آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو کیسے اپنائیں؟

سوال نمبر 399

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

سلوک سلیمانی کے درس میں یہ بات آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق کے اندر آ سکتی ہیں جیسے صفت رحیم، صفت کریم یا اس قسم کی دوسرے صفات۔ ان صفات کے حصول کا ذریعہ بھی آپ ﷺ کے اخلاق کا اتباع ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے اخلاق کا علم تو ہمیں ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ آپ ﷺ دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں، تو ہم عملًا آپ ﷺ کے اخلاق کیسے اپنا سکتے ہیں کیونکہ ''تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللّٰہِ" کا حصول، علمی طور پر مطلوب نہیں بلکہ عملی طور پر مطلوب ہے جس کے لئے عملی نمونہ موجود ہونا ضروری ہے۔

جواب:

اصل میں Case studies کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے اگر کسی شخص کو ایک مشین کے ساتھ آپ کے پاس بھیجیں اور وہ آپ کو سکھا دے کہ یہ اس طرح کام کرتی ہے اور وہ آپ کے سامنے چلا کر دکھائے اور جو بھی details ہیں وہ آپ کو بتا دے، تو یہ ایک solution ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اتنی detailed کتاب بھیج دیں کہ اس میں ہر قسم کے Case studies ہوں، جن کو آپ دیکھ دیکھ کر اس کے مطابق set کر لیں، اور اس کو چلا لیں۔ بہت سارے softwares internet سے ہم download کرتے ہیں، ہمیں کسی نے بھی ان کو چلانا نہیں سکھایا ہوتا، لیکن اس کے tutorials موجود ہوتے ہیں جن کو پڑھ پڑھ کے، operate کر کر کے ہم اس software کو چلانا سیکھ لیتے ہیں۔ بہت سارے software تو ہم نے اسی طرح سیکھے ہیں۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے Case studies کے ذریعے سے سکھانا۔ تو آپ ﷺ چونکہ دنیا میں تشریف لے آئے ہیں اور آپ ﷺ نے اس پہ عمل کر کے دکھا دیا ہے اور آپ ﷺ نے اس کی ہر ایک چیز کو سمجھا دیا ہے۔ اور پھر ایک پوری صحابہ کرام کی جماعت کو اپنے پیچھے چھوڑا ہے، اور صحابہ کرام کی جماعت میں ہر علاقے کا نمونہ موجود ہے۔ ہر عمر کا نمونہ موجود ہے۔ ہر طبیعت کا نمونہ موجود ہے۔ اور یہ سارا documented اور record ہے۔ یعنی ایک تو قرآن موجود ہے اور دوسرا آپ ﷺ کی سنت موجود ہے اور تیسرا آثار صحابہ موجود ہیں۔ ان تین چیزوں کی موجودگی میں اس پر عمل ہو سکتا ہے۔ "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي" (ترمذی، حدیث نمبر: 2641) جس پر میں ہوں اور جس پر میرے صحابہ ہیں۔ کسی کو اس بات کا گِلہ نہیں ہو سکتا کہ میرے سامنے نمونہ موجود نہیں ہے۔ اس کے پاس نمونے موجود ہیں، ہر قسم کے علاقے کے، ہر قسم کی عمر کے اور ہر قسم کی طبیعت کے نمونے موجود ہیں۔ اس سے بڑھ کر پھر آگے فقہاء نے ان سے تصریحات نکالی ہیں۔ اس کے بعد مفتیان کرام نے فتوؤں کی صورت میں بہت ساری چیزیں نکالی ہیں، گویا کہ ایک پورا network بن چکا ہے۔ اب کسی کے پاس یہ بات کہنے کا موقع نہیں رہا کہ میرے پاس وہ چیز نہیں آئی کیونکہ یہ عملی مثالیں ہیں۔ یہ علمی باتیں نہیں ہیں، علمی بات تو ایک ہی ہے کہ کرو یا نہ کرو۔ لیکن عملی طور پر ساری چیزیں موجود ہیں۔ سائنس بھی ایک علم ہے جو observation and experiments سے وجود میں آتا ہے۔ جس میں یہ ہوتا ہے کہ جو ہو رہا ہوتا ہے اس کو انسان سمجھتا ہے اور اس سمجھ سے کام لے کر جو نہیں سمجھتا، اس کو سمجھتا ہے۔ مثال کے طور پر چائے کپ میں تھوڑی دیر میں ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ ایک عام آدمی یہی سوچے کا کہ بس چائے ٹھنڈی ہو گئی۔ لیکن سائنسدان کہتے ہیں: کیوں ٹھنڈی ہو گئی اور کیسے ٹھنڈی ہو گئی؟ پھر با قاعدہ ان کو پتا چلتا ہے کہ باہر temperature کم ہے اور چائے کا temperature زیادہ ہے، لہذا Temperature flow ہو گیا، heat transfer ہو گئی۔ وہ اس طرح کہ heat اس سے operation ہو رہی تھی، جس کی وجہ سے اس کے Hot particles ہوا میں مل رہے تھے، لہذا اس کا Average temperature، یعنی جو heat گر رہی تھی، تو اس کا temperature باہر کے temperature کے ساتھ مل گیا، جس کی وجہ سے چائے ٹھنڈی ہو گئی۔ اب Heat transfer ٹرانسفر کیسے ہوتا ہے؟ تو تین طریقے دریافت ہو گئے۔ conduction ،convection اور radiation۔ اس کے بعد پھر اس کی مزید detailed equations سامنے آئیں اور ایک پورا نظام وضع ہو گیا۔ سائنس کے بارے میں پہلے کسی کو کوئی کتاب نہیں دی گئی تھی، کوئی نمونہ نہیں دیا گیا تھا۔ بلکہ لوگ خود ان تمام چیزوں کو سمجھ سمجھ کے، ایک اینٹ کے اوپر دوسری اینٹ، اس کے اوپر تیسری اینٹ، پوری سائنس کی تعمیر کر لی۔ کیونکہ ایک چیز ممکن ہو رہی تھی۔ یہ PHD کا مطلب Independent research ہے۔ یعنی آپ بغیر کسی کی help کے خود research کر سکیں۔ یعنی سائنس اس طریقے سے چلتی ہے۔ اس کو evolve کہتے ہیں۔ یعنی علم evolve ہو رہا ہے اور چیزیں سامنے آ رہی ہیں۔ گویا کہ Rules and regulations چیزوں سے معلوم ہو رہی ہیں۔ بالکل یہی چیز صحابہ کرام کی زندگی سے فقہاء کرام حاصل کر رہے ہیں۔ فقہائے کرام با قاعدہ سائنس کے طریقے پہ عمل کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کو کسی اور نے بتایا کہ فتویٰ کیا چیز ہے اور کس طرح ہوتا ہے بلکہ وہ سب ہو رہا تھا اور سمجھ میں آ رہی تھی۔ احادیث شریفہ موجود ہیں کہ اس وقت یہ ہو گیا اور اس وقت وہ ہو گیا۔ اب یہ ہو گیا تو اس سے کیا مطلب لیں؟ جس طرح سائنسدان کی سمجھ ہے، اسی طرح فقہاء کی سمجھ ہے۔ سائنسدانوں نے اپنی سمجھ سائنس میں استعمال کی اور فقہاء نے اپنی سمجھ قرآن اور سنت کو اور صحابہ کرام کے عمل کو جاننے کے لئے استعمال کی ہے اور اسی سے قوانین بنائے ہیں۔ جیسے ان لوگوں نے فارمولے اور equations بنا دیئے، تو ان حضرات نے با قاعدہ اس کے لئے فتاویٰ بنا لئے اور اصول و ضوابط بنا دیئے اور با قاعدہ پورا ایک Skeleton develop ہو گیا۔ اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے، چونکہ نئے نئے case آ رہے ہیں۔ تو یہ بھی evolve ہو رہا ہے۔ فقہ بھی evolve ہوتا ہے، reveal نہیں ہوتا۔ سنت رسول ﷺ گویا کہ عملی طور پر reveal ہوئی ہے۔ قرآن کتاب کے طور پر reveal ہوا ہے، وحی کے طور پر reveal ہوا ہے۔ یعنی آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آیا ہے۔ لیکن فقہ evolve ہوا ہے۔ چنانچہ بعض لوگ اس کو سمجھتے نہیں بلکہ اس کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ ایک scientific طریقہ ہے، چیزوں کو جاننے اور سمجھنے کے لئے۔ اس لئے فرمایا کہ اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی فرمانا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔ دین کی سمجھ یہی ہے کہ مختلف چیزوں سے اندازہ لگا کے با قاعدہ ایک solution دیتے ہیں۔ اور پھر با قاعدہ صحابہ کرام کے دور میں اس کو endorse کر دیا گیا۔ صحابہ کرام نے یہی طریقہ اختیار کیا اور با قاعدہ اس پر عمل ہوتا رہا۔ "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي" (ترمذی، حدیث نمبر: 2641) میں یہ چیز ثابت ہو گئی۔ یہ طریقہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ لیکن اگر کوئی صرف اس طریقے پہ چلتا ہے تو اس کو اخیار کا طریقہ کہتے ہیں۔ possible ہے، difficult ہے، لمبا ہے، نا ممکن نہیں ہے۔ اگر کوئی اس طریقے سے چلنا چاہتا ہے تو بالکل ٹھیک ہے، لیکن اگر اس سے بہتر طریقے پہ جانا چاہتا ہے تو پھر اپنے لئے کوئی ایسا عملی نمونے والا شخص دیکھ لے، جو اس کو educate کرے، طریقہ کار سکھائے، عملی طور پر تمام چیزیں سمجھائے اور کر کے دکھائے۔ اس کے اندر تصرف کر کے چیزوں کو تبدیل کرے، اس کی تربیت کرے۔ یہ ابرار کا طریقہ ہے۔ یہ زیادہ advanced ہے عملی طور پر، چونکہ اس میں وہ چیز آ جاتی ہے۔ لیکن اس میں سائنس سے کچھ بڑھ کر چیز ہے، سائنس اس سے پیچھے رہ جاتی ہے۔ experience تو سائنس کی طرح ہے، لیکن یہاں برکت والی چیز سائنس کے ساتھ نہیں ہے۔ سلسلے کی برکت اس میں extra ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید ہے، اللہ پاک کی طرف سے مدد ہے۔ اس ذریعے سے یہ طریقہ زیادہ fast بھی ہو جاتا ہے، زیادہ آسان بھی ہو جاتا ہے اور اس پر زیادہ تر لوگ کامیاب ہوئے ہیں۔ اور اگر کوئی اور محرک ہے، جیسے شیخ کی محبت اتنی زیادہ ہو کہ انسان کی تمام سوچوں پر حاوی ہو جائے تو پھر اس کے بعد دن دگنی رات چگنی ترقی ہوتی ہے۔ کیونکہ willpower کی ضرورت تھی، جس کے ذریعے انسان علم حاصل کر کے عمل کرتا ہے۔ اس کی ضرورت شیخ کی صورت میں بھی تھی کہ شیخ کی بات مانے۔ یعنی اس کو اپنے اوپر ضرور impose کرے۔ اس کی بھی ضرورت نہیں رہی، کیوں کہ محبت کی وجہ سے وہ چیز بھی ختم ہو جائے گی۔ ظاہر ہے پھر درمیان میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی، لہذا بہت تیزی کے ساتھ ترقی ہو گی۔ اسی کو شطاریہ کا طریقہ کہتے ہیں۔ الحمد للہ نظام موجود ہے، میں نے details اس لئے بتا دیں کہ بعض لوگ کہیں گے کہ بھئی اگر کسی جگہ پر شیخ نہ ہو تو ہم کیا کریں؟ تو اخیار کا طریقہ موجود ہے، اسی کو apply کرو۔ اگر مل جائے تو سبحان اللہ۔ اس بات کو اگر کوئی سمجھ لے تو کسی کو بھی ان شاء اللہ العزیز گلا نہیں ہو گا کہ میرے لئے رہنمائی موجود نہیں ہے۔ ہدایت موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو کیسے اپنائیں؟ - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال