توضیح المعارف قسط 17
فلسفہ سائنس اور معرفت الٰہی – بارہواں حصہ
جبروتی حب
باطن الوجود یا عالمِ عقلی ایک ایسا جہان ہے جو ہر قسم کی مادی آلائش سے پاک اور بلند ہے۔ یہ جہاں خالق کی ذات ( لاہوت) سے ہی متعلق ہے اور اسی میں گم ہے۔ اس کی ظاہر الوجود سے جو مخلوقات کا عالم ہے، کوئی مناسبت نہیں ہے۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں جہانوں میں ربط کس شئ کے ذریعے قائم ہوا؟
صوفیائے کرام کے مطابق یہ ربط ایک مقدس جذبے کے توسط سے قائم ہوتا ہے جسے حبِّ جبروتی کہا جاتا ہے۔ مثلاً ہمیں ایک شخص کا علم ہے۔ تو یہ علم ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں دوسری بہت سی معلومات کے ساتھ چھپا پڑا ہے۔ لیکن اگر ہمیں بالفرض اس شخص سے شدید محبت ہوجائے تو اس شخص کا تصور ہمارے ذہن کی شعوری سطح پر اس طرح نمایاں ہوجاتا ہے کہ گویا وہ سامنے موجود ہو۔ گویا محبت نے معلوم کو محسوس بنا دیا۔ یا پھر آپ اس شخص کی حالت پر غور کریں جس کو گالی دی گئی ہو اور اس کا چہرہ لال ہوگیا ہو۔ یہاں بھی ایک جذبے( غصہ) نے گالی کے چند الفاظ کو، جو معلومات کا درجہ رکھتے ہیں، محسوس بنا دیا۔ یہاں تک کہ اثر ذہن سے جسم تک پہنچ گیا۔
یعنی جذبہ علم کو متحرک اور متمثل کر دیتا ہے۔ علم اور محسوسات اپنا اپنا جداگانہ domain رکھتے ہیں۔ ذہنی علم سے کوئی خارجی شئ خود بخود وجود میں نہیں آتی، جب تک کہ کوئی جذبہ اس علم کے ساتھ پیوست نہ ہو۔
یہی اصول لاہوت میں اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات سے محبت پر بھی منطبق ہوتا ہے، جو حبِّ جبروتی کہلاتی ہے۔ کائنات میں جتنی بھی محبتیں، شفقتیں اور رحمتیں ہیں، وہ اسی مقدس محبت کی شعاعیں ہیں۔ یہ محبت، مخلوقات کی محبت کے خواص مثلاً تغیر و تبدیلی یا قلق بے چینی وغیرہ سے پاک اور منزہ ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کی ذات مقدسہ یا مرتبہ لاہوت ہی سے قائم ہے۔
باطن الوجود کے مقدس مرتبے اور ظاہر الوجود میں حد درجے کی بےمناسبتی ہے۔حبِّ جبروتی کس طرح ان دو جہانوں میں ربط پیدا کرتی ہے۔ اس بات کو سمجھانے کے اوپر انسان کی اپنی نفسیات میں سے محبت اور غضب کے جذبات کی مثال دی گئی۔ اسی حقیقت کو دوسری طرح سمجھانے کے لیے کمپیوٹر کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔ جیسے کمپیوٹر کے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کے درمیان موجود DLL فائل (dynamic link library) سافٹ وئر میں دی گئی ہدایات کو ہارڈ وئر کے لیے قابلِ عمل بناتی ہے۔ بالکل اسی طرح، باطن الوجود کے حقائق سے ظاہر الوجود میں اثر پذیری حبِّ جبروتی کے ذریعے ممکن ہوتی ہے — ایک الوہی DLL کی مانند۔
خلاصہ یہ کہ لاہوت کا مرتبہ جو وراء الوراء ہے، میں اس بلند مقام کے شایان دو خصوصی امور کارفرما ہیں، ایک علم اور دوسری محبت۔ جو خاص علم لاہوت کو خود اپنی ذات کا حاصل ہے، اور اسی میں مخلوقات کا علم مندرج ہے۔ اس کو باطن الوجود کہتے ہیں۔دوسری طرف لاہوت کی اپنی ذات سے ایسی محبت جس میں تمام مخلوقات کی محبت مندرج ہے۔ اور یہی محبت تمام مخلوقات کے ظہور میں آنے کا واسطہ ہے۔ اس کو حبِّ جبروتی کہتے ہیں۔ حبِّ جبروتی کو مخلوقات کے مابین محبت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری محبت حادث اور تغیر پذیر ہے۔ اس میں مطلوب کے حاصل ہونے پر فرحت اور اس کے نہ ملنے پر شوق یا قلق پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حبِّ جبروتی ان سے پاک اور منزہ ہے۔کیونکہ یہاں پر محبوب عین مُحِبّ ہے۔ اس لیے ہجر اور فراق کے تصور کا یہاں امکان بھی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بعض صفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہی مناسب اور قابل تعریف ہیں۔ مخلوق کے لئے وہ صفت پسندیدہ نہیں۔ جیسے بڑائی یا تکبر کی صفت۔ اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات سے محبت بھی اسی قسم کی صفت ہے۔
انسان بھی فطرتاً اپنی ذات کا عاشق ہے اور اس کے ہر عمل کا محور اس کی ذات ہوتی ہے۔ لیکن اگر وہ لاہوت کی محبت تک رسائی چاہتا ہے تو اُسے اپنی ذات کی محبت کو ترک کرکے اللہ کی محبت اپنانی ہوگی۔
یہ سفر تین مراحل پر مشتمل ہے:
1. انسان کو پہلے اپنی ذات کی محبت کو اپنے شیخ کی محبت کے تابع کرنا ہوگا۔
2. جب وہ یہ دیکھے کہ اس کا شیخ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشق ہے، تو اسے بھی ان کی محبت حاصل ہو جائے گی۔
3۔پھر اسی محبت کے ذریعے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت تک پہنچ جائے گا۔ جو اصل مقصد ہے۔
تربیت کے میدان میں اس حقیقت کا استعمال
مشائخِ نقشبند اور دیگر صوفی بزرگ، اس حقیقت کو سالکین کی تربیت میں بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں علم و عمل کو جوڑنے والا پُل جذبہ ہی اصل کنجی ہے۔ وہ سالک کو پہلے دینی علم کی بنیادوں پر استوار کرتے ہیں، پھر جذبے کے ذریعے اس علم کو عمل میں ڈھالتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ محض علمی معلومات کافی نہیں، جب تک کہ دل اس میں شریک نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ محض معلومات پر انحصار، عمل کی ضمانت نہیں دیتا۔ لیکن اگر جذبہ شامل ہو جائے تو یہی علم متحرک ہو کر اثر دکھاتا ہے۔ صوفیا اسی حقیقت کو سالکین کی تربیت میں بروئے کار لاتے ہیں۔ وہ عقل اور نفس کو جذبے یا قلب کے ذریعے جوڑتے ہیں۔ اس حقیقت سے ناواقف لوگ محض دینی معلومات پر اکتفا کرکے عمل سے محروم رہ جاتے ہیں۔