دنیا سے بے رغبتی: فطری کیفیت یا کوشش کی ضرورت؟

سوال نمبر 394

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

دنیا سے بے رغبتی آپ ﷺ کی سُنت اور مطلوب ہے۔ بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں جن ميں دنیا کی بے رغبتی فطری طور پر ہوتی ہے، جن کو شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے کمزور اور بے ہمت افراد فرمایا ہے۔ ایسے افراد کو اپنی قیمتی چیز مثلاً مال کی حفاظت کی فکر فطری طور پر نہیں ہوتی۔ اسی طرح وہ اپنی field ميں دوسرے لوگوں سے آگے بڑھنے کا جذبہ بھی نہیں رکھتے۔ کیا ایسے کمزور اور بے ہمت افراد کو اپنی اس فطری حالت پر شکر کرنا چاہیے یا اس ميں بہتری لانے اور اعتدال پر آنے کے لئے کوشش کرنی چاہیے؟ اگر اپنی اس فطری حالت میں بہتری کی کوشش کی ضرورت ہے تو وہ کس قسم کی کوشش ہے؟

جواب:

دیکھیں! حقوق پورا کرنا تو ہر ایک کے ذمے لازم ہے، تو جب حقوق کو پورا کرے گا تو اس کے لئے اسباب بھی اختیار کرے گا۔ اب اسباب میں کمانا بھی ہے اور جو کمایا ہے، اس کی حفاظت بھی ہے۔ یہ ساری باتیں اگر آپ سمجھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ کمزور طبیعت والے اور بے ہمت لوگ۔ اگر یہ کما نہیں سکتے یا کمائیں گے تو اس کو بچا نہیں سکتے تو ظاہر ہے یہ حقوق نہیں پورے کر سکیں گے‌۔ ان کا تو ان سے مطالبہ ہوگا لہذا اس صورت میں ان کو اس بات کی تربیت لینی ہو گی اور مشائخ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان کو کام پہ لگائیں اور ان سے کام کروائیں کیونکہ ظاہر ہے کہ ایک عضو کا معطل ہو کے رہ جانا شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے بلکہ جو شخص کام کر سکتا ہو اس کو کام کا طریقہ سکھایا جائے۔ لہذا ایسے شخص کو کسی شیخ کی نگرانی میں اپنی تربیت کروانی ہو گی اور اپنی اسی کیفیت کو اعتدال پر لانے کی کوشش کرنی ہو گی ورنہ پھر وہ حقوق کو پورا نہیں کر سکے گا اور حقوق میں بہت ساری چیزیں آ جاتی ہیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

دنیا سے بے رغبتی: فطری کیفیت یا کوشش کی ضرورت؟ - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال