اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں تبلیغ کے باب ميں تدریج کے عنوان کے تحت صفحہ نمبر 217 پر تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہودیوں اور عیسائیوں کی ایک قوم کے پاس جاؤ گے تو ان کو پہلے اس کی دعوت دینا کہ خدا کے سوا کوئی خدا نہیں اور محمد ﷺ اُس کا رسول ہے۔ جب وہ یہ مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات ميں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہيں۔ اور جب وہ یہ بھی مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے، یہ صدقہ ان کے دولت مندوں سے لے کر ان کے غریبوں کو دیا جائے۔ جب وہ اس کو تسلیم کر لیں تو دیکھو صدقہ میں چن چن کر ان کے بہترین مال کو نہ لینا اور ہاں مظلوم کی بد دعا سے ڈرتے رہنا کہ اس کے اور خدا کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو غیر مسلموں کی بات ہے اگر مسلمانوں کو دین پر لانا ہو تو کیا اُس میں بھی یہی تدریج ضروری ہے؟
جواب:
تدریج حکمت میں سے ہے یعنی آپ جب حکمت سے کام لینا چاہتے ہیں تو اس کے لئے تدریج ہوتی ہے۔ مثلاً آپ چلتی ہوئی بس سے اترنا چاہتے ہیں تو اس کی مخالفت سمت میں نہیں اتریں گے بلکہ اسی سمت اتریں گے جس side پر بس جا رہی ہے اور تھوڑا سا اس کے ساتھ دوڑیں گے بھی۔ اس کے بعد آپ رکیں گے۔ بس یہی ہے کہ آپ نے جب بھی کسی کو اس کام کی طرف لانا ہو تو ابتدا میں آپ اپنے آپ کو اس کا ہمدرد ظاہر کریں اور اس کو یہ سمجھائیں کہ میں جو کہہ رہا ہوں، اس میں آپ کا فائدہ ہے۔
میں نے ایک دفعہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بڑا لمبا خط لکھا، یہ ابتدائی دنوں کی بات ہے۔ حضرت ڈاکٹر شیر حسن صاحب حضرت کے خدام میں سے تھے اور بعد میں خلیفہ بھی ہوئے۔ اس وقت انہوں نے مجھے کہا کہ شبیر! میں آپ کو آپ کے فائدے کی ایک بات بتاؤں؟ میں نے کہا جی بتا دیجئے، کہنے لگے کہ آپ جب بھی مولانا کو خط لکھیں تو زیادہ لمبا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اگر شیخ کے دل پہ کدورت آ جائے تو اس سے نقصان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے کبھی بھی ایک صفحے سے زیادہ خط نہ لکھو اور ساتھ طریقہ بتایا کہ اس طرح درمیان میں لکیر کھینچو اور اس میں ایک طرف اپنے points لکھو۔ اس کے جواب میں دوسری طرف نمبر وار points کے حساب سے مولانا جواب دے دیں گے۔ اس طریقے سے آپ کو بھی آسانی ہو گی اور حضرت کو بھی آسانی ہو گی۔ اب دیکھیے! انہوں نے سب سے پہلے کہا کہ مجھے بتائیں میں آپ کو آپ کے فائدے کی ایک چیز بتاؤں؟ یعنی پہلے انہوں نے مجھے اپنے ساتھ لے لیا اور اس کے بعد مجھے بات بتائی۔ یہ عمل تدریج کہلاتا ہے اور یہ حکمت ہوتی ہے۔ تصوف سارے کا سارا سراپا تدریج ہے۔ اس میں اصل بات ہی تدریج کی ہے۔ جیسے بعض لوگوں کے اعمال تو دور کی بات خود ان کا ایمان خطرے میں ہو گا، اس صورت میں آپ ان کو تصوف کی بڑی بڑی باتیں نہیں بتا سکتے کہ اس میں فلاں فلاں مقامات ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ اس کا تو ایمان ہی ختم ہونے کے درپے ہے تو پہلے اس کا ایمان بچانا اہم ہے۔
