اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
معزز خواتین و حضرات! آج منگل کا دن ہے، اور منگل کے دن ہمارے ہاں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب "مثنوی مولانا روم" کا درس ہوا کرتا ہے۔ اور یہ اس کا second phase چل رہا ہے۔ جو پہلا phase تھا، وہ فارسی میں جو حضرت کے اشعار تھے، فارسی میں جو اشعار تھے حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے، ان کا ترجمہ بیان کرکے، پھر اس کے بعد اس کی تشریح ہوتی تھی۔ لیکن اللہ کا شکر ہے، اَلْحَمْدُ للہ، تقریباً پندرہ سال تک ما شاء اللہ چلتا رہا، ہر ہفتے پندرہ سال تک چلتا رہا۔ تو اس کے بعد پھر اَلْحَمْدُ للہ، اللہ پاک نے پورا فرما دیا، چھ کے چھ جو دفتر ہیں، پورے ہوگئے۔ اس کے بعد اللہ پاک نے دل میں ڈال دیا کہ کیوں ناں اس کا ترجمہ منظوم کیا جائے، اور پھر اسی کی تشریح ہوتی رہے، تاکہ وہ ایک درمیان میں فارسی اور اردو کا جو gap ہے، وہ ختم ہوجائے۔ تو اَلْحَمْدُ للہ، یہ سلسلہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے، مطلب یہ ہے کہ جتنا جتنا وقت آتا ہے، تو مطلب اس کے حساب سے ترجمہ ہوتا رہتا ہے، اور پھر جو ہے ناں ما شاء اللہ، یعنی یہ ساتھ چل رہا ہے۔
اَلْحَمْدُ للہ، اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے جتنے بھی یعنی اس کے دروس ہیں، وہ اللہ کے کرم سے محفوظ ہیں، شکر ہے اللہ کا، محفوظ ہیں۔ لہٰذا وہ ہمارے ویب سائٹ کے اوپر موجود ہیں، اور اس میں جو ہے ناں مطلب یعنی کم از کم جو قریبی ہیں، وہ تو ہیں ہی، اور جو اس سے ذرا آگے ہیں، تو مطلب وہ download ہوسکتے ہیں۔ بہرحال یہ ہے کہ اَلْحَمْدُ للہ، اللہ کا شکر ہے کہ یہ سلسلہ چل رہا ہے، اور اس میں ایک خاص بات ہے، مثنوی شریف کا کیوں اس کا درس دیتے ہیں؟ مطلب اس کی آخر کوئی وجہ تو ہوگی ناں۔ اصل میں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ مفتی تھے اپنے وقت کے، اور بہت بڑے اہل علم گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا ایک نام تھا اپنے علاقے میں۔ تو بعض حضرات کی تشکیل ہوجاتی ہے من جانب اللہ، ان کی تشکیل ہوگئی، تو اس وقت جو شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ تھے، وہ اس وقت ولایت کے بہت اونچے درجہ پہ تھے۔ تو بس ان کی طرف اشارہ ہوا کہ اس شخص پہ کام کیا جائے، اور حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ جو تھے، ان کو اس دور میں پرندہ کہا جاتا تھا، مطلب یہ ہے کہ وہ چونکہ ایک جگہ پہ نہیں ہوتا تھا، اگر آج ادھر نظر آیا تو کل لاہور میں نظر آرہا ہے، تو اگلے دن پشاور میں نظر آئے گا، اگلے دن جو ہے ناں کسی اور جگہ نظر آئے گا۔ تو اس وجہ سے ان کی کوئی خاص جگہ قیام کی نہیں تھی، اور سیاح تھے، اور چلتے رہتے تھے۔ تو ان کی جب تشکیل ہوگئی، تو پھر ظاہر ہے وہ آگئے۔ اب یہ تربیت جو حضرت کی ہوئی، بالکل مختلف رنگ میں ہوئی ہے۔ یعنی عام طریقۂ تربیت یہ نہیں ہے، جو بزرگوں کے ہاں ہوتی ہے ناں خانقاہوں میں، وہ عام طریقۂ تربیت یہ نہیں ہے۔ تو ظاہر ہے، مطلب اس کے لئے ایک خاص جذب کی ضرورت ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس حد تک انسان اس جذب سے یعنی مطلب جو ہے ناں وہ ہوجائے، اپنے حالات سے مستغنی ہوجائے، کہ وہ نفس کی جو مشقتیں ہیں، وہ آسانی کے ساتھ برداشت کرسکے، اور اپنی تربیت کروا سکے۔ تو حضرت کا جو یہ طریقہ تھا، وہ بالکل غیر اختیاری انداز میں ہوتا رہا۔ کیسے؟ وہ پہلا جو ان کا مرحلہ تھا، وہ تو یعنی مطلب یہ تھا کہ حضرت مطالعہ میں مصروف تھے، ظاہر ہے لکھ رہے تھے، اور ظاہر ہے بہت بڑے اہل علم میں سے تھے۔ تو حضرت شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ ادھر تشریف لے گئے، اور ان کو ذرا مطلب جو ہے ناں وہ یعنی گھور کے دیکھا کہ مولوی کیا کررہے ہو؟ تو انہوں نے وہی جواب دیا کہ یہ تو ایسی بات ہے جو تو نہیں جانتا، یہ قال ہے، اس کو تو نہیں جانتا۔ مطلب واقعتاً یہ علمی باتیں اور پھر شمس تبریزی کا جو حلیہ مبارک تھا، وہ تو اس طرح عالمانہ تو نہیں تھا، تو لہٰذا انہوں نے اس طرح ہی بات کی، تو انہوں نے، حضرت نے ان کی کتابوں کو گھور کے دیکھا، تو ان میں آگ لگ گئی! اب حضرت بھاگ کے پیچھے ہٹ گئے، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ، تو مطلب انہوں نے ساری کتابیں اٹھا کے وہ ساری، پانی تھا، ندی تھی، یا جو بھی تھا، اس میں پھینک دیں۔ حضرت رونے لگے، یہ کیا کردیا تو نے؟ میری ساری عمر کی جو ہے ناں محنت تباہ کردی۔ انہوں نے کہا اچھا! تیرا علم صرف اتنا ہی ہے؟ چلو کچھ ٹھیک کرلیتے ہیں۔ نیچے اترے، اور وہ ندی نالے سے اتار کے، اور اٹھا اٹھا کے گرد جھاڑ جھاڑ کر دے رہے ہیں۔ اب پانی سے اٹھا کے گرد تو نہیں ہوتی ناں اس میں۔ تو یہ بڑی عجیب بات ہوئی، تو انہوں نے کہا یہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا یہ حال ہے، جیسے تو نہیں جانتا۔ قال کا جواب حال سے دے دیا، یہ جو ابتدا والی بات ہوئی تھی، یہ حضرت کی بالکل تربیت میں سب میں یہ چیز شامل رہی بعد میں بھی، اور یہی چیز مثنوی میں ہے، یعنی قال سے حال کو منتقل کیا جاتا ہے، یہ والی بات ہے۔ تو یہ ابتدائی طور پر تو بات یہ ہوگئی۔ اب دوبارہ dose۔ حضرت کہیں تشریف لے جارہے ہیں، لوگ رخصت کررہے ہیں، ظاہر ہے ایک مقام تھا حضرت کا۔ اتنے میں شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ آئے، کہیں سے نکل آئے، اور گھوڑے کی باگ تھام کے کہا، مولوی جانے سے پہلے ایک جواب دو۔ کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا ایک شخص کہتا ہے: ’’سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمَ شَانِیْ‘‘۔ یہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ اور دوسرا صاحب کہتا ہے کہ میں نے تیری ثناء کا حق ادا نہیں کیا، کون بڑے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ دوسرا بڑا ہے، کیوں؟ انہوں نے کہا کہ ان کا جو برتن ہے، وہ کافی بڑا ہے، لہٰذا چھلکا نہیں، اور دوسرے کا چھوٹا ہے، لہٰذا تھوڑے سے چھلک گیا، بس اتنا جواب سننا تھا کہ حضرت لوگوں میں گم ہوگئے۔ مولانا روم صاحب تڑپ گئے کہ بھئی یہ کون آدمی ہے، اس نے تو بہت بڑا message دیا، message کیا دیا؟ تم اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہو، تو اس کا مطلب ہے تیرا ظرف تھوڑا ہے، جن کا ظرف بڑا ہوتا ہے، تو وہ تو اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا، یہ message مطلب دے دیا۔ اب اس پر جو ہے ناں وہ حضرت بڑے مطلب ہوگئے کہ اب ان کو ڈھونڈنا چاہئے، یہ تو کوئی شخص ہے جو مطلب صاحبِ حال ہے۔ اب ڈھونڈتے، تو ظاہر ہے حلیہ تو یاد تھا، لیکن جگہ ان کی تھی نہیں، خیر شاگردوں کو دوسرے لوگوں کو وہ نشانیاں بتا بتا کے، لوگ بتاتے بھئی فلاں جگہ ہیں، اُدھر پھر نہیں ہوتے تھے۔ ایک جگہ پر مل گئے، جاتے ہی حضرت کے قدموں میں گر پڑے، انہوں نے کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: حضرت مجھے اپنا فرزند بنا لیں، یعنی مجھے اپنی تربیت میں لے لیں۔ فرمایا: جا مولوی تو ہے مفتی ہے، اور میں ہوں رند، کہاں دونوں کا ہوسکتا ہے؟ جا اپنا کام کر اپنا وقت کیوں ضائع کرتے ہو؟ کہا نہیں! حضرت مجھے بے شک مجھے آپ آزما لیں، میں آپ کے ساتھ رہوں گا، یہ ہے وہ ہے، انہوں نے کہا اچھا آزما لوں؟ کہتے ہیں ہاں، جاؤ میرے لئے شراب لے آؤ! اب عجیب بات ہے، مفتی ہے اور شراب لے آئے، کیسے لے آئے، کیا کرے؟ خیر وعدہ چونکہ کیا تھا، اور تجسس بھی تھا کہ آخر ان کی باتیں ایسی تو نہیں ہوتیں، آخر کوئی پیچھے کوئی بات ہوتی ہے، تو کہا چلو میں لے آؤں گا، پھر دیکھیں گے کہ کیا۔ دور کسی علاقہ میں گئے، اور چادر اوڑھی ہوئی ہے، اور بوتل بغل میں، اور لارہے ہیں، تو یہ تو من جانب اللہ تھا ناں سارا معاملہ، ویسے تو نہیں تھا، ٹھوکر لگ گئی! ٹھوکر لگی، بوتل گر گئی نیچے، اور بازار، اب حلیہ ظاہر ہے صوفیانہ، عالمانہ، اور شراب کی بوتل گر گئی، تو پھر تو لوگوں نے پیچھے ہونا تھا، اوہ! مولوی شراب پیتا ہے! مولوی شراب پیتا ہے! اس وقت حضرت مطلب اتنا زیادہ وہ بوڑھے نہیں تھے، جوان تھے، تو بس وہ بہرحال یہ ہے کہ وہاں سے لوگ پیچھے، وہ آگے، لوگ پیچھے، وہ آگے، اخیر میں جنگل پہنچ گئے۔ وہاں کچھ آگے پیچھے ہو کر کہ بھئی میرے پیچھے لوگ نہیں پہنچ سکتے ہیں، تو دیکھا کہ سامنے حضرت تشریف لارہے ہیں۔ شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ، آؤ بیٹا! اسی لئے سارا ڈرامہ تھا۔ بس اب تو کہیں نہیں جاسکتا، اب تو میرے ساتھ ہی ہوگا، اب تو کہیں نہیں جاسکتا۔ اس پر ما شاء اللہ حضرت نے ان کو دو سال ساتھ رکھا، بس وہی دو سال میں کام ان کا ہوگیا، اَلْحَمْدُ للہ۔ تو بہرحال یہ ہے کہ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ نے جو فیض عطا فرمایا تھا، وہ حال کے ذریعہ سے عطا فرمایا تھا، قال تو پہلے سے تھا حضرت کے ساتھ۔ حال کے ذریعہ سے۔ تو ان کے پورے اشعار میں حال ہی حال ہے۔ لہٰذا جو چیز حال کے ذریعے سے سمجھ میں آسکتی ہے قال والی چیز، تو ما شاء اللہ اس میں جلدی ہوتی ہے، مطلب بہت جلدی فائدہ ہوتا ہے، یہ بات ہے۔ اس لئے ہمارے اکابر جو ہیں ناں اس کو، اس کی تعلیم کرتے تھے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں باقاعدہ اس کی تعلیم کا سلسلہ ہوتا تھا، اور ما شاء اللہ حضرت تشریف لاتے تھے ہندوستان، تو بڑے بڑے لوگ حضرت کے درس میں شامل ہوتے تھے، بڑے بڑے اللہ والے اور علماء کرام۔ ایک پروفیسر صاحب تھے، وہ بھی مثنوی کا درس دیا کرتے تھے۔ تو جب حضرت حاجی صاحب آگئے، تو ان کے درس میں لوگ کم ہونے لگے، تو پروفیسر صاحب بڑے حیران ہوئے کہ آخر کیا وجہ ہے؟ مطلب آخر حاجی صاحب کیا پڑھاتے ہیں؟ یہی مثنوی وہ بھی پڑھاتے ہیں، میں بھی پڑھاتا ہوں، تو یہاں لوگ کم کیوں آئے ہیں؟ تو ایک دن انہوں نے کہا کہ چلو میں بھی جاکر حضرت کے درس میں بیٹھ جاتا ہوں، پتا چل جائے کہ آخر حضرت درس کیسے دیتے ہیں؟ کہ جو وہاں گئے، تو پھر وہیں کے ہوکے رہ گئے، بس پھر اپنا درس بند کردیا، اور حضرت ہی کا درس سننے لگے، پھر اپنے ساتھیوں نے ان سے پوچھا آخر کیا بات ہے بھئی؟ آپ نے اپنا درس چھوڑ دیا، اور حاجی صاحب کے درس میں چلے گئے، کیا مسئلہ؟ کہا بتا دوں؟ کہتے ہیں ہاں بتا دیں۔ کہتے ہیں میرے درس کی مثال ایسی تھی، جیسے کسی گھر کے باہر میں کسی کو کھڑا کردوں، اور مجھے گھر کی ساری چیزوں کا پتا ہو، اس کو بتاؤں اس کے اندر اتنے کمرے ہیں، اتنے فانوس ہیں، اتنے یہ ہیں، اتنے یہ ہیں، ساری چیزیں، لیکن اس کو دکھا نہ سکوں۔ حاجی صاحب اندر لے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ چیز دیکھو ناں یہ ہے، اور یہ چیز یہ ہے، اور یہ چیز یہ ہے، اور یہ چیز یہ ہے۔ تو بس اب بتاؤ پھر میرے درس میں کیا وہ بات ہوسکتی ہے جو کہ ان کے درس میں ہوگی؟ یہ گویا کہ حضرت حاجی صاحب بھی حال کے ذریعے سے پڑھا رہے تھے، بس یہی بات ہے۔ تو اس مثنوی شریف کے درس میں یہی بات بنیادی چیز ہے۔ یہ مطلب علمی باتیں دوسری کتابوں میں موجود ہیں، یہ نہیں کہ جو اس میں موجود ہے، دوسری جگہ میں موجود نہیں ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ میں موجود ہے، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں میں موجود ہے، اس طرح بڑے بڑے جو ہے ناں وہ علماء کرام جو گزرے ہیں، مشائخ گزرے ہیں، ان کی کتابوں میں ساری چیزیں موجود ہیں جو یہ حضرات فرماتے ہیں، لیکن وہ قال کے انداز میں ہے، یعنی ان کو یعنی گویا کہ بتایا جاتا ہے کہ یہ ایسا ہے اور یہ ایسا ہے، اور اس طریقے سے بتایا جاتا ہے۔ یہ حال کے طریقہ سے ہے، بس اس میں فرق یہی ہے۔ تو اس میں پھر حضرت عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ نے جو شعر کہا ہے مثنوی کے بارے میں، وہ ذرا سننے کے قابل ہے، حضرت نے فرمایا کہ
مثنوی مولوی معنویہست قرآن در زبان پہلوی
یہ فرمایا۔ میں اس پہ بڑا غور کرتا رہا، میں نے کہا حضرت نے ایسا کیوں کہا؟ یعنی قرآن کے ساتھ اس کو کیوں جوڑ رہا ہے؟ مطلب آخر کیا وجہ ہے؟ تو ایک دن اَلْحَمْدُ للہ بات کھل گئی کہ قرآن جو ہے، وہ شانِ نزول کے مطابق اترا ہے، شانِ نزول، واقعہ ہوگیا، اب اللہ جل شانۂ تو قادر ہے ہر چیز پر، قرآن لوح محفوظ میں پہلے سے موجود ہے، لیکن واقعات بعد میں ہورہے ہیں، لیکن وہ عین اسی کے مطابق آیتیں اتر رہی ہیں، تو وہ تو اللہ ہی ہے ناں، تو اللہ ہی کرسکتے ہیں وہ، اور تو کوئی نہیں کرسکتا۔ تو قرآن شان نزول کے مطابق اترا ہے، اس وجہ سے اس کی تشریح کا سب سے اہم کام شان نزول کا جاننا ہوتا ہے کہ کن حالات میں اترا ہے، تو یہ قرآن پاک کی تفسیر کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ مثنوی شریف میں بھی اس کام کو ایک اور طریقہ سے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت حکایات بیان کرتے ہیں، اور حکایات جو ہوتی ہیں، وہ ضروری نہیں کہ اصلی ہوں، بلکہ بعض دفعہ بالکل ہی اپنی طرف سے، جیسے طوطے کی کہانی اور کتے کی کہانی اور پتا نہیں کس چیز کی کہانی، یہ مطلب جو ہے ناں وہ جیسے بچوں کے قصے ہوتے ہیں، اس طرح کہانیاں بیان کرکے، پھر اس میں سے اتنے زبردست مضامین نکالتے ہیں کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے۔ اسی سے وہ ساری چیزیں explain کرتے ہیں۔ تو میں نے کہا یہ جو مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا ہے، اسی بنیاد پر فرمایا ہے کہ اس کے اندر طریقۂ کار اس طرح رکھا گیا ہے کہ لوگ پہلے سے اس حکایت کو دیکھیں، اچھا پھر حضرت نے خود اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر میری مثنوی میں حکایات کو اصل سمجھا جائے تو اس نے پھر مثنوی کو نہیں سمجھا۔ حکایات تو صرف ایک carrier ہے، ایک ذریعہ ہے جس کے ذریعے سے مطلب جو ہے ناں ان مفید مضامین کو سمجھایا جاتا ہے، ورنہ حکایات مقصود نہیں ہیں۔ اب یہاں پر بھی ایک حکایت چل رہی ہے، وہ حکایت یہی ہے کہ ایک بادشاہ ہیں، اور اس کی ایک کنیز ہے، اور وہ کنیز بہت خوبصورت ہے، اور بادشاہ اس کا عاشق ہے، لیکن وہ کنیز بیمار ہوگئی ہے، اس کی بیماری کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ حکیموں کو بلایا، حکیم diagnose نہیں کر پائے کہ کیا چیز ہے، اللہ کی طرف متوجہ ہوئے کہ یا اللہ اس کی کچھ مدد فرما دے، تو ان کو الہام ہوا کہ ایک اللہ والے حکیم ہیں جو آئیں گے جو اس مسئلہ کو حل کریں گے۔ تو اس کے انتظار میں رہے، جس وقت مطلب وہ حضرت تشریف لائے، تو حضرت نے ان کو پہچان لیا، بہت آؤ بھگت کی، ان کو لے آئے، ان کو مسئلہ بتایا، انہوں نے کہا اچھا ٹھیک ہے، پھر مجھے موقع دیں کہ میں مریض کو دیکھوں۔ تو مریض کو دیکھنے کے لئے چلے گئے، تو وہاں انہوں نے مطلب جو ہے ناں وہ جو طریقہ اختیار کیا، وہ بالکل ایک غیر معمولی طریقہ تھا۔ اس نے پہلے ادھر بتایا کہ اس کا جو علاج ہوا ہے، غلط ہوا ہے، وہ جو حکیم پہلے آئے ہیں، ان کو تو پتا ہی نہیں چلا کہ مرض کیا ہے۔ تو مجھے تنہائی چاہئے تاکہ میں یہ معلوم کروں، بادشاہ نے اجازت دے دی۔ اب اس نے طریقہ یہ اختیار کیا کہ مطلب اس کو چہرے سے تو اندازہ ہوگیا کہ یہ عشق کا مرض ہے اس کو، لیکن کس کے ساتھ ہے، وہ ذرا معلوم کرنا چاہتے تھے، تو اس کے لئے سارا طریقہ بنا دیا۔ اب ہوا یہ کہ ان کے نبض پہ ہاتھ رکھا، اور پوچھتے تھے کہ آپ کہاں تھیں پہلے؟ تو وہ بتاتی میں فلاں جگہ پر، اچھا اس کے شہروں کے، اس کے لوگوں کے، تمام چیزوں کے معلوم کرتے تھے، اور نبض پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا، کیونکہ ایک reflex action ہوتا ہے ناں کسی میں کہ جس شخص کے ساتھ اس کا تعلق ہوگا تو جیسے اس کا نام آئے گا، اس کے شہر کا نام آئے گا، تو نبض تیز ہوگی، اس پہ کسی کا control تو نہیں ہوتا، بات تو صحیح ہے، تو اس طریقے سے انہوں نے وہاں تک وہ پہنچ گئے، تو اب جو ہے ناں ما شاء اللہ یہ سلسلہ ابھی شروع کرنا ہے۔
دفتر اول حکایت نمبر 7
27
نبض بے نقصان ہی چلتا رہا
نام شہروں کا حکیم لیتا رہا
ہاں ثمر قند کا جو نام اس نے لیا
تو نبض کو اس کے اک جھٹکا ملا
مطلب ثمرقند کا کوئی شخص ہے۔
مطلب: یعنی کنیزک کے نزدیک وہ شہر قند کا سا شیریں تھا کیونکہ وہ اس کے محبوب کا مسکن تھا اور عاشق کو دیارِ محبوب تمام روئے زمین سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔
28
ذکر سے اس کے اک آہ سرد لی
آنسوؤں کی آنکھوں سے ندی بہی
29
خرید بولی واں سے لایا سوداگر مجھے
لے لیا اس سے پھر ایک زرگر مجھے
30
چھ مہینے اس نے ساتھ رکھا مجھے
جل اٹھی غم سے کہا بیچا مجھے
طبیبِ نبّاض نے جو کھود کھود کر پوچھنا شروع کیا تو مجبورًا کنیزک کو حقیقتِ حال زبان پر لانی ہی پڑی جس سے اضطرارًا اس کی حالت متغیّر ہو گئی اور طبیب پر اس کا راز آشکارا ہو گیا۔ (کہ مسئلہ کیا ہے)
31
نبض پھڑکی سرخ چہرہ زرد ہوا
اس جدائی کے سبب جو تھی بلا
کنیزک قصۂ عشق کو چھپا رہی تھی۔ مگر طبیب نے حکمتِ عملی سے باتوں باتوں سے سراغ نکال لیا اور طبیب نے سمجھ لیا کہ محبوب کے شہر سے جدا ہونا ہی اس کے اس مرض کی شدّت کا باعث ہے۔
32
جب کیا دریافت اس نے راز کو
سمجھا وہ اس درد کے آغاز کو
33
کونسا اس کا کوچہ کس راہ سے گزر
بولی سرپل رستہ کوچہ غاتفر
یعنی وہ address بتا دیا۔
34
بول اٹھے وہ حکیم باصواب
اے کنیز تیرا ختم ہے اب عذاب
مطلب اب میں پہنچ گیا ہوں۔
35
اب مجھے معلوم ہے تیرا مرض
اب علاج تیرا ہوا مجھ پر فرض
36
میں اب باران رحمت کی طرح
واسطے تیرے خوش رہ اب اچھی طرح
37
تیرا ہوں غم خوار اب تو غم نہ کر
تیرا ہوں ہم درد میں از صد پدر
38
ہاں مگر یہ راز بیان کرنا نہیں
شاہ بھی پوچھے تو کچھ کہنا نہیں
39
راز ظاہر حتی الامکان کرنا نہیں
اور کسی پہ در اس کا کھولنا نہیں
40
جب مراد تیری رہے دل میں تری
تو بر آنے میں ہو اس کی بہتری
طبیب و کنیزک کی گفتگو کے ذکر میں بمناسبتِ مقام مولانا اخفائے راز کی تاکید کرتے ہیں کہ اخفائے اسرار سے حصولِ مرادات کی امید ہے، کیونکہ افشائے راز سے کوئی نہ کوئی مخالف چلتی گاڑی میں روڑا اٹکانے والا پیدا ہو جاتا ہے۔
یعنی ایک بات تو اس میں یہ بات نکل گئی کہ اپنے راز کو راز رکھنا ضروری ہے۔ ﴿وَفِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ﴾1 مطلب یہ تو پہلے سے ہمیں بتایا گیا ناں کہ مطلب تم میں ان کے لیے سننے والے موجود ہیں۔ لہٰذا عموماً نقصان جو ہوتا ہے، یعنی جو تحریکوں کو، ان میں بھی وجہ یہی ہوتی ہے۔ ریشمی رومال تحریک جو ناکام ہوئی تھی، وہ اسی بنیاد پر ناکام ہوئی تھی، ورنہ کتنی زبردست منظم تحریک تھی، لیکن وہ ناکام ہوگئی اس کی وجہ سے۔ تو اکثر لوگ جو ہیں ناں مطلب جو دشمن ہوتے ہیں، وہ اس راز کو پانے میں پورا ایک نظام بناتے ہیں تاکہ وہ معلوم کرلیں کہ دشمن کا راز کیا ہے۔ وہ کیا step اٹھانے والے ہیں تاکہ اس کے لیے پیش بندی کرلیں، اور ان کی ساری scheme فیل ہوجائے۔ تو یہاں پر بھی یہ بات بتائی حضرت نے۔
41
از حدیث جو راز اپنا چھپائے ہے
جلدی مراد اپنی پھر وہ پائے ہے
شرح بحر العلوم میں لکھا ہے یہ شعر اس حدیث کا مضمون ہے۔ "مَنْ کَتَمَ سِرَّہٗ حَصَلَ مُرَادَہٗ"۔ وَہٰکَذَا فِیْ مُکَاشَفَاتِ رِضْوِیْ۔ یعنی جس نے اپنا بھید مخفی رکھا اس کی مراد بر آئی۔ مگر موضوعاتِ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث مرفوعًا ثابت نہیں۔ صاحبِ کلیدِ مثنوی فرماتے ہیں (جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے) یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے۔ "اِسْتَعِیْنُوْا عَلٰی اِنْجَاحِ الْحَوَآئِجِ بِالْکِتْمَانِ"2 (مطلب یہ حدیث شریف تو ثابت ہے، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا) "اپنی مرادات کے پورا کرنے میں ان کے مخفی رکھنے سے مدد لو"۔ (واللہ اعلم بالصّواب)
42
دانہ جب زمین میں دب جاتا ہے
بعد ازاں سرسبزی وہ پھر لاتا ہے
43
سونا چاندی ہوتے نہ پوشیدہ گر
پرورش پاتے وہ کان میں کیوں کر
ان دو مثالوں کے ذریعہ سے یہ بتایا ہے کہ جس طرح ایک چھوٹا سا بیج زمین میں چھپ کر اجزائے ارضیہ سے غذا پا کر پھوٹ نکلتا ہے اور ایک خوبصورت پودے کی شکل میں زینتِ باغ بن جاتا ہے۔ اور ان کے اندرونی اجزائے ارضیہ اور بخارات باہم امتزاج پا کر سونے چاندی کی قیمتی دھاتوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ بخلاف اس کے اگر دانہ زمین سے باہر رہتا تو کبھی پودے کی شکل نہ پاتا اور اگر وہ اجزائے ارضیہ و بخارات کان سے باہر نکالے جاتے تو ہرگز سونا چاندی نہ بن سکتے۔ اسی طرح اگر اسرار کے بیجوں کو دل کے گلزار میں مخفی رکھیں اور رازوں کے عناصر کو قلب کی کان میں دبائے رکھیں تو ان کے نتائج خوب صورت پھولوں اور آبدار جوہروں کی صورت میں پیدا ہوں گے۔
نکتہ: اس بیان میں یہ اشارہ ہے کہ سالک کو چاہیے کہ اپنے اسرارِ قلب و کیفیاتِ باطن اور مکشوفات و مشاہدات کو کسی پر ظاہر نہ کرے۔ ہاں ضرورت ہو تو حلِ مشکلات اور حصولِ ہدایات کے لیے صرف مرشد سے ایسے امور بیان کرنے چاہئیں۔
یہ اہم اصول یعنی پیری مریدی کا بتایا۔ حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو اس میں بہت متشدد تھے، بہت زیادہ متشدد تھے۔ وہ ان کا قانون یہ تھا کہ کسی مرید کو دوسرے مرید پر یعنی حضرت کے دوسرے مرید پر حال ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔ اور ایک دفعہ ایک صاحب نے ظاہر کیا تو ان کو اتنا سختی سے ڈانٹا، فرمایا کہ تم اپنی بیوی کو دوسرے کے بغل میں دیکھ کر کیسے مطلب رہتے ہو؟ مطلب یہ تو تمہارا راز تھا، تو تمہارا اللہ کے ساتھ معاملہ تھا، تو نے اس کو دوسرے پہ کیوں؟ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے، فرماتے ہیں جو دوست کے راز رکھنے کے قابل نہیں ہے، وہ دوستی کے قابل نہیں ہے، جو دوست کے راز کو راز رکھنے کے قابل نہیں ہے، وہ دوستی کے قابل نہیں ہے۔ یہ بہت مطلب جو ہے ناں وہ حضرت نے اہم بات کی۔ اکثر لوگوں سے غلطی ہوجاتی ہے، اصل میں یہ مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ بزرگی کی بیماری کا ہے، بزرگی کی بیماری بہت خطرناک بیماری ہے۔ کسی کو محسوس ہوجائے کہ میں بزرگ ہوں ناں، بس اس سے پھر اس قسم کی غلطیاں ہوتی ہیں، تو یہ سمجھ لیتے ہیں کہ چونکہ دیکھو یہ کشف ہوگیا یا خواب کوئی آگیا یا کوئی ایسا حال جس کو یہ پسند کرتا ہے، وہ آگیا، تو پھر وہ لوگوں کو بتاتا پھرتا ہے۔ یہ خواتین نہیں ہوتیں، خواتین، یہ جب تلاوت کرتی ہیں ناں، تو جب کوئی مطلب ان کے ساتھ سہیلی وغیرہ ملتی، کہتی ہیں بہن بس میں تو صبح بیٹھ جاتی ہوں، تین چار سپارے پڑھ لیتی ہوں۔ خدا کی بندی تو پڑھ لیتی ہے تو کیا مطلب دوسرے کو بتانے کی کیا ضرورت ہے؟ تو مطلب یہ ان کی یہ کمزوری ہوتی ہے، اور ان کے لیے رکاوٹ ہی سب سے زیادہ یہی ہے، جی بالکل خواتین کے لیے بنیادی طور پر رکاوٹ ان کی تربیت میں یہی ہوتی ہے، ورنہ ان کو ایک خصوصی نعمت ملی ہے جو مردوں کو نہیں ملی۔ وہ کیا ہے؟ وہ یکسوئی ہے، یکسوئی اتنی بڑی نعمت ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یکسوئی ہو چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔‘‘ اتنی زبردست چیز ہے۔ اب یکسوئی کیا ہے عورتوں میں؟ اب دیکھو عورتیں جو ہمارے ہاں آتی ہیں، وہ basement میں بیٹھی ہوتی ہیں نیچے، اور ہماری آواز صرف ان کو جاتی ہے یعنی mic پر، لیکن وہ پوری سن لیتے ہیں، مطلب ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، مرد ایسا نہیں کرسکتے۔ کیونکہ مرد اگر سامنے دیکھ نہیں رہے ہوں کسی speaker کو، اس وقت ان کی توجہ نہیں بنتی، جب کہ عورتوں کی توجہ بن جاتی ہے، وہ اگر سامنے بھی بیٹھی ہوں تو اس طرح نیچے دیکھ کر سن رہی ہوتی ہیں۔ یہ ان کی یکسوئی کی علامت ہے، تو ان کو یہ دولت بہت زبردست ملی ہوتی ہے یکسوئی کی، لیکن افسوس کہ ان کے اندر یہ جو مرض ہے، وہ اس کو تباہ کردیتا ہے، مطلب وہ جو چیز لیتی ہیں، وہ سب ضائع ہوجاتا ہے، اگر وہ تھوڑا سا اس کو سنبھال سکیں تو بہت جلدی جلدی ان کو روحانی ترقی ہوجائے، اور ہم نے دیکھا ہے اَلْحَمْدُ للہ کہ جن خواتین نے اس پر عمل کرلیا، بہت جلدی جلدی ما شاء اللہ وہ ترقی کرگئیں۔ ہماری خانقاہ میں اَلْحَمْدُ للہ خواتین کا جو کام ہے، وہ کافی ما شاء اللہ اہم سمجھا گیا ہے، اور ما شاء اللہ یعنی مجھے ابھی تک پتا نہیں ہے کہ مجھ سے خواتین زیادہ بیعت ہیں یا مرد زیادہ بیعت ہیں، یعنی بہت اَلْحَمْدُ للہ پورے پورے مدرسے کے لوگ بیعت ہوجاتے ہیں، تو ان میں پھر شمار تو نہیں ہوتا کہ کون کتنے ہیں، لیکن ان کا جن کا رابطہ ہوتا ہے، اور جو اس چیز کو ما شاء اللہ سمجھ لیتی ہیں، تو بہت جلدی جلدی ان کی ترقی ہوتی ہے، اور اگر ایسا نہیں ہو، بس پھر اس کے بعد چھلنی بنتی ہے ناں، بس ڈالتے رہو چھلنی میں گرتا جاتا ہے، فائدہ نہیں ہوتا۔
44
خوف سے باہر کیا بیمار کو
اس حکیم کی مہربانی نے سنو
45
وعدے سچے ہوں ہمیشہ دل پسند
اور جھوٹے کرلیں دل میں اور گند
حکیمِ الٰہی کے سچے وعدہ اور جھوٹے وعدہ کا فرق بیان فرماتے ہیں اور اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو مشکوٰۃ شریف میں بروایت ترمذی درج ہے کہ امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم سے یہ کلمات سن کر یاد کر لیے۔ "دَعْ مَا یُرِیْبُکَ اِلٰی مَا لَا یُرِیْبُکَ، فَاِنَّ الصِّدْقَ طَمَانِیْنَۃٌ وَاِنَّ الْکِذْبَ رِیْبَۃٌ"3۔ یعنی "شکی بات کو چھوڑ کر غیر شکی بات اختیار کرو۔ کیونکہ سچائی دل کا اطمینان ہے اور جھوٹ شبہ کی بات ہے"۔
46
وعدۂ اہلِ کرم گنجِ رَواں
وَعدۂ نا اہل ہو رنجِ رواں
اہلِ کرم کا وعدہ (وہ) خزانہ ہے (جس کا فیض سدا جاری رہنے والا ہے) نالائق کا وعدہ رنجِ جان (ثابت) ہوا ہے۔
نکتہ: شیخِ کامل اور شیخِ مُزوّر کے وعدوں میں جو فرق ہے ان دونوں شعروں میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شیخ کامل کے وعدے خواہ تعلیم و تربیت سے متعلق ہوں یا بطور بشارات ہوں، سب صادق اور طمانیتِ قلب کا باعث ہوتے ہیں۔ مگر شیخِ مکّار کے وعدے کذب اور پورے نہ ہونے کے باعث پریشان کرنے والے ہوتے ہیں۔
اصل میں آپ کو بتاؤں آخر یعنی جو شیخ کامل اور جھوٹے شیخ میں فرق کیا ہے؟ بنیادی چیز کیا ہے؟ شیخ کامل کو آپ کا فائدہ عزیز ہے اللہ تعالیٰ کے لیے، اللہ کی رضا کے لیے، اس کی ڈیوٹی دی گئی ہے کہ مخلوق کو میرے ساتھ ملا دو، یعنی اللہ کے ساتھ ملانا، لہٰذا وہ آپ کے فائدے کو دیکھتا ہے، اگر ڈانٹتا بھی ہے تو اس لیے ڈانٹتا ہے، اگر نوازتا بھی ہے تو اس لیے نوازتا ہے، ان کا کام یہ ہوتا ہے، جب کہ جو دوسرا شیخ ہے، وہ کاروباری ہے، وہ کاروبار کرتا ہے، اس کو جس کاروبار میں فائدہ ہوگا تو وہ وہی کرے گا۔ مثال کے طور پر وہ جو ہے ناں وہ ایسے وعدے کرے، وہ کہہ دے جی بس، وہ نہیں ہوتا لکھا ہوتا دیواروں پہ لکھا ہوتا ہے: ’’محبوب تمہارے قدموں پر‘‘، اور اس طرح یہ آپ کو مل جائے اور یہ آپ کو مل جائے، وہ سب جھوٹے فریب، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی، اور لوگ آتے ہیں، اچھا لوگوں میں بھی گڑبڑ ہوتی ہے، یہ نہیں کہ مطلب سب وہ خراب ہوتے ہیں، لوگوں میں بھی گڑبڑ ہوتی ہے، وہ دنیاوی چیزوں کے لیے جاتے ہیں پیروں کے پاس، وہ آخرت کے لیے نہیں جاتے، جو آخرت کے لیے جاتا ہے فوراً پہچان لیتے ہیں کہ یہ دنیادار ہے یا مطلب یہ اللہ والا ہے، لیکن جو دنیا کے لیے جاتے ہیں تو ان کو تو ایسے ہی لوگ چاہئیں، تو ظاہر ہے مطلب وہ دنیادار لوگ جو ہے ناں دنیاوی ایسے جو لوگ بنے ہوتے ہیں، بہروپ بھرا ہوتا ہے، ان کے پاس جاتے ہیں، اور اپنا سارا کچھ ضائع کردیتے ہیں، آخرت تو ضائع کر ہی لیتے ہیں، دنیا بھی بعض دفعہ ضائع کرلیتے ہیں، وہ مفت میں بس وہ دیتے رہتے ہیں ناں، مطلب ظاہر ہے وہ طریقوں سے بٹور رہا ہوتا ہے، اور جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ لوگ جو ہیں ناں وہ کررہے ہوتے ہیں۔ مجھے خوب یاد ہے ہمارے ایک دوست تھے، اس کے کزن نے ایک لڑکی بھگائی تھی۔ کتنا بڑا جرم ہے! اچھا اب وہ کیا کررہا تھا؟ وہ کہتا ہے اس طرح، مالدار آدمی تھا، Norway میں کام کررہا تھا ناں، تو کہتے ہیں اس طرح Jeep کی چابی اس طرح گھما رہا تھا، کہتا ہے اگر مجھے کوئی جائز کر دکھائے گا تو میں یہ Jeep ان کو دے دوں گا۔ خدا کے بندے! اگر کوئی آدمی تمہیں کہہ بھی لے کہ جائز ہے، اور وہ ناجائز ہو، تو کیا اس کے جائز کہنے سے جائز ہوجائے گا؟ اس کے جائز کہنے سے تو جائز نہیں ہوگا، وہ تو صرف آپ کو بس دل خوش کرے گا کہ ٹھیک ہے، یہ چیز جائز ہے۔ وہ میں آپ کو واقعہ سناتا ہوں، ہمارے دفتر میں ایک ساتھی تھے، وہ مجھے کہنے لگے کہ جی ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا loan ہے، میں لے لوں؟ میں نے کہا کہ اس میں تو سود ہے، تو سودی چیز تو نہیں لینی چاہیے۔ اچھا اس پر جو ہے ناں وہ بات ختم ہوگئی، بس اتنی بات۔ تقریباً بارہ سال کے بعد وہ مجھے کہتا ہے: میں بڑا پریشان ہوں۔ میں نے کہا کس چیز میں پریشان ہیں؟ کہتے ہیں وہ loan جو لیا تھا ناں، تو اس سے بڑے مسئلے ہوئے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ میں نے آپ کو منع نہیں کیا تھا کہ loan نہیں لینا، یہ loan نہیں لینا؟ کہتا ہے ہمارے پیر صاحب ہیں ناں، تو پیر صاحب سے ہم نے کہا، تو انہوں نے کہا مجبوراً لے رہے ہو ناں؟ تو میں نے کہا ہاں، کہتے ہیں پھر کوئی حرج نہیں۔ تو میں نے کہا جا کر دعا بھی ان سے کروا لو، اب اسی پیر صاحب سے دعا کروا لو ناں جو آپ کو کہہ رہا کہ آپ مجبوراً لے رہے ہیں۔ تو یہی بات ہوتی ہے کہ لوگ چاہتے ہی یہی ہیں کہ ہمیں مطلب وہ بتایا جائے جو کہ ہم چاہتے ہیں، حالانکہ ایسا تو نہیں ہوتا، جو اللہ والا ہوتا ہے، وہ کبھی بھی ایسی بات آپ سے نہیں کرے گا، جس میں۔۔۔۔ خود ہمارے جو شیخ تھے ایک دفعہ میں نے کچھ اپنے احوال سنائے۔ احوال میں کچھ ایسی چیزیں تھیں، فرمایا دور کرو، دور کرو، راستہ کے کھیل تماشے ہیں۔ اب ان کا اُس وقت کا یہ کہنا میرے لیے اتنا زبردست سبق ہوگیا کہ ان چیزوں سے جی بھر گیا کہ بھئی یہ چیزیں نہیں ہیں مقصود، مقصود یہ چیزیں نہیں ہیں۔ تو اَلْحَمْدُ للہ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے مطلب اس کا جو ہے ناں وہ دل جو ہے ناں وہ کرلیا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اصل شیخ ہوتا ہے، وہ آپ کو صحیح چیز بتائے گا، وہ آخرت کے لحاظ سے بتائے گا، اللہ تعالیٰ کے تعلق کے لحاظ سے بتائے گا، تو پھر تو فائدہ ہوگا ان شاء اللہ۔
۔ (التوبہ: 47) ترجمہ: ’’اور خود تمہارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کے مطلب کی باتیں خوب سنتے ہیں۔‘‘
۔ (بیھقی)
۔ (سنن ترمذی، رقم الحدیث: 1518)