حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان اور سائنسی تحقیق کے حوالے سے شرک کا خطرہ

سوال نمبر 401

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان



اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں اللہ تعالیٰ پر ایمان کے باب میں فرماتے ہیں کہ شرک و بت پرستی کا اصل زینہ اسباب و موثرات کا وجود ہے، خدا نے عالم میں ایک سلسلہ اسباب کا قائم کر دیا ہے اور عالم کے تمام واقعات اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں، لیکن یہ تمام سلسلہ ایک قادر مطلق کے دست قدرت میں ہے۔ شرک اس طرح شروع ہوتا ہے کہ پہلے انسان ان اسباب و علل میں سے بھی بعض نمایاں اور قوی اسباب سے متاثر ہوتا ہے اور یہ سب انسان کو مبہوت کر دیتے ہیں، وہ ان کی عظمت سے متاثر ہو کر پھر منفعل اور بالآخر ان کا غلام بن جاتا ہے۔ یہاں حضرت نے شرک کا منبع کائنات میں موجود اسباب و علل کی غلامی کو قرار دیا ہے، اس وقت دنیا میں سائنسدان انہی اسباب و علل میں غور فکر کر رہے ہیں، کیا اس سے بھی سائنسدان شرک کی طرف جا سکتے ہیں؟ اگر اس غور و فکر میں شرک کا خطرہ ہے تو ایک مسلمان سائنسدان اس سے کیسے بچ سکتا ہے اور محفوظ طریقے سے سائنسی تحقیق کیسے کر سکتا ہے؟

جواب:

یہ بہت اچھا سوال ہے، ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے یہ بات کی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو اپنی صفات کے ذریعہ سے پہچانتا ہے یا مخلوق کی صفات کے ذریعے سے پہچانتا ہے۔ کیونکہ مخلوق کی صفات بھی ہوتی ہیں لیکن وہ limited ہوتی ہیں اور اللہ کی صفات unlimited ہوتی ہیں، ان کے لئے ذرائع نہیں ہوتے، وہ دائمی ہوتی ہیں۔ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کی صفات کے دائمی ہونے اور ان کا کوئی ذریعہ نہ ہونے میں شک ہو جائے تو وہ شرک میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے بہت بڑا کام کیا ہے، صفات ثبوتیہ کا جو مراقبہ کرواتے ہیں، وہ شرک سے نکالنے کے لئے ہوتا ہے۔ حضرت نے جس وقت یہ باتیں بتائی تھیں اس وقت واقعی ایسی چیزیں تھیں۔ لوگوں میں شرک کو انہی چیزوں سے فروغ ہو رہا تھا۔ لہذا حضرت نے ان کی جڑ کاٹنے کے لئے یہ مراقبات کرائے۔ یہ پانچ مراقبات شرک کی جڑ ختم کر کے رکھ دیتے ہیں۔ پہلے توحید افعالی کا مراقبہ ہے یعنی اللہ پاک سب کچھ کرتا ہے، اس پہ یقین ہونا، پھر صفات ثبوتیہ کا، پھر شیونات ذاتیہ کا۔ یعنی پہلے اللہ پاک کی قدرت کا مراقبہ کرواتے ہیں، پھر اللہ پاک کی صفات کا مراقبہ کرواتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کی ذات کا۔ چونکہ اللہ کی ذات کو کوئی براہ راست نہیں جان سکتا بلکہ صفات کے ذریعے سے جان سکتا ہے، اس لئے پہلے صفات کا مراقبہ کراتے ہیں، اس کے بعد ذات کا کراتے ہیں۔ لیکن ذات کا مراقبہ اس طرح نہیں کراتے کہ ذات کیسی ہے، بلکہ اس طرح کراتے ہیں کہ اس ذات کی صفات یہ ہیں۔

اگرچہ اللہ پاک کی ذات کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی لیکن اللہ پاک کی صفات کے ذریعے سے اس کی اتنی معرفت ہو جاتی ہے کہ پتا چلتا ہے کہ سب وہی ذات کر رہی ہے اور یہی اصل بات ہے۔ سائنسدان یہاں پھنس جاتے ہیں کہ سب کچھ وہی چیز کر رہی ہے۔ کیونکہ سائنسدان اسباب کو مانتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں ایک کام ہو رہا ہے، وہ اس کا فعل، فاعل اور مفعول سب جانتا ہے، process جانتا ہے، Cause and fact جانتا ہے، اس پر research بھی کرے گا، paper بھی publish کر لے گا؛ سب کچھ کر لے گا لیکن اس سے آگے کا step وہ نہیں جانتا ہو گا اور بہت آسانی سے کہہ دے گا کہ I don't know۔ I don't know اگر وہ تحقیق کے لحاظ سے کہہ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر ایمان کے لحاظ سے کہہ دے تو بس ایمان سے گیا۔ درمیان میں یہی بات ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب revealed ہے اور سائنس evolved ہے، evolved, base یعنی start اور From nothing سے ہوتا ہے، اور جو revealed ہوتا ہے وہ top سے ہوتا ہے۔ یعنی جو سب کچھ جانتا ہے اس سے revealed ہو رہا ہے جب کہ evolved بالکل کچھ بھی نہ جاننے سے ہوتا ہے۔ اب یہ جو evolving ہے وہ کسی راستے میں ہے، یعنی کسی جگہ پہنچا ہوا ہے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بڑی اچھی مثال دی ہے اور میرے خیال میں یہ پوری scientific مثال ہے۔ فرمایا کہ گاڑی آ رہی ہے، گارڈ نے سرخ جھنڈا دے دیا، گاڑی رک گئی۔کسی نے پوچھا گاڑی کیوں رکی ہے؟ کسی نے کہا کہ ڈرائیور نے روکی ہے، یہ بھی ٹھیک جواب ہے، غلط نہیں ہے۔ دوسرا کہنے لگا ڈرائیور نے نہیں روکی، بلکہ گاڑی کی جو brake ہے، اس نے روکی ہے کیونکہ اگر ڈرائیور ہوتا بھی اور brake پہ پاؤں نہ رکھتا تو وہ نہ رکتی۔ گویا کہ اس نے اگلا سبب بتا دیا جو ڈرائیور نے استعمال کیا ہے، فرمایا کہ یہ جواب بھی بالکل ٹھیک ہے۔ تیسرا کہنے لگا کہ brake نے گاڑی نہیں روکی، بلکہ جو جھنڈا سرخ لہرایا گیا، اس نے روکی ہے۔ کیونکہ اگر وہ نہ لہرایا جاتا تو ڈرائیور brake پہ پاؤں نہ رکھتا تو گاڑی نہ رکتی، اس لئے جھنڈے نے روکی ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ چوتھا کہنے لگا کہ جھنڈے نے نہیں روکی بلکہ اس قانون نے روکی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جب سرخ جھنڈا لہرایا جائے تو گاڑی کو روکنا چاہیے۔ ایک نے کہا کہ نہیں نہیں، اس قانون بنانے والے نے روکی ہے جس نے اس قانون کو design کیا ہے کہ اس طرح ہونا چاہیے۔ فرمایا کہ یہ ساری باتیں صحیح ہیں لیکن جب ان اسباب کے سلسلے کو دراز کرتے جاؤ گے، Cause and fact کی بات کو آگے بڑھاتے جاؤ گے تو بالآخر اللہ تک بات پہنچ جائے گی۔ اور یہاں بہت آسان بات ہے کہ آپ کہہ دیں کہ قانون بنانے والوں نے اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق یہ قانون بنایا ہے کہ جب اللہ نے چاہا کہ ایسا قانون بنا دیا جائے تو وہ بنا دیا۔ اور اس طریقے سے آپ اللہ تعالیٰ تک پہنچ گئے، اسی طرح وہ سائنسدان جو مسلمان ہے، وہ تو یہاں پہنچ جاتا ہے، اس کو تو پتہ ہے، جیسے میں مسلمان سائنسدان ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے، مجھے اس پہ کامل یقین ہے لہذا مجھے سائنس کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا لیکن جو کافر سائنسدان ہیں وہ انہی اسباب اور علل میں پیچھے رہ گئے۔

قافلہ تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا

مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا جو اسباب و علل والا راستہ ہے وہ اپنی جگہ حق ہے، اس سے انکار نہیں کیونکہ اللہ ہی نے بنایا ہے۔ آخر اللہ پاک نے ہی قرآن پاک میں بتایا ہے کہ میں نے سمندر بنا دیا، اس میں کشتیاں چلوا دیں اور باقی سب انتظام کئے تاکہ تم فلاں فلاں کام کرو۔ یہ سب اسباب ہی ہیں۔

تکوینی اسباب بھی اللہ بتاتا ہے اور تشریعی اسباب بھی اللہ بتاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ حاصل کر لو۔ گویا کہ روزہ اس مقصد یعنی تقویٰ کا سبب ہے جو حاصل کرنا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اسباب بنانے والی ذات جس کو مسبب الاسباب کہا جاتا ہے، وہ اللہ کی ذات ہے۔ اگر کسی کا مسبب الاسباب پر یقین پیدا ہو جائے تو پھر یہ اسباب اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ کیونکہ وہ سارے اسباب کے سرے مسبب الاسباب کے ساتھ جوڑ لے گا اور گویا کہ اس کی تحقیق کامل ہو جائے گی اور ایمان بھی راسخ ہو جائے گا۔

اکثر میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ یہ جو مناظر قدرت ہیں، یہ دو کام کرتے ہیں: initially غفلت cause کرتے ہیں، اپنے اندر گم کر دیتے ہیں، پہاڑوں اور پانی کی آبشاروں کے اندر انسان محو ہو جاتا ہے۔ جو سیاح جاتے ہیں وہ اپنے گھروں کو بھی بالکل بھول جاتے ہیں، بس اسی میں منہمک رہتے ہیں، حتیٰ کہ اللہ کو بھی بھول جاتے ہیں۔ گویا کہ یہ غفلت cause کرتے ہیں، حالانکہ یہ مناظرِ قدرت ہیں، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ لیکن اگر اتنا ذکر کیا جائے کہ دل بیدار ہو تو پھر یہی چیزیں مزید بیداری کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ جیسے کسی کے پاس پیسہ ہو اور وہ اس کو invest کر لے تو وہ مزید پیسے کا ذریعہ بن جاتا ہے تو اسی طریقے سے جب ذکر کرنے کے ذریعے سے انسان کو دل کی بیداری حاصل ہو تو پھر یہی چیزیں ذکر کا ذریعہ اور آلاتِ ذکر بن جاتی ہیں۔

مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ تو لوگوں کو ہوش میں لانے کے لئے یہ مراقبات کرواتے تھے، اس وقت لوگ ہوش کھونے کے لئے یہ مراقبات کر رہے ہیں، إِنَّا لِلہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ حالانکہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مذہب ایک practical چیز ہے، اس کو اسی معنی میں لینا چاہیے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان اور سائنسی تحقیق کے حوالے سے شرک کا خطرہ - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال