تمام تعریفیں اللہ پاک کے لیے ہیں جو اپنے بندوں کو اپنی معرفت کی شاہراہ پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کے دلوں کو اپنے نور سے منور کرتا ہے۔ اور لاتعداد درود و سلام ہوں اس کے آخری نبی، سید المرسلین، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر، جن کی ذاتِ اقدس اس راستے کی سب سے روشن مشعل اور کامل ترین نمونہ ہے۔
قارئین کرام!
"شاہراہِ معرفت" کا ایک اور شمارہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ یہ رسالہ محض اوراق کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس روحانی سفر کا ایک سنگِ میل ہے جس کا مقصد قلب و نظر کی پاکیزگی اور اللہ جل شانہٗ کے قرب کا حصول ہے۔ اس پُر فتن دور میں جہاں ہر طرف مادیت اور نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے، وہاں معرفتِ الٰہی کا راستہ ہی نجات اور حقیقی سکون کا ضامن ہے۔ یہ وہ شاہراہ ہے جو انسان کو اس کی حقیقت سے روشناس کراتی اور اسے عبدیت کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچاتی ہے۔
اس شمارے کا منظوم حصہ حمدِ باری تعالیٰ سے شروع ہوتا ہے جس میں اللہ کے صفاتی ناموں کے وسیلے سے اُس کی حکمتِ بالغہ کا اقرار کیا گیا ہے۔ اس کے بعد نعتِ رسولِ مقبول ﷺ میں آپ ﷺ کے اُس ارفع مقام کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے جو انسانی فہم سے ماورا ہے۔ آخر میں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانی کو ایک عارفانہ کلام کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔
اس شمارے کے نثری مضامین کا آغاز "مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال" سے ہوتا ہے، جس میں سوال و جواب کے پیرائے میں ماہِ محرم سے متعلق اہلِ سنت والجماعت کے معتدل عقیدے کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں ایک طرف مسنون اعمال، جیسے عاشورہ کا روزہ اور گناہوں سے اجتناب، کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے تو دوسری طرف اہلِ بیتِ اطہار کی محبت و تعظیم کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیتے ہوئے صحابہ، اہلِ بیت اور امہات المؤمنین کی تکریم پر مبنی متوازن موقف کو پیش کیا گیا ہے۔
اس کے بعد دوسرا مضمون "محرم الحرام کے فضائل، اعمال اور بدعات کا جائزہ" پیش کیا گیا ہے، جو اس ماہِ مبارک کی اصل روح کو سمجھنے پر زور دیتا ہے۔ یہ بیان واقعۂ کربلا کے پیغام—یعنی حق پر استقامت—کو اپنانے اور محض سوگ اور ماتم پر مبنی بدعات و خرافات سے بچنے کی تلقین پر مشتمل ہے، تاکہ اس مہینے کی حقیقی برکات سے مستفید ہوا جا سکے۔
رسالے کا مستقل سلسلہ "توضیح المعارف" اس بار "فلسفۂ شیون" جیسے دقیق موضوع پر مبنی ہے۔ یہ مضمون معرفتِ الٰہی کے اس گہرے راز سے پردہ اٹھاتا ہے کہ کس طرح ایک ذاتِ واحد کا تعلق کائنات کی ان گنت مخلوقات سے قائم ہے، اور کیسے اللہ تعالیٰ کا اپنی ذات کے بارے میں "علمِ حضوری" ہی تمام تخلیق کی بنیاد ہے۔
آگے حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے منتخب مکتوبات کی روشنی میں سلوکِ مجددی کے اہم پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ محبتِ الٰہی کی راہ آزمائشوں سے ہو کر گزرتی ہے، جس میں سالک "تلوین" (احوال کی تبدیلی) سے "تمکین" (روحانی استحکام) کے مقام تک پہنچتا ہے۔ یہ بیان اس بنیادی نکتے پر زور دیتا ہے کہ ولایت کا اصل معیار کرامات نہیں بلکہ سنتِ نبویﷺ پر کامل استقامت ہے۔
اسی تسلسل میں حضرت شیخ رحمکار کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کو کتاب "مقاماتِ قطبیہ" کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ بیان تصوف کے عملی پہلوؤں کو واضح کرتا ہے، جن میں "جمع و تفرقہ" کی حقیقت، "قلبِ سلیم" کے حصول کی اہمیت، اور "زبانِ حال" کی "زبانِ قال" پر فوقیت شامل ہے۔
ہماری دعا ہے کہ یہ مجموعۂ مضامین قارئین کے لیے محض علمی اضافہ کا باعث نہ بنے، بلکہ ان کے دلوں میں عمل کا جذبہ پیدا کرے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہ پر گامزن ہونے میں مدد فراہم کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تعلیمات کو سمجھنے، اپنانے اور اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
خانقاہ رحکاریہ امدادیہ، راولپنڈی