر کچھ مزید کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ یہ تو پہلے سے موجود ہے۔ کسی کو سمجھانا چاہتا ہو تو اس کے لئے دلائل خود بھی devise کر سکتے ہیں۔ اور جو پہلے سے موجود ہوں ان کو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ لہذا اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ طریقہ اخیار والا ہے۔ دوسرا طریقہ ابرار والا ہے۔ یعنی کسی شیخ سے بیعت ہو جائے اور پھر اس کی بات مان کے چلے۔ اپنے آپ پر اس کا حکم لاگو کر لے۔ اس میں اتنی Will power استعمال کر لے۔ یہ بھی ایک بہت اچھا طریقہ ہے بلکہ پہلے سے زیادہ اچھا طریقہ ہے۔ اور تیسرے میں یہ ہے کہ شیخ کے ساتھ اتنی محبت ہو کہ اس میں پھر سوچنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ یہ تینوں طریقے valid ہیں۔ اس طریقے سے مسلمان سائنسدان کی سائنس کی سوچ اس کو مزید حقیقت کے قریب کرے گی۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ جب تک انسان کا تعلق ذکر کے ساتھ نہیں ہوتا تو یہی مناظر اس کے لئے غفلت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ لیکن جب اس کا ذکر کے ساتھ تعلق ہو جاتا ہے تو یہی مناظر اور مظاہر اس کے لئے ذکر کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ جیسے کوئی پہاڑ کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے: سبحان اللہ۔ اس کے دل میں اللہ پاک کی یاد ہو گی تو سبحان اللہ کہے گا۔ تو اس کے لئے وہ ذریعہ ہو گیا۔ کوئی اچھا کام ہو گیا کہیں گے الحمد للہ۔ اسی طریقے سے اللہ تعالیٰ کی بڑائی کی کوئی چیز دیکھے گا تو کہے گا اللہ اکبر۔ یعنی یہ ساری چیزیں دل کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں کہ اگر اس کے دل میں اللہ کا ذکر ہے تو پھر اس کا ظہور مناظر کے ذریعہ سے، مظاہر کے ذریعہ سے ہو گا۔ تو مظاہر اور مناظر یہ دونوں سائنس کی field ہیں۔ لہٰذا اگر شریعت پر چلے گا تو ان کے ذریعہ سے انسان مزید اللہ پاک کی معرفت حاصل کرے گا۔ کیونکہ وہ عبدیت ہے۔ اس طریقے سے سائنسدان بھی اپنے لئے راستہ بنا سکتا ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن