اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج جمعرات ہے اور جمعرات کو ہمارے ہاں ’’ہمعات‘‘ آج کل پڑھائی جاتی ہے، جو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی بہت اہم کتاب ہے۔ آج نسبت سکینہ کے بارے میں ان شاء اللہ بات ہوگی۔
نسبت سکینہ:
ان نسبتوں میں سے ایک "نسبت سکینہ" ہے، ہم نے اسے کہیں نورِ طاعت کا بھی نام دیا ہے۔ اس نسبت کے تین شعبے ہیں۔
پہلا شعبہ "حلاوتِ مناجات" کا ہے۔ (سبحان اللہ) اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کو نماز، ذکر و اذکار اور دعا و استغفار کے ضمن میں یاد کرتا ہے تو نماز و ذکر و اذکار کے اعمال و الفاظ میں غیب کا جو رُخ پوشیدہ ہے، لامحالہ سالک کی توجہ ادھر مبذول ہوجاتی ہے اور اس کا نفس ناطقہ اجمالی اور ضمنی طور پر غیب سے آشنا ہوجاتا ہے اور اسے اس میں لذت ملنے لگتی ہے۔ چنانچہ اس طرح توجۂ غیب کا یہ ملکہ اس کے جوہر روح میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بظاہر ساکت و خاموش ہے، لیکن اس کا دل اس کیفیت سے پُر ہے۔ غیب کی طرف سالک کی یہ توجہ ایک اجمالی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے اسے "حلاوتِ مناجات" "آرام دل" رغبت بذکر" اور اسی طرح کے دوسروں ناموں سے تعبیر کیا گیا ہے۔
"توجۂ غیب" کی اس اجمالی کیفیت کے حصول کے بعد سالک طبعاً کثرت سے ذکر و دعا کرتا اور بہت زیادہ توبہ و استغفار میں مشغول رہتا ہے، ان امور کو دلی رغبت سے بجا لا کر دراصل وہ اپنے فطری تقاضے کو پورا کرتا ہے اور اپنی بصیرت اور مطالعہ کی مدد سے ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اگر ایک گھڑی وہ ان مشاغل کو نہ کرے تو اس کا دل بے قرار ہوجاتا ہے اور اس کی حالت اس عاشق کی سی ہوجاتی ہے جو اپنے محبوب سے جدا ہوگیا ہو۔ لیکن اس کے بعد اگر وہ پھر ان اشغال کو کرنے لگے تو اس کو وہی کیفیت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ پھر اس سے لذت اندوز ہونے لگتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اسی کیفیت کے لئے صبح و شام کا ذکر، افتتاحی دعائیں، رکوع و سجود، دنیا و آخرت کی بہبودی کے لئے اصرار و الحاح سے دعائیں کرنا اور جن و انس کے شر سے خدا کی پناہ چاہنا وغیرہ امور کو لازمی قرار دیا ہے۔
یعنی جس طریقہ سے لوگ کہتے ہیں تصوف کدھر ہے؟ کمال کرتے ہیں ویسے۔ جس طریقہ سے اللہ جل شانہٗ نے شرعی امور کے اندر مجاہدات رکھے ہیں، نماز میں مجاہدہ ہے، روزہ میں مجاہدہ ہے، زکوٰۃ میں مجاہدہ ہے، حج میں مجاہدہ ہے، اسی طریقہ سے اللہ جل شانہٗ نے شرعی امور کے اندر قلب کی اصلاح کی چیزیں بھی رکھی ہوئی ہیں یعنی قلب اگر اُن چیزوں سے ما شاء اللہ! حصہ لینے لگے، تو ان کو بہت ساری چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی ان سے اگر آشنا ہوجائے۔ تو ان میں ایک یہ بات بھی ہے، جس کی طرف حضرت نے اشارہ فرمایا کہ مسنون اذکار جو ہمیں دیئے جارہے ہیں اور جو مسنون دعائیں ہیں، اِن کے اندر اِس کیفیت کو رکھا گیا ہے یعنی توجہ الی اللہ۔
اصل میں اِن چیزوں کو لوگ عادتاً کرتے ہیں، بس فرق صرف اتنا ہے، وہ کیفیتاً نہیں کرتے، اگر یہ عادتاً سے کیفیتاً میں چلے جائیں، تو وہ چیزیں ان سے حاصل ہونے لگیں۔ مثلاً ’’مناجات مقبول‘‘ کو میں کہتا ہوں، ’’مناجات مقبول‘‘ جو ہے یہ مسنون دعا ہے، اس کو لوگ تلاوت کی طرح پڑھتے ہیں، حالانکہ دعا اور تلاوت میں بہت فرق ہے۔ تلاوت تو یوں سمجھ لیجئے ترتیل کے ساتھ قرآن کے انوارات کو لینے کا طریقہ ہے، اس میں ہر ہر لفظ اور ہر ہر آیت کے اپنے انوارات ہیں۔ اور جب وہ تلاوت انسان ترتیل کے ساتھ کرتا ہے، تو انوارات کے لئے راستہ کھل جاتا ہے، ان کے دل پہ طاری ہونے لگتے ہیں، اس وقت تجوید کے اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے اور ترتیل کے ساتھ تلاوت اگر کوئی کرتا ہے تو قرآن کے انوارات متوجہ ہوجاتے ہیں اور اگر تدبر فی القرآن کے ذریعہ سے انسان قرآن پاک کا مطالعہ کرے، تو معارف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یعنی قرآن کے اندر جو معارف ہیں، وہ متوجہ ہوجاتے ہیں۔ تو اللہ پاک نے اس میں راستے تو رکھے ہیں، لیکن لوگ اس چیز کو اس انداز میں لیتے نہیں ہیں، نتیجتاً اس سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اکثر میں عرض کرتا رہتا ہوں، اگرچہ میری زبان چھوٹی ہے، اس وجہ سے لوگ اس کو سمجھ نہیں پاتے، لیکن ہمارے جو خطبے ہیں، کیا یہ خطبہ ہوتا ہے؟ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ اس کو خطبہ کہا جاسکے، اس کو ہم مترنم تلاوت کہہ سکتے ہیں، جیسے کوئی ترنم کے ساتھ تلاوت کررہا ہو۔ مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے تھے اِدھر ہمارے ہاں مسجد صدیق اکبر میں، تو یہاں ایک لڑکا ایک جہادی ترانہ پڑھ رہا تھا، اُن دنوں اس کا بڑا زور تھا، افغانستان کا جہاد ہورہا تھا، ترانہ وہ اس طرح پڑھتا تھا: ’’اے دشمن اسلام خبردار خبردار‘‘ حضرت نے فرمایا کمال ہے، ترانہ بھی ترنم سے! سمجھ میں آگئی ناں بات؟ جب آپ دشمنوں کو للکارتے ہیں اس انداز میں، تو اس سے دشمن کے دل پہ کیا دہشت بیٹھے گی؟ وہ تو جھومے گا کہ ہاں کیا بات ہے۔ یہی وہ عجمیت ہے۔
ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے
پڑھا دیا ہے فقط زیب داستان کے لئے