ترکی میں صوفیا نے سوچا کہ ہم ان لوگوں سے بڑے بڑے اعمال نہیں کروا سکتے، بس ان کا ایمان بچا رہے، یہی کافی ہے تو انہوں نے پھر یہی کیا اور اس کی وجہ سے ان سے اللہ تعالیٰ نے کافی کام لیا۔ تو فرمایا: جیسا کہ پہلے ان کو کلمہ کی دعوت دی، یعنی لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رّسُوْلُ اللہِ۔ اس کے بعد نماز کی باری آتی ہے اور اس کے بعد پھر صدقہ کی بات آتی ہے۔ کیونکہ قرآن پاک میں بھی بالکل ابتدا میں ایمان کے ساتھ انہی کا ذکر ہے: ﴿الٓمّٓ 0 ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ ۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَۙ 0 الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ 0 وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ 0 اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (البقرۃ: 1-5) یعنی: ﴿یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ﴾ بالکل ساتھ ساتھ ہیں، یعنی نماز قائم کرنا اور صدقہ دینا۔ تو پہلے ایمان ہے، اس کے بعد نماز ہے اور اس کے بعد صدقہ ہے اور صدقے کی دو قسمیں ہیں، فرض بھی ہے اور نفل بھی ہے، یعنی سب کچھ تدریجًا ہے۔ آخرت پر ایمان ان تمام خیر کے کاموں کی بنیاد ہے۔ اور یہ ہمارے لئے ایک ترتیب ہے۔ اس طرح ہمارے تصوف میں بھی جب بیعت کرتے ہیں تو سب سے پہلے أَشْھَدُ أَنْ لَّآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ کہتے ہیں، پھر توبہ کراتے ہیں تاکہ گذشتہ گناہ ختم ہو جائیں، اس کے بعد بیعت کراتے ہیں تاکہ مستقبل کے لئے انابت الی اللہ کا رستہ بن جائے۔ مقام توبہ اور مقام انابت کو بیعت میں ہی شروع کرا دیتے ہیں، اس کے بعد ذرائع اختیار کرتے ہیں۔
جب گاڑی پھنس جائے تو اس کا ٹائر نکالنے کے لئے ویسے ہی زور لگا کر نہیں اٹھاتے، پہلے نیچے سے زمین سے کھرچ کر ٹائر کے چلنے کے لئے رستہ بناتے ہیں اور اگر زمین نرم ہو جس میں ٹائر گھومتا ہو اور آگے نہ بڑھتا ہو تو ساتھ پتھر رکھ دیتے ہیں کیونکہ ٹائر friction کی وجہ سے آگے بڑھتا ہے۔ پتھر رکھنا اگرچہ رکاوٹ سمجھا جاتا ہے لیکن اس وقت ذریعہ ہے۔ آپ اس کے بغیر گاڑی نہیں چلا نہیں سکتے۔ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہماری پوری ترتیب اس طرح ہوتی ہے کہ پہلے جگہ بنائی جاتی ہے، کیونکہ اگر وہاں کوئی چیز رکھنے کی جگہ ہی نہیں تو آپ وہاں کیا لائیں گے؟ ہم یہ جو ذکر و اذکار یا مجاہدات کراتے ہیں تو در حقیقت ہم جگہ بنا رہے ہوتے ہیں، یہ ذریعے کے طور پر ہیں۔ پھر ان کے بعد ان کے اوپر وہ چیزیں لاتے ہیں جو کرنی ہوتی ہیں۔ پھر اس کے بعد کچھ چیزیں ان کے ساتھ خود بخود آ جاتی ہیں، ان کو توابع کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ ان کی پرواہ نہ کرو، اور کچھ چیزوں کی وجہ سے ساری کی ساری محنت ضائع ہو سکتی ہے اس لئے بتاتے ہیں کہ ایسا نہ کرو، یہ نہ کرو، وہ نہ کرو وغیرہ وغیرہ۔
ہم پر گاڑی پر کہیں جا رہے تھے، میرے ساتھ ایک ساتھی بھی تھے، ایک جگہ کچی زمین تھی اور بارش ہونے کی وجہ سے پھسلن بنی ہوئی تھی، ہم سیدھا جا رہے تھے کہ ایک دم گاڑی ایک طرف مڑ گئی، تو بعض دفعہ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں، ان چیزوں سے بچنا ضروری ہوتا ہے، ان کو موانع کہا جاتا ہے۔ ان میں تعجیل بھی آ جاتی ہے۔ جیسے بعض لوگ سوچتے ہیں کہ جلد جلد ہمیں وہ چیز دے دی جائے۔ بھئی! لوگ جلد جلد یہ چیز برداشت ہی نہیں کر سکتے، وہ دے بھی دیں تو اس کا آپ کیا کریں گے؟ وہ تو سب کچھ ختم کر دے گی۔ یہ سب کچھ ترتیب کے ساتھ چلتا ہے، اس کے لئے اتباع شیخ کرنی ہوتی ہے، مخالفت شیخ سے بچنا ہوتا ہے، مخالفت سنت سے بچنا ہوتا ہے، جلد بازی سے بچنا ہوتا ہے اور امارد اور نساء کے ساتھ تعلق سے بچنا ہوتا ہے۔ کیونکہ ان سب سے یہ ساری چیزیں خراب ہو جاتی ہیں۔
