مسجد اقصی اور سرزمین فلسطین کی اہمیت

سوال نمبر 400

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

قبلہ اول مسجد اقصی اور سر زمین فلسطین کی اہمیت مسلمانوں کے لئے کس لحاظ سے ہے؟ آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت سے ہمیں اس بارے میں کیا راہنمائی مل رہی ہے؟

جواب:

اصل میں ہم آپ ﷺ کی امت میں ہیں اور آپ ﷺ ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر ہیں، اور ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام سب کے جد ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام جیسے اسماعیل علیہ السلام کے والد تھے اسی طرح حضرت اسحاق علیہ السلام کے بھی والد تھے۔ اسحاق علیہ السلام سے بنی اسرائیل کی پوری نسل چلی ہے اور اسماعیل علیہ السلام سے بنی اسماعیل کی پوری نسل چلی ہے۔ بنی اسماعیل میں آپ ﷺ ہیں اور بنی اسرائیل میں بنی اسرائیل کے انبیاء ہیں۔ گویا کہ یہ آپس میں کزنز ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو چونکہ وہاں مسجد نہیں تھی قبۃ الصخرہ اور بیت القدس موجود تھا جو مسلمانوں کا قبلہ اول تھا۔ کیونکہ جب اسلام آیا تو اس وقت قبلہ اول (جیسا کہ سوال میں بھی ہے کہ) بیت المقدس ہی تھا۔ اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جاتی تھی۔ سارے پیغمبر اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ بعد میں جب آپ ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ بھی اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ خانہ کعبہ ابراہیم علیہ السلام کے لئے خصوصی اہمیت رکھتا تھا، ابراہیم علیہ السلام چونکہ خصوصی طور پر اس کو آباد کرنے کے لئے ادھر لائے گئے تھے، تو یہاں پر بنو اسماعیل آباد ہو گئے۔ لیکن آپ ﷺ کے وقت میں بھی قبلہ بیت المقدس ہی تھا۔ چونکہ آپ ﷺ کے دل میں یہ بات بار بار آتی تھی کہ ہمارا قبلہ خانہ کعبہ ہو۔ تو اللہ پاک نے بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ کو ہمارا قبلہ بنا دیا۔ لیکن بیت المقدس ہمارا قبلہ اول تو رہا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ارضِ فلسطین کے لئے اللہ پاک نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ﴾ (بنی اسرائیل: 1) تو اللہ پاک کی خصوصی نشانیاں اس کے اندر موجود ہیں اور اس میں برکت ہے۔ اور پھر ہماری نسبت بیت المقدس کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وقت میں مسجد اقصی وہاں پر بنا دی گئی۔ بیت المقدس چونکہ تینوں بڑے مذاہب، اسلام، یہودیت اور عیسائیت میں مقدس مقام ہے۔ تو عیسیٰ علیہ السلام کا بیت اللحم اور یہودیوں کے لئے داؤد علیہ السلام کی مسجد اور مسلمانوں کے لئے قبلہ اول کے لحاظ سے ہے۔ تو آپس میں اس کا ایک Point of contempt ہے۔ مسلمانوں کے لئے اس کی اہمیت قبلہ اول کے لحاظ سے اور ساتھ ساتھ ارض فلسطین کی اہمیت جو قرآن پاک میں ہے اور پھر پیغمبروں کی زمین کے لحاظ سے۔ ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ جیسے عیسی علیہ السلام کو ہم صحیح معنوں میں follow کرتے ہیں اس طرح عیسائی follow نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ صرف ان کا نام لیتے ہیں۔ اور اپنی خواہشات کو follow کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم ان کو پیغمبر مانتے ہیں لہذا عیسی علیہ السلام کے ساتھ ہمارا معاملہ قریبی ہے۔ اور موسی علیہ السلام کو بھی ہم پیغمبر مانتے ہیں اور انہوں نے فرمایا تھا کہ جب میرے بعد آپ ﷺ آئے تو ان پہ ایمان لے آؤ۔ تو مسلمان اس پر عمل کر چکے ہیں لیکن اس وقت جو ان کے ماننے والے کہلاتے ہیں، انہوں نے ان کے پورے اعمال پر عمل نہیں کیا۔ انہوں نے صرف ان کا نام استعمال کیا۔

