{"startIndex":1,"endIndex":2,"horizontalRule":{"textStyle":{"bold":false,"italic":false,"underline":false,"strikethrough":false,"smallCaps":false,"backgroundColor":{},"foregroundColor":{"color":{"rgbColor":{}}},"fontSize":{"magnitude":18,"unit":"PT"},"weightedFontFamily":{"fontFamily":"Arial","weight":400},"baselineOffset":"NONE"}}}
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہمعات سے بہت مفید مضامین بیان کیے جارہے ہیں۔ "تصوف کے چار دور"متن: مجھ فقیر کو اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا کہ تصوف کے طریقوں میں سے اب تک چار بڑے بڑے تغیرات ہو چکے ہیں۔ تشریح:
اصل میں وجہ یہ ہے کہ تصوف مستقل ایک متغیر چیز ہے، تبدیل ہونے والی چیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مقصود نہیں ہے، مقصود کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور ذریعہ مقصود کا پابند ہوتا ہے، ذریعہ کسی ذریعے کا پابند نہیں ہوتا۔ یعنی مقصود جس طریقے سے بھی حاصل کیا جائے، تو اس کو ہم کہتے ہیں کہ صحیح ذریعہ ہے۔ آسان اور مشکل والی بات ضرور ہوتی ہے، لیکن بہرحال ہر ذریعہ جو ہے، وہ مقصود کے لحاظ سے اہم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس میں تغیر آتا رہتا ہے، یہ کوئی مستقل چیز نہیں ہے۔ "تصوف کا پہلا دور"
متن:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے زمانے میں چند نسلوں تک اہلِ کمال کی بیشتر توجہ زیادہ تر شریعت کے ظاہری اعمال کی طرف رہی۔ ان لوگوں کو باطنی زندگی کے جملہ مراتب شرعی کام کی پابندی کے ذیل ہی میں حاصل ہوجاتے تھے۔ چنانچہ ان بزرگوں کا احسان، یعنی حاصلِ تصوف یہ تھا کہ وہ نمازیں پڑھتے تھے، ذکر و تلاوت کرتے تھے، روزے رکھتے تھے، حج کرتے تھے، صدقہ اور زکاة دیتے تھے، اور جہاد کرتے تھے۔ ان میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو سر نیچے کیے بحرِ تفکرات میں غرق نظر آتا۔ یہ بزرگ اللہ تعالیٰ سے قرب و حضور کی نسبت اعمالِ شریعت اور ذکر و اذکار کے سوا کسی اور ذریعے سے حاصل کرنے کی سعی نہیں کرتے تھے۔ بے شک ان اہلِ کمال بزرگوں میں سے جو محقق ہوتے ہیں، ان کو نماز اور ذکر و اذکار میں لذت ملتی اور قرآن مجید کی تلاوت سے متأثر ہوتے۔ مثلاً وہ زکاة کو محض اس لئے نہیں دیتے کہ زکاة دینا خدا کا حکم ہے، بلکہ خدا کے حکم کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ کو بخل کے روگ سے اس کے ذریعے سے بچاتے، اور جب وہ اپنے آپ کو دنیاوی کاموں میں بے حد منہمک پاتے تو انہیں اس کا احساس ہوتا تو دل کو کاروبارِ دنیا سے ہٹانے کے لئے زکاة دیتے۔ اور اس طرح شریعت کے دوسرے احکام کو بجا لانے میں بھی ان کی یہی کیفیت ہوتی تھی۔
الغرض یہ بزرگ شخص خدا کا حکم سمجھ کر شرعی احکام ادا نہ کرتے، بلکہ ساتھ ساتھ شرعی احکام کی بجا آوری سے ان کے باطنی تقاضوں کی تسکین بھی ہوتی تھی۔
تشریح:
شاید آپ لوگوں میں سے کسی کو یاد ہو کہ بہت عرصہ پہلے سے ہی یہ بات میں عرض کرتا رہا ہوں کہ شریعت میں جو اعمال ہیں، یہ بھی ذرائع ہیں کچھ باطنی چیزوں کے حصول کے۔ مثلاً نماز عبدیت کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور جو منکرات اور فواحش ہیں، ان سے بچنے کے ذریعے کے طور پر ہے۔
﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45)
ترجمہ: ’’بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے‘‘۔
تو یہ ذریعہ ہے، اگرچہ اللہ کا حکم ہے۔ دیکھیں! حضرت بھی یہی فرما رہے ہیں کہ اللہ کا حکم ہے، لیکن حکم جو دیا ہے، اس میں حکمت ہے۔ اور اس حکمت میں یہ بھی حکمت ہے کہ اس سے کچھ باطنی مسائل حل ہوتے ہیں۔ تو یہ باطنی مسائل جو روزے کے ذریعے حل ہو رہے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرمایا:
﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 183)
ترجمہ: ’’تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو‘‘۔
اور جیسے ابھی حضرت نے فرمایا، زکاة بخل کو دور کرنے کے لئے ہے۔ حج جو ہے، وہ کیفیت عشقی کو حاصل کرنے کے لئے ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ہر شرعی امر کا باطنی پہلو ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اگر کسی کی اسی سے تسکین ہوجائے تو اس کو کسی اور ذریعے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ میں بہت عرصہ پہلے سے کہتا رہا ہوں۔ حضرت کی تحریر تو ابھی الحمد للہ! میری نظر سے گزری۔ آپ میرے گزشتہ بیان سن لیں، اس میں یہ بات میں اکثر عرض کرتا رہا ہوں کہ اگر کسی کو ان ذرائع سے باطنی چیزوں کی تسکین ہوجائے، تو ان کو کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں۔ لیکن اس کے لئے ان چیزوں کو اس طرح کرنا چاہئے جس طریقے سے وہ چیزیں حاصل ہوں۔ لیکن انہی میں اگر کمی پائی جائے تو پھر کیا کریں گے؟ پھر دوسرے ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اگر اس ذریعے سے کمال حاصل ہوجائے، تو پھر ان کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ چونکہ اول طبقے میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ ان ذرائع سے جو اصل مقاصدِ باطنی تھے، وہ حاصل کرسکتے تھے، لہٰذا ان کو کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ جیسے صحابہ کرام کو تو بالکل ضرورت نہیں تھی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے جو روشنی ملی تھی، وہ سب چیزوں کے لئے کافی تھی۔ تو وہ بات تو صحیح ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کمی آتی گئی، تو دوسری چیزوں کی ضرورت آتی گئی۔ تو حضرت نے بھی یہ بات فرمائی ہے۔
متن:
ان میں سے کوئی شخص نہ بے ہوش ہوتا، نہ اسے وجد آتا، اور نہ وہ جوش میں آکر کپڑے پھاڑنے لگتا۔ اور نہ شطح خلافِ شرع کوئی لفظ ان کی زبان سے نکلتا۔ یہ بزرگ تجلیات استقاء اور اس قسم کے دوسرے مسائل پر مطلق گفتگو نہیں کرتے تھے۔ یہ بزرگ بہشت کی رغبت و آرزو رکھتے، اور دوزخ سے خائف اور ہراساں رہتے۔ کشف و کرامات اور خوارق ان سے بہت کم ظاہر ہوتے۔
تشریح:
ہمارے ایک ساتھی تھے، اس نے بڑی عجیب بات کہی تھی کہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ جتنا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے قریب لوگوں کو دیکھتا ہوں، تو ان کو میں عام انسان دیکھتا ہوں، اور جو بعد کے لوگوں کو دیکھتا ہوں، تو ان کو بزرگ دیکھتا ہوں۔ یہ کیا وجہ ہے؟ وہ یہی وجہ ہے کہ وہ چونکہ عام اعمال کرتے تھے، تو عام اعمال کرنے والے کو کون بزرگ سمجھتا ہے؟ کوئی آدمی نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، زکاۃ دیتا ہے، بس دیندار آدمی ہے، اس سے زیادہ اس کو کچھ نہیں کہتے۔ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ہم مولانا کہتے تھے بس، بات ختم، نہ ان کو پیر کہتے، نہ کچھ اور کہتے ہیں، وہ تو بعد میں پتا چلا کہ وہ پیر بھی ہیں۔ ہاں، الحمد للہ! یہ ہماری خوش قسمتی تھی، اللہ کا شکر ہے، یہ ہماری سعادت اور قسمت کی بات تھی کہ مولانا صاحب ہم پر مطمئن ہوگئے تھے۔ ہمیں کسی بزرگ کی ضرورت نہیں تھی، مولانا صاحب ہمارے لئے کافی ہوگئے تھے۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی۔ ورنہ عموماً لوگوں کے لئے یہ کافی نہیں ہوتا، وہ کسی بزرگ کی تلاش میں ہوتے ہیں، جو وجد آفریں باتیں کرے۔ تو اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں ان چیزوں سے کوئی سروکار نہیں تھا، بس ہمیں نظر آتا کہ دین پر چل رہا ہے اور دین کے لئے بات کررہا ہے، بس یہ بات ہمارے لئے کافی تھی۔ تو ہم ان کو مولانا صاحب ہی سمجھتے تھے، ہاں! بعد میں پتا چلا کہ حضرت بزرگ بھی ہیں، ان کو یہ کمالات بھی حاصل ہیں۔
متن:
تو یہ بزرگ بہشت کی رغبت و آرزو رکھتے، دوزخ سے خائف و ہراساں رہتے، کشف و کرامات و خوارق ان سے بہت کم ظاہر ہوتے۔
تشریح:
یہاں پر بھی یہ باتیں ہیں، مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ابھی مکتوب شریف گزرا، جس میں حضرت نے فرمایا کہ پہلے میں دعا کرتا تھا تو صرف اللہ کا حکم سمجھ کر دعا کرتا تھا، اگرچہ مجھے اس کی حاجت نہیں ہوتی تھی، کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ جو اللہ کررہا ہے، ٹھیک کررہا ہے، تو اس وجہ سے مجھے کوئی اور بات نہیں تھی، اگرچہ بلائے مصیبت دور ہوتی تھیں۔ اور فرمایا کہ یہ میری سکر کی حالت تھی۔ جس وقت سکر کی حالت آگئی تو پھر یہ ساری باتیں میں مانگتا تھا۔
اب یہی جو جنت اور دوزخ کی باتیں ہیں، تو ہمارے ہاں جو جنت اور دوزخ سے اوپر اوپر کی باتیں کرے تو پھر وہ بزرگ ہوتا ہے، جو جنت اور دوزخ کی باتیں کرے، تو کہتے ہیں یہ تو عام آدمی ہے۔ تو ان میں یہ بات نہیں تھی، ان کے اندر تکلف نہیں تھا۔ عام انسان کے جو حالات تھے، اس کے مطابق دین کی بات کرتے۔
متن:
اور سرمستی اور بے خودی کی کیفیت بھی شاذ و نادر ہی ان پر طاری ہوتی اور کبھی کبھی یہ باتیں ان سے صادر بھی ہوتیں، لیکن قصدًا نہیں بلکہ محض اتفاق سے ہی ہوتا۔ بات یہ ہے کہ وہ نفسی کیفیات جن کا نتیجہ کرامات و خوارق اور سرمستی اور بے خودی کے قبیل سے جو چیز ہوتی ہے، یہ کیفیات ان بزرگوں کے اندر اتنی راسخ نہ ہوئی تھیں کہ وہ ملکہ بن جاتیں۔ چنانچہ اس ضمن میں جب کبھی ان سے کوئی بات ظاہر ہوئی تو یا تو اس کی صورت یہ تھی کہ وہ جس چیز کو از روئے صمیم قلب سے مانتے تھے، وہ چیز بے اختیار ان کی زبان پر آجاتی۔ جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مرض الموت میں فرمایا کہ طبیب ہی نے مجھے بیمار کیا ہے۔ یا یہ ہوتا کہ بزرگ خواب میں بعض چیزوں کو دیکھ لیتے یا فراست سے نامعلوم چیزوں کو معلوم کر لیتے، لیکن یہ چیز ایسی نہ ہوتیں کہ عوام تک ان کی رسائی نہ ہوسکتی۔
قصہ مختصر، اس دور میں جسے تصوف یا احسان کا پہلے دور کہنا چاہئے، اہلِ کمال کا غالب طور پر یہی حال رہا۔
تشریح:
یہ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے سلسلے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ آہستہ آہستہ ان چیزوں کی طرف لے جایا جارہا ہے، جو ہم بات کرتے ہیں طریقِ صحابہ کی، تو طریقِ صحابہ کے اندر یہی چیزیں ہیں، یعنی عام زندگی، بس نفس کی آلائش دور کرلو، جب وہ دور ہوجائے تو پھر سیدھی سادی صحابہ کی زندگی بس مطلوب ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہئے، پھر یہ ساری باتیں پیچھے رہ جائیں گی۔
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
اصل چیز کیا ہے؟ یہی سادہ دین۔
تصوف کا دوسرا دور
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ جو گروہِ صوفیاء کے سرخیل ہیں، ان کے زمانے میں یا ان سے کچھ پہلے تصوف کے ایک اور رنگ کا ظہور ہوتا ہے۔ اس زمانے میں یوں ہوا کہ اہل کمال میں سے ایک عام طبقہ تو اس طریقے پر کاربند رہا، جس کا ذکر پہلے دور کے ضمن میں ہوچکا ہے، لیکن ان میں سے جو خواص تھے، انہوں نے بڑی بڑی ریاضتیں کیں اور دنیا سے بالکل قطع تعلق کر لیا اور مستقل طور پر وہ ذکر و فکر میں لگ گئے۔ اِس سے ان کے اندر ایک خاص کیفیت پیدا ہوگئی۔ اِس کیفیت سے مقصود یہ تھا کہ دل کو تعلق باللہ کی نسبت حاصل ہوجائے۔ چنانچہ یہ لوگ اس نسبت کے حصول میں لگ گئے اور وہ مدتوں مراقبے کرتے، ان سے تجلی استتاء، انس اور وحشت کے احوال و کوائف ظاہر ہوتے اور وہ اپنے احوال کو نکات اور اشارات میں بیان بھی کرتے۔ ان اہلِ کمال میں سب سے صادق وہ گزرے جنہوں نے اپنی زبان سے وہی کہا جو خود ان پر گزرا تھا۔ یہ لوگ سماع سنتے، سرمستی و بے خودی میں بے ہوش بھی ہوجاتے، کپڑے پھاڑتے اور رقص بھی ہوجاتا، یہ کشف و اشراف کے ذریعے دوسروں کے دلوں کی باتیں بھی معلوم کر لیتے۔ انہوں نے دنیا سے اپنا رشتہ توڑ کر پہاڑوں اور صحراؤں میں پناہ لی اور گھاس اور پتوں پر زندگی گزارنے اور گدڑے پہننے لگے۔ نفس و شیطان کے مکروں اور دنیا کے فریبوں کو خوب سمجھتے، ان سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے یہ لوگ مجاہدے بھی کرتے تھے۔ الغرض اس دور کے اہلِ کمال کا تصور یہ تھا کہ خدا کی عبادت دوزخ کے عذاب سے ڈر کر یا جنت کی نعمت کی تمنا میں نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کی عبادت کا محرک خدا کے ساتھ ان کی محبت کا جذبہ ہوتا۔
تشریح:
ٹھیک ہے، سمجھ میں آگئی بات؟ تو مطلب یہ ہے کہ دوسرے دور میں جیسے کہ حضرت فرما رہے تھے کہ یہ چیزیں آنے لگیں۔ لہٰذا اُس دور کے جب بزرگ حضرات کو ہم دیکھتے ہیں تو ان میں یہ کمال کی چیزیں بہت نظر آتی ہیں، جیسے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے حضرات۔
متن:
لیکن تصوف کے اس دور میں توجہ کی نسبت اپنے درجۂ کمال تک نہیں پہنچی۔ توجہ سے یہاں مراد نفس کا پوری پوری طرح حقیقت الحقائق یعنی ذاتِ خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے اور اس طرح کہ نفس اللہ کے رنگ میں کلیتاً رنگا جائے اور وہ دنیا کی عارضی و فانی چیزوں پر پوری طرح غالب آجائے۔ تصوف کے اس دور میں توجہ کی نسبت دوسری چیزوں سے ملی جلی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس زمانے میں ان اہلِ کمال میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس نے خاص توجہ کو ان معنوں میں اپنا نصب العین بنایا ہو کہ وہ ہمیشہ اسی کی بات کرتا ہو، اور اسی کا اشارہ ہوتا ہو یا اس زمانے میں ایسی صورت ہوئی کہ ان میں سے کسی شخص نے توجہ کی نسبت حاصل کرنے کی راہ بتائی ہوتی۔ اصل بات یہ ہے کہ ان بزرگوں پر طاعت کا رنگ غالب تھا، اور طاعت کے انوار سے وہ سرشار تھے۔ بے شک انہیں توجہ کی نسبت حاصل تھی، لیکن گاہے گاہے، جیسے کہ بجلی کی چمک کہ ابھی ہے اور ابھی نہیں۔
شب خیالِ طرۂ شوخ بدل پیچید و رفت
ساعتے ہم چوں شب قدر از برم جوشید و رفت
تصوف کا تیسرا دور
سلطان الطریقت شیخ ابو سعید بن ابی الخیر اور شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں طریقِ تصوف میں ایک اور تغیر رونما ہوتا ہے۔ اس دور کے اہلِ کمال میں سے عوام تو حسبِ سابق شریعت اور اوامر و اعمال میں ٹھہرے رہے اور خواص نے باطنی احوال و کیفیات کو اپنا نصب العین بنایا۔ اور جو خواص تھے، انہوں نے اعمال و احوال سے گزر کر جذب تک رسائی حاصل کی۔ اور جذب ہی کی وجہ سے ان کے سامنے توجہ کی نسبت کا راستہ کھل گیا اور اسی سے تعینات کے سب پردے ان کے لیے چاک ہو گئے اور انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگا کہ وہی ایک ذات ہے جس پر تمام اشیاء کے وجود کا انحصار ہے اور وہی ذات سب اشیاء کی قیّوم ہے۔ یہ لوگ اس ذات میں گم ہوگئے، اس کے رنگ ان کے نفوس میں رنگے گئے۔ چنانچہ اس حال میں نہ ان کو اوراد و وظائف کی چنداں ضرورت نہ رہی اور نہ انہیں مجاہدے و ریاضتیں کرنے اور نفس اور دنیا کے فریبوں کو جاننے کی سد بدھ رہی۔ ان کی تمام تر کوشش کا مقصد یہ ٹھہرا کہ جس طرح بھی ہو وہ توجہ کی نسبت کی تکمیل کریں۔ توجہ کے علاوہ باقی جو نسبتیں تھیں، انہیں یہ لوگ نورانی حجابات سمجھتے تھے، اس حالت میں توحیدِ وجودی اور توحیدِ شہودی میں فرق نہیں کیا جاتا تھا۔ درحقیقت ان بزرگوں کی اصل غایت یہ تھی کہ ذاتِ الٰہی میں اپنے وجود کو گم کر کے اس مقام کی کیفیات سے لذت اندوز ہوں۔ چنانچہ یہ اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کائنات کا وجودِ الٰہی سے کیا علاقہ ہے اور انسان خدا کی ذات میں کیسے گم ہوتا ہے، اور فنا و بقا کے کیا حقائق ہیں۔ یعنی ان پر محبت کا جذبہ غالب تھا اور اس نے فلسفہ کا رنگ اختیار نہیں کیا تھا۔ محبت کا جذبہ غالب تھا۔
تصوف کا چوتھا دور
متن:
آخر میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ یا اس سے کچھ پہلے کا زمانہ آتا تھا، اس حال میں اہلِ کمال بزرگوں کے ذہنوں میں مزید وسعت پیدا ہوئی اور یہ لوگ کیفیات و احوال کی منزل سے آگے بڑھ کر حقائقِ تصوف کی بحث و تدقیق کرنے لگے۔ ذاتِ واجب الوجود سے یہ کائنات کس طرح صادر ہوئی؟ ان بزرگوں نے ظہورِ وجود کے مدارج اور تنزلات دریافت کیے اور اس امر کی تحقیق کی کہ واجب الوجود سے سب سے پہلے کس چیز کا صدور ہوا اور کس طرح یہ صدور عمل میں آیا؟ الغرض یہ اور اس طرح کے دوسرے مسائل لوگوں کے لیے موضوعِ بحث بن گئے۔
تصوف کے ان چار دوروں میں جو بھی اہلِ کمال بزرگ گزرے ہیں، گو اپنے ظاہری اعمال و احوال میں الگ الگ نظر آتے ہیں، لیکن جہاں تک ان کی اصل کا تعلق ہے، میرے نزدیک وہ سب ایک ہیں۔ باقی اللہ تعالیٰ ان سب کے حال کو ہم سب سے زیادہ بہتر جاتے ہیں۔ ان بزرگوں میں جب کسی نے اس دنیا سے انتقال فرمایا اور جو باطنی کیفیت اس بزرگ نے اپنی ہمت و ریاضت سے دل میں پیدا کر لی تھی، وہ کیفیت موت کے بعد بھی اس بزرگ کے نفس میں جاگزیں رہی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی آئینہ یا پانی کا حوض ہو، اس میں آفتاب کا عکس پڑ رہا ہو۔ ان بزرگوں کے طفیل مبداءِ اول یا حضرتِ الٰہ تک پہنچنے کا راستہ قریب ہوگیا۔ ان کے فیوض و برکات کے انوار سے عالمِ علوی اور عالمِ سفلی کی فضائیں منور ہوگئیں۔ جیسے کہ ہماری آسمانی فضا میں مرطوب ہوا اور بادل پھیل جاتے ہیں تو اس کا اثر زمین پر پڑتا ہے۔ اس طرح ان نفوسِ قدسیہ کی کیفیات بھی دنیائے قلوب پر اپنا اثر ڈالتی رہتی ہے۔ اگرچہ تصوف کے چاروں کے چاروں طریقے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہیں اور ملائے اعلیٰ میں بھی ان سب کی منزلت مسلّم ہے اور اربابِ تصوف پر بحث کرتے وقت ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان بزرگوں کے ہر طبقے کے اقوال اور احوال کو ان کے زمانے کے ذوق کے مطابق جانچا جائے اور اس سلسلے میں یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ ایک عہد کے اربابِ تصوف کے اقوال اور احوال کو دوسرے عہد کے معیاروں سے ناپتے پھریں۔
تشریح:
اس کی وجہ کیا ہے؟ وہ بتاتا ہوں، یہ تبدیلیاں کیوں آئیں؟ تبدیلیاں اس لیے آئیں کہ جیسے جیسے حالات میں انتشار آتا گیا، ان احوال میں انتشار آتا گیا، چیزیں بڑھنے لگیں، لوگوں کے ساتھ ملاپ زیادہ ہونے لگا، ان کے اثرات آنے لگے، تو وہی پہلے والی کیفیت جو بزرگوں کو حاصل تھی، اس کو حاصل کرنے کے لیے صرف وہ چیز کافی نہیں رہی۔ جیسے میں نے کہا کہ اگر نماز کسی کی طاقتور نہ رہے تو پھر وہ کیا کرے؟ تو وہ چیز کافی نہیں رہی۔ تو ان کو اُس چیز تک پہنچنے کے لیے کچھ خصوصی کام کرنے پڑے۔ اب خصوصی کام جو کرتے ہیں، تو ظاہر ہے اس پر خصوص توجہ دینی پڑتی ہے اور خصوص توجہ دینے کے لیے کچھ اور کاموں سے انسان کو اپنا وقت نکالنا پڑے گا۔ پہلے وقت میں لوگوں کے لیے اس کی ضرورت نہیں تھی، لیکن بعد میں لوگوں کو اس کی ضرورت پڑ گئی، کیونکہ انہوں نے ایک خاص چیز کو حاصل کرنا تھا، اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے محنت زیادہ ہوگئی۔ مجھے بتاؤ کہ پہلے وقت میں جو ہم سائنس پڑھتے تھے، یقین جانیے ہمارے لیے پڑھائی بہت آسان تھی، یہ ہمارے دور کی بات کر رہا ہوں، اتنا زیادہ فرق نہیں ہے، بیس پچیس سال پہلے کی باتیں ہیں۔ اب بچوں کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، Competition بہت ہوگئی ہے۔ اب صبح اسکول جاتے ہیں، پھر شام کو ٹیوشن پڑھتے ہیں، اور پتا نہیں کیا کیا ہوتا ہے، عجیب و غریب چیزیں ان کو کرنی پڑتی ہیں۔ ان کا بستہ ان کے جسم سے بڑا ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے چیونٹی اپنے سے تین گنا چیز کو اٹھا کر لے جا رہی ہوتی ہے۔ تو یہ بچے بیچارے، ان کے اوپر مجھے بڑا ترس آتا ہے۔ لیکن حالات ایسے ہیں کہ وہ بغیر اس کے چل نہیں سکتے، Competition ہے۔ تو جب اس قسم کے حالات آ جاتے ہیں، اور پھر جب یکسوئی اس کی طرف ہوجاتی ہے تو دوسری چیزیں قربان ہونے لگتی ہیں۔ تو لوگوں نے آج کل دنیا کے لیے دین کو قربان کر دیا، انہوں نے دین کے لیے دنیا کو قربان کر دیا۔ آج کل لوگ دنیا کے لیے دین کو قربان کر لیتے ہیں کہ یہ بہت ضروری ہے۔ تو بچہ اب یہ نہیں کرسکتا، یہ نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کے پاس ٹائم ہی نہیں ہے۔ اسکول کے لیے ٹائم ہے لیکن باقی چیزوں کے لیے ٹائم نہیں ہے، کسی اللہ والے کے پاس بیٹھنے کے لیے ٹائم نہیں ہے، کوئی اچھی باتیں سیکھنے کے لیے ٹائم نہیں ہے، وہ چیز مجبوری ہوگئی۔ تو جس طرح وہ مستغرق ہیں اپنے ایک مقصد میں، اسی طرح وہ بزرگ بھی اپنے مقصد میں مستغرق تھے اور اپنے اس مقصد کو پانے کے لیے انہوں نے کچھ چیزوں کو چھوڑا۔ تو اس پر اعتراض کیوں کیا جائے؟ وہ رہبانیت نہیں تھی۔ رہبانیت اِس کو کہتے ہیں کہ جب اس چیز میں ثواب سمجھا جانے لگے، یعنی اس کو دین کا حصہ بنا دیا جائے، جیسے بدعت کی قبیل کی کوئی چیز ہوتی ہے، وہ رہبانیت کی بات ہوتی ہے۔ آپ صرف اس کو ایک ذریعے کے طور پر کر رہے ہیں اور اس کے بغیر وہ حاصل نہیں ہوسکتا، تو رہبانیت کیسی ہوئی؟ مثلاً خشوع و خضوع کو پیدا کرنے کے لیے جب آپ کے پاس وقت نہیں ہے، آپ کچھ محنت کرنے لگیں اور اس کے لیے آپ کو کچھ مراقبے کرنے پڑیں اور یہ چیزیں کرنے پڑیں، تو کیا خشوع و خضوع کو حاصل کرنا رہبانیت ہے؟ اس کو کون رہبانیت کہہ سکتا ہے؟ اگر کوئی اس کو رہبانیت کہتا ہے تو پھر اس کو ہم مقابلہ میں دنیا دار کہیں گے۔ وہ دنیا دار ہے اس لیے اس چیز کو رہبانیت کہتا ہے۔ تو پھر دنیا دار کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ وہ باتیں کرتے ہوں گے۔ بہت سارے کافر ہیں، ہمارے خلاف باتیں کرتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں، تو کیا ہم ان کے لیے اسلام چھوڑ دیں گے؟ اسی طریقے سے جو لوگ دنیا دار ہیں اور پکے دنیا دار ہیں، تو اپنے ذہن میں انہوں نے بھول بھلیّاں بنائی ہوتی ہیں، وہ اس کے مطابق کہتے ہیں۔ اصل میں یہی وہ چیز ہے جس کو تصوف کہتے ہیں، اور تصوف کو لوگ نہیں سمجھتے۔ یہ ایک خاص وجدانی احوال کو پیدا کرنے کا نظام ہے جس کے ذریعے سے دین پر آیا جاتا ہے۔ بس مقصود یہ ہے۔ مقصود دین پر آنا ہوتا ہے لیکن اس کے لیے جو ذریعے ہیں وہ وجدانی چیزیں ہیں۔ یعنی اس میں احوال اور کیفیات وغیرہ ہوتی ہیں۔ ان احوال و کیفیات کے ذریعے سے انسان سادہ دین پر آتا ہے، بنیاد یہ ہے۔ تو ہم لوگ اسی وجہ سے یہ کہتے ہیں۔ اب اگر میں دیکھوں تو یہ پہلے والا دور سیدھا سادہ تھا، اس میں تو بات کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ جو دوسرا دور تھا وہ ضرورتاً تھا۔ تیسرے جو چیز تھی وہ یہ تھی کہ توجہ کی جو کیفیت تھی، اس کو انہوں نے استعمال تو کر لیا لیکن اس کے دلائل اور جستجو میں نہیں لگے، صرف استعمال کر لیا۔ چوتھے دور میں باقاعدہ استعمال بھی ہونے لگا اور ساتھ ساتھ اس کے دلائل بھی بنتے گئے۔ گویا کہ دلائل اس لیے ہیں کہ لوگ پوچھتے تھے کہ کیا چیز ہے؟ تو پھر اس کے لیے دلیل تو دینی پڑتی ہے۔ تو یہ تطبیقات جو آئی ہیں وہ اسی وجہ سے آئی ہیں۔ اور چونکہ اُس وقت لوگوں کے سمجھنے کے آلات فلسفہ کی چیزیں تھیں، تو فلسفہ کے ذریعے سے سمجھایا گیا۔ اب آج کل سائنس کے ذریعے سمجھایا جا سکتا ہے۔ تو یہ ساری چیزیں بضرورت تھیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا اپنا مقام ہے، کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ ’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ (بخاری: 1) کہ تمام اعمال کا سارا مدار نیتوں پر ہے۔ تو نیت تو سب کی صالح تھی۔ لہٰذا ان ساری باتوں کو ہم Miss context کہہ سکتے ہیں۔ ہاں! حضرت نے بہت قیمتی بات فرمائی کہ ہر وقت کے ذوق کے مطابق ان کے احوال کو جانچا جائے کہ وہ کون سے دور میں تھے۔ اس لیے شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کی چیزیں اگرچہ حضرت مجدد صاحبؒ کے دور میں درستگی کے قابل ہوگئیں کہ ان کو درست کیا جائے، کیونکہ لوگوں نے ان کو غلط طور پر سمجھ لیا تھا۔ لیکن شیخ اکبرؒ پر کوئی اعتراض نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے دور میں ان کو استعمال کیا تھا۔ اُس وقت میں یہ خطرناک نہیں تھیں۔ یہی وہ چیز ہے جو شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ سمجھتے ہیں۔ باقی جو دوسرے لوگ نہیں سمجھتے، وہ ان کی خلاف باتیں کرتے ہیں۔ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے رد کیا ہے، لیکن انہوں نے ان کو برا نہیں کہا۔ ان کو ضرورت تھی۔ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ اکبرؒ کے فلسفے اور تمام چیزوں کا رد کیا ہے، لیکن انہوں نے شیخ اکبرؒ کو برا نہیں کہا، بلکہ ان کو اونچے درجے کے بزرگوں میں مانا ہے۔ یہ ان کی دیانت کی بات تھی اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو چونکہ پتا چل گیا کہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پیروی میں لوگوں نے ان کے کام پر رد کیا، تو ان کے ساتھ شیخ اکبرؒ پر بھی رد کرنے لگے، تو انہوں نے بھی شیخ اکبرؒ کا دفاع کر لیا، باقاعدہ عقلی و نقلی دفاع کر لیا۔ حالانکہ وہ بھی نقشبندی ہیں، اور اسی سلسلے سے ہم وابستہ ہیں، لیکن انہوں نے باقاعدہ حضرت شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کا عقلی و نقلی دفاع کیا ہے۔ تو یہی چیز ہے، یعنی اگر دیکھا جائے تو ہم لوگ بضرورت یہ چیزیں کرتے ہیں۔ ہاں! البتہ ایک بات ہے کہ اس طرح Sinusoidal wave چلتا ہے، یہ Mean point درمیان میں آتا ہے۔ اب یہ اوپر گیا ہے تو یہاں تک لانے کے لیے نیچے آنا پڑے گا۔ اور جس وقت وہ زور میں نیچے آ گیا تو اب اس لائن پر آنے کے لیے اِس کو اوپر جانا پڑے گا۔ تو یہ چیز تو ہر دور میں رہی ہے۔ ایک دور تھا کہ اہلِ بیت کی محبت میں لوگ صحابہ کو برا کہنے لگے۔ تو اہلِ سنت والجماعت نے صحابہؓ کی شان میں بہت اعلیٰ کتابیں لکھیں۔ اور جب دوسرا دور یعنی ناصبیوں کا دور آ گیا تو انہوں نے اہلِ بیت کو برا کہنا شروع کیا، تو پھر ہمارے ہی حضرات تھے، انہوں نے باقاعدہ ان کے حق میں کتابیں لکھنا شروع کیں اور ان کا دفاع کرنے لگے۔ تو یہ ساری چیزیں اس طرح بضرورت ہیں۔ اور اصل بات کیا ہے؟ وہ ہے درمیانی چیز۔ ’’خَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُہَا‘‘، اس کے اوپر آنا ہے۔ ﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ﴾ یہ بنیاد ہے۔ تو ہمارا کام یہی ہے۔ اِس وقت ہمارے سلسلے کی جو خدمت ہے، الحمد للہ جو شرحِ صدر ہے، اس کے بارے میں عرض کرسکتا ہوں، وہ یہی کام ہے، ہمارا کام یہی ہے، تمام سلسلوں کا دفاع جیسے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے، وہی ہمارا دفاع ہے۔ اور وقت کی ضرورت کے لیے جو طریقہ بھی مناسب ہو، اس کو استعمال کریں۔ اور اس کے لیے اللہ پاک نے جو ہمارے اوپر بات کھولی ہے کہ مجددوں کے کام کو سٹڈی کیا جائے کہ انہوں نے تجدید کیسے کی اور کیسے حالات کے مطابق انہوں نے حل سوچا ہے، اسی کی روشنی میں ہم بھی آج کل کے دور کے احوال کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ اسی وجہ سے ہمارے سلسلے کی جو امتیازی شان ہے، وہ یہی ہے کہ اس میں ہم لوگ چاہتے ہیں۔ اب ایسا نہ ہو کہ میری کسی کتاب میں آ جائے اور پھر کہیں کہ یہ اپنے سلسلے کو سب سے اونچا سمجھتا ہے۔ جیسے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اوپر بھی بات ہو رہی ہے کہ اپنے سلسلے کی بہت زیادہ باتیں کرتے ہیں، اور دسروں کی کم کرتے ہیں، نہیں بھائی! یہ ضرورت ہے۔ جب اِس وقت ضرورت ہے تو میں ضرورت کے مطابق بات کر رہا ہوں۔ جیسے حضرت نے فرمایا: اپنے اپنے دور میں، اپنے اپنے دور کے حساب سے دیکھا جائے گا۔ تو اس وجہ سے ہم کسی کے خلاف نہیں ہیں۔ اپنے اپنے دور میں بالکل صحیح تھے۔ اب ہمارے دور میں جس طرح کام کی ضرورت ہے تو ہم تو اس قسم کی بات کرسکتے ہیں۔ ہم کسی اور کے اوپر تنقید تھوڑا کر رہے ہیں۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ اِس وقت یہ کام اس طریقے سے مناسب ہے کہ چونکہ لوگوں میں افراط و تفریط زیادہ ہوگئی ہے، اور لوگ بڑے بڑے بزرگوں کے خلاف بھی اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں اور سلاسل میں ایک سلسلے کے ہو کر باقی سلسلوں کے خلاف باتیں کرنے لگے ہیں، تو یہ بات چونکہ یہ غلط ہے، اصولی طور پر یہ سارے ذرائع ہیں۔ اور جیسے میں حنفی ہوں لیکن میں شافعی مسلک کے خلاف نہیں ہوں، میں حنبلی مسلک کے خلاف نہیں ہوں، میں مالکی مسلک کے خلاف نہیں ہوں۔ اس طریقے سے میں اگر نقشبندی ہوں تو میں چشتیوں کے خلاف کیوں ہوجاؤں؟ مجھ پر اللہ پاک نے نقشبندی بزرگوں کی برکات زیادہ کھولیں، تو الحمد للہ اس میں اللہ کی حکمت ہے۔ اور میں ضرور ان سے استفادہ کروں گا۔ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں اس کی وجہ سے استفادہ نہ کروں؟ تو میں نقشبندی سلسلے سے ضرور استفادہ کروں گا۔ لیکن اس کے لئے یہ ضروری تو نہیں کہ میں چشتیوں کے خلاف باتیں کروں، میں سہروردیوں کے خلاف باتیں کروں، یا میں قادریوں کے خلاف باتیں کروں۔ یہ طریقہ تو ٹھیک نہیں ہے۔ تو بس ہمارے سلسلے کا طرۂ امتیاز یہی ہے الحمدللہ! کہ ایک تو جیسے حضرت نے فرمایا: اپنے اپنے دور کی بات کی جائے، اپنے اپنے دور کے حساب سے بات کی جائے۔ اور اس میں ہم لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ فلاں ایسا تھا، فلاں ایسا تھا۔ ہاں! اپنے اپنے دور میں سب صحیح تھے، جو اہلِ کمال ہیں، جس سلسلے کے جو بھی ہیں، وہ اپنے اپنے دور میں صحیح تھے۔ لیکن آپ کے اوپر ان کی باتیں حجت نہیں ہیں۔ آپ کے اوپر آپ کے دور کی باتیں حجت ہیں۔ جیسے ایک دفعہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہمارے ساتھی کو ہوئی، تو حضرت نے مجھے پیغام بھیجا کہ آپ کو میری نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ آپ جو کر رہے ہیں وہ میری بات ہے۔ یعنی حضرت نے میری باتوں کو Own کر لیا۔ یعنی یہ نہیں کہا کہ تم نے مجھے جو دیکھا ہے اُس طرح کر لو، کیونکہ تم اپنے دور کے حساب سے کام کرو گے۔ اور یہ تصوف کے عین اصول کے مطابق ہے۔ اصل تصوف کی جو بنیاد ہے وہ یہی چیز ہے کہ اس میں آپ اپنے شیخ سے کٹیں گے نہیں اگر آپ اپنے ترتیب سے کام کرنا چاہیں گے۔ یہی وہ چیز ہے جو کہ ہمارے ساتھی کو سمجھ میں نہیں آ سکی تھی۔ وہ آتے تھے ہماری مجلس میں بیٹھتے تھے اور بقول اس کے (میں تو اس کا ذمہ دار نہیں ہوں) خود ہی ان کے الفاظ تھے کہ مجھے شاہ صاحب سے بہت فائدہ ہوا۔ بس ٹھیک ہے اللہ پاک نے فائدہ دے دیا۔ لیکن شیطان تو آخر فارغ نہیں بیٹھا۔ تو ایک دفعہ خط لکھا حضرت مولانا مشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو کہ شبیر صاحب اس طرح ذکر کرتا ہے۔ یہ تو اچھا کہ انہوں نے ہمارا یہ ذکر نہیں دیکھا جو آج کل ہم کر رہے ہیں، ورنہ پھر تو ہمارے اوپر زبردست فتویٰ لگ جاتا۔ وہ تو ہم صرف اجتماعی ذکر کرتے تھے، تو اس کی شکایت کر دی کہ یہ کیا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تھا؟ وہ تو نہیں تھا، وہ تو مجھے بھی پتا تھا، باقیوں کو کیوں پتا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ نہیں اس طرح تو نہیں تھا۔ چلو جی! انہوں نے حضرت کا جو خط جواب تھا، وہ بھی بھیج دیا حضرت حکیم اختر صاحب کو اور پوچھا کہ حضرت! یہ اس طرح میں نے لکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہے۔ انہوں نے بھی تصدیق فرمائی کہ ہاں! بالکل صحیح کہتے ہیں، اس طرح تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ نہیں تھا۔ اس کے بعد پھر مجھے پیش کیا۔ میں نے کہا خدا کے بندے! آپ نے بہت ہی زیادہ تکلف کیا۔ خدا کے بندے! مجھے کہتے تو میں بھی یہی بات کرتا۔ میں نے اس کے علاوہ دوسری بات تھوڑی کرنی تھی۔ ان بزرگوں نے صحیح بات کی ہے، یہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ تو نہیں ہے۔ لیکن یاد رکھو! باوجود اس کے میں اشرفی ہوں اور تم نہیں ہو۔ اس پر وہ حیران ہو گئے۔ میں نے کہا باوجود اس کے کہ یہ طریقہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ نہیں ہے، لیکن میں اشرفی ہوں، تم اشرفی نہیں ہو۔ اس نے کہا وہ کیسے؟ میں نے کہا خدا کی بندے! وہ چیز میں نے سیکھی ہی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ہے، حضرت نے فرمایا تھا کہ مقاصد مقاصد ہوتے ہیں، ذرائع ذرائع ہوتے ہیں۔ مقاصد کے حصول کے لیے ذرائع ہوتے ہیں۔ ذرائع تبدیل ہو رہے ہوتے ہیں ہمیشہ۔ اور جیسے کہتے ہیں کہ جس حکیم میں اجتہاد نہ ہو تو وہ صحیح حکیم ہے ہی نہیں۔ اسی طرح جس شیخ میں بھی اجتہادی بصیرت نہ ہو، تو وہ شیخ ہی نہیں ہے۔ یہ حضرت نے فرمایا ہے۔ میں نے کہا اچھا! یہ تو ہو گئی تحقیقی بات۔ اب الزامی بات کرتا ہوں۔ میں نے کہا: یہ بتاؤ کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نقشبندی تھے؟ کہنے لگے: ہاں۔ میں نے کہا: چشتی تھے؟ کہنے لگے: ہاں۔ میں نے کہا: قادری تھے؟ کہنے لگے: ہاں۔ میں نے کہا: سہروردی تھے؟ کہنے لگے ہاں۔ چاروں سلسلے تھے۔ میں نے کہا: اس طرح قادری تھے جس طرح شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں؟ فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا اس طرح نقشبندی تھے جس طرح مجدد صاحب تھے؟ کہتے ہیں: نہیں۔ میں نے کہا اس طرح چشتی تھے جس طرح معین الدین چشتی اجمیری تھے؟ کہا: نہیں۔ میں نے کہا: اس طرح سہروردی تھے جس طرح خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ تھے؟ کہا: نہیں۔ میں نے کہا پھر کیسے چشتی ہو گئے، سہروردی ہو گئے، قادری ہو گئے؟ میں نے کہا ان چاروں کا ایک آدمی میں جمع ہونا ہی یہ ہے کہ وہ سب سے مختلف ہے۔ اور باوجود اس کے وہ ہے۔ مجھے اس معمہ کا جواب دو کہ آپ چشتی، سہروردی، قادری، نقشبندی کہتے ہیں بیک وقت ایک شخص کو، تو آپ بیک وقت ایک شخص کو جو کہتے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ان کی طرح ہونا ضروری نہیں ہے۔ ورنہ ایک آدمی چاروں کی طرح کیسے ہو سکتا ہے، جبکہ چاروں میں واضح فرق بھی ہے۔ ہر ایک میں اپنے اپنے واضح فرق ہیں، طریقۂ کار میں فرق ہے۔ تو ایک آدمی چاروں کی طرح کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ مجھے بتاؤ؟ یہ تو منطق کے اصول کے خلاف ہے۔ وہ پھنس گئے۔ میں نے کہا کہ یہی بات ہے۔ تو میں نے کہا کہ میں اشرفی ہوں، کیونکہ میں نے ایسی چیز مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علی سے سیکھی ہے، اور تم نہیں ہو۔ تم نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات سیکھی ہی نہیں ہے، آپ کو سمجھ ہی نہیں آئی۔ بس یہی بات ہے۔ الحمد للہ! اُس وقت میں نے تو اپنے وجدان سے جواب دیا تھا۔ بعد میں حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا جو ماشاء اللہ ارشاد مبارک مجھ تک پہنچا، اس میں یہی بات ہے کہ تم پر یہ لازم نہیں ہے کہ تم میری طرح کہ جس طرح میں نے کیا تھا، تم بھی اس طرح کرو، تم اپنے دور کے مطابق کام کرو گے، اور جو تم کرو گے وہ میرا کام ہوگا، وہ میرا طریقہ ہوگا۔ بالکل اسی طرح۔ بس سبحان اللہ، بات صحیح ہے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کرے کہ یہ چیز ہمیں سمجھ آ جائے، ورنہ اگر یہ چیز ہمیں سمجھ نہیں آئے گی تو پھر بڑی منہ کی کھانی پڑے گی۔ کیونکہ یہ ذرائع ہیں، یہ مقاصد نہیں ہیں۔ جس نے ذرائع کو مقاصد بنا لیا، تو شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے کہنے کے مطابق وہ بدعت فی الطریقت میں مبتلا ہوگیا۔ اس کو تصوف کے فوائد حاصل نہیں ہوں گے جو اس چیز میں مبتلا ہوگیا۔ تو اپنے آپ کو اس سے اٹھانا چاہیے۔ ذرائع کو ذرائع سمجھنا چاہیے، مقاصد کو مقاصد سمجھنا چاہیے، اور اس کے اندر غلوّ نہیں کرنا چاہیے۔ جو چیز جس درجے پر ہے، اسی درجے پر اس کو رکھے، پھر ماشاء اللہ اس کا فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