میں اکثر اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ چھوٹی بچیاں اور بچے اگر آپ کے اپنے نہ ہوں تو ان کے ساتھ زیادہ میل جول مت بڑھائیں، انسان کے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے، کسی وقت بھی وہ attack کر کے خراب کر سکتا ہے۔ میں ان چیزوں سے بچنے کی بہت کوشش کرتا ہوں کیونکہ یہ خطرناک باتیں ہیں۔ بعض لوگ احتیاط نہیں کرتے اور جب نقصان ہو جاتا ہے تو پھر روتے رہتے ہیں۔ میں ان کو tuition پڑھانے پہ بھی پابندی لگاتا ہوں کہ بچیوں کو tuition نہ کراؤ کیونکہ ٹیوشن کی تنہائی میں بہت آسانی ہوتی ہے اور لوگ بھی اعتماد کرتے ہیں۔ اور اسی میں انسان کا شیطان جاگ جاتا ہے اور نفس اور شیطان مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اور میں یہ تجربے کی باتیں بتا رہا ہوں، حقیقتًا ایسا ہوا ہے، فرضی باتیں نہیں کر رہا کہ میں theoretical بات کر رہا ہوں کہ ایسا ہو سکتا ہے بلکہ ایسا ہوا ہے۔ کیونکہ مجھے تو لوگ اپنے واقعات اور باقی ساری چیزیں بتاتے ہیں۔ مجھے First hand information ہوتی ہے کہ کن کن چیزوں سے کیا کیا ہو سکتا ہے۔ اس لئے میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ ان چیزوں سے اپنے دوستوں کو بچاؤں جن میں انسان گر سکتا ہے۔ اس وجہ سے کہتا ہوں کہ یہ ساری ترتیب، تدریج و احتیاط اور ہمت و کوشش کی ہے۔ اس کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ یہ کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ بس پھونک ماری اور کام ہو گیا۔ البتہ لوگوں کا تصور یہی ہے کہ شیخ کوئی جادو کی چھڑی لائے گا اور بس کام بن جائے گا۔ حالانکہ شیخ اپنے طور پر کچھ بھی نہیں کر سکتا، وہ بھی اللہ کا بندہ ہے اور اللہ ہی کی طرف دیکھتا ہے، اللہ پاک نے جو اسباب بنائے ہیں ان کو اختیار کرتا ہے۔ وہ کوئی مافوق الفطرت ہستی نہیں ہے، اسی فطرت کے مطابق اس نے بھی زندگی گزارنی ہے اور باقی لوگوں نے بھی زندگی گزارنی ہے۔ صرف اتنا فرق ہوتا ہے کہ اس کو کچھ experience ہوتا ہے۔ جیسے ابھی میں آپ کو experience کی باتیں بتا رہا ہوں اسی طرح وہ اپنے experience کو استعمال کرتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اپنے ذاتی مفادات کو درمیان سے ہٹانا ہوتا ہے۔ اس وقت مخلص مشورہ دینے والے بہت تھوڑے ہیں، جب بھی آپ کو کوئی مشورہ دے گا تو اس میں اس کے کچھ ذاتی مفادات ہوں گے۔ اس سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور آدمی کو نہیں پتہ چلتا کہ میں کس کی بات مانوں اور کس کی نہ مانوں۔ اور اگر شیخ واقعی شیخ کامل ہے تو کم از کم اس میں یہ بات نہیں ہو گی کہ میں اس کو وہ بات کروں جس میں میرا فائدہ ہو، بلکہ بعض دفعہ اس کو اپنے فائدے کے خلاف بات کرنی پڑتی ہے۔ کیونکہ اس نے اُس شخص کے فائدے کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے جو اس سے پوچھ رہا ہے۔ حاصل یہ کہ تصوف سارے کا سارا ما شاء اللہ تدریجی عمل ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