آپ ﷺ نے عاشورا کے روزے کے متعلق فرمایا تھا کہ ہم زیادہ حق دار ہیں کہ ہم یہ روزہ رکھیں۔ تو وہاں کے جو پیغمبر تھے ان کے ساتھ ہمارا تعلق زیادہ ہے۔ ہمارے لئے وہ پیغمبروں کی سر زمین ہے، لہذا ہمارے لئے مقدس ہے۔ یعنی ہم یہ نہیں کہتے کہ بنی اسرائیل کے پیغمبر ہیں، بلکہ ہمارے پیغمبر بھی ہیں کیونکہ ہمارا ان پر ایمان ہے اور ہم ان کے طریقے پہ چل رہے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ یہ ہے کہ ﴿بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ﴾ (بنی اسرائیل: 1) مطلب اس میں برکت ہے۔ مسجد اقصیٰ، گنبدِ صخرہ قدس، یہ سب چیزیں ہمارے لئے ان سے زیادہ محترم ہیں۔ لیکن بہر حال وہ بھی claim کرتے ہیں۔ چنانچہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں کسی مذہب والے کی مخالفت نہ کی جائے۔ مثال کے طور پر پہلے سے جو گرجے بنے ہوئے ہیں، اسلام میں یہ ہے کہ اس کو توڑا نہیں جائے گا۔ لیکن دوسرے نئے گرجے بنانے کی اجازت نہیں۔ اسی طریقے سے جب وہ مسلمانوں کے قبضے میں تھا، تو ان سب کو اپنے مقدس مقامات کی زیارت کی اجازت تھی۔ اب ظاہر ہے ہمارا حق ہے کہ ہماری جو چیزیں ہیں ان کی بھی حفاظت ہو، مخالفت نہ ہو۔ اس وجہ سے جس وقت وہ مسجد اقصی کے خلاف سازشیں کرتے ہیں، تو اس پہ مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ احتجاج کریں۔

سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں چونکہ پورا یورپ چڑھ آیا تھا مسلمانوں پر، بیت القدس کو مسلمانوں سے واگزار کروانے کے لئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی بہادری اور انتہائی حکمت عملی کے ساتھ بیت المقدس کو ان سے لیا تھا اور الحمد اللہ اسی وقت سے یہ چلا آ رہا تھا۔ لیکن پھر ہماری سستیوں اور غفلتوں کی وجہ سے، ہمارے ہاتھ سے چلا گیا۔ اب ان کے پاس ہے۔ لیکن ایک ہوتا ہے ہمارا حق، وہ تو اللہ کو پتا ہے، وہ ایک شرعی چیز ہے، لہذا ہم ان کے ساتھ اس طرح deal کریں گے۔ لیکن ایک عالمی قوانین ہوتے ہیں، عالمی قوانین کے لحاظ سے ہر آدمی کو اپنے مذہب پہ چلنے کی آزادی ہے۔ فلسطینیوں کو بھی آزادی ہے اپنے طریقے سے اور مسجد اقصی کی بھی حرمت ہے، جس طریقے سے صخرہ قدس کی حرمت ہے۔ تو عالمی قوانین کے لحاظ سے مسلمانوں کا یہ right بنتا ہے کہ وہاں پر آرام سے رہیں اور اپنی عبادات صحیح طریقے سے کریں اور اگر کوئی نہیں کرنے دے تو پھر ان کے ساتھ جہاد ہو گا۔ یہی چیز فلسطینی حضرات کر رہے ہیں، لیکن باقی دنیا خاموش ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ فلسطینیوں کی مدد کریں۔ کیونکہ ان کی تو جگہ ہے۔ لیکن مسلمان ہونے کے لحاظ سے ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اور بیت المقدس ہمارا متبرک مقام ہونے کے لحاظ سے ہم اس کی حفاظت پر مامور ہیں اور ہمیں اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اور ان سے دوبارہ واگزار کروانا چاہیے، یہ ہمارے لئے بہت اہم بات ہے۔ کیونکہ تین مساجد کو special خصوصیت اسلام نے عطا کی ہے۔ مسجد حرام مکہ مکرمہ کی، مسجد نبوی مدینہ منورہ کی اور مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی۔ اہمیت کے لحاظ سے مسجد حرام، پھر مسجد نبوی، پھر اس کے بعد مسجد اقصیٰ ہے۔ لہٰذا مسجد اقصی کی حفاظت کے لئے تمام مسلمانوں کو اکٹھا ہونا چاہیے اور ایک آواز ہو کر اسرائیلیوں سے اس کو لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قوت عطا فرمائے، ہمت عطا فرمائے اور حکمت عطا فرمائے، جس کے مطابق کام کر کے ہم ان سے دوبارہ حاصل کر لیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن

مسجد اقصی اور سرزمین فلسطین کی اہمیت - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال