یوم عاشورہ اور شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ ۝ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ﴾ (الزلزال: 7-8) وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ”أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّمُ“۔ (مسلم: 1163) وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ”صِيَامُ يَوْمِ عَاشُوْرَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللّٰهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهٗ“۔ (مسلم: 1162) وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ”صُوْمُوْا يَوْمَ عَاشُوْرَاءَ وَخَالِفُوْا فِيْهِ الْيَهُوْدَ صُوْمُوْا قَبْلَهٗ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهٗ يَوْمًا“۔ (مسند أحمد، حدیث نمبر: 2047) وَکَانَ عَاشُوْرَاءَ یُصَامُ قَبْلَ رَمَضَانَ فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ قَالَ: ”مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ“۔ (طحاوي، حدیث نمبر 2303) وَمِنَ الْأَوَّلِ: إِبَاحَۃٌ وَّبَرَکَۃٌ لِّتَوْسِعَۃِِ فِیْہِ عَلٰی عِیَالِہٖ فَقَدْ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ”مَنْ وَّسَّعَ عَلٰى عِيَالِهٖ فِي النَّفَقَةِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللّٰهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهٖ“۔ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 1926) وَمِنَ الثَّانِيْ: اِتِّخَاذُہٗ عِیْدًا وَّمَوْسِمًا أَوِ اتِّخَاذُہٗ مَأْتِمًا مِّنَ الْمَرَاثِيْ وَالنِّیَاحَۃِ وَالْحُزْنِ بِذِکْرِ مَصَائِبِ أَھْلِ الْبَیْتِ وِاتِّخَاذُ الضَّرَائِحِ وَ الْأَعْلَامِ وَمَا یُقَارِنُہٗ مِنَ الْمَلَاھِيْ وَالشِّرْکِ وَالْآثَامِ۔ صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ

معزز خواتین و حضرات! محرم الحرام کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور اس مہینے کے کچھ فضائل ہیں۔ اور فضائل کا ذکر کرنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ وقت پر اگر کسی کو پتا چل جائے کسی چیز کی فضیلت کا، تو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہوتا ہے، فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اور اگر بعد میں پتا چلے سوائے حسرت کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ اور اگر بالکل پتا نہ چلے، تو حسرت نہیں ہوگی لیکن وہ فضیلت بھی حاصل نہیں ہوگی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت پہ پتا چلنا یہ بہت ضروری ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سب روزوں سے افضل رمضان کے بعد اللہ تعالیٰ کا مہینہ محرم ہے۔ یعنی اس کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا رمضان کے سوا اور سب مہینوں کے روزوں سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ یہ مسلم شریف کی روایت ہے۔ اور اس کے بارے میں مزید مسلم شریف ہی کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ عاشورہ کا روزہ کفارہ ہوجاتا ہے اس سال کا یعنی اس سال کے چھوٹے گناہوں کا جو اس سے پیشتر گزر چکے ہیں۔ مسلم شریف کی روایت ہے۔

دیکھیں! اللہ جل شانہ نے ہمارے فائدے کے لئے کتنی باتیں رکھی ہیں، ہم سے بہت سارے گناہ ہوتے ہیں جن میں سے بعض کو ہم جانتے بھی نہیں ہیں علم نہ ہونے کی وجہ سے، تو اللہ پاک نے اس کی معافی کے بہت سارے اسباب بنائے ہیں۔ کبیرہ گناہوں کی تو بات اور ہے، اس کا علاج تو صرف توبہ ہے اور توبہ کون سی مشکل ہے، توبہ بھی بہت آسان ہے۔ آسان اس طرح ہے کہ اس پر انسان کا کیا لگتا ہے؟ اب دیکھیں! ایک انسان ہے اس سے گناہ ہوگیا اور اس کو احساس ہوگیا کہ یہ گناہ مجھ سے ہوگیا ہے، تو وہ اللہ پاک سے معافی مانگے، توبہ کرے کہ یا اللہ! میں اس کو آئندہ کے لئے نہیں کروں گا، غلطی ہوگئی ہے اس کو معاف فرما دے۔ اور آئندہ کے لئے نہ کرنے کا عزم کرلے، اس وقت اس سے رک جائے تو توبہ ہوگئی۔ اب اس میں کوئی مشکل نہیں، فائدہ کتنا ہے؟ فائدہ اتنا ہے کہ اگر مثال کے طور پر ایک شخص ہے، اس کی ساٹھ سال عمر ہے اور وہ آج توبہ کرتا ہے، کل فوت ہوجاتا ہے تو اس کے ساتھ صرف ایک دن کے گناہوں کا حساب ہوگا، کیونکہ ساٹھ سال کے گناہ معاف ہو چکے ہیں توبہ سے۔ اور اگر توبہ نہیں کرتا تو ساٹھ سال اور ایک دن کے گناہوں کا حساب ہوگا، کتنا فرق ہے؟ اور اگر کوئی شخص توبہ کا عادی ہو کہ جب بھی اس سے گناہ ہوجائے فوراً توبہ کرلے تو اس کے ساتھ پھر حساب ہی نہیں ہوگا کیونکہ آخری بار بھی اس نے توبہ کی ہوگی اس کے بعد تو بس ختم۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ بہت ہی مہربان ہے اور معاف کرنا چاہتا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا1 (الزمر: 53) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخشش دیتا ہے

ہاں! گڑبڑ انسان کے اندر خود ہوتی ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ شیطان ایک نبی کے پاس ظاہر ہوا اور بڑا رویا کہ دیکھو! میرے ساتھ کیا ہوگیا، اتنی عبادت میں نے کی ہے، یہ کیا، وہ کیا، لیکن ایک بات پر مجھے نکالا گیا۔ کیا میرے لئے کوئی بچنے کا راستہ ہے؟ اب پیغمبر کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ صحیح راستے کے طرف رہنمائی کرنا، تو خوش ہوگئے، اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ یا اللہ! اگر یہ توبہ کرنا چاہتا ہے، اگر یہ ٹھیک ہونا چاہتا ہے، تو آپ فضل فرما دیں۔ اللہ پاک نے فرمایا: بالکل ٹھیک ہے، کوئی مشکل نہیں، یہ آدم علیہ السلام کی قبر کو سجدہ کر لے۔ اب ان کے خیال میں تو آدم علیہ السلام فوت ہوچکے، تو اب ظاہر ہے، وہ بات تو ختم ہوگئی تو باقی باتیں تو مان لے گا۔ تو اللہ پاک تو اللہ پاک ہے، وہ تو دلوں کے حال کو جانتا ہے، تو بس اس نے کہا: یہ تو نہیں ہو سکتا، تو انہوں نے کہا کہ بس ٹھیک ہے۔ تو لوگوں کے لئے اگر اس قسم کا مسئلہ ہو کہ یہ گناہ تو میں نہیں چھوڑ سکتا، تو پھر یہ اس کی اپنی مرضی ہے، یہ پھر اس کی اپنی مرضی ہے، جیسے وہ چاہتا ہے، اس طرح اللہ تعالیٰ کرلیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے معافی کو مشکل نہیں، آسان بنایا ہے۔ اور جو چھوٹے گناہ ہیں، ان کے لئے تو اللہ پاک نے اتنے ذرائع رکھے ہیں کہ بے حساب ہیں۔ وضو کے ساتھ ما شاء اللہ! گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اس طرح بہت سارے کاموں کے بارے میں ہے۔ یہی ابھی گذرا کہ محرم کے روزہ رکھنے سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اور روزے آتے ہیں، ادھر سے حج کے موقع پر، مطلب (یہ کہ) بہت سارے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں۔ تو وہ تو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ معاف فرماتے ہیں، لیکن جو بڑے گناہ ہیں، ان کے لئے توبہ شرط ہے۔

اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا، ہم رائیونڈ میں تھے حضرت مولانا مصطفیٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو کہ ہدایات دیا کرتے تھے اور کارگزاری بھی سنتے تھے۔ تو ایسا ہوا کہ کارگزاری سن رہے تھے تو درمیان میں کچھ ساتھ ساتھ ہدایت بھی دیتے تھے۔ بہرحال یہ ہے کہ اس پر حضرت نے ایک صاحب کو اٹھایا: بھئی! گشت کے آداب بتاؤ اور یہ فرمایا کہ جب بھی آپ کبھی کوئی نئی بات سن لیں کسی عالم سے یا کسی اور آدمی سے تو اپنے علاقے کے علماء سے تحقیق کیا کرو کہ یہ بات صحیح ہے یا غلط ہے، اگر صحیح ہے تو آپ بتا سکتے ہیں، اگر نہیں ہو، تو پھر اس کو نہ بتائیں، وہ تو جھوٹ ہوجائے گا۔ تو تحقیق کرلیا کرو۔ اس چیز کو سمجھانے کے لئے ایک صاحب سے کہا: بھئی! اٹھو، گشت کے آداب بتاؤ۔ تو اٹھ گیا، تو گشت کے آداب بتانے لگا، تو جیسے انہوں نے سنا تھا اسی طرح بتا دیا کہ گشت بہت اونچا عمل ہے، اس کے پہلے قدم پہ سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ حضرت نے اسے روک دیا، کس سے سنا ہے؟ اب چپ۔ اے خدا کے بندے! توبہ سے گناہ معاف ہوتے ہیں سارے، گشت سے بہت سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، لیکن جو کبائر ہیں، وہ معاف نہیں ہوتے، اس کے لئے توبہ شرط ہے۔ اب دیکھو، تصحیح فرما دی۔ تو مطلب میرا یہ ہے کہ گشت کے ذریعہ سے یا جو بھی دوسرے اعمال ہیں، ان سے کیا معاف ہوتے ہیں؟ چھوٹے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ تو چھوٹے گناہ بہت ساری چیزوں کے ساتھ معاف ہوجاتے ہیں اور بڑے گناہ، ان کے لئے توبہ شرط ہے اور توبہ کون سی مشکل ہے؟ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو جلد سے جلد توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے تمام گناہوں سے۔

ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ روزہ رکھو تم عاشورہ کا اور مخالفت کرو اس میں یہود کی۔ اس طرح کہ روزہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد میں بھی رکھ لینا چاہئے۔ مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہود دسویں محرم کا روزہ رکھتے تھے، تو اگر ہم دس محرم کو رکھتے ہیں، تو مشابہت کا امکان ہے کہ ہم یہود کی طرح عمل کررہے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے اس کا علاج یہ بتا دیا کہ اصل عمل کو نہیں چھوڑنا چاہئے، کیونکہ بعض لوگ اس طرح ہوتے ہیں کہ یہ تو فلاں کررہے ہیں تو میں کیوں کروں؟ نہیں، اس کو دیکھو کہ ہمارے اوپر اگر لازم ہے، تو میں اس کے لئے چھوڑوں گا؟ مثال کے طور پر داڑھی رکھنا، اب اگر سارے یہود نصاریٰ داڑھی رکھنا شروع کرلیں، تو کیا ہم کٹا دیں گے کہ بھئی! یہود کے ساتھ مشابہت ہے؟ نہیں، ہمارا اپنا طریقہ ہوگا، ان کا اپنا طریقہ ہوگا، لیکن داڑھی تو ہم نے رکھنی ہے۔ اب بھی یہود کے جو علماء ہیں اور جو ربی ہیں، وہ داڑھی رکھتے ہیں، البتہ یہ بات ہے کہ وہ جو خط وغیرہ بنانا ہوتا ہے، وہ ان کا نہیں ہوتا، بس ان کی داڑھی جھاڑی کی طرح ہوتی ہے۔ مطلب بالکل نظر آتا ہے۔ تو وہ فرق تو ہے ہی۔ بہرحال! ہم لوگوں کو یہود کی مشابہت بھی نہیں کرنی چاہئے اور روزہ بھی رکھنا چاہئے، روزہ بھی نہیں چھوڑنا چاہئے، تو ایک روزہ پہلے یا ایک روزہ بعد میں رکھ لیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ عاشورہ کا روزہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے بیشتر بطور فرضیت رکھا جاتا تھا، جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا، تو جس نے چاہا عاشورہ کا روزہ رکھا اور جس نے چاہا نہ رکھا، یعنی مستحب ہوگیا۔

اب ایک اور بات آتی ہے، ارشاد فرمایا رسول کریم ﷺ نے کہ جس شخص نے فراخی کی اپنے اہل و عیال پر خرچ میں عاشورہ کے دن، فراخی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رزق میں تمام سال۔ یہ بات ہے، یعنی اس میں اگر کوئی فراخی کرتا ہے اپنے گھر پر ہی۔ دیکھو ناں! یہ میں آپ کو بات بتاؤں ’’اَلْأَقْرَبُ فَالْأَقْرَبُ‘‘ والی بات چل رہی ہے۔ میراث میں بھی چل رہی ہے، پڑوس میں بھی چل رہی ہے۔ تو حق سب سے پہلے قریب ترین کا ہوتا ہے۔ تو اس کا پھر یہی ہے کہ اپنے عیال پر خرچ کرو ذرا کھل کر، تو ان شاء اللہ پورے سال میں اللہ جل شانہٗ آپ کے رزق کو فراخ کردیں گے۔ تو یہ بہت آسان نسخہ ہے، اس میں کوئی مشکل بھی نہیں۔ ہاں! کوئی گناہ کے کام نہ کیا کرو، ظاہر ہے گناہ تو اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، اس وجہ سے اس میں کوئی بات نہیں ہونی چاہئے۔

پس یہ دونوں باتیں تو کرنے کی ہیں: ایک روزہ رکھنا کہ وہ مستحب ہے یعنی ان ایام میں۔ دوسرا مصارفِ عیال میں کچھ فراخی کرنا اپنی حیثیت کے مطابق، یہ مباح ہے۔ اس کے علاوہ جو باقی باتیں اس دن کی جاتی ہیں، وہ خرافات ہیں۔ شیطان بہت ظالم ہے، یہ کسی کو بھی فائدہ نہیں اٹھانے دیتا۔ کوئی نہ کوئی چکر ایسا چلا دیتا ہے کہ وہ صحیح چیز کو غلط بنا دیتا ہے۔ شہد ہے ناں شہد، اس کے اندر سرکہ ڈالو ناں تھوڑا سا تو کچھ ہی دنوں میں سارا شہد سرکہ بن جائے گا۔ تو اسی طریقہ سے جو نیک کام ہیں اس کے اندر کوئی بری نیت ڈال دو، کوئی بری چیز ڈال دو تو بس اس کے بعد وہ سارے کا سارا وہی بن جائے گا۔ تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو بہت (احتیاط کرنی چاہئے) یہ ہمارے جو مزارات پر عرس ہوا کرتے ہیں، یہ پہلے ہوتے تھے ان بزرگوں کی وفات کے دن وہ لوگ جمع ہوتے تھے تو وہ اپنے حضرت جو فوت ہو چکے ہوتے ان حضرت کے جو خلفاء ہوتے تھے وہ جمع ہوجاتے تھے، تو مریدین آ کر جن کے ساتھ مناسبت ہوتی، اپنا تعلق جوڑ لیتے تھے اور اپنی اصلاح کا کام شروع کرواتے۔ یہ اس لئے تھا، لیکن بعد میں کیا ہوا۔ اب ہوتا کیا ہے؟ ہوتا یہ ہے کہ جہاں لوگ جمع ہوجائیں کسی بھی مقصد کے لئے، تو وہاں ان کی جو ضروریات ہیں، وہ بھی آنی شروع ہوجاتی ہیں، مثلاً: کھانے پینے کا سامان۔ اب رائیونڈ کا جو اجتماع ہوتا ہے تو سٹال لگ جاتے ہیں ناں، تو کیا سٹال وہ لگواتے ہیں یعنی رائیونڈ والے؟ وہ تو نہیں لگواتے، خود ہی آجاتے ہیں لوگ، لگ جاتے ہیں سٹال، حتیٰ کہ ایسی چیزیں بھی آجاتی ہیں بیچنے کے لئے جن کا اجتماع کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، نہ وہ ضروریات (ہوتی ہیں)۔ جیسے کھلونے بچوں کے، اس قسم کے، اب چھنچھنے (وغیرہ بیچے جارہے ہوتے ہیں) بھئی! یہ کہاں تھا؟ حتیٰ کہ حج کے موقع پر بھی وہ جو حاجی حضرات اپنے ہوٹلوں میں جاتے ہیں، تو راستے میں سارے سامان تعیش کے پڑے ہوتے ہیں اور لوگ (خرید رہے ہوتے ہیں)۔ اب یہاں سے چونکہ نفس (ان چیزوں کا شیدائی ہے، اس لئے وہ ان میں مشغول ہوجاتا ہے) حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا اور دین جب جمع ہوجائیں کسی بھی چیز میں، تو دنیا کی جیت ہوتی ہے، کیونکہ دنیا عاجلہ ہے اور آخرت آجلہ ہے، آجلہ کی طرف لوگوں کی نگاہ نہیں جاتی، عاجلہ کی طرف جاتی ہے۔ تو بس یہی بات ہے کہ لوگ انہی چیزوں میں (لگ جاتے ہیں) تو بہت جلدی عرس میلہ بن جاتا ہے۔ جیسے میلے کے اندر میل ہوتا ہے، وہ سارا میل عرس میں بھی آجاتا ہے اور پھر وہ عرس کسی کام کا نہیں رہتا، نقصان کا باعث بن جاتا ہے اور یہ شیطان کا کام ہے۔ اس طرح اگر آپ حضرات دیکھیں! میرے خیال میں شاید آپ لوگوں کو اتفاق نہیں ہوا ہوگا، کراچی میں ٹھٹھہ کا قبرستان ہے، تو ان ایام میں ایسا ہوتا ہے یعنی شب برات پہ کہ فل چراغاں ہوتا ہے پورے قبرستان میں اور سارا میلہ ٹھیلہ ہوتا ہے، مرد آتے ہیں، عورتیں آتی ہیں، مطلب لغویات کا ایک سماں ہوتا ہے۔ تو کیوں؟ ظاہر ہے لوگوں نے اپنے لئے کچھ نہ کچھ بنانا ہوتا ہے۔

آپ ﷺ سے ایک دفعہ صرف ایک دفعہ ثابت ہے، اس کے علاوہ ثابت نہیں ہے کہ جنت البقیع تشریف لے گئے تھے شب برات کو چھپ کر۔ اتنا چھپ کرکے کہ اپنی زوجہ مطہرہ کو بھی نہیں بتایا۔ چپکے سے نکلے، وہاں تشریف لے گئے اور وہاں دعا کرلی اور پھر واپس آگئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پیچھے پیچھے جاتی رہیں کہ کہاں جاتے ہیں حضرت، تو دیکھا کہ جنت البقیع میں دعا کررہے ہیں تو پھر شرمندہ ہو کے جلدی جلدی واپس آگئیں، تو سانس چڑھا ہوا تھا تو آپ ﷺ جس وقت پہنچے تو اس وقت ان کا سانس چڑھا ہوا تھا۔ کہا: تمھارا سانس کیوں چڑھا ہوا ہے؟ کیونکہ چارپائی پہ لیٹے لیٹے سانس کسی کا نہیں چڑھتا، تو انہوں نے پھر واقعہ بتایا۔ فرمایا کہ اس رات اللہ پاک مغفرت فرماتے ہیں اتنے لوگوں کی جتنی کہ فلاں قبیلے کی بکریوں کے بال ہیں، تو میں نے جو اموات ہیں، ان کے لئے مغفرت کی دعا کی۔ اب یہ ایک دفعہ ثابت ہے تو اگر کوئی جانا چاہے، مسنون عمل کرنا چاہے، چھپ کے جائے، ایک دفعہ کم از کم چلا جائے، اس کے بعد اس کو لازم نہ سمجھے۔ میں بھی ایک دفعہ چپکے سے چلا گیا، یہاں میزان بینک کے پاس جو قبرستان ہے چھوٹا سا، یہاں میں چلا گیا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آپ ﷺ تشریف لے گئے تھے، تو میں بھی جاتا ہوں۔ کسی کو بتایا نہیں۔ وہاں گیا، تو کوئی مولوی صاحب تھے، اس کے ساتھ دس بارہ حضرات تھے اور باقاعدہ کورس کی صورت میں کچھ پڑھ رہے تھے۔ میں نے کہا چلو جی، یہاں پر بھی لوگوں کا کاروبار شروع ہوگیا۔ ہر چیز کو کاروبار بنا دیا جاتا ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ شیطان ہر چیز کو سبوتاژ کرنے پہ تلا ہوا ہے۔ ہماری چاہے کوئی بھی چیز ہو، نماز کو لے لیں، روزے کو لے لیں، زکوٰۃ کو لے لیں، حج کو لے لیں؛ کسی بھی چیز کو وہ چھوڑتا نہیں ہے۔ کسی نہ کسی طریقہ سے اس کو خراب کرنے پر تلا ہوا ہے۔ تو یہاں پر فرماتے ہیں کہ اس میں بہت ساری باتیں خرافات کی ہیں جو بعد میں لوگوں نے شامل کی ہیں۔ وہ کیسے؟ لوگ اس دن میلہ لگاتے ہیں اور حضرات اہل بیت کے مصائب کا ذکر کرتے ہیں۔ بھئی! ان کی اولو العزمی کا ذکر کرلو کہ اللہ پاک نے ان کو کتنا اولو العزم بنایا ہوا تھا، اور کیسے انہوں نے دین کے لئے قربانی کی، اور کیسے اللہ پاک کے ہاں ان کی قبولیت ہے۔ ان چیزوں کا اگر آپ ذکر لازمی نہ سمجھیں اور کرلیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لازمی پھر بھی نہ سمجھیں، کیونکہ خود ان کی اولاد نے بھی ایسا نہیں کیا اس وقت بعد میں۔ اگر لازمی ہوتا تو پھر تو ظاہر ہے ان کی اولاد کو کرنا چاہئے تھا۔ ان کی اولاد نے بھی نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کیا کہ تین دن کے بعد کنگھی اور سر کو (تیل وغیرہ لگایا) تاکہ سوگ والی فضا ختم ہوجائے۔ تو جس طرح انہوں نے کیا اس طرح ہمیں بھی کرنا چاہئے۔ لیکن بس وہی شیطان درمیان میں آجاتا ہے اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں سکھا کے اور لوگوں سے کیا کیا باتیں وہ کرواتا ہے۔ یہاں پر اہل بیت کے مصائب کا ذکر کرتے ہیں، پھر روتے ہیں، مصنوعی رونا روتے ہیں اور اس کو لازم سمجھتے ہیں۔ اور یہ چیز واقعتاً اتنی ضروری سمجھی جاتی تھی کہ ہمارے خاندان کی بعض عورتوں میں یہ مشہور تھا کہ ان دنوں میں رونا ضرور چاہئے۔ اگر کسی کو رونا نہ آتا ہو تو تھوک اپنی آنکھوں میں لگا دے تاکہ تھوڑا سا ان کے ساتھ مشابہت ہوجائے۔ ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘۔ اب ٹھیک ہے الحمد للہ! یہ جہالت ختم ہوگئی ہے، اب تو نہیں ہے، لیکن یہ ہے کہ یہ چیزیں عورتوں میں بالخصوص آتی ہیں۔ مردوں میں جو عورتوں کے پیچھے چلتے ہیں، ان میں بھی یہ چیز آجاتی ہے اور اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب خرافات ہیں۔

اہل بیت کے ساتھ محبت، یہ تو لازم ہے۔ آپ ﷺ نے اس کے بارے فرمایا ہے، لہٰذا اہل بیت کے ساتھ محبت تو کرنی چاہئے لیکن ان کی محبت کے طریقے وہ ہونے چاہئیں جو شریعت کے مطابق ہوں، ورنہ پھر وہ کیسی محبت ہے۔ تو یہ بات ہے۔ اور پھر یہ کہتے ہیں کہ ان کا ماتم کرتے ہیں۔ اسلام میں ماتم نہیں ہے، اس میں تو ما شاء اللہ! شہادت ایک اعلیٰ مرتبہ ہے، جو کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے، کیونکہ اپنی مرضی سے تو نہیں ملتا، اس کے لئے آدمی کوشش تو نہیں کر سکتا، البتہ اللہ پاک سے مانگ سکتا ہے۔ جیسے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مانگ رہے تھے: ”اَللَّهُمَّ ارْزُقْنِيْ شَهَادَةً فِيْ سَبِيْلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَاجْعَلْ مَوْتِيْ فِيْ بَلَدِ رَسُوْلِكَ“ تو علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت سے عرض کیا: یا امیر المؤمنین! آپ کیا فرما رہے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ مدینہ منورہ پہ فوج چڑھائی کردے اور آپ اس میں شہید ہوجائیں تو یہ دعا تو ٹھیک نہیں ہے۔ فرمایا: نہیں، میں تو اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے دعا کرتا ہوں جیسے بھی اللہ چاہے گا تو وہ کرلے گا، اس کے لئے کیا مشکل ہے۔ تو وہی ہوا، اور پھر کیسے ہوا؟ عین مصلائے رسول پر نماز پڑھاتے ہوئے ان پہ حملہ ہوا اور اسی سے شہید ہوئے اور آپ ﷺ کے پاس دفن ہوئے۔ ایسے اللہ پاک نے دعا قبول فرمائی۔ تو دعا کی جا سکتی ہے شہادت کی، لیکن آدمی اپنے آپ کو مار نہیں سکتا، یہ خودکشی ہوگی۔ اب کوئی اور مارے گا تو اس کے لئے بھی آپ نے اپنے آپ کو ایسے حوالے نہیں کرنا کہ مجھے مارو، نہیں! آپ مقابلہ کریں گے اور اگر دشمن ہے تو اس کو مارنے کی کوشش کری‍ں گے۔ اگر درمیان میں اللہ پاک نے برابر کیا تو ظاہر ہے۔ دو صحابہ تھے، وہ آپس میں بیٹھے ہوئے تھے اور یار تھے آپس میں تو دعائیں کررہے تھے۔ ایک دعا کرتا تھا دوسرا آمین کہتا تھا۔ تو ایک نے دعا کی کہ اے اللہ! میرا ایک بہادر کافر کے ساتھ مقابلہ ہوجائے پھر میں اس کو ماروں، اس کا مال غنیمت لے لوں، اور پھر یہ کروں، پھر یہ کروں تو دوسرا ساتھی آمین آمین کہہ رہا تھا۔ جو دوسرا تھا وہ دعا کرنے لگا تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ! میرا ایک بہادر کافر کے ساتھ مقابلہ ہو، میں اس پہ حملہ کروں وہ مجھ پہ حملہ کرے، پھر اخیر میں میں شہید ہوجاؤں وہ میرا ناک کان کاٹے، اور یا اللہ قیامت کے دن تو مجھ سے کہے کہ یہ تیرا ناک اور کان کس لئے کاٹے گئے تو میں کہوں کہ یا اللہ تیری محبت میں یہ کاٹے گئے۔ ان دونوں نے دعائیں کیں اور دونوں نے آمین کہا۔ ایسا ہی ہوا۔ جنہوں نے جو دعا کی تھی ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا تو بعد میں جو زندہ رہے اور جنہوں نے یہ دعا کی تھی کہ میں غازی ہوں تو وہ افسوس کرتے تھے عمر بھر کہ اس کی دعا میری دعا سے اچھی تھی۔ تو مطلب میرا یہ ہے کہ شہادت کے لئے دعا کی جاسکتی ہے، اور میدان جنگ سے بھاگنا نہیں چاہئے، یہ کیا جاسکتا ہے، جنگ میں پیش پیش ہونا چاہئے۔ یہ ساری باتیں ہیں، لیکن یہ اپنی مرضی نہیں ہوتی۔ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس وقت فوت ہورہے تھے تو فرمایا کہ کیا بزدلوں کو اب بھی میری موت سے عبرت نہیں ہوگی کہ میرے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں نیزے کا نشان نہ ہو، جہاں تلوار کا نشان نہ ہو لیکن آج میں بوڑھیوں کی طرح چارپائی پہ ایڑھیاں رگڑ رگڑ کے مر رہا ہوں تو کیا ان کو ابھی بھی عبرت نہیں ہوگی؟ اب دیکھیں، روتے تھے کہ مجھے شہادت کیوں نہیں ملی تو ساتھیوں نے ان کو تسلی دی کہ آپ کا نام آپ ﷺ نے ”سیف اللہ“ رکھا ہوا تھا اللہ کی تلوار، تو اللہ کی تلوار ٹوٹ سکتی ہے؟ یہ تسلی ان کو دیتے تھے۔ تو اب یہ بات ہے کہ شہادت کا شوق تو تھا، لیکن قسمت میں ہونا نہ ہونا؛ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ تو جن کو شہادت مل جاتی ہے وہ تو بہت بڑے لوگ ہیں، تیسرا نمبر ہے ان کا۔ پہلا نمبر انبیاء کا ہے، دوسرا نمبر صدیقین کا ہے، تیسرا نمبر شہداء کا ہے۔ صالحین ان کے بعد آتے ہیں۔ تو یہ چیز الحمد للہ جن کو بھی اللہ پاک نصیب فرما دیں تو یہ بہت بڑی بات ہے۔

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور ان کی اولادوں کو جو اللہ پاک نے شہادتیں نصیب فرمائیں، اس پر وہ حضرات تو ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے تھے۔ شہادت نصیب ہوگئی تو یہ تو ان کے لئے بڑی عظمت کی باتیں ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات تھوڑی ہے کہ اس پر غم کیا جائے؟ ہاں، غم کس چیز پر کیا جائے، ان مسلمانوں پر کیا جائے جنہوں نے نواسۂ رسول کی حرمت کو زائل کیا۔ ان بدبختوں نے ایسا اپنا نقصان کرلیا ان پہ انسان افسوس کرے، وہ افسوس کی چیز ہے۔ باقی جو شہادت ہے وہ تو بڑی بات ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ نے جن کو بھی نصیب فرمائی ہے، تو وہ بڑی بات ہے۔ میرے خیال میں ایک کلام میرا ہے میں اس کو سنا دیتا ہوں، مجھے ویسے ہی دل میں آگیا ورنہ صحیح بات ہے کہ پہلے تو ارادہ بھی نہیں تھا لیکن یہ ہے کہ شاید اس موقع کے مطابق ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ہوش دیوانگی سے حضرت والا کا کلام۔ حضرت والا فرماتے ہیں: ؎

جس نے اپنا کاسۂِ دل پیشِ جاناں کردیا

جینا اُس نے اپنے واسطے اِس سے آساں کردیا


ہوگیا تیار مؤمن جب سے مرنے کے لیے

تو خدا نے اس کا پھر جینے کا ساماں کردیا


اُس کو تاجِ زیست پہنایا ہمیشہ کے لیے

جس نے اپنے سر کو اُس کی راہ میں قرباں کردیا

یہ قرآن پاک میں ہے:

﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰـكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ2 اور نہ کہو ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں شہید کیے جائیں مردے بے شک وہ زندہ ہیں تم لوگوں کو اس کا شعور نہیں ہے۔

تو مطلب ہے کہ اللہ پاک نے نزدیک تو یہ زندہ ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان کے بارے میں گمان بھی نہیں کرنا چاہئے کہ وہ مردہ ہیں، یہ بھی فرمایا گیا۔ تو اتنی بڑی سعادت اگر اللہ تعالیٰ کسی کو پہنچاتے ہیں تو یہ تو ان کے لئے بہت بڑی بات ہے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ یہ ہم نے دیکھا ہے، بلکہ بتایا بھی، کہا بھی گیا ہے۔ کسی نے کہا ہے: ؎



قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

مطلب ابھی غزہ کے مسلمانوں نے قربانیاں دیں تو پوری دنیا میں جو کبھی بھی ان کا نام نہیں لیتے تھے وہ بھی ان کا نام لینے پہ مجبور ہوگئے اور انہوں نے ان کے حق میں ریلی نکالی۔ حتیٰ کہ امریکہ میں یہودیوں نے بھی ریلیاں نکالیں کہ یہ ظلم ہورہا ہے۔ تو ظاہر ہے، ان لوگوں نے قربانیاں کیں تو ان قربانیوں کا اللہ تعالیٰ نے فوری طور پر یہ اثر دکھا دیا تو اس پر ہم لوگوں کو ماتم نہیں کرنا چاہئے۔ ماتم کام ہمارا نہیں ہے، ہمارا کام تو بیعتِ رضوان ہے۔ جیسے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں پتا چلا کہ شہید ہوگئے ہیں تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو جمع کیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم بدلہ لیں گے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اور اس کے لئے بیعت کروائی، تو جو بیعت کروائی درخت کے نیچے تو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی طرف سے خود اپنا ہاتھ شامل کرلیا کہ یہ ان کا ہاتھ ہے۔ تو یہ مسلمان کا کام ہے کہ وہ کہے کہ ہم اس کا بدلہ لیں گے، یہ نہیں کہ ان کا ماتم کریں۔ ماتم کا مطلب کیا ہے؟ وہ مسلمانوں کا کام نہیں ہے، یہ رونا دھونا عورتوں کا کام ہوتا ہے، ان کو بھی منع کرنا چاہئے۔ ویسے ذرا تھوڑا سا معافی چاہتا ہوں، ہمارے ہاں تو KPK میں مرد نہیں روتے ہیں، مطلب یہ ایک رسم سمجھیں یا جو بھی ہے، لیکن یہاں میں نے مردوں کو بھی موت پر روتے دیکھا ہے۔ مردوں کو تو چاہئے کہ عورتوں کو تسلی دیں اور ان کو رونے سے باز رکھیں، بین کرنے سے باز رکھیں، خود رونا تو بڑی عجیب بات ہے۔ بلکہ ایک نمائشی رونا بھی ہم نے دیکھا ہے۔ وہ میرے ایک دوست تھے، ساتھی تھے دفتر کے، تو ان کو گھر سے لینے کے لئے ہماری گاڑی چلی گئی، تو دیکھا کہ ان کے گھر ان کے والد صاحب فوت ہوچکے تھے۔ خیر! وہ بتانے کے لئے باہر آگئے، تو وہاں محلے کا کوئی آدمی تھا، ہم دیکھ رہے تھے، کیونکہ ہم گاڑی میں بیٹھے تھے، وہ تو ہمیں نہیں دیکھ رہا تھا، ہم اس کو دیکھ رہے تھے کہ وہ باقاعدہ pose بنانے کی پوری کوشش کررہا تھا، جیسے وہ rehearsal کررہا تھا یا کیا بات تھی۔ بہرحال جیسے وہ position میں آگیا، تو پھر ان کے ساتھ جپھی لگائی اور رونا شروع کرلیا۔ میں نے کہا: یار! یہ کیا عجیب بات ہے، ایک انسان کو ویسے رونا آئے تو علیحدہ بات ہے، خود بخود اگر غیر اختیاری رونا آئے۔ اس کو بھی control کرنا پڑتا ہے، لیکن یہ فرمائشی رونا اور یہ نمائشی رونا تو بہت عجیب کام ہے۔ اور اللہ معاف فرمائے، ہماری چچی تھیں، وہ ایک دفعہ کہنے لگیں۔ بھئی! شیر گڑھ، جو ہزارہ کا شیر گڑھ ہے، وہاں کی تھیں۔ تو کہتی ہیں کہ وہاں کسی کی فوتگی ہو چکی تھی، تو ایک عورت آئی تھی، وہ زار و قطار رو رہی تھی۔ اپنے چہرے پہ دوپٹہ ڈالا ہوا تھا اور بہت زار و قطار رو رہی تھی۔ لوگ کہتے بھئی! یہ تو بہت زیادہ رو رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اس نے چپکے سے اپنا چہرہ نکال کے اپنی ایک سہیلی سے کہا کہ میں صحیح رو رہی ہوں ناں؟ تو شاید اس کو بلایا گیا ہو کہ رونا ہے۔ تو اس قسم کی باتیں، یہ کیا ہیں؟ یہ بہت عجیب باتیں ہیں۔ تو جن میں اس قسم کی باتیں ہوں، تو وہ کیا اسلام کا کام کریں گے؟ وہ تو اسلام کو بدنام کررہے ہیں۔ اس وجہ سے کبھی بھی اس قسم کی حرکت نہیں کرنی چاہئے۔ ؎

جس نے اپنا کاسۂ دل پیشِ جاناں کردیا

جینا اس نے اپنے واسطے اس سے آساں کردیا


ہے حجاب تر دامنی کا خیال تو توبہ کرے

عفو کو تو اس لئے حق نے نمایاں کردیا


غیر پھر کیا چیز ہے، اس کے لئے کچھ نہیں

جس نے اپنے دل میں ذات حق کو مہماں کردیا


جس قدر اعراض ان کی یاد سے جس نے بھی کی

اس قدر دل اپنا جانو، اس نے ویراں کردیا


یہ بہت ہی اہم مفہوم ہے اس کا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد دل کی آبادی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غفلت؛ یہ دل کی ویرانی ہے۔ تو جس نے جتنا بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے اعراض کیا تو اس کا دل ویران ہے۔ یقین جانو، میں جب کبھی راستے پہ جاتا ہوں، تو پاس سے کوئی گاڑی گزرتی ہے کوئی drum music بج رہا ہوتا ہے، بہت heavy قسم کا جو ہوتا ہے، تو میں اپنے ساتھ جو جارہے ہوتے ہیں ان کو بتاتا ہوں کہ اس آدمی کا دل بالکل ویران ہے یعنی اس کے اندر اطمینان بالکل نہیں ہے، یہ مصنوعی طور پر اطمینان حاصل کرنے کے لئے ان چیزوں میں مشغول ہے، حالانکہ اس سے مزید خراب ہوتا ہے۔ تو جس کو اللہ پاک کی یاد سے اطمینان ہوتا ہے، ان کو ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، ان کا دل اپنے طور پہ مطمئن ہوتا ہے، لہٰذا ان کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان چیزوں کی ضرورت ان کو ہوتی ہے (جن کا دل مطمئن نہیں ہوتا)۔ آپ یقین کیجئے اس وقت یورپ میں اور امریکہ میں طوفان ہے میوزک کا، وہ جو لوگوں نے اپنے کانوں میں لگایا ہوتا ہے، جارہے ہوتے ہیں۔ walk بھی کررہے ہوتے ہیں، تو انہوں نے وہ لگائے ہوتے ہیں۔ ان کو اطمینان ہے ہی نہیں، وہ بلکہ میوزک سنتے سنتے سوتے ہیں، یعنی اس حالت میں وہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس سے ہمیں (اطمینان مل رہا ہے) حالانکہ یہ چیز ان کی بربادی کے لئے ہے۔ ان کا جو میوزک ہے، یقین جانئے وہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اس کا جو response ہے، وہ یہ ہے کہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہوجاؤں، ریزہ ریزہ ہوجاؤں، زمین پھٹ جائے، اس میں گھس جاؤں۔ کیا عجیب، یعنی thrilling قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ یہ نہیں ہوتے pop music یا اس قسم کی جو چیزیں ہوتی ہیں یہ سب بے اطمینانی کی علامتیں ہیں۔

جرمنی میں میں گیا تھا، تو وہاں پر language سیکھنے کے لئے، german language سیکھنی تھی، تو german language سیکھنے کے لئے میں ایک کلاس میں جاتا تھا، تو وہاں ایک استانی تھی، وہ language سکھا رہی تھی۔ تو ان کا طریقہ بڑا اچھا تھا کہ پہلے کچھ text پڑھا جاتا، پھر اس کے بعد group discussion کرواتی، تو اس دن (میوزک کو وہ لوگ museek کہتے ہیں۔) museek topic تھا، تو میوزک پر بات ہورہی تھی تو پھر discussion شروع ہوگیا تو مجھ تک آگئی، مجھے کہتی ہے کہ آپ میوزک کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اس کو میرے لباس سے بھی پتا چل گیا کہ میں مسلمان ہوں۔ تو میں نے کہا کہ کون سا میوزک جو بیماری ہے؟ وہ اس پر حیرت میں مبتلا ہوگئی، یہ کیا میں سن رہی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کیا کہا آپ نے؟ میں نے کہا: وہ میوزک جو بیماری ہے؟ (کہا) کیا مطلب؟ میں نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ دیکھو، میں نے تو دو قسم کے میوزک سنے ہیں، ان کے بارے میں (تو میری یہی رائے ہے) آپ مجھے تیسری قسم کا بتا دیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا؟ میں نے کہا: ایک تو western music ہے اور ایک eastern music ہے یعنی oriental music۔ تو جو western music ہے، اس میں تو انسان چاہتا ہے کہ میں پارہ پارہ ہوجاؤں، زمین میں دھنس جاؤں، آسمان تک ٹکڑے (ہوکر) پہنچ جاؤں، یہ اور وہ، اس طرح ہوتا ہے؟ کہتی ہیں: ہاں، yes۔ تو میں نے کہا کہ کیا یہ anxiety نہیں ہے؟ کہتی ہیں: ہاں۔ میں نے کہا: anxiety بیماری نہیں ہے؟ کہتی ہیں: ہاں، ہے۔ پھر میں نے کہا کہ eastern music تو یہ ہے کہ اس طرح انسان کہتا ہے: بس بھاگ جاؤں، کوئی میرے پاس نہ ہو گویا کہ فرار، اس طرح ہوتا ہے۔ تو میں نے کہا کہ کیا یہ depression نہیں ہے؟ کہتی ہے: ہاں۔ میں نے کہا: depression بیماری نہیں ہے؟ کہتی ہے: بیماری ہے۔ تو انہوں نے کہا: اچھا، پھر آپ کس چیز کو سمجھتے ہیں؟ میں نے کہا: جو ان دونوں کا علاج ہے۔ کہتی ہیں: دونوں کا علاج کیا ہے؟ میں نے کہا: دیکھو، اس کے لئے ڈاکٹر لوگ بھیجتے ہیں کہ جاؤ، سمندر کے کنارے جو لہروں کا شور ہے، وہ سنو۔ بچوں کا کھلکھلانا سنو۔ مرغ کی اذان سنو۔ مطلب اس قسم کی چیزیں میں نے بتا دیں۔ تو خیر! اس وقت تو بڑی حیران ہوئی، کچھ دنوں کے بعد وہ tape لے آئی۔ کہتی ہے: اس میں مرغ کی اذان ہے، سمندر کے پانی کا شور ہے۔ تو مطلب میرا یہ ہے کہ یہ اس قسم کی باتیں اصل میں واقعتًا بیماری ہیں، لیکن لوگ اس کو بیماری recognize نہیں کرتے۔ اب دیکھیں! ہمارے ہاں جیسے اذان ہے، صحیح اذان پڑھی جائے ما شاء اللہ اچھی آواز سے، اور قرآن پاک کی تلاوت ہے، نعت شریف ہے، اس طریقہ سے وہ کلام جو پڑھا جاتا ہے، بچوں کا کھلکھلانا، مرغ کی اذان، یہ سب، یہ چیزیں ہمارے ہاں ہیں۔ ہمارے ہاں یہ چیزیں نہیں ہیں، artificial جو اس قسم کی ہیں، یہ تو بیماریاں ہیں، ان بیماریوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ اس کی لوگوں کو لت پڑ جاتی ہے۔ اللہ پاک اس سے بچائے۔ ؎

جس نے اپنا کاسہ دل پیش جاناں کردیا

جینا اس نے اپنے واسطے اس سے آساں کردیا


آخری والے شعر میں حضرت والا فرماتے ہیں:


ہوگا وہ اس کا جو خود بن گیا اس کا شبیرؔ

کیا ہے نسبت ان سے اپنی، اس نے حیراں کردیا


اچھا، ابھی ایک اہم بات میں کرنا چاہتا ہوں۔ ایک دفعہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ درس دے رہے تھے حدیث شریف کا، یہ محرم کا مہینہ چل رہا تھا، تو اچانک اپنے شاگردوں سے پوچھا: تم میں سے کون ہے جس نے محرم میں جو اہل بیت ہیں، ان کے لئے ایصالِ ثواب کیا ہو؟ لوگ چپ، ظاہر ہے کہ عادت ہی نہیں ہے۔ تو اس پر حضرت نے فرمایا: الحمد للہ! جب سے محرم شروع ہوا ہے، روزانہ میں قرآن ان کو ایصالِ ثواب کرتا ہوں، روزانہ ایک قرآن میں ان کو ایصالِ ثواب کرتا ہوں۔ اب یہ ذرا غور سے سن لیں، یہ ہے چیز اصل میں communication کی۔ اب دیکھیں! جب آپ ایصال ثواب کرتے ہیں ان کے لئے، تو ان کو بھی فائدہ ہوتا ہے، اللہ پاک ان کو اس کا ثواب پہنچا دیتے ہیں اور جواب میں ان کے فیوض و برکات آپ کو ملتے ہیں، ان کی دعائیں ملتی ہیں۔ کیوں جی، وہاں پر دعائیں نہیں ہوسکتیں؟ نہیں کرتا کوئی؟ ان کی دعائیں ملتی ہیں۔ تو یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ یہی کام ہے، جو ہم کرسکتے ہیں۔ تو میرا تو خیال ہے کہ جو خواتین و حضرات اس سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں یا چاہتے ہیں، وہ ایصال ثواب کا ایک نظام (بنائیں)۔ مثال کے طور پر ایک پارہ پڑھ کر قرآن کا اس کا ثواب اہلِ بیت کو کرلیں۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور جو جو اس میں شہید ہوئے ہیں، ان سب کے لئے ایصالِ ثواب کرلیں۔ اس کو ایک معمول بنا دیں آج کل کے دنوں میں، تو ما شاء اللہ اس سے آپ کو فائدہ ہوگا۔ نہ تو آپ کو ان کے مصائب کا ذکر کرنے سے کوئی فائدہ ہوتا ہے، نہ ماتم کرنے سے آپ سے ان کا فائدہ ہوتا ہے یا آپ کا فائدہ ہوتا ہے، بلکہ گناہ ہوتے ہیں۔ تو اگر کچھ کرنا ہے، تو یہ کرو، بلکہ ابھی بھی کچھ کریں، تاکہ نقد والا معاملہ ہوجائے۔ ایک دفعہ سورۃ فاتحہ پڑھ لیں اور تین دفعہ سورۃ اخلاص۔

(دعا):

اے اللہ! تو اپنے فضل و کرم سے ہماری اس تلاوت کو قبول فرما اور اس کا ثواب امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور تمام شہداء کو پہنچا دے۔ اور یا الٰہ العلمین! ان کے فیوض و برکات ہم سب کو نصیب فرما دے۔

یہ ہمارے اوپر ان کا حق ہے، ظاہر ہے کہ یہ ہمارے بڑے ہیں اور ہمارے اوپر ان کا احسان ہے کہ انہوں نے ایسے مشکل وقت میں اتنے مشکل فریضے کو ادا کیا کہ جو ظلم اور جبر والی حکومت تھی، اس کے خلاف انہوں نے نسل بھی قربان کردی اور ایک ریت قائم کردی کہ ایسی چیزوں کو ماننا نہیں چاہئے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ ان کے ساتھ یہی بات ہے۔

باقی! یہ میں آپ کو بات بتا دوں کہ کوئی اور غیر شرعی طریقے سے ہم لوگ نہ ان کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں، نہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچے گا۔ یہ ماتمی چیزیں ہمارے کام نہیں آئیں گی، ان کو تو روکنا چاہئے۔ اب دیکھیں ناں، وجد جو ہوتا ہے ناں وجد، وجد میں انسان معذور ہوتا ہے۔ مثلاً: ایک شخص ہے، اس کو کوئی اندرونی جذبہ آیا، اس کی وجہ سے اس کی چیخ نکل گئی یا کوئی ذکر اس کی زبان پہ جاری ہوگیا یا کوئی اور حرکت اس کے جسم میں پیدا ہوگئی، تو وہ معذور ہے، مأجور نہیں ہے، معذور ہے۔ اور باقی لوگ ان کے اس معاملہ میں اقتدا نہیں کرسکتے کہ ان کی طرح کریں گے۔ کرنے کا حکم ہی نہیں، کیونکہ وہ تو معذور ہے، وہ چاہتا تو نہیں ہے، لیکن ہورہا ہے۔ اسی طریقہ سے اگر کسی وجہ سے دل دکھے اور دل دکھنے سے آنکھوں میں آنسو آجائیں بے اختیار، تو اس پر بھی اللہ پاک گرفت نہیں فرماتے، کیونکہ وہ غیر اختیاری چیز ہے، وجد کی طرح چیز ہے، تو معذور ہے اس میں مطلب اس میں (گرفت) نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ وہ جو محبت ہے، جس وجہ سے ایسا ہوا ہے، اس محبت پہ اجر ہے، اگر اس محبت کی وجہ سے ایسا ہوا۔ کیونکہ محبت ایک عمل ہے دل کا، تو لہٰذا اگر اہل حق کے ساتھ محبت ہے، تو اس پر تو اجر ہے۔ اس سے ان کا تعلق بھی ان کو حاصل ہوگا لیکن بہرحال اس کے جو consequences ہیں، اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ تو بہرحال میں عرض کروں گا کہ اگر کسی کا دل دکھ رہا ہے اور ویسے ان کی آنکھوں سے آنسو آرہے ہیں، تو ٹھیک ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن خواہ مخواہ قصدًا رونا دھونا، ان کے مصائب سنا سنا کر رونا، نہیں نہیں، یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ وہ ہمارے بڑے ہیں، ان لوگوں نے جو کام کیا وہ تو ہمارے لئے معیار ہیں حق کا، لہٰذا ہمیں بھی ایسا کرنا چاہئے۔ باقی یہ ہے کہ جو مقام اللہ نے ان کو دینا تھا، وہ دے دیا۔ دیکھو ناں! ان کو پہلے سے بشارت ہوئی تھی ”سَیِّدَا شَبَابِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ“ کی اور پہلے سے ان کو (علم) تھا اور یہ باقاعدہ خواب آپ ﷺ نے دیکھا تھا کہ ان کا محل سرخ ہے یعنی امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سبز ہے۔ تو پہلے سے بات ہوئی کہ ان کی شہادت زہر سے ہوگیم جو سبز ہے اور ان کی شہادت خون ریزی سے ہوگی یعنی امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی۔ تو پہلے سے وہ بات تھی کہ ایسا ہوگا، لہذا ان کے لئے تو ایک اعزاز ہے اور ان کے لئے مصیبت ہے جو اس کے لئے استعمال ہوئے ہیں، یعنی جنہوں نے ان کی مخالفت کی اور لڑائی میں ان کے خلاف کھڑے ہوگئے یا ان کے ساتھ بدعہدی کی، وہ تباہ و برباد ہوگئے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ہاں جی، یہ خولی تھا میرے خیال میں جس نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر مبارک دھڑ سے علیحدہ کیا تھا۔ تو وہ سر کو لے کے گیا عمرو بن سعد کے خیمے میں جو اس وقت سپہ سالار تھا۔ تو اس سے کہا کہ میری جھولی سونے چاندی سے بھر دو، میں نے دونوں جہاں کے سردار کے نواسے کا سر اتارا ہے۔ یعنی ان الفاظ میں وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں نے اپنی آخرت کو تو تباہ کردیا، اب دنیا تو دے دو۔ آخرت کو تو تباہ کردیا، دنیا تو دے دو۔ یہ آخری معاملہ ہوتا ہے۔ جس وقت کوئی انسان گناہوں کی آخری limit کو پہنچ جائے، تو پھر کیا ہوتا ہے؟ پھر وہ کہتا ہے کہ جس کے لئے میں نے گناہ کیے ہیں، تو کم از کم اس کا صلہ دنیا میں تو ملنا چاہئے۔ بالکل وہ جانتا ہے کہ کام میں نے غلط کیا ہے۔ تو اس کے ساتھ بالکل ایسے ہوا۔ عمرو بن سعد نے دھکے دے کر اس کو خیمے سے نکالا کہ تو نے کون سا اچھا کام کیا ہے کہ اس پر انعام چاہتے ہو۔ اس کو کہتے ہیں:

﴿خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةَ3 دنیا اور آخرت میں خسارے میں چلے گئے۔ نہ ادھر کچھ ملا نہ ادھر کچھ ملا اور خواہ مخواہ خراب ہوگئے۔ شیطان یہی کرتا ہے کہ انسان کو نہ دنیا میں کچھ دلوانا چاہتا ہے نہ آخرت میں کچھ دلوانا چاہتا ہے، تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے۔ تو ہم لوگوں کو ایسے لوگوں کے راستے پہ نہیں چلنا چاہئے اور ہمیں اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچانا چاہئے۔ یہ ہمارے لئے عبرت کے واقعات ہیں، اس سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ میں جس وقت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ پڑھتا ہوں، تو مجھے بعد کے جتنے ظلم ہوئے ہیں، جتنے واقعات ہوئے ہیں، وہ بہت ہلکے نظر آنے لگتے ہیں۔ اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے تو اس کے سامنے ان واقعات کی کیا حیثیت ہے۔ لاہور میں (جس وقت میرے خیال میں جو حملہ ہوا تھا طالبان کے اوپر امریکہ کا، تو) ایک صاحب بہت ما شاء اللہ دیندار تھے، تو بہت پریشان تھے۔ مجھے کہتے ہیں کہ طالبان سے اچھے لوگ کوئی اور ہوں گے؟ میں نے کہا: کیوں؟ کہتے ہیں: ان کی اگر مدد نہیں کی گئی، تو پھر کس کی مدد کی جائے گی؟ یعنی وہ اپنے خیال میں ایک قسم کا شکوہ کرنا چاہتا تھا۔ اگرچہ اس کی وجہ صحیح تھی، لیکن طریقہ غلط تھا، کیونکہ شکوہ تو نہیں کیا جا سکتا اللہ تعالیٰ سے، اللہ تعالیٰ تو اپنی حکمتوں کو خوب جانتا ہے۔ تو میں نے اس سے کہا کہ اچھا، مجھے بتاؤ کہ طالبان بہت زیادہ اللہ کے قریب ہیں یا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ زیادہ قریب تھے؟ کہتے ہیں: امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ تو میں نے کہا: پھر اس وقت جو ہوا، تو آپ نے دیکھ لیا ناں؟ ظاہر ہے کہ وہ شہید تو ہوگئے، اگرچہ اللہ پاک نے اس کا بدلہ لے لیا بعد میں، کوئی بھی آدمی جو directly یا indirectly involve تھا ان کی شہادت میں، وہ طبعی موت نہیں مرا بلکہ غیر طبعی موت یعنی ان لوگوں کو مارا گیا یا اس قسم کی چیزوں سے مرگیا۔ بلکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک وعظ میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک بوڑھا تھا، اس کے سامنے بتایا گیا کہ جو ان کی شہادت میں شریک تھا کسی نہ کسی طریقہ سے، تو وہ طبعی موت نہیں مرا۔ تو اس نے کہا کہ نہیں، میں تو اس میں تھا، مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ گویا کہ challenge والی بات ہوگئی۔ تو فرمایا کہ وہ گھر گیا، گھر میں اس کا دیا ٹمٹما رہا تھا، تو اس نے دیے کو ٹھیک کرنے کے لئے پھونک ماری، اس سے اس کی چنگاریاں اس کی داڑھی میں پڑ گئیں اور اس کی داڑھی نے آگ پکڑ لی اور داڑھی سے کپڑوں نے آگ پکڑ لی اور تھوڑی دیر کے اندر جل کر خاک ہوگیا، جل کے کوئلہ ہوگیا۔ غیر طبعی موت سے وہ بھی چلا گیا۔ تو اللہ پاک نے اس کا خوب بدلہ لیا ہے، خوب بدلہ لیا ہے، ان کو چھوڑا نہیں ہے، لیکن بہرحال! یہ واقعہ جو ہوا ہے، تو اس پہ انسان حیرت زدہ ہے کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اتنا بڑا شخص اور اتنا بڑا مقام، آپ ﷺ کے ساتھ direct رشتہ داری، بات بھی ان کی غلط نہیں، خود ہی بلایا، پھر کیسے یہ بات ہوسکتی ہے۔ لیکن ہوا ہے، ایسے سخت دل لوگ موجود تھے تو پھر ان کے ساتھ جو ہوا، وہ بھی اللہ پاک نے دکھا دیا۔ تو ہم لوگوں کو یہ بات دیکھنی چاہئے کہ ہمیں کن کے طریقہ پہ جانا چاہئے؟ ان لوگوں کے جنہوں نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مخالفت کی یا ان لوگوں کے جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔ ظاہر ہے کہ ہمیں تو ان کے ساتھ ہونا چاہئے، بس یہی بات ہے۔

تو بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجعمین کی محبت میں ایک غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ صحابہ کرام کے خلاف جو لوگ بولتے ہیں بد بخت، تو ان کی مخالفت میں ’’نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ‘‘ وہ اہل بیت کی مخالفت میں بولنے لگتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کے ساتھ بہت دشمنی ہے، اپنے اوپر ظلم کررہے ہیں۔ بھئی! ظاہر ہے کہ صحابہ نے تو ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی تھی، جنہوں نے کی، ان کے مخالف ہوجاؤ۔ تو اہل بیت کی مخالفت بھی اس طرح جائز نہیں ہے۔ جس طرح صحابہ کی مخالفت جائز نہیں ہے، اس طرح اہل بیت کی مخالفت بھی جائز نہیں، کیونکہ اہل بیت بھی تو صحابہ ہیں، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صحابی ہیں، فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی صحابیہ ہیں، حسن، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی صحابی ہیں۔ اور بعض لوگ تو ایسے ناسمجھ ہوجاتے ہیں کہ وہ ’’نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ‘‘ یزید رحمۃ اللہ علیہ کہنے لگتے ہیں، حالانکہ یزید بالاتفاق فاسق فاجر ہے۔ کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ اس نے تین کام ایسے کیے جو اس کے فسق کے اعلان کے لئے کافی ہیں اور آپ ﷺ کی ایک حدیث کے مطابق اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور سارے مسلمانوں کی لعنت کے مستحق ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ کہ اس نے خانہ کعبہ کی حرمت کو زائل کیا اور سنگ باری کرائی۔ مدینہ منورہ کو تین دن تک کے لئے مباح کرا دیا اور اہل بیت کی حرمت کو زائل کیا۔ یہ تین کام اس کے ایسے تھے اور ان سے توبہ اس کی ثابت نہیں ہے، کیونکہ یہ خانہ کعبہ پہ سنگ باری کے دوران ہی مر گیا ہے۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کشف ہوگیا یا جو بھی ہوگیا واللہ اعلم، وہ تو اندر سے محصور تھے ان کی فوج سے، تو انہوں نے ان تک پیغام پہنچایا کہ جاؤ، تحقیق کرلو تمھارا فاسق امیر مر گیا۔ پیچھے جب دیکھا، تو واقعی یزید مر گیا تھا۔ اچھا کمال کی بات ہے کہ یزید کے بیٹے نے یزید کی حمایت نہیں کی۔ معاویہ بن یزید، وہ اس کے بعد امیر المؤمنین نہیں بنے۔ وہ کہتے کہ میں اس ظلم کی حکمرانی نہیں چاہتا، انہوں نے بھی نہیں مانا۔

تو یہ ﴿خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ4 والی بات ہوگئی۔ ہاں البتہ کافر ہم اس کو نہیں کہتے، ہم کہتے ہیں کفر اور اسلام؛ یہ معاملہ ذرا سخت بات ہے، اگر کوئی کافر نہ ہو اور اس کو کافر کہا جائے، تو (وہ کفر) انسان کے اوپر واپس لوٹ آتا ہے، لہٰذا کافر تو ہم اس کو نہیں کہہ سکتے، ہاں البتہ فاسق اور فاجر ضرور ہے۔ اور اگر اللہ پاک اس کو معاف کرنا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں بھی ہم درمیان میں نہیں آتے۔ اَللَّھُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ میں وہ بھی شامل ہے۔ جس وقت ہم کہتے ہیں کہ اے اللہ! مومنوں کی مغفرت فرما دے تو اس میں وہ بھی شامل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کی دعا قبول فرما کر اس کو بھی معاف کردے تو کرسکتا ہے، اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ لیکن بہرحال حق کو حق کہنا پڑے گا۔ جو حق ہے اس کو بتانا پڑے گا کہ یہ صحیح اور یہ غلط ہے۔ یہ کام ضروری ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے کہ ہم حق کو حق کہیں، باطل کو باطل کہیں اور ہر قسم کی گمراہی سے بچ جائیں۔

اور پھر اخیر میں آپ سے یہی کہتا ہوں کہ ما شاء اللہ یہ مہینہ بہت مبارک مہینہ ہے، یہ مہینہ صرف اس لئے مبارک نہیں کہ اس میں شہادت ہوئی ہے، یہ پہلے سے مبارک چلا آرہا ہے۔ یہ ہمارے سال کی ابتدا کا مہینہ ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس میں یہ عاشورہ ہے، پہلے سے ما شاء اللہ اس کا روزہ رمضان شریف کے فرض ہونے سے پہلے فرض تھا، اب فرض نہیں، مستحب ہے، لیکن اس کا اجر بہت زیادہ ہے، کیونکہ فرماتے ہیں آپ ﷺ کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ یہی ہے، یعنی رمضان کے روزوں کے بعد۔ تو اس روزے کو رکھنا چاہئے، لیکن اس طرح رکھنا چاہئے کہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور بھی ملانا چاہئے یا پہلے یا بعد میں، تاکہ یہود کی مشابہت نہ ہو۔ اور اس کے لئے الحمد للہ! ہم نے پھر سوچا ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ کی اس کے لئے بشارتیں موجود ہیں، لہٰذا جو لوگ رکھتے ہیں، ان کے فائدے کے لئے ہمارے جو پروگرام آتے ہیں مثنوی شریف کا اور مکتوبات شریف کا، یہ منگل اور بدھ کو آتے ہیں تو یہ نویں دسویں کا ہوگا، تو یہ پروگرام ہم ان شاء اللہ عصر کے بعد کریں گے، تاکہ جو لوگ روزہ رکھنا چاہیں، تو ان کے لئے مشکل نہ ہو، وہ پروگرام میں شرکت کر کے افطار یہاں کر کے پھر گھروں کو جا سکیں، ان شاء اللہ۔

وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ


  1. ترجمہ: ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے“۔

  2. ترجمہ: ”ایسے شخص نے دنیا بھی کھوئی، اور آخرت بھی“ (الحج: 11)


  3. (الحج: 11)

  4. ترجمہ: ”اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو، در اصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا“۔ (البقرۃ: 154)