اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ نے فرمایا تم عربوں سے تین وجہ سے محبت کرو، میں عربی ہوں، قرآن عربی میں ہے اور اہل جنت کی زبان عربی ہو گی۔ آج کل Social media پر مختلف قسم کے لطیفے آتے رہتے ہیں جن میں بعض لطیفوں میں عربوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کیا اس قسم کے لطیفے آپ ﷺ کی ایک نسبت کا مذاق اڑانا نہیں ہے؟ کیا اس قسم کے لطیفوں پر تائیداً ہنسنا یا اس قسم کے لطیفے پھیلانا خطرے کی بات نہیں ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو ہم صرف تفریح کے لئے کرتے ہیں، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کیا ان کی یہ بات صحیح ہے؟
جواب:
یہ تو آپ نے عربوں کے متعلق پوچھا ہے تو جیسا کہ ابھی اس حدیث شریف سے پتا چلا کہ عرب تو اونچے لوگ ہیں۔ لیکن عام لوگوں کا بھی مذاق نہیں اڑایا جا سکتا، اس کو استہزاء کہتے ہیں، استہزاء کسی کے لئے بھی جائز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اختیاری طور پر غلط کام کر رہا ہو تو اس اختیاری کام کی مخالفت کرو، اس کرنے والے کی مخالفت نہ کرو۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَعْنَۃُ اللهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ﴾ (آل عمران: 61) جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو۔ تو جو بھی جھوٹا ہو گا اس کے اوپر لعنت پڑ جائے گی، لیکن یہ کسی کو نام بنام نہیں ہے اور قوم کے لحاظ سے نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر قوم کے اندر بڑے اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے لوگ بھی ہوتے ہیں، لہذا اگر قوم کے لحاظ سے آپ بات کریں گے تو ان سب کے خلاف بات جائے گی۔ تو ان میں جو اچھے لوگ ہوں گے ان کے اوپر بھی وہ بات پڑے گی اور اس کا وبال اس طرح کہنے والے کے سر ہو گا۔ اس وجہ سے کسی بھی قوم کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔ جیسے مختلف لوگ آپس میں خوش گپیاں کرتے ہیں، تو اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ویسے آپس میں بے تکلفی ہو تو اس میں بھی یہ ضروری ہے کہ اس کو limit میں رکھنا چاہیے۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ مذاق اڑانا کی اجازت نہیں ہے۔ لہذا اس میں مذاق کی نیت نہ ہو، کیونکہ مذاق کسی بھی قوم کا نہیں اڑایا جا سکتا۔
باقی Social media پر اس قسم کی جو چیزیں آتی ہیں تو Social media کے استعمال میں جو سب سے بڑی requirement ہے وہ یہی ہے کہ اس کے شر سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ جو اس کے شر سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکتا اس کے لئے اس کا استعمال حرام ہے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی اس پر فتوی دیا ہے۔ لہذا جو اس کے شر سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکتے ان کو استعمال ہی نہیں کرنا چاہیے اور اگر کوئی استعمال کرنا چاہے تو اس کا طریقہ سیکھنا چاہیے۔ جیسے گاڑی ہے، گاڑی کے اندر وہی بیٹھے جو گاڑی کو صحیح چلا سکتا ہو، اگر گاڑی کو صحیح نہیں چلا سکتا، کسی کے ساتھ ایکسیڈنٹ کر دے تو ظاہر ہے صرف اپنی گاڑی کا نقصان نہیں کرے گا، دوسرے کا بھی کرے گا۔ اس بنیاد پر گاڑی کا چالان ہو سکتا ہے کہ اس کو چلانے کا طریقہ نہیں آتا۔ license کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ اس میں تمام اشارے اور دیگر تمام چیزوں کو check کیا جاتا ہے کہ آیا اس کو گاڑی چلانا آتی بھی ہے یا نہیں۔ لہذا اس کی پوری طرح تحقیق کر کے license دیا جاتا ہے۔ Social media میں اگرچہ ابھی تک license کا طریقہ تو وجود میں نہیں آیا لیکن بہر حال اللہ پاک کے ہاں تو یہ ہے کہ جو شخص بھی اسے استعمال کرتا ہے اس کو خیر کے لئے استعمال کرے، شر کے لئے استعمال نہ کرے۔ یہاں جو عرب حضرات کے متعلق پوچھا گیا ہے تو میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ ہم جب حج کے موقع پہ مکہ مکرمہ جاتے تھے تو وہاں ہمارے ایک ساتھی ہیں ان کے ساتھ میں ٹھہرتا تھا، انہوں نے مجھے ایک عجیب بتائی ہے۔ فرمایا کہ مکہ مکرمہ میں بہت سارے لوگ آئے ہوئے ہیں، ہندوستان سے آئے ہوئے ہیں، پاکستان سے آئے ہوئے ہیں، ملائیشیا سے آئے ہوئے ہیں، افغانستان سے آئے ہوئے ہیں، مصر سے آئے ہوئے ہیں، جو یہاں settled ہو چکے ہیں، ان کی عادتیں تو اپنے ملکوں والی ہیں اور یہاں عربی بول سکتے ہیں، بلکہ بعض لوگ پیدا بھی ادھر ہی ہوئے ہیں، جن کے لئے عربی بولنے میں اور یہاں کا لباس پہننے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ لہذا لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ عرب ہیں لیکن وہ عرب نہیں ہوتے۔ ان کی عادتیں تو وہی ہوتی ہیں۔ تو ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ہم طواف زیارت کے لئے منی سے جا رہے تھے، باہر آئے تو GMC کی گاڑی آ رہی تھی اس کو ہم نے ہاتھ دیا، اس سے جو آدمی نکلا وہ بہت غصہ سے بول رہا تھا جیسے سب کو بھیڑ بکریاں سمجھتا ہو اور غصے سےکہہ رہا تھا بیٹھ جاؤ، یہ کرو، وہ کرو، یوں وہ سب کو ڈانٹ رہا تھا۔ ہمارے وہ ساتھی آرام سے کھڑے تھے، جب باقی لوگ بٹھا دیئے گئے تو مجھے کہا آ جاؤ تم۔ مجھے اپنے ساتھ Front seat پہ بٹھا لیا، کیونکہ ان کو وہاں کے طریقے آتے تھے۔ بہر حال جب گاڑی چلی تو مجھے سمجھانے کے لئے آرام سے اس سے اردو میں پوچھا: آپ کدھر سے تشریف لائے ہیں؟ اس نے کہا گجرات سے۔ مجھے اشارہ کیا کہ دیکھا یہ گجراتی ہے، عرب نہیں ہے۔ پھر ایک دن ہمارے خیمے کا تیل ختم ہو گیا تو مجھے کہتے ہیں آؤ میں آپ کو صحیح عربوں سے ملا دوں، تو مجھے ایک خیمے میں لے گئے، وہاں خیمے والے سے کہا کہ ہمارے خیمے میں تیل ختم ہو گیا ہے، اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ تو ہم نے دیکھا کہ ان میں ایسے تھرتھری مچ گئی جیسے ان کا اپنا مسئلہ ہو، تو جب تک انہوں نے تیل ڈھونڈ کے نکال کے ہمیں دیا نہیں اس وقت تک ان کو آرام نہیں آیا۔ تو وہ مجھے کہتے ہیں یہ اصلی عرب ہیں۔ یعنی جو لوگ صحیح عرب ہیں ان میں بڑی صلاحیتیں ہیں۔ لیکن اس قسم کے لوگ پھر دوسروں کو بھی بدنام کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کبھی بھی کسی قوم کے اوپر طنز نہیں کرنا چاہیے، آسمان کی طرف کوئی تھوکتا ہے تو تھوک اس کے اپنے اوپر ہی آتا ہے، اوپر تو نہیں جاتا۔ اس وجہ سے عربوں کی یہ جو اونچی نسبت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں عرب ہوں اور قرآن عربی میں ہے اور اہل جنت کی زبان عربی ہو گی، اس لئے عربوں سے محبت کرو۔ میں جرمنی میں تھا تو میرا عربوں کے ساتھ ہی ما شاء اللہ اٹھنا بیٹھنا تھا، ہر چیز میں ان کے ساتھ شریک ہوتا تھا۔ وہاں ہمارے بالکل آخری ایام تھے، ہم واپس آنے والے تھے تو ایک دن میں نے عربوں سے کہا ’’یَا اَخْوَانَ العَرَبِ نَحْنُ نُحِبُّکُمْ‘‘ اے عرب ساتھیو ہم تمہارے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ پھر میں نے یہ حدیث شریف سنائی کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ عربوں کے ساتھ محبت کرو کیونکہ میں عربی ہوں، قرآن کی زبان عربی ہے اور اہل جنت کی زبان بھی عربی ہو گی۔ اس لئے ہم آپ کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ تو وہ متوجہ ہو گئے کہنے لگے بالکل۔ پھر میں نے کہا: لیکن اگر ایک طرف حضور ﷺ ہوں اور دوسری طرف تم ہو گے، تو میں حضور ﷺ کے ساتھ ہوں گا تمہارے ساتھ نہیں ہوں گا۔ اس پر وہ چیخ اٹھے اور کہتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ نہ ہوں؟ میں نے کہا آپ کا یہ جو لباس ہے کیا یہ مسنون لباس ہے؟ کیونکہ یہ توپ جو وہ پہنتے ہیں یہ مسنون لباس تو نہیں ہے۔ وہ تو ان کا cultural لباس ہے یعنی ثقافتی لباس ہے۔ اگر کوئی اس کو مسنون لباس سمجھتا ہے تو وہ غلط کرتا ہے۔ اس لئے میں نے کہا کہ تمہارا یہ جو توپ ہے کیا یہ مسنون لباس ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ میں نے کہا: بس ہم اس معاملے میں تمہارے ساتھ نہیں ہیں، ہم یہ توپ نہیں پہنیں گے۔ اس طرح کچھ باتیں میں نے اور بتائیں تو وہ بہت خوش ہو گئے اور کہتے ہیں بس ہم تو آپ سے یہی چاہتے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ یہی کیا کریں، ہم ان باتوں سے خوش ہوتے ہیں۔ لہذا جس وجہ سے ہم ان کے ساتھ محبت کر رہے ہیں اس کی وجہ سے اس چیز کو تو نہیں چھوڑ سکتے، جیسے اگر وہ قرآن کے خلاف کوئی بات کریں گے تو ہم ان کی بات نہیں مانیں گے، آپ ﷺ کے طریقے کے خلاف کوئی بات کریں گے تو ہم ان کی وہ بات نہیں مانیں گے اور جنتیوں کے طریقے کے خلاف کوئی بات کریں گے تو ہم ان کی وہ بات نہیں مانیں گے کیونکہ ان تین چیزوں کی وجہ سے تو ہم ان کے ساتھ محبت کر رہے ہیں تو اگر ان چیزوں میں وہ مخالفت کرتے ہیں تو چاہے کوئی بھی قوم ہو، چاہے پٹھان ہو، چاہے سندھی ہو، چاہے بلوچی ہو، چاہے پنجابی ہو، چاہے ہندی ہو، چاہے عرب ہو، چاہے ترک ہو۔ ہم ان کے ساتھ نہیں ہوں گے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ معاملہ ہمارا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم آیا ہے اس کے ساتھ معاملہ ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ہم ان کی نسبتوں کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ مثلاً ترکوں کے ساتھ بھی ہم محبت کرتے ہیں، کیوں کہ ترکوں نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے۔ میں جرمنی میں جہاں رہتا تھا وہاں ترک حضرات بھی بہت تھے، تو ایک دن میں یونیورسٹی جا رہا تھا تو وہاں پر دو ترک مزدور کھدائی کر رہے تھے، انہوں نعرہ لگایا یا کرداش! کرداش وہ دوست کو کہتے ہیں، میں نے پیچھے دیکھا تو وہ دو مزدور تھے، میں ان کی طرف متوجہ ہوا کہ یہ آپ لوگوں نے کہا ہے؟ کہتے آپ کدھر سے آئے ہوئے ہیں؟ میں نے کہا پاکستان سے۔ کہتے ہیں ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ تم پاکستانی ہو۔ کیونکہ وہاں بھی میرا لباس یہی ہوتا تھا۔ تو کہنے لگے پاکستان کرداش کرداش یعنی پاکستان ہمارا دوست ملک ہے۔ چنانچہ وہ وہاں کسی پاکستانی کو دیکھ کر بہت خوشی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ کیونکہ ان کو ہمارے ساتھ محبت ہے۔ ہمیں بھی ان کے ساتھ محبت ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ اس طرح جہاں جہاں پر بھی صفات ہیں، نسبتیں ہیں، ان کی قدر کرنی چاہیے اور جو برائیاں ہیں تو برائی کے ساتھ نفرت کرنی چاہیے، بروں کے ساتھ نہیں۔ کیونکہ برائی برائی ہے۔ جہاں تک برے ہیں تو ان کا وہ کام برا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی سچ بھی بولتا ہے اور کبھی کبھی جھوٹ بولتا ہے تو جس وقت وہ سچ بول رہا ہے تو اس وقت اس کے ساتھ نفرت نہیں کرنی چاہیے اور جس وقت وہ جھوٹ بول رہا ہے تو اس کی وجہ سے جھوٹ کو تو صحیح نہیں کہنا چاہیے۔ گویا ہم اس شخص کو نہیں دیکھ رہے ہیں، کیونکہ اس شخص کو دیکھیں گے تو یا اس کے ساتھ محبت کریں گے یا نفرت کریں گے، اگر محبت کریں گے تو پھر بھی خلاف واقعہ ہے، کیونکہ اس میں غلط بات بھی ہے اور اگر نفرت کرتے ہیں تو پھر بھی خلاف واقعہ ہے کیونکہ اس میں اچھی بات بھی ہے۔ ایسی صورت میں ہم کیا کریں گے؟ تو ہم اس کی غلط بات کے ساتھ نفرت کریں گے اور اس کی اچھی بات کے ساتھ محبت کریں گے، یہ دونوں باتیں بالکل صحیح ہیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم اگر اس بنیاد پر آ گئے ہیں تو پھر میرے خیال میں کسی بھی قوم کے ساتھ ہمیں فی نفسہٖ محبت یا نفرت نہیں ہو گی، بلکہ بالواسطہ ہو گی، یعنی ان اعمال کی وجہ سے ہو گی جن اعمال کی وجہ سے کوئی اچھا ہوتا ہے یا برا ہوتا ہے۔
اللہ جل شانہٗ ہم سب کو صحیح طریقے اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن