اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾1
وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ:
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾2
وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ:
﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾3
''اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ''
معزز خواتین و حضرات! ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوچکا ہے، اور ربیع الاول کے مہینے کے ساتھ کچھ باتیں ایسی ہیں جس سے آپ ﷺ یقینی طور پہ یاد آجاتے ہیں۔ آپ ﷺ کا یوم ولادت بھی ربیع الاول میں ہے، آپ ﷺ کا یوم رحلت بھی ربیع الاول میں ہے، اور آپ ﷺ کی ہجرت مبارک بھی ربیع الاول میں شروع ہوئی اور ربیع الاول میں ہی پوری ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دو بڑے اہم واقعات جن کا تعلق آپ ﷺ کے ساتھ ہے، دو قسم کے، ان کی ابتدا بھی ربیع الاول میں ہے اور انتہا بھی ربیع الاول میں ہے۔ یعنی آپ ﷺ کی زندگی اور پھر آپ ﷺ کی ہجرت۔ تو ہم لوگوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ربیع الاول کے مہینے سے ہمیں یہ پیغام لینا چاہئے کہ ابتدا سے لے کر جیسے ہی ہم بالغ ہوں، انتہا تک ہم آپ ﷺ کے طریقہ پہ چلیں، آپ ﷺ کے طریقہ کا اتباع کریں۔ اور ہجرت کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ایک تو ہجرت تھی، دو قسم کی۔ ایک ہجرت تو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی ہجرت تھی، وہ تو اسی وقت تھی، وہ بعد میں پوری ہوئی۔ لیکن ایک ہجرت ہر وقت ہے اور وہ بری چیزوں سے اچھی چیزوں کی طرف ہجرت ہے، برائی سے نیکی کی طرف ہجرت ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس مہینے میں عہد کرلیں کہ ہم اب بری چیزوں کو نہیں اختیار کریں گے، ہم اب اچھی چیزوں کو اختیار کریں گے۔ ایک بات یاد رکھنا چاہئے، ایک ہوتا ہے دین کے اندر اضافہ یا کمی، اس کا تو امکان ہی نہیں ہے، یہ تو جرمِ عظیم ہے۔ یعنی انسان دین کے اندر کوئی اضافہ کرلے یا دین کے اندر کوئی کمی کرلے، اس کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ ہم لوگ بعض دفعہ بعض ایسی چیزوں کو جب روکتے ہیں تو لوگ ہماری آنکھوں کے اندر پھر وہ انگلیاں ڈالتے ہیں کہ یہ بھی تو تم کرتے ہو۔ تو ہم کرتے ہیں، بھئی دونوں میں فرق واضح ہے، دونوں چیزیں ایک جیسی ہیں نہیں۔ ایک کا تعلق دین کے اندر اضافے کے ساتھ ہے یا کمی کے ساتھ ہے، اور دوسری چیز کا تعلق دین کے ذریعہ سے ہے۔ تو ذریعہ پہ تو تبدیلی ہونی چاہئے اور ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا نہ دین میں اضافہ ہے نہ اس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ مسئلہ اس میں یہ ہے کہ اس سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ کیا ہے؟ وہ صحیح ہے یا غلط ہے؟ کیا وہ دین میں ہے یا نہیں ہے؟ مثلاً حج فرض ہے اور ہمیشہ فرض رہے گا ان شاء اللہ۔ تو اس حج فرض کو کرنے کے لئے جو وسائل ہیں، جو ذرائع ہیں، یہ مختلف ہوتے رہے ہیں۔ گھوڑوں پہ بھی لوگ گئے ہیں، اونٹوں پہ بھی گئے ہیں، پیدل بھی گئے ہیں، بسوں میں بھی گئے ہیں، گاڑیوں میں بھی گئے ہیں، جہازوں پہ بھی جارہے ہیں، بحری جہازوں میں بھی جاتے رہے ہیں۔ یہ ساری چیزیں جائز ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کہ اس کا جو یعنی جس مقصد کے لئے کیا گیا ہے وہ فرض ہے، وہ لازم ہے، لہٰذا اس کے اندر کوئی درمیان میں وہ نہیں ہے اختلاف۔ اور اس کے لئے جو ذرائع ہیں ان میں اختلاف ہوسکتا ہے، کسی کے پاس پیسے نہیں ہیں، پیدل چلا جائے اگر جاسکتا ہے، اور اگر ہے تو بے شک ہوائی جہاز میں چلا جائے۔ لیکن یہ ہے کہ یعنی اس میں یہ والی بات نہیں ہے، کیونکہ دین پر کوئی فرق نہیں پڑتا اس سے۔
اب میں اس میں مثال دیتا ہوں: بعض لوگ ربیع الاول کے مہینے کی مبارکباد دیتے ہیں اور اس کے اندر عید مناتے ہیں۔ یہ دین میں اضافہ ہے، اس کو ظاہر ہے نہیں اختیار کیا جاسکتا کیونکہ آپ ﷺ کے صحابہ نے ایسا نہیں کیا۔ اور یہ کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے کسی چیز کا کہ ہم کہہ دیں کہ مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اس میں ثواب سمجھتے ہیں تو یہ باقاعدہ ایک event ہے، پھر اس کو ثابت کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر عید میلاد النبی۔ عیدین جو ہیں ناں، عیدین کا نام ہے، ظاہر ہے عیدین کیا ہوتا ہے؟ دو عیدیں۔ تو دو عیدیں شریعت میں ہیں، شریعت میں دو عیدیں ہیں۔ عیدالفطر ہے، عید الاضحیٰ ہے، اس کے علاوہ تیسری عید کوئی نہیں۔ اب اگر کوئی تیسری عید کوئی اپنے لحاظ سے بناتا ہے، اس میں ثواب سمجھتا ہے تو یہ بدعت ہوجائے گی۔ کیونکہ نہ صحابہ نے کیا، نہ تابعین نے کیا، نہ تبع تابعین نے کیا ہے۔ تو اس وجہ سے مطلب ظاہر ہے ایسی چیزوں سے تو بچنا چاہئے۔ یا پھر یہ ہے کہ جیسے بعض لوگوں نے جھوٹی حدیثیں بنائی ہیں کہ اگر ربیع الاول کی مبارکباد کسی نے دے دی تو مطلب پتا نہیں کیا ہوجائے گا۔ کچھ اس طرح بتائی ہیں چیزیں۔ اب یہ جو ہے ناں، مطلب ظاہر ہے اُن لوگوں کی اپنی ذمہ داری ہے اس حدیث شریف کو ثابت کریں۔ اور اگر ثابت نہیں کیا تو پھر بغیر تحقیق کے پھیلا کیوں رہے ہیں؟ یا تو پھر ہمیں بتا دیں کہ کہاں سے لی ہے؟ بخاری شریف سے لی ہے، مسلم شریف سے لی ہے، ترمذی شریف سے لی ہے، نسائی شریف سے لی ہے، یا ابن ماجہ سے لی ہے، یا ابو داؤد شریف سے لی ہے۔ جس سے بھی لی ہے، کسی اور حدیث شریف کی کتاب سے لی ہو، اس کی سند بتائیں، تحقیق بتائیں۔ ضعیف حدیث بھی ہو تو ہم کہیں گے ضعیف حدیث ہے، فضائل میں اس کی بات چلتی ہے تو نہ صحیح حدیث ہے، نہ ضعیف حدیث ہے۔ تو پھر اس کے بعد آپ اس کو کیوں پھیلاتے ہیں؟ کم از کم آپ کو پتا نہیں کہ صحیح ہے یا ضعیف ہے، کیا ہے، اس کے بارے میں علم نہیں ہے، آپ نہیں کہہ سکتے۔ تو اس کا مطلب ہے پھر چپ ہوجاؤ، اس کو آگے نہ پھیلاؤ۔ تو یہ جو بات ہے، مطلب یعنی وہ اس کے لئے جو ہے ناں ہمیں اختیار کرنی پڑے گی احتیاط۔ اور وہ احتیاط یہی ہے کہ جس چیز کو ہم ثابت نہ کرسکیں وہ ہم اختیار نہیں کریں گے۔ باقی درود شریف، اس کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾4
''اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ''
بہترین درود پاک ہے جس کو ہم نماز میں روزانہ پڑھتے ہیں، ہر نماز کے اندر ہم اس کو پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ جو ہے ناں، مطلب اس کو جب بھی پڑھو گے ثواب ملے گا، دس نیکیاں سبحان اللہ ملیں گی، رحمتیں نازل ہوں گی، دس گناہ ان شاء اللہ معاف ہوں گے۔ یہ ساری باتیں اس درود پاک کے ساتھ ہیں، لہٰذا ہم درود پاک پڑھتے بھی ہیں اور پڑھواتے بھی ہیں۔ اب پڑھوانے کا طریقہ اگر کوئی ایسا ہو جس کے ذریعے سے، مثال کے طور پر دیہاتی لوگوں کے لئے الگ طریقہ ہوگا، شہریوں کے لئے الگ ہوگا، ہوشیار لوگوں کے لئے الگ ہوگا، سادہ لوگوں کے لئے الگ ہوگا۔ اب جس طریقہ سے بھی آپ درود شریف پڑھیں یا پڑھوائیں ٹھیک ہے جی، ہاں اس میں کوئی دنیا کا مقصد نہ ہو، یہ الگ بات ہے۔ آپ یہ نہ کہیں کہ بھئی تم ہزار مرتبہ درود پڑھو تو میں آپ کو جو ہے ناں پچاس روپے دے دوں گا، یہ نہیں، یہ غلط ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ دنیا کے لئے نہیں، یہ عبادت ہے، اور عبادت جو ہوتی ہے وہ جو ہے ناں وہ ثواب کی نیت سے کی جاتی ہے، اس میں پیسے نہیں لے جاسکتے۔ جیسے کوئی آدمی کہتا ہے جی دو رکعت نفل پڑھو، اس کا ثواب مجھے بخشو، میں آپ کو ہزار روپے دیتا ہوں۔ نہیں بھئی، اس کی اجازت نہیں ہے، اس کی اجازت نہیں ہے۔ ہاں! آپ خود بغیر کسی اس کے عوض کے آپ جو ہے ناں، مطلب دو نہیں پچاس رکعت پڑھ کر کسی کو بھی بخش دیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مطلب ظاہر ہے آپ کو بھی اجر ملے گا، اس کو بھی اجر ملے گا، آپ کو خیرخواہی کا اجر ملے گا، اس کو ما شاء اللہ اس کا ثواب مل جائے گا۔ تو بہرحال یہ ہے کہ یہ جو میں نے عرض کیا ناں کہ مقصد اور ذریعہ، یہ بہت اہم بات ہے، بہت ساری باتوں کا فیصلہ اس سے ہوجاتا ہے، لیکن دین کے اندر اضافہ ممنوع ہے، دین کے اندر کمی ممنوع ہے۔ ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ﴾5 آج کے دن ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کرلیا، تم پر اپنی نعمت تمام کرلی، اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔ اب یہ باتیں طے ہوگئیں، جب یہ طے ہوگئیں تو اب ہمیں اسی طرح رہنا ہے۔ ہم نے اس دین کو، جو پورا ہوچکا ہے، پورے کا پورا لینا ہے۔
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾6اے ایمان والو! اسلام کے اندر پورے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پہ نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے پورے کے پورے اسلام کو، اب جو پورا ہوچکا ہے، اس کو لینا ہے، اس کے اوپر عمل کرنا ہے، اس کو اپنانا ہے، اس کو پھیلانا ہے۔ اس میں اب کوئی مطلب کمی بھی نہیں کی جاسکتی، اور کوئی زیادتی بھی نہیں کی جاسکتی۔ اگر زیادتی ہم کریں تو وہ ’’نَعُوْذُ بِاللّٰہ مِنْ ذَالِکَ‘‘ گویا کہ ہم دین لائے ہیں۔ یہ اس بات کا گویا کہ اعلان ہوگا کہ ہم دین لائے ہیں، حالانکہ دین پیغمبر بھی مطلب جو ہے ناں اپنی طرف سے نہیں بناتا، پیغمبر بھی وہی بتاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اس کو بتاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ اس کو بتاتا ہے، اس کا ہر کام جو ہے ناں من جانب اللہ ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو حکم نازل کیا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ پوری امت کو پہنچاتا ہے۔ اس کا کام پہنچانے کا ہے، پیغامبر، پیغامبر مطلب وہ جو ہے ناں وہ پیغام پہنچانے والا ہوتا ہے۔ تو اس وجہ سے ہم میں سے کوئی بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں دین کے اندر کوئی اضافہ کرسکتا ہوں۔
یہ ایک بات میں عرض کرتا ہوں کہ بعض لوگ وہ کہتے ہیں ناں وہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات ہوتی ہے۔ بعض لوگ بڑی ہی معمولی معمولی چیزوں سے جو ہے ناں اپنی تمام چیزوں کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو کچھ لوگ کہتے ہیں نہیں نہیں وہ بدعت حسنہ ہوتی ہے اور بدعت سیئہ ہوتی ہے۔ اور بدعت حسنہ یہ ہے کہ اگر آپ نے دین کے اندر کوئی چیز پیدا کرلی جس پہ لوگ چلیں تو اب آپ جتنے بھی لوگ اس پہ چلیں گے تو اس کا اجر آپ کو ملے گا۔ تو یہ دیکھو ناں یہ، اس کا آپ نے دین کے اندر پیدا کیا ہے۔ بھئی خدا کے بندو! کیا چیز ہے؟ وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اگر دین پر نہیں چل رہے ہیں، مثال کے طور پر مسجد ہے۔ مسجد نہیں ہے اور مسجد کی ضرورت ہے، آپ نے مسجد بنا لی۔ اب جب تک مسجد لوگ استعمال کریں گے قیامت تک تو اس کا ثواب آپ کو ملے گا۔ مثال کے طور پر وہ جو ناں، وہ آپ نے کوئی ایسی بات مطلب جو ہے ناں وہ شروع کرلی جس سے لوگوں پہ اسلام کی حقانیت کھل جائے۔ اب آپ نے اس طرح کرلیا تو اس پر جتنے لوگ چلیں گے تو ان کو اس کا ثواب ملے گا۔ مثال کے طور پر کسی کتاب میں اگر آپ نے درود شریف لکھ دیا تو فرماتے ہیں کہ جب تک وہ کتاب میں وہ موجود ہے اور لوگ اس کو پڑھیں گے تو اس کو اس کا ثواب ملتا جائے گا۔ ٹھیک ہے، ظاہر ہے مطلب ہے کہ ایک چیز ہے۔ تو وہ یہ ہے کہ پہلے سے ایک ثابت شدہ چیز، جو دین کا حصہ ہو، جو دین ہو، وہ اگر آپ اس کو رواج دیں، آپ اس کو رواج دیں تو اب ظاہر ہے اس کے اوپر جو لوگ چلیں گے تو ان کو فائدہ ہوگا۔ اب مثال کے طور پر درود شریف پڑھنا موقوف ہوگیا ہے، درود شریف پڑھنا موقوف ہوگیا ہے، لوگ درود شریف نہیں پڑھتے۔ اب درود شریف کے فضائل سنا سنا کر، درود شریف کی مجالس کرا کرا کر، درود شریف کی اہمیت بتا بتا کر، لوگوں میں درود شریف کا جذبہ پیدا ہوجائے اور درود شریف پڑھنا شروع کرلیں، سبحان اللہ، آپ کو مسلسل ثواب ملے گا۔ جب تک درود شریف پڑھنا شروع ہوگا تو آپ کو بھی ثواب ملے گا۔ اس میں کون سی مثلاً ایسی مشکل بات ہے سمجھنے کی؟ تو یہ مطلب اس قسم کی چیزوں کے لئے ہے کہ آپ کوئی مطلب جو پہلے سے موجود ہے یعنی پہلے سے دین ہے، اور اس کو لوگ نہیں کررہے، اس میں کوئی رکاوٹ ہے، کوئی مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر حج ہے ناں حج۔ یہ ہندوستان میں مطلب یہ ہے کہ فتویٰ دیا گیا تھا، لوگوں نے فتویٰ دیا تھا کہ ہندوستان والوں پہ اب حج فرض نہیں ہے کیونکہ راستہ محفوظ نہیں ہے۔ باقاعدہ مطلب جو ہے ناں کہ۔ تو حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ، جو مجددِ وقت تھے اس وقت، انہوں نے باقاعدہ پورے قافلہ کے ساتھ، قافلہ کے ساتھ اجتماعی طور پر حج کا سفر کیا اور حج کرلیا اور لوگوں کو دکھا دیا کہ حج ہوسکتا ہے۔ اب اس کے بعد پھر حج چل پڑا، پھر لوگوں نے حج کرنا شروع کرلیا۔ اب دیکھو، ان شاء اللہ اس کو ثواب ملتا رہے گا۔ اب جو لوگ بھی ہندوستان سے حج کررہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا جب مسلمان ہوئے تو پہلا کام، مسلمان ہوئے تو پوچھا: یا رسول اللہ، نماز کدھر پڑھیں گے؟ دار ارقم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اِدھر۔ تو خانہ کعبہ میں کیوں نہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہاری قوم مجھے وہاں پڑھنے نہیں دیتی۔ اب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بہت مضبوط حوصلے کے شخص تھے، تو انہوں نے کہا کہ عمر موجود ہوگا اور لوگ نماز اِدھر پڑھیں گے، ہم نماز اُدھر پڑھیں گے، خانہ کعبہ میں پڑھیں گے۔ اور جاکے خانہ کعبہ میں اذان ہوئی اور نماز پڑھی۔ اب عمر بھر کے لئے حرم شریف میں نماز پڑھیں گے تو ان شاء اللہ اس کا ثواب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہنچے گا۔ ظاہر ہے انہوں نے ہمت کرلی اور ایک چیز کو شروع کروا لیا جو کہ ہونا چاہئے تھا۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ جو بات ہوتی ہے کہ جو پہلے سے موجود ہے اس کو تو آپ ما شاء اللہ زندہ کرلیں۔ اس کو احیائے دین کہتے ہیں، یعنی دین کو زندہ کرنا۔ کبھی کبھی اس طرح ہوتا ہے کہ۔۔۔۔ یا سنت کو زندہ کرنا۔ یہ تو فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی جگہ پہ ایک سنت متروک ہوگئی ہے، اس متروک سنت کو زندہ کرنے والا شخص جو ہوگا، اس کو سو شہیدوں کا اجر ملے گا۔ اور وہ بھی بدر اور احد کے شہیدوں کا، بدر اور احد کے شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ سبحان اللہ۔ تو اس لحاظ سے میں عرض کرتا ہوں یہ مواقع ملتے ہیں انسان کو، یہ مواقع ملتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک سنت متروک ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ ہی کی بات ہے کہ جو اُس وقت کے علماء تھے، ان کے ہاں بھی سلام متروک ہوچکا تھا۔ اور وہ جو ہے ناں وہ مطلب جو ہے آداب عرض کرتا ہے اور اس طرح اس قسم کی باتیں کرتے تھے، علماء بھی یعنی بالکل وہاں ختم ہوچکا تھا۔ تو پہلی دفعہ سید صاحب جب آگئے حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تو انہوں نے کہا کہ السلام علیکم۔ تو بہت خوش ہوئے، بہت خوش ہوئے کہ ما شاء اللہ مسنون طریقہ سے سلام کیا ہے۔ یہ بات ہے۔ تو اب ظاہر ہے مطلب ہے کہ یہ جو ہے ناں یہ ایک بہت بڑی بات ہوتی ہے اگر کوئی متروک سنت کو زندہ کرلے، اس پر بھی سو شہیدوں کا اجر ملتا ہے۔ تو فرض کا کیا حال ہوگا، جو فرض کو زندہ کرے گا تو اس کی بات کیا ہوگی۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک فرض بالکل پورے علاقہ سے اٹھ جاتا ہے۔ ایک جگہ تھی، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کو بلایا گیا تھا تو وہاں پہنچ کے بیان جو ہوگا ہوچکا ہوگا۔ کچھ لوگوں نے حضرت سے شکایت کی کہ حضرت یہاں لوگ نماز نہیں پڑھتے۔ انہوں نے کہا بھئی نماز تو پڑھنی چاہئے۔ تو کچھ لوگوں نے کہا حضرت یہ ایک چودھری صاحب ہیں، اگر یہ نماز پڑھنا شروع کریں تو سب پڑھنا شروع کردیں گے۔ یہ یہاں بہت معتبر ہیں لیکن یہ نماز نہیں پڑھتے تو باقی لوگ بھی نہیں پڑھتے۔ تو حضرت ان کے پاس چلے گئے، ان سے کہا بھئی آپ۔ وہ بڑے خوش ہوگئے، حاجی صاحب آگئے، حاجی صاحب کی بڑی قدر تھی علاقہ میں، تو حاجی صاحب آگئے۔ تو انہوں نے کہا کہ بھئی بات یہ ہے کہ نماز پڑھا کرو۔ اس نے کہا حضرت بس مجھے ایک فضول قسم کی عادت ہے، میں داڑھی چڑھاتا ہوں اور داڑھی چڑھانے کے ساتھ پھر وہ انسان کا وضو پورا نہیں ہوتا۔ تو اس وجہ سے بس مجھ سے وضو نہیں ہوتا تو پھر نماز میں کیسے پڑھوں؟ تو حضرت نے فرمایا: بغیر وضو کے پڑھ لیا کرو۔ اب یہ ایسی بات ہے جو کوئی اور نہیں کرسکتا۔ یہ صرف حاجی صاحب جیسے صاحبِ تصرف حضرات کرسکتے ہیں۔ بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قلبی قوت عطا فرمائی ہوتی ہے کہ وہ ایک چیز کی اجازت دیتے ہیں لیکن دل سے روکتے ہیں۔ یہ بھی صوفیاء کرام میں ہوتا ہے، مطلب ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا۔ تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر تو صحیح ہے، پھر تو آسانی ہوگئی۔ اب جیسے نماز کا وقت آگیا تو سخت خارش ہوگئی، مطلب جو ہے ناں وضو کی جگہیں جتنی بھی ہیں سب جگہوں پہ خارش ہوگئی۔ اس نے جب ان کو گیلا کیا تو جہاں جہاں وہ گیلا کررہے تھے تو وہ خارش دور ہوجاتی۔ اب یہاں پر خارش آگئی جو داڑھی چڑھائی ہوئی تھی، تو اس نے داڑھی کھول دی، اس کو بھی گھیلا کیا تو وہاں بھی خارش ختم ہوگئی۔ تو پورا وضو ہوگیا۔ جب سب جگہ کو گیلا کیا تو وضو تو ہوگیا، تو پھر اس کے بعد نماز پڑھی۔ نماز پڑھنے کے بعد جب اگلی نماز کا وقت آگیا، پھر یہی صورتحال پیدا ہوگئی۔ اب چار پانچ دفعہ جب ہوگیا، انہوں نے کہا بھئی چھوڑو داڑھی کو، کیوں چڑھاتے ہو، ضرورت ہی نہیں ہے۔ چھوڑ دی، چھوڑ دی تو بس ٹھیک ہے پھر اس کے بعد وہ کوئی مسئلہ نہیں، بس وضو کرتے تھے اور نماز پڑھاتے۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ بیان فرما کے فرمایا: تم لوگ اس طرح نہ کیا کرو، یہ بعض لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، ہر ایک کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ مطلب کچھ لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایسے مطلب حال بنائے ہوتے ہیں کہ وہ ما شاء اللہ صاحبِ۔۔۔۔ مطلب، وہ قبولیت والے حضرات ہوتے ہیں۔ تو ظاہر ہے مطلب وہ بظاہر اگر کرنے بھی دیتے ہیں تو اصل میں دل سے روکتے ہیں۔ یہیں لاہور میں ایک بزرگ تھے، ایک شرابی شاعر تھے، تو اس نے کہا کہ میں حضرت کے پاس جانا چاہتا ہوں لیکن اگر مجھے whisky پلائیں گے۔ تو حضرت کو اطلاع ہوگئی، انہوں نے کہا چلو ٹھیک ہے، وعدہ ہے اس کو میں whisky پلاؤں گا، وہ آجائے۔ وہ آگیا اور بیٹھ گیا۔ اب جب بیٹھ گئے تو حسب وعدہ حضرت نے whisky منگوائی تھی اور اس کے سامنے وہ جام رکھ دیا۔ اس کو رکھ دیا، اس کو رکھ دیا۔ اب باتیں ہورہی ہیں، باتیں ہورہی ہیں، یہ بالکل یہ پی نہیں رہا۔ تو حضرت نے ان سے پوچھا: بھئی تو نے کہا تھا ناں، میں نے whisky آپ کے لئے رکھ دی تو اب کیوں نہیں پیتے ہو؟ کہا حضرت میں سچ بتاؤں؟ کہتے ہیں ہاں۔ کہتے ہیں منہ سے تو کہتے ہیں لیکن دل سے نہیں کہتے۔ میں نہیں پی سکتا، میرا ہاتھ ہی نہیں بڑھ سکتا، میرا ہاتھ ہی نہیں بڑھ سکتا۔ اب یہ جو ہے ناں یہ ایسی چیز ہے جو ہر ایک کے ساتھ تو نہیں ہوتی، لیکن بہرحال جن کو۔۔۔۔ دیکھو ایک بات میں عرض کروں: تم اختیار کو استعمال کرلو، جتنا تمہارا اختیار ہے، تم اختیار کو استعمال کرلو، جتنا تمہارا اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ چیزیں بھی عطا فرمائے گا جو تمہارے اختیار میں نہیں ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾7 مطلب انسان جب کوشش کرتا ہے تو اس کو پھر اللہ پاک راستے مزید عطا فرما دیتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ان حضرات نے چونکہ پوری زندگی دین پر گزاری ہوتی ہے اور دین کی دعوت پہ گزاری ہوتی ہے اور انہوں نے تو اپنی فکر ہی یہ بنائی ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ پھر ان کو قبول فرما کے ان کے ساتھ ایسی بھی وہ مطلب چیزیں ان کو عطا فرما دیتے ہیں جو باقی لوگوں کے پاس نہیں ہوتیں، لیکن وہ صرف ان چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہیں جو پہلے وہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں تب کروں گا جب مجھے یہ چیزیں مل جائیں، تو اس کا مطلب ہے وہ کرنا ہی نہیں چاہتا کیونکہ ان چیزوں کا مکلف ہی نہیں ہے۔ اگر حاجی صاحب اس شخص کو دعوت دیتے اور وہ کہتا کہ میں وضو۔۔۔۔ بس حضرت کا کام ختم ہوجاتا، حضرت کے اوپر کوئی جرم نہ ہوتا، اگر وہ فرماتے اچھا ٹھیک ہے میں نے تو تمہیں بتا دیا ’’وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ‘‘ تو بات ختم ہوجاتی۔ لیکن اللہ پاک نے ان کو ایک شان عطا فرمائی تھی، ایک، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ نعمت بھی عطا فرمائی کہ اللہ پاک اس کو دوسروں کے لئے ذریعہ بنا لیتے تھے چیزوں کے حاصل کرنے کا۔ تو بہرحال ٹھیک ہے، اللہ پاک نے ان کو یہ غیر اختیاری چیزیں عطا فرما دیں۔ اسی طرح اس بزرگ کو بھی، جن کا میں بتا رہا ہوں لاہور والے۔ تو ان کے ساتھ بھی ایسی بات ہوگئی۔ تو یہ ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتی لیکن جن کے ساتھ بھی ہوتی ہے اللہ کے فضل سے ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا فضل محدود نہیں ہے، وہ لامحدود ہے، جس کو جتنا عطا فرمانا چاہتا ہے تو عطا فرما سکتا ہے۔ تو بہرحال بات اس طرح ہوگئی کہ ہم نے آپ ﷺ کے ساتھ محبت کرنی ہے، اس کے لئے آپ کو کون سی دلیل کی ضرورت ہے؟ بھئی قرآن بتاتا ہے، حدیث بتاتی ہے، صحابہ کا طریقہ بتاتا ہے، ہر چیز کے اندر یہ ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت کرو۔ لہٰذا آپ ﷺ کی محبت کے لئے آپ کو کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ مطلب یہ ہے کہ وہ ہے۔ تو پھر محبت کا طریقہ کیا ہے؟ وہ بھی بتایا اللہ پاک نے: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ﴾ یعنی اللہ کے ساتھ اگر کوئی محبت کرتا ہے، تو میرے حبیب کا اتباع کرلے، میں ان کے ساتھ محبت کرلوں گا۔ تو اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ محبت جو ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سنت پہ عمل کرنا شروع کرلو۔ تو یہ دونوں چیزیں مل جائیں گی۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سنتوں پہ چل کر آپ اللہ پاک کے محبوب بن جائیں گے اور یہ بات بھی اللہ پاک نے فرمائی ہے: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾8 ’’البتہ بالتحقیق تمہارے لئے آپ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے‘‘۔ بہترین نمونہ موجود ہے۔ دیکھیں میں آپ کو بتاؤں، بعض دفعہ انسان کو حکم مل جاتا ہے بھئی یہ کام کرو، لیکن وہ شش و پنج میں ہوجاتا ہے کہ یہ کیسے کروں۔ لہٰذا اس کے سامنے۔۔۔۔ اب کتاب اس کو اگر دی جائے تو وہ بھی ایک طریقہ ہے، اس سے بھی انسان سیکھتا ہے، لیکن وہ ذرا مشکل طریقہ ہے، وہ ذرا مشکل طریقہ ہے۔ تو کتاب والے کو اگر بھیج دیا جائے ساتھ اور وہ آپ کے سامنے خود کرکے دکھائے، تو یہ ایسا طریقہ ہے کہ جو بالکل ہر ایک سمجھتا ہے آسانی کے ساتھ۔ تو یہ جو آپ ﷺ کو بھیجا گیا ہے، تو آپ ﷺ نے جو فرمایا، جو کیا، جو ہونے دیا اور جو روک دیا، یہ سب جو ہے ناں کیا ہے، ہمارے لئے دین پر چلنے کا طریقہ ہے۔ اس لئے تین قسم کی احادیث شریفہ وجود میں آگئیں، تین قسم کی احادیث شریفہ وجود میں آگئیں: قولی حدیث، فعلی حدیث، تقریری حدیث۔ قولی حدیث تو یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کرو یا یہ نہ کرو، یہ قولی حدیث ہے، یا اس طرح ٹھیک ہے اور اس طرح ٹھیک نہیں ہے، یا کوئی واقعہ بتایا یا کوئی مثال دے دی، یہ سب قولی احادیث شریفہ ہیں۔ دوسری جو ہے ناں فعلی حدیث ہوتی ہے، فعلی حدیث میں یہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ خود ایک کام کو کررہے ہیں خود ایک کام کو کررہے ہیں اور ہمیں نہیں روک رہے ہیں اس سے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ خود آپ ﷺ ایک کام کرتے تھے لیکن صحابہ کو روکتے تھے، تم ایسا نہ کرو۔ بعض چیزیں ایسی ہوئی ہیں، مثال کے طور پر وہ جو مسلسل روزہ رکھنا، اور مطلب اس طرح جو ہے ناں وہ، یہ فرمایا کہ تم نہ کرو، مجھے تو اللہ تعالیٰ کھلاتا پلاتا ہے۔ تو یہ جو ہے ناں، یہ اس قسم کی جو چیزیں ہیں، مطلب کہ بعض دفعہ آپ ﷺ خود فرماتے، اچھا تہجد آپ ﷺ پہ فرض تھی لیکن امت کے لئے نفل۔ تو بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے، تو اگر آپ ﷺ نے روکا نہیں ہو تو آپ ﷺ کا جو فعل ہے، یہ آپ کے لئے ما شاء اللہ سنت ہے۔
ایک دفعہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یہ ایک ہوتا ہے سنت کی مطلب دو قسمیں۔ ایک وہ سنت جس کو ہم کہتے ہیں یعنی تحقیقی سنت ہے، اور دوسری سنتِ محبت ہے۔ وہ کیسے؟ بتاتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جارہے تھے ایک راستہ پہ، وہاں رفع حاجت کے لئے تشریف فرما ہوئے، چادر اپنے اوپر ڈال لی اور رفع حاجت کے لئے تشریف فرما ہوئے، پھر اٹھے کوئی نشانی اس کی پائی نہیں گئی۔ تو ساتھیوں نے پوچھا کہ حضرت آپ کو ضرورت نہیں تھی؟ فرمایا نہیں۔ تو پھر آپ کیوں ادھر بیٹھے؟ انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ آپ ﷺ کے ساتھ جارہا تھا، اور آپ ﷺ یہاں تشریف فرما ہوئے تھے، مجھ سے رہا نہیں گیا کہ اس راستہ پہ میں جاؤں اور میں وہ کام نہ کروں جو آپ ﷺ نے کیا ہے۔ اب بتاؤ، کون سی قسم کی حدیث ہے یا کون سی قسم کی سنت ہے؟ یہ اب سنتِ محبت ہے، محبت کی وجہ سے ایسا کیا ہے، اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف فرما ہیں اعتکاف کے لئے، مسنون اعتکاف نہیں، نفلی۔ اور کوئی صاحب آگیا کہ حضرت مجھ پہ قرض چڑھا ہوا ہے اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں فلاں تاریخ کو آپ کو دوں گا، اب وہ تاریخ آرہی ہے لیکن میرے پاس کچھ نہیں ہے، تو کیا آپ میری سفارش کریں گے؟ حضرت ان کے ساتھ اٹھے اور جانے لگے، جب مسجد سے نکلے۔ انہوں نے کہا حضرت آپ کا تو اعتکاف تھا، مجھے غلطی ہوئی۔ تو حضرت نے روضہ اقدس کی طرف دیکھ کے کہا کہ اس صاحبِ قبر سے میں نے سنا ہے کہ جب انسان کسی مومن کے کام میں جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ مطلب کچھ بڑی فضیلت بتائی کہ وہ اس طرح کرتا ہے، تو میں اس لئے جارہا ہوں۔ اور آنکھوں سے آنسو جھلک پڑے۔ اب دیکھیں، ریفرنس کس چیز کا دیا؟ آپ ﷺ کے قول کا۔
تو اس کا مطلب ہے کہ یعنی جو احادیث شریفہ منقولہ ہیں، یعنی آپ ﷺ نے فرمایا ہے قول، وہ بھی لازم ہے، سنت بن جاتی ہے۔ اگر حکم ہے تو حکم مطلب پورا کرنا پڑتا ہے، تاکیدی ہے تو تاکید مطلب اس کی ثابت ہوجاتی ہے جیسے سنت مؤکدہ ہوتی ہے۔ بعض دفعہ سنت مؤکدہ ہوتی ہے، بعض دفعہ سنت مطلب جو ہے ناں وہ زائدہ ہوتی ہے یا مستحبہ ہوتی ہے۔ اب سنت مؤکدہ کی تعریف یہ بتائی گئی ہے کہ جس میں تاکید پائی جاتی ہو، مثلاً فجر کی سنتوں کے بارے میں فرمایا کہ اس کو اس وقت بھی نہ چھوڑو جب چاہے آپ گھوڑے کے پاؤں تلے روندے جاؤ۔ اب اس میں بڑی تاکید پائی گئی۔ اب اگر کوئی نہیں پڑھے گا تو اس درجہ کی ملامت ہے، اس درجہ کی ملامت ہے، تو ظاہر ہے مطلب اس کو کرنا پڑے گا، اس میں تاکید ہے۔ بعض جگہوں پہ صرف فرمایا، یہ ایسا ہے اگر کوئی چاہے تو کرے۔ تو اگر کوئی چاہے والی یعنی آپشن دے دیا، اختیار دے دیا، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ مستحبہ ہے۔ اجر اس کا ثابت ہوگیا، اجر اس کا ثابت ہوگیا، لیکن جو ہے ناں مطلب ہے کہ وہ جو ہے ناں وہ اجر اس کا ثابت ہوگیا لیکن یہ ہے کہ مستحب ہے، فرض واجب نہیں ہے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ ہمیں اس کا جو ہے ناں وہ خیال رکھنا چاہئے کہ آپ ﷺ کی جو سنتیں ہیں، ان کو کرنا چاہئے، کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾9 ’’اے میرے حبیب اپنی امت سے کہہ دے اگر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میرا اتباع کرلو اللہ پاک تم سے محبت کرنے لگیں گے‘‘۔ اور پھر اللہ پاک نے یہ بھی فرمایا: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾10 ’’البتہ بالتحقیق، آپ ﷺ کی سیرت پاک میں تمہارے لیے بہترین نمونہ موجود ہے‘‘۔ آپ ﷺ کے پاس حسنین کریمین بھی آتے تھے۔ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، تو حتیٰ کہ خطبہ سے نیچے، مطلب ممبر سے نیچے اتر کے ان کو گود میں لے لیتے تھے۔ کبھی وہ جو ہے ناں وہ سجدہ کر رہے ہوتے تو ان کے وہ جو ہے ناں، مطلب ہے کہ گردن کے اوپر سوار ہو جاتے تھے۔ تو اب ظاہر ہے، مطلب بچوں کے ساتھ پیار کرنا یہ سنت ہے، تو اس وجہ سے مطلب یہ ہے کہ یہ جو بھی سنت عمل ہے اس کو محبت کے ساتھ کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس کا تعلق محبت کے ساتھ ہے، وہ آپ ﷺ کے ساتھ جو محبت ہے اس کے بارے میں آپ ﷺ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ "لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ"11 ’’تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا‘‘۔ ہمارے علماء نے اس کا ترجمہ ذرا محتاط کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا، ناقص ہے، کامل نہیں ہو سکتا، کہ جب تک مجھ سے اپنے والدین سے زیادہ، اپنی اولاد سے زیادہ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت نہ کرے۔ اور ایک روایت میں فرمایا کہ جب تک اپنے آپ سے بھی زیادہ مجھ سے محبت نہ کرے۔ تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: "یا رسول اللہ! اب تو میں اپنے آپ سے بھی زیادہ آپ سے محبت کرتا ہوں" فرمایا، "اَلْآنَ يَا عُمَرُ!‘‘12 اب بات بن گئی، "اَلْآنَ يَا عُمَرُ!‘‘ اب بات بن گئی"۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو بات میں عرض کر رہا ہوں کہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت تو لازمی ہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ محبت لازمی ہے اور اسی محبت ہی کے ذریعہ سے آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل کریں۔ جتنی زیادہ محبت کے ساتھ آپ ﷺ کی سنت کے ساتھ محبت کی جائے گا، تو اتنا ہی زیادہ اس کا اجر بڑھ جائے گا۔ وہ ہمارے ایک ساتھی تھے جرمنی میں، الفریڈ رحمۃ اللہ علیہ، تو وہ جو ہے ناں، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیسے مسلمان ہوئے تھے؟ کہتے ہیں کہ مجھے کسی نے دعوت نہیں دی تھی، بس تین بڑے واقعات ہوئے تھے میرے ساتھ، تو اس سے میں inspire ہو گیا۔ تو پھر میں نے سوچنا شروع کیا، تو ان میں سے ایک واقعہ یہ بتایا کہ یہاں ترک ایک بوڑھے تھے اس کو کسی نے عطر پیش کیا بطور ہدیہ۔ تو اس نے کہا کہ ہاں ہاں میں کیوں نہیں لوں گا، عطر کا لینا تو سنت ہے۔ اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، کہتے ہیں کہ میں حیران ہو گیا کہ یہ کون سی ہستی ہے جن کا نام سن کر یا نام لے کے جو ہے ناں بس لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔ یہ کون سی بات ہے؟ کہتے ہیں کہ مجھے دھچکا لگا، مطلب جو ہے ناں پہلی دفعہ۔ اور واقعتاً یہ والی بات ہے، ہمارے دین کے جتنے بھی کام ہیں اگر ہم dedication کے ساتھ اس پر عمل کریں گے تو دوسروں پہ بہت اثر ڈالتا ہے، بہت اثر ڈالتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی مصروف جگہ پہ، وہاں یورپ میں دوسری جگہوں میں آپ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کر لیں۔ پھر آپ دیکھیں کہ لوگ ٹک کے کیسے لگ جاتے ہیں، ان پہ اثر ہو جاتا ہے، وہ جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ وہ متاثر ہو جاتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے؟ کیا کر رہے ہیں؟ وہ ایک دن میں نماز پڑھ رہا تھا، تو میرا ایک colleague تھا، وہ مجھے دیکھ رہا تھا، غور سے دیکھ رہا تھا۔ جب میں نے نماز مکمل کی اس نے کہا کہ آپ کیا کر رہے تھے؟ میں نے کہا کہ یہ ہماری عبادت ہے اور ہم اس کو پانچ دفعہ کرتے ہیں روزانہ۔ مجھ سے پوچھا کہ کیا اس کا نہ کرنا گناہ ہے؟ تو گناہ تو ہے اس میں کوئی شک نہیں، ہمارا تو عقیدہ ہے لیکن پھر میں نے کہا کہ اگر میں اس کو کہوں گا تو اس پہ ذرا اثر دوسرا پڑ سکتا ہے، تو میں نے کہا اس کے اتنے زیادہ فائدے ہیں، اتنے زیادہ فائدے ہیں، اتنے زیادہ فائدے ہیں کہ کوئی بے وقوف ہی اس کو چھوڑ سکتا ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ یہ اثر ڈالتا ہے آپ جو ہے ناں مطلب جو بھی عمل کریں گے، قرآن پڑھیں گے سبحان اللہ۔ یہ ہمارے سید تقویم الحق کاکاخیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ، فاضل دیوبند، بہت بڑے عالم تھے، سیکریٹری تعلیم ریٹائر ہوئے KPK کے۔ وہ جو ہے ناں مطلب ہے کہ وہ فرمانے لگے کہ جس وقت میں وہاں طالب علم تھا دیوبند میں، تو ایک جگہ بیٹھ کے میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ آواز بھی ان کی اتنی اچھی نہیں تھی، میری جیسی، جیسی میری آواز، اتنی اچھی آواز نہیں تھی، لیکن تلاوت کر رہا تھا اور جس وقت روک دیا تو کہتے ہیں کہ ایک کونے سے ایک پنڈت اندر آیا اور اس نے کہا کہ آپ نے یہ آپ کیا پڑھ رہے تھے اور کیوں روک دیا؟ اس نے کہا کہ میں قرآن پڑھ رہا تھا۔ تو اس نے کہا کہ یہ آپ کون سا بیروی گائے جا رہے تھے؟ بیروی سُر کو کہتے ہیں ناں۔ آپ کون سا یعنی سُر گا رہے تھے؟ تو انہوں نے کہا بیروی کیا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے اس کو پتا بھی نہیں تھا کہ بیروی کیا ہوتا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ بیروی کیا ہوتا ہے؟ کہتے ہیں کمال ہے! اتنا اچھا بیروی گائے جا رہے تھے اور پتا بھی نہیں کہ بیروی کیا ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اب قرآن ہے، قرآن کا اپنا اعجاز ہے۔ ان کے الفاظ کا جو جوڑ ہے اسی کے اندر زبردست اثر ہے، آخر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس چیز سے مسلمان ہوئے تھے؟ قرآن سن کر ہی مسلمان ہوئے تھے ناں۔ قرآن کے اندر کوئی چیز ہے ناں جو دلوں کو چیر کے مطلب پہنچتی ہے۔ تو بس اس طرح مطلب ہے کہ نماز ہے، ہمارا قرآن ہے، درود شریف پڑھنا ہے، ذکر کرنا ہے، دعائیں کرنا ہے، دعائیں بہت ما شاء اللہ جو ہے ناں مطلب یہ ذریعہ ہیں۔ تو بہرحال میں اس لیے عرض کرتا ہوں کہ یہ جو دین ہمارا ہے اس کے ساتھ جو بھی attach ہوگا، جس کا دل بھی اس کے ساتھ attach ہوگا، جس کا عمل اس کے مطابق ہوگا، اس کو نہ صرف خود فائدہ ہو گا بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ ہوگا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب دوسری جگہ جاتے تجارت کے لیے جا رہے ہوتے تھے لیکن تجارت کرتے کرتے کتنے لوگوں کو متاثر کر جاتے تھے، کتنے لوگوں کو متاثر کر جاتے تھے اور مسلمان ہو جاتے تھے! یہاں ہمارے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، یہ جہاں تشریف لائے تھے اندازہ کر لیں، ان کی وجہ سے نوے لاکھ لوگ مسلمان ہوئے تھے، نوے لاکھ ہندو مسلمان ہوئے تھے۔ اب نوے لاکھ لوگوں کو مسلمان کرنا کوئی معمولی بات ہے؟ کیا وہ تقریر سے مسلمان ہو سکتے ہیں؟ کتنی تقریریں ہوتی ہیں، ہو جائیں ناں لوگ، وہ نہیں، وہ اثر سے مسلمان ہوئے، ان کی زندگی کے اندر جو اثر تھا وہ جیسے جہاں جہاں جاتے تھے تو اس کا اثر ہو جاتا تھا لوگوں پہ اور جو ہے ناں مطلب لوگوں ان سے اثر لیتے تھے اور ان کو فائدہ ہو جاتا تھا۔ تو اس وجہ سے ہم لوگ اگر آپ ﷺ کے طریقہ کو اپنائیں گے، آپ ﷺ کی سنتوں پر چلیں گے، آپ ﷺ کے ساتھ محبت کریں گے تو سبحان اللہ! دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں گے اور دوسرے لوگوں کو بھی پتا چلے گا کہ یہ کوئی بہت ہی بڑی بات ہے، کیونکہ وہ ان چیزوں سے عاری ہیں، ان چیزوں کو جانتے نہیں ہیں کہ آخر وہ مطلب کیا کریں؟ مطلب ظاہر ہے کس طرح کریں، محبت کریں؟ ان کا ان چیزوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں، ان کی سب چیزیں رسوماتی قسم کی چیزیں ہیں، تو ظاہر ہے مطلب اس کے اندر وہ طاقت تو نہیں ہے۔ تو اس وجہ سے ہم لوگوں کو آپ ﷺ کے ساتھ تعلق اپنا مطلب بڑھانا چاہیے اور محبت پیدا کرنی چاہیے، اور اس کے ساتھ پھر یہ بات ہے اور محبت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ دیکھیں میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا موڈ میں آکر، بزرگوں کی بعض دفعہ موڈ کی باتیں ہوتی ہیں وہ بڑی قیمتی ہوتی ہیں، پوری زندگی کا نچوڑ ہوتا ہے۔ تو حضرت نے فرمایا، میں تمہیں اصلاح کرنے کا آسان طریقہ نہ بتاؤں؟ لوگوں نے کہا، حضرت! کیوں نہیں بتا دیجیے۔ فرمایا، محبت کی پڑیا کھا لو۔ محبت کی پڑیا کھا لو۔ لوگوں نے پوچھا کہ محبت کی پڑیا کہاں سے ملے گی؟ فرمایا، محبت کی دکانوں سے۔ محبت کی دکانوں سے ملے گی، یعنی جو اہل اللہ، اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت حاصل کر چکے ان کی زندگی میں وہ محبت نمایاں ہے۔ جب ان کے ساتھ بیٹھو گے، ان کے ساتھ بات چیت کرو گے خود بخود وہ چیز آپ کو منتقل ہو جائے گی، آپ کو پتا بھی نہیں لگے گا، آپ کے اندر وہ چیز آہستہ آہستہ آہستہ آہستہ آجائے گی اور آپ ما شاء اللہ آپ بھی اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ محبت کرنے لگیں گے۔ یہ سب سے زیادہ آسان طریقہ، حضرت نے فرمایا یہ بہت آسان طریقہ ہے۔ اس وجہ سے ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھا کریں ہم، ایسے لوگوں کے ساتھ ان سے لوگوں کے واقعات ہم سنیں، ایسے لوگوں کی زندگیاں جو ہیں ان کے بارے میں ہم جاننے کی کوشش کرلیں، تو پتا چل جائے گا کہ یہ کتنی بڑی بات ہے اور اس کی کیا حیثیت ہے۔ اس لحاظ سے پھر ہمارے اوپر بھی اثر ہو جائے گا، ہم لوگ بھی محبت کرنے لگیں گے۔ بس یہی بات ہے۔ دوسری بات، آپ ﷺ کے صحابہ کے واقعات کو پڑھیں۔ آپ ﷺ کے صحابہ جیسے محبت کرتے تھے یعنی آپ کے ساتھ، ایسی محبت کوئی نہیں کر سکتا۔ تو اب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اب دیکھیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا، کچھ جہاد کے لیے چندہ فرما رہے تھے، تو ظاہر ہے جو لوگ لاتے تھے وہ قبول فرما رہے تھے۔ تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت ذرا مالدار ہو گئے تھے تو انہوں نے کہا، "آج میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آگے چلا جاؤں گا"۔ تو انہوں نے اپنا نصف مال لے کے ناں، لے آئے اور نصف گھر میں چھوڑ دیا اور پیش فرمایا۔ آپ ﷺ نے قبول فرما لیا۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساتھ بیٹھے ہیں۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔ جو کچھ تھا پاس وہ پیش کر دیا۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ ﷺ نے پوچھا کہ تو نے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے کہا آدھا آدھا، آدھا اِدھر لایا ہوں، آدھا چھوڑا ہے۔ اور پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ ﷺ نے پوچھا کہ آپ نے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ فرمایا، "اللہ اور اللہ کے رسول کا نام ان کے لیے کافی ہے، میں وہ چھوڑ آیا ہوں، باقی سب کچھ لایا ہوں"۔ تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے بالکل جیسے بالکل بیٹھ گئے کہ ان کے ساتھ مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ کچھ عجیب مطلب ہے۔ تو اب یہ ہے کہ ظاہر ہے اس قسم کے واقعات جو جان پر کھیل کر آپ ﷺ کی حفاظت کرتے تھے، ابودجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اس طرح اور حضرات، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، تو وہ جو ہے ناں مطلب ظاہر ہے کہ انہوں نے جو اپنی جانیں نذارنہ کیں، یعنی وہ ایک دفعہ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ جو گرفتار ہوئے تھے اور جو ہے ناں مطلب کافروں نے ان کو گرفتار کیا تھا تو ان کو سولی پہ چڑھا رہے تھے مطلب موت کی سزا دینا چاہتے تھے۔ تو انہوں نے کہا کہ ایک بات پر ہم آپ کو معاف کر سکتے ہیں کہ آپ سے ایک بات پوچھنی ہے کہ اگر یہ جو سزا ہم آپ کو دے رہے ہیں اگر آپ ﷺ کو مل جائے تو کیا آپ اس پہ راضی ہیں؟ یعنی مطلب ہمارے لیے کوئی راستہ بنائیں کہ ہم ان کو اس طرح کر لیں۔ تو حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، "او ہو! آپ یہ بات کر رہے ہیں! میں تو اس کے لیے بھی تیار نہیں ہوں کہ آپ ﷺ کے پاؤں میں ایک کانٹا چبھے اور میں اس پر آزاد ہو جاؤں، میں اس کے لیے بھی تیار نہیں ہوں، تم اس کی بات کرتے ہو کہ آپ ﷺ، یہ کون سی بات کر رہے ہو؟" تو اس طرح مطلب ہے کہ یہ ظاہر ہے محبت کے جو واقعات ہیں آپ ﷺ کے، ان واقعات کو، دو طرح کی بات کرو۔ ایک تو یہ کہ آپ ﷺ کے ساتھ کس نے محبت کی اور کیسے محبت کی اس کو تلاش کرو، اس کو سمجھو۔ اور دوسرا کہ آپ ﷺ نے کس کے ساتھ محبت کی اور کیسے محبت کی اس کو بھی سمجھو۔ یہ دونوں باتیں ضروری ہیں۔ آپ ﷺ سے کس نے محبت کی اور کیسے کی، یہ تو ہمارے لیے طریقہ ہے کہ ہم بھی ایسا کر لیں۔ اور آپ ﷺ نے کس کے ساتھ محبت کی اور کیسے کی یہ ہمارے لیے اس بات کا نمونہ ہے، ان کا مقام کیا تھا جن کے ساتھ آپ ﷺ نے محبت کی؟ اپنے صحابہ کے ساتھ کیسے محبت کی؟ اپنی اولاد کے ساتھ کیسے محبت کی؟ اور مطلب امہات المؤمنین ان کے ساتھ کیسے؟ اب یہ جو ہے ناں یہ والی بات ہمیں مطلب جاننا چاہیے اور ہر جگہ جو جو نسبت ہے آپ ﷺ کی اس نسبت کا خیال رکھنا چاہیے۔ ورنہ پھر کیا ہو گا؟ ورنہ یہ ہو گا کہ ہم صرف اور صرف نام لیوا رہ جائیں گے، حقیقت ہم پہ نہیں کھلے گی۔ حقیقت کا تعلق محبت کے ساتھ ہے، محبت کے ذریعہ سے ہی حقیقت کھلا کرتی ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ کی محبت ہو اس پہ اللہ کے حکم کی حقیقت کھلتی ہے، جس کو رسول ﷺ کے ساتھ محبت ہو اس پہ سنت کی حقیقت کھلتی ہے۔ محبت ہو، محبت کا دعویٰ میں نہیں کہہ رہا۔ دعویٰ تو بہت لوگ کرتے ہیں، دعویٰ کی بات میں نہیں کر رہا۔ میں کہتا ہوں جس کو محبت ہو، تو جس کو محبت ہوتی ہے اس کے لیے آپ ﷺ کی سنت کتنی پیاری ہوتی ہے! آپ اندازہ نہیں کر سکتے، وہ جو ہے ناں مطلب موت قبول کر سکتے ہیں لیکن آپ ﷺ کی سنت کو نہیں چھوڑ سکتے۔ تو وہ جو ہے ناں مطلب ان کی بات میں کر رہا ہوں جن کو محبت ہے، جو محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ان کا دعویٰ ان کے ان کے عمل سے دیکھنا پڑے گا کیا ان کا عمل اس دعویٰ کے مطابق ہے؟ اگر ان کا عمل اس دعوے کے مطابق نہیں ہے تو وہ صرف دعویٰ ہے مطلب وہ جو ہے ناں وہ نہیں ہے۔ اب مثال کے طور پر آپ ﷺ۔۔۔۔ میں مثال دیتا ہوں، آپ ﷺ نے ایک موقع پہ ارشاد فرمایا، "دل میرا چاہتا ہے کہ کسی کو نماز پڑھنے کے لیے، پڑھانے کے لیے کہہ دوں اور خود ان لوگوں کو جو گھروں میں نماز پڑھ رہے ہیں ان کے گھروں کو جلا دوں۔ جماعت اپنے ساتھ ٹولی نوجوانوں کی لے لوں اور ان لوگوں کے گھروں کو جلاؤں جو وہاں گھر میں بیٹھے نماز پڑھ رہے ہیں"۔ اب یہ نہیں فرمایا کہ جو نماز نہیں پڑھ رہے ہیں، فرمایا جو نماز گھر میں پڑھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے نماز پڑھ رہے ہیں لیکن گھر میں پڑھ رہے ہیں۔ ان کے گھر آپ ﷺ جلانا چاہتے ہیں، اس سے اندازہ کر لیں کہ آپ ﷺ کی اپنی امت کے اوپر کتنی شفقت تھی اس کے باوجود ایسا کر رہے ہیں تو کوئی بڑی بات تھی ناں۔ اب ایک شخص ہے میلاد النبی تو مناتا ہے، نماز کی پروا نہیں کرتا، نماز جا رہی ہے، ساتھ ہی مسجد میں نماز ہو رہی ہے، یہ اتنا بھی نہیں کرتا کہ اپنا شور و غل کم کر دے اور نمازی نماز صحیح طور پہ پڑھ لے۔ اس کے لیے بھی تیار نہیں اور اگر کوئی روک لے تو اس کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہے۔ اب بتاؤ ان کو آپ ﷺ کے ساتھ محبت ہے؟ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پہ ارشاد فرمایا کہ جو محبت کا دعویٰ کرتا ہے آپ ﷺ کے ساتھ اور وہ اللہ تک نہ پہنچے تو اپنا عاشق ہے، حضور کا عاشق نہیں ہے۔ وہ اپنا عاشق ہے، حضور کا عاشق نہیں ہے، یعنی اللہ تک پہنچنا ضروری ہے۔ اس کی وجہ ہے، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ جب ہم کہتے ہیں مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ اس کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ جب اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تک پہنچانے والا ہے، اللہ کی بات پہنچانے والے ہیں۔ تو اگر آپ ﷺ کے پیغام پر اس نے غور نہیں کیا کہ آپ ﷺ نے مجھے کیا پیغام دے رہے ہیں تو اس کو آپ ﷺ کے ساتھ کیسی محبت ہے؟ جس مقصد کے لیے آپ ﷺ آئے تھے اس مقصد کے ساتھ وہ مخلص نہیں ہے تو کیسے مطلب جو ہے ناں آپ ﷺ کے ساتھ مطلب وہ مخلص ہے؟ کیسے آپ ﷺ کے ساتھ محبت کر رہے ہیں؟ تو یہ سارے کا سارا ڈرامہ یہ لوگ کر رہے ہیں، ورنہ صحیح بات ہے کہ جو صحیح محبت ہوتی ہے ناں وہ کبھی بھی اس قسم کی باتیں نہیں کرنے دیتی، ان کا سارا کچھ عمل میں نظر آتا ہے، وہ دعوے نہیں کرتے، ان کو دعوے کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ ہم تو کچھ بھی نہیں کر رہے۔ جو صحیح لوگ ہوتے ہیں ناں، صحیح لوگ، جو واقعی صحیح محبت کرتے ہیں وہ شرماتے ہیں، وہ کہتے ہیں، "ہم کہاں اور ہمارا منہ کیا اور ہمارے اعمال کیا؟ یہ کون سی چیز ہے؟ کہاں آپ ﷺ کی سنت اور کہاں ہم؟ ہم تو صرف اس کی ایک بس ظاہری چیز لیے ہوئے ہیں، ہم کیا کر رہے ہیں؟" اس پہ شرماتے ہیں، اس پہ دعویٰ نہیں کرتے۔ جو دعوے تو بہت بڑے بڑے کریں لیکن وہ آپ ﷺ کے طریقہ پہ نہ چلیں، آپ ﷺ کی محبت کا اظہار اس کے اعمال کے ذریعے سے نہ ہو تو سمجھو کہ وہ صرف اور صرف ایک ڈرامہ وہ رچا رہے ہیں، اصل محبت ان کو حاصل نہیں ہے۔ تو اس کے بارے میں کلام میں پیش کروں گا ان شاء اللہ ضرور آپ لوگ جو ہے ناں، ہمارے لیے رہنمائی ہے اس میں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی بھی توفیق عطا فرمائے اور عمل کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
مقامِ نبیﷺ
نبی کی اِتباع میں کامیابی دو جہاں کی ہے
یہی تو بات ہے ایسی کہ جو سب کو سکھانی ہے
صحابہ نے جو سیکھا آپ سے کرکے وہ دکھلایا
تبھی تو مشعلِ راہ اُن کی ساری زندگانی ہے
نبی کی اِتباع میں کامیابی دو جہاں کی ہے
جو پیکر تھے سراپا صِدق کے صِدیق کہلائے
جو عشق و سوز سے پُر ہے یہی ان کی کہانی ہے
نبی کی اِتباع میں کامیابی دو جہاں کی ہے
فراست سے کہ جن کا کام ہر اک پُر تھا، تھے عمر
تھی دور اندیشی ان کی جو وہ دشمن نے بھی مانی ہے
نبی کی اِتباع میں کامیابی دو جہاں کی ہے
اس پر میں کہوں کہ ایک انگریز محقق نے لکھا ہے کہ اگر ایک عمر اور ہوتے تو پھر کوئی اور نہ ہوتا، صرف یہی ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ سارے مسلمان ہوتے۔ یعنی اتنا زیادہ اثر ان کا مطلب وہ محسوس کر رہے ہیں۔ ابھی بھی ناروے وغیرہ میں جو قوانین ہیں ان کو Umar Laws کہتے ہیں۔ سوشل سیکیورٹی کے جو قوانین ہیں ان کو وہ Umar Laws کہتے ہیں، چونکہ سوشل سیکیورٹی کا بنیادی تصور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیا تھا، تو وہ اس کو accept کر چکے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ہمارا جو مطلب دشمن جو ہے وہ اس نے بھی فراست مانی ہے۔ قیصر جو تھا اس نے پوچھا جو مطلب وہ در پہ آئے تھے صحابی، تو پوچھا کہ عمر جو ہے مطلب یعنی اس کے بارے میں بتاؤ کہ وہ کیسے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ’’لَا یَخْدَعُ وَلَا یُخْدَعُ‘‘ "نہ دھوکہ دیتا ہے نہ دھوکہ کھاتا ہے"۔ تو اس نے کہا کہ واہ کمال ہے! دھوکہ دیتا نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ دیانتدار ہے، اور دھوکہ کھاتے نہیں اس کا مطلب ہے وہ عقلمند ہے۔ تو یہ دونوں چیزیں جس میں جمع ہو جائیں وہ کیسے ہوں گے؟ مطلب جو دیانتدار بھی ہو اور عقلمند بھی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مطلب جو دشمن بھی تھے وہ بھی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اور سادگی کتنی تھی کہ وہ باقاعدہ بادشاہ کا ایک ایلچی آیا ان سے ملنے کے لیے تو انہوں نے پوچھا کہ عمر کا محل کدھر ہے؟ خلیفہ کا محل کدھر ہے؟ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا محل تو کوئی نہیں۔ تو انہوں نے کہا اس وقت کہاں ملیں گے؟ انہوں نے کہا جائیں کسی درخت کے نیچے سو رہا ہو گا۔ تو وہ جو ہے ناں مطلب ہے کہ وہ جب ان کو پہنچایا گیا وہاں پر تو دیکھا کہ واقعی سو رہے تھے، کیونکہ رات باقاعدہ جاتے تھے لوگوں کے حالات معلوم کرتے تھے، تو دن کو بھی ظاہر ہے نیند وغیرہ پوری کر رہے ہوں گے، اتنی سادگی۔ تو اس پر جو ہے ناں وہ وہ اس نے کہا کہ یعنی مطلب یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تو وہاں جب قریب گئے ناں تو قریب مزید نہیں جا سکے، رعب اتنا تھا کہ قریب نہیں جا سکے۔ حالانکہ وہ تو سو رہے تھے، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کا انتظام پھر ایسا ہوتا ہے کہ ان کے قریب وہ نہیں جا سکے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ یہ جو ہے ناں یہ شان تھی ان حضرات کی۔ تو ہمارے لیے یہ نمونے ہیں۔
حیا اور جود کے پیکر مجھے عثمان یاد آئے
وفا کے سامنے اُن کی جھکی جو حکمرانی ہے
نبی کی اِتباع میں کامیابی دو جہاں کی ہے
شُجاعت و علِم میں آگے علی کا نام رہتا ہے
قلم ہے ہاتھ میں دُشمن پہ تلوار بھی چلانی ہے
نبی کی اِتباع میں کامیابی دو جہاں کی ہے
صحابہ، اہلِ بیت و امہات المؤمنین سب کی
محبت دل میں ہو نِسبت رسول کی جس نے پانی ہے
نبی کی اِتباع میں کامیابی دو جہاں کی ہے
یہ دَر وہ ہے کہ جس دَر کی، کی جبرائیل نے دربانی
شبیرؔ بِن اِک خدا کے آپ (ﷺ) کی عظمت کِس نے جانی ہے
نبی کی اِتباع میں کامیابی دو جہاں کی ہے
یہی تو بات ہے ایسی کہ جو سب کو سکھانی ہے
تو یہ ہمارے پاس ما شاء اللہ آپ ﷺ کی محبت کے نمونے موجود ہیں، تو ان سے ہم آپ ﷺ کی محبت سیکھ سکتے ہیں۔ ابھی یہ گزر گیا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، اس میں آیا ہے کہ مطلب جو ہے ناں وہ یعنی ان کی حکمرانی جو ہے وہ جھکی ہوئی تھی، یعنی مطلب آپ ﷺ کی اس پہ محبت کی وجہ سے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ نے دو باتیں فرمائی تھیں، ایک بات یہ فرمائی تھی کہ آپ کو ایک قمیض دیا جائے گا تو اس کو آپ سے دشمن اگر اتروانا چاہیں گے ناں تو اس کو اتارنا نہیں۔ تو یہ مطلب یہ ہے کہ ایک تو یہ۔ دوسری حدیث شریف عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنی تھی آپ ﷺ سے کہ میری امت میں تلوار ایک دفعہ چلے گی تو پھر بعد میں رکے گی نہیں، وہ چلتی رہے گی۔ تو پہلی حدیث شریف پہ عمل کی وجہ سے وہ خلافت سے دستبردار ہو نہیں سکتے تھے اور دوسری حدیث شریف پہ عمل کی وجہ سے اپنی طرف سے تلوار چلاتے نہیں تھے، حالانکہ خلیفہ تھے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مظلوم شہید ہیں لیکن وہ اس وقت حاکم نہیں تھے، طاقت نہیں تھی، قوت نہیں تھی ان کے پاس یہ والی حکومت والی۔ جب کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تو حکومت والی طاقت موجود تھی، اگر وہ چاہتے تو یہ مٹھی بھر جو لوگ تھے وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ۔ لیکن انہوں نے صرف اس حدیث شریف پر عمل کرتے ہوئے، حسنین کریمین نے کہا بھی کہ ہمیں اجازت دے دیں اے چچا جان کہ ہم آپ کی طرف سے دفاع کریں، تلوار چلائیں۔ تو انہوں نے اجازت نہیں دی، انہوں نے یہی حدیث شریف سنا دی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو مظلومیت ہے وہ بہت عجیب ہے، بہت ہی عجیب ہے کہ حاکم ہو کر بھی اپنے آپ کو شہید تو ہونے دیا لیکن لیکن جو ہے ناں آپ ﷺ کے حکم کو نہیں توڑا۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سبحان اللہ! دو باتیں ہیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں، بہت مشکل ہے ان کا اکٹھا ہونا کہ صاحبِ قلم بھی ہو اور صاحبِ سیف بھی ہو۔ یا لوگ صاحبِ قلم ہوتے ہیں یا صاحبِ سیف ہوتے ہیں۔ تو جو لوگ صاحبِ قلم بھی ہوں اور صاحبِ سیف بھی ہوں بہت کم، بہت rare، بہت rare، بہت rare ہوتے ہیں۔ تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان حضرات میں تھے کہ صاحبِ قلم بھی تھے یعنی علم کا دروازہ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا، "میں علم کا شہر ہوں، علی اس کا دروازہ ہے"۔ اور ساتھ یہ ہے کہ شجاعت اتنی زیادہ کہ مرحب کے مقابلہ میں نکل آئے اور آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ وہ عبدود ہے یعنی اس کے مقابلہ میں آپ کیسے نکل رہے ہیں؟ تین دفعہ آپ ﷺ نے پوچھا اور تین دفعہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے۔ تو جب اس کافر کے سامنے گئے تو اس نے کہا کہ بیٹا آپ کے اوپر مجھے بڑا ترس آتا ہے، تو میرے مقابلہ کا نہیں ہے تو کسی میرے مقابلے کا آدمی بھیجو۔ تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو تجھے مارنا چاہتا ہوں۔ اس کو غصہ آیا، حملہ کر دیا، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا وار بچایا اور پھر اس کے بعد جب حملہ کیا ناں تو بالکل ایسا شہباز کی طرح ان کے اوپر جھپٹے کہ وہ جو ہے ناں گرد سے وہ سارا علاقہ اٹ گیا مطلب اس وقت، اور پتا نہیں چل رہا تھا کہ کون گرا ہے، کون اٹھا ہے، یہ پتا نہیں چل رہا تھا۔ تو پتا اس وقت چلا جب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللّٰہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ ما شاء اللہ جو ہے ناں دشمن کو گرا دیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یعنی ایسی شجاعت ہے اور پھر یہ بات بھی اس میں ہے کہ تینوں جو گروہ ہیں صحابہ کے، عام صحابہ، اہل بیت اور جو ہے ناں امہات المؤمنین، ان تینوں کے ساتھ کوئی تعلق رکھے گا، محبت کرے گا پھر آپ ﷺ کی نسبت پا سکتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ کی جو ہے ناں مطلب کے ساتھ تعلق رکھ سکتے ہیں۔ ان تینوں، تینوں کے ساتھ سبحان اللہ! محبت ہے، ہونی چاہیے۔ تو ایک تو یہ والی بات ہے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ آپ ﷺ کا مقام کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا کیونکہ ہمارے شیخ فرمایا کرتے تھے، "ولی را ولی می شناسد" ولی ولی کو جانتا ہے، "نبی را نبی می شناسد" نبی نبی کو جانتا ہے، "خاتم النبیین را خدا می شناسد" خاتم النبیین کو خدا ہی جان سکتا ہے۔ تو آپ ﷺ کے مقام کو کوئی جان نہیں سکتا، ہاں جو قرآن نے بتا دیا، جو حدیث میں آگیا، جو صحابہ سے پتا چلا بس وہی ہے۔ ہم اس کے بعد جو ہے ناں کچھ اور نہیں کہتے، وہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے درجات اور بھی بڑھائیں اور آپ ﷺ کی محبت ہمیں سچی نصیب فرما دے اور آپ ﷺ کے نقشِ قدم پر دل و جان سے ہم سب کو چلائے اور اس سب کو اللہ پاک قبول فرمائے اور ہمیں کامیاب ترین لوگوں میں شامل فرما دے۔ ان لوگوں میں جن کو اللہ فرماتے ہیں، "یہ میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا" اور ان لوگوں میں شامل فرما جن کو دیکھ کر مطلب اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس میں شامل فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۔
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ
۔ (الأحزاب: 21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘
۔ (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
۔ (الأحزاب: 56) ترجمہ: ’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘
۔ (الأحزاب: 56)
۔ (المائدہ: 3) ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا۔‘‘
۔ (البقرۃ: 208) ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
۔ (العنکبوت: 69) ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے۔‘‘
۔ (الأحزاب: 21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘
۔ (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
۔ (الأحزاب: 21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘
۔ (مصنف عبدالرزاق، رقم الحدیث: 20231)
۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 6257)