آدابِ سلوک، ذکر کے آداب، مراقبہ اور اسکے احکام

ہمعات، مترجم پروفیسر محمد سرور، صفحہ 64 تا 72

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اس بیان حضرت شاہ ولی اللہ کی تعلیمات کی روشنی میں "آدابِ سلوک" کی وضاحت کی گئی ہے، جس میں سالک کے لیے روزانہ پچاس رکعت نمازوں، مخصوص اذکار، مسنون روزوں اور صدقہ و خیرات پر مشتمل ایک جامع معمول تجویز کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی کھانے، سونے اور میل جول میں اعتدال اور نمود و نمائش سے بچتے ہوئے سادگی اپنانے کی تلقین کی گئی ہے۔ بیان میں ذکر کے اصل مقصد پر زور دیا گیا ہے کہ یہ نفسانی سکون کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے، جس کے لیے درست نیت اور باقاعدہ تیاری لازمی ہے۔ ذکرِ جہری (بلند آواز سے ذکر) کے مخصوص آداب، جیسے دل پر ضرب لگانا، کا مقصد منتشر خیالات کو ختم کرکے عشق و محبت کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔ ذکر میں پختگی کے بعد مراقبے کا مرحلہ آتا ہے، جس میں سالک اپنی تمام تر توجہ اللہ تعالیٰ کی ہمہ گیر ذات پر مرکوز کرتا ہے۔ ایک کلیدی نکتہ یہ ہے کہ ان عبادات و مشقوں کو محض ذریعہ سمجھا جائے اور ان میں پھنس کر اصل مقصود یعنی اللہ تک رسائی سے غافل نہ ہوا جائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ طریقت کے یہ تمام آداب دراصل شریعت پر اخلاص کے ساتھ عمل پیرا ہونے اور اللہ کی رضا پانے کے لیے ایک منظم روحانی تربیت ہیں۔


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی ہمعات کا چوتھا درس جاری ہے اور آج آدابِ سلوک بتائے جائیں گے۔ فرماتے ہیں:

آدابِ سلوک

سالک کو بالجملہ دن رات میں پچاس رکعتیں ضرور پڑھنی چاہئیں، سترہ رکعتیں فرض نمازوں کی، بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ، گیارہ رکعات تہجد (یعنی تین رکعت وتر کے ساتھ اور) دو رکعتیں اشراق کی اور چار رکعتیں نماز ضحیٰ (یعنی چاشت کی نماز) اور چار رکعتیں نماز زوال کی، یہ کل پچاس رکعتیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ صبح و شام اور سوتے وقت کے جو اذکار و اوراد صحیح احادیث میں مروی ہیں، سالک کو ان کا ذکر بھی کرنا چاہئے۔ مجھے والد قدس سرہ نے ذکر نفی و اثبات یعنی ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کو ہزار بار روز مستقل طور پر کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ آپ کا ارشاد تھا کہ کچھ ذکر تو بلند آواز سے ہو اور کچھ آہستہ آہستہ خفی طور پر (یہ نقشبندی ہیں ناں) سالک کو چاہئے کہ جتنا وہ زیادہ سے زیادہ درود و استغفار پڑھ سکے، پڑھے۔ نیز سحر کے وقت ’’سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ کو سو بار اور اسی طرح ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ‘‘ کا سو بار ورد کرنا اپنے اندر بڑی برکت رکھتا ہے۔

اصل میں یہ کلمات مبارکہ یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ‘‘ کلمات توحید ہیں اور ’’سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ یہ کلمات تسبیح و تحمید ہیں۔ ظاہر ہے توحید انسان کا جو راستہ ہے، وہ صاف کرتی ہے کہ جو اصل چیز ہے، اس کی طرف لے جاتی ہے اور تسبیح و تحمید جو ہے یہ انسان کے کو صاف کرتی ہے۔

روزوں کے معاملہ میں ضروری ہے کہ سالک حج و عاشورہ کا روزہ رکھے اور ہر مہینہ میں جب بھی چاہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے تین روزے رکھے۔ اور اسی طرح شوال کے بھی چھ روزے رکھے۔ صدقہ و خیرات کے ضمن میں سالک کو چاہئے کہ وہ ہر روز اپنے مال سے ایک مسکین کو کھانا کھلائے اور صدقہ فطر اور دوسری ضروری خیراتوں کے علاوہ ہر سال ایک مسکین کو لباس بھی پہنائے۔ اگر سالک قرآن کا حافظ ہے تو ہفتے میں ایک بار اسے قرآن ختم کرنا چاہئے، لیکن اگر اسے اور اوراد و وظائف اور دوسرے باطنی اشغال زیادہ کرنے پڑتے ہوں تو وہ دن میں زیادہ سے زیادہ جتنا بھی قرآن پڑھ سکے، پڑھے۔ اور جو سالک حافظ قرآن نہ ہو، اسے چاہئے کہ ہر روز تقریباً سو آیتیں جو پاؤ پارے یا نصف پارے کے برابر ہوتی ہیں، تلاوت کرے۔

تعلیم و تعلم کے سلسلہ میں سالک کو یہ کرنا چاہئے کہ ہر روز حدیث کے دو تین صفحے پڑھے اور قرآن کے دو رکوعوں کا ترجمہ سنے۔ کھانے پینے کے متعلق اسے چاہئے کہ اگر وہ مزاج کا قوی ہے تو اتنا کھائے کہ اگر وہ اس سے کم کھانے پر رہے، تو اسے ضعف محسوس ہو۔ لیکن اگر وہ مزاج کا ضعیف ہے، تو اس قدر کھائے کہ اسے پیٹ کے تردد سے نجات مل جائے یعنی نہ اتنا ہو کہ اسے بھوک ستائے اور نہ اس قدر کہ وہ سیری محسوس کرے۔

جاگنے کے معاملہ میں سالک کو چاہئے کہ وہ دن رات کے تین حصے کرے۔ ان میں سے دو حصے تو وہ جاگے اور ایک حصہ وہ سوئے۔ اور اس کے جاگنے اور سونے کی ترتیب یہ ہو کہ دوپہر کو تھوڑی دیر استراحت کرے اور پھر چوتھائی رات تک جاگتا رہے۔ اس کے بعد سوئے اور رات کے آخری حصے میں جاگے اور پھر جب صبح کاذب ہو تو تھوڑا سا اونگھ لے۔ اس کے بعد بیدار ہو اور نماز فجر ادا کرے۔ رات کے پہلے حصے میں زیادہ جاگے یا آخرِ رات میں زیادہ جاگے، یہ سالک کے اپنے اختیار میں ہے۔ جیسے اس کے جی میں آئے، کرے۔

عزلت اور گوشہ نشینی کے ضمن میں سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں میں بہت کم بیٹھے، لیکن جماعت کی طرف سے سالک پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، سالک کی طرف سے اس میں کوتاہی نہیں ہونی چاہئے، مثلاً اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیمار کی عیادت اور مصیبت زدہ کی تعزیت کرے۔ عزیز و اقارب کے جو صلہ رحمی کے حقوق ہیں، انہیں بجا لائے۔ مجالس علم میں بیٹھے۔ سالک کو چاہئے کہ اپنی طبیعت کی درشتگی و تنگی کو دور کرنے اور نیز اس طرح کے دوسرے امور کی اصلاح کے لئے تو وہ لوگوں سے ضرور ملے جلے، لیکن اگر یہ مقاصد پیش نظر نہ ہوں، تو اسے لوگوں سے میل جول کم رکھنا چاہئے۔

نیز سالک کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے لباس میں یا اپنے پیشہ میں دوسروں سے ممتاز اور الگ نظر آئے۔ سالک کو چاہئے کہ وہ اپنے بھائیوں اور خاندان والوں کی سی وضع قطع رکھے، چنانچہ اگر وہ علماء کے طبقے میں سے ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ علماء کی روش اختیار کرے، اور اگر وہ اہل حرفہ میں سے ہے تو ان کی وضع پر رہے اور اگر وہ سپاہی ہے تو سپاہیوں کی وضع اختیار کرے۔

مطلب یہ ہے کہ ممتاز بننے کی کوشش نہ کرے۔ اب ذرا دیکھیں! اس مختصر سی تعلیم میں کیا کیا چیزیں سامنے آگئیں۔ نمبر ایک: اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عبادت ہم پر مقرر ہے، اس کو ہم صحیح طریقہ سے کرلیں، اس میں فرائض اور واجبات آگئے اور اس کے بعد پھر سنت مؤکدہ آگئیں اور اس کے بعد پھر مستحبات آگئے۔ مستحب میں وہ مستحبات جو مسنون مستحبات ہیں یعنی جن کا ذکر احادیث شریفہ میں ہے، وہ مستحبات ہیں۔ گویا کہ اتنا تو ہر ایک کرلے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی کرسکتا ہے تو بے شک کرلے۔ ذکر کے بارے میں فرمایا کہ نفی و اثبات کا جو ذکر ہے، یہ تو ہر ایک کے لئے مفید ہے، کیونکہ نقشبندی میں بھی یہ ہے، چشتی میں بھی ہے، قادری میں بھی ہے، سہروردی میں بھی ہے، یہ ذکر جو نفی و اثبات والا ہے یہ تو ہر ایک میں ہے۔ البتہ نفی و اثبات کی جو تیاری ہے، وہ ہر ایک کی اپنی اپنی ہے، لہٰذا جیسے ان کو بتایا جائے اسی طریقہ سے کرلے، لیکن بہرحال نفی و اثبات کرلے۔ اور جو اذکار غذا کے رُخ سے ہیں یعنی روحانی غذا ہیں، ان کو بھی کرے، تاکہ اس سے وہ روحانی غذا حاصل ہو، جیسے ’’سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیْمِ‘‘ ہے، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ‘‘ ہے، تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار ہے۔ اس کے بعد پھر مجاہدات ہیں یعنی وہ مجاہدات جو مسنون ہیں، جیسے روزے۔ تو یہ روزے انسان رکھ سکتا ہے، تو مسنون روزے جیسے ایامِ بیض کے روزے ہیں، اس کے علاوہ شوال کے روزے ہیں اور جیسے ذی الحج کے روزے آنے والے ہیں اور پیر اور جمعرات کا بھی روزہ مسنون ہے۔ تو یہ تو عبادات میں روزوں کے بارے میں ہے، جس میں مجاہدہ بھی ہے۔ اور تیسری چیز یہ ہے کہ حبِ مال کو کم کرنا، جس کا طریقہ یہ بتایا کہ ایک مسکین کو روزانہ اپنے مال سے کھانا کھلائے اور دوسرا جو صدقۂ فطر اور ضروری خیرات ہیں بمع زکوٰۃ کے وہ ہر سال کرلیا کرے اور اس کے علاوہ ایک مسکین کو ایک لباس کا جوڑا بھی پہنایا کرے۔ اس کے بعد قرآن آتا ہے، تو قرآن کا اگر حافظ ہے تو پھر تو چاہئے کہ ایک منزل روز پڑھ لیا کرے تو ہفتے میں ختم ہوجائے گا، کیونکہ سات منزلیں ہیں۔ اور یہ ہمارے حفاظ کرام کا یہی طریقہ تھا۔ اور اگر کچھ بہت زیادہ باطنی اشغال، اوراد و وظائف ہیں تو پھر جتنا قرآن پڑھ سکتا ہے، وہ پڑھ لے، کم از کم سو آیات تو عام لوگ بھی پڑھ لیں۔ اس طرح تعلیم و تعلم کے سلسلہ میں فرمایا کہ احادیث شریفہ کے دو تین صفحے پڑھے اور ان کو سمجھے اور قرآن پاک کے دو رکوعات کا ترجمہ سنے، اس سے علم میں اضافہ ہوگا۔

باقی کھانے کے بارے میں کیا کرے، گویا اب مجاہدات ہیں، تو کھانے کے بارے میں مسنون یہی ہے کہ مسنون کھانے پہ رہے، نہ حرص ہو اور نہ بے نیازی ہو یعنی نہ بالکل پیٹ بھر کر ہو اور نہ خالی پیٹ ہو، بس درمیان درمیان میں رہے، یہ تو اس کا بتایا ہے۔ باقی سونے کے معاملہ میں حضرت کا تو میں پہلے بھی سن چکا تھا کہ تین حصے کرے، ان میں سے دو حصوں میں یہ ہے کہ اگر کوئی کاروبار کرنے والا ہے یا ملازمت ہے، تو آٹھ گھنٹے تو اس کے ہوگئے، آٹھ گھنٹے عبادات کے لئے ہیں اور آٹھ گھنٹے حقِ نفس کے لئے سونا ہے یعنی حقوق العباد، حقوق اللہ اور پھر حق نفس جو سونا ہے۔ اور جاگنے اور سونے کی ترتیب ایسی بتائی کہ دوپہر کو استراحت کرلیا کرے، یہ مسنون ہے اور رات کے جاگنے پہ یہ تقویت پہنچانے والا ہے۔ چوتھائی رات تک جاگتا رہے، اس کے بعد سوئے اور رات کے آخری حصے میں بھی جاگے، گویا کہ اگر یوں سمجھ لے کہ چار حصے رات کے کیے جائیں تو دو حصے سوئے اور دو حصے جاگے، ایک حصہ پہلے جاگے اور دوسرا آخری حصے میں بھی جاگے اور درمیان میں سوئے اور جب انسان رات کو تہجد کے لئے اٹھے اور تہجد پڑھ لے تو اس کے بعد بھی تھوڑی دیر کے لئے سو جایا کرے، یہ بھی مسنون ہے۔ یہ تو ہوگیا سونے کا اور کھانے کا معاملہ۔ اب لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے کا معاملہ ہے، تو اس میں جو گوشہ نشینی ہے، اس میں یہ ہے کہ لوگوں میں بہت کم بیٹھے، البتہ جو ضروری چیزیں ہیں، جس پہ شریعت نے مامور کیا ہے، وہ تو ہم نہ چھوڑیں، لیکن اس کے علاوہ نفس کے لئے ہم لوگوں کے ساتھ نہ ملیں جلیں یعنی گپ شپ کے لئے یا اس قسم کی باتیں جو ہیں، ان کے لئے ہم نہ ملیں، البتہ جن کے ہم مکلف ہیں، مثلاً بیمار کی بیمار پرسی ہے یعنی عیادت ہے یا مصیبت زدہ کی تعزیت ہے، جماعت کی نماز ہے، عزیز و اقارب کے جو صلح رحمی کے حقوق ہیں، ان کو پورا کرنا، علمی مجالس میں بیٹھنا اور اس کے لئے مناسب تفریح بھی اگر ہو تو اس کو بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن اس میں کوئی نفس کو کھلا نہ چھوڑے، بلکہ صرف نفس کا حق ادا کرے۔ اور یہ لباس کے معاملہ میں ممتاز نظر نہ آئے، جیسے ہے اسی طرح نظر آئے یعنی مولوی ہے تو مولویوں کی طرح رہے، اگر کوئی کاروباری ہے یا جیسے عام ملازم پیشہ ہے، تو اس کی طرح رہے اور سپاہی ہے تو سپاہیوں کی طرح رہے یعنی ایک علیحدہ ممتاز رخ نہ اختیار کرلے کہ لوگوں کی انگلیاں اس کی طرف اٹھیں۔ کیونکہ حدیث شریف میں ایسی چیز سے بچنے کی طرف اشارہ ہے۔ تو اس طریقہ سے گویا کہ ہمیں حضرت نے نصیحت کی ہے اور یہ بڑی ہی عمدہ نصیحتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی توفیق عطا فرما دے۔

ذکر کے آداب

سالک جب طاعات اور ذکر و اذکار کے معنوی نتائج کو اپنے اندر قائم و مستقر کرلے تو پھر اسے اوراد کو اوارد سمجھ کر ان کا وظیفہ نہ کرنا چاہئے، بلکہ وہ اس طرح ذکر کرے جس طرح کہ اہل عشق و محبت ذکر کرتے ہیں۔ ذکر کے معاملہ میں سب سے زیادہ خوش نصیب وہ ہے، جو صحیح المزاج ہو اور اس میں جذبۂ عشق و محبت کی شدت ہو۔ لیکن جو شخص طبعاً کاہل ہو یا اس کے مزاج میں فطرتاً کوئی خلل ہو یا اس پر عشق و محبت کا زیادہ اثر نہ ہوتا ہو، تو اسے ذکر و اذکار میں اعلیٰ مقام تک رسائی نصیب نہیں ہوتی۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ لوگوں کو ذکر سے جو فائدہ نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذکر کی نیت نہیں کرتے۔ تو لوگوں نے پوچھا کہ حضرت! ذکر کی نیت کیا ہوتی ہے؟ فرمایا اللہ پاک کی محبت کو حاصل کرنا۔ اکثر لوگ ذکر مزے کے لئے کرتے ہیں کہ ان کو مزہ آئے اور جب مزہ نہیں آتا تو باقاعدہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں ذکر میں مزہ نہیں آتا، کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ اکثر شکایت ہی ہوتی ہے کہ ہمیں ذکر میں مزہ نہیں۔ بھائی! تم مزے کے لئے ذکر کرتے ہو؟ ذکر مزے کے لئے تو نہیں ہے۔ حضرت بہت سخت اس میں نوٹس لیتے تھے یعنی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، فرماتے مزہ تو مذی میں ہے، ذکر اس کے لئے تھوڑی ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ اس چیز کی طرف نہیں جانا چاہئے، مزے کے لئے ذکر نہیں کرنا چاہئے، اپنی اصلاح کے لئے کرنا چاہئے اور سب سے بڑی اصلاح یہ ہے کہ دنیا کی محبت نکل جائے دل سے اور اللہ کی محبت دل میں آجائے، یہ بنیادی بات ہے۔

جمہور اہل طریقت کے نزدیک سب سے افضل ذکر اسم ذات یعنی اللہ اور نفی و اثبات یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا ہے۔ لیکن اس ذکر کے بھی اپنے آداب و شرائط ہیں۔ اگر یہ ذکر ان آداب و شرائط کے ساتھ ہو تو پھر اس سے سالک کو جمعیت خاطر حاصل ہوتی ہے۔ (جمعیت خاطر مطلب focus ہوجاتا ہے یعنی یکسوئی حاصل ہوجاتی ہے) اور اس کے دل کو اِدھر اُدھر کے بیکار خیالات سے نجات مل جاتی ہے۔ اور نیز اس کے اندر عشق و محبت کی گرمی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو سالک کو یہ چاہئے کہ ذکر کے لئے مناسب اور موزوں وقت نکالے۔ ذکر کے وقت نہ تو اس کا پیٹ بھرا ہوا ہونا چاہئے اور نہ ایسا ہو کہ اسے بھوک ستا رہی ہو۔

پیٹ بھرے ہوئے کے ساتھ اگر کوئی ذکر کرتا ہے، تو اس سے کئی قسم کے عوارض لاحق ہوجاتے ہیں اور دل کو بھی مسئلہ ہوسکتا ہے اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں، لہٰذا بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ ذکر کرنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ یہ ہے کہ اتنا خالی پیٹ کے ساتھ بھی نہیں کرنا چاہئے کہ اس کو ذکر میں مشکلات پیدا ہوں۔

اور نہ اسے بول و براز کی ضرورت محسوس ہورہی ہو (یعنی بوجھ پن نہیں ہو) اور نہ ذکر کے وقت وہ غصے میں ہو اور نہ وہ متفکر و مغموم ہو۔ (جس کو کہتے ہیں Balanced condition) الغرض اس طرح کے تمام عوارض سے وہ پاک ہو اور اپنے نفس کی ضرورتوں اور گرد و پیش کی مشغولیتوں سے فراغت پا چکا ہو۔ اس کے بعد سالک کو چاہئے کہ وہ خلوت میں جائے۔

اب میں آپ کو ایک کام کی بات بتا دوں جو اس میں سے نکلی ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگ ذکر کرتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو خوش کریں اور اپنے آپ کو depression سے نکالیں، گویا کہ اپنے آپ کو فضول خیالات سے نکالیں اور جب یہ چیزیں نہیں ہوتیں تو کہتے ہیں کہ ذکر کا فائدہ نہیں ہورہا۔ کہتے ہیں ناں؟ تو حضرت کیا فرما رہے ہیں کہ یہ چیزیں تو آپ نے ویسے ہی کرنی ہیں، ذکر اُس وقت کرنا ہے جب یہ چیزیں نہ ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذکر مخدوم ہے، یہ مخدوم نہیں ہیں۔ اپنے ذکر کو مخدوم بنائیں، اپنی ان چیزوں کو مخدوم نہ بنائیں ذکر کا، آج کل الٹی منطق چل رہی ہے، نتیجتاً بہت نقصان ہورہا ہے، نیت میں فتور آگیا، نیت ہی بدلی ہوئی ہے، ذکر کی نیت ہی خراب ہے۔ تو ذکر کی نیت وہ ہونی چاہئے جو مقصود ہے اور وہ کیا ہے؟ کہ میں باقی چیزوں کو ٹھیک کرلوں ذکر مجھے اللہ کے ساتھ ملا دے۔ اب ذکر تو مجھے اللہ سے ملاتا ہے، لیکن کوئی ایک چیز اِدھر سے کھینچ رہی ہے، دوسری چیز مجھے اِدھر سے، تیسری مجھے اِدھر کھینچ رہی ہے، تو مجھے ان چیزوں سے جان چھڑانی چاہئے، تاکہ میں اللہ کے ساتھ ملوں، پھر ذکر مجھے اللہ کے ساتھ ملائے گا۔ تو ذکر میں جو Driving force ہے، وہ اللہ پاک کی طرف لے جانے کے لئے استعمال ہو، ان چیزوں کے ساتھ الجھنے کے لئے نہ استعمال ہو۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بیماری ہے تو بیماری کا علاج کرنا چاہئے، کھانا نہیں کھایا تو کھا کے سیر ہو کے پھر اس کے بعد جب مناسب حالت ہو، اعتدال والی ہو، اُس وقت کرنا چاہئے، نیند آرہی ہو تو نیند آنے کے وقت میں نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اس وقت کرنا چاہئے جس وقت نیند پوری ہو۔ اب Best time تو ہم دوسری چیزوں کو دیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے بھی اس کی شکایت فرمائی ہے اور وہ شکایت یہ فرمائی ہے کہ درود پاک کو سوار کا پیالہ نہ بنا دو کہ ضرورت پوری ہوئی تو پھر پیچھے لٹکا دیا، بلکہ اس کو محبت اور عشق کا ذریعہ بناؤ۔ تو درود شریف آپ ﷺ کے لئے محبت اور عشق کا ذریعہ ہے اور ذکر اللہ اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کا ذریعہ ہے۔ تو اس طریقہ سے ہمیں ذکر کرنا پڑے گا، پھر ماشاء اللہ! ذکر کا فائدہ ہوگا، پھر جو اس کا اصل فائدہ ہے، اس کی طرف ہم چلے جائیں گے۔

(اس کے بعد سالک کو چاہئے کہ وہ خلوت میں جائے) غسل و وضو کرے، صاف کپڑے پہنے اور پوری طرح صاف و پاک ہو اور پھر اپنے دل کو جوش میں لانے کے لئے ہر ممکن تدبیر کرے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ موت کا تصور کرے۔ عشق و محبت کی کہانیوں کو پڑھے یا وعظ و نصیحت کی باتیں یا دل کش نغمے سنے۔

ہمارے جو کلام ہیں، اس میں کافی ساری چیزیں ہیں اَلْحَمْدُ للہ! اس کو ابھارنے کے لئے۔ یہ شعر جو ہم نے لگایا ہے، یہ کس لئے لگایا ہوا ہے؟ ذکر کے لئے لگایا ہوا ہے کہ جب ہم ذکر کریں، تو اس سے پہلے اس کے اوپر غور کرلیں کہ کیا ہے یہ ؎

سج رہا ہے شاہ خوباں کے لئے دربار دل

یہ سب کچھ کرنے کے بعد جب سالک اپنے دل کو آمادۂ جوش دیکھے تو اس وقت وہ دو رکعت نماز پڑھے۔ اور جیسا کہ نماز میں دو زانوں بیٹھا جاتا ہے ویسے ہی وہ قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھے اور زبان سے کلمۂ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کہے اور وہ اس طرح کہ ’’لَآ‘‘ تو حلق کے نیچے سے شروع کرے اور ’’اِلٰہَ‘‘ کو دماغ میں کہے اور ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ کو اپنی پوری قوت سے اس طرح نکالے کہ اس کی ضرب بڑے زور سے دل پر لگے۔

سبحان اللہ! گویا کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ میں دل و دماغ کو involve کردیا ہے یعنی ’’لَآ‘‘ حلق سے نیچے سے۔ لیکن بہرحال یہ اس وقت کی بات تھی، اب آج کل ہم ذرا تھوڑی سی آسان صورت بتاتے ہیں، چونکہ لوگ اس کو برداشت نہیں کرسکتے، لیکن کوئی کرسکے تو ٹھیک ہے، ظاہر ہے ہم منع بھی نہیں کیا کرتے، لیکن چونکہ آج کل یہ ذرا مشکل ہے، اس وجہ سے آسان صورت بتاتے ہیں۔

’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے ذکر میں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ’’لَآ‘‘ پر جو مد ہے، وہ پوری طرح کھینچی جائے اور ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ پر جو تشدید ہے، اس پر پورا زور پڑے۔ اور نیز جب سالک زبان سے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کہے تو وہ اپنے دل سے غیر اللہ کی محض محبت نہیں، بلکہ غیر اللہ کا سرے سے وجود ہی خارج کردے۔ (’’لَآ مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘) ذکر کرتے وقت سالک کی حالت ایسی ہونی چاہئے، جیسے کہ ایک محبت زدہ شخص ہوتا ہے اور اپنے دل کا راز چھپانے کی بڑی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اس راز کو چھپا نہیں سکتا۔ اب اگر سالک کے اندر وجد و بے خودی کی یہ حالت از خود پیدا نہیں ہوتی تو اسے چاہئے کہ وہ کم سے کم اس وقت تو یہ کیفیت کوشش سے اپنے اوپر ضرور طاری کرلے۔

سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔

وجد میں جاں ہے تو اعضاء رقص میں

دل کی ہر آواز ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ ہے۔

بہرحال ذکر کے لئے ضروری ہے کہ ذاکر جب ذکر کرنے لگے تو وہ وجد و بے خودی کی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہو۔ اور ذکر کرتے کرتے جب سالک اپنے دل میں زیادہ جوش و گرمی محسوس کرے تو اسی کے مطابق وہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کو اور زور سے کہے۔ اور جوں جوں اس کے وجد میں حدت پیدا ہوتی جائے، اسی حساب سے وہ ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کو زیادہ بلند اور مسلسل کرتا جائے اور ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ کی ضربوں میں زیادہ زور پیدا کرے۔

ضربوں کا پتا چل گیا؟ پتا نہیں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نقشبندی نہیں ہوں گے؟ آج کل نقشبندی ایسے ذکرِ جہری پر بہت زیادہ (حیران) ہوتے ہیں، حالانکہ دیکھیں! یہ سامنے لکھا ہوا ہے۔

الغرض اگر سالک مزاج کا کامل اور عشق و محبت کی صلاحیت رکھتا ہوگا اور وہ ان آداب و شرائط کے ساتھ ایک دو گھڑی ذکر کرے گا تو یقیناً اسے پورا اطمینانِ خاطر نصیب ہوجائے گا اور اس کے دماغ کو پراگندہ خیالات سے نجات مل جائے گی اور شوق و محبت کی بے قراری اور گرمی بھی اسے ضرور حاصل ہوجائے گی۔

اب اس سے پتا چل گیا کہ جو لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے دل میں وساوس اور خیالات آتے ہیں اور یہ ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے، تو انہوں نے پوری تیاری نہیں کی ہوتی، بغیر تیاری کے بس ٹھیک ہے جی، وہ سارے کاموں سے فارغ ہوجائیں، تھک جائیں، پھر ذکر کے لئے بیٹھ جاتے ہیں، پھر کہتے ہیں ذکر ہمیں ٹھیک کرلے، ذرا تھوڑا سا سکون پہنچائے، راحت مل جائے، اچھی طرح نیند آجائے۔ تو ذکر کو کس چیز کا خادم بنایا ہے؟ اپنے نفسانی اعراض کا خادم بنایا ہے۔ تو ذکر سے فائدہ ہوگا؟ مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ذکر ہم نے کیا ہے تو مجھے بہت سکون محسوس ہوا، تو بجائے خوش ہونے کے مجھے پریشانی ہوجاتی ہے کہ ان کی تو نیت میں ہی فساد ہے، کیا کروں ان کے ساتھ۔ یعنی پہلے سے ہی ان کی نیت ہی گڑبڑ ہے، وہ اس سے سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں، اگر سکون حاصل نہ ہو تو ذکر کو چھوڑ دیتے ہیں۔ دو سال کے بعد پھر ٹیلی فون کرتے ہیں جی! وہ ذکر چھوڑا ہوا تھا، اب کیا کروں؟ اُدھر سے شروع کروں؟ کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ ابتدا میں تو جو جوش و جذبہ ہوتا ہے، تو آدمی سمجھتا ہے کہ بس ٹھیک ہے جی فائدہ ہورہا ہے اور جب علاج شروع ہوجاتا ہے پھر چھوڑ دیتے ہیں۔

جب ذکر کے دوران میں سالک میں یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنی پوری کیفیت کو برابر نگاہ میں رکھے اور اسے اپنی نظر بصیرت سے اوجھل نہ ہونے دے۔ سالک کو چاہئے کہ وہ اس کیفیت کو اچھی طرح سے جان لے اور اس کو خوب سمجھ لے اور جہاں تک ممکن ہو اپنی اس کیفیت کی حفاظت کرے اور اگر کبھی اسے محسوس ہو کہ اس کی یہ کیفیت اس کے اندر مفقود ہورہی ہے یا کمزور پڑ رہی ہے تو وہ اس کیفیت کو بڑھانے کی مزید کوشش کرے، جو شخص کہ صحیح الفہم اور مزاج کا کامل ہوگا وہ تو ذکر کی ایک ہی مجلس میں اس کیفیت کو سمجھ جائے گا، لیکن اگر کوئی شخص طبیعت کا سخت ہو اور پہلوانوں کے سے قویٰ رکھتا ہو تو مرشد کو چاہئے کہ اسے تین روزے رکھوائے (تیاری کروائے) اور روزوں کے دوران میں اسے کھانے کو کم دیا جائے۔ (یہ مجاہدہ ہے، یہ زبردست نقشبندی ہیں) اسی طرح اگر وہ چند بار عمل کرے گا تو امید ہے کہ اسے ذکر میں یہ کیفیت ضرور حاصل ہوجائے گی اور وہ اس کیفیت کو خوب سمجھ لے گا۔ اور اسے اچھی طرح جان بھی لے گا، لیکن فرض کیا اگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی یہ کیفیت اسے حاصل نہ ہو تو ایسے شخص کو معذور سمجھ کر اسے اوراد و وظائف میں لگا دینا چاہئے۔

یعنی He is not fit for that process۔ پھر اس کو دوسرے کاموں میں لگا دیا جائے، declare کردے، مطلب اگر کوئی اس کے لئے صحیح تیاری نہیں کر پا سکتا، تو پھر ٹھیک ہے، بس دوسرے کاموں میں لگانا چاہئے، تو یہ والی بات ہے۔ ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ان کے پاس ایک دن آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ کا خلیفہ آیا، ظاہر ہے وہ بھی نقشبندی سلسلہ کے خلیفہ تھے، لیکن اس نے کہا کہ حضرت! ایک حال ہے، اس سے میں نکل نہیں رہا ہوں، تو حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو مجاہدہ پہ لگا دیا، جب ان کا مجاہدہ مکمل ہوگیا تو حال بدل گیا، ٹھیک ہوگیا اور پھر ماشاء اللہ! کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہی خلیفہ بن گیا، کافی ما شاء اللہ۔ ان کا نام اس میں ہے، مجھے بھول گیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں ہیں کچھ، جیسے انہوں نے کہا کہ روزے رکھوائے۔ تو اس کا مطلب درمیان میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ gape بن جاتی ہیں، جس کی وجہ سے پھر اُن کو پاٹنا ہوتا ہے، اس کے لئے کچھ مجاہدات کرنے ہوتے ہیں، یعنی Subject to condition مجاہدات ہوتے ہیں، اگر مجاہدات سے بھی سیدھا نہ ہو تو پھر ٹھیک ہے، اس کا مطلب ہے کہ اس کے لئے fit ہی نہیں ہے۔

اس ضمن میں تین باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ جمہور اہل طریقت ذکر میں سر پھرانے، قلب پر ضربیں لگانے اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ میں مد اور شد کی رعایت کرنے پر متفق ہیں۔

جمہور اہلِ طریقت ذکر میں سر پھرانے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘۔ قلب پر ضربیں لگانے اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ میں مد اور شد کی رعایت کرنے پر متفق ہیں۔

ذکر میں ان چیزوں کی ضرورت اس لئے پڑی کہ اس طرح ذکر کرنے سے سالک کو جمعیتِ خاطر حاصل ہوتی ہے اور اس کے دماغ سے پراگندہ خیالات دور ہوجاتے ہیں اور نیز محبت و شوق کے جذبات اس کے دل میں بیدار ہوجاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سلسلہ نقشبندیہ کے بعض پیرو یہ کہتے ہیں کہ خواجہ نقشبند نے بلند آواز سے ذکر کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ یہ چیز تو اپنی جگہ ٹھیک ہے، لیکن کیا یہ واقعہ نہیں کہ خواجہ نقشبند سے پہلے اس سلسلہ کے سب بزرگ ذکر جہر اور ذکر خفی دونوں کرتے تھے۔ (دیکھو! حضرت نے بھی اس پہ یہ فرمایا) بلکہ سچ پوچھئے تو ان بزرگوں پر ذکر خفی سے زیادہ ذکر جہر غالب تھا اور خاص طور پر پیر اور جمعرات کے دن تو یہ بزرگ پوری دلجمی سے ذکر جہر کیا کرتے تھے۔ جب صورتحال یہ ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ نقشبند نے ذکرِ جہر کی کیوں ممانعت فرمائی ہے۔ سو اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ ذکرِ جہر حنفی مذہب میں مکروہ ہے اس لئے خواجہ نقشبند نے ذکرِ جہر کے مقابلے میں ذکرِ خفی کو زیادہ مناسب اور بہتر سمجھا اور آپ نے اسی کو اختیار کیا۔ اس کے علاوہ خواجہ نقشبند کی صحبت میں غیر معمولی تاثیر و برکت تھی۔ اس لئے انہیں ذکرِ جہر کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بعض حالات اور بعض اشخاص میں جذب و بے خودی کی کیفیت ذکرِ جہر کے بغیر پیدا نہیں ہوتی یہ جاننے کے باوجود پھر بھی جو شخص ذکر جہر سے کلیتاً انکار کرتا ہے تو یہ محض اس کی ہٹ دھرمی ہے۔

بات صاف ہوگئی ناں، اس کے باوجود بھی اگر کوئی انکار کرتا ہے اور کلیتاً انکار کرتا ہے کہ نہیں بھئی نہیں ہونا چاہئے، تو پھر یہ ہٹ دھرمی ہے، مقصودی بات نہیں ہے، بلکہ دل کی گڑبڑ کی بات ہے، کوئی نفس کی خواہشات درمیان آگئی ہیں کہ میں بڑا اچھا ہوں، فلاں یہ سلسلہ اچھا ہے، دوسرا اچھا نہیں ہے، تو ضد پہ آگیا ہے، تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ایک Subject to condition والی بات ہے کہ بعض لوگوں کی طبیعت اتنی نرم ہوتی ہے کہ اس کو خفی ذکر ہی زیادہ suit کرتا ہے، وہ نرم نرم طریقہ سے چلتا ہے، جس کو کہتے ہیں کہ وہ نفیس لوگ ہوتے ہیں، تو ایسے نفیس لوگوں کو ضرب و جہر پہ کیوں لگاتے ہو؟ ان کو جو مقصد اس طرح نرم ذکر سے حاصل ہوجاتا ہے، تو آپ کیوں خواہ مخواہ اس کو سخت پہ لگاتے ہیں۔ تو وہاں اگر کوئی خواہ مخواہ سختی پر مجبور کرنے والا ہو، تو ان کو بھی ہم روک لیں گے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ البتہ یہ بات ہے کہ جب اس طرح پہلوانوں والی طبیعت ہو اور دنیا میں پھنسے ہوئے لوگ اس طرح نرمی نرمی سے نہیں نکل سکتے، ان کے لئے تو کچھ مجاہدات کی بات ہوتی ہے، کچھ ضرب و جہر کی بات ہوتی ہے، کچھ اشغال کی بات ہوتی ہے، بعض دفعہ اشغال کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ تو یہ سارے Subject to condition ہیں، بوجہ ضرورت ہیں، مقصودی نہیں ہیں، ذریعے ہیں۔ تو ایسی صورت میں اگر اس کے ذریعہ ہونے کا بھی کوئی اقرار نہیں کرے تو حضرت فرماتے ہیں یہ کیا ہے، یہ ہٹ دھرمی ہے۔

اس ضمن میں تیسری بات یہ ہے کہ شارع علیہ الصلوۃ و السلام نے اس سلسلہ میں جس بات کا حکم دیا ہے اور مسلمانوں کی جس امر کی ترغیب دلائی ہے وہ دو چیزوں پر مشتمل ہے۔ ایک ذکر اور دوسرے فکر۔ ذکر سے مراد ذکر زبانی ہے خواہ وہ بلند آواز سے ہو یا خفی ہو، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔ ذکرِ جہر اور ذکرِ خفی دونوں کا تعلق زبان سے ہے، لیکن چونکہ زبان کے اس ذکر سے براہِ راست فکر تک پہنچنا دشوار ہے، اس لئے مشائخ تصوف نے ذکر زبانی اور فکر کے درمیان ذکر قلبی کو ایک واسطہ مانا ہے۔ ذکرِ قلبی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ایک رخ تو زبان کی طرف ہوتا ہے اور اس کا دوسرا رخ دماغ کی طرف۔ الغرض ذکر قلبی کی حیثیت ذکر زبانی اور فکر کے درمیان ایک برزخ کی ہے۔ بیشک شارع علیہ الصلوۃ و السلام نے ذکر زبانی اور فکر کی تو تلقین فرمائی، لیکن ذکر قلبی آپ سے مروی نہیں ہے۔

سبحان اللہ! نقشبندی سلسلہ کی مجدد ہیں اپنے دور کے، انہوں نے بالکل (صاف فرما دیا) اب لینے کے دینے ان کو پڑ گئے۔ تو قلبی ذکر آپ ﷺ سے مروی نہیں ہے۔

بہرحال ذکر قلبی کا جواز رسول اللہ ﷺ کی اس مشہور حدیث کی تحت میں آجاتا ہے، جس کو امام محمد نے موطا امام مالک کی روایت میں نقل کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ’’مَارَاہُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَسَناً فَھُوَ عِنْدَ اللہِ حَسَنٌ‘‘ جس چیز کو مومنوں نے اچھا سمجھا، وہ چیز اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔

سبحان اللہ! تو یہ تو سب کے لئے ہوسکتا ہے، جس ذریعہ سے یہ چیز صحیح ثابت ہوسکتی ہے، تو یہ دلیل تو سب کے لئے دی جاسکتی ہے، یہ تو کوئی specific نہیں ہے کہ خواہ مخواہ ایک چیز کے لئے ہم اس کو استعمال کریں۔ تو اس سے پتا چلا کہ حضرت نے ما شاء اللہ (اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے) اپنی مجددانہ بصیرت سے، اپنے ہی دور میں ان چیزوں کا اندازہ لگایا تھا کہ لوگ کس طرف جارہے ہیں اور کچھ باتیں اور کچھ deviation start ہوگیا ہے۔ لہٰذا حضرت نے اس سلسلہ میں کچھ special احکامات دینا شروع کرلئے۔

اب اس کے بعد مراقبہ اور اس کے احکام ہیں۔

ذکر کے بارے میں حضرت نے بات چیت جو ارشاد فرمائی ہے کہ ذکر کے آداب کیا ہیں۔ اس میں ایک بات یہ بھی بتائی گئی ہے کہ وجد اور شوق کی کیفیت حاصل کرنے کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے اور اس ضمن میں بات آگے آئی ہے یعنی مختلف طریقے اذکار کے بتائے گئے ہیں۔

سالک کو جب وجد و شوق کی کیفیت حاصل ہوجائے تو اسے چاہئے کہ لوگوں سے بات چیت کم کردے اور دنیا کے کاروبار سے کنارہ کش ہوجائے اور نیز جسمانی لذتوں اور اس طرح کی دوسری باتوں کو ترک کردے اور اس طرح وجد و شوق کی کیفیت کو اپنے اندر راسخ اور مستحکم کرے، تاکہ اس کی یہ کیفیت اس کے لئے کوئی ڈھکی چھپی چیز نہ رہے، بلکہ یہ بالکل واضح اور نمایاں ہوجائے۔ جب سالک راہ طریقت میں اس مقام پر پہنچ جائے تو پھر اس کو مراقبہ کرنا چاہئے۔

مطلب یہ ہے کہ یہ چونکہ روحانیت کے لئے سارا کچھ کیا جارہا ہے، اس وجہ سے روحانیت کے لئے جسمانیت کی چیزوں کو جتنا ہوسکتا ہے کم کرنا پڑتا ہے، تاکہ اس پر جسمانیت کا اثر کم سے کم ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ روح کو جسم نے باندھا ہے اور اس کو آگے نہیں جانے دے رہا۔ اس وجہ سے اگر آپ روحانیت کے کام کررہے ہیں تو جسمانیت کی چیزوں کو کم کرنا پڑے گا، تب روحانیت میں رسوخ حاصل ہوگا، جیسے میں اکثر مثال دیا کرتا ہوں کہ ایک غبارہ ہے، جس میں hydrogen گیس بھری ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا پتھر بندھا ہوا ہے، تو اگر غبارے کی اڑان کی قوت، یعنی جتنا وہ اڑ سکتا ہے، اس پتھر کے وزن سے زیادہ ہو تو یہ غبارہ اوپر جائے گا اور اگر پتھر کا وزن اس غبارہ کی اڑان کی قوت سے زیادہ ہو تو غبارہ نیچے آئے گا، اڑ نہیں سکے گا، برابر ہوگا تو اپنی جگہ پہ کھڑا ہوجائے گا۔ تو اسی طرح روحانیت کو ہم اس غبارے کی اڑان کی قوت اگر قرار دیں اور پتھر کا جو وزن ہے، اس کو ہم نفس کا ثقل قرار دیں یعنی نفسانی جو خواہشات ہیں، جو انسان کو نیچے کی طرف لے جاتی ہیں، نفس امارہ ہے، تو وہ نفس کی جو خواہشات ہیں، وہ نیچے جو لا رہی ہیں، تو اب دو ہی چیزیں ہیں یا تو آپ اپنے غبارے کی اڑان کی قوت کو بڑھا دیں، یعنی بہت زیادہ hydrogen گیس اس میں بھر دیں، تو تب بھی غبارہ اوپر اڑے گا، اگرچہ پتھر کا وزن اپنی جگہ پر ہو، یا پھر یہ ہے کہ پتھر کے وزن کو کم کرلیں تو غبارہ اوپر اڑے گا اور اگر دونوں کرلئے تو سبحان اللہ! پھر تو بڑی اچھی بات ہوجائے گی۔ تو یہاں جو بات ہوئی اس میں دونوں کیے جارہے ہیں، گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ روحانیت کو اگر بڑھایا جارہا ہے تو ساتھ ساتھ جسمانیت کو کم کیا جارہا ہے، جسمانی تقاضوں کو دبایا جائے گا۔ جس وقت یہ کیفیت حاصل ہوجائے تو اب روحانی اڑان ہوگی، کیونکہ مراقبہ روحانی اڑان ہے، مراقبہ کیا ہے؟ روحانی اڑان ہے۔ تو اب مراقبہ کے لئے انسان تیار ہوگیا، ایسی صورت میں اب اس کو مراقبہ کرنا چاہئے۔

مراقبہ اور اس کے احکام ہیں

مراقبے سے بحیثیت مجموعی مراد یہ ہے کہ سالک اپنی قوت ادراک کو پوری طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کے تصور میں لگا دے یا وہ نزع کی اس حالت کا دھیان کرے جب روح بدن کو چھوڑتی ہے۔

دیکھیں ناں! بات وہی ہے یعنی یا تو اللہ جل شانہٗ کی صفات کے ساتھ اپنے آپ کو متعلق کردے، جو ان تمام چیزوں سے بالا ہے، تو ایک بالائی قوت کے ساتھ آپ کا تعلق ہوجائے گا۔ اور یا پھر یہ ہے کہ جس وقت وہ انسان ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ والی حالت کہ جو نزع کی حالت ہے، تو نزع کی حالت میں روح آزاد ہوگی، تو اِس وقت اُس کا دھیان اگر کرلے تو تب بھی یہ بات حاصل ہوگی۔

یا اس طرح کی کسی اور کیفیت پر سالک اپنی توجہات کو یوں مبذول کردے کہ اس کی عقل اس کے وہم و خیال کی قوت اور اس کے تمام کے تمام حواس "توجہ" کے تابع ہوجائیں اور سالک پر ایسی کیفیت طاری ہوجائے کہ جو چیزیں محسوسات میں سے نہیں ہیں، وہ اس کو محسوس نظر آئیں۔ مراقبے کے معاملہ میں سب سے خوش نصیب وہ شخص ہے جس کو قدرت کی طرف سے غیر محسوس چیزوں پر توجہ کرنے کی طبعاً زیادہ استعداد ودیعت ہوئی ہو۔ چنانچہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگوں پر قوت خیال غالب ہوتی ہے اور وہ خیال کو اپنے سامنے اس طرح محسوس دیکھتے ہیں کہ اس کی طرف وہ ہاتھ سے اشارہ کرتے ہیں، بلکہ بعض تو زبان سے اس سلسلہ میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ لوگ انہیں پاگل کہنے لگتے ہیں۔

مراقبے کی بہت سی قسمیں ہیں اور ان کا ذکر ہم دوسری جگہ پر کر آئے ہیں یہاں ہم اس ضمن میں صرف انہیں چیزوں کا ذکر کرتے ہیں، جن کا علم ہمیں الہام کے ذریعہ عطا ہوا ہے۔ مراقبے میں سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ آدمی کو ماسوی اللہ سے کلیتاً فراغت حاصل ہوچکی ہو۔ (وہی والی بات ہے مطلب وہی میدان کارزار جو ہے، ان میں سے کسی اور چیز کے ساتھ دل نہ لگا ہو۔) اور فراغت حاصل کرنے کا طریقہ ہم پہلے بتا آئے ہیں۔ (وہی ذکر و اذکار کا جو طریقہ ابھی گزرا ہے۔) اس کے بعد سالک کو چاہئے کہ وہ اس خیال کو اپنا نصب العین بنائے اور اسی طرف اپنی پوری توجہ مبذول کردے کہ حق سبحانہٗ اس کو اور اس کے علاوہ تمام کی تمام چیزوں کو نیچے سے اوپر، دائیں سے بائیں سے، اور اندر سے اور باہر سے الغرض ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اور گو حق سبحانہٗ ہر جہت سے پاک اور منزہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود سالک کو چاہئے کہ وہ اس ذات اقدس کو مراقبے میں اپنے سامنے یوں دیکھے جیسا کہ فضا میں ہوا جاری و ساری نظر آتی ہے یا جس طرح گارے میں پانی رواں دواں ہوتا ہے، غرضیکہ ذات باری کی ہمہ گیری کو وہ چشمِ بصیرت کے سامنے اس طرح متشکل کرے کہ اس کو ہر طرف حق سبحانہٗ ہی کا نور جلوہ گر نظر آئے اور وہ پوری دل جمعی سے اس بات پر یقین کرے کہ کون و مکان میں نور الہیٰ کی یہ جلوہ گری میرے فکر و مجاہدہ کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ نور از خود بغیر میری کسی سعی و کوشش سے جلوہ فگن ہے۔

مراقبے میں حق سبحانہٗ کے نور کو اس طرح جلوہ گر دیکھنا ہی مراقبے کا اصل مقصود ہے۔

اب اگر آپ تھوڑا سا اس میں یہ تصور کریں: ﴿اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِؕ﴾ (النور: 35) اگر یہ کر لیں تو ظاہر ہے تمام سماوات و ارض کو اس نے منور کردیا ناں، تو یہ اسی کا مراقبہ ہوجائے گا ﴿اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِؕ﴾۔

مراقبے میں حق سبحانہٗ کے نور کو اس طرح جلوہ گر دیکھنا ہی مراقبے کا اصل مقصود ہے۔ اب یہ سالک کی اپنی استعداد پر منحصر ہے کہ وہ اس کیفیت کو چھ ماہ میں حاصل کرے یا تین ماہ میں۔ یا اس کے حصول میں اسے صرف ایک ہفتہ لگے۔ مرشد کو چاہئے کہ جب سالک حق سبحانہٗ کے نور کو اس طرح محسوس طور پر دیکھنے لگے تو وہ "نسبت بیرنگی" کی طرف اس کی رہنمائی کرے۔

بے رنگ بھی نہیں ہے۔ بے رنگ بھی نہیں ہے یہ تو میری سوچ ہے۔ مطلب اللہ تعالیٰ کی ہر چیز اس طرح جاری و ساری ہے، لیکن یہ نور والی جو چیز ہے، یہ چیزیں تو منور کردیتا ہے، لیکن اللہ پاک خود تو ان چیزوں سے پاک ہے۔

اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ مرشد سالک کو اس امر کی تلقین کرے کہ وہ حق سبحانہٗ کے نور کے اس محسوس تصور میں سے اشیاء کے وجود کو جن کو یہ نور گھیرے ہوئے ہے خارج کرکے اور جہات کے خیال کو ذہن میں کلیتاً نکال کے حق سبحانہٗ کے نور کو اشیاء و جہات سے بالکل پاک و منزہ دیکھے۔ اس طرح اگر وہ تھوڑی سے کوشش کرے گا تو اس کو "نسبت بیرنگی" حاصل ہوجائے گی۔ الغرض "نور محسوس" کا تصور مراقبے کا پہلا قدم ہے اور یہ "نسبت بے رنگی" کا مقام اس کا دوسرا قدم۔

مشائخِ تصوف کے ہاں بہت سے مراقبے مروج ہیں، بعض مراقبے دل کو ادھر ادھر کے خیالات سے فارغ کرکے پورے اطمینان کے ساتھ ذات واحد کی طرف متوجہ کرنے کے لئے استنباط کیے گئے ہیں۔ اس قسم کے مراقبوں کے لئے ناک پر نظر جمائے رکھنے کی مشق کی جاتی ہے (یہ اصل میں اشغال ہیں) اور بعض مراقبے نفس کی خواہشات کو دبانے اور اسے اس قابل بنانے کے لئے کیے جاتے ہیں کہ وہ ذات مجرد کی طرف پوری طرح متوجہ ہوسکے۔

یعنی گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ focus کرنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے مراقبہ میں اور نفس کی خواہشات کو دبانے کی بھی تربیت دی جاتی ہے کہ نفس کی خواہشات سے انسان کیسے detach ہوتا ہے۔

اس قسم کے مراقبوں کے لئے آفتاب کو مسلسل دیکھنے یا خلا کی طرف نظر جمانے کی مشق کی جاتی ہے اور بعض مراقبوں سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ نفس درجہ بدرجہ اپنے اندر اتنی استعداد پیدا کرلے کہ وہ تصورات کو اپنے ذہن میں متشکل دیکھ سکے۔ اس غرض کے لئے اللہ کا نام کاغذ پر لکھ کر اس کو برابر دیکھنے کی مشق کی جاتی ہے۔

اور دل کا تصور حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ دل کی شکل بنا کر اس کے اوپر ’’اللہ‘‘ سنہری حروف سے لکھ کر اس کی طرف دیکھا جاتا ہے اور پھر محسوس کیا جاتا ہے کہ میرے دل کے اوپر ایسے لکھا ہوا ہے اور پھر وہ ایسا نظر بھی آتا ہے، تو یہ بھی ایک مشق ہے۔

اسی طرح بعض اور مراقبے ہیں جن میں ذات حق کی طرف توجہ کرنے کے طریقے متعین کیے گئے ہیں۔ مشائخ نے اس توجہ کی دو قسمیں کی ہیں، ایک توجہ اسم کی طرف اور دوسرے یہ کہ مسمی کی طرف توجہ کی جائے (نام کا تصور، پھر نام والے کا تصور) توجہ بہ اسم کی مثال نبض کی حرکت کی سی ہے کہ اس کی رفتار مسلسل نہیں ہوتی، بلکہ آہرن پر ہتھوڑے کی چوٹوں کی طرح اس کی حرکت الگ الگ ہوتی ہے اور توجہ بہ مسمی کو یوں سمجھئے کہ سالک کا خیال دور دراز پہنائیوں کی جاکر خبر لائے۔

مطلب یہ ہے کہ جیسے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہم کرتے ہیں تو اسم کے لئے تو بالکل نبض کی طرح ہوتا ہے، جیسے حرکت ہورہی ہے اور مسمیٰ تو ظاہر ہے وہ جیسے وراء الوراء ذات ہے، تو اس کی طرف توجہ جو ہے ایک وراء الوراء ذات کی طرف توجہ ہے۔

گویا کہ وہ ایک دھاگا ہے کہ اسے جتنا بھی کھینچے برابر کھنچتا چلا جاتا ہے یا اس کی مثال ایک ایسی آواز کی ہے جو برابر آرہی ہے اور کان قوت سماعت سے کام لئے بغیر اس آواز کا تصور کررہا ہے۔

مراقبے سے سالک کے اندر جب یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو اس وقت اسے وہ مقام حاصل ہوجاتا ہے، جس کو لطائف کی زبان کھل جانے کا مقام کہتے ہیں۔ یعنی دل و دماغ اور انسان کی دوسری استعدادوں کو گویا کہ قوت گویائی مل جاتی ہے۔ اس ضمن میں بعض مشائخ مراقبوں میں سالک کو کسی ایک نسبت کو ملحوظ نظر رکھنے کی تلقین کرتے ہیں مثلاً وہ اسے ’’اَنْتَ فَوْقِیْ اَنْتَ تَحْتِیْ‘‘ کا ذکر کرنے کو کہتے ہیں۔ (یعنی تو میرے اوپر) اس سے سالک کے لئے نسبت توحید کی راہ نزدیک ہوجاتی ہے۔ الغرض یہ میدان بڑا وسیع ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے ذوق اور ادراک کے مطابق مختلف قسم کے مراقبے تجویز کیے ہیں۔

’’وَلِلنَّاسِ فِیْمَا یَعْشِقُوْنَ مَذَاھِبُ‘‘

لیکن اس ضمن میں فقیر پر یہ حقیقت ظاہر کی گئی ہے کہ ذکر و اذکار اور مراقبہ و مجاہدہ کے معاملہ میں حق سبحانہٗ کو مطلوب یہ ہے کہ اذکار میں سے وہ ذکر کیا جائے، جس کی شریعت نے اجازت دی ہے اور مراقبہ ایسا ہو کہ سالک کی توجہ فوراً ذات باری کی طرف مبذول ہوجائے۔ مراقبے کے سلسلے میں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ سالک اس کی تمہیدی مشقوں میں ہی پھنس کر رہ جائے، کیونکہ اگر وہ اس حالت میں مر جائے گا تو اسے آخرت میں حسرت اور رنج ہوگا۔ مثلاً اگر سالک مراقبے کی تمہیدی مشقیں کررہا ہو یعنی وہ مسلسل آواز سننے میں مصروف ہو یا خلا کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کی مشق میں لگا ہوا ہو یا وہ آفتاب کی طرف دیکھنے یا ناک پر نظر جمانے کی مشق کررہا ہو اور اس کو موت آجائے تو اندازہ لگایئے کہ آخرت میں اسے اپنی اس محرومی کا کتنا صدمہ ہوگا۔

مطلب یہ ہے کہ دیکھو! ایک ہے مراقبات کی تیاری کا اور ایک ہے مراقبہ کا اور ایک ہے مراقبہ کے مقصود کا، تو ہم نے نہ تو مراقبہ کی تیاری میں پھنسنا ہے، نہ محض مراقبہ میں پھنسنا ہے، بلکہ ہمیں سیدھا اپنے مقصود کی طرف جانا ہے۔ باقی چیزوں میں بضرورت ہی وقت لگانا ہے اور اصل مقصود کی طرف بڑھ جانا ہے۔ جتنی باتیں بھی حضرت نے بتائی ہیں، یہ حضرت کے اپنے وقت کی باتیں ہیں، اس وجہ سے ہم نہ ان کی تردید کرتے ہیں اور نہ ہم اس کو اس طریقہ سے اپناتے ہیں، لیکن اس سے کم از کم یہ پتا چل سکتا ہے اور پتا چل گیا کہ اس قسم کی چیزیں مشقوں میں آسکتی ہیں، ضروری نہیں کہ یہی مشقیں ہوں، جیسے انہوں نے خود کہا ’’وَلِلنَّاسِ فِیْمَا یَعْشِقُوْنَ مَذَاھِبُ‘‘ والی بات ہے، لیکن یہ بات ہے کہ کم از کم ہم نے ایک بات سمجھ لی کہ اس قسم کی چیزیں بھی ہوتی ہیں، جو مقصود کو حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ میں نے آپ کو ایک چیز (میرے خیال میں) پہلے بتائی تھی، جو پہلے بیانات سنتے آرہے ہوں ان کو یاد ہوگا کہ MBBS جو ڈاکٹری ہے، اس میں بنیادی مضامین جو ہیں، وہ کیا ہیں؟ وہ میڈیسن اور سرجری ہے، پھر اس کے بعد اس کی specializations ہیں اور یہ آخری سال میں پڑھائے جاتے ہیں اور پہلے چار سال ساری کی ساری اس کی تیاری کے ہیں یعنی پہلے جب جاتے ہیں تو ان کو Bio-chemistry اور اس طرح اور اس قسم کی جو چیزیں ہوتی ہیں، وہ پڑھائی جاتی ہیں، hygiene پڑھائی جاتی ہے، اس طرح جو مختلف مضامین ہیں Physiology اور hygiene تو یہ چیزیں پڑھائی جاتی ہیں، اس کے بعد پھر اور بہت ساری چیزیں پڑھائی جاتی ہیں، جو بنیادی کام کرتے ہیں Pharmacology, Normal Pathology, Anotomy یعنی یہ ساری چیزیں پڑھائی جاتی ہیں، لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی ڈاکٹری نہیں ہے، یہ ڈاکٹری کی تیاری ہے یعنی بعد میں جب ان کو سرجری میں وہ چیزیں پڑھائی جائیں گی تو ان میں جب ان کا ذکر آئے گا تو وہ تو ذرائع ہیں ان کے، تو کم از کم وہ سمجھتا تو ہو کہ میں کیا کررہا ہوں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دوائیوں کے ساتھ ایک literature ہوتا ہے، وہ اندر پڑا ہوتا ہے، اب پڑا تو یقیناً ہے، ہر ایک پڑھ سکتا ہے، لیکن کیا اس کو ہر ایک سمجھتا ہے؟ یہ ڈاکٹروں کے لئے پڑا ہوتا ہے، کیونکہ ڈاکٹر اس کی بنیادی تمام چیزیں جانتے ہیں کہ کون سی چیز کیا ہے، جیسے microorganism، آپ کو کیا پتا microorganism کیا چیز ہے؟ Positive microorganism, Negative microorganism اس میں لکھا ہے کہ اس میں یہ یہ چیزیں، یہ چیزیں ہیں، یہ اس طرح ہیں اور یہ اس طرح ہے۔ اب آپ کے لئے صرف انگریزی ہے، لیکن اُن کے لئے باقاعدہ علم ہے، ڈاکٹر کے لئے باقاعدہ علم ہے آپ کے لئے محض انگریزی ہے۔ تو اب یہ ہے کہ آپ اس چیز کو اگر دیکھیں تو آپ کیا اس کے بغیر اُدھر جاسکتے ہیں میڈیسن اور سرجری میں؟ کیا اس میں ہمیشہ رہ سکتے ہیں؟ نہ اس میں ہمیشہ رہنا اچھا ہے اور نہ آپ براہِ راست بغیر اس کے جاسکتے ہیں۔ تو جتنی اس کی افادیت اِدھر ہے، اسی طرح ان چیزوں کی افادیت اُدھر ہے۔ یہ بات حضرت نے اس لئے بیان فرمائی ہے کہ بعض لوگ واقعی ان چیزوں میں پھنس جاتے ہیں۔ فلسفیانہ بحثوں میں لوگ پھنس جاتے ہیں، حالانکہ وہ صرف ایک ذریعہ ہے، منطق مقصود نہیں ہے، ایک ذریعہ ہے آپ لوگوں کے لئے۔ آپ منطقی بحثوں میں ہی لگ جائیں، آگے جاکر جن چیزوں کے لئے اس کو استعمال کرنا ہے، اس کی باری نہ آئے تو کیا خیال ہے، کتنا کمایا؟ یعنی ان کو معقولات کہتے ہیں، تو ان معقولات سے منقولات کی طرف جانا ہوتا ہے، تو جو معقولات میں پھنس گیا اس کو معقولی کہتے ہیں، پھر وہ معقولی ہی رہے گا، ان کے اندر کچھ خاص قسم کی کمیاں ہوتی ہیں جو پائی جاتی ہیں، دینیات سے کمزوری جن میں ہو، ان میں وہ کمی پائی جاتی ہے، جس کا پتا بھی چلتا ہے، لیکن اس کو آپ بیکار بھی تو نہیں کہہ سکتے۔ اب جو شخص ان معقولات میں بہت بڑا مقام طے کرچکا ہے، جو منقولات کی طرف جانے والا ہے، ان چیزوں کو استعمال کرنا ان کے لئے تو ایک رحمت ہے، لیکن خود اس کے لئے وہ کیا ہے؟ تبھی پتا چلتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو جو ایک بدو نے نصیحت کی تھی کہ عمر! یاد رکھو! اگر تیری وجہ سے لاکھوں لوگ جنت میں چلے جائیں اور تو خود جہنم چلا جائے تو پھر کیا ہوگا؟ یعنی تو لوگوں کے لئے جنت کا ذریعہ بن جائے، لیکن خود نہ جاسکے تو تیرا کام تو نہیں ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ ذرائع میں پھنسنا نہیں، لیکن ذرائع سے استغنا بھی نہیں ہے، نہ ذرائع میں پھنسنا ہے، نہ ذرائع سے استغنا ہے، یہ بنیادی نکتہ ہے۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ تصوف سارے کا سارا مقصود نہیں ہے، یہ ذریعہ ہے، ذریعہ شریعت پر آنے کا ہے۔ پس اگر کوئی صوفی بن گیا، لیکن شریعت پر نہیں آیا تو اس نے نہ تصوف پہچانا، نہ شریعت پہچانی، مطلب وہ بالکل ہی غائب ہوگیا، ختم ہوگیا، مطلب وہ چیز اس کو حاصل نہیں ہوئی جو اس کو حاصل ہونا چاہئے تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں شریعت اور ہے طریقت اور ہے۔ اس کے دو معنے ہیں، ایک صحیح ہے، دوسرا غلط ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ شریعت جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے، تو طریقت اس کی کوئی مخالف چیز ہے، جس کی اس میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور اس کی الگ دنیا ہے، مطلب اس میں طریقت کے ذریعہ سے بھی انسان کامیاب ہوسکتا ہے یا شریعت کے ذریعہ سے کامیاب ہوسکتا ہے، یہ تو الحاد ہے، یہ الحاد ہے کہ کوئی آدمی شریعت کے ذریعہ سے کامیاب ہو، کوئی آدمی طریقت کے ذریعہ سے کامیاب ہو، یہ الحاد ہے۔ اس میں طریقت کو مقصود بنا دیا بعض لوگوں کے لئے، یہ غلط ہے، لیکن اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ شریعت اور ہے طریقت اور ہے، اس لحاظ سے کہ شریعت مقصود ہے اور طریقت اس پر آنے کا ذریعہ ہے، اس لحاظ سے مختلف ہے، تو پھر یہ بات صحیح ہے، کیونکہ شریعت میں تو تبدیلی نہیں ہوسکتی، طریقت میں تو مستقل تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ کیوں؟ لوگ تبدیل ہورہے ہیں، حالات تبدیل ہورہے ہیں، بیماریاں تبدیل ہورہی ہیں، جیسے صحت ایک ہے، لیکن صحت پہ لانے کے طریقے لاتعداد ہیں، اسی طریقہ سے شریعت ایک ہے، لیکن شریعت پر آنے کے طریقے لاتعداد ہیں، ان طریقوں کو طریقت کہتے ہیں، تو اس لحاظ سے مختلف ہیں، لیکن یہ ایسے مختلف نہیں ہیں کہ کوئی علیحدہ سے یہ چیز ہے، یہ نہیں، بلکہ مقصد ایک ہی ہے اللہ کو راضی کرنا۔ تو اللہ پاک نے راضی کرنے کے لئے جو نظام بھیجا ہے، وہ شریعت ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، اس پر لانے کے لئے جو نظام اللہ پاک نے لوگوں کے قلوب پر اتارا ہے، جس میں مسلسل تبدیلیاں ہوتی ہیں حالات و واقعات اور اشخاص کے لحاظ سے، وہ صرف اس پر لانے کے لئے ہیں، تاکہ اس نظام پر آسکیں اور پھر اللہ پاک کو راضی کرسکیں، تو یہ بالکل صحیح ہے۔ تو اس لحاظ سے پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اب جو سادہ لوگ ہوتے ہیں، وہ ملحدوں کے چکر میں بھی آجاتے ہیں، کہتے ہیں بھئی! یہ تو طریقت کی باتیں ہیں، یہ تو شریعت والے اس کو نہیں جانتے، شریعت اور ہے طریقت اور ہے، یہ شریعت کی بات ہوگی، وہ لوگوں سے مستغنی ہیں۔ تو یہ سادہ لوگ ہیں، انہوں نے اس ایک معنی کو لے لیا اور اس کا مطلب غلط لے لیا، لہٰذا نقصان ہوگیا۔ لیکن ان کو بتایا جائے کہ بھئی! فی نفسہٖ تو یہ مختلف ہے، لیکن مقصد کے لحاظ سے ایک ہے، ایک مستقل ہے اور دوسرا متغیر ہے اور یہ متغیر اس مستقل پہ آنے کے لئے ہے، بس پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے، پھر بالکل ٹھیک ہے اور یہی ہمارے بزرگوں نے ہمیں سمجھایا ہے۔ حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب نے جو اپنا واقعہ سنایا ہے حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہونے کا، تو اس میں حضرت نے یہی بتایا ہے کہ میں آرہا تھا، چار مہینے میں نے لگا لئے، تو میرے ذہن میں تھا کہ (کیونکہ میرے والد صاحب چاہتے تھے) میں حضرت کے ساتھ مل لوں، تو میں نے کہا یہ تو صوفی ہے، یہ تو مجھے بیعت کے لئے کہے گا، تو میں نے اپنے ذہن میں بڑے سوالات بنائے ہوئے تھے کہ میں حضرت سے یہ سوالات پوچھوں گا۔ کہتے ہیں کہ جب میں آگیا، حضرت کے ساتھ ملاقات ہوگئی، حضرت اس طرح لیٹے ہوئے تھے تو میں نے کہا کہ حضرت! یہ بیعت کیا ضروری ہے؟ حضرت نے فرمایا ہرگز نہیں، بس اس سے تو میرا سارا سلسلہ ٹوٹ گیا، کیونکہ میں تو سوچ کے آیا تھا کہ وہ کہیں گے کہ ضروری ہے اور پھر میں سوالات کروں گا، سوالات کے لئے تو جگہ نہیں بنی۔ یہاں تک تو معاملہ ایک تھا، اب آگے جاکے حضرت نے بھی پھر جوابی کاروائی کی اور پھر اس طرح اٹھ گئے اور فرمایا: لیکن یہ بھی بتا دوں کہ تمہارا تبلیغ میں چلنا پھرنا بھی ضروری نہیں ہے، تمہارا تبلیغ میں چلنا پھرنا بھی ضروری نہیں ہے، تمہارا یہ کام بھی ضروری نہیں ہے، یہ بھی ضروری نہیں ہے، یہ بھی ضروری نہیں ہے، یہ بھی ضروری نہیں ہے، بلکہ تمہارا نماز پڑھنا بھی ضروری نہیں، تمہاری یہ چیزیں بھی ضروری نہیں۔ اصل میں تو اللہ کی رضا ہے، یہ تو سب باقی ذرائع ہیں، کچھ مستقل ہیں، کچھ متغیر ہیں۔ بس کہتے ہیں کہ میرا سارا کچھ ختم ہوگیا، بہہ گیا، مجھے تو بالکل ٹکنے ہی نہیں دیا ناں حضرت نے، اس پر کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضرت! مجھے بیعت فرمائیں۔ فرمایا ہاں! ضرور۔ تو اس طرح حضرت کو بیعت فرمایا۔

