اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت شیخ رحمکار کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کا درس جاری ہے، جو حضرت کے صاحبزادے کی کتاب ’’مقامات قطبیہ و مقالات قدسیہ‘‘ سے لی جا رہی ہیں۔ حضرت کے علوم بہت گہرے تھے، اس وجہ سے حضرت کے حالات اور مقامات کے بارے میں بات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ بعض ایسی باتیں آ جاتی ہیں جو بزرگوں نے بیان تو کی ہیں، لیکن کتابوں میں متفرق طور پر ہوتی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کی برکت سے ان میں سے کچھ نہ کچھ چیزیں پہلے سے ہمارے سامنے آ چکی ہوتی ہیں۔ ورنہ بڑا مشکل ہوتا۔ گذشتہ سے پیوستہ جو بات چل رہی تھی، اس کے مطابق عرض کرتے ہیں۔
متن:
اور اس علم کی رسومات میں سے ایک جمع و تفرقہ ہے، جمع کی تعریف اہلِ تصوف نے یوں فرمائی ہے: "اَلْجَمْعُ ھُوَ أَنْ یَّکُوْنَ فَانِیًا عَنْ نَفْسِہٖ وَیَرَی الْأَشَیَاءَ کُلَّھَا بِہٖ وَلَہٗ وَإِلَیْہِ وَمِنْہُ" یعنی جمع یہ ہے کہ انسان اپنے نفس سے فانی ہو جائے اور تمام اشیاء ایسی نظر سے دیکھے کہ یہ اُس کے ذریعے سے ہیں، اس کے لیے ہیں، اس کی جانب ہیں اور اس کی جانب سے ہیں۔ اور تفرقہ یہ ہے کہ انسان اپنے عمل و کردار عبودیت سے حاصل کرے، "فَلَا بُدَّ لِلْعَبْدِ مِنَ الْجَمْعِ وَالتَّفْرِقَۃِ فَإِنَّ مَنْ لَّا تَفْرِقَۃَ لَہٗ لَا عُبُوْدِیَّۃَ لَہٗ وَمَنْ لَّا جَمْعَ لَہٗ لَا مَعْرِفَۃَ لَہٗ ﴿یَھْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ﴾ إِشَارَۃٌ إِلیَ التَّفْرِقَۃِ" بندہ کے لیے جمع اور تفرقہ کے بغیر کوئی چارہ نہیں، کیونکہ جس کو تفرقہ نہ ہو اس کو عبودیت نصیب نہیں، اور جس کو جمع حاصل نہ ہو اس کو معرفت ہاتھ نہیں آتی، ﴿یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ﴾ (البقرۃ: 213) کا اشارہ اہل تفرقہ کے لیے ہے۔ ابو الحسن نوری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا ہے: "اَلْجَمْعُ بِالْحَقِّ بِہٖ تَفْرِقَۃٌ مِّنْ غَیْرِہٖ وَالتَّفْرِقَۃُ مِنْ غَیْرِہٖ بِالْجَمْعِ بِہٖ"
تشریح:
اصل میں کیفیات اور حالات کو الفاظ میں بیان کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے، لیکن اس کے بغیر چارہ بھی نہیں ہے۔ ایک شخص اپنی کیفیات دوسرے کو کیسے بتائے، ظاہر ہے اس کے لئے کچھ الفاظ تو ہوں گے۔ الفاظ اور کیفیات کے درمیان جو فاصلہ ہوتا ہے، اس سے سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ البتہ جن پہ اللّٰہ پاک فضل فرمائیں ان کو ایسے الفاظ نصیب فرما دیتے ہیں، جن پہ اگر غور کیا جائے تو اس چیز کو انسان جان سکتا ہے، اور اِسی میں ہی کوششیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی پورے تصوف کو بیان کرتے ہوئے جو اصطلاحات تجویز فرمائی ہیں، وہ اسی ضرورت کے پیش نظر ہیں، تاکہ وہ چیزیں سمجھ میں آ جائیں، یعنی کم از کم لوگ اس پر عمل کر سکیں اور ان کو حاصل کر سکیں یا اپنی غلطی کو جان سکیں اور اس سے نکل سکیں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اس علم کی رسومات میں سے ایک جمع اور تفرقہ ہے، تفرقہ فرق سے ہے یعنی جدائی، اور جمع وصال ہے۔ یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ جمع کی تعریف میں حضرت فرماتے ہیں:
متن:
جمع کی تعریف اہلِ تصوف نے یوں فرمائی ہے: "اَلْجَمْعُ ھُوَ أَنْ یَّکُوْنَ فَانِیًا عَنْ نَفْسِہٖ وَیَرَی الْأَشَیَاءَ کُلَّھَا بِہٖ وَلَہٗ وَإِلَیْہِ وَمِنْہُ"
تشریح:
یعنی جمع یہ ہے کہ انسان کا نفس فنا ہو جائے، انسان اپنے آپ سے کٹ جائے۔ نفس کا جو اثر ہوتا ہے وہ اس کے اوپر نہ رہے۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ نفس کا ثقل ختم ہو جائے، روحانیت کے لئے جو رکاوٹیں ہیں، وہ دور ہو جائیں۔ چنانچہ جب روحانیت کی رکاوٹیں دور ہو جائیں تو روحانیت حاصل ہو گی، اللّٰہ کی طرف رجوع ہو گا، اور ایسا رجوع ہو گا جس میں نفس حائل نہیں ہو سکے گا۔ فرمایا: اِسی چیز کو جمع کہتے ہیں۔ یعنی جمع یہ ہے کہ انسان اپنے نفس سے فانی ہو جائے اور جب کوئی اپنے نفس سے فانی ہو جاتا ہے تو ہر چیز میں اس کو اللّٰہ نظر آتا ہے، اللّٰہ سے ہوتا ہوا نظر آتا ہے، وہ اللّٰہ کے لئے اللّٰہ پاک کی دی ہوئی صفات کے ذریعے سے سوچتا ہے، دیکھتا ہے، کرتا ہے، مانتا ہے، چلتا پھرتا ہے، ملتا ہے، جُدا ہوتا ہے، سب کچھ اللّٰہ کے لئے کرتا ہے۔ یہ وصال ہے۔ جیسا کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار ہوا تھا تو اس میں انہوں نے اللّٰہ پاک سے پوچھا کہ یا اللّٰہ! تجھ تک پہنچنے کا آسان ترین راستہ کیا ہے؟ اللّٰہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا: ’’دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَالَ‘‘ ’’اپنے نفس کو چھوڑ دے اور میرے پاس آ جا‘‘۔ گویا نفس رکاوٹ ہے۔ جب نفس کی رکاوٹ دور ہو گئی تو اللّٰہ تعالیٰ تک جانا کوئی مشکل نہیں رہے گا۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ ہم اللّٰہ کے پاس آ جائیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰہِ﴾ (الذاریت: 50)
ترجمہ: ’’لہٰذا دوڑو اللہ کی طرف‘‘۔
اور فرماتے ہیں: ﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرہ: 152)
ترجمہ: ’’لہٰذا تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا‘‘۔
لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ تو چاہتے ہیں، رکاوٹ ہمارے اندر ہوتی ہے، اگر ہمارے اندر سے وہ رکاوٹ دور ہو جائے تو اللّٰہ تعالیٰ کے پاس جانا کوئی مشکل نہیں ہے، کیونکہ اُدھر سے بھی قبولیت ہے، اِدھر سے بھی طلب پیدا ہو جائے تو کوئی مشکل ہی نہیں ہے، پھر کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ اس کیفیت کو جمع کہتے ہیں۔ آگے فرمایا: انسان اپنے نفس سے فانی ہو جائے اور تمام اشیاء ایسی نظر سے دیکھے کہ یہ اُس کے ذریعے سے ہیں۔ یعنی ہر چیز کو اس سے ہوتا ہوا دیکھے۔ ہر چیز اس کے لئے ہے، اس کی جانب ہے، اس کی جانب سے ہے۔ اس کیفیت کو جمع کہتے ہیں اور تفرقہ یہ ہے کہ انسان اپنے عمل و کردار عبودیت سے حاصل کرے یعنی اپنے آپ میں دوبارہ لوٹ آئے، اسے تفرقہ کہتے ہیں۔ یعنی وصال اور جدائی، یہ دو چیزیں ہیں، تفرقہ جدائی ہے اور جمع وصال ہے۔ بندہ کے لیے جمع اور تفرقہ کے بغیر کوئی چارہ نہیں، کیونکہ جس کو تفرقہ نہ ہو اس کو عبودیت نصیب نہیں، یعنی بندگی نصیب نہیں ہوتی، بندگی میں انسان اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا، لیکن جو کچھ بتایا جاتا ہے، اس میں کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ مثلاً ایک شخص اپنے محبوب کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے، اس کا دل بہت چاہتا ہے کہ میں محبوب کے ساتھ ہی رہوں، تو وہ اپنے آپ سے کٹا ہوا ہے۔ لیکن محبوب اس کو کہتا ہے کہ جاؤ بازار سے مجھے فلاں چیز لا دو۔ وہ انکار نہیں کر سکتا، وہ جائے گا، اگرچہ دل اِدھر رہے گا، لیکن جائے گا، کام کرے گا۔ یہ عبدیت ہے یعنی ماننا ہے۔ ابھی شاید ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا موبائل پہ اسی حوالے سے سوالات و جوابات ہوئے ہیں، وہ شاید اسی درس کے لئے تیاری تھی۔ یہ ساری باتیں کیفیات اور احوال ہیں۔ ابھی ایک صاحب نے مجھے واٹس ایپ پہ میسج کیا ہے وہ میں سناتا ہوں:
Someone asked me a question, why do the بزرگ of تصوف speak openly about their own احوال often?
(مجھ سے کسی نے سوال کیا کہ بزرگ کیوں بہت وضاحت کے ساتھ اپنے احوال بتاتے ہیں۔)
Their own کار گزاری experience etc.
(یعنی اپنی کار گزاری، اپنے تجربات بیان کرتے ہیں۔)
He says it looks like they are inviting people to themselves.
(ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنی طرف لوگوں کو بلا رہے ہوں۔ حالانکہ یہ تو صحیح نہیں ہے۔)
Like حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ says he was selected by اللّٰہ تعالیٰ as مجدد etc so what is the hikma behind this? حضرت شیخ رحمۃ اللّٰہ علیہ has dreamt I remember he was told by نبی ﷺ you have been selected as قطب الاقطاب and tell everyone yourself.
(کہ آپ کو قطب الاقطاب منتخب کیا گیا ہے، آپ دوسرے لوگوں کو خود یہ بتا دیں۔)
خلاصۃً سوال یہ ہے کہ جو بزرگ اپنے احوال اور اپنے مقامات بتاتے ہیں۔ سائل کی نظر میں تو یہ عیب ہے، وہ بزرگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ میرے یہ ساتھی ما شاء اللّٰہ خود صاحبِ نسبت ہیں۔ الحمد للہ انہوں نے جواب دیا ہے:
و علیکم السلام حضرت!
There are many aspects of this question
(اس سوال کے بہت سارے رخ ہیں)
First of all we consider only those people as بزرگ who have left their نفس behind them.
(ہم صرف ان لوگوں کو بزرگ کہتے ہیں، جنہوں نے اپنے نفس سے ہجرت کی ہو، اپنے نفس کو چھوڑ چکے ہوں۔)
And consider themselves less than animals even if they don’t die with ایمان.
(وہ اس حالت میں ہیں کہ ہم اگر ایمان کے بغیر چلے جائیں تو جانوروں سے بھی بدتر ہوں گے۔)
On the day of judgment while the animal has no such things to worry about.
(جب کہ جانوروں سے اس قسم کا کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی، وہ بے فکر ہوں گے۔)
If نفس and نفسانیت is out then there is no حب جاہ . So, we have حسن ظن they are not doing it for propaganda.
(جب حبِ جاہ کی بات ختم ہو گئی، نفسانیت ختم ہو گئی تو پھر وہ پروپیگنڈا کے لئے یہ نہیں کہہ رہے۔)
Counter to the belief of look at what is being said rather than who says it
(اس کے برعکس یہ ہے کہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے، یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔)
We believe in the exact opposite of it. We look at who is saying it rather than what is being said
(ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ کون کہہ رہا ہے، یہ نہیں دیکھتے کہ کیا کہہ رہا ہے۔)
We accept all the tall claims from someone like جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ ‘حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ، شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ but not from just anyone because their whole life a testimony to what they claim.
(جو حضرات اپنے بارے میں بڑی باتیں کرتے ہیں، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ، مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ، شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔ ان باتوں کو ہم مانتے ہیں، لیکن ہم دوسروں کی ایسی باتیں اس لئے نہیں کرتے کہ ان کی زندگی ان کے دعوے پہ گواہ ہوتی ہے۔)
Why then they do it
(پھر کیوں کرتے ہیں؟)
They can be many reasons
(اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔)
Their duty-bound to disclose it for the benefit of others
(وہ دوسروں کے فائدے کے لئے کرتے ہیں۔)
Like if I don’t declare myself as a doctor then who will come for treatment to me?
(جیسے جو میرے پاس علاج کے لیے آئے گا تو کیا میں خود کو ڈاکٹر قرار نہیں دیتا؟)
It's possibly they do it for تحدیث نعمت
(شاید وہ تحدیثِ نعمت کے طور پر فرما رہے ہوں۔)
They have been ordered to disclose their ranks for reasons best known to Allah
(ان کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے امر بھی کیا جاتا ہے کہ ان کو ظاہر کر دو، اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی کوئی حکمت ہوتی ہے۔)
The dream of (شیخ زکریا رحمۃ اللّٰہ علیہ) also mentioned that before Sheikhs used to think why اکابر make such tall claims now he knows why because they didn’t have any option too.
(جب وہ مامور ہوتے ہیں تو ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتا۔)
Tassawuf is a science based on communication of experiences that is how it makes significant progress. If nobody spoke about their experiences everyone every newcomer would start from zero. Now that they have حالات of other مشائخ available to them they can compare and correct their course with late اکابر
(چونکہ تصوف علم نہیں ہے، بلکہ تجربات اور حالات ہیں۔ لہٰذا اگر وہ ظاہر نہ ہوں تو لوگ ان سے کیسے فائدہ اٹھائیں گے؟)
The answer can be many more you can find out other reasons too if you think about it
(آپ اور بھی معلوم کر سکتے ہیں)
میں نے جو بات عرض کی، وہ میں نے حضرت کو بھیج دی۔ میں نے عرض کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ جس سے کام لینا چاہے، اس کے لئے حالات بنا لیتے ہیں۔ اصل میں فنا فی اللّٰہ کے ساتھ بقا باللّٰہ ملی ہوئی ہے، جو فنا فی اللّٰہ ہے وہ باقی باللّٰہ بھی ہے۔ لہذا جو فانی ہے اس کی ان چیزوں کی نسبت اس کی طرف نہیں بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف ہونی چاہیے، وہ تو فانی ہے۔ وہ تو کچھ کہہ ہی نہیں سکتے، وہ تو دعوی ہی نہیں کرتے۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی، جو بھی ان سے کہلوائے۔ ہاں ہر دعویٰ کرنے والے کو یہ بات حاصل نہیں، اور یہ لوگ فانی ہیں دعویٰ کرنے والے نہیں ہیں۔ آگے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی فنائیت کو دیکھیں اور پھر خلافت کی قبولیت کو دیکھیں، ہم جیسے نفس کے مارے لوگوں کو یہ بات کیسے سمجھ آئے، یعنی ایک طرف اتنے فانی ہیں کہ اپنے آپ کو جانور سے بدتر سمجھتے ہیں، اور دوسری طرف جب ان کے اوپر خلافت کا بوجھ ڈالا جاتا ہے تو اس کو برداشت کرتے ہیں۔ یہ ساری باتیں ہماری سمجھ میں اس لئے نہیں آتیں کہ ہم اس حالت پر نہیں ہیں۔ ہمیں وہ چیز حاصل نہیں ہے۔ اگر حاصل ہو جائے تو یہ ساری چیزیں ہمیں سمجھ میں آ جائیں۔
گفتۂ او گفتۂ الله بود
گرچہ از حلقومِ عبد اللّٰہ بود
یعنی جو عبد اللّٰہ کہہ رہا ہے، وہ اصل میں اللّٰہ کہہ رہا ہے اگرچہ عبد اللّٰہ کے منہ سے ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کے پاس درخت سے کلام آ رہا تھا، حالانکہ درخت نہیں بول رہا تھا درخت سے تو آواز آ رہی تھی۔ لہٰذا جن کو اللّٰہ تعالیٰ اپنا بنا لے تو اللّٰہ جل شانہ ان سے کہلواتا ہے۔ جیسے آپ ﷺ کے بارے میں قرآن پاک میں ہے کہ آپ ﷺ اپنی طرف سے نہیں بولتے، بلکہ وہی بولتے ہیں جو آپ ﷺ کو وحی کی جاتی ہے۔ چنانچہ جو آپ ﷺ کے نقشِ قدم پہ ہوتے ہیں، آپ ﷺ کے طریقہ پہ ہوتے ہیں، اور ان کی محنت قبول ہو جاتی ہے، تو ان کے ساتھ بھی ایسا معاملہ ہوتا ہے۔ ہاں! اس کو ہم وحی نہیں کہتے، الہام کہتے ہیں۔ وحی پیغمبر پہ ہوتی ہے، اور وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن الہام ختم نہیں ہے، الہام قیامت تک ہوتا رہے گا۔ بہر حال اس صاحب نے اس کے ساتھ اتفاق کیا اور فرمایا کہ ہاں! بالکل یہ صحیح ہے۔
بہرحال میں عرض کر رہا تھا کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جمع اور تفرقہ کے ساتھ جمع الجمع کی ایک اور اصطلاح ساتھ شامل کی ہے۔ جمع الجمع کی اصطلاح یہ ہے کہ لوگ ہوں تو لوگوں میں لیکن اِدھر نہ ہوں بلکہ اللّٰہ کے پاس ہوں۔ جِسے حضرت نے "خلوت در انجمن" کے نام سے بیان فرمایا ہے۔ یعنی لوگوں کے درمیان بیٹھ کر بھی لوگوں میں نہ ہوں۔ حضرت عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک دفعہ راستے میں جا رہے تھے، کچھ ساتھی بھی ساتھ تھے، حضرت راستہ بھر لطیفے سنا رہے تھے اور لوگ ہنس رہے تھے۔ جب اپنی جگہ پہ پہنچ گئے تو ساتھیوں سے پوچھا: آپ میں کوئی غافل ہو گیا تھا؟ سب نے کہا حضرت! ہم تو غافل ہو گئے تھے۔ فرمایا: الحمد للہ میں غافل نہیں ہوا۔ دیکھئے! راستہ بھر لطیفے سناتے رہے لیکن غافل نہیں ہوئے۔ یہ ہے لوگوں کے درمیان رہ کر بھی لوگوں کے اندر نہ ہونا۔ حضرت صاحبِ کشف تھے، مکہ مکرمہ میں دیکھا کہ ایک شخص غلاف کعبہ کو پکڑ کر بے تحاشہ رو رہا ہے، لیکن اس کے دل کی طرف دیکھا تو اس میں دنیا ہی دنیا تھی۔ جب بازار میں آئے تو بازار میں ایک صاحب تھان پہ تھان بیچ رہا تھا، لیکن اس کے دل کی طرف دیکھا تو اللّٰہ کے ساتھ لگا ہوا تھا، غافل نہیں تھا۔ اس وجہ سے ہم ظاہری حالات کو دیکھ کر نہیں کچھ کہہ سکتے، اندرونی حالات تو اللّٰہ کو معلوم ہوتے ہیں، اور فیصلہ اندرونی حالات پر ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو یہ چیزیں طے کرنی پڑیں گی، وصال ہو جائے، وصال کے بعد تشکیل ہو جائے، تشکیل کے بعد یہ ہو کہ لوگوں کے درمیان رہ کر اللّٰہ کی بات کرے، اللّٰہ کے لئے کرے، اپنے لئے بالکل نہ کرے، یہ جمع کی حالت ہے، اور لوگوں کے درمیان رہنا، یہ تفرقہ کی حالت ہے۔ تفرقہ اور جمع، جمع ہو جائیں تو اسی کو جمع الجمع کہتے ہیں۔
متن:
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب قلبِ سلیم کے مالک تھے اور قلبِ سلیم بغیر انبیاء علیہم السلام اور خاص اولیاء کرام کے اور کسی کا نہیں ہوتا، جو کہ اِن کے ساتھ مخصوص ہے۔ ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ﴾ (المائدۃ: 54) ”یہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جس کو مل گیا“ اور دوسری بات یہ ہے کہ علم تلوین اور تمکین میں خوب بالغ نظر تھے اور پوری مہارت رکھتے تھے۔ "اَلتَّلْوِیْنُ صِفَۃُ أَرْبَابِ الْأَحْوَالِ وَالتَّمْکِیْنُ صِفَۃُ أَصْحَابِ الْحَقَائِقِ" ”یہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جس کو مل گیا“ اور دوسری بات یہ ہے کہ علم تلوین اور تمکین میں خوب بالغ نظر تھے اور پوری مہارت رکھتے تھے۔
تشریح:
’’تلوین صفت ہے احوال کے لوگوں کی‘‘۔ اور ’’تمکین اصحابِ حقائق کی صفت ہے‘‘۔ یعنی جو اپنے مقام پہ پہنچ جاتے ہیں، ان کی اس کیفیت کو تمکین کہتے ہیں۔ مثلاً آپ راولپنڈی سے پشاور جا رہے ہیں، جب آپ منزل پہ پہنچ گئے اور وہاں آپ کا اپنا گھر ہے، اپنا شہر ہے تو آپ مقیم ہو گئے۔ گویا جس مکان (جگہ) پہ آپ نے جانا تھا اس پہ آپ پہنچ گئے۔ اس کو تمکین کہتے ہیں۔ اور تلوین یہ ہے کہ ابھی راستے میں ہیں، آپ بس میں چڑھ رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں، نماز پڑھ رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تلوین ہے۔ جیسے کہا: ’’اَلتَّلْوِیْنُ صِفَۃُ أَرْبَابِ الْأَحْوَالِ‘‘۔ احوال بدلتے رہتے ہیں، کیونکہ احوال متغیر ہوتے ہیں۔ مقامات متغیر نہیں ہوتے وہ ایک جگہ برقرار رہتے ہیں۔ تو جو احوال بدلتے رہتے ہیں، یہ تلوین کی علامت ہے۔ اصحابِ تلوین کے احوال کو جاننے والے بھی تھے، اور تمکین والوں کو جاننے والے بھی تھے۔
متن:
تکوین اربابِ احوال کی صفت ہے اور تمکین أصحابِ حقائق کی صفت ہے۔ سالک جب تک سلوک کے مقامات طے کر رہا ہو اس کو صاحبِ تلوین کہتے ہیں۔ تلوین اربابِ احوال کی صفت ہے اور تمکین أصحابِ حقائق کی صفت ہے۔ سالک جب تک سلوک کے مقامات طے کر رہا ہو اس کو صاحبِ تلوین کہتے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اِس مقام سے وہ شخص فائدہ اور لطف اُٹھا سکتا ہے جو کہ قلب سلیم رکھتا ہو، اور قلب سلیم اُس دل کو کہتے ہیں جو کہ بیس خصلتوں سے معمور ہو اور بیس خصلتوں سے خالی ہو۔ اُن اوصاف کی تفصیل جن سے دل خالی ہونا چاہیے وہ خصائل یہ ہیں: 1۔ شرک، 2۔ نفاق، 3۔ عداوت، 4۔ طمع، 5۔ امل (امیدیں)، 6۔ جزع (یعنی فریاد کرنا)، 7۔ حرص، 8۔ شک، 9۔ جہل، 10۔ گناہ پر اصرار کرنا، 11۔ تکبر، 12۔ بخل، 13۔ قنوطیت، (یعنی مایوسی سے)۔ احسان جتانا، 15۔ حسد، 16۔ دھوکہ دینا، 7۔ ملاوٹ کرنا، 18۔ بد گمانی کرنا، 19۔ جھٹلانا، 20۔ سُخط (یعنی بے صبری دکھانا، ناراضی کا اظہار کرنا)۔ اور وہ خصلتیں جن سے دل معمور ہونا چاہیے، یہ ہیں:
1۔ توحید، 2۔ اخلاص، 3۔ نصیحت، 4۔ زہد، 5۔ قناعت، 6۔ یقین، 7۔ علم، 8۔ تفویض، 9۔ لوگوں سے کنارہ کشی، 10۔ امیدیں مختصر کرنا، 11۔ صبر کرنا، 12۔ کسی پر احسان نہ جتانا، 13۔ سخاوت، 14۔ توبہ کرنا، 15۔ تواضع کرنا، 16۔ خوف، 17۔ اُمید رکھنا، 18۔ بھوک، 19۔ نیک گمان کرنا، 20۔ اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے محبت کرنا۔ قطعہ:
؎ نخشبی کار کار تمکین است
ایں نصیحت زمن بگوش پذیر
گر تو خواہی بدیں جناب رسی
بست خصلت گزار و بست بگیر
’’اے نخشبی یہ بات عزت کا کام ہے اور تم مجھ سے یہ نصیحت کان کھول کر سنو، اگر تم چاہتے ہو کہ اس مقام تک تمہاری رسائی ہو جائے تو بیس خصلتوں کو چھوڑ کر بیس خصلتیں اختیار کر۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب کو زبانِ حال عطا کی گئی تھی، اور زبانِ حال، زبانِ قال سے زیادہ بلیغ اور بہتر ہوتی ہے۔
تشریح:
قلبِ سلیم کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ قلبِ سلیم وہ دل ہے جو بیمار نہ ہو۔ اور قلبِ سقیم بیمار دل ہوتا ہے، اس میں بیس بیماریوں میں سے کچھ پائی جاتی ہیں۔ لیکن قلبِ سلیم میں ان میں سے کوئی بیماری نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا قلبِ سلیم کو حاصل کرنا آج کل کے دور میں کتنا مشکل ہو گیا!! حضرت نے فرمایا کہ قلبِ سلیم بہت ہی نایاب دل ہوتا ہے۔ حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا: ﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ 0 اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ﴾ (الشعرا: 88-89)
ترجمہ: ’’جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا اور نہ اولاد۔ ہاں جو شخص اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے گا‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے اندر جو کچھ بھی ہو گا، وہ ہماری نیکیوں کو کھائے گا، کیونکہ حسد نیکیوں کو کھاتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں بھی ہے۔ بے صبری بھی نیکیوں کو کھاتی ہے، اسی طرح احسان جتانا بھی نیکیوں کو کھاتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم قلبِ سلیم کے ساتھ اپنی نیکیوں کو لے جا سکیں تو وہ مقبول نیکیاں ہوں گی۔ ورنہ ہم کما رہے ہوں گے اور نیکیاں ضائع ہو رہی ہوں گی۔ جیسے حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایک ہم عصر نے کہا تھا کہ حضرت! کمال کی بات ہے، آپ بھی وہی کام کر رہے ہیں جو ہم کر رہے ہیں، مثلاً نماز آپ بھی پڑھ رہے ہیں، روزہ آپ بھی رکھ رہے ہیں، زکوٰۃ آپ بھی دے رہے ہیں، حج آپ بھی کر رہے ہیں۔ یہ سارے کام آپ کر رہے ہیں اور ہم بھی یہی کر رہے ہیں۔ ہم میں اور آپ میں فرق کیوں ہے؟ آپ آپ ہیں اور ہم ہم ہیں۔ واقعی یہ مشکل سوال تھا، ہم جیسے لوگوں سے کرتے تو ہم پریشان ہو جاتے۔ حضرت نے ایک فقرے میں جواب دے دیا۔ فرمایا: کیونکہ آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں، وہ آپ کا نفس کھا جاتا ہے۔ قلبِ سلیم کے مقابلہ میں قلبِ سقیم وہ ہوتا ہے جس کے اوپر نفس سوار ہو۔ اور جس کے نفس کو روح سے الگ کر دیا جائے اور وہ نفس سے خالی ہو جائے تو وہ قلب سلیم بن جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے جیسے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ دل کے اوپر محنت کرنے کے بعد نفس کی محنت ضروری ہے، کیونکہ دل سے اگر آپ ان چیزوں کو خالی بھی کر دیں تو پھر نفس اگر سوار ہے تو یہ چیزیں دوبارہ آ جائیں گی۔ مثلاً سخت آندھی کے اندر جو گندہ وغیرہ آپ کے گھر میں آ گیا ہے، اس کو اگر آپ نکال رہے ہوں اور دروازے کھڑکیاں کھلی ہوں تو کیا گھر صاف رہے گا؟ نہیں! وہ سارا کچھ دوبارہ آ جائے گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ دروازے کھڑکیاں بند کر لیں اور مزید چیزوں کو نہ آنے دیں۔ لہٰذا جب تک نفس کی بیماریاں اور نفس کی چاہتیں ختم نہ ہو جائیں، اس وقت تک قلب، قلبِ سلیم نہیں بن سکتا۔ مجھ سے ایک صاحب نے یہ سوال کیا تھا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انسان کے جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہو جائے تو سارا جسم ٹھیک ہو جائے، اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جائے گا، آگاہ رہو! وہ دل ہے۔ اس حدیث شریف سے پتا چلتا ہے کہ صرف دل پر ہی محنت کرنی چاہیے اور کسی محنت کی ضرورت ہی نہیں ہے، جب کہ آپ کہتے ہیں کہ نہیں! نفس کی محنت بھی ضروری ہے۔ میں نے کہا آپ نے مجھے حدیث شریف سنائی، بالکل بسر و چشم حدیث شریف بالکل صحیح ہے، مانتے ہیں، ہم خود بھی quote کرتے ہیں۔ لیکن قرآن پاک بھی تو سنو۔ قرآن پاک میں سورۂ شمس میں آتا ہے: ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحٰىهَا 0 وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا 0 وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا 0 وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىهَا 0 وَالسَّمَآءِ وَمَا بَنٰىهَا 0 وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰىهَا 0 وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا 0 فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا 0 قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 1-10)
ترجمہ: ’’قسم ہے سورج کی اور اس کی پھیلی ہوئی دھوپ کی۔ اور چاند کی جب وہ سورج کے پیچھے پیچھے آئے۔ اور دن کی جب وہ سورج کا جلوہ دکھا دے۔ اور رات کی جب وہ اس پر چھا کر اسے چھپا لے۔ اور قسم ہے آسمان کی، اور اس کی جس نے اسے بنایا۔ اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے بچھایا۔ اور انسانی جان کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈل دی جو اس کے لیے بد کاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔ فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جس نے نفس کے رذائل سے اپنے نفس کو پاک کیا، وہ یقیناً کامیاب ہو گیا اور جو اپنے نفس کو ان رذائل سے پاک نہ کر سکا، وہ یقیناً تباہ و برباد ہو گیا۔ میں نے کہا کہ قرآن پاک تو قرآن پاک ہے۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن الگ کہہ رہا ہے اور حدیث الگ کہہ رہی ہے؟ یہ تو کہہ ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ حدیث قرآن ہی کی تشریح ہے۔ یہ دونوں مخالف اور مختلف تو نہیں ہو سکتے، دنوں ایک ہی ہیں۔ جب ایک ہی ہیں تو تطبیق کرنی پڑے گی، اور وہ تطبیق یہ ہے کہ دل پاک اس وقت ہی ہو سکتا ہے، دل اس وقت ہی فساد سے نکل سکتا ہے، جب ساتھ نفس بھی پاک ہو جائے۔ جب تک نفس پاک نہیں ہو گا اور نفس کے رذائل ختم نہیں ہو چکے ہوں گے، اس وقت تک دل پاک نہیں ہو گا، جب تک پاک نہیں ہو گا تو شرط ہی پوری نہیں ہوئی۔ جو آپ ﷺ نے فرمایا ہے وہ ابھی تک ہوا نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب تک دل نہ صاف ہو، اس وقت تک نفس بھی پورا صاف نہیں ہو سکتا۔ دونوں لازم ملزوم ہیں، یعنی ایک کے صاف کرنے سے دوسرا صاف نہیں ہو گا، دوسرے کے صاف کرنے سے پہلا صاف نہیں ہو گا۔ یہ آپس میں اکٹھے ہوں گے پھر جا کر دونوں باتیں صحیح ہوں گی۔ چنانچہ یہاں جو بیس خصلتوں کا ذکر ہے ان کے لئے نفس کے اوپر محنت کرنی پڑے گی اور دل کے اوپر بھی محنت کرنی پڑے گی، دل پر محنت ہو گی ذکر کے ذریعے سے، مراقبات کے ذریعے سے۔ کیونکہ اس کے ذریعے سے معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اور دوسری طرف نفس کے اوپر محنت کرنی پڑے گی، نفس کے اوپر محنت کرنے سے ان شاء اللّٰہ رذائل دور ہوں گے، رذائل دور ہونے کی وجہ سے نفس پاک ہو گا، نفس پاک ہونے کی وجہ سے وہ آندھی رک جائے گی جو آپ کے گھر کو خراب کر رہی تھی۔ جب آندھی رک جائے گی تو آپ کا گھر بالکل پاک صاف رہے گا۔ جب صاف کر لیا تو صاف ہی رہے گا۔
متن:
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب کو زبانِ حال عطا کی گئی تھی۔
تشریح:
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہم نے یہ بات کی تھی کہ یہ باتیں اس لئے مشکل ہیں کہ احوال کو الفاظ میں لانے کی ضرورت ہے اور احوال کو الفاظ میں نہیں لایا جا سکتا، بہت مشکل ہے۔ حضرت کے بارے میں ان کے صاحبزادہ صاحب فرما رہے ہیں کہ حضرت کو زبانِ حال عطا کی گئی تھی، یعنی وہ حال کو بیان کر سکتے تھے، سمجھا سکتے تھے اور سمجھ سکتے تھے۔
متن:
اور زبانِ حال، زبانِ قال سے زیادہ بلیغ اور بہتر ہوتی ہے۔
تشریح:
میں آپ کو حال اور قال کا مطلب بتاتا ہوں۔ قال یہ ہے کہ مثلاً: میں بیس خصلتوں کے اوپر لیکچرز دوں کہ فلاں یہ چیز ہے، فلاں یہ چیز ہے۔ اتنے لیکچر دوں کہ سب لوگ جان لیں کہ یہ کیا چیزیں ہیں۔ یہ سارے قال ہیں، بے فائدہ نہیں ہیں لیکن فی الحال قال (صرف باتیں) ہی ہیں۔ جب یہ چیزیں حاصل ہو جائیں گی تو یہ حال بن گیا۔ لہٰذا ہمیں حال کا طالب ہونا چاہئے۔ جس کو حال حاصل ہوتا ہے وہ دوسرے کے اندر حال لا سکتا ہے، صاحبِ حال ہی صاحب حال بنا سکتا ہے۔ اور صاحبِ قال صاحب قال بنا سکتا ہے، صاحبِ قال صاحب حال نہیں بنا سکتا۔ صبر آپ صابرین سے سیکھیں گے، آپ صبر کے لیکچر دینے والوں سے صبر نہیں سیکھ سکتے، صبر والوں سے صبر سیکھا جاتا ہے۔ چاہے وہ ان پڑھ ہوں، ان کو صبر کا معنیٰ بھی نہ آتا ہو کہ صبر کس چیز کو کہتے ہیں، لیکن اگر ان کے اندر صبر ہو تو آپ ان کے ساتھ چند لمحیں بیٹھیں گے تو آپ کے اندر بھی تھوڑا صبر آ جائے گا۔ جس میں عاجزی ہو گی، اس سے آپ عاجزی لیں گے۔ جس میں شکر ہو گا اس سے آپ شکر لے سکیں گے۔ جس میں اللّٰہ پر یقین اور اعتماد ہو گا اس سے آپ اللّٰہ تعالیٰ پر یقین اور اعتماد لے سکیں گے۔ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ لہذا حال والے کے ساتھ لگ کر آپ حال کو حاصل کر سکتے ہیں، ورنہ پھر صرف قال ہی ہو گا۔ حضرت شمس تبریز رحمۃ اللّٰہ علیہ کا حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ جو پہلا مکالمہ ہوا تھا وہ قال اور حال کا ہی تھا۔ حضرت شمس تبریز رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تشکیل حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کی طرف ہوئی، جب وہ آئے تو دیکھا کہ وہ ایک ندی کے کنارے بیٹھے ہوئے ہیں اور لکھ رہے ہیں، چونکہ مفتی تھے اس لئے کوئی علمی کام کر رہے تھے۔ حضرت شمس تبریز رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ چونکہ حضرت کا حلیہ ایسا تھا کہ جس کو عالمانہ فاضلانہ حلیہ نہیں کہا جا سکتا تھا، اور یہ حضرات تو قدر ہی علماء و فضلاء کی کرتے ہیں، لہٰذ بے پروائی کے انداز میں کہا: یہ قال ہے، جس کو تو نہیں جانتا۔ یہ بات صحیح تھی۔ حضرت نے ترچھی نگاہ سے ان کتابوں کو دیکھا، تو ان میں آگ لگ گئی، حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ آگ سے پیچھے ہو گئے، حضرت شمس تبریز رحمۃ اللّٰہ علیہ آگے آئے اور ساری کتابوں کو ندی میں ڈال دیا۔ مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ رونے لگ گئے کہ خدا کے بندے! آپ نے میری ساری عمر کی محنت ضائع کر دی۔ میں نے اتنا کام کیا تھا، آپ نے وہ سارے کا سارا نہر بُرد کر دیا، یہ آپ نے کیا کر دیا؟ انہوں نے کہا: اچھا! آپ کا علم صرف اتنا تھا، باقی آپ کے پاس کچھ نہیں رہا۔ چنانچہ حضرت اس ندی کے اندر چلے گئے اور کتابیں اٹھا رہے ہیں اور گرد جھاڑ کر دے رہے ہیں۔ حالانکہ کتابوں کو پانی میں ڈال کر نکالیں تو ان پر گرد نہیں ہو گی، بلکہ ان سے پانی ٹپک رہا ہو گا۔ جب کہ ادھر کتابیں خشک ہی خشک ہیں اور ان سے گرد جھاڑ رہے ہیں اور دے رہے ہیں۔ اور فرمایا یہ تمہارا علم ہے، لے لو اسے۔ وہ حیران ہو گئے اور پوچھا: یہ کیا ہے؟ حضرت نے بھی بے پروائی کی انداز میں فرمایا: یہ حال ہے جس کو تو نہیں جانتا۔ یہ بات بھی صحیح تھی۔ لیکن اس سے حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ ہِل گئے، ان کو کچھ ہوا۔ کیونکہ اپنے قال کے بارے میں ان میں ترفع اپنی بلندی کا جو خیال تھا کہ میں اتنا بڑا عالم ہوں، اس خیال کو چوٹ لگی۔ پہلی دفعہ محسوس کیا، لیکن کچھ کہا نہیں۔ دوسری چوٹ اس وقت لگی کہ چونکہ حضرت بڑے علاقہ کے بہت بڑے مفتی تھے، لوگ ان کو مختلف دینی کاموں میں لے جاتے تھے۔ اس طرح ایک جگہ سے واپس جا رہے ہیں اور لوگ ان کو بڑی شان سے رخصت کر رہے ہیں، اتنے میں کہیں سے شمس تبریز رحمۃ اللّٰہ علیہ نکل آئے اور ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر کہا: مولوی! جانے سے پہلے ایک سوال کا جواب دو۔ کہا: بتاؤ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ایک صاحب کہتے ہیں: ’’سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمَ شَانِیْ‘‘۔ دوسرے صاحب کہتے ہیں: میں نے تیری ثناء کا حق ادا نہیں کیا۔ ان میں کون بڑا ہے؟ پہلا قول حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ہے اور دوسرا قول آپ ﷺ کا ہے۔ انہیں اس کا علم تھا۔ فرمایا: دوسرا بڑا ہے۔ پوچھا: وہ اقرار کر رہا ہے کہ میں نے حق ادا نہیں کیا، پھر کیوں بڑا ہے؟ انہوں نے کہا: اس کا ظرف بڑا ہے، چھلکا نہیں ہے۔ پہلے کا ظرف چھوٹا ہے اس لئے چھلک گیا۔ یہ علمی بات تھی اور صحیح تھی۔ حضرت کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ انہوں نے کیا فرمایا ہے۔ بس غائب ہو گئے، لیکن دل پہ چوٹ لگا دی۔ یہ چوٹ لگائی کہ تم جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہو تو تمہاری کیا حیثیت ہے! تمھارا ظرف چھوٹا ہے۔ دیکھئے! کس انداز میں پیغام دے دیا۔ صاحبِ حال اس طرح ہوتا ہے، حال والا حال کی زبان سے بات کرتا ہے۔ یہ حال ہی تھا کہ بتا دیا پہلے کا حال کیا ہے، دوسرے کا حال کیا ہے۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ صاحبِ سکر تھے، سکر میں ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تھے۔ جب کہ آپ ﷺ صاحبِ صحو ہیں، آپ ﷺ کی باتیں شطحیات نہیں ہو سکتیں، کیوں کہ آپ ﷺ ہمیشہ ہوش میں رہتے تھے۔ لہٰذا آپ ﷺ کی بات آپ ﷺ کے مقام کے لحاظ سے ہے، اور بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے حال کے لحاظ سے بات کر رہے تھے۔
آپ ﷺ کی دعا ہے: ’’لَا أُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰى نَفْسِكَ‘‘۔ (نسائی شریف، حدیث نمبر: 1133) یہ حال تھا، آپ ﷺ کا مقام تھا۔ لہذا صاحبِ حال نے حال کے ذریعے سے ان کے حال کو چھیڑ دیا۔ چنانچہ صاحبِ حال ایسا ہوتا ہے۔ ورنہ صحیح بات ہے جو صاحبِ حال نہیں ہوتا، وہ نہ حال سمجھ سکتا ہے، نہ حال سمجھا سکتا ہے، نہ حال بدل سکتا ہے۔ علم سے کوئی حال نہیں بدلتا۔ جیسے میں نے کہا کہ آپ صبر کے اوپر لیکچر دیں تو اس سے صبر حاصل نہیں ہو گا، صبر علم سے حاصل نہیں ہوتا ہے، شکر سے حاصل نہیں ہو گا۔ آپ کو صبر کا علم حاصل ہو جائے گا۔ جیسے ٹی بی کا علاج ٹی بی کے علم سے نہیں ہوتا، ٹی بی کے علاج سے ہوتا ہے۔ اسی طرح صبر کو صبر حاصل کرنے کے طریقے سے حاصل کیا جائے گا۔ شکر کو بھی اس کے طریقے سے حاصل کیا جائے گا۔ بزرگوں کے پاس ہم اس لئے جاتے ہیں کہ وہ صاحب حال ہوتے ہیں۔ اسی لئے مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی عمر بھر کا نچوڑ اس شعر میں سمویا ہے۔ فرمایا؎
قال را بگذار مردِ حال شو
پیش مردِ کامل پامال شو
مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ جو اپنے علاقے کے مفتی اعظم تھے، وہ کہتے ہیں کہ قال کو چھوڑو۔ میں یہ کہوں تو مجھے لوگ کہیں گے کہ یہ علم کا دشمن ہے اس لئے اس طرح کہہ رہا ہے۔ اس لئے یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ لیکن مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کہہ سکتے تھے، کیونکہ وہ خود بڑے عالم تھے، مفتی تھے۔ مثلاً اگر مفتی رفیع عثمانی صاحب یہ کہتے تو کوئی اعتراض نہ کرتا۔ لوگ کہتے کہ وہ عالم تھے، وہ کہہ سکتے تھے۔ لیکن عام آدمی ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ چنانچہ حضرت نے فرمایا؎
قال را بگذار مرد حال شو
"قال کو چھوڑ دو، مردِ حال بن جاؤ"۔ لیکن اس کے لئے یہ طریقہ اختیار کرو کہ:
پیش مردِ کامل پامال شو
"جو مرد کامل ہے اس کے سامنے پامال ہونا پڑے گا"، کسی کو بڑا ماننا پڑے گا، تب تمہارے اندر عاجزی آئے گی۔ جب تک کسی ایک کو بڑا نہیں مانو گے، اس وقت تک بات شروع ہی نہیں ہو گی۔ ایک صاحب کو اجازت ملی تو ان کے ایک دوست جو پہلے سے صاحبِ نسبت تھے، انہوں نے کہا: خبر بھی ہے اجازت کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا حضرت آپ بتائیں۔ فرمایا: اجازت کا مطلب یہ ہے کہ تو نے شیخ کے سامنے جو عاجزی سیکھی ہے کہ اپنے آپ کو شیخ کے سامنے عاجز کر لیا تھا کہ ان کی بات کے مقابلہ میں میری کوئی بات نہیں چلے گی۔ اب سب کے لئے اس چیز کو حاصل کرنا ہے۔ جیسے ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا: "جو سر اپنے آپ کو کچھ سمجھتا تھا، وہ میں بلخ میں چھوڑ آیا ہوں"۔ لہٰذا جو صاحبِ اجازت ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا، وہ اللّٰہ کے لئے بات کرتا ہے۔ اور چونکہ اللّٰہ بڑے ہیں، لہذا جب اللّٰہ کی بات کرتے ہیں تو اس میں اپنے آپ کو نہیں لاتے۔ مثلاً بادشاہ کی طرف سے ڈاکیا کوئی حکم لے کر آئے، جس میں بادشاہ نے لکھا ہو کہ فلاں کو سامنے گراؤنڈ میں پچاس چکر لگوا دو۔ اب ڈاکیا کی کیا حیثیت ہے کہ کسی کو یہ کہہ سکے۔ مثلاً بادشاہ نے گورنر کو کہا ہے کہ فلاں کو گراؤنڈ میں پچاس چکر لگوا دو۔ جو ڈاکیا لیٹر لایا ہے کیا اس کو سزا دی جا سکتی ہے کہ تو نے مجھے کیوں کہا؟ بلکہ اس کو اگر سزا دینے کا سوچا بھی تو جس نے بھیجا ہے، اس کی طرف سے مزید کسی سزا کا حکم آ سکتا ہے۔ اس طرح جو حضرات یہ بات کرتے ہیں، وہ اللّٰہ کے لئے کرتے ہیں، اللّٰہ کی بات ان پہ سوار ہوتی ہے۔ لہذا وہ جو بات کرتے ہیں، کسی کو کچھ بھی کہہ دیں، وہ اللّٰہ کی طرف سے ہوتا ہے، اپنے لئے نہیں ہوتا۔ ہماری بات کی تو ابتدا ہی تفرقہ اور جمع سے ہوئی تھی۔ لہٰذا یہ حضرات یہ بات اپنے لئے نہیں کرتے، بلکہ اللّٰہ کے لئے کرتے ہیں، لہذا وہ پروا نہیں کرتے۔ ہاں اگر اپنے لئے کریں تو پھر اسے سنبھالنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے۔
متن:
حضرت صاحب کو زبانِ حال عطا کی گئی تھی، اور زبانِ حال، زبانِ قال سے زیادہ بلیغ اور بہتر ہوتی ہے۔ وہ گروہ جن کی نظرِ تمام عبرت ہوا کرتی ہے اور اُن کی باتیں دِل میں اُترتی ہیں، اور ان کی باتیں فکر سے بھری ہوتی ہیں، اکثر زبانِ حال سے باتیں کرتے ہیں،
تشریح:
جیسے ایک بزرگ بیمار ہو گئے تو انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ آپ وعظ کریں۔ اس نے بڑا عالمانہ وعظ کیا۔ لیکن کوئی لوگ تنکے کاٹ رہے ہیں، کوئی پتھروں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، کوئی کچھ اور کر رہے ہیں۔ ان کے اوپر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا، حضرت نے جب دیکھا تو فرمایا: نیچے آؤ۔ وہ نیچے آئے، حضرت بیٹھ گئے اور اپنا واقعہ سنایا کہ میں نے آج روزہ رکھنا تھا، اس کے لئے میں نے دودھ رکھا تھا، جب میں سحری کے وقت اٹھا تو بلی آئی اور اس دودھ کو پنجہ مارا اور دودھ گر گیا۔ سب لوگ دھاڑیں مار مار رونے لگے۔ بیٹے نے کہا: ابا جان! یہ کیا ہے؟ میں نے علوم کے دریا بہا دیئے، کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ آپ نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس میں نہ علم ہے، نہ کوئی اور خاص بات ہے، بس ایک واقعہ ہے۔ اور لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ یہ کون سی بات ہے؟ انہوں نے کہا: بیٹا! تو زبان سے بات کرتا ہے، فقیر دل سے بات کرتا ہے۔ لہٰذا دل سے جو بات ہوتی ہے، حال ہوتا ہے۔
؎ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
متن:
کہتے ہیں کہ اے دل تو سب اعضا کا سردار ہے، اور تمام انداموں کا بادشاہ ہے، اور بادشاہوں سے آبادی اور ملک کی شادابی کی امید کی جاتی ہے نہ کہ ملک کی خرابی کی۔ اور اسی طرح اپنے نفس کے ساتھ بھی گفت و شنید کرتے ہیں اور اسی طرح دیگر اشیاء کے ساتھ بھی باتیں کرنے لگتے ہیں، ان کے کلام کے درمیان کوئی پردہ نہیں کرتا، اور ان کی باتیں نا قابلِ فہم نہیں ہوتیں۔ اور زبانِ حال، زبانِ قال سے زیادہ فصیح ہوتی ہے، اس بات کو وہ لوگ سمجھ پاتے ہیں جن کو فہم و فکر کی نعمت ودیعت ہوتی ہے۔
آن حضرت صاحب کے دیگر اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصیت حضرت صاحب کا فقر ہے، ان کے حال کے آغاز و انجام اور باطن و ظاہر میں فقر تھا۔ مسیح صاحب جو کہ فقر کے سمندر کے ملنگ تھے، وہ فرماتے تھے کہ "اَلْفَقْرُ مَشَقَّۃٌ، قَدْ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ وَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا الْفَقْرُ؟ قَالَ: "خَزَائِنُ مِنْ خَزَائِنِ اللّٰہِ تَعَالٰی فِي الدُّنْیَا وَمُرٌّ فِي الْآخِرَۃِ وَالْغِنَا مُرٌّ فِي الدُّنْیَا وَمَشَقَّۃٌ فِي الْآخِرَۃِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”ایک شخص نے رسول اللّٰہ ﷺ کی خدمت میں آ کر پوچھا کہ فقر کیا ہے؟ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ فقر دنیا میں اللّٰہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے خزانہ ہے اور آخرت میں تلخی اور کڑواہٹ ہے، اور غنا دنیا میں تلخی ہے اور آخرت میں مشقت ہے“ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ کیا درویش کے لیے جائز ہے کہ کسی سے کوئی چیز لے لے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ اگر وہ جانتا ہو کہ وہ اسی وقت کسی دوسرے شخص کو دے دے گا تو وہ لے لے۔ درویش وہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس کوئی چیز نہ ہو، اور اگر ہو بھی تو اُس کی کوئی چیز نہ ہو۔ اور جو کوئی اپنی زندگی میں گوشۂ گمنامی میں رہے تو وفات کے بعد وہ تمام دنیا میں مشہور ہو جاتا ہے۔ "فَطُوْبٰی لِمَنْ لَّا یَعْرِفُ النَّاسَ وَلَا یَعْرِفُوْنَہٗ" ”وہ آدمی خوش نصیب ہے جو کہ لوگوں کو نہ پہچانتا ہو اور لوگ بھی اِس کو نہیں پہچانتے“ اور جو کوئی اپنے دور حیات میں اپنی مشہوری اور شہرت کے لیے کوشش کرے وہ موت کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ اس کا نام فرسودہ اور ذکر رفتہ ہو جاتا ہے۔
تشریح:
اس پر میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، بڑا عجیب واقعہ ہے، عبرت کے لئے بہت اہم واقعہ ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اللّٰہ تعالیٰ نے جو بے نیازی، عجز اور مسکینی نصیب فرمائی تھی، وہ ضرب المثل ہے، اور وہ حضرت کی کتابوں سے ظاہر ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نے مجھے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا اتنا علم پھیلے کہ ساری دنیا تک پہنچ جائے۔ حضرت کہتے ہیں: میں نے عرض کیا کہ آپ کا بڑا حوصلہ ہے، میں تو کہتا ہوں کہ اتنا گم ہو جاؤں کہ جب میں مر جاؤں تو کسی کو پتا بھی نہ لگے کہ دنیا میں زکریا بھی کوئی آدمی آیا تھا۔ دیکھئے! یہ دونوں کی خواہشات ہیں اور اللّٰہ کا فیصلہ کیا ہے۔ جس صاحب کا میں واقعہ بیان کر رہا ہوں، میں اس کا نام نہیں جانتا۔ اور حضرت کا یہ حال تھا کہ ایک صاحب نے ان کو خط لکھا: ’’شیخ الحدیث مدینۃ المنورہ‘‘ حالانکہ وہاں پوسٹ بکس کے ذریعے سے خطوط لکھتے ہیں کہ پوسٹ بکس نمبر فلاں اور صندوق البرید لکھتے ہیں۔ وہاں لوگوں کے صندوق مخصوص ہوتے ہیں، وہاں کسی کے نام سے خط نہیں جانتے، ان کا طریقۂ کار ایسا ہے۔ لہٰذا یہ خط خلافِ معمول جاتا ہے اور حضرت کے پاس وہ خط پہنچ گیا۔ پس پتا چلا کہ مدینہ والے شیخ الحدیث حضرت ہی کو سمجھتے تھے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اتنا مقام دیا تھا۔ کمال کی بات ہے، ایسے عجیب حالات ہیں، اللّٰہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں دیتے ہیں۔ مدینۃ المنورہ فوت ہوئے تھے، اسی کے لئے گئے تھے۔ اور وہاں کے اس وقت کے قانون کے مطابق جنت البقیع میں دفن ہونا تھا۔ لیکن اہلِ بیت کے بالکل پاس دفن ہوئے ہیں۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ اتنے عرصے کے بعد اہلِ بیت کے پاس ان کو قبر کی جگہ کیسے ملی؟ یہ اللّٰہ کا فضل ہے۔ ﴿ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ﴾ (الحدید: 21)
ترجمہ: ’’یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے‘‘۔
حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جنت البقیع گیا تو میں نے سوچا کہ یہ تو بڑے لوگوں کی جگہ ہے، پتا نہیں مجھے اس میں جگہ مل سکتی ہے یا نہیں، یہ تو قسمت کی بات ہے۔ فرماتے ہیں مجھے الہام ہوا کہ یہ تو میرا فیصلہ ہے، میں جس کو بھی دینا چاہوں، کسی کو کیا۔ چنانچہ ان کو جگہ مل گئی۔ تو جو اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے، ان کو اللّٰہ دیتے ہیں اور جو مشہوری چاہتے ہیں وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔
متن:
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب کو ہمیشہ بھوکا رہنے کی جانب میلان تھا، اور وہ ہمیشہ اپنے آپکو بھوکا رکھا کرتے تھے۔ کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ وہ آدمی جو کہ بھوک کے دسترخوان سے صدیقین کا کھانا تناول فرماوے، تو اُس کا دوپہر کا کھانا نہیں ہوتا۔ عقلمند لوگ کہتے ہیں کہ بھوک کی تکلیف ایک پیسے سے دور کی جا سکتی ہے مگر سیری اور بھرے پیٹ کی تکلیف ایک خزانے سے بھی دفع نہیں ہو سکتی۔
تشریح:
یعنی جس کو بھوک کی تکلیف ہو، اس کو ایک پیسہ دیں گے، تو کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب پیسے کی وقعت ہوتی تھی، اب تو پیسہ کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ اب تو روپیہ بھی کچھ نہیں ہے۔
متن:
اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ دنیا یہ زر و مال، گھوڑے، خادم وغیرہ نہیں، بلکہ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ "بَطْنُکَ دُنْیَاکَ" یعنی تمہارا پیٹ تمہاری دنیا ہے۔ جو لوگ کم کھاتے ہیں وہ تارکانِ دنیا ہیں اور جو زیادہ کھاتے ہیں وہ تارکان دنیا نہیں ہوتے۔ ایک شخص نے ایک درویش سے عرض کیا کہ مجھے عبادت کرنا سکھا دیجیئے۔ درویش نے پوچھا کہ تُو طعام کس طریقے سے کھاتا ہے؟ خوب سیر ہو کر کھاتا ہے یا کہ آدھے پیٹ کھاتا ہے؟ اُس نے کہا کہ پیٹ بھر کر کھاتا ہوں۔ درویش نے جواب دیا کہ سیر ہو کر کھانا جانوروں کا کام ہے، پہلے جا کر کھانا سیکھ لو، اس کے بعد میرے پاس آ جاؤ تاکہ تمہیں عبادت کرنا سکھا دوں۔
روایت ہے کہ شیطان کہتا ہے کہ میں بھرے پیٹ والے کے ساتھ نماز میں معانقہ کرتا ہوں،
تشریح:
ایک بات سنائے دیتا ہوں۔ کھانے میں ایک ہوتا ہے پیٹ بھرنا اور ایک ہوتا ہے جسم کی ضرورت کو پورا کرنا۔ جسم کی ضرورت پوری ہوتی ہے calories سے۔ اور Extra calories یا fats کی صورت میں جسم میں جمع ہوتی ہیں یا کچھ مسائل پیدا کرتی ہیں، جیسے شوگر اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں پیدا کرتی ہیں۔ مجھے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ ہمارے میڈیکل کالج کے پروفیسر حضرات دو سلائس کھا کر انہیں پر پورا دن گزارا کرتے ہیں، ان کو کچھ نہیں ہوتا، ان کی صحت بالکل عام حالت پر ہے، وہ energetic بھی ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم جو اضافی کھانا کھاتے ہیں وہ صرف اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے کھاتے ہیں، اس کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاً ایک آدمی دعوت میں جائے اور خوب سیر ہو کے کھا لے، پھر بھی کہتا ہے کاش میں اور کھا سکتا۔ یہ نفس کی خوشی کے لئے کھا رہا ہے۔ ایک عورت کو پیٹ کی تکلیف تھی، ڈاکٹر نے اس کو کوئی گولی دی کہ یہ کھا لیں۔ وہ کہتی ہے اگر میں اور کھا سکتی تو کھانا کھا لیتی، ساری جگہ تو بھر گئی ہے، اب میں مزید کیسے کھاؤں۔ تو جو اس طرح کھاتے ہوں کیا وہ ضرورت کے لئے کھاتے ہیں؟ لوگ کہتے ہیں کہ آج کل مجاہدہ متروک ہے۔ بزرگوں نے کہا ہے، بالکل ٹھیک ہے، الحمد للہ ان کی بات سر آنکھوں پہ۔ لیکن اس ریسرچ کے موجود ہونے پر ہم عرض کر سکتے ہیں کہ لوگ جو اضافی کھاتے ہیں، کم از کم اس کو چھوڑ سکتے ہیں۔ جو ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں، کم از کم اتنا مجاہدہ تو کر سکتے ہیں کہ وہ چھوڑ دیں۔ جو صرف نفس کے لئے کھانا ہوتا ہے، ضرورت نہیں ہوتی، اسی کو چھوڑ دیں تو وہی مجاہدہ کے لئے کافی ہے۔ لہٰذا صرف یہ مجاہدہ تو کرایا جا سکتا ہے کہ جو صرف نفس کے لئے کھا رہے ہوں، ضرورت کے لئے نہ کھا رہے ہوں، آپ ان کو ضرورت پوری کرنے دیں۔ لوگ یہ حدیث بہت زیادہ بتاتے ہیں کہ: ’’وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا‘‘۔ یہ ایسے ہے جیسے ایک بڑھیا گر گئی تھی تو کسی نے کہا اس کو ٹکور کریں، کسی نے کہا اس کو گرم کمبل میں لپیٹ دیں، کسی نے کہا ہسپتال لے جائیں، کسی منچلے نے کہا کہ اس کو گرم گرم حلوہ کھلائیں۔ تو اس کی آنکھیں کھل گئیں اور کہتی ہے اس بیٹے کی بات بھی سن لیں۔ لہٰذا ’’وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا‘‘۔ حدیث شریف ہے اور یہ بالکل صحیح ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ اپنا پیٹ بھر لو اور اس کے اندر کوئی جگہ باقی نہ رہے۔ آخر ہمارے پاس سنت بھی تو موجود ہے۔
متن:
کہ جو آدمی پیٹ بھر کر کھائے تو نماز کے باہر بھی شیطان کا اس پر تسلط اور غلبہ ہو گا۔ اور وہ بھوکا آدمی جو کہ نماز پڑھ رہا ہو، شیطان اُس سے کتنی زیادہ دوری اور نفرت کرتا رہے گا۔ پس درویش سے کم کھانا، کم کہنا، اور کم سونا مُراد ہوتا ہے۔ جیسا کہ علم سے مقصود عمل اور شمع سے مطلب روشنی کا حصول ہے، نہ کہ علم سے مُراد حکایت اور روایت کا رٹنا اور تکرار کرنا، کیونکہ جاننا ایک علیحدہ کام ہے اور اس پر عمل کرنا دوسرا کام ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب بہت زیادہ عالی ہمت تھے۔ اور کہتے ہیں کہ عالی ہمت وہ ہوتا ہے کہ وہ عبادت کرے اور اس کا اجر نہ مانگے۔
تشریح:
آج کل صورتحال یہ ہے کہ کوئی شخص ہمارے پاس آ جائے اور ہم ان سے عرض کریں کہ آپ تہجد پڑھیں، اللّٰہ تعالیٰ سے مانگیں، چار پانچ دن تہجد میں مانگنے کے بعد ان کا مسئلہ حل نہ ہو تو چھوڑ دیتے ہیں کہ اس سے نہیں ہوتا۔ یہ تو سودے والے لوگ ہیں، یہ سودہ کرتے ہیں کہ میرا دنیا کا کام کب ہو گا۔ جن کو آخرت مطلوب ہی نہیں ہے اس کا آپ کیا کر سکتے ہیں۔ ایک صاحب نے مجھے فون کیا: شاہ صاحب میں آپ سے دو سال پہلے بیعت ہوا ہوں فلاں صاحب کے وساطت سے۔ جو ذکر آپ نے بتایا تھا وہ میں جاری نہیں رکھ سکا، آپ مجھے بتا دیں کہ کون سا ذکر تھا؟ میں نے ذکر تو بتا دیا، لیکن میں انتظار کر رہا تھا کہ اصل بات کب بتائیں گے۔ کیونکہ مجھے بھی تجربہ ہو گیا ہے۔ آخر وہ اصل بات پر آ گئے کہ آج کل کچھ مشکلات ہیں، تکلیفیں ہیں، اس کے بارے میں آپ کچھ فرما دیں۔ میں نے ان سے کہا: میں نے اس بات کا ٹھیکہ کبھی نہیں لیا کہ لوگوں کے دنیاوی مسائل کو حل کرتا پھروں، نہ میں نے اس کا ڈھنڈورا پیٹا ہے، نہ میں نے کسی کو بتایا ہے، نہ میں اس کا دعویٰ کرتا ہوں، نہ اس کے بارے میں کچھ دعوی کیا ہے۔ اور میں نے کہا کہ میں خود بھی اللّٰہ تعالیٰ کا بننا چاہتا ہوں، جو میرے پاس آئیں، ان کے لئے بھی کوشش کرتا ہوں کہ وہ بھی اللّٰہ کے بن جائیں، بس میرا مقصود تو اتنا ہے۔ اگر آپ کو اس پر صبر ہے تو میرے ساتھ تعلق جاری رکھیں اور اگر آپ کو اس پر صبر نہیں ہے تو پھر جہاں جانا چاہتے ہو چلے جائیں، ہم مریدوں کا شکار نہیں کرتے۔ خواہ مخواہ مرید بڑھانا مقصد نہیں ہے کہ بہت سارے مرید ہمارے ہو جائیں۔ ہم نے کوئی مریدوں کا جلوس نکلوانا ہے؟ یہ کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ صرف دو بندے بھی اگر کام کریں اور اللّٰہ والے بن جائیں تو ہمارا کام ہو جائے گا، بھیڑ لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ میں نے کہا کہ میرے ساتھ اگر تعلق رکھنا چاہتے ہو تو اصلاح کے لئے رکھو۔ کہتے ہیں: میں اصلاح چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: تمہیں اصلاح مطلوب ہی نہیں ہے، ان دو سالوں میں آپ نے کوئی اور ٹیلی فون کیا ہے کہ میرا یہ ذکر پورا ہو گیا، اب کیا کروں؟ اصلاح کے لئے کبھی فون کیا ہے؟ اب جب آپ کو دنیا کی مشکل پڑی تو آپ مجھے فون کر رہے ہیں۔ آپ کو اصلاح چاہیے یا دنیا چاہیے؟ ہمارے پاس ایسے لوگوں کی جگہ نہیں ہے۔ معذرت! میں نے ٹیلی فون بند کر دیا۔
بس مجبوری ہے، کیا کریں۔ لوگوں کا مزاج خراب ہو گیا ہے۔ میں صحیح بات عرض کرتا ہوں، بزرگوں کے واقعات بھی بیان کرتے ہیں تو ایسے کرتے ہیں کہ فلاں کا یہ مسئلہ حل ہو گیا۔ یہی چیزیں بیان کرتے ہیں۔ کوئی اللّٰہ والا بن گیا ہو، اس کی بات ہی نہیں کرتے۔ جو خلفاء بنتے ہیں، ان کا ذکر نہیں کرتے، کرتے بھی ہیں تو سرسری سا کہ فلاں راستہ گم کر رہا تھا، اس کو راستہ مل گیا، فلاں کو کھانا مل گیا، فلاں کو سروس مل گئی، فلاں کو یہ مل گیا، فلاں کو یہ مل گیا۔ بزرگوں کے ایسے ہی واقعات بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ لوگوں کا مزاج بھی یہی بنتا ہے اور اسی لئے بزرگوں کے پاس جاتے ہیں۔ اس چیز کو توڑنا پڑے گا۔ ہمارا مقصد صرف للّٰہیت ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کا ذکر بھی ہم اسی لئے دیتے ہیں۔ مقصد ہمارا ایک ہی ہے کہ ہم اللّٰہ کے بن جائیں۔ تین درجات ہیں: ’’لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ اسی کے ذریعے سے آگے بڑھنا ہے۔ حضرت بھی یہی فرماتے ہیں کہ:
متن:
اور اس کا اجر نہ مانگے۔ اے میرے عزیز! جس ذاتِ برتر نے تجھے بغیر کسی عوض معاوضے کے پیدا کیا ہے، تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تو اس کی بغیر کسی عوض کے عبادت کرے، (اس سے عوض نہ مانگ) اور جو عاشق معشوق سے عوض کے بدلے راضی ہو جائے، اس کے ساتھ وہ معاملہ کرنا چاہیے کہ جس سے اس کا عاشق عوض لے کر راضی ہوا تو اس کا سر قلم کر دیا گیا۔ اور یہ حکایت مفصل طور پر سلک سلوک میں بیان کی گئی ہے وہاں دیکھنا چاہیے۔ ایک بزرگ تھا، جو کہ کسی وقت بھی دائیں بائیں نہیں دیکھتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ "مَنْ شَرِبَ شُرْبَۃً مِّنْ کَأْسِ الْمَحَبَّۃِ لَا یُحِبُّ الْإِشَارَۃَ إِلٰی غَیْرِہٖ" کہ جس شخص نے محبت کے جام و ساغر سے شراب نوش کی تو وہ کبھی بھی دوسرے کی جانب اشارہ کرنا یا دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ اور اہل درد فرماتے ہیں کہ درویش وہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی نیستی میں اتنا خوش اور مسرور ہوتا ہے جتنا کہ دوسرے لوگ ہستی میں اور ہستی سے اتنا نا خوش ہوتا ہے جیسے دوسرے لوگ اپنی نیستی میں ناخوش ہوتے ہیں۔
تشریح:
یہ وہی دوائیوں والی بات ہے کہ کھانی چاہئیں یا نہیں کھانی چاہئیں، ترتیب الٹی کر دو تو کتنا نقصان ہو گا؟ اسی طرح ہستی کو نیستی میں بدل دو تو کتنا فرق بن جاتا ہے۔
متن:
اور وہ اپنے محبوب کی محبت میں ایسا مشغول رہتا ہے کہ نہ تو وہ کسی غیر کا دامن پکڑتا ہے اور نہ کسی غیر کو اجازت دیتا ہے کہ اس کا دامن پکڑے۔ خواجہ سری سقطی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں تیس سال سے حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش میں تھا، ایک دِن میں نے انہیں دیکھا کہ پہاڑ میں "ھُوَ قَائِمٌ عَلَی الصَّخْرَۃِ، قَدْ دَنَوْتُ مِنْہُ وَأَخَذْتُ ذَیْلَہٗ فَقَالَ خَلِّ ذَیْلِيْ یَا سِرِّيُّ! فَإِنَّ الْحَبِیْبَ غَیُّوْرٌ" کہ وہ ایک پتھر پر کھڑے تھے، ان کے نزدیک جا کر میں نے ان کا دامن پکڑا، انہوں نے مجھے کہا کہ اے سری! میرا دامن چھوڑ دو، محبوب بہت غیرت والا ہے، کہیں اس سے ناراض نہ ہو جائے۔ اور یہ بات جاننی چاہیے کہ "لَا وَحْشَۃَ مَعَ اللّٰہِ وَلَا رَاحَۃَ مَعَ غَیْرِ اللّٰہِ" یعنی اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک رہنے سے کوئی وحشت نہیں ہوتی
تشریح:
اللّٰہ کے پاس وحشت نہیں ہے۔ لہٰذا جب اللّٰہ کے پاس جب پہنچ گیا تو اس کو وحشت تنہائی نہیں ہو گی کیونکہ اس کو اللّٰہ مل گیا۔ اور جو غیر کے پاس ہے اس کو راحت نہیں ہو سکتی۔
متن:
یعنی اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک رہنے سے کوئی وحشت نہیں ہوتی اور غیر اللّٰہ کے پاس رہنے سے کوئی راحت نصیب نہیں ہوتی۔ میرے عزیز! اگر کچھ بھی پاس نہ ہو تو بھی دوست کے ساتھ ہونا سراسر خوشی ہے، اور اگر سب کچھ ہو مگر دوست کا وصال نہ ہو تو یہ سراسر ناخوشی اور ناراضی ہے۔
تشریح:
یہ باتیں سمجھانا بڑا مشکل ہے، جس کو دردِ محبت سے کوئی واسطہ نہ پڑا ہو، وہ کیسے اس کو سمجھے گا کہ محبوب کا پانا کیا ہوتا ہے۔ مثلاً آپ محبوب کو ملنے جا رہے ہیں اور کوئی آدمی راستے میں آپ کو بڑے عمدہ کپڑے دیتا ہے کہ آپ آئیے، ہم آپ کو یہ بڑے عمدہ کپڑے پہناتے ہیں، کوئی آپ کو کہتا ہے ہم آپ کو بہت اچھے صوفہ پہ بیٹھاتے ہیں، کوئی آپ کو کہتا ہے کہ ہم آپ کی تعریفیں کریں گے، کوئی آپ کو بہت اچھا کھانا لا کے دیتا ہے، کوئی کیا کرتا ہے، کوئی کیا کرتا ہے۔ آپ ان کو کہو گے کہ چھوڑو! کیا کرتے ہو؟ کیا مصیبت بنے ہوئے ہو؟ دور ہو جاؤ مجھ سے۔ میں اپنے محبوب کے پاس جاتا ہوں۔ تو جس کا محبوب اللّٰہ ہو اور وہ اللّٰہ کو پانا چاہتا ہو، کیا اس کو یہ چیزیں اچھی لگیں گی؟ جو اللّٰہ سے دور کرنے والی ہیں۔ بس انسان یہی بات سمجھ لے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ جن کو دردِ محبت سے واسطہ نہ ہو وہ یہ باتیں نہیں سمجھ سکتے، چاہے وہ دنیا کا دردِ محبت ہی کیوں نہ ہو۔ اس کو بھی پتا چل سکتا ہے۔ کیونکہ انسان اپنی محبوب چیزوں کے لئے بہت قربانیاں دیتا ہے۔ چنانچہ جس کا محبوب اللّٰہ بن جائے، اس کے لئے قربانیاں کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگر کوئی اس کی تعریف کرتا ہے تو اس کو تعریف ہضم نہیں ہوتی، وہ کہتا ہے: یہ کیا کر رہا ہے؟ یہ میری تعریف کر رہا ہے، کہیں محبوب ناراض نہ ہو جائے۔ کوئی اس کو اچھے کپڑے پہناتا ہے تو وہ کہتا ہے پتا نہیں کہیں محبوب ناراض نہ ہو جائے۔ جیسے ابھی خضر علیہ السلام کی بات ہوئی۔ لہٰذا اگر اس کو کوئی کچھ اور دینا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے کہیں محبوب ناراض نہ ہو جائے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ بعض لوگ بڑے غیور لوگ ہوتے ہیں کہ بھوکے ہوتے ہیں لیکن لوگوں پہ اپنا حال ظاہر نہیں کرتے کہ کہیں محبوب ناراض نہ ہو جائے۔ ایک دفعہ ایک صاحب حج پہ گئے تھے، مدینہ منورہ میں بہت زیادہ فاقہ آ گیا۔ جیسے بعض لوگوں کے پیسے گم ہو جاتے ہیں، بعض لوگوں کو کوئی اور مسئلہ ہو جاتا ہے لیکن وہ سوال بھی نہیں کر سکتے۔ بہر حال ان کو فاقہ آ گیا، دن پہ دن، وقت پہ وقت گزر رہا تھا، اخیر میں جب بہت زیادہ تنگی ہوئی تو آپ ﷺ کے روزۂ اقدس کے سامنے بیٹھ گئے دل میں کہا کہ اب تو اس سے زیادہ کی برداشت نہیں ہے۔ جب باہر نکل رہے تھے تو اتنے میں ایک صاحب آ گئے اور اِن سے کہا: آئیے تشریف لائیے۔ انہوں نے کہا: کیوں؟ کہتے ہیں: آپ سے کچھ کام ہے۔ اس کو اپنے گھر لے گئے، انہیں بیٹھایا، ہاتھ دھلائے، کھانوں کا پورا خُوان (تھال) لے آئے اور ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ حضرت تناول فرمائیں۔ ان کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا۔ پھر فرمایا حضرت آپ نے میری جگہ دیکھ لی ہے۔ انہوں نے کہا: جی دیکھ لی۔ فرمایا یہ خادم آپ کے سامنے ہے، آپ جب تک یہاں ہیں، آپ میرے مہمان ہیں، آپ یہاں تشریف لایا کریں، کھانا یہاں کھایا کریں گے۔ اس کے بعد آپ جو چاہیں کریں۔ پھر کہا کہ حضرت! آپ سے ایک درخواست ہے کہ آپ ﷺ نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا، خدا کے لئے پھر ہماری شکایت نہ کریں، بس اتنی درخواست ہے۔ یعنی انہوں نے جو کہا تھا کہ برداشت نہیں ہے، یہ شکایت ہو گئی۔ آپ ﷺ نے اپنوں کو کہہ دیا کہ ان کو کھانا کھلاؤ، لیکن وہ ڈر گئے کہ یہ کیا ہو گیا، ہماری شکایت ہو گئی کہ ہم نے پوچھا کیوں نہیں، ہم نے حالات سے اندازہ کیوں نہیں لگایا۔ چنانچہ اللّٰہ بہت غیور ہیں، کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اللّٰہ کو پسند نہیں ہے۔ ایک ہوتا ہے زبان سے سوال کرنا، یہ بھی حرام ہے۔ دوسرا ہے اشرافِ نفس یعنی دل کا سوال کرنا، یہ بھی حرام ہے۔ اس کا تعلق صرف کھانے کی چیزوں سے نہیں ہے، صرف مال سے نہیں ہے، بلکہ دوسروں سے جو عزت مانگ رہا ہے وہ بھی سوال ہے۔ اور دل میں جو عزت کا سوال ہے کہ لوگ میری عزت کریں، وہ بھی سوال ہے، لہٰذا کہیں اللّٰہ ناراض نہ ہو جائے۔ اس لئے اللّٰہ والے اس فکر میں ہوتے ہیں کہ کہیں اللّٰہ ناراض نہ ہو جائے، اللّٰہ بہت غیور ہے۔ اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ نصیب فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