لذت سے آشنا نہیں ہیں، ہم ان چیزوں کا حق نہیں ادا کرتے۔ ہم پنجاب میں، کے پی کے میں، سندھ کا مجھے پتا نہیں ہے، خطیبوں کو دیکھتے ہیں، وہ خطیب لوگوں کو بس جھومنے پر مائل کرتے ہیں کہ جھومیں، ان کو علوم و معارف نہیں دیتے، بس وہ جھومیں، یہاں تک کہ ان کو سمجھ بھی نہیں آتی کہ کیا کہا اور وہ جھوم رہے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا سمجھ کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں، بس صرف جھومنے کے ساتھ تعلق ہے۔ ایک دفعہ ہمارے ایک دوست تھے، اس کو تقریریں سننے کا بڑا شوق تھا، classfellow تھے، ظاہر ہے Nuclear Engineering کی classes میں تھے تو پڑھے لکھے آدمی تھے۔ تو علامہ نصیر الاجتہادی صاحب کا بیان تھا ٹی وی پر، ہم ڈائینگ ہال میں جارہے تھے کھانے کے لئے، تو میں نے دیکھا کہ ان کی تقریر جاری ہے اور یہ بھی بیٹھا ہوا ہے تقریر سننے کے لئے، تقریروں کا اس کو بڑا شوق تھا۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے واپس آرہے تھے تو تقریر ختم ہوگئی تھی، تو میں نے کہا عبدالرؤف صاحب! کیا کہا علامہ صاحب نے؟ اب تھوڑا سوچ میں پڑ گئے، کہتے ہیں کہا تو کچھ بھی نہیں۔ میں نے کہا اسی کو کہتے ہیں لفاظی۔ جیسے آپ نے بازار میں دیکھا ہوگا بچوں کو کہ جو مشین سی ہوتی ہے، اس سے پھول سا بنتا ہے، میٹھا جھاگ بنتا ہے، لچھا سے بنتا ہے۔ بس وہی چیز ہے، اس کو تھوڑا سا کرو تو کچھ بھی نہیں۔ تو اس کو کہتے ہیں شیشوں کا آسمان بنانا، ہوتا کچھ بھی نہیں اور سارے ایسے طومار باندھ لیتے ہیں کہ آدمی کہتا ہے واہ جی واہ، واہ واہ۔ تھوڑا سا ست نکالو تو پتا نہیں کچھ بھی نہیں کہا۔ تو یہ ہمارا طریقۂ کار ہے، ہم ایسی تقریروں کو سننا چاہتے ہیں۔ تو ایسی تقریروں سے علم خاک حاصل ہوگا۔ ہمارے پشتو والوں کو یہ طریقہ ہے کہ کوئی بہت تیز مولوی صاحب آجائے، بہت زبردست طومار باندھے یعنی جو دھڑلے کے ساتھ زبردست تقریر کرے تو کہتے ہیں ’’ظالم ملا و و کافرے مسئلے ئې وکړے‘‘ یعنی ظالم مولوی تھا، کافر مسئلے بتا دیئے۔ تو یہ معیار ہے ہمارا، اس میں پھر کیا چیز حاصل ہوگی اس سے؟ اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اسی وجہ سے ’’مناجات مقبول‘‘ سے بھی استفادہ نہیں ہو پاتا اور اسی وجہ سے خطبہ سے بھی لوگ زندہ نہیں ہوتے، خطبہ تو زندہ کرنے والی چیز ہے، حیات ڈالنے والی چیز ہے، لیکن یہاں خطبہ سے بھی زندہ نہیں ہوتے، ذکر سے بھی زندہ نہیں ہوتے، ’’مناجات مقبول‘‘ سے بھی اثر نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اصل چیز ہے ہی نہیں اس میں، اصل چیز درمیان سے نکل گئی، اس وجہ سے پھر یہ ذکر کرنا پڑتا ہے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ تاکہ کم از کم سمجھ تو آئے ناں، کچھ پتا تو چلے کہ ہم کیا کررہے ہیں، کچھ رب کے ساتھ تعلق تو بن جائے ناں۔ پھر اس کے بعد یہی مسنون اعمال ہیں، سارا کچھ اس میں ہے، لیکن پہلے ہم نے اپنی تیاری کرنی ہے کہ آیا جو ہم مناجات کررہے ہیں، اس مناجات میں ہمارا دل موجود ہے یا نہیں، ہم نماز پڑھ رہے ہیں، نماز میں ہم موجود ہیں یا نہیں، ہم دعا کررہے ہیں، دعا کے اندر اللہ کی طرف ہم متوجہ ہیں کہ نہیں ہیں۔ یہی تینتیس دفعہ ’’سُبْحَانَ اللهِ‘‘، تینتیس دفعہ ’’اَلْحَمْدُ للهِ‘‘، چونتیس دفعہ ’’اَللهُ أَكْبَرُ‘‘ کے اندر کیا کچھ نہیں ہے۔ صرف ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کے اندر کیا کچھ نہیں ہے۔ ملا کی آذان اور مجاہد کی آذان اور۔ اس میں اصل میں یہی بات بتائی گئی تھی۔ جب اس میں عملیت آجائے۔ تو اس ملا کا مطلب یہاں کا جو مولوی ہوتا ہے، جو گا کر خطبے دیتا ہے، اس کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے، اصل مولوی کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ کیونکہ خطبہ تو ڈرانے والا ہوتا ہے، بشیر و نذیر کا نظارہ کرانے والا ہوتا ہے، یہ ہوتا ہے، پھر ایسا خطبہ جو ہوتا ہے، وہ خطبہ ہوتا ہے، پھر اس میں انسان زندہ ہوتا ہے۔ تو یہاں پر بھی یہی بات ہے کہ توجہ ہو، یعنی بالکل دنیا کے لئے بھی مانگو اللہ تعالٰی سے، لیکن مانگو اس طریقہ سے جس طرح دعا کی جاتی ہے، اس میں بھی آپ کو روحانیت ملے گی۔ لیکن اگر آپ دین کی باتیں مانگیں، لیکن اُس طرح نہ مانگیں جس طرح سے مانگنا چاہئے، تو بس ٹھیک ہے ایک رسمی کاروائی ہوجاتی ہے، پوری ہوجاتی ہے، آپ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ میں نے دعا کرلی اور بس۔
توجہ غیب کی اس کیفیت کے حصول کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ سالک رسول اللہ ﷺ کی مشہور حدیث ’’قَسَمْتُ الصَّلٰوۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدَیْ الخ کی حقیقت کو اپنے ملحوظ خاطر رکھے یعنی اسے اس بات پر یقین ہو کہ بندہ جو کچھ خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے، خدائے رب العزت بندے کی ان معروضات کو سنتا اور ان کا جواب دیتا ہے، جیسا کہ اوپر کی حدیث میں وارد ہوا ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے، جب بندہ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ کہتا ہے، تو اس کے جواب میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی اور جب بندہ ﴿اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ کہتا ہے، تو فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثناء کی اور جب بندہ ﴿مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ کہتا ہے، تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندہ نے میری بزرگی بیان کی اور جب بندہ ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ کہتا ہے، تو خدا فرماتا ہے کہ یہ چیز خاص میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور جب بندہ ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اِلیٰ آخِرِہٖ﴾ کہتا ہے، تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ چیز خاص میرے بندے کے لئے ہے اور میں نے اپنے بندہ کا سوال پورا کردیا۔ غرضیکہ جو شخص توجۂ غیب کی اس کیفیت کو حاصل کرنا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ طویل سجدے کرے، دعا و استغفار میں اصرار و الحاح کرے اور کثرت سے ذکر و اذکار کرے۔ اس بات کا بھی خیال رہے کہ رسول اللہ ﷺ اور دوسرے پیغمبروں نے اللہ کی ذات میں غور و فکر کرنے کا ہرگز حکم نہیں فرمایا بیشک آپ ﷺ نے تعظیمی افعال اور دعائیہ اقوال کے ضمن میں اس بات کی ضرور اجازت دی ہے۔ چنانچہ یہی آپ ﷺ کے بعد صحابہ کا مسلک تھا اور اسی پر تابعین کا عمل رہا۔
"نسبت سکینہ" کا دوسرا شعبہ "شمولِ رحمت" کا ہے۔ اس کی حقیقت سمجھنے کے لئے ایک مقدمہ کی ضرورت ہے۔ بات یہ ہے کہ جب نفس ناطقہ میں جبلی طور سے اور نیز کوشش و ہمت کی مدد سے یہ استعداد پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ ملائکہ سے الہام قبول کرسکے (یعنی روحانیت اس میں آجائے) تو اس منزل میں اس کے نفس کی صلاحیتیں اپنے کمال کو پہنچتی ہیں اور اس کی بہیمی قوت کے شعلے بجھ جاتے ہیں۔ اس وقت اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ قوت بہیمی یکسر معدوم ہوجاتی ہے یا اس میں کوئی کمی آجاتی ہے، بلکہ بہیمی قوت کے شعلے بجھ جانے سے مراد یہ ے کہ نفس پر ملکی قوت کا غلبہ ہوتا ہے اور انسان کی بہیمی قوت ملکی قوت کے رنگوں میں سے کسی رنگ میں رنگی جاتی ہے۔ یہ مقام انسانی کمالات میں سے ایک کمال ہے اور جو شخص اس کمال کی طرف پوری طرح متوجہ ہوجائے اس کے سامنے راحت اور پاکیزگی سے بھرا ہوا ایک دریائے بے کراں ظہور پذیر ہوتا ہے اور وہ اس میں سے جتنا زیادہ سے زیادہ پیتا ہے، اسی قدر اس کی پیاس بڑھتی جاتی ہے۔
تعالیٰ اللہ زہے دریائے پر شور
کزوبر تشنہ آرد تشنگی زور
گر ازوے تشنہ صد جرعہ نو شد
برائے جرعہ دیگر خروشد
گذشت ایں گفتگو از چوں و از چند
نہ آب آخر شود نے تشنہ خورسند
حق سبحانہٗ کا یہ فضل و کرم ہے کہ اس نے "نسبتِ شمولِ رحمت" کی اس کیفیت کے اکتساب کے چند طریقے مقرر فرما دیئے ہیں۔ جن پر عام و خاص اور ذکی و غبی یکساں طور پر عمل کرسکتے ہیں۔ حق سبحانہٗ نے ان طریقوں کو انبیاء علیہم السلام کی زبانوں سے خلق کے لئے واضح بھی فرما دیا "شمولِ رحمت" کے ان طرقِ اکتساب کا لب لباب یہ ہے کہ اول تو سالک کے دل پر ذات حق کے عقیدے کا پورا پورا تسلط ہو اور اس کے بعد سالک اپنے اعضا و جوارح کو ان اعمال کا عادی بنائے جن کی صورتیں مدت ہائے دراز سے ملاء اعلیٰ کے ذہنوں میں متمکن ہیں اور ان اعمال کی خوبی کا نقش وہاں پوری طرح جم چکا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات میں کامل اعتقاد کے معنی یہ ہیں کہ اس کی مرضی پر سالک پوری دل جمعی اور ثابت قدمی سے اپنی رضامندی کا عزم بالجزم کرے اور اپنے آپ کو کلیتاً اس راہِ وسط پر لگا دے، جس میں کہ نفس کی بھلائی اور بہتری ہے۔ اس کے بعد اعضا و جوارح کی اعمال کا معاملہ ہے۔ سو ان کی حقیقت یہ ہے کہ ملاء اعلیٰ جن کی تمام تر توجہ کا مقصود انسانوں کی تکمیل ہے، یہ اعمال ان ملاء اعلیٰ کے ذہنوں میں متشکل ہوچکے ہوتے ہیں۔ ملاء اعلیٰ میں ان اعمال کی تشکل کی مثال یوں سمجھئے کہ ہم میں سے ایک شخص ایک تخت بنانے کا مشتاق ہے۔ چنانچہ یہ شخص اس تخت کی صورت کو اپنے ذہن میں اس طرح جاگزیں کرلیتا ہے گویا کہ وہ تخت کو مادی شکل میں اپنے سامنے دیکھ رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اعمال ملاء اعلیٰ کے ذہنوں میں کیسے متشکل ہوگئے؟ اس کی صورت یوں ہوئی کہ خدا کے صالح اور نیکوکار بندوں نے نسلًا بعد نسلٍ ان اعمال ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب ڈھونڈا اور ان بزرگوں کی نیکیوں کے صحیفے ان اعمال ہی سے بھرے گئے۔ چنانچہ اس وجہ سے ان اعمال کو ملاء اعلیٰ میں ایک مستقل حیثیت حاصل ہوگئی۔ اب حالت یہ ہے کہ جب کوئی شخص ان اعمال کو بجا لاتا ہے تو ملاء اعلیٰ کی جانب سے اس شخص کی طرف رضا و سرور کی ایک رو چلتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ ان اعمال کی صورتیں صالحین کے ذہنوں اور ان کے جوراح میں موجود ہوتی ہیں اور یہی وہ صورتیں ہیں جو ملاء اعلیٰ میں متشکل ہوچکی ہیں۔ چنانچہ ان اعمال کے کرنے سے آدمی میں یہ استعداد پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ ملاء اعلیٰ کے الہام کو قبول کرسکے۔
اس ضمن میں کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ملاء سافل یعنی ادنیٰ درجے کے فرشتے ملاء اعلیٰ سے رضا و پسندیدگی کی کیفیات اخذ کرتے ہیں۔ اور یہ فرشتے ذکر کرنے والے اشخاص کے اردگرد حلقہ باندھ لیتے ہیں یا ان کے نیچے اپنے بازو بچھاتے ہیں اور انسانوں اور بہائم کے دلوں میں اس بات کا الہام کرتے ہیں کہ وہ ان ذکر کرنے والوں کو ہر جانب سے نفع پہنچائیں۔ چنانچہ اس طرح یہ چیزیں ان کی جان، ان کے مال اور ان کی اولاد کے لئے خیر و برکت اور آسودگی و سلامتی کا باعث بنتی ہے۔
لفظ ملاء اعلیٰ یہ احادیث شریفہ میں ہے، تشریح اللہ والوں نے کی ہے یعنی وہ فرشتے اور مقربین کی ارواح جو وہاں پر ہیں، ان کو اللہ جل شانہٗ نے جو ذوق دیا ہے اعمال کا، وہ ذوق ان کے سامنے ہے۔ سائنس کی زبان میں اگر میں کہوں اگر اسی طرح کوئی یہاں پر بھی متوجہ ہوجائے اُس انداز میں اُس عمل کی طرف، تو وہاں پہلے سے وہ چیز موجود ہے، تو reason اس کی وجہ سے connection ہوجاتا ہے اور ملاء اعلیٰ سے وہ چیزیں اُدھر آنے لگتی ہیں۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ چونکہ یہاں تو نفس حاوی ہے، لہٰذا اپنے آپ کو بچا کے رکھنا اور اپنی کیفیت کو بچا کے رکھنا مشکل ہوتا ہے، لیکن جب ملاء اعلیٰ کے ساتھ connection ہوجاتا ہے، تو وہاں تو نفس نہیں ہے، تو وہ ایک دریا کی طرح جب سامنے آجاتا ہے، تو یہاں کا نفس مغلوب ہوجاتا ہے، یہ کیفیتِ سکینہ ہے، اس کے ذریعہ سے لوگوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ اصل میں واقعتاً میں اگر کچھ عرض کرسکوں، بزرگوں کی ارواح، انہوں نے جن چیزوں پر محنت کی، ان کو محبوب ہوتی ہیں، اب یہاں کوئی اس کی فکر کرنا شروع کرلے، تو وہاں بس سبحان اللہ connection ہوجاتا ہے اور وہاں کے فیوض و برکات آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ اصل میں ایک پورا نظام ہے، بعض بزرگوں نے اس میں یہ بات بھی کی ہے کہ ہم لوگ جو معمولات کرتے ہیں، اس کے لئے کوئی خاص وقت اگر کوئی مقرر کرتا ہے، تو اس میں زیادہ فائدہ ہوتا ہے، (میں عملیات کے رخ سے بات نہیں کررہا ہوں) جو حضرات ملاء اعلیٰ کے ہیں، ان کو چونکہ اس وقت کے ساتھ بھی مناسبت ہوجاتی ہے کہ اس وقت میں ان کے ساتھ signal on ہوجاتا ہے، تو ان کی توجہ اس وقت ہوتی ہے اور جب اس وقت وہ چیز نہیں ہوتی، کسی اور وقت پہ چلا جاتا ہے، تو میدان خالی ہوتا ہے، پھر بے برکتی ہوجاتی ہے۔ اب یہ نکتہ سمجھانا بہت مشکل کام ہے، اس کے لئے پوری ترتیب سمجھنی پڑے گی، تب آپ کو بات سمجھ میں آئے گی۔ مجھے اکثر ساتھی بتاتے ہیں، بعض دفعہ تو میں سمجھتا ہوں کہ شاید ان کو اس کا پتا ہوگا، اس لئے میں بتاتا نہیں، لیکن جب اس قسم کی بات کہہ دیتے ہیں، تو پھر میں ان کو بتا دیتا ہوں، سمجھا دیتا ہوں۔ بعض لوگ ہمارے سلسلہ کا ذکر ڈرائیونگ کرتے کرتے کرتے ہیں، تو میں نے کہا پھر آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟ آپ کا تصور ڈرائیونگ کی طرف ہوگا یا ذکر کی طرف ہوگا؟ بھائی! اگر آپ ثواب والا ذکر کریں، تو اس درجہ کا ثواب مل جائے گا جتنے درجہ کی آپ کی توجہ ہے، کیونکہ اس میں کیفیت مطلوب نہیں ہے، ثواب مطلوب ہے، تو وہ تو کرسکتے ہو، آپ کہہ سکتے ہیں کہ چلو جی آپ کو Hundred percent نہیں ملتا، تو آپ کو Ten percent مل جائے گا، Fifteen percent مل جائے گا، لیکن ثواب مل جائے گا کسی نہ کسی درجہ میں، لیکن اگر آپ کرتے ہی کیفیت کے لئے ہیں، تو کیفیت کیسے پیدا ہوگی؟ کیفیت پیدا ہوگی تو گاڑی الٹے گی اور گاڑی نہیں الٹے گی تو کیفیت نہیں ہوگی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے کیفیت کو صفر سے ضرب دے دی، تو پھر آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیونکہ اس میں مقصود کیفیت ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! ہم جو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں، اس میں تجوید کے قواعد پر عمل نہیں ہوتا۔ حضرت نے فرمایا اس میں تجوید کے قواعد پر عمل مقصود ہی نہیں ہے، اس میں تو کیفیت مقصود ہے۔ مثلاً ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، اب ’’لَآ‘‘ میں دور چلے گئے، جیسے کسی چیز کو آپ دور پھینک رہے ہیں، تو ’’لَآ‘‘ اب کون سا قانون ہے تجوید کا؟ تجوید کا قانون تو گیا، لیکن آپ کا جو تصور بنا ہوا ہے ’’لَآ‘‘ کے ساتھ وہ مطلوب ہے، اس کا آپ کو فائدہ ہورہا ہے، آپ ذہن میں جو پھینک رہے ہیں یعنی اس چیز کو جو ’’لَآ‘‘ سے پھینکنا ہے، وہ آپ کو فائدہ ہورہا ہے، تو وہاں پر تجوید کے قوانین مقصود ہی نہیں ہیں۔ مجھے بتاؤ! جو ہم کہتے ہیں ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ یہ تجوید کا کون سا قاعدہ ہے، کوئی ہے قاعدہ اس طرح؟ جنہوں نے اس طرح ذکر جہری کیا ہوتا ہے، وہ جب تکبیر کہتے ہیں امام کے پیچھے، تو ان کی ضرب لگتی ہے ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ تو پتا چلتا ہے کہ یہ ذاکر ہے۔ یہاں تک کہ بزرگ اس کی اتنی احتیاط کرتے ہیں کہ جو ذاکر شخص ہوتا ہے، اس کو پورا کلمہ بتاتے ہیں، کہتے ہیں جب اضافی ذکر کرو تو اس میں پورا کلمہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ پڑھو، صرف ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ نہ پڑھو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ پڑھتا ہے، تو اس سے ضرب لگتی ہے اس کو غیر اختیاری طور پر اور ضرب دوائی ہے اور دوائی کی excess نہیں ہونی چاہئے، جتنی ضرورت ہے، اتنی ہی کرسکتے ہو، اس سے زیادہ کرو گے تو نقصان ہوسکتا ہے۔ اب میں آپ کو ایک بات بتاؤں، بہت زبردست علم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ذکر سے فلاں کا دماغ آؤٹ ہوگیا۔ ذکر سے کسی کا دماغ آؤٹ نہیں ہوتا، لیکن ضرب و جہر سے ہوسکتا ہے، کیونکہ ضرب و جہر ایک اضافی چیز ہے، یہ ذکر کا حصہ نہیں ہے، یہ تو ذکر کا carrier ہے۔ جیسے آپ پیٹرول لے جارہے ہیں، تو پیٹرول کی گاڑی carrier ہے، تو پیٹرول اور چیز ہے، اس کا carrier اور چیز ہے، تو اگر آپ نے اس carrier میں کچھ چیزوں کا خیال نہیں رکھا، تو نقصان ہوسکتا ہے، مثلاً صحیح جگہ پہ ضرب نہیں لگی، ضرورت سے زیادہ ضرب ہے، ضرورت سے زیادہ تعداد کے ساتھ ضرب لگ گئی، مثلاً سو دفعہ آپ کو کہا گیا تھا، آپ دو سو دفعہ کررہے ہیں، تین سو دفعہ کررہے ہیں۔ اب یہ چیزیں چونکہ آپ کے لئے ذکر کا حصہ نہیں ہیں، یہ دوائی کا حصہ ہیں، تو دوائی میں تعداد اور مقدار ہوتی ہے، تو اگر آپ مقدار کا خیال نہیں رکھتے، تو نقصان ہوسکتا ہے۔ تو نقصان کبھی بھی ذکر سے نہیں ہوتا، کس سے ہوتا ہے؟ ضرب و جہر کے ذریعہ سے ہوتا ہے، کیونکہ یہ مقصود نہیں ہے، یہ ذریعہ ہے کیفیت کو حاصل کرنے کا۔ اور دوائی اور دوائی کی مقدار آپ اپنی مرضی سے نہیں مقرر کرسکتے، وہ ڈاکٹر کی مرضی سے ہوگی۔ اب paracetamol کی کوئی بیس گولیاں کھا لے گا تو ہسپتال جانا ضروری ہوجائے گا، حالانکہ صبح دوپہر شام ہر ایک کھاتا ہے جب بیمار ہوتا ہے، لیکن بیس گولیاں کھائے گا تو ہسپتال جانا ضرور ہوجائے گا۔ تو جو ضرب و جہر ہے، یہ ایک اضافی چیز ہے۔
"نسبتِ شمولِ رحمت" کی اصل حقیقت کی وضاحت سے پہلے جو مقدمہ ضروری تھا، اس کا تو بیان ہوچکا۔ اس کے بعد اب معلوم ہونا چاہئے کہ بارہا اس امر کا مشاہدہ ہوچکا ہے کہ ذکر کی مجالس میں اور خاص طور پر جب وہ مجالس ذکر مساجد میں قائم ہوں، ذاکرین کی جماعت جب نماز و ذکر میں مشغول ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھی نہیں گزرتی کہ ان پر ملائکہ کی طرف سے برکات نازل ہوتی ہیں اور یہ برکات نسیم معطر کی طرح ان کے نفوس کا احاطہ کرلیتی ہیں، خواہ ذاکرین کی یہ جماعت اس وقت حضوری و مناجات کی صفت سے متصف ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو اور نیز اس ضمن میں اس امر کا بھی بارہا مشاہدہ ہوچکا ہے کہ جب کوئی شخص اسم "اللہ" کا ذکر پوری طرح شد اور ترتیل کے ساتھ کرتا ہے تو اس اسم مبارک کی صورت شعلۂ نور کی مانند ان ملائکہ کے نفوس میں نقوش ہوجاتی ہے جو ذکر پر موکل ہیں۔ اور جب یہ شخص بکثرت ذکر کرتا ہے تو اسم مبارک کی یہ صورت ان فرشتوں سے اوپر جو اور فرشتے ہیں، ان کے نفوس میں نقش ہوجاتی ہے اور اس طرح یہ صورت ترقی کرتے کرتے خطیرۃ القدس کے مقام میں پہنچ جاتی ہے اور وہاں سے یہ صورت تجلی الہٰی میں جو شخص اکبر کے لئے بمنزلہ دل کے ہے، جاگزیں ہوجاتی ہے اور یہ جو ہمارے رسول مقبول علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ "فرشتہ جب اسے لے کر اوپر چڑھتا ہے تو رحمٰن کا چہرہ اس سے شرما جاتا ہے" تو اس سے یہی معنی مراد ہیں۔
بعض دفعہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ نور نے ذاکر کے گرد و پیش کا احاطہ کرلیا اور اس سے ذاکر کے اردگرد کی ساری فضا بقعۂ نور ہوگئی۔ باقی ان معاملات کو اللہ بہتر جانتا ہے۔ الغرض محض ذکر سے فضا کا پر نور ہوجانا، یہی بات ہے کہ جس کی بناء پر شارع نے نماز کے لئے حضوری کی شرط نہیں لگائی۔ یعنی بعض دفعہ محض زبان سے خدا کا ذکر کرنا ہی فیضان نور کا باعث ہوجاتا ہے، اسی طرح طاعات کی بھی بہت سی قسمیں ایسی ہیں کہ گو بسا اوقات وہ مناجات کی مثیل نہیں ہوتیں۔ لیکن یہ برکات کے نزول کا باعث ضرور بن جاتی ہیں، چنانچہ اسی بناء پر ان کے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی طاعت قربانی دینا، خانہ کعبہ کا طواف کرنا، صفا و مروہ کے درمیان سعی، کعبہ کی زیارت، روزہ، صدقہ، جہاد، مریض کی عیادت، جنازے کے ساتھ جانا اور اسی طرح کے اور اعمال خیر ہیں۔
یعنی اللہ پاک نے ان تمام اعمال کے اندر اپنی نورانی کیفیات رکھی ہیں، تو اگر کسی کو ما شاء اللہ! ان کے ساتھ مناسبت ہوجائے، تو پھر وہ ساری چیزیں ان کو ملنے لگتی ہیں۔
"نسبتِ شمولِ رحمت" کے حصول کے ضمن میں ہوتا یہ ہے کہ جوں جوں انسان ان اعمال و اذکار کو کرتا ہے، اس کا نفس بتدریج "شمولِ رحمت" کے رنگ کو قبول کرتا جاتا ہے، یہاں تک کہ یہ رنگ اس کے لئے مستقل ملکہ کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ اس فقیر کے نزدیک یہ حدیث وہ قرب مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے، جو کسی بندے نے فرائض کو سرانجام دینے سے حاصل کیا ہو۔ نیز میرا بندہ نوافل سے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس کے کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے" اسی مطلب کی وضاحت کرتی ہے۔
"شمولِ رحمت" کی یہ صفت چونکہ فرائض میں بیشتر پائی جاتی ہے، اس لئے حق سبحانہٗ کی محبت ملاء اعلیٰ کی وساطت سے اسی جانب زیادہ ملتفت رہتی ہے اور جب کوئی شخص کثرت سے نوافل ادا کرتا ہے تو حق سبحانہٗ کی طرف سے ایک نور ملائکہ کے نور کے توسط سے اس شخص کی روح میں داخل ہوتا ہے اور اس طرح اس شخص کی روح کو گھیر لیتا ہے کہ اس کی روح کا تمام تر قیام و انحصار اس نور پر ہوجاتا ہے یعنی حق سبحانہٗ کا یہ نور اس شخص کی روح کے لئے قیّوم بن جاتا ہے اور یہی نور سبب بنتا ہے اس شخص کی دعاؤں کے قبول ہونے کا اور ذریعہ ہوتا ہے مکروہات اور بری چیزوں سے اس کے بچنے کا اور یہ امر بارہا مشاہدہ میں آچکا ہے۔ حق سبحانہٗ کے نور کا ایک شخص کی روح کا قیوم بن جانا، اس کی مثال ایسی ہے، جیسے کہ کپڑے کا ایک شیر یا مچھلی ہو اور ان میں ہوا بھر دی جائے اور ہوا کی وجہ سے یہ حرکت کرنے لگیں۔ اب اس ہوا میں پانی کے اجزا بھی تھے، چنانچہ پانی کا اثر ہوا کے ذریعہ سے کپڑے کے اس شیر یا مچھلی کے ہر ہر عضو میں پہنچ گیا۔
ماہمہ شیراں ولے شیر علم
جنبش از باد باشد دم بدم
نور الہٰی کی قیومیت کی اس حقیقت کو سب سے بہتر تو خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ سورۃ نور میں ارشاد فرمایا:
﴿مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے کہ طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو۔ حضرت ابن عباس نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے ’’مَثَلُ نُوْرِہٖ فِیْ قَلْبِ الْمُؤْمِنِ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ‘‘ یعنی اللہ کا نور جب مومن کے قلب میں جاگزیں ہوجاتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک طاق ہو اور اس میں چراغ رکھا ہوا ہو۔
اصل میں اس کو تھوڑا سا اگر میں سائنس کی دنیا میں بات کروں، آج کل جیسے چیزیں سامنے آرہی ہیں کہ mass کو بھی energy کی shape میں study کیا جارہا ہے String theory سے۔ اصل میں جو mass ہے، یہ بھی energy ہی کی ایک shape ہے یعنی جتنی چیزوں کو باریکی میں دیکھتے جاؤ، دیکھتے جاؤ، دیکھتے جاؤ، دیکھتے جاؤ تو اخیر میں سارے waves میں ہوں گی، یہی وجہ ہے کہ Gravity force جو ہے، اس کو graviton اور protons کی طرح بنا لیا ہے یعنی graviton کو proton کے انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ تو اب یہی بات ہے کہ ملائکہ یہ نور کے پورے نظام کے carrier ہیں، تو اس ذریعہ سے جو انسان ذکر کرتا ہے، اس سے وہ پورا نظام حرکت میں آتا ہے ملائکہ کا نظام، پھر ذکر کا نور اور ملائکہ کا نور مل کے ایک پورے نظام کو vibrat کرنا شروع کرلیتے ہیں، نتیجتاً جو چیزیں ہمارے لئے بڑے فاصلہ پر ہیں، لیکن وہ فاصلے کوئی اہمیت پھر نہیں رکھتے، اور بڑھتا جاتا ہے کیفیت کے ساتھ، جیسے ابھی فرمایا کہ پہلے سافل ملائکہ کا تعلق ہوجاتا ہے، پھر اس کے بعد اعلیٰ ملائکہ کا ہوجاتا ہے، پھر اس کے بعد اور آگے جاتا ہے، پھر اور آگے جاتا ہے حتیٰ کہ عرش تک بات پہنچ جاتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہوجاتا ہے۔ یہ وہ شمولِ رحمت والا concept ہے، اس کے ذریعہ سے انسان اللہ پاک کے نور ساتھ، یعنی اللہ پاک کا جو نور ہے وہ اس کا قیّوم بن جاتا ہے اور اس کے تمام مسائل اس کے ذریعہ سے حل ہوتے ہیں۔
"شمول رحمت" کی نسبت کا تیسرا شعبہ "اسمائے الہیہ کے انوار میں نفس کا رنگا جانا" ہے۔ اس کی حقیقت بیان کرنے سے ایک مقدمہ کی ضرورت ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اسمائے الہیہ خواہ وہ اسمائے بسیط ہوں، جیسے کہ اللہ، رحمٰن، رحیم ہیں یا وہ اسمائے مرکبہ ہوں، جیسے قرآن مجید کی وہ آیتیں اور دعائیں ہیں جو ذات واجب کی صفات پر دلالت کرتی ہیں، مثلاً آیت الکرسی، ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ﴾ یا سورۃ حشر کی آخری آیتیں۔ الغرض خدا تعالیٰ کے یہ بسیط اور مرکب اسماء عالم مثال میں اپنی مستقل صورتوں کے ساتھ موجود اور قائم ہیں۔ چنانچہ میں نے جب ان کی مثالی صورتوں کو بنظر تعمق دیکھا تو مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ اسمائے الہیہ کی ان صورتوں کے عناصرِ بدن تو قوت مثالیہ سے ہیں اور ان کا تخیل ملاء اعلیٰ کی طرف سے ہے۔ اور ان صورتوں کی روح ان اسماء کی اپنی ذاتی اور اضافی صفات ہیں۔ ذاتی صفات جیسے اللہ، رحمٰن، رحیم اور اضافی صفات جیسے رزاق اور قھار وغیرہ ہیں۔ اس کے ساتھ میں نے یہ بھی دیکھا کہ عالم مثال میں اسماء کی یہ صورتیں اور قالب سرتاپا نور ہی نور ہیں۔
مقدمہ تو یہاں ختم ہوگیا۔ اب ان اسمائے الہیہ کے رنگ میں نفس کے رنگے جانے کا بیان شروع ہوتا ہے۔ اس ضمن میں جاننا چاہئے کہ مرد مومن جب ان اسمائے الہیہ کا سچی نیت اور پوری توجہ سے ذکر کرتا ہے اور اس کا دل ان اسماء کو اپنے اندر محفوظ کرنے کی جدوجہد میں کلیتاً مصروف ہوجاتا ہے، تو اس شخص کے باطن کی طرف اسمائے الہٰی کی ان مثالی صورتوں سے ایک دروازہ کھلتا ہے، جس سے اس کے دل پر نور اور ٹھنڈک کا نزول ہوتا ہے اور وہ اس کیفیت میں بڑی لذت محسوس کرتا ہے۔ اس شخص کو جب ان اسماء کے ذکر میں لذت ملتی ہے، تو وہ اور زیادہ تن دہی اور ہمت سے اس ذکر میں لگ جاتا ہے۔ چنانچہ جتنی زیادہ تن دہی سے وہ ان اسماء کا ذکر کرتا ہے، اسی حساب سے اس پر انوار کا فیضان بڑھتا جاتا ہے اور دراصل یہی وہ سبب ہے، جس کی بناء پر انبیاء علیہم السلام ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ جو دعائیں ماثور اور مقرر ہیں۔ دعا کرنے والا ان دعاؤں کے الفاظ اور صیغوں کا پورا پورا لحاظ رکھے اور اسی وجہ سے انہوں نے ان اسماء الہٰی میں سے بعض کو اسم اعظم قرار دیا ہے۔ اور بعض دعاؤں کی خاص خاص تاثیرات بیاں فرمائیں۔ اور اسی لئے اس سلسلہ میں انہوں نے اس امر کو ضروری تسلیم نہیں کیا کہ دعاؤں کی تاثیر صرف اسی وقت ہوگی جبکہ دعا کرنے والا ان دعاؤں کے خواص سے واقف ہوچکا ہو، چنانچہ ذکر کی مجالس میں بارہا یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جوں ہی ذاکر کی زبان سے "اللہ" کا اسم نکلا تو فوراً ہی اس اسم سے ایک عظیم الشان حقیقت بڑے جوش و خروش سے ظاہر ہوئی اور اس نے ذاکر کے دل کو گھیر لیا۔ "اللہ" کے اسم کی اس حقیقت سے ایک شاہراہ جو بڑی کشادہ ہے، ذات حق کی طرف کھلتی ہے۔
اس ضمن میں فقیر کو اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ "دعوت اسماء" والوں میں سے جب کوئی شخص اسمائے الہٰی میں سے کسی اسم کے ذکر میں مشغول ہوجاتا ہے اور وہ اس اسم کی اس قدر تلاوت کرتا ہے کہ اس اسم کا عالم مثال میں جو قالب ہے اس تلاوت کرنے والا کا دل اس مثالی قالب کی حقیقت سے متصل ہوجاتا ہے، تو اس کے اور اس اسم کے درمیان ایک کشادہ راہ کھلتی ہے اور اس کے بعد اس اسم کے مخصوص آثار خواہ وہ عالم انفس میں ہوں یا عالم آفاق میں اس اسم کی طرف ذرا سی توجہ کرنے یا اس اسم کے نور سے رابطہ پیدا کرنے سے تلاوت کرنے والے پر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ اسی طرح ایک عبادت گزار جب نماز، ذکر اور دوسری طاعات میں مشغول ہوتا ہے اور کثرت سے نماز پڑھتا اور ذکر و طاعات کرتا ہے تو اس طاعت کا نور جو عالم مثال میں اپنی ایک مستقل صورت رکھتا ہے، اس عبادت گزار سے اتصال پیدا کرلیتا ہے اور اس کے نفس کا احاطہ کرکے یہ نور اس کا مربی بن جاتا ہے۔ الغرض ان احوال میں سے کسی حال میں بھی جب سالک اپنی چشمِ ہمت کو اس نور سے پیوستہ کردیتا ہے اور وہ اس کی طرف کلیتاً متوجہ ہوجاتا ہے، تو اس مقام پر پہنچ کر یہ شخص قوائے الہٰی کو انفس یعنی لوگوں کے نفوس اور آفاق یعنی عالم کائنات میں برسرکار لانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے عابدوں کو یہی نسبت حاصل تھی اور ان کی دعاؤں کا قبول ہونا اور اس طرح کے اور عجیب عجیب آثار، کرامات جو ان سے ظاہر ہوتے تھے اسی نسبت کی برکت سے ان کو یہ خصوصیت حاصل تھی۔
اس نسبت کو حاصل کرنے کا سب سے یقینی طریقہ یہ ہے کہ اسم "اللہ" کا ذکر کیا جائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ذکر کے وقت دل ادھر ادھر کے پریشان کن خیالات سے خالی اور اس کا پیٹ بول و براز اور ریح سے فارغ ہوچکا ہو۔ ذاکر کو چاہئے کہ ذکر کے وقت نئے سرے سے وضو و طہارت کرے۔ اور ایک ہزار بار اسم "اللہ" کا ذکر کرنے کے بعد درود پڑھے۔ ذکر کرتے وقت وہ لفظ "اللہ" کی تشدید پر زور دے اور اس لفظ کو اس کے صحیح مخرج سے نکالے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دورانِ ذکر میں وہ اس نور کا تصور کرتا جائے جو فضا میں پھیلا ہوا ہے۔
چنانچہ جب وہ اس طریق سے چند ہزار بار اسم "اللہ" کا ذکر کرے گا تو یقیناً اس نور سے اس کا اتصال ہوجائے گا۔ اس کے بعد یہ حالت ہوگی کہ اگر یہ شخص تسبیح، تحمید، تہلیل، استغفار، اور لاحول پڑھنے کی طرف ذرا سی توجہ کرے گا تو وہ نور ان صفات کے رنگ میں جن کی طرف تسبیح و تحمید کے یہ کلمات اشارہ کرتے ہیں، متشکل ہوکر اسے نظر آنے لگے گا اور اس کے آثار بھی "جہان انفس و آفاق" میں ظاہر ہوں گے۔
اس نسبت کو نماز میں حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سالک نماز کو تو ہلکا کرے اور نماز کی رکعات زیادہ سے زیادہ ہوں اور نماز کے دوران میں وہ بار بار تازہ وضو کرے اور فضا میں جو نورِ الہٰی پھیلا ہوا ہے اس کا برابر تصور کرتا جائے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جملۂ ارکان کے ساتھ نماز میں زیادہ رکعتیں پڑھنا اس نور کو پیدا کرتا ہے اور نیز استفتاحی دعاؤں کے پڑھنے سے بھی حلاوتِ مناجات کی نسبت حاصل ہوجاتی ہے، چنانچہ شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان امور میں سے ہر ایک کی طرف اشارہ کردیا ہے۔
اس ضمن میں ایک بات میں عرض کرنا چاہوں گا۔ جیسے فرمایا ہے کہ اسماء کی دو قسمیں ہیں، اسماءِ بسیط اور اسماءِ مرکب۔ اسماءِ بسیط میں جیسے اَللہ، رحمٰن، رحیم ہیں، یہ اسماءِ بسیط ہیں یعنی صرف نام ہیں، اور اسماءِ مرکب سے مراد کوئی الفاظ ہوتے ہیں ذکر کے، جیسے: ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اَللّٰهُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ﴾ (الاخلاص: 1-4) اور آیت الکرسی، اسی طرح جو مختلف اذکار ہیں۔ تو یہ اسماءِ مرکبہ ہیں یا اسماءِ بسیط ہیں، ان کے اپنے اپنے عالمِ مثال میں قالب موجود ہیں یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے اشخاص یا شخصیتیں ہوں۔ تھوڑی سی اور بات بھی عرض کروں، وہ یہ ہے کہ جیسے عالمِ مثال میں ان کے قالب موجود ہیں، اسی طریقہ سے ان کے اپنے مؤکلات موجود ہیں، عالم اسفل میں موکلات موجود ہیں۔
﴿اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ﴾ (النمل: 62)
ترجمہ: ’’بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بےقرار اسے پکارتا ہے‘‘۔
وہ واقعہ یاد رکھو، وہ جو صحابی تلاوت کرنے لگا، تو پھر دیکھا کہ گھوڑے پہ سوار ایک شخص آرہا ہے اور آکر اس نے جو ان کو شہید کرنا چاہتا تھا، اس کو مار دیا، تو انہوں نے کہا کہ آپ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں اس آیت کا مؤکل ہوں۔
لہٰذا اس طریقہ سے عالم اسفل میں مؤکلات کا نظام ہے اور عالم مثال میں ان کے اپنے قالب موجود ہیں۔ پس جس کی جس قالب کے ساتھ مناسبت ہوجائے کثرتِ ذکر کی وجہ سے، تو پھر وہ اس کے لئے ذریعہ بن جاتا ہے کہ جو فیوض و برکات اُس کو حاصل ہیں، وہ اِس کو بھی اِس کے ذریعہ سے ملنا شروع ہوجاتے ہیں یعنی روحانی دنیا کے، تکوینی دنیا میں تو مؤکلات کا نظام ہے۔ اور معرفت کی دنیا میں یہ نظام ہے، تو پھر اِس نور کے ذریعہ سے اس کی پرورش ہونے لگتی ہے۔ یہاں پر ایک لفظ ’’اسم مربی‘‘ کا بھی آتا ہے۔ اسم مربی اصل میں وہ پہلے سے ہی اس کے ساتھ اس کو مناسبت ہوتی ہے، بے شک اس کو جانتا بھی نہ ہو، لیکن پہلے سے اس کو اس کی مناسبت ہوتی ہے، لہٰذا اگر وہ یہ ذکر کرے گا تو فوراً system on ہوجائے گا، اس وجہ سے اسم مربی بھی تربیت کا ایک ذریعہ ہے کہ اگر کسی کو اسم مربی کا پتا چل جائے، تو پھر یہ ہوتا ہے کہ وہ باقاعدہ اس کے ذریعہ سے جو انوارات حاصل ہوتے ہیں، وہ اس کے نفس کے اوپر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، اس کے قلب کے اوپر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، اس کی عقل کے اوپر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن محنت پھر بھی کرنی پڑتی ہے، یہ نہیں کہ محنت ختم، نہیں، بس کام آسان ہوجاتا ہے۔ جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے لوہے کو نرم کروا دیا جاتا ہے، تو وہ زرہ بناتے رہے آسانی کے ساتھ۔ تو اگر کسی کے لئے اس طرح اس نفس کو نرم کیا جائے، تو اس کو سلوک طے کرنا آسان ہوجائے گا۔ تو اسم مربی کا فائدہ یہ ہے کہ نفس کی تربیت اس کی آسان ہوجاتی ہے، تھوڑی محنت سے زیادہ فائدہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
یہاں اس امر کی بھی صراحت کردینا ضروری ہے کہ ہمارے زمانے کے بعض صوفیاء یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ نماز میں کمالِ خشوع و خضوع نہیں ہوتا اس لئے نماز سے کوئی فائدہ نہیں، ان لوگوں کی یہ بات محض از قسم ’’ظن‘‘ ہیں اور ان کا نماز کو بے فائدہ سمجھنا، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ "حلاوت ذکر" کی نسبت سے واقف نہیں۔
الغرض اسم "اللہ" کا ذکر ذات باری کی طرف تین جہت سے پرواز کرتا ہے۔ ایک ملائکہ کی جہت سے، جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں اور دوسرے خود اس اسم اور عالم مثال میں، جو اس کی شکل ہے، اس جہت سے۔ اور تیسرے نفس ناطقہ کے ذریعہ یعنی نفس ناطقہ میں اس ذکر سے ہمت پیدا ہوتی ہے اور وہ ترقی کرکے حظیرۃ القدس کے مقام تک پہنچ جاتا ہے، باقی اللہ ان امور کو بہتر جانتا ہے۔
قصہ مختصر "حلاوتِ مناجات" "شمولِ رحمت" اور "انوارِ اسمائے الہٰی" یہ تینوں کے تینوں شعبے طاعات کے ذیل میں آجاتے ہیں اور ان سہ گانہ نسبتوں کا حصول ہی طاعات کا مقصد ہے۔ بعض طاعات ایسی ہوتی ہیں جن میں "حلاوتِ مناجات" زیادہ ہوتی ہے اور بعض ایسی ہیں جن میں "شمولِ رحمت" زیادہ اور بعض میں "انوارِ اسماء" کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس فقیر کو اس امر سے بھی مطلع کیا گیا ہے کہ مجذوب و غیر مجذوب دونوں کے دونوں عالم برزخ عالم قیامت اور اس کے بعد جو منازل ہیں، ان سب میں یکساں ہوں گے اور جس طرح کہ آج اس زندگی میں شرعی اور عرفی احکام کے معاملہ میں عارف اور مبتدی میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا اور ان میں ایک دوسرے کو ترجیح نہیں دی جاتی، اسی طرح مجذوب و غیر مجذوب کے درمیان کوئی تفاوت نہیں ہوگا۔ باقی رہا مجذوب کی مجذوبیت کا مسئلہ سو وہ تو اس کا اپنا ایک ذاتی کمال، جس کا معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے۔ مجذوب نے یہ مجذوبیت کسی غرض کے لئے حاصل نہیں کی تھی اس کا مقصود تو مجذوبیت کو محض مجذوبیت کی خاطر حاصل کرنا تھا، نہ کہ اسے کسی دوسری چیز کے حصول کا ذریعہ بنانا۔
الغرض اس زندگی کے بعد آخرت میں انسان کو جو بھی عزت و رفعت ملے گی وہ اس کی اسی "نسبت سکینہ" کا نتیجہ ہوگی، جس کے یہ تین شعبے "حلاوتِ مناجات" "شمولِ رحمت" اور "انوارِ اسمائے الہٰی" ہیں۔ اس ضمن میں مجھے اس شخص کی حالت پر بڑا تعجب ہوتا ہے جو "سکینہ" کی اس نسبت کی طرف مطلق التفات نہیں کرتا، بلکہ اس کے خلاف وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس نسبت سے اس کے کاروبار میں خلل پڑتا ہے۔ چنانچہ اس کا کہنا یہ ہے کہ اس علمی نسبت سے میرے خیالات میں تشویش پیدا ہوتی ہے، لیکن کیا یہ شخص نہیں جانتا کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ کرام اور ان کے بعد جو تابعین تھے ان کی زندگیوں میں یہی نسبت سب سے روشن تھی۔ بہرحال ﴿كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ﴾ ہر شخص اپنی اپنی پسند پر نازاں ہوتا ہے اور جو کچھ بھی اسے مل جائے وہ اسی پر پھولا نہیں سماتا۔
مطلب یہ ہے کہ جو اعمالِ طاعت ہیں، ان کی جو روح ہے، حضرت نے وہ بیان کردی ہے کہ جو اعمالِ طاعت ہیں جو ہم کرتے ہیں، تو اس سے ہمیں کیا ملتا ہے اور کس طریقہ سے ہم اللہ کے قریب ہوتے ہیں۔ ہمارے حضرت مولانا عزیز گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہ بالکل تکلفات سے عاری صوفیوں میں سے تھے، تکلفات بالکل نہیں پائے جاتے تھے ان میں۔ میرے چچا نے ان سے کہا کہ حضرت! ہماری نماز بھی کوئی نماز ہے، ہم تو نماز کے اندر پتا نہیں کہاں کہاں مشغول ہوتے ہیں، تو اس سے کیا ہوگا۔ تو حضرت نے کہا اچھا! ایسے سجدے ہیں تمھارے؟ یہ تو خدا کے لائق نہیں ہیں، یہ سجدہ مجھے کرو، یہ تو اللہ کے لئے نہیں ہونے چاہئیں، ایسا تمہارا سجدہ ہے تو پھر تم میرے لئے کرو، کیونکہ میں اس قابل ہوں، اللہ تعالیٰ کی ذات تو اس سے بہت بڑی ہے۔ اس نے کہا کہ آپ کو میں کیسے کروں؟ انہوں نے کہا بس یہی تو چیز ہے کہ تیرے دل میں یہ بات ہے کہ سجدہ کسی اور کو نہیں کیا جاسکتا ہے، یہی تو اللہ کو پسند ہے۔ تو کس طریقہ سے سمجھایا۔
حضرت نے بھی یہی بات بتائی ہے درمیان میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے کیا فائدہ؟ بھائی! درجے ہیں۔ جو نماز آپ کو باغیوں کی صف سے نکال دے، خدا کی قسم وہ بہت بڑی دولت ہے۔ آپ باغی تو نہیں رہتے ناں، بے شک آپ نے نماز اچھی طرح نہیں پڑھی، لیکن باغیوں کی صف میں تو آپ نہیں آئیں گے ناں، بغاوت کی صف سے تو آپ کو نکال دیا۔ اسی طریقہ سے ان اعمال کو کرنا ہے۔ اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم گناہگار ہیں، ہم گناہگاروں کی دعا کون سنے گا؟ بھائی خدا کے بندو! کس سے مانگ رہے ہو؟ کیا عام شخص سے مانگ رہے ہو؟ جو ان چیزوں کو دیکھے گا، تم تو اس سے مانگ رہے ہو، جو ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے، اس سے مانگ رہے ہو۔ وہ ان تمام کمزوریوں کو جانتا ہے جو تمھارے اندر ہیں اور پھر ان کمزوریوں کے استحضار کے ساتھ جب تم مانگو گے، تو اس کے اندر جو عجز کی کیفیت ہوگی، وہ بڑی قیمتی ہوگی، وہ اللہ تعالیٰ کے قریب کردے گی تمہیں۔ تو یہ بات ہے کہ جو عجز ہے، جو تم جانتے ہو کہ میں تو کچھ بھی نہیں، یہی تو اللہ کو پسند ہے۔ اگر آپ نے کچھ اعمال کرلئے اور اپنے آپ کو کچھ سمجھا تو اپنے آپ کو گرا دیا۔ ہاں! البتہ یہ نہیں کہ آپ اعمال ہی نہ کریں کہ پھر میں اپنے آپ کو کچھ سمجھوں گا، نہیں، یہ بھی ایک غلط سوچ ہوگی، آپ اعمال کریں اور اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھیں۔ جیسے بعض بزرگوں نے کہا نیکی کر دریا میں ڈال یعنی نیکی تو کرو، لیکن اس نیکی کی وجہ سے اپنے آپ کو نیک نہ سمجھو، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر رہو۔ مثلاً آپ محنت کرتے ہیں اور اس محنت کی مزدوری پانچ روپے ہے، لیکن آپ نے ایک بہت سخی کا کام کیا ہے اور وہ اس پانچ روپے کی جگہ آپ کو پانچ ہزار روپے دینا چاہتا ہے، تو اب اگر آپ کی نظر اس پر ہے کہ میری چیز تو کچھ بھی نہیں ہے، اس کا فضل، اس کا کرم ہے، تو وہ تو آپ کو پانچ ہزار روپے دلوائے گا اور اگر آپ نے کہا نہیں، مجھے یہی چیز چاہئے جو میں نے کیا، تو بس ٹھیک ہے، پھر لے لو یہ۔ اُس کی طرف سے ظلم تو نہیں ہوتا، وہ تو دے دے گا، لیکن اپنا کتنا نقصان کرلیا۔ اس وجہ سے اللہ پاک سے انصاف نہ مانگو، فضل مانگو، کیونکہ فضل ہی سے معاملے حل ہوتے ہیں۔ حدیث شریف میں جو آیا ہے کہ کوئی انسان جنت میں اپنے عمل سے نہیں جائے گا، بلکہ اللہ کے فضل سے جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت کے لئے جتنی کوشش اور محنت کی ضرورت ہے، وہ ہم کر ہی نہیں سکتے، کیونکہ وہ لامحدود ہے اور یہ محدود ہے، تو محدود لامحدود کے برابر کیسے ہوسکتا ہے، محدود تو لامحدود کے برابر ہو ہی نہیں سکتا کبھی بھی۔ اس وجہ سے تم محدود کرلو، لیکن اس محدود کے اوپر نظر نہ کرو، اس کی لامحدود رحمت پہ نظر کرو، وہی فضل ہے۔ تو یہی اصل میں بنیاد ہے ان تمام چیزوں کی۔ تو حضرت نے چلتے چلتے ہمیں کام کی باتیں بتائی ہیں ما شاء اللہ۔
اس کے بعد پھر کافی بڑا topic ہے اور وہ کیفیت ہے نسبت اویسیہ کی، یہ کافی اہم topic ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