میرے ساتھ بھی ایسا واقعہ ہوا ہے، وہ عرب صاحب جو تھے، جن کی مجھ سے ملاقات ہوئی، گھنٹہ سوا گھنٹہ اس کے ساتھ بات چیت ہوئی، ماشاء اللہ اس کی تصوف کے بارے میں اتنی معلومات تھیں کہ میں خود impress ہوگیا ان سے بہت زیادہ کہ سبحان اللہ! اس وقت بھی اتنے لوگوں کی معلومات ہوسکتی ہیں، بڑی پرانی پرانی یہ جو شجروں کے اندر نام لکھے ہوئے ہیں ان کی کتابیں، متقدمین کی۔ میں نے کہا کمال ہے، عرب تھے، عربوں کے پاس اتنے وسائل ہیں، لیکن پھنسا کہاں تھا؟ اب دیکھو! سب کچھ کے بعد مجھ سے کہتے ہیں شیخ! میں اللہ اور اپنے درمیان کسی کو حائل نہیں کرسکتا۔ اب بظاہر یہ ان کا بہت بڑا نکتہ تھا، تو میں نے کہا شیخ! کم از کم ایک کو تو کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کون سا؟ میں نے کہا رسول اللہ۔ وہ ہل گیا بالکل، جیسے خواب سے جاگا ہو، کہتے ہیں: نَعَمْ نَعَمْ۔ میں نے کہا کہ اُس ایک تک پہنچنے کے لئے آپ کو تین بڑے گروہوں کو ماننا پڑے گا۔ کہتے ہیں: کون؟ میں نے کہا امھات المؤمنین، اہل بیت اور عام صحابہ، کیونکہ سارے علوم ہمیں انہی ذرائع سے معلوم ہوئے ہیں، کیونکہ ہماری خود کی ملاقات تو ہوئی نہیں، تو کہتے ہیں: نَعَمْ۔ میں نے کہا ان تینوں تک پہنچنے کے لئے تین اور بڑے گروہوں کو ماننا پڑے گا، کہتے کون؟ میں نے کہا محدثین کرام، فقہاء کرام، صوفیاء کرام، (چونکہ مانتا تو تھا کہ ان کی کتابیں انہوں نے پڑھی ہوئی تھیں) تو کہتے ہیں نَعَمْ، یہ بالکل ٹھیک ہے۔ میں نے کہا لیکن یہ بات ہے کہ محدثین اور فقہاء کرام کی بات تو آپ کو علماء سے حاصل ہوجائے گی، صوفیاء کرام کی بات آپ کو اپنے شیخ سے حاصل ہوگی اور شیخ ان تمام صوفیاء کرام کے علوم کا نچوڑ ہے اس شخص کے لئے، تو اس کے ذریعہ سے آپ پہنچیں گے پھر۔ پھر اس پر خاموش ہوگئے، کچھ کہا نہیں۔ گھنٹہ سوا گھنٹہ کی discussion تھی، وہ اتنی آسان بات تو نہیں تھی، جس طرح میں نے ابھی کی ہے، کیونکہ سامنے بات کرنے والے تھے، کوئی اس طرح خاموش آدمی تو نہیں تھے، جیسے آپ خاموش بیٹھے ہوئے ہیں، وہ تو بات کرنے والے تھے، خیر ایسا ہے کہ وہ خاموش ہوگئے، کچھ کہا نہیں۔ چند دنوں کے بعد یہاں خود تشریف لائے خانقاہ میں اور بیعت ہوئے اور اس کے بعد پھر ما شاء اللہ! ذکر بھی لے لیا، یہی جہری ذکر جو ہم کرتے ہیں اور باقاعدہ کرنے لگے، بس ان پہ بات کھل گئی، معلوم ہوگیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعتاً بعض دفعہ اس طرح ہوتا ہے کہ انسان کسی نہ کسی چیز میں پھنسا ہوتا ہے جس کی وجہ سے (ایسے ہوتا ہے) اس کے لئے وہی چیز حجاب اکبر ہوتی ہے۔ تو اس نے علم اس میں بہت حاصل کیا تھا، صوفیاء کرام کی کتابوں سے علم بہت حاصل کیا تھا، لیکن وہ علم اس کے لئے حجاب بن گیا تھا۔ جیسے کہتے ہیں ’’اَلْعِلْمُ حِجَابٌ اَکْبَرُ‘‘۔ اب ایک سادہ آدمی ان چیزوں میں نہیں پھنستا، وہ تو جلدی مان لیتا ہے، لیکن جو عالم ہوتا ہے، ان کے لئے وہ علم حجاب بن جاتا ہے، وہ آسانی سے مانتا ہے؟ آگے سے بولتا ہے، آپ ایک دلیل دیں گے، وہ آگے سو دلیلیں دیں گے اور بات چلتی جائے گی اور اس طریقہ سے چلتی جائے گی، اور نتیجہ ڈھاک کے تین پات، وہی والی چیز محرومی۔ لیکن اگر خوش قسمت ہو، جیسے حضرت نے فرمایا کہ بعض خوش قسمتوں کو (اگر خوش قسمت ہو تو) ان چیزوں کی معرفت اللہ پاک ویسے دے دیتے ہیں کہ وہ غیر محسوس چیزوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت پہلے سے رکھتے ہیں، نتیجتاً ان کو جو چیزیں دوسرے لوگوں کو بڑی محنت سے ملتی ہیں، ان کو مفت میں مل جاتی ہیں۔ اَلْحَمْدُ للہ! ہم بھی ان خوش قسمت لوگوں میں تھے، اللہ کا شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ۔ ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے باقی تفصیلات کو، بس صرف ایک بات تھی کہ پشاور یونیورسٹی جب ہم گئے، ہم تو انجینئرنگ میں داخلہ لینے کے لئے گئے تھے، ہم تو کسی مدرسہ میں داخل نہیں ہوئے تھے، نہ کسی خانقاہ میں داخل ہونے کے لئے گئے تھے، لیکن وہاں کسی اللہ والے کو جب بیٹھے دیکھا اور ان کے پاس لوگوں نے پہنچا دیا تو بغیر کسی حیل و حجت کے دل نے گواہی دی کہ یہ جگہ بیٹھنے کی ہے اور یہی ہماری خوش قسمتی تھی۔ اگر اُس وقت درمیان میں کوئی ادھر ادھر کی بات ہوتی دل میں کہ بھائی! یہ تو نہیں ہوسکتا، یہ تو فلاں ہے، یہ فلاں ہے، تو رہ جاتے۔ بہت سارے لوگ رہ گئے تھے، یعنی صرف یہ نہیں کہ میں رہ جاتا، بہت سارے لوگ رہ گئے تھے، لیکن اللہ کا شکر ہے ہمیں یہ چیز پیش نہیں آئی اور یہی ہماری خوش قسمتی تھی۔ بس پھر ہم بیٹھ گئے اور کمال کی بات یہ ہے کہ ہم تصوف کے نام پر ادھر نہیں بیٹھے تھے، کیونکہ اس وقت ہم ان چیزوں کو جانتے ہی نہیں تھے، ہم صرف ایک شخصیت پر متفق ہوگئے کہ یہ صحیح ہے بس۔ ان کو ہم مولانا صاحب کہتے اور ابھی تک مولانا صاحب کہتے ہیں، کبھی ان کو ہم نے صوفی صاحب، شیخ صاحب نہیں کہا اور کسی نے نہیں کہا، ان کے خلفاء بھی ان کو یہ نہیں کہتے، مولانا صاحب کہتے ہیں، ان کی شہرت، ان کی معرفت مولانا صاحب کے ساتھ تھی۔ لیکن اَلْحَمْدُ للہ! ہمارے لئے ان تمام چیزوں تک پہنچنے کے لئے ذریعہ بن گئے اور بڑے بڑے لوگ اُدھر آتے تھے حضرت کے پاس، مولانا تقی عثمانی صاحب اور اس طرح مفتی محمود صاحب اور مولانا مفتی یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ اور کیا کیا اکابر، تشریف لاتے تھے، مفت میں ہمیں زیارتیں ہوتی تھیں، لیکن ہمارے لئے محور جو تھا، وہ مولانا صاحب تھے، یہ خوش قسمتی تھی، اس کے ذریعہ سے اللہ پاک نے ہمیں ان چیزوں تک رسائی عطا فرمائی۔ اس وقت ہمیں پتا بھی نہیں تھا کہ ہم یہ کام کریں گے، یہ تو بعد کی بات ہے، اس وقت تو ہمیں یہ نہیں پتا تھا، ہم تو صرف اس کو دیکھ رہے تھے اور observe کررہے تھے، بس یہی بات تھی اور جب کبھی کوئی مسئلہ ہوا تو حضرت کے پاس دوڑے اور بھاگے مشورہ کے لئے۔ تقریباً چار سال کے بعد مجھ سے سید تسنیم الحق صاحب پوچھتے ہیں کہ کیا آپ حضرت سے بیعت ہیں؟ میں نے کہا کیا حضرت بیعت کرتے ہیں؟ تو وہ حیران ہوگئے، اچھا! آپ کو پتا نہیں ہے؟ یونیورسٹی کن کی برکت سے دیندار بنی ہوئی ہے؟ آپ کو کیا پتا ہمیں معلوم ہے کہ پہلے کیسے تھے، یہ تو حضرت کی برکت سے ایسے ہوئے ہیں۔ اچھا! چلو ٹھیک ہے، لیکن وہ ’’چلو ٹھیک ہے‘‘ لڑکپن والی چلو ٹھیک ہے والی بات تھی، بھول گئے، ختم ہوگئی بات، اختلاف نہیں، لیکن سستی تھی۔ پھر بعد میں سستی جاری رہی، لیکن اللہ پاک کی مدد بھی جاری رہی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام ہوتا ہے، تو خوابوں کا سلسلہ شروع ہوا، اب خوابوں میں چیزیں نظر آنے لگیں کہ یہ ایسا اور یہ ایسا اور یہ ایسا۔ تو اخیر میں اَلْحَمْدُ للہ! اللہ پاک نے بالکل واضح طور پر گویا (بتلا دیا کہ) نہیں کرو گے تو پھر معاملہ بڑا خطرناک بن جائے گا، تو پھر اُدھر چلے گئے حضرت کے پاس اور حضرت سے بیعت ہوئے۔ اس طریقہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کام میں قبول فرمایا اَلْحَمْدُ للہ۔ میں جتنا بھی اپنے پیچھے نظر دوڑاتا ہوں تو شکر ہی شکر کرتا ہوں کہ اَلْحَمْدُ للہ! اگر نہ ہوتا تو پتا نہیں ہم کدھر ہوتے اور کیا کرتے اور کن چیزوں میں پڑے ہوتے۔ تو حضرت نے بھی یہ باتیں ہمیں جو سمجھائی ہیں یعنی حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے، تو اس کو آدمی یہ نہ سمجھے کہ صرف یہی ہیں، یہ تو صرف حضرت نے ایک جھلک دکھائی ہے کہ اس قسم کی چیزیں بھی ہوتی ہیں اور ہر ایک کے ساتھ اپنا اپنا معاملہ ہوتا ہے، بس اس کو فیصلہ یہ کرنا چاہئے کہ شیخ کو چننا چاہئے اور شیخ سے پھر نہیں کہنا چاہئے کہ مجھے فلاں چیز کرا دو، بس جو شیخ کرائے، تو وہی کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ خود کرے گا تو یہ ایسا ہے جیسے حکیم کو یا ڈاکٹر کو دوائی بتانے والی بات کہ مجھے فلاں دوائی دے دو، کیا حکیم اور ڈاکٹر کو کوئی یہ کہہ سکتا ہے؟ وہ تو اس کا فن ہی نہیں ہے، تو کیسے وہ کہے گا۔ بس یہ ساری باتیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ دوائیوں کی باتیں ہوگئی ہیں، لیکن صرف یہ دوائی نہیں ہے، بہت کچھ اور ہے۔ تو جن کو اللہ پاک نے اس چیز کے لئے قبول فرمایا تو ان کے دل پر ڈالتے ہیں۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

آدابِ سلوک، ذکر کے آداب، مراقبہ اور اسکے احکام - ہمعات - پہلا دور