ذاتِ واحد کا ہر مخلوق سے خصوصی تعلق

توضیح المعارف قسط 18

فلسفہ سائنس اور معرفت الٰہی – تیرہواں حصہ

شیون یعنی احدیت کے مقام کی تفصیل

اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوقات میں سے ہر ہر مخلوق کے ساتھ الگ الگ ایک مخصوص تعلق ہے۔ کائنات میں ہونے والا ہر event اور اس کے نتیجے سے اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے۔

مخلوقات میں بھی ہمیں ایسے تعلق کی مثالیں مل سکتی ہیں۔ مثلاً تکوینی چیزوں میں دیکھا جائے تو زمین پر موجود گرم چیزوں سےسورج کا تعلق۔ یا پھر 0،1 کا software سے تعلق۔

اس کی ایک تشریعی مثال بھی دی جاسکتی ہے اور وہ آپ صل اللہ علی وآلہ وسلم کا اپنے ہر امتی سے الگ الگ انفرادی تعلق ہے۔

شیون کی اصطلاح کو سمجھنے کے لئے ایک مثال درج ذیل ہے:

مثلاً ایک ادارہ ہے، جس کے ہزاروں ملازمین روزانہ صبح ایک biometric finger print scanner کے ذریعے حاضری لگواتے ہیں۔ اس مشین کے سافٹ ویئر میں ان سب کے فنگر پرنٹس محفوظ ہیں۔ ہر ملازم اپنی باری پر اپنے فنگرپرنٹس اس سسٹم کے connected hardware کے ذریعے feed کرواتا ہے۔ سسٹم اپنے data کے ساتھ اس کو compare کرتا ہے اور match ہونے کی صورت میں اس کی حاضری لگا دیتا ہے

اس پوری کاروائی کو دو طرح سے دیکھا جاسکتا ہے:

1. ہزاروں ملازمین میں سے ہر ایک کا الگ الگ مشین یا اس کے ڈیٹا سے تعلق، یہ مشاہدہ کثرت سے تعلق رکھتا ہے۔

2. اگر ہم اگر اس مشین کی اس capability یا صلاحیت پر focus کریں، جس کی وجہ سے یہ ہزاروں لوگوں کے علیحدہ علیحدہ فنگرپرنٹس کو ایک ہی ڈیٹا سے چیک کرکے verify کرسکتی ہے۔ تو یہ مشاہدہ وحدت کا ہوگا، لیکن اس میں کثرت کا ایک رنگ ہوگا۔ اس طرح وحدت میں کثرت کے رنگ کو محسوس کرنا مرتبۂ شیون کہلاتا ہے۔

دوسری مثال:

مثلاً ہمارے ذہن میں ایک ماڈل، انسان کا ایک خاکہ یا تصور موجود ہے۔ تو یہ ایک واحد تصور یعنی ایک علمی صورت ہے۔ لیکن جب بھی آپ کسی انسان کو دیکھتے ہیں تو فورا آپ اس ذہنی خاکے سے match ہونے کی وجہ سے اس کو انسان سمجھ لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کی آپ کے اس واحد ذہنی خاکے یا ماڈل میں، جو ایک کلی ہے، ہزاروں، لاکھوں انسانوں کو پہچاننے کی صلاحیت ہے۔ یہ شئون کے مرتبے کی مثال ہے۔

ایک عام انسان جب عالم پر نظر ڈالتا ہے تو اس عالم میں اس کو کثرت نظر آتی ہے۔ مختلف چیزوں کے مختلف آثار نظر آتے ہیں۔ یہ ایک خامی ہے۔ اس سے نکلنے کے لئے محبت الہٰی کی کیفیت درکار ہے۔

لیکن اگر کسی کو یہ محبت حاصل ہو جائے تو چیزوں سے اس کی نظر ہٹ جاتی ہے۔ اور اس کو ہر طرف صرف ایک ہی یعنی وحدت نظر آتی ہے۔ یہ مرتبۂ احدیت کہلاتا ہے۔ یہ لاہوت کی واحد عقلی یعنی باطن الوجود کے مصدر ہونے کی شان ہے جس میں کثرت مخفی ہے اور وحدت ظاہر ہے۔

اس کے بعد جب مزید ترقی عطا ہوتی ہے تو اس کو نظر تو خالص وحدت آتی ہے، لیکن اس وحدت میں لاتعداد مخلوقات سے جو تعلق کی capability ہے، اس کا بھی ادراک ہوتا ہے۔ یہ شیون کا مرتبہ ہے جس میں کثرت ظاہر ہے اور وحدت مستور ہے۔ پہلے مرتبے کو وحدت الوجود اور دوسرے کو وحدت الشہود بھی کہ سکتے ہیں۔

قرآن میں صحابہ کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ ﴿یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ﴾ یعنی وہ اس کا چہرہ چاہتے ہیں یعنی خالص وحدت جس سے بلا تشبیہ صوفیاء شیون کا مرتبہ لیتے ہیں جس پر کونی کثرتوں کا پردہ پڑا ہوا ہے اگر اس کو اٹھا لیا جائے تو کوئی اس کا تحمل نہیں کرسکے گا اور سب جل کر بھسم ہوجائیں گے۔ جس کو حق کا جلال سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ باطن الوجود سے آگے کا مقام ہے اور اس کا مؤطن ایسا ہی باطن الوجود سے مختلف ہے جیسا کہ ظاہر الوجود کا باطن الوجود سے مختلف ہے۔ شیون جمع کا صیغہ ہے۔

ہر وقت بغیر کسی واسطے اور توجہ کے اپنی ذات کا علم، علم حضوری کہلاتا ہے۔ لیکن یہ وجداناً کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ کسی اور چیز کے انکشاف کے لئے اس عالم کو توجہ اور التفات کی ضرورت ہوگی۔ اگر کسی صورت علمیہ کے ذریعے کسی چیز کا انکشاف کسی عالم کو ہو تو اس وقت اس کے جس خاص نسبت اور تعلق کی طرف وہ عالم توجہ کرتا ہے تو اس وقت اس معلوم کا انکشاف اس عالم پر ہوتا ہے اور جب کسی اور خاص نسبت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس وقت اس دوسرے معلوم کا انکشاف ہوگا۔

اسی طرح لاہوت کو اپنی ذات کا حضوری علم ہے اور اپنی ذات کا انکشاف اس کو اس کے اس حضوری علم کے ذریعے ہوتا ہے لیکن عالم عقلی کا صدور لاہوت سے شیون کے ذریعے ہوتا ہے یعنی وہ شیون کے علم پر مبنی ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ شیون کے ساتھ اس کا اپنی ذات کی طرف التفات اس کی خالص اپنی ذات کی طرف التفات سے مؤخر ہوگا جیسے ہم اگر ہم ذات کی طرف توجہ کریں تو اس توجہ کے بعد ذات کا وہ رنگ اس سے مختلف ہوگا جو کہ پہلے ذات کا بغیر اس توجہ کے تھا۔

بعض گہرائی میں اترنے والے صوفیاء کے نزدیک یہی وہ مقام ہے جو احدیت سے پہلے ہے اور خود لاہوت کی ذات کے بعد اس کو مقام وحدت یا تقرر کا مقام اور بعض کے نزدیک الحی القیوم النور التام اور الاول کے نام سے پکارا جاتا ہے۔لاہوت اور اس مقام میں فرق کچھ ایسا ہے جیسا کہ کسی شے اور اس کے عنوان میں فرق ہوتا ہے۔

لاہوت کو ساری چیزیں جو پائی جاتی ہیں کے ساتھ وہی نسبت ہے جو ہمیں اپنے تمام معلومات اور خیالات کے ساتھ ہے اور واسطہ ان سب کا ہمارا وہ علم حضوری ہے جو ہمیں اپنی ذات کا حاصل ہے کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو کسی اور چیز کے علم کا سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا۔اسی طرح لاہوت کو بھی اپنی ذات کا جو علم حضوری ہے وہی بنیاد ہے ان تمام چیزوں کا جو پیدا ہوچکی ہیں یا ہورہی ہیں یا ہوں گی۔ لاہوت کی ان تمام کی قیومیت کا بنیاد بھی یہی علم ہے جو اس کو اپنی ذات کا علم حضوری کے ذریعے حاصل ہے۔ نیز اس مقام کی قیومیت تمام چیزوں کی قیومیت ہے ۔