فطرانہ کی ادائیگی کا طریقہ اور اس کی اہمیت

سوال نمبر 396

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ 

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

عید الفطر کے دن غرباء میں فطرانہ کے متعلق آپ ﷺ کی کیا تعلیم ہے کہ اس کو کس طرح ادا کیا جائے اور اگر کوئی فطرانہ ادا نہ کرے تو اس کا کیا نقصان ہے؟

جواب:

در اصل بات یہ ہے کہ فطرانہ غریبوں کے لئے ایک support ہے، چونکہ عید کا دن خوشی کا دن ہوتا ہے اس میں انسان اپنی خوشی کے مطابق جو چاہتا ہے کھا لیتا ہے، جو اوڑھنا چاہتا ہے وہ اوڑھ لیتا ہے، جن سے ملنا چاہتا ہے ان سے مل لیتا ہے تو اس کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ پیسہ ہے۔ جو مال دار لوگ ہیں ان کو گویا حکم ہے کہ آپ اپنی دولت میں غریبوں کو بھی شریک کر لیں اور ان کو بھی کچھ دیں۔ تو گویا کہ یہ minimum مقدار بتا دی کہ کم از کم اتنا ضرور دیں، یہ واجب ہے۔ آدمی کے اوپر صدقہ فطر لازم ہے، چاہے وہ کوئی بچہ ہی کیوں نہ ہو، اسی دن ہی کیوں نہ پیدا ہوا ہو، اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر لازم ہے۔ زکوٰۃ اور صدقہ فطر میں یہ فرق ہے زکوۃ کے لئے پورے سال کا گزرنا لازم ہے جب کہ صدقہ فطر کے لئے پورے سال کا گزرنا بھی لازم نہیں ہے۔ بس اتنی شرط ہے کہ وہ صاحب نصاب ہو۔ یعنی اتنا پیسہ ان کے پاس جس پر زکوٰۃ فرض ہو، سال پورا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایسا شخص اپنا صدقہ فطر بھی دے گا اور اس کے گھر کے جتنے افراد اس پہ dependent ہوں گے، ان کا بھی دے گا۔ اس کی مقدار میں بتا چکا ہوں کہ 1.7 kilogram گندم یا آٹا یا اس کی جو قیمت ہے وہ دینی ہو گی۔ اس کا بہتر طریقہ جو آپ ﷺ کا ہے، وہ یہ کہ اس کو عید کی نماز سے پہلے پہلے ادا کیا جائے۔

اگر کوئی شخص صدقہ فطر ادا نہ کرے اس کا نقصان یہ ہے کہ وہ واجب ترک کر رہا ہے اور یہ جرم ہے۔ لہذا ایسا شخص گناہ گار ہے۔ جو زکوۃ ادا نہیں کرتا اس کا نقصان یہ ہے کہ وہ گناہ گار ہے اور اس گناہ کی وجہ سے اس کے روزے قبولیت کے لئے آگے نہیں جا رہے۔ اللہ پاک کے قانون کو توڑ کے کوئی انسان خوش نہیں رہ سکتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑنا نہیں چاہیے، اسے اپنے وقت پہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ ایک تو نا ادا کرنے کا گناہ ہوتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے روزے خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اس وقت تک آگے نہیں جا سکتے جب تک کہ یہ ادا نہ کیا جائے۔ اس لئے ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔ بعض دفعہ انسان دینا چاہتا ہے لیکن بھول جاتا ہے، تو یاد رکھنا چاہیے بھولنا نہیں چاہیے۔

اب چونکہ ہم اعتکاف میں ہیں، تو ظاہر ہے کہ جب یہاں سے جائیں گے تو اُدھر نماز ہو چکی ہو گی تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی کی ذمہ داری لگا دیں۔ آج کل آپ کے پاس app موجود ہے اس سے آپ وہاں کے کسی ذمہ دار آدمی کو send کر لیں اور ٹیلی فون کر لیں کہ بھئی! میری طرف سے وکیل بن کر دے دو تو وہ آپ کی طرف سے ادا کر لے گا۔ مقصد یہ ہے کہ صدقہ فطر ادا کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔

بعض لوگ روزے نہیں رکھ سکتے تو ہر روزے کے برابر اس کا صدقہ فطر دینا پڑے گا۔ 30 روزے ہو گئے یا 29 روزے ہو گئے، اس کو 29 سے ضرب دے کر جتنے پیسے بنیں اتنے پیسے عید کی نماز پڑھنے سے پہلے پہلے دے دیں۔ اس کے لئے آج کل طریقۂ کار بہت زیادہ آسان ہے۔ اس وقت بہت زیادہ غریب موجود ہیں، اس وقت تو ایسا ہے کہ لوگ بالکل Hand to mouth غربت میں چلے گئے ہیں۔ پڑوس میں ہی بہت سارے لوگ ہوتے ہیں جن کا تھوڑا سا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ کون ہیں۔ پھر ان کو دیا جا سکتا ہے۔ اور یہ سب سے بہتر طریقہ ہے۔ اور سب سے پہلے حق بھی اپنے علاقے کے لوگوں کا ہوتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ بعض دفعہ بعض لوگوں کی شہرت زیادہ ہوتی ہے کہ یہ غریب ہے، اگر ساری دنیا کی زکوۃ ان کے پاس آ جائے تو باقی لوگوں کا کیا ہو گا؟ اس وجہ سے بہتر یہ ہوتا ہے کہ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کی ذمہ داری کو پورا کیا جائے۔ بالخصوص غریب رشتہ دار ہوتے ہیں مثال کے طور پر بہن یا بھائی غریب ہے تو ان کو بھی یہ دیا جا سکتا ہے۔ البتہ سادات کا معاملہ ذرا مختلف ہے، ان کو نہیں دے سکتے۔ لیکن اپنے جو قریب ترین رشتے دار ہیں جیسے cousin ہو، بہن ہو، بھائی ہو یا بھانجے وغیرہ ہوں، ان کو دیا جا سکتا ہے۔ حاصل یہ کہ رشتہ داروں کا حق سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد پڑوسیوں کا ہے اس کے بعد آپ آگے بڑھتے جائیں۔ اس کی جو جو مدیں ہیں ان مدوں میں کسی میں خرچ کر لیں۔

اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ جو کسی کے در پر آ جائے تو اس کو لوگ دے دیتے ہیں حالانکہ ان میں بعض professional ہوتے ہیں، وہ غریب نہیں ہوتے، بس انہوں نے اپنے آپ کو غریب بنایا ہوتا ہے۔ professional وغیرہ کو تو بالکل نہیں دینا چاہیے، ان کو discourage کرنا چاہیے تاکہ وہ یہ کام چھوڑ دیں۔ جب میں مکان بنا رہا تھا تو ادھر میں نے ایک کرائے کا مکان لیا تھا، وہ ذرا مسجد سے ذرا دور تھا لیکن نماز ہم اس مسجد اکبر میں پڑھتے تھے۔ ایک مرتبہ دو آدمی آئے، گھنٹی بجائی، میں باہر آیا تو کہنے لگے کہ ہم مسجد اکبر سے آئے ہیں، وہاں پنکھوں کی ضرورت ہے، قاری صاحب نے ہمیں بھیجا ہے۔ میرا قاری صاحب کے ساتھ ہر وقت اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا، تو میں نے سوچا قاری صاحب کو پنکھوں کی ضرورت ہے اور مجھے پتہ نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ کون سے قاری صاحب نے بھیجا ہے؟ وہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ تو وہاں کا واقف ہے، کہنے لگے جامعہ صدیقیہ کے قاری صاحب۔ یعنی فوراً مسجد اکبر کا نام جامعہ صدیقیہ ہو گیا۔ بہر حال! میں ان کے ساتھ کیا کر سکتا تھا، وہ اس وقت تو چلے گئے لیکن بعد میں مسجد اکبر والوں نے ان کو پکڑ لیا تھا اور جتنے پیسے انہوں نے جمع کئے تھے وہ سارے ان سے لے لئے کہ یہ سب آپ نے ہمارے لئے جمع کئے ہیں اس لئے یہ ہمیں دے دو۔ ساتھ ان کو خوب اچھی طرح سے مارا بھی۔

یہ لوگ چونکہ professional ہوتے ہیں اس لئے ایسے کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو نہیں دینا چاہیے۔ جن کو آپ جانتے ہوں کہ یہ غریب ہے تو ان کو دے دیں۔ اس کے علاوہ ایک اور چیز کم از کم آپ سب کو پتہ ہو گی کہ جن پہ خود صدقہ فطر واجب ہوتا ہے ان کو نہیں دینا چاہیے، یا کسی کو اتنا نہیں دینا چاہیے کہ اس پہ صدقہ فطر واجب ہونے لگے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


فطرانہ کی ادائیگی کا طریقہ اور اس کی اہمیت - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال